کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق……

اخبارات کی شہ سرخیوں میں مسلسل حکومتی کارناموں اور اپوزیشن کے گرما گرم تنقیدی بیانات کی دھوم مچی رہتی ہے۔ عوام سبھی کو سہہ، چکھ چکے ہیں۔ ایک رولر کوسٹر پر عوام بیٹھے بد ترین حالات کے تھپیڑے کھاتے، چیختے چلّاتے وقت گزارتے ہیں، بہتر دنوں کے وعدوں پر یہ کہتے ہوئے:

تیرے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے گر اعتبار ہوتا

ایک کھوکھلا نظام سر تا پا بدعنوانیوں سے گلا سڑا، جس پر تحریکِ انصاف نے بلند و بانگ دعووں سے اقتدار سنبھالا۔ قوم دودھ و شہد کی نہروں کی توقع لگا بیٹھی مگر:

طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی!

سوشل میڈیائی انجینئرنگ تھی ساری۔ گزشتہ ۷۴ سال سے جو کچھ ہوتا رہا، اسی کا جدید ہیرا پھیری ماڈل سوا تین سالوں میں کھُل کر سامنے آگیا۔ قلعی اُتر گئی۔ حکومت جھکولے کھا رہی تھی کہ تابوت میں ایک کیل اور ٹھونکا گیا، مری کے اذیت ناک سانحے سے۔

سنا تھا باصلاحیت، اعلیٰ تعلیم یافتگان کی یہ پارٹی ہے۔ انتظامی عدم صلاحیت کی انتہا اس سانحے میں دیکھی جا سکتی ہے۔ سیاحت کے چڑھے شوق نے بلا روک ٹوک دشوار پہاڑی راستوں پر برفباری کے موسم میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب گاڑیاں جانے دیں۔ جسے وزیر اطلاعات نے غربت میں کمی اور خوشحالی کا پیمانہ قرار دے کر حکومتی کامیابی کے ڈنکے بجائے۔ اور پھر لینے کے دینے پڑ گئے۔ وزیر صاحب جو چاند کی خبر لانے کی شہرت کے حامل ہیں، مری کے جغرافیے اور موسم سے کلیتاً بے بہرہ ثابت ہوئے۔

باوجودیکہ محکمہ موسمیات برفباری اور موسمی شدت کی تنبیہ جاری کر چکا تھا۔ ٹریفک کنٹرول کا نظام یکسر فیل تھا۔ جو حادثہ پیش آیا وہ ناگہانی نہ تھا۔ برفباری اس سے زیادہ پہلے بھی ہو چکی۔ مقامی آبادی فکرمند ہو کر نکل آئی مدد کو۔ جبکہ انتظامیہ، اس کی مدد کے ذمہ دار ادارے جو سب مری میں دفاتر، مراکز رکھتے ہیں، مگر غائب رہے۔ بائیس گھنٹے سڑکوں پر دھنسی، برف میں دبی گاڑیاں بے یارومددگار کسی ویرانے یا صحرا میں نہ تھیں کہ حکومت لاعلم رہتی۔ تیزرفتار مواصلاتی ذرائع، ہر ہاتھ میں کارفرما واٹس ایپ، سوشل میڈیا تک رسائی، مدد کی اپیلیں۔ کسی ایک گاڑی سے بھی پکار نہ سنی گئی؟ جبکہ عمران خان کے چہیتے سوشل میڈیا پر ہمہ وقت پہرہ دیتے، جھپٹنے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ مقامی لوگوں نے جو مدد فراہم کی، سو کی، مگر انہی عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والی سرکار کہیں موجود نہ تھی۔ یہ سانحہ نئے پاکستان کی حقیقت کا ایکسرے ہے۔

ہفتے کو جو کارکردگی لاشیں اٹھانے اور سڑکیں صاف کرنے، ریسٹ ہاؤس کھولنے میں دکھائی گئی، وہ جمعہ کے دن اور رات کہاں تھی؟ کسی سیانے، کسی ڈاکٹر نے گاڑیوں میں سونے، شیشے بند رکھ کر گاڑی کا ہیٹر چلانے پر کاربن مونو آکسائڈ کے خطرے میں پھنسے ہوؤں کو آگاہ نہ کیا؟ گویا آفت زدگان کے چہار جانب ایک سرکاری قبرستان تھا جس پر ہو کا عالم طاری تھا، پھر یکایک سوئے ہوئے سبھی جاگ اٹھے، جب ۲۳ جیتے جاگتے مدد کو پکارتے تھک ہار کر ہمیشہ کی نیند سو گئے! اتنی جانوں کی قربانی نے مری کامقدر کھلنے اور باقی برف زدہ علاقوں کی طرف حکومت کو متوجہ کرنے کا سامان کر دیا، لہذا دو سالوں سے مرمت طلب سڑکوں کی یکایک اب حکومت کو خبر ہو گئی۔ مری کو ضلع بنانے کا اعلان ہو گیا۔ برف ہٹانے کی مشینری کا ناکافی ہونا اور بروقت فراہمی ممکن نہ ہونا کھل گیا۔ نمک برف پر استعمال کرنے کی بجائے عوام کے زخموں پر چھڑکنے کے لیے سنبھال رکھا۔ حال یہ ہے کہ ملک کی آزاد کشمیر سے جاملنے والی مرکزی شاہراہ بند ہوجائے تو برف ہٹانے کی مشینری لاموجود ہو! برف تین دن سے پڑ رہی تھی۔ مہینہ مئی جون کا تو نہ تھا کہ انتظامیہ لسی پی کر سو گئی تھی۔

