بھارتی مسلمانوں کے سروں پر رقصاں موت

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت… بھارت، ایسی جمہوریت جس کے نظام میں کبھی فوج یا اسٹیبلشمنٹ نے مداخلت نہیں کی، جس کا جمہوری پہیہ گذشتہ پچھتر سال سے مسلسل رواں ہے، وہ آج ایک ایسے مقام پر آ کھڑی ہے کہ اس وقت پوری دنیا چیخ رہی ہے کہ یہ جمہوریت اپنے اندر بسنے والی پندرہ فیصد اقلیت، یعنی بائیس کروڑ مسلمانوں کا قتلِ عام کرنے اور انہیں صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لیے مکمل طور پر تیار اور کمربستہ ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ نسل کشی یا گروہ کا قتلِ عام جسے عمومی انگریزی محاورے میں جینوسائڈ (Genocide) کہتے ہی یہ ظلم بھی انسانی تہذیب کو جدید جمہوری، سیکولر اور لبرل دور کا تحفہ ہے۔

گزشتہ صدی میں جس قوم کی نسل کشی نے بہت شہرت حاصل کی وہ جرمنی میں جمہوری الیکشن سے ووٹ لے کر جیتنے والے ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں کا گروہی قتل عام تھا۔ اس شاندار قتلِ عام(Land Slide) کے دوران، ایک بارہ سالہ یہودی لڑکی ریواکا لپزک (Rywka Lipszyc) نے ایک سو بارہ صفحات پر مشتمل ڈائری تحریر کی، جسے روس کی کمیونسٹ افواج نے جون ۱۹۴۵ء میں ایک یہودی گھیٹو (Ghetto) سے برآمد کیا۔ اس گھیٹو بلکہ اذیت دے کر مارنیوالے کیمپ کا نام آشوٹز برکینو (Auschwitz Birkenau) تھا۔ یہ ڈائری ایک روسی لیڈی ڈاکٹر زینیڈا بریزوسکا (Zinaida Berezovskaya) کے ہاتھ آئی اور وہ اسے لے کر روس چلی گئی، جہاں اس نے اسے سنبھال کر رکھا۔ اس کے مرنے کے بعد یہ ڈائری اس کے بیٹے کے پاس آئی، جس نے اسے جنگ عظیم دوئم کے دیگر نوادرات کے ساتھ محفوظ رکھا۔ وہ بھی ۱۹۹۲ء میں فوت ہو گیا۔ کئی سالوں بعد اس کی بیٹی امریکہ سے روس اپنے خاندان سے ملنے آئی تو اس نے اپنے باپ کے ترکے میں اس ڈائری کو دیکھا اور وہ اسے پنے ساتھ امریکہ لے گئی۔

ان ۱۱۲ صفحات پر مشتمل ڈائری میں اس بچی نے ۳ اکتوبر ۱۹۴۳ء سے لے کر ۱۲ اکتوبر ۱۹۴۲ء تک کے چھ ماہ کے عرصے کے واقعات اور احساسات درج کیے ہیں۔ وہ چار بہن بھائی تھے۔ ۲اکتوبر ۱۹۴۲ء کو اس کے باپ کو سامنے گلی میں جرمن لوگوں نے مار مار کر قتل کر دیا تھا۔ باپ کے بعد چاروں بہن بھائیوں کو ان کی ماں نے پالا، جو ایک سال بعد بھوک اور بیماری کی وجہ سے مر گئی۔ وہ اور اس کے بہن بھائی جولائی ۱۹۴۵ء میں آزاد ہوئے تو وہ اس قدر لاغر اور بیمار تھے کہ انہیں ہسپتال منتقل کرنا پڑا۔یہ ڈائری ۲۰۱۴ء میں چھَپ کر سامنے آئی تو اس کے مندرجات کی بنیاد پر جارج میسن (George Mason) یونیورسٹی میں ’’قتلِ عام کی نگرانی‘‘ (Genocide Watch) کے ادارے کے صدر اور تحقیقی پروفیسر گیریگوری سٹینٹن (Gregory Stanton) نے نسل کشی اور قتلِ عام کے دس مراحل(Stages) ترتیب دیے اور ان کی بنیاد پر دنیا بھر میں ہونے والی تمام نسل کشیوں کا جائزہ لیا۔ پروفیسر سٹینٹن نے نسل کشی کی وارداتوں کو جن دس مراحل میں تقسیم کیا ہے، ان کے حوالے سے آج دنیا بھر کے ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ بھارت میں اس کے پہلے آٹھ مراحل پورے ہو چکے ہیں اور اب صرف دو مراحل باقی رہ گئے ہیں اور وہ ہیں، مکمل قتل عام اور ریاستی سطح پر اس قتل عام کا انکار۔

  1. پہلا مرحلہ: قسم بندی یا تقسیم (Classification)

پروفیسر سٹینٹن کے مطابق، بنائے گئے مراحل میں پہلا مرحلا قسم بندی یا تقسیم (Classification) ہے۔ یعنی کسی قوم کو اس کے رنگ، نسل اور زبان کی وجہ سے علیحدہ تصور کیا جائے۔ لیکن بھارتی مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر ایک مخصوص طریقے سے علیحدہ کیا گیا، اور اس کے لیے آخری ہتھیار یعنی ان سے مستقل شہریت NRC کے ثبوت طلب کرنے کو استعمال کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھارت کے ۲۲کروڑ مسلمان وہاں دوسرے درجے کے شہری تصور ہوتے ہیں۔

  1. دوسرا مرحلہ: علامتی شناخت (Symbolization)

