مساجد اللّٰہ کا گھر ہیں۔ ان کو تعمیر و آباد کرنا اللّٰہ کا حکم ہے اور انبیا علیہم السلام کی پیاری سنت۔ مساجد دینُ اللّٰہ کا شعار ہیں۔ اسلامی معاشرے میں ان کے منبر و محراب اہلِ ایمان کا محور اور یہ خود اہلِ اسلام کا مرکز ہیں۔ رسولِ محبوب صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی کا کثیروقت مساجد میں گزارا اور مساجد کو پوری دنیا میں بہترین جگہیں قرار فرمایا۔ مسجد ہی آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی جائے عبادت تھی اور امورِ سیاست و سفارت بھی آپ یہیں سے دیکھا کرتے۔ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے مسجد ہی میں تعلیم کے لیے درس گاہ اور تزکیے کے لیے مرکز قائم فرمایااور یہی مسجد جنگی حکمتِ عملی طے کرنے کا عسکری ہیڈ کوارٹر ہوتی اور جنگی تربیت گا ہ بھی۔ افضل الخلائق صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ترپّن برس کی عمر میں مسجد کی تعمیر کے لیے اینٹ، پتھر اور گارا، اپنے مبارک و مطہر ہاتھوں سے ڈھویا۔ آپ کے بعد آپ کے خلفا نے تعظیم و تعمیرِ مساجد کی اسی روایتِ دینی کو قائم رکھا۔ بعداً بغداد، دمشق، قاہرہ، قرطبہ، غرناطہ و استنبول سے لے کر دہلی، لاہور، کابل، سری نگر، ڈھاکہ، حیدر آباد(سندھ اور ریاستِ دکّن دونوں)، آگرہ، ایودھیا اور گیان وپی تک مسلمان سلاطین نے عالی شان مساجد قائم کیں، اسی لیے کہ یہ اللّٰہ کا گھر ہیں، جو ہر شے سے بے نیاز ہے، لیکن اپنا گھر بنانے اور آباد کرنے والوں سے بے انتہا محبت کرتا ہے۔ ان کو آباد کرنے والوں کی شان بیان کرتے ہوئے اس نے خود اپنی پاک کتاب میں فرمایا:
إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللهِ مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلاَةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلاَّ اللهَ (سورۃ التوبۃ: ۱۸)
’’یقیناً اللّٰہ کی مسجدوں کو تو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللّٰہ اور یوم آخرت پر ایمان لائے ہوں اور نماز قائم کریں اور زکاۃ ادا کریں اور اللّٰہ کے سوا کسی سے نہ ڈریں۔‘‘
اور جو ان مساجد کی خرابی چاہیں اور ان سے دشمنی رکھیں تو ان کے بارے میں فرمایا:
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَى فِي خَرَابِهَا أُوْلَـئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَن يَدْخُلُوهَا إِلاَّ خَآئِفِينَ لهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ (سورۃ البقرۃ: ۱۱۴)
’’ اور اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللّٰہ کی مسجدوں پر اس بات کی بندش لگا دے کہ ان میں اللّٰہ کا نام لیا جائے، اور ان کی تخریب کے درپے ہو؟ ایسے لوگوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان (مسجدوں) میں داخل ہوں مگر ڈرتے ہوئے۔ ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور انہی کو آخرت میں زبردست عذاب ہوگا۔ ‘‘
