اِک نظر اِدھر بھی | فروری 2022

طالبان کی قید میں اسلام قبول کرنے والے آسٹریلوی شہری جبرائیل عمر پھر افغانستان جانے کے خواہش مند

ساڑھے تین سال تک طالبان کی قید میں رہنے والے اور دورانِ قید اسلام قبول کرنے والے آسٹریلوی شہری ’ٹموتھی ویکس‘ جن کا اسلامی نام ’جبرائیل عمر‘ ہے، اب ایک بار پھر افغانستان جانے کے خواہش مند ہیں۔

جبرائیل عمر (ٹموتھی ویکس) کو اگست ۲۰۱۶ء میں طالبان مجاہدین نے کابل میں امریکی یونیورسٹی کے مرکزی دورازے سے گرفتار کیا تھا اور ساڑھے تین سال تک مجاہدین کی قید میں رہنے کے بعد ان کی رہائی سنہ ۲۰۱۹ء میں انس حقانی اور حاجی مَلی خان (حالاً والی صوبۂ لوگر)سمیت تین اہم ذمہ داران کے بدلے ہوئی تھی۔

وہ کابل کی امریکی یونیورسٹی میں انگریزی کے استاد تھے۔ انہیں افغان پولیس افسران کو انگریزی سکھانے کے لیے ایک نصاب تیار کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔

جبرائیل عمر جولائی ۲۰۱۶ء کو افغانستان پہنچے تھے اور ابھی انہوں نے اس نصاب کی تیاری پر کام شروع بھی نہیں کیا تھا کہ انہیں اگلے ہی ماہ نو اگست کو طالبان نے ان کے ایک اور ساتھی کیون کنگ کے ہمراہ یونیورسٹی کے مرکزی دروازے سے گرفتار کر لیا۔

ان دونوں کی بازیابی کے لیے امریکی فورسز نے افغانستان کے مختلف علاقوں میں متعدد کارروائیاں کیں۔ ایک دو بار تو ایسا بھی ہوا کہ امریکی فوج کے کمانڈوز اُن جگہوں تک بھی پہنچ گئے جہاں انہیں قید رکھا گیا تھا، ان جگہوں میں افغانستان کے شہر غزنی میں اُس گھر کے احاطے تک پہنچنا بھی شامل ہے جہاں طالبان اور امریکی فوجیوں کے مابین بازیابی کے مشن کے دوران شدید جھڑپ بھی ہوئی تھی۔ تاہم امریکی فورسز قیدیوں کو بازیاب کروانے میں ناکام رہی کیونکہ ہر دفعہ آپریشن سے کچھ روز قبل یا عین موقع پر قیدیوں کو نئی جگہ منتقل کر دیا جاتا تھا۔

ایک خصوصی تحریری انٹرویو میں اپنی زندگی کے ان ساڑھے تین برسوں، اس سے قبل اور بعد کی زندگی کے بارے میں بتاتے ہوئے جبرائیل عمر کا کہنا تھا کہ اُن کی زندگی میں اس وقت تبدیلی آنا شروع ہوئی جب وہ طالبان کی قید میں ایک ماہ گزار چکے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’’میری خوش قسمتی ہے کہ قید کی اس برائی میں مجھے اچھائی کی ایک کرن نظر آئی ہے، اب میرے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کیونکہ میں سو فیصد پُرعزم ہوں کہ اپنے افغان بہن بھائیوں کی مدد کروں۔ مجھے اب طالبان کے ہاتھوں گرفتار ہونے پر کوئی افسوس نہیں کیونکہ اگر یہ نہ ہوا ہوتا تو میں اسلام کو ایک حقیقت کے طور پر نہ جان پاتا۔ اب مجھے افغانستان، وہاں کی ثقافت اور لوگوں سے محبت ہے جو میرے اپنے ہیں اور میں ان کے لیے کام کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’اب جب میں آزاد ہو گیا ہوں تو میرا ارادہ ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت کے ساتھ مل کر بچوں کی تعلیم کے لیے کام کروں۔ میں اپنے آپ کو بچوں کی تعلیم کے لیے وقف کر چکا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ میں ایک فلاحی ادارے کے قیام کے ذریعے افغانستان میں اس مقصد کے لیے بہت زیادہ کام کر سکتا ہوں۔‘‘

جبرائیل عمر نے جن طالبان رہنماؤں، انس حقانی اور ھاجی مَلی خان کے بدلے رہائی پائی، ان سے ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’’ان سے میری ملاقات اس وقت ہوئی جب مجھے رہائی کے بعد دوحہ میں امریکہ، طالبان مذاکرات میں لے جایا گیا۔ میں خود بھی دوران حراست قرآن کی تفسیر اور بعض دیگر اسلامی کتابیں پڑھنے کے بعد ٹموتھی ویکس سے جبرائیل عمر بن چکا تھا۔‘‘

