تحریکِ قاسمی﷫…… اقامتِ دین کی تحریکات کے لیے ایک عمدہ مثال | حصہ دوم

الامام الکبیر مولانا محمد قاسم نانوتوی﷫ کی بابرکت تحریک میں یقیناً اقامتِ دین کی جدوجہد کرنے والی تمام تحریکات کے لیے اسباق ہیں، تاہم بالخصوص وہ تحریکات جو مسلح جدوجہد میں بظاہر وقتی ناکامی سے دوچار ہوں تو ان کے لیے اس تحریک کا مطالعہ بے حد ضروری ہے۔ اس تحریر میں اختصار سے الامام الکبیر﷫ کی تحریک کے مراحل کا ذکر اور ہر مرحلے میں ان کی اختیار کردہ حکمتِ عملی کا بیان ہے اور ساتھ تجزیہ بھی ہے۔ (محمد مثنیٰ حسان)


چوتھا مرحلہ؛ معاشرتی جدوجہد کی سیاسی صف بندی اور تحریک کےلیے عملی بنیادوں کی فراہمی

الامام الکبیر مولانا محمد قاسم نانوتوی﷫ نے ۱۸۸۰ء میں انتقال فرمایا تو کئی مصاحبین اور شاگرد اپنے پیچھے چھوڑے جو آپ کی فکر پر کاربند تھے۔ یقیناً آپ کی وفات سے قیادت کا خلا پیدا ہوگیا۔ کسی بھی اقامتِ دین کی تحریک کی زندگی میں یہ نازک ترین موقع ہوتا ہے جب اس کی قیادت اور موسسین دنیا سے رخصت ہوجائیں، کیونکہ اس سے قیادت کا خلاء پیداہوجاتا ہے اور اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ اپنے پیش رو کی فکر کو لے کر کوئی دوسرا اٹھے اور علَم سنبھالے۔ اب اگر قیادت نے اپنے ساتھ ایسے افراد کو کھڑا کیا جو ایک طرف فکر سے بھی ہم آہنگ ہوں اور دوسری طرف قائدانہ صلاحیت سے بھی متصف ہوں، تو قیادت کا خلاء پر ہوجاتا ہے اور درست طریق پر پُر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اگر تحریک کے قائد نے ایسے افراد ہی نہ کھڑے کیے جو قائدانہ صلاحیت رکھتے ہوں تو تحریک اسی وقت زوال پذیر ہوجاتی ہے، اور اسی طرح اگر قائدانہ صلاحیت کے افراد تو جوڑے مگر فکر میں ہم آہنگی پیدا نہ کی تو تحریک کا رخ بدل جاتا ہے۔ الامام الکبیر﷫ کی وفات سے بھی بڑا خلاء پیدا ہوا۔ آپ کے رفیقِ خاص قطب الارشاد حضرت گنگوہی﷫ کا یہ قول کئی بزرگوں نے نقل کیا کہ آپ نے فرمایا:

’’جب تک مولوی قاسم صاحب موجود تھے، مجھ کو یقین تھا کہ پہلے یہ ہمارا سر کٹوائیں گے اور پھر اپنا۔ اب تو جہاد کی امید بھی باقی نہ رہی‘‘۔1

تاہم مشیتِ ایزدی سے الامام الکبیر﷫ نے اپنی فکر اور عملی روح اپنے شاگردوں میں منتقل کرنے کی کوشش کی تھی جس کے سبب قیادت کا خلاء پُر ہوگیا۔ اور الامام الکبیر کے سب سے نمایاں شاگرد مولانا محمود حسن﷫ جو بعد میں ’حضرت شیخ الہند‘ کے نام سے معروف ہوئے، نے الامام الکبیر کی تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے عَلَم اٹھالیا۔2