کیسا افسوس کا مقام ہے کہ دسمبر ۱۹۹۲ء میں بھگوا دہشت گردوں نے بابری مسجد پر ہلہ بولا اور اس کو شہید کر دیا، بعد میں بھارت کی سپریم کورٹ نے اس اقدام کو ’جائز‘ قرار دیا اور آج وہاں رام مندر قائم ہے۔ شہادتِ بابری مسجد کے تقریباً تین دہائیوں بعد کراچی میں طارق روڈ پر قائم مدینہ مسجد کو شہید کر دینے کا آرڈر اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ملک کی سپریم کورٹ جاری کرتی ہے کہ یہاں پارک بنایا جائے گا۔ احتجاج کیا جاتا ہے اور پاکستانی حکومت یہ استدعا کرتی ہے کہ ’مذہبی انتشار پھیلنے کا خطرہ ہے‘، لہٰذا اس حکم کو واپس لیا جائے۔ جواباً سپریم کورٹ اور اس کے ’فاضل‘ جج کہتے ہیں کہ اگر مسجد کو گرا کر پارک بنانے کا حکم واپس لے لیے گیا تو ’تجاوزات‘ کے خلاف جاری مہم کا کیا بنے گا اور آئین کی بالا دستی کہاں جائے گی؟
بھارت نے اپنے وقتِ پیدائش طے کیا تھا کہ وہاں کا آئین و نظام سیکولر ہو گا اور بتدریج وہ ’ہندو‘ ہو گیا اور آج وہاں کا سارا نظام، حکام و سیاست دانوں سے عسکریوں اور عدالتوں کے ججوں تک ہندتوا کا پرتو ہے یا پرچارک۔ پاکستان کو مملکتِ خداداد کہا جاتا ہے، یہ خداداد اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ، بلکہ یوں کہیے کہ کہ جب اسلام کا نام لیا گیا تو خدا نے یہ داد (عطا) کیا۔ یہاں کا نظام اسلامی ہونا تھا، لیکن یہاں اسلام کبھی ایک ثانیے کو بھی نافذ نہ ہو سکا۔ یہاں کبھی مارشل لاؤں کا راج رہا اور کبھی لولی لنگڑی مغرب سے درآمد کردہ جمہوریت کی سلطانی ۔ یہاں بہت سے قدیم آئینوں کو ملا جلا کر ایک نیا آئین تیار کیا گیا، اس کو اسلامی دکھانے کے لیے اس وقت کے مغرب نواز حکمرانوں نے اس آئین میں کچھ اسلامی شقوں کا اضافہ اہلِ دین کے خوف سے اپنی کرسی بچانے کی خاطر کر دیا۔ پھر کبھی شوریٰ کریسی لائی گئی، کبھی حدود کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا، کبھی سود کو چال بازی سےجائز قرار دیا اور اسی نظام نے مغرب کی فرمائش پر ’زنا بِل‘ المعروف ’حقوقِ نسواں بِل‘ پاس کیا اور مقابل میں ’حسبہ بِل‘ کو ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیا۔یہاں کے حکمران ہمیشہ مغرب نواز اور امریکہ پرست رہے،چاہے وہ وردی والے ہوں یا بے وردی، سب کا قبلہ و کعبہ وائٹ ہاؤس رہا اور ہے۔ ماضی میں پھر بھی بعض حکمران ایسے رہے جنہوں نے اور کچھ نہیں تو جدید پیمانوں پر معیشت کے پہیے کو کچھ حرکت دی، حالیہ حکمرانوں نے آئی ایم ایف سے اولاً اعلانیہ ثم خفیہ معاہدے کر کے نجانے کتنے اہم وسائل بھی گروی رکھوا دیے۔ نتیجہ وہ ہے جو ایک قابلِ قدر عالمِ دین نے فرمایا تھا ’اپنی جمہوریت…… یہ تو دنیا نہ آخرت!‘۔
آج مملکت خداداد کا آئین ایک ایسا متنجن ہے جس کی شناخت نہ مغربی ہے نہ مشرقی۔ اسلامی نظریاتی کونسل جس نے بتدریج آئین کی غیر اسلامی شقوں کو نکالنے اور اسلامی شقوں کو لانے کی سفارشات دینی تھیں، اس کی حیثیت ایک فلم ’زندگی تماشا‘ نے ظاہر کر دی۔ فیڈرل شریعت کورٹ حقیقتاً اسی سپریم کورٹ کے ماتحت ہے جو کرپٹ و لادین حکمرانوں کو این آر او دینے میں سہولت کار بنتی ہے، فوجی آمروں سے حلف لیتی ہے، عاشقِ رسول ممتاز قادریؒ کو تختۂ دار پر لٹکاتی ہے پھر کلمۂ شہادت لکھ کر آسیہ ملعونہ کو رہا کر دینے کا فیصلہ جاری کرتی ہے، ملک کے مائی باپ افواج کے اداروں کے ٹاوروں کو ریگولرائز کرتی اور لا الٰہ الا اللّٰہ اور محمد رسول اللّٰہ کا کلمہ پڑھنے والوں کی مسجدوں کو ’ایک ہفتے کے اندر اندر مسمار‘ کر کے وہاں پارک تعمیر کرنے کا حکم جاری کرتی ہے!