حادثہ ہو جانے کے تمام تر سہولت دینے کے بعد مرنے والوں کو ۸ لاکھ فی کس دینے کا اعلان ہو جائے، ذمہ داران کے تعین کا کمیشن بن جائے، ہوٹلوں کی انکوائری کی دھمکی دی جائے، سدا سے جن کی لوٹ مار مشہور ہے۔ چار دن بعد شور تھم جائے گا تو ٹائیں ٹائیں فش۔ گستاخی نہ ہو تو عرض کریں کہ ایک کروڑ ۷۶ لاکھ جو لواحقین کو دیا جائے گا وہ سرکاری انتظامیہ کی ذاتی جیب، تنخواہوں میں سے کاٹ کر دیا جائے، جن کی غفلت نے اتنا بھاری نقصان کیا۔ حکومت ایسے مواقع پر پھٹی جیب والے عوام (جن پر منی بجٹ کا بم گرائے چند دن ہوئے ہیں) ہی پر مزید مالی بوجھ لادتی ہے۔ ذمہ داران پھر جاکر (خدانخواستہ) اگلے حادثے کے شور شرابے تک سو رہتے ہیں۔ یہ دیت انہیں ہی دینی چاہیے۔

کچھ توجہ ہماری قوم کی ہلڑ بازی، ہاؤہو والے مزاج کی طرف بھی دینی ضروری ہے۔ حکومتیں گزشتہ ۲۰ سالوں میں شتر بے مہار آزادی پروان چڑھانے میں پوری طرح ملوث رہی ہیں۔ سال کے بارہ مہینے سیر و تفریح، ایونٹ، میلے، فیسٹیول، کھیل ہی جاری رکھے جاتے ہیں۔ عوام کو یہ دیکھنے کی فرصت ہی نہ ملے کہ حکومتیں بیانات کی دھوم دھام کے پس پردہ کس طرح قومی اثاثوں پر ہاتھ صاف کرتی ہیں۔ بلا استثناء کرسمس، نیو ائیر اور برفباری چونکہ لندن، نیویارک و دیگر میں منائی جاتی ہے، سو رشکِ برطانیہ امریکہ ہونے کو ہمارے نوجوان نئے سال کا قومی جشن منانے مری جا پہنچے۔ ویڈیوز میں دیوانہ ہجوم مری کی سڑکوں پر چیخیں، سیٹیاں، ہلڑ بازی، آتش بازی، پھیپھڑے پھاڑ چلّاتے ولولوں کا اظہار دیکھا جا سکتا ہے۔ اس پورے طوفانِ بدتمیزی میں پولیس یا قانون نافذ کرنے والے اس دن بھی موجود نہ تھے کہیں بھی۔ اس خدشے کا اظہار ہوا کہ خدانخواستہ اس ماحول میں فیملیز آجائیں تو کیا ہو۔ الامان ! یہ قومی کردار ہے جو پرویز مشرف سے لے کر عمرانی دھرنوں تک مسلسل پروان چڑھا ہے۔ سارے ولولے موسیقی، سیٹیوں، ہنگامے کے ساتھ ظاہر کرنے کا۔ بے حسی کا یہ عالم تھا کہ باوجودیکہ اتنا بھاری جانی نقصان اور اس کی ہولناکی سامنے آ چکی تھی، مگر لوگ مری جانے پر بضد تھے۔ شیخ رشید نے بتایا کہ رینجرز طلب کر کے لوگوں کو مری کا رخ کرنے سے بزور روکا گیا۔ ان کے کان پر جوں بھی نہ رینگی تھی!