یعنی جس قوم کی نسل کشی مقصود ہو، اس کے لباس اور حلیے سے انہیں شناخت کیا جائے، جیسے بھارت میں مسلمانوں کو داڑھی، ٹوپی اور حجاب سے اور پھر ان کے ناموں کی وجہ سے انہیں نفرت کی علامت بنایا گیا۔ نریندر مودی اپنے جلسوں میں کہتا تھا، ’’ہم اپنے دشمنوں کو ان کے کپڑوں سے پہچانتے ہیں‘‘۔ یہ وہ مرحلہ تھا کہ جس میں مسلمان عورتیں گھروں میں کام کرنے کے لیے ہندوؤں کے نام رکھتی رہیں اور مسلمان مرد اپنی وضع قطع ہندوؤں جیسی بناتے تھے تاکہ آسانی سے کاروبار کر سکیں۔

  1. تیسرا مرحلہ: امتیازی سلوک (Discrimination)

اس مرحلے کے تحت بھارت میں مسلمانوں کو نوکریوں سے نکالا گیا، ان سے تجارت اور کاروبار ختم کیا گیا اور انہیں مکمل طور پر ریاستی اور حکومتی سرپرستی سے دور کر دیا گیا۔ ان تینوں مراحل کے بعد ایسے مرحلے شروع ہوتے ہیں جہاں سے عملی طور پر نسل کشی کا آغاز ہوتا ہے۔

  1. چوتھا مرحلہ: غیر انسانی سلوک (Dehumanization)

یعنی مسلمانوں کے وجود کو ناپاک جانوروں کے وجود سے تشبیہ دی جانے لگی۔ انہیں ناپاک یعنی ملیچھ تو پہلے سے کہا جا رہا تھا، ان کے وجود سے ناپاکی کا تصور اس حد تک جوڑ دیا گیا کہ اگر وہ کسی ہندو کے گھر میں قدم رکھ دیں تو وہ اپنے گھر کو گنگا جَل سے دھوئے گا۔

  1. پانچواں مرحلہ: تنظیم بندی (Organization)

یعنی نسل کشی کے لیے ایک مسلح گروہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ بھارت کا معاملہ تو ایسا ہے کہ اس طرح کا گروہ، آر ایس ایس کی صورت میں ۱۹۲۵ء میں ہی منظم کر لیا گیا تھا اور اس کے زیر سایہ بجرنگ دَل اور وِشوَ ہندو پریشد مسلح طور پر اب اس قدر منظم ہیں کہ پورے بھارت میں آباد مسلمانوں کے خلاف مسلسل کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔

  1. چھٹا مرحلہ: معاشرتی تقسیم (Polarization)

اس مرحلے میں بھی نفرت انگیز پروپیگنڈے سے مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت کا ماحول، گزشتہ پچیس سالوں سے اس طرح کا بنا دیا گیا ہے کہ کوئی غیر متعصب ہندو بھی مسلمان کے حق میں کھل کر بات نہیں کر سکتا۔

  1. ساتواں مرحلہ: تیاری (Preparation)

اس مرحلے کا واضح اظہار اس سال ہری دوار کے میلے میں اجتماعی سوگند (قسم) سے ہوا، جس میں مسلمانوں کو قتل کرنے پر لاکھوں ہندوؤں سے قسم لی گئی اور پھر ان قسموں کا سلسلہ پورے بھارت میں چل نکلا۔

  1. آٹھواں مرحلہ: ایذا رسانی (Persecution)

یہ مرحلہ بھی کئی سالوں سے جاری ہے اور بھارت کے مسلمانوں کو معاشی طور پر ایسے بدترین حالات سے مجبور کیا جا چکا ہے اور ان میں خوف اس قدر پھیلا دیا گیا کہ وہ اپنے مخصوص علاقوں تک ہی محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا گھیٹو (Ghetto) احمد آباد سے تھوڑی دور ’’جوہاپور‘‘ کے نام پر قائم ہے جہاں سات لاکھ مسلمان اسی طرح محبوس اور مقید ہیں جیسے آشوٹز برکینو کے اس کیمپ میں یہودی قید تھے جہاں رہتے ہوئے ریواکا لپزک نے ڈائری لکھی تھی۔

دنیا بھر کے ماہرین متفق ہیں کہ اب بھارت میں مسلمانوں کے قتلِ عام میں صرف آخری دو مراحل باقی ہیں، یعنی ریاستی سرپرستی میں اجتماعی قتلِ عام اور پھر اس کا ریاستی سطح پر انکار۔

مسلمانوں کا گزشتہ پچیس سالوں میں یہ تیسرا قتلِ عام ہو گا، پہلا بوسنیا اور دوسرا روہنگیا کا تھا۔ طریق کار وہی ہے جیسے پہلے دس لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو شہریت سے محروم کر دیا گیا تھا اور پھر یہ مظلوم مسلمان دنیا بھر میں آباد ایک ارب پچیس کروڑ مسلمانوں کے ملکوں کی سرحد پر در بدر ہوتے رہے لیکن کسی نے ان کے لیے اپنی سرحدیں نہیں کھولیں۔ روہنگیا کے انجام سے بھارت کا ہندو یہ جان چکا ہے کہ اگر اس نے بھارت میں موجود مسلمانوں کا قتلِ عام کیا تو اس وقت تیونس سے لے کر برونائی تک آباد مسلم اُمہ میں کوئی ان کی مدد کو نہیں آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس بے حس اُمت کا وہ مظلوم حصہ، یعنی بائیس کروڑ مسلمانوں کے سروں پر موت رقص کر رہی ہے۔

٭٭٭٭٭

Exit mobile version