جبرائیل عمر بتاتے ہیں کہ دورانِ قید انہیں مطالعے کا شوق ہوا۔ ’’میں نے طالبان سے کتابیں مانگیں تو انہوں نے کچھ کتابیں اور انگریزی زبان میں قرآن کی تفسیر لا کر دی۔ یہ کتابیں اور قرآن پڑھنے کے بعد میں آہستہ آہستہ اسلام کی طرف راغب ہونے لگا۔ آخر کار میں نے پانچ مئی ۲۰۱۸ء کو اسلام قبول کر لیا اور وضو اور نماز کی مشق شروع کر دی۔‘‘

جبرائیل عمر افغانستان میں طالبان کی قید کے دوران اسلام قبول کرنے والے دوسرے فرد ہیں۔ ان سے پہلے برطانوی خاتون صحافی مریم ریڈلی (سابقہ ایوان ریڈلی) بھی ایسا کر چکی ہیں اور اسلام کی مبلغہ کے طور پر کام کر رہی ہیں۔

جبرائیل عمر کہتے ہیں کہ مجھے اکثر محسوس ہوتا ہے کہ اسلام کے خلاف جنگ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

’’میں ایسا افغانستان کے تناظر میں نہیں بلکہ ایک نومسلم کے طور پر سمجھتا ہوں۔ میں اپنے ملک آسٹریلیا میں پہنچنے والی اذیت کی بنیاد پر ایسا سمجھتا ہوں جہاں پر گلیوں میں مجھ پر تھوکا گیا، مجھے کتا کہا گیا یہاں تک کہ ایک سابق آسٹریلین فوجی نے نماز کے لیے پہنی جانے والی ٹوپی سر پر رکھنے پر مجھ پر حملہ تک کیا۔ اور یہ سب ایک ایسے ملک میں ہوتا رہا جہاں پر کسی کے ساتھ امتیاز برتنا خلاف قانون ہے۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ بدقسمتی سے مغربی دنیا اسلاموفوبیا کا شکار ہے۔

جبرائیل عمر بتاتے ہیں کہ ساڑھے تین برس کی قید کے بعد جب وہ گھر واپس لوٹے اور خاندان کے افراد کو جب یہ علم ہوا کہ میں تو اپنے ’دشمن‘ یعنی طالبان کی افغانستان میں حکومت امارت اسلامی کی حمایت کرتا ہوں تو ان کے لیے یہ بات تسلیم کرنا بہت مشکل ہو رہا تھا۔

’’بہت سے لوگ مجھے طعنے دیتے تھے کہ میں سٹاک ہوم سنڈروم نامی بیماری میں مبتلا ہو چکا ہوں۔‘‘

واضح رہے کہ سٹاک ہوم سنڈروم ایک ایسی بیماری ہے جس کے شکار لوگ جب خود کو اغواکاروں سے آزاد کرانے کی امید کھو بیٹھتے ہیں تو ان میں سے چند ایک کا جسمانی اور ذہنی اذیت سے بچانے والا نفسیاتی دفاعی نظام لاشعوری طور پر اغوا کاروں کا حامی ہونے لگتا ہے۔ یوں زیادتی کا شکار زیادتی کرنے والے کا وکیل بن کے کھڑا ہو جاتا ہے۔ اور یہ مجاہدین کی قید میں مسلمان ہونے والے سب ہی لوگوں کے متعلق کہا جاتا ہے، لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر ایسا ’سنڈروم‘ موجود ہے تو گوانتانامو اور دیگر قید خانوں میں پڑے مسلمان مجاہدین اس ’سنڈروم‘ کا شکار کیوں نہیں ہوتے؟

جبرائیل عمر کہتے ہیں کہ ’’میرے بارے میں ایسی سوچ کا حقیقت سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں تھا۔‘‘

وہ بتاتے ہیں کہ وہ سٹاک ہوم سنڈروم کا شکار نہیں ہیں کیونکہ وہ اس حقیقت کو جان چکے ہیں کہ افغانستان کی طالبان حکومت اپنی پیش رو ہر حکومت سے بہتر ہے کیونکہ اس کے رہنما کسی قسم کی کرپشن میں ملوث نہیں۔

’’میرے اہل خانہ اور دوست میرے بارے میں پریشان تھے کیونکہ وہ سب مجھ سے محبت کرتے تھے، اب وہ سب میری حمایت کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ میرے والد نے بھی افغانستان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور وہ افغانستان میں میری واپسی کی ضرورت کو سمجھتے ہیں۔‘‘

آج کل جبرائیل عمر ایک کتاب پر کام کر رہے ہیں جس کا مقصد دنیا کو افغانستان خصوصاً پشتونوں کے بارے میں آگاہی دینا ہے۔

بھارت: کرناٹک میں اسکول و کالجز میں مسلمان طالبات کے اسکارف اور حجاب پہننے پر پابندی

بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک میں متعدد اسکول و کالجز کی جانب سے مسلمان طالبات کے اسکارف اور حجاب پہننے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ سرکاری اسکول و کالجز میں طالبات کو حجاب نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ حجاب کے ساتھ آنے والی طالبات کو تعلیمی اداروں میں داخلہ کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

اس پابندی کے ردعمل میں مسلمان عوام کی جانب سے احتجاج کیا گیا جس میں سینکڑوں طلبہ و طالبات نے شرکت کی اور مطالبہ کیا گیا کہ اس اسلام مخالف پابندی کو ختم کیا جائے۔

