نظریاتی جنگیں | گیارہویں قسط

مولانا محمد اسماعیل ریحان صاحب (زید مجدہٗ) کی تالیف ’أصول الغزو الفکري یعنی ’نظریاتی جنگ کے اصول‘، نذرِ قارئین ہے۔ اس وقت مسلمانوں کو اہل باطل کی جانب سے ایک ہمہ گیر اور نہایت تند و تیز فکری و نظریاتی یلغار کا سامنا ہے۔ اس یلغار کے مقابلے کے لیے ’الغزو الفکری‘ کو دینی و عصری درس گاہوں کے نصاب میں شامل کرنا از حد ضروری ہوچکا ہے۔دینی و عصری درس گاہوں میں اس مضمون کو شامل کرنے کے ساتھ ساتھ ’الغزو الفکری‘ یعنی نظریاتی جنگ کے مضمون و عنوان کو معاشرے کے فعال طبقات خصوصاً اہلِ قلم، اسلامی ادیبوں اور شاعروں، اہلِ دانش، صحافیوں، پیشہ ور (پروفیشنل)حضرات نیز معاشرے کہ ہر مؤثر طبقے میں بھی عام کرنا از حد ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے ’اصول الغزو الفکری‘کے عنوان سے اس علم کے اہم مباحث کو مختصر طور پر مولانا موصوف نے پیش کیا ہے۔ مولانا موصوف ہی کے الفاظ میں ’در حقیقت یہ اس موضوع پر تحریر کردہ درجنوں تصانیف کا خلاصہ ہے جس ميں پاک و ہند کے پس منظر کا نسبتاً زیادہ خیال رکھا گیا ہے‘۔ یہ تحریر اصلاً نصابی انداز میں لکھی گئی ہے، لیکن اس کے باوجود خشکی سے پاک ہے اور متوسط درجۂ فہم والے کے لیے بھی سمجھنا آسان ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہم مسلمانوں کو نظریاتی و عسکری محاذوں کو سمجھنے، ان محاذوں کے لیے اعداد و تیاری کرنے اور پھر ہر محاذ پر اہلِ باطل کے خلاف ڈٹنے کی توفیق ملے۔ اللہ پاک مولانا محمد اسماعیل ریحان صاحب کو جزائے خیر سے نوازیں کہ انہوں نے ایسے اہم موضوع کے متعلق قلم اٹھایا، اللہ پاک انہیں اور ہم سب اہلِ ایمان کو حق پر ثبات اور دین کا صحیح فہم عطا فرمائیں، آمین یا ربّ العالمین! (ادارہ)


نصرانیت (Christianity)

نصرانیت وہ مذہب ہے جو گزشتہ چودہ صدیوں سے اسلام کے خلاف کھلم کھلا لڑرہا ہے۔ یہ جنگ عسکری میدان میں بھی ہوتی آرہی ہے اور فکری و نظریاتی محاذ پر بھی۔

نصرانیت کی تعریف:

نصرانیت کی تعریف انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا میں یوں کی گئی ہے:

’’وہ مذہب جو اپنی اصلیت کی نسبت ناصرہ کے باشندے ’یسوع‘ کی طرف کرتا ہے اور اسے خدا کا منتخب مسیح مانتا ہے۔‘‘ (ج۵، ص۶۹۳)

عیسائیت کے بنیادی عقائد:

عیسائیوں کے بنیادی عقائد درج ذیل ہیں:

۱۔ عقیدۂ تثلیث

۲۔ عقیدۂ ابنیتِ مسیح

۳۔عقیدۂ حلول

۴۔ مصلوبیتِ مسیح

۵۔ عقیدۂ حیاتِ ثانیۂ مسیح

۶۔ عقیدۂ رجوعِ مسیح

۷۔ عقیدۂ کفارہ

۱۔ عقیدۂ تثلیث ( Trinatarian Doctrine):

عقیدۂ تثلیث سے مراد یہ ہے کہ خدا اقانیمِ ثلاثہ کا مجموعہ ہے: باپ (خدا)، بیٹا (عیسیٰ) اور روح القدس (مقدس حیات) کا۔