اگر آج کے ہندوستان کو وہاں کے حکمران بشمول عدلیہ و فوج (اور ان کا ڈھولچی میڈیا) ’ہندو راشٹر‘ بنا رہے ہیں تو مملکتِ خداداد کے جملہ حکمران اس کو ایک سیکولر ریاست بنانے کے مشن پر گامزن ہیں۔ وہاں ہندتوا سپریم ہے تو یہاں بقول سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ’آئین کی بالادستی‘ سپریم ہے۔ دعویٰ دونوں کو ’نام نہاد‘جمہوریت کا ہے لیکن نافذ نظام گھور اندھیرے والی چنگیزیت ہے اور وہ زمانہ لد گیا جب اقبالؒ نے کہا تھا ’چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر‘ کہ مغرب میں بھی بوڑھی جمہوریت بی کا حسن اب دنیا کے سامنے ظاہر و باہر ہے۔
آج سے ٹھیک ایک سال یا کچھ زائد قبل FATF کے ایما و شرائط پر ’اوقافِ مساجد و مدارس‘ کے خلاف قانون سازی کر کے جو انہیں ’منی لانڈرنگ‘ سے مطعون و متہم کیا گیا تھا تو تب بھی ہم نے اسی مجلّے کے صفحاتِ اداریہ میں ایک دہائی دی تھی اور مشورہ پیش کیا تھا۔ ایف اے ٹی ایف کے ایما بلکہ حکم پر وہ کالا قانون آج بھی لاگو ہے اور ان قوانین کو پاس کرنے والوں کے مغربی آقاؤں کا عمل بھی دیکھیے کہ وہ ان سے راضی نہ ہوئے اور یہ وردی و بےوردی حکمران آج بھی ’گرے‘ لسٹ میں ہی گرے پڑے ہیں۔ منی لانڈرنگ کے بعد مساجد کو غیر قانونی قرار دے کر گرانا اب آئین کی بالادستی کہلائے گا؟! قارئینِ ذی قدر کو بخوبی یاد ہو گا کہ مساجد کو کہیں آمرِ زمانہ جنرل پرویز مشرف کے ’رُوٹ‘ کے دائیں بائیں ہونے کے سبب اور کہیں یہی غیر قانونی کی تہمت لگا کر شہرِ اسلام آباد میں سنہ ۲۰۰۶ء میں گرانے کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا اور نتیجتاً دو درجن کے قریب مساجد شہید کی گئیں۔ پھر مساجد کے دفاع و ناموس کی خاطر جامعہ حفصہ کی طالبات اٹھی تھیں اور انہوں نے اس بات کو گوارا جانا تھا کہ اگر مساجد شہید کی جاتی ہیں تو ہمارا لہو بھی اسی مٹی میں مل جائے، مساجد ہوں گی تو ہم بھی جئیں گی، مساجد نہیں تو جان قربان۔اب طالبات نے مساجد کے دفاع کی خاطر سرکاری لائبریری پر قبضہ کیا تو پوری دنیا میں ایک ہنگامہ مچ گیا اور ریاست کی رِٹ چیلنج ہو گئی۔ اس وقت شہیدِ اسلام مولانا عبد الرشید غازی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے کہا تھا کہ ’مسئلہ مساجد کا ہے اور مساجد مقدس ہیں جبکہ لائبریری مقدس نہیں ہے!‘۔1
ممکن ہے کہ اہلِ دین کی کوششوں سے سپریم کورٹ اپنا یہ فیصلہ واپس لینے پر مجبور ہو جائے یا صدرِ پاکستان کےا ختیار ذریعہ اس فیصلے کو کالعدم قرار دلوا دیا جائے۔ لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ مدینہ مسجد کو گرائے جانے کا فیصلہ اس نظام کے ایک جزو نے صادر کیا ہے جو نظامِ مدینہ کا مخالف بلکہ ضد پر کھڑا ہے اور جس کا ہدف دراصل نظامِ مدینہ کو قائم نہ ہونے دیناہے۔ ایسے میں ہمیں دو بنیادی کام کرنے کی ضرورت ہے:
اول، جس طرح اس وقت اہلِ دین مسالک اور جماعتوں اور تنظیموں کے مصالح سے بالا ہو کر مدینہ مسجد کی حفاظت کی خاطر کمر بستہ ہیں تو اسی موقف پر بعون اللّٰہ استقامت سے رہیں اور مسجد گرانے کو لپکنے والے ہر ہاتھ کو اسی قوت سے روکیں جس قوت سے مخالفین کا ہاتھ آگے بڑھے ۔
دوم، مدینہ مسجد کو گرانے اور پارک بنانے کی آڑ میں نظامِ مدینہ ڈھانے والے نظام کو سمجھیں ۔ پھر سمجھ کر اس نظام کے خلاف حکمِ شریعتِ آقائے مدینہ (علیہ ألف صلاۃ وسلام) کی روشنی میں، اپنی استطاعت کےمطابق نظامِ باطل کو گرانے اور نظامِ اسلامی یعنی شریعتِ محمدی (علیٰ صاحبہا ألف صلاۃ وسلام)کو اپنی ذاتی و اجتماعی زندگی میں نافذ کرنے کی خاطر کمر بستہ ہو جائیں۔
ان شاء اللّٰہ، اگر ہم ان دو کاموں پر عمل شروع کر دیں تو اسی مبارک محنت کا راستہ پاکستان کو اسلامی مملکت بنانے، کشمیر کو دارالاسلام بنانے، بابری مسجد کے دوبارہ تعمیر ہونے، ارضِ حرمین شریفین کے صلیبی افواج اور شراب و بدکاری کے اڈوں سے پاک ہونے اور ہماری محبوب مسجدِ اقصیٰ کی پنجۂ یہود سے آزادی کی طرف لے جائے گا۔ یہی راستہ پھر اس شاہراہ سے جڑتا ہے جہاں ساقیٔ کوثر، حوضِ کوثر پر باذن اللّٰہ اپنے پیاسے عاشقوں کو جامِ کوثر اپنے معطر و مطہر ہاتھوں سے پلائیں گے، صلی اللّٰہ وسلم علیٰ حبیبنا ونبیّنا وشفیعنا وقرۃ أعیننا!