تحریک کے قیام کے لیے جس معاشرتی جدوجہد کا آغاز الامام الکبیر﷫ نے کیا تھا، اب اس جدوجہد کی صف بندی کا مرحلہ درپیش تھا۔ ہم پیچھے دیکھ آئے ہیں کہ الامام الکبیر نے برطانیہ کے خلاف جہاد کی تیاری کے لیے اور مراکز کی فراہمی کے لیے معاشرے میں مدارس کا جال بچھایا۔ اب اس سے آگے کام کی دو سطحیں تھیں، اول؛ خود تحریک کے لیے مراکز میں اضافہ کیا جائے اور دوم؛ اس معاشرتی جدوجہد کی سیاسی صف بندی کی جائے۔

چونکہ جہاد کی تیاری کے لیے تعلیمی مراکز قائم کیے گئے تھے، اور اگر ان تعلیمی مراکز کو اپنی ہیئت پر چھوڑ دیا جاتا تو آئندہ کے لیے ان مراکز کا مقصد محض ’تعلیم برائے تعلیم‘ ہی رہ جاتا، اور اعلیٰ مقصد کا حصول فوت ہوجاتا۔ اور یہ بھی ممکن نہیں تھا کہ مدارس سے ہی جنگ کا اعلان کردیا جاتا کیونکہ دینی تعلیم کا ادارہ براہِ راست جنگی مورچے میں نہیں بدل سکتا تھا، یہاں تعلیم وتعلم سے وابستہ سبھی افراد تو جہاد کے لیے تیار نہ تھے۔ ضروری تھا کہ ایک درمیانےمرحلے سے گزرا جائے اور معاشرے کی اس مخصوص دینی محنت کو سیاسی دھارے میں تبدلی کرنے کی کوشش کی جائے۔ حضرت شیخ الہند﷫ نے عَلَم سنبھالتے ہی یہی کام کیا۔3 آپ نے تین بنیادی خطوط متعین کیے:

أ۔

ب۔

ج۔

ہم خیال افراد کا دائرہ بڑھایا،

پہلے سے موجود دینی محنت کو معاشرے میں سیاسی وجود فراہم کیا،

تحریک کے لیے مزید مراکز قائم کیے۔

 افراد سازی

حضرت شیخ الہند﷫ الامام الکبیر﷫ کی وفات کے وقت مدرسہ دیوبند میں مدرس دوم تھے، اور اگلے چند سالوں میں آپ صدر مدرس متعین ہوگئے تھے، اور حدیث کی بنیادی کتب کی تدریس آپ سے متعلق ہوگئی تھی۔ یہ سلسلہ پیہم چوالیس سال جاری رہا۔ یہی زمانہ تھا جب دار العلوم دیوبند کی شہرت ہندوستان سے باہر بھی ہوچکی تھی اور ہندوستان کے تمام اطراف کے علاوہ بیرونِ ہند سے بھی طلبہ کی بڑی تعداد شاملِ درس ہوتی تھی۔ یوں طلبہ ومریدین کا ایک بہت بڑا طبقہ حضرت شیخ الہند کے ہاتھ آگیا تھا جس میں آپ نے اپنے ہم خیال افراد پیدا کرنے شروع کیے جو معاشرے کی دینی خدمت کو سیاسی رنگ دینے میں آپ کے ساتھ شریکِ عمل ہوجائیں۔4

یوں ایک بڑی تعداد ان شاگردوں کی فراہم ہوگئی جو حضرت شیخ الہند کے ہم خیال تھے۔ ان میں سے چند تو وہ تھے جنھوں نے آپ کی تحریک میں مختلف کاموں کو سنبھالا، ان میں سرِ فہرست سندھ کے مولانا عبید اللہ صاحب، کراچی کے مولانا محمد صادق صاحب، دیوبند کے حلقے کے مولانا منصور انصاری، پنجاب کے مولانا محمد احمد (چکوال) اور مولانا احمد علی لاہوری، سرحد کے حاجی صاحب ترنگزئی، مولانا عزیر گل صاحب اور مولانا سیف الرحمن قندھاری وغیرہ [] شامل تھے۔