رومی عیسائیوں کے قدامت پرست اور غالب فرقے کیتھولک چرچ کا عقیدہ ہے کہ یہ تین شخصیتیں مل کر ایک حقیقت تشکیل دیتی ہیں۔ بعض فرقے روح القدس (حیات) کی جگہ حضرت مریمؑ کو تیسرا اُقنوم کہتے ہیں۔

۲۔ عقیدۂ ابنیتِ مسیح:

عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ مسیح خدا کا بیٹا ہے، اس کے ساتھ ساتھ وہ خدا بھی ہے۔ یعنی عیسیٰؑ خدا بھی ہیں اور بیٹا بھی۔ کچھ عرصے کے لیے خدا بیٹے کا روپ دھار کر انسان بنے پھر دوبارہ خدا بن گئے، اب مستقل طور پر وہ انسان اور خدا دونوں ہیں۔

۳۔ عقیدۂ حلول (Incarnation):

اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی صفتِ کلام انسانوں کی بھلائی کے لیے حضرت مسیح کے انسانی جسم میں حلول کر گئی تھی۔

۴۔ عقیدۂ مصلوبیتِ مسیح (Crucifixion):

ان کا عقیدہ ہے کہ خدا کے بیٹے کرائسٹ کو یہودیوں نے حاکم پیلاطس کے حکم سے صلیب پر چڑھا کے قتل کردیا تھا۔

۵۔ عقیدۂ حیاتِ ثانیہ (Resurrection):

ان کا عقیدہ ہے کہ سولی پر لٹکائے جانے اور قبر میں دفن کیے جانے کے تین دن بعد عیسیٰؑ پھر زندہ ہوگئے اور آسمانوں میں چلے گئے۔ وہاں وہ اللہ کے دائیں ہاتھ پر بیٹھے ہیں۔ قربِ قیامت میں پھر ظاہر ہوں گے۔

۶۔ عقیدۂ کفارہ (Atonement/Redemption):

عقیدۂ کفارہ کا فلسفہ یہ ہے کہ جب آدم علیہ السلام نے دانۂ گندم کھایا تو ’اصلِ گناہ‘ (The original sin) صادر ہوا جس سے نوعِ انسانی میں اللہ کی نافرمانی کا عنصر پیدا ہوگیا اور نیکی کی قوتِ ارادی کمزور پڑگئی، اس صورتحال میں بنی نوعِ آدم اللہ کے ہاں سزائے موت کی حقدار بن گئی مگر خدا نے بندوں کو سزا دینے کی جگہ خود اپنے بیٹے کی شکل میں زمین پہ آکر یہ سزا خود جاری کردی، اس طرح ہر وہ انسان پیدائشی گناہ سے پاک ہوگیا جو یسوع کو خدا مانے اور اس کی قربانی پر یقین کرے۔ (نعوذ باللہ‌ منہا)

اکثر افراد جو اپنا مذہب چھوڑ کر عیسائیت اختیار کرتے ہیں وہ کفارے کے عقیدے سے متاثر ہوکر ادھر مائل ہوتے ہیں تاکہ پیدائشی گناہ مٹ جائے۔

نصرانیت کے مآخذ

عیسائیوں کی مذہبی کتاب بائبل ہے جس کے دو حصے ہیں:

۱۔ عہد نامۂ قدیم

۲۔ عہد نامۂ جدید

۱۔ عہد نامۂ قدیم:(The Old Testament)

عہد نامۂ قدیم یا عہدِ عتیق تورات، زبور اور ان کے ملحقات پر مشتمل ہے۔ یہ صرف برکت کے لیے ہے اس پر عمل نہیں ہوگا۔

۲۔ عہد نامۂ جدید:(The New Testament)

عہد نامۂ جدید یا انجیل عیسائی مذہب کا اصل ماخذ ہے۔ عیسائیوں کے پاس موجود انجیل وہ ہے جو رفعِ مسیح ک۳۲۵ سال بعد پادریوں کے مشہور اجتماع ’میقاوی کونسل‘ میں منتخب کی گئی تھی۔ حالانکہ اس کے اصل انجیل ہونے کا کوئی معتبر ثبوت موجود نہیں تھا۔ عہد نامۂ جدید ۲۷ کتب کا مجموعہ ہے جن میں سے چار کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ انھیں کو ’اناجیل اربعہ‘ کہا جاتا ہے۔ ان کے نام انجیل متیٰ، انجیل مرقس، انجیل لوقا اور انجیل یوحنا ہیں۔