طالبات کی جانب سے شدید احتجاج کے باعث ایک اسکول نے طالبات کو حجاب کے ساتھ اسکول میں داخلہ کی اجازت دے دی لیکن ان باحجاب طالبات کو ایک الگ کلاس روم میں بٹھایا گیا اور انہیں پڑھانے کے لیے کوئی بھی استاد نہیں آیا۔

حکمراں جماعت بی جے پی (بھارتیا جنتا پارٹی) کے نمایاں ممبران اس پابندی کی حمایت اور دفاع کرتے نظر آرہے ہیں۔

دیگر مسلم اقلیتی ریاستوں سمیت ریاست کرناٹک میں بھی مودی کی ہندو قوم پرست حکومت کی جانب سے مسلسل مسلمانوں کے خلاف ظلم و جبر کے اقدامات میں تیزی دیکھنے میں آرہی ہے۔

بھارت: کرناٹک میں مسلم نوجوان سمیر کو آر ایس ایس کے غنڈوں نے بے دردی سے قتل کر دیا

کرناٹک میں مسلمانوں کے خلاف ماب لنچنگ کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ تازہ معاملہ کرناٹک کے ضلع گدگ کا ہے، جہاں آر ایس ایس کے ارکان نے ایک مسلم نوجوان سمیر کو بے دردی سے قتل کر دیا۔ سمیر اور اس کے دوست شمشیر پر سنگھ پریوار کے غنڈوں نے حملہ کیا۔ اسے اتنا مارا گیا کہ وہ کرناٹک انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (KIMS) ہسپتال میں دم توڑ گیا۔

سمیر ایک چھوٹے سےبریانی ریسٹورنٹ کا مالک تھا۔ سنگھ پریوار کے غنڈوں نے یہ قتل اس وقت انجام دیا جب آر ایس ایس نے قصبہ میں ایک احتجاجی مظاہرہ کیا جہاں مسلم مخالف نعرے لگائے گئے۔ ایک ویڈیو بھی سامنے آئی جس میں نرگنڈ تعلقہ(تحصیل) کے سابق سیکریٹری سنجونلا واڑے کو مسلم کمیونٹی کے خلاف تقریر کرتے ہوئے سنا گیا۔ اسی مظاہرے کے دوران مشتعل غنڈوں نے سمیر کو قتل کر دیا۔

بھارت: کلب ہاؤس کے آڈیو چیٹ روم میں مسلم خواتین کے متعلق ہتک آمیز گفتگو

آڈیو چیٹ کی ایپ ’کلب ہاؤس‘ پر مسلمان خواتین کے بارے میں غیر اخلاقی، ہتک آمیز اور پرتشدد نوعیت کی گفتگو سامنے آنے پر بھارت بھر میں مسلمان عوام غم و غصہ کا شکار ہیں۔

سوشل میڈیا پر کئی لوگوں نے اس قسم کی بات چیت کی ریکارڈنگ شیئر کی ہے اور اس پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ کلب ہاؤس کی بات چیت میں متعدد ہندو لڑکے اور لڑکیاں شریک ہیں اور وہ مسلمان خواتین کے بارے میں تضحیک آمیز انداز میں بات کر رہے ہیں۔

اس بات چیت میں مسلمان خواتین کے بارے میں غیر اخلاقی، ہتک آمیز اور جارحانہ نوعیت کی باتیں کی گئی ہیں۔ اس آڈیو میں شامل لڑکیاں بھی مسلمان خواتین کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کی بات چیت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔

دسمبر میں ’ بُلی بائی‘ نامی اوپن سورس ایپ پر بعض افراد نے انڈیا کی سو سے زیادہ مسلمان خواتین کی تصویریں شائع کی تھیں اور ان کو ہتک آمیز عنوان دیے گئے تھے۔ پولیس نے اس معاملے میں کم از کم پانچ نوجوانوں کو گرفتار کیا ہے، لیکن تاحال ان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔اس سے پہلے ’ سُلی ڈیلز‘ نامی اوپن سورس ایپ پر ۸۰ سے زیادہ مسلم خواتین کی تصاویر پوسٹ کی گئی تھیں اور انہیں آن لائن ’فروخت‘ کے لیے پیش کیا گیا تھا۔ جنوری کے شروع میں پولیس نے اس ایپ کے مبینہ ڈويلپر کو گرفتار کیا تھا۔

ان تمام معاملات کا حقیقی مقصد مسلم خواتین کو بدنام اور ان کی تضحیک کرنا تھا۔ ہندوؤں کی مسلمانوں سے نفرت اور بغض کا ایک روپ سوشل میڈیا پر بھی دکھائی دے رہا ہے۔ ان تمام واقعات کے پیچھے ’ہندُتوا‘ کا وہ نظریہ ہے جس نے ریاستی پشت پناہی میں بھارت بھر میں مسلمانوں کے خلاف ظلم و تشدد کا ایک سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔

٭٭٭٭٭

Exit mobile version