اپنی معاصر بڑی شخصیات میں سے جنھیں حضرت شیخ الہند نے اپنا ہم خیال بنایا تھا، ان میں سرِ فہرست حضرت مولانا عبد الرحیم رائے پوری، مولانا احمد حسن امروہی اور حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری﷭ تھے۔5 اسی طرح خواجہ غلام محمد دین پوری﷫ اور مولانا تاج محمود امروٹی﷫ بھی حضرت شیخ الہند کی تحریک سے وابستہ تھے۔

پھر حضرت شیخ الہند نے صرف انھی افراد کو اپنا ہم خیال نہیں بنایا جو آپ کے ہم مشرب تھے، بلکہ معاشرے کے صالح وبااثر لوگوں کو بھی جوڑنا شروع کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس زمانے کی دہلی کی بڑ ی سیاسی شخصیت ڈاکٹر مختار احمد انصاری﷫ نے حضرت شیخ الہند کے ہاتھ پر بیعت کر رکھی تھی، اور آپ کے توسط سے حکیم اجمل خاں، نواب وقار الملک، محمد علی جوہر اور مولانا ابو الکلام آزاد﷭ بھی کسی نہ کسی درجے میں تحریک میں شامل ہوچکے تھے۔6

معاشرتی جدوجہد کی سیاسی صف بندی

طلبہ علومِ دینیہ کی تنظیم بندی کی ابتداء تو الامام الکبیر﷫ کی زندگی کے آخری سالوں میں ہوگئی تھی جب آپ کے شاگردوں بالخصوص حضرت شیخ الہند﷫ نے ’ثمرۃ التربیت‘ کے قیام کی اجازت چاہی، اور الامام الکبیر کی اجازت سے یہ تنظیم ۱۸۷۸ء میں قائم ہوئی۔7 اگرچہ اس تنظیم کی زیادہ تفصیلات تاریخی کتب میں دستیاب نہیں ہیں، لیکن اتنا ضرور ہے کہ مدرسہ کے علاوہ اس تنظیم کے قیام کا مقصد دعوتی وسیاسی سرگرمی ہی تھا، تعلیمی سرگرمی کے لیے تو خود مدرسہ ہی کافی تھا۔8 پھر بالخصوص یہ مدرسے سے فارغ التحصیل طلبہ کی تنظیم تھی۔ اسی کو ہم یہاں تحریک کے لیے ’معاشرتی صف بندی‘ کا نام دے رہے ہیں۔ یہ تنظیم زیادہ نہ چل سکی، اور ختم ہوگئی۔ ٹھیک انھی خطوط پر کئی سالوں بعد ’جمعیت الانصار‘ قائم کی گئی۔9

جمعیت الانصار کا قیام

حضرت شیخ الہند اپنے ہم خیال افراد کی تیاری میں مصروف تھے ہی کہ ساتھ ہی انھوں نے تعلیمی سرگرمیوں کو سیاسی وانقلابی رخ دینے کے لیے تنظیم سازی کا کام شروع کیا۔ اسی کی مضبوط کڑی ۱۹۱۰ء میں ’جمعیت الانصار‘ کا قیام تھا۔10 اگرچہ اس کا بنیادی تعلق دار العلوم دیوبند کے ساتھ ہی تھا، مگر اس تنظیم کی ہمہ گیری ایسی تھی کہ اس سے تحریکِ قاسمی کے افکار پورے ہند میں پھیلنے لگے تھے۔ تنظیم کی جزئیات میں جانا ہمارا مقصود نہیں، اتنا عرض کرتے چلیں کہ تنظیم کے شعبہ جات کے مطالعہ سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ اس کے دو بڑے مقاصد تھے:

  1. فضلائے علومِ دینیہ میں حضرت شاہ ولی اللہ، شاہ اسماعیل شہید اور الامام الکبیر﷭ کی سیاسی فکر عام کی جائے۔ [اور وہ فکر اس کے سوا کیا تھی کہ ہندوستان میں دوبارہ شوکتِ اسلام کے قیام کے لیے جہاد کیا جائے۔]