موجودہ اناجیل اربعہ کی حیثیت:

اناجیل اربعہ سمیت بائبل میں شامل کسی بھی انجیل کی حیثیت ایسی نہیں ہے کہ وہ کسی بھی لحاظ سے اللہ کا کلام ثابت ہو یا اسے وہ انجیل قرار دیا جاسکے جو عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی۔ قریبی دور میں کئی عیسائی محققین کا بھی یہ موقف ہے کہ بائبل اور انجیل اللہ کا کلام نہیں، بلکہ یہ حواریوں کے مکتوبات ہیں جن میں انھوں نے یسوع سے اپنی ملاقاتوں کی روداد بیان کی ہیں۔

انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا میں ہے:

’’یہ بات متنازعہ ہے کہ کتب مقدسہ میں درج ہربات الہامی ہے یا نہیں۔‘‘ (ج ۱۱، ص۲۴۷)

نصرانیت کی عبادات اور رسومات

نصرانیت میں عبادت کا یہ اصول ہے کہ عبادت چرچ میں اجتماعی طور پر ہی ہوسکتی ہے۔ سب سے مشہور عبادت ’حمد خوانی‘ ہے جس کی ادائیگی کے لئے صبح و شام چرچ میں جمع ہوتے ہیں۔ بائبل سے زبور کے گیت پڑھے جاتے ہیں۔

جب کوئی شخص عیسائیت قبول کرتا ہے تو اس سے عیسائی عقائد کا اقرار لینے کے بعد اس کے جسم پر ایک خاص تیل کا مساج کیا جاتا ہے اور ایک نیا لباس پہنایا جاتا ہے جس کا مطلب ہوتا ہے کہ پرانا لباس اتارتے ہی وہ پیدائشی گناہ سے پاک ہوگیا ہے، یہ عمل بپتسمہ کہلاتا ہے۔

ہر اتوار کو چرچ میں دعائیہ اور حمدیہ مجلس ہوتی ہے جس کے بعد روٹی اور شراب سامنے رکھ کر پادری باپ، بیٹے اور مقدس روح سے برکت کی دعا کرتا ہے، حاضرین میں روٹی اور شراب تقسیم کی جاتی ہے۔ ان کے عقیدے کے مطابق روٹی مسیح کا بدن اور شراب ان کاخون بن جاتی ہے۔

ہر سال ۳ مئی کو ’باز یافتِ صلیب‘ کا تہوار، ۲۵ دسمبر کو ولادتِ مسیح کا تہوار کرسمس، ۲۲ سے ۲۵ مارچ تک حضرت مسیح کے دوبارہ زندہ ہونے کی خوشی کا تہوار ایسٹر، اور ایسٹر سے قبل آنے والے جمعہ کو مسیح کو سولی دیے جانے کا تہوار گُڈ فرائیڈے منایا جاتا ہے۔

موجودہ عیسائیت کی بنیاد

موجودہ عیسائیت کی بنیاد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کے ایک شاگرد پولس نے رکھی جسے سینٹ پال بھی کہا جاتا ہے۔ اس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حواریوں کی صحبت نہیں پائی تھی بلکہ ان کا دشمن رہا تھا مگر بعد میں ایمان کا اظہار کرکے عیسائیت کی تبلیغ کرنے لگا۔ اس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کو بگاڑنے کے لیے مسیحی بزرگ کا روپ دھارا تھا۔ اگر بغور دیکھا جائے تو موجودہ انجیل عہد نامۂ جدید سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ پولس کی تعلیمات عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات سے متضاد ہیں۔

مثلاً:

٭ عیسیٰ علیہ السلام نے توحید پیش کی: ’مرقس‘ باب ۱۲، نمبر ۲۹ میں ہے: ’’خدا وند ہمارا ایک ہی خدا ہے‘‘۔ اس کے مقابلے میں پولس نے تثلیث کا عقیدہ پیش کیا۔

٭ عہد نامۂ جدید میں ساٹھ کے لگ بھگ مقامات پر عیسیٰ علیہ السلام نے خود کو ابن آدم کہا ہے، مگر پولس نے مسیح میں خدا کے حلول کرجانے کا عقیدہ پیش کیا اور انہیں خدا کا حقیقی بیٹا قرار دیا۔ وہ کہتا ہے:

’’الوہیت کی ساری معماری اسی میں مجسم ہوکر سکونت کرتی ہے۔‘‘ (کلسیّون، ب۲، نمبر۹)

٭ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تورات کی تصدیق کرتے تھے، بائبل میں ان کا ارشاد مذکور ہے: ’’یہ نہ سمجھو میں تورات کو منسوخ کرنے آیا ہوں، منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔‘‘ ۰متّٰی، باب۵، نمبر ۱۷)

مگر پولس نے تورات کی تردید کی اور کہا: ’’مسیح جو ہمارے لیے لعنتی بنا، اس نے ہمیں مول لے کر شریعت کی لعنت سے چھٹکارا دلایا۔‘‘ (گلتّیون باب۳، نمبر۱۳)

بائبل میں جب بھی The Law (شریعت) کا لفظ آتا ہے تو اس سے مراد تورات ہوتی ہے۔

٭ بڑے بڑے حواریوں جیسے یوحنّا، پطرس، برنباس کا پولس سے اختلاف کرنا بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ پولس لوگوں کو انجیل کے نام پر گمراہ کررہا تھا۔

تاریخِ نصرانیت

عیسائیت کی تاریخ، بنی اسرائیل کی تاریخ کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت سے قبل بنی اسرائیل کئی مذہبی فرقوں میں تقسیم ہوچکے تھے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش بیت المقدس کے قریب بیت اللحم کی بستی میں مریم بنت عمران نامی ایک نیک سیرت کنواری خاتون کے ہاں معجزانہ طور پر ہوئی۔ آپؑ نے شیرخوارگی کی حالت میں لوگوں سے کلام کیا اور بتایا کہ اللہ مجھے کتاب عطا کرے گا اور نبوت سے سرفراز کرے گا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہودیوں کی اصلاح کے لیے آئے تھے مگر یہودی عمومی طور پر آپ پر ایمان نہیں لائے، ان میں دو گروہ بن گئے تھے۔ اکثریت نے یہ کہہ کر کہ تورات کے سوا کوئی چیز قابل عمل نہیں ہے، انجیل کو مسترد کردیا۔ یہ لوگ یہودی کہلائے۔ جن لوگوں نے آپ کی اتباع کی وہ نصاریٰ کہلائے۔ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تبلیغی سرگرمیوں پر پابندی لگانے اور آپؑ کو قتل کرنے کی کوشش کی۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام حواریوں کی آنکھوں کے سامنے آپ کو آسمان پر لے گئے۔ یہودیوں نے آپ کی جگہ مخبر کو آپ کے مشابہ پاکر گرفتار کرلیا اور اسی کو صلیب پر لٹکادیا۔ بعد میں جب پولس نے نئے لوگوں کو عیسائیت کی دعوت دی تو اس نے بھی یہود کے عقیدے کے مطابق لوگوں میں مشہور کیا کہ عیسیٰ علیہ السلام کو سولی چڑھایا گیا تھا۔

عیسائیت کی تاریخ کے تین ادوار

پہلا دور تبلیغ و ابتلاء:

یہ دور پہلی صدی عیسوی سے تیسری صدی عیسوی تک پھیلا ہوا ہے۔ اس دور میں پولس نے تورات کے احکام کو بالکل ساقط قرار دے کر عیسائیت کو نیا مفہوم دیا۔ اکثر لوگ اس کے جھانسے میں آگئے تھے۔ اس دور کو دور ابتلاء اس لیے کہا جاتا ہے کہ اپنے عقائد کی اشاعت کے لیے عیسائیوں کو رومیوں کی طرف سے تکالیف سہنی پڑ رہی تھیں کیونکہ رومی کسی دوسرے مذہب کی تبلیغ کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ جو لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر صحیح ایمان رکھتے تھے وہ اس دور میں رفتہ رفتہ ختم ہوگئے یا گوشہ نشینی کی زندگی گزارتے رہے۔

دوسرا دور دور مجالس (Age of Councils)