بے دلی ہائے تماشہ کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
بے کسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں

یہ ہمارے نوجوانوں کی کسمپرسی ہے۔ بڑی محنت سے دین ناآشنائی بوئی گئی ہے۔ یہ قساوتِ قلبی، کھالے پی لے جی لے کی پھیلائی تہذیب اور بے مقصد زندگی کا نتیجہ ہے۔

لباس، خوراک، گاڑیاں، ہلّا گلّا۔ جہاں سے مل سکے، یہی فکر و نظر کا حاصل اور مبلغ علم ہے۔ ساری دوڑ اسفل ترین مادیت کی ہے۔ قوموں کے زوال کی یہ علامتیں بدرجہ اتم ہم میں موجود ہیں، جن پر فخر و ناز ہے!ہمارے ہاں ایک لمبا چوڑا محکمہ وفاق صوبائی سطح پر ’ڈیزاسٹر مینجمنٹ‘ (قدرتی آفات سے نمٹنے) کے نام سے زلزلہ ۲۰۰۵ء سے قائم چلا آ رہا ہے۔ بھاری بھرکم تنخواہوں اور مراعات والی یہ سرکار کہاں تھی، ایک معمہ ہے! اس کا ذکر تک نہ ہوا۔ شاید کچھ پردہ نشینوں کے ناموں کی بنا پر۔ جانیں نہیں بچائیں اب انتظامیہ کو بچانے کی ساری کوشش ہے۔

انکوائری کا ڈرامہ نہ ہی رچائیں تو بہتر ہے۔ اس سانحے کے پس پردہ سیاحت سے معیشت کو تقویت دینے کا نووارد فلسفہ (جو سعودی عرب اور دبئی سے سیکھا جا رہا ہے) بھی ہے۔ ٹول پلازہ پر ڈیڑھ لاکھ گاڑیوں کے جانے سے ہونے والی کمائی اور خوشحالی پر نظر رہی، آگے انتظامیہ کی کوئی فکر، خبر ہی نہ تھی! المیہ یہ بھی ہے کہ اب ہر معاملے میں اپنی ثقافتی صلاحیت بروئے کار لاتے قوم کو راہ دکھانے پر اداکار، موسیقار، گلوکار، میزبان از خود مامور رہتے ہیں۔ جنہیں سیلی بریٹیوں (بھانڈ مراثی) کا لقب دے کر نوجوان کے لیے نمونۂ عمل بنا دیا گیا ہے۔ ایسے ہی دو ستاروں نے مع ایک خاتون کے موہنجوڈرو میں نیم یورپی تصویر کے ہمراہ یہ بیان جاری فرمایا کہ ’’اگر ہم موہنجوڈرو جیسے تاریخی تہذیبی شہر بناتے تو یورپی سیاح یہاں بھی آتے۔‘‘ (آپ کے ہوتے یورپی سیاحوں کی ضرورت ہی کیا ہے۔) ہم اپنی تہذیب اور کتابِ الٰہی کی تعلیمات سے کس درجہ نابلد ہیں۔ وہ تمام مقامات جو آسمانی آفات، زلزلوں، زمین میں دھنسنے کی طرح عذابِ الٰہی کا شکار ہو کر زمین دوز ہو جاتے ہیں، مقام عبرت ہوتے ہیں۔ یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے۔ نبوی تعلیمات میں مدائنِ صالح، بحر مردار(قوم لوط پر عذاب کا نتیجہ) جیسے مقامات سے تیزی سے استغفار کرتے ہوئے گزر جانے کا حکم ہے۔ ان قوموں کے مفصل تذکرے اور نبوی تعلیمات واضح ہیں۔ جہاں بستیاں و آبادیاں مقبروں میں تبدیل ہو جائیں وہ مقامات فیسٹیول یا فوڈ اسٹریٹ بنانے کے نہیں! ایسے کھنڈرات کو ورثہ قرار دینا مرکزِ سیاحت بنانا جاہلی تہذیبوں کا شعار ہے، انبیا ء کی امتوں کا نہیں۔

عبرت کی ایک چھٹانک برآمد نہ ہو سکی
کلچر نکل پڑا ہے منوں کے حساب سے

سعودی عرب یا امارات کا یہ چلن لائق تقلید نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اب سعوددی عرب میں جازان میں برازیلی ’سامبا‘ رقص کرتی حسینائیں کم ترین لباس میں سڑکوں پر دکھائی گئیں۔ مہذب سعودی سر پیٹ کر رہ گئے۔ سو آپ پاکستان پر مہربانی فرمائیں۔ ایسی سیاحتوں کے ڈول نہ ڈالیں ۔ حقیقی ترقی پر توجہ دیں۔ چینی کے بعد یوریا (کھاد) کا بحران لاکھڑا کیا ہے۔ ملک پر رحم کریں!

[روزنامہ نئی بات، ۱۶ جنوری ۲۰۲۲ء]

٭٭٭٭٭

Exit mobile version