  2. ان افکار کو جلسوں اور موتمرات کے ذریعے معاشرے میں پھیلایا جائے۔11

اس تنظیم کا ظاہر وباہر بھی تعلیمی ہی تھا، مگر اس کی چھتری تلے اب خود تعلیم یافتہ طبقے میں سیاسی فکر کی نشوونما تھی اور معاشرے میں اس فکر کا پھیلاؤ تھا۔ اب اس کا ہدف محض طلبۂ مدرسہ نہ تھے، بلکہ معاشرہ تھا۔ اب اپنی فکر کے افراد مدرسہ کے اندر اورباہر ہر دو جگہ بھرتی کیے جا رہے تھے۔ پیہم چار سال تک اس پلیٹ فارم پر کام کیا گیا، کئی بڑے جلسے اور موتمرات ہوئے، اور کئی علمائے کرام کو تنظیمی وانقلابی کاموں میں شامل کیا گیا اور معاشرے میں متعارف کروایا گیا۔

دائرۃ المعارف القرآنیہ

دیوبند کو مرکز بنا کر جمعیت الانصار کے پلیٹ فارم پر چار سال تک مسلسل کام کے بعد حضرت شیخ الہند نے مولانا عبید اللہ سندھی﷫ کو دہلی بھیج دیا اور آپ نے وہاں اپنی محنت شروع کی۔ اس کام کے لیے مولانا عبید اللہ سندھی نے ۱۹۱۳ء میں ’دائرۃ المعارف القرآنیہ‘ کے نام سے ادارہ قائم کیا۔ مقاصد جمعیت الانصار سے مختلف نہ تھے، البتہ اب مدعو میں مزید وسعت پیدا کی گئی اور عصری تعلیم یافتہ طبقے کو بھی شریکِ درس کیا گیا۔ دائرۃ المعارف میں ایک طرف جہادی روح کے ساتھ قرآن کی تعلیم دی جانے لگی12 تو دوسری طرف دہلی میں سیاسی جدوجہد کی تنظیم بندی کے لیے مرکز قائم کیا گیا۔ اسی مرکز میں حضرت شیخ الہند نے دہلی کی مسلم قیادت کو اپنی تحریک میں شامل کیا، جن میں حکیم اجمل خاں، نواب وقار الملک، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا آزاد شامل تھے۔13

تحریک کے لیے مزید مراکز کی فراہمی

الامام الکبیر﷫ کی طرز پر حضرت شیخ الہند﷫ نے بھی شروع سے یہ طرزِ عمل رکھا کہ مدارس قائم کیے جائیں۔ بس یوں سمجھیے کہ حضرت شیخ الہند نے الامام الکبیر﷫ کے خطہ عمل کی توسیع کردی، اور برطانوی اقتدار کے خلاف تحریک کے لیے جا بجا مدارس کا جال بچھانے کی حکمتِ عملی شروع کی۔ بالخصوص جہادی فکر کے حاملین کو مدارس کےقیام پر ابھارا،تاکہ افراد اور مرکز دونوں کی دستیابی کا کام لیا جاسکے۔14

مدرسہ دار الرشاد، گوٹھ جھنڈا پیر

مولانا عبید اللہ سندھی﷫ نے سندھ میں گوٹھ جھنڈا پیر کے اہلحدیث خانوادۂ راشدی کی مدد سے مدرسہ ’دار الرشاد‘ قائم کیا۔ واضح رہے کہ یہ خاندان سید احمد شہید﷫ کی تحریک میں بھی شامل رہا تھا، اور توحید وجہاد کا بھرپور داعی تھا۔15