ہیں جنتیں منتظر تمہاری، محاذ تم کو بلا رہا ہے
نشیبِ دنیا کے اے اسیرو! فراز تم کو بلا رہا ہے
سپردگی شرطِ بندگی ہے، یہاں پہ مرنا ہی زندگی ہے
عیاں ہوا اہلِ عشق پر جو، وہ راز تم کو بلا رہا ہے
صدائیں کرب و بلا کی گھا ٹی سے گھن گرج کی جو آرہی ہیں
یہ نغمۂ حورِ جنتّاں ہے، یہ ساز تم کو بلا رہا ہے
اذان ہی دے کے سو نہ جانا، ابھی فلسطین تک ہے جانا
تمہارے مالک کا عفوِ بندہ نواز تم کو بلا رہا ہے
فسونِ باطل کو اب مٹاؤ، عمل کا تازہ جہاں بساؤ
پرے اُفق سے، کوئی بغرضِ نیاز تم کو بلا رہا ہے
دلیل کیا مجھ سے مانگتے ہو، نبی ؐ کی اُ مّت کا حال دیکھو
قدم گھروں سے نکالنے کا جواز تم کو بلا رہا ہے
اللھم وفقنا كما تحب و ترضى وخذ من دمائنا حتى ترضى .اللھم زدنا ولا تنقصنا وأکرمنا ولا تھنّا وأعطنا ولا تحرمنا وآثرنا ولا تؤثر علینا وأرضنا وارض عنا. اللھم إنّا نسئلك الثّبات في الأمر ونسئلك عزیمۃ الرشد ونسئلك شكر نعمتك وحسن عبادتك. اللھم انصر من نصر دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم واجعلنا منھم واخذل من خذل دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا تجعلنا منھم، آمین یا ربّ العالمین!
٭٭٭٭٭
1 ان طالبات کا احتجاجاً سرکاری لائبریری پر مساجد کے دفاع میں قبضہ کرنا مصلحتاً کس قدر مناسب تھا پر آج اتنے برس گزر جانے کے بعد بات کی جاسکتی ہے ، لیکن اس وقت ان طالباتِ علمِ دین نے اپنی حمیت و غیرتِ اسلام میں جو کیا تو ان کی حمیت و غیرتِ دینی ایسی تھی جو مَردوں میں بھی نہیں پائی جاتی ۔ پھر مصلحت کو ایک طرف رکھیے، ایک فعل ہو چکا تو وہی مولانا عبدلرشید غازی والی بات کہ’ لائبریری مقدس نہیں ہے مساجد مقدس ہیں‘ ، لائبریری پر قبضہ احتجاجاً تھا جبکہ مساجد عمداً و سازشاً گرائی گئیں تھیں۔ اور مولانا غازی شہید ہی نے کہا تھا کہ ’یہ طالبات ہیں، سٹوڈنٹس ہیں ، قائدِ اعظم یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس نے امریکی سفارت خانہ اپنے مطالبات کی خاطر دورانِ احتجاج جلا دیا تھا ،تو یہ بھی سٹوڈنٹس ہیں انہوں نے اپنے احتجاج کے لیے ایک طریقہ اپنایا ہے تو ان کا بھی تو مطالبہ سنا جائے اور مطالبہ بھی یہ اپنی خاطر نہیں کر رہیں بلکہ مساجد کے دفاع کی خاطر کر رہی ہیں (جو سب اہلِ اسلام کا مسئلہ ہے)‘۔ پھر یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ بعداً انہی طالباتِ عالی ہمت و حمیت کو مساجد کے دفاع کے ’جرم‘ میں سفید فاسفورس سے جلا کر شہید کر دیا گیا تھا کہ مساجد گرانے سے کچھ فرق نہیں پڑتا لیکن سرکاری لائبریری پر احتجاجاً قبضہ کہ وہ ’دفاعِ مساجد‘ کی خاطر تھا تو اس سے رِٹ چیلنج ہو گئی، باقی ڈی چوک سے پشاور موڑ دھرنوں کی صورت میں قبضہ چونکہ ’جمہوریت‘ اور ’ووٹ کو عزت دو‘ کی خاطر تھا توہ بہر کیف روا ہے!!!