چوتھی صدی عیسوی کو دور مجالس کہا جاتا ہے۔ اس زمانے میں تبلیغ عیسائیت کے اثرات رومی بادشاہوں تک جا پہنچے، اور رومی بادشاہ ’قُسطُنطین‘ نے عیسائیت قبول کرلی۔ اس دور میں عیسائی علماء اور پادری مل بیٹھ کر بائبل کی تدوین اور مذہبی عقائد و رسوم کی تعیین کے بارے میں مباحثے اور مذاکرات کیا کرتے تھے تاکہ اپنے مذہب کے اصول و ضوابط مقرر کریں۔ ان نشستوں کو مجالس “Councils” کہا جاتا تھا۔

دور مجالس کی سب سے اہم بات ۳۲۵ ءمیں نیقیہ(Nicaea) میں منعقد ہونے والی ’نیقاوی‘ کونسل ہے، جس میں تثلیث کو مذہب کا جزو خاص مان لیا گیا۔

تیسرا دور – انتشار کا دور:

یہ پانچویں اور چھٹی صدی عیسوی کا ہے۔ اس دور میں بازنطینی رومی سلطنت ایشیائی اور یورپی دو حصوں میں بٹ گئی۔ مشرقی مرکز ’قسطنطنیہ‘ تھا اور مرکز ’روم‘۔ ساتھ ساتھ کلیسا بھی دو حصوں میں بٹ گیا۔ قسطنطنیہ کا کلیسا ’آرتھوڈکس چرچ‘ کہلایا۔ اس کے پیشوا کو ’بطریق‘ (Patrick) کہا جاتا تھا۔ روم کا کلیسا ’کیتھولک چرچ‘ کے نام سے موسوم ہوا جس کے پیشوا کو پوپ کہا جاتا تھا۔ اسی دور میں رہبانیت کا آغاز ہوا، بہت سے عیسائی دنیا سے قطع تعلق اختیار کرکے جنگلوں میں جا بسے۔

قرون اولیٰ، تاریک دور کا پہلا حصہ: (1st Period of Darkness)

عیسائیت کی تاریخ میں ۵۹۰ء سے ۸۰۰ء تک کا زمانہ قرون اولیٰ کہلاتا ہے۔ اس دور کو تاریکی کا دور اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں اسلام کے عروج کی وجہ سے عیسائیت کو پورے ایشیا اور افریقہ سے پسپا ہونا پڑا۔

قرون وسطیٰ، تاریکی کا دوسرا دور: (2nd Period of Darkness)

یہ زمانہ ۸۰۰ء(۱۸۴ھ) سے ۱۵۲۱ء(۹۲۸ھ) تک ہے۔ اس دور میں پوپ کے لامحدود اختیارات نے بادشاہوں کو پوپ کا حریف بنادیا اور مذہب و سیاست میں کشمکش شروع ہوگئی جو تقریباً سات سو سال تک چلتی رہی۔ پادریوں کی اشتعال انگیزی ہی کی وجہ سے اس دور میں صلیبی جنگیں برپا ہوئیں۔ پادریوں کے اس کردار سے متنفر ہوکر یورپی امراء اور حکام میں کلیسا سے بغاوت کا ذہن عام ہوا اور بادشاہوں نے پوپ کے اختیارات کم کرنے کی جدوجہد شروع کردی۔

جان ہس اور جیروم کی اصلاحی کوششیں:

اس دوران کئی پادری کلیسا کا نظام بدلنے اور مذہب کو نئے اصولوں پر تشکیل دینے کی تدبیریں سوچنے لگے تھے۔ ان میں جان وائیکلف، جان ہس اور جیروم کے نام نمایاں ہیں۔ جان وائیکلف نے پہلی بار بائبل کا لاطینی زبان سے انگریزی میں ترجمہ کیا، جان ہس اور جیروم نے بھی کیتھولک چرچ کے کئی اصولوں کا انکار کیا اور نئی تعلیمات پیش کیں۔ مگر ان کی کوششیں ان کی زندگی میں بارآور نہ ہوسکیں۔

تحریک اصلاح مذہب:(Reformation)