ملا صاحب سنڈاکے﷫ اور حاجی صاحب ترنگزئی﷫ کے قیامِ مدارس کی کوشش

اسی طرح ملا صاحب سنڈاکے﷫16 اور حاجی صاحب ترنگ زئی﷫ نے بھی مدارس کے قیام کی کوشش کی۔ اور اسی مقصد سے یہ کوشش کی گئی کہ تحریکِ جہاد کو مراکز دستیاب ہوجائیں، جہاں سے تبلیغِ جہاد کا کام لیا جائے اور مجاہدین بھرتی کیے جائیں۔17

مظاہر العلوم سہارنپور

حضرت شیخ الہند﷫ نے حضرت مولانا خلیل احمد صاحب﷫ کو بھی اپنا ہم راز بنالیا تھا جو مظاہر العلوم کے صدر مدرس تھے، اور ہند کے بلند پایہ عالم تھے۔ جیسا کہ آگے آئے گا کہ عملی تحریک کے آغاز میں حضرت شیخ الہند کی مشاورتی مجلسیں یہیں منعقد ہوتی رہیں۔

پھر نہ صرف مدارس بلکہ آپ نے ان کے ساتھ ساتھ خانقاہوں کو بھی اپنی تحریک میں شامل کیا تھا۔ اور کئی شیوخِ طریقت آپ کی تحریک میں شامل رہے۔

رائے پور کی خانقاہ

سب سے بڑی شخصیت تو حضرت مولانا عبد الرحیم رائے پوری﷫ کی تھی۔ آپ حضرت شیخ الہند کے ساتھ پوری تحریک میں متفق تھے، اور اپنے مریدین کو بھی حضرت شیخ الہند کا ہم خیال بنانے کی کوشش کرتے تھے۔ مولانا ابو الحسن علی ندوی﷫ مولانا شیخ الحدیث﷫ کی روایت نقل کرتے ہیں: ’’حضرت شاہ عبد الرحیم صاحب نے کسی موقع پر فرمایا تھا کہ سیاسیات میں جو کچھ مراجعت کرنی ہو، حضرت شیخ الہند کی طرف کی جائے‘‘۔ [سوانح حضرت مولانا عبد القادر رائے پوری؛ ص ۸۰] یہاں تک کہ جب حضرت شیخ الہند عملی تحریک کے زمانے میں حجاز چلے گئے تو تحریک کی سرپرستی آپ ہی کو تفویض ہوئی۔18

دین پور شریف اور امروٹ شریف کی خانقاہیں

مولانا عبید اللہ سندھی﷫ کے مشائخ میں حافظ محمد صدیق صاحب بھرچونڈی والے﷫ اور آپ کے خلفاء میں سے خلیفہ ابو السراج غلام محمد دین پوری﷫ اور مولانا تاج محمود امروٹی﷫ تھے، مولانا سندھی کی وساطت سے یہ دونوں حضرات حضرت شیخ الہند کی تحریک میں شامل ہوگئے۔ یہ دونوں حضرات خود حافظ صاحب کے خلفاء تھے جو بڑے مجاہد اور انگریز کے دشمن تھے۔ یوں رحیم یار خان میں خان پور [دین پور] کی خانقاہ اور سکھر میں امروٹ شریف کی خانقاہ تحریک کا مرکز تھیں19۔

یہ صرف ایک جھلک ہے جو ہم یہاں قارئین کو دکھا رہے ہیں کہ کس طرح حضرت شیخ الہند نے دینی درسگاہوں اور خانقاہوں کو اپنی سیاسی تحریک میں ہم آہنگ بنایا اور یوں تحریک کے لیے مراکز فراہم کیے۔ وگرنہ شاید اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو، کیونکہ حضرت شیخ الہند کے شاگرد ہزاروں میں تھے جو مختلف مدارس میں پھیلے ہوئے تھے اور تاریخ کی کتب میں صریح معلومات درج نہیں کہ ان میں سے کتنے براہِ راست تحریک میں شامل ہوئے۔