تحریک اصلاح مذہب کا سب سے بڑا قائد مارٹن لوتھر تھا جو پروٹسٹنٹ مذہب کا بانی بھی ہے، اس نے روایتی مذہبی معتقدات کے خلاف بغاوت کردی اور تحریک اصلاح مذہب کا آغاز کیا جسے ’ریفارمیشن‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے لغوی معنی ’اصلاح‘ کے ہیں۔ لوتھر نے پادریوں کی جانب سے معافی ناموں کی فروخت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ معافی کا اختیار صرف خدا کو ہے۔ اس نے عوام کو حق دیا کہ وہ خود بائبل پڑھ اور سمجھ سکتے ہیں۔ انھیں پادریوں کی تفسیر کی ضرورت نہیں۔ لوتھر کے حامیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد دیکھ کر ۱۵۲۹ء میں پوپ نے ہار مان لی اور طے پایا کہ ہر حکمران اپنے ملک میں اپنی پسند کے مذہب کو فروغ دے سکتا ہے۔ اس کے بعد یورپ میں ’رومن چرچ‘ کے مقابلے میں ’پروٹسٹنٹ چرچ‘ قائم ہوگیا۔

عقلیت پسندی کا دور:

مارٹن لوتھر نے پہلی بار بائبل کی تفہیم میں اپنے پیشروؤں سے اختلاف کی جرأت کی تھی جو بظاہر ایک مثبت کوشش تھی مگر اس نے بائبل پڑھنے اور سمجھنے کا حق عوام کو دے کر آزادی و خودرائی کا ایک دروازہ کھول دیا تھا کیونکہ اس طرح حلال و حرام کا فیصلہ کرنے کا اختیار اہل علم کی جگہ عام آدمی کی عقل کو مل گیا اور یوں عقل کو مذہبی علم پر فوقیت حاصل ہوگئی اور عقلیت پسندی کا دور شروع ہوا جو حقیقت میں الحاد کا دور تھا۔

ولیم شلنگ ورتھ، لارڈ ہربرٹ اور وولٹائر جیسے آزاد خیال مفکرین نے سترہویں اور اٹھارہویں صدی عیسوی میں عقلیت پسندی کو یورپ کا مقبول ترین نظریۂ حیات بنادیا اور مذہب پسِ پشت چلا گیا۔

تحریکِ تجدد:(Modernism)

عقلیت پسندی‘ کے مضمرات دیکھتے ہوئے بعض دانشوروں نے ایک درمیانی راستہ اختیار کیا اور مذہب کو پسِ پشت ڈالنے کے بجائے اس میں جدت پر زور دیا۔ ان کا خیال تھا کہ بائبل کو ترک کرنے کے بجائے اسے جدید علوم کی روشنی میں پڑھایا جائے اوراس کے معانی کو جدید تقاضوں کے مطابق بنایا جائے۔

جوابی تحریک:(Counter Reformation)

کیتھولک چرچ کی جڑیں کھوکھلی ہوتے دیکھ کر پوپ پال چہارم نے ریفارمیشن تحریک کا جواب دینے اور کیتھولک چرچ کی اصلاح اور تنظیمِ نو کی مہم شروع کی۔ اس کوشش کو ’جوابی تحریک‘ کا نام دیا جاتا ہے۔

یسوعی تحریک:

اسپین کا ایک جنگجو نواب ’اگنائیش لائیلا‘ کیتھولک چرچ کی خاطر کچھ کرنے کا جذبہ رکھتا تھا۔ اس جذبے کے تحت اس نے اپنے چند ہم خیال ساتھیوں کے ساتھ ۱۵۳۴ء میں ’یسوعی فرقے‘ کی بنیاد رکھی جس کا مقصد زہد و فقر کے اظہار کے ساتھ عیسائیت کی تعلیم اور تبلیغ کا کام کرنا تھا۔ اسی سے ’التنصیر‘ کی تحریک کا آغاز ہوا۔

تحریک احیائے مذہبِ قدیم:

عقلیت پسندی اور تجدد کی تحریکوں کے رد عمل میں انیسویں صدی میں بہت سے پادریوں نے خالص قدیم مذہبی عقائد و اقدار کی حمایت شروع کی۔ اسے ’احیائے مذہب قدیم کی تحریک‘ کہا جاتا ہے۔

اکیسویوں صدی میں عیسوی کلیسا:

اس وقت دنیائے نصرانیت میں عقلیت پسند، جدت پسند اور قدامت پسند تینوں ہی میدان میں موجود ہیں اور اپنے اپنے حلقۂ اثر کو بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مگر تینوں ہنوز سچائی سے بہت دور ہیں۔ سچائی اور حقیقت انھیں صرف اسلام کے دروازے پر آنے سے مل سکتی ہے جو دنیا کا واحد سچا مذہب ہے۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

Exit mobile version