تحریکِ قاسمی کا یہ مرحلہ الامام الکبیر﷫ کی وفات سے شروع ہوا اور پہلی جنگِ عظیم کی ابتداء تک جاری رہا۔ یوں قریباً تیس سال کے لگ بھگ کا عرصہ ہے۔ زمانے کے تقاضوں کے سبب ابتداء میں انتہائی کم رفتار سے معاملے کو بڑھایا گیا، مگر آخری دس سالوں میں حضرت شیخ الہند نے رفتار کو تیز کیا اور پچھلے کئی سالوں کی معاشرتی محنت کو سیاسی تنظیم سازی میں بدلنے کی کوشش شروع کر دی، اور لوگوں سے جہاد پر بیعت لینا شروع کردی۔20

تحریکِ قاسمی کا یہ مرحلہ یقیناً پوری تحریک میں سے اہم ترین مرحلہ تھا، کیونکہ اس میں ہندوستان میں ’تحریکِ جہاد‘ کے قیام کی عملی بنیادوں کی فراہمی کا کام کیا گیا جس کے احوال اوپر بیان ہوئے۔ حضرت شیخ الہند کی حکمتِ عملی سے ہمیں درج ذیل باتوں کی طرف بالخصوص رہنمائی ملتی ہے:

اول: اقامتِ دین کی تحریک جب معاشرے میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے کے لیے ایسے ادارے بنائے جن کا براہِ راست مقصد تصادم یا جنگ نہ ہو، بلکہ ان کا ظاہر عمومی دینی خدمت ہو، تو اس سارے عمل کی نگرانی لازم ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان اداروں کا بنیادی مقصد وہی مخصوص دینی خدمت ہی نہ بن جائے اور اعلیٰ مقصد فوت ہوجائے۔ اس کے لیے اول ہی قدم پر ایسا انتظام ہوناچاہیے کہ علم اور فکر کی حد تک جہادی وسیاسی مباحث ایسے اداروں میں فروغ پاتے رہیں اور انھیں زندہ رکھا جائے۔ اگر بروقت یہ کام نہ کیا گیا تو اس بات کا قوی اندیشہ ہوتا ہے کہ اقامتِ دین کی تحریک کے زیرِ اثر قائم کردہ ادارے خود اقامتِ دین کی تحریک کے پاؤں کی زنجیر بن جائیں اور ان اداروں کی مصالح اقامتِ دین کی مصالح پر غالب آجائیں۔ حضرت شیخ الہند نے اس کی بھرپور روک تھام کی کوشش کی۔ اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے اداروں کے کارپرداز اکثر وہی لوگ ہوں جو تحریک کی فکر سے سو فیصد یکسو ہوں اور ان کے سامنے اہداف بھی واضح ہوں۔

دوم: معاشرے میں اپنی تائید پیدا کرنے اور اس کے بعد اس کے بل پر عملی تحریکِ جہاد کھڑا کرنے کے درمیان میں ایک مرحلہ درکار ہوتا ہے، اور وہ ہے معاشرے میں سیاسی صف بندی کا مرحلہ۔ کسی بھی تحریکِ جہاد کے لیے اس وقت تک کامیابی کے امکانات کم ہوتے ہیں جب تک کہ معاشرے کااکثری حصہ اس کے ساتھ کھڑا نہ ہوجائے۔ معاشرے میں تائید پیدا ہو بھی جائے تو وہ معاشرہ براہِ راست صرف ایک صورت میں کھڑا ہوسکتا ہے اور وہ یہ کہ جب دشمن کی طرف سے جنگی وہنگامی صورت پیدا ہوجائے۔ اگر یہ نہ ہو تو پھر معاشرے کی از خود سیاسی صف بندی کیے بغیر جنگ اور جہاد کی طرف معاشرے کو نہیں لےجایا جاسکتا۔ یہ سیاسی صف بندی سیاسی تنظیم سازی کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ اس کے لیے اقامتِ دین کی تحریک کے لیے ناگزیر ہوتا ہے کہ وہ معاشرے میں سیاسی تنظیم سازی کرے اور اس کے مطابق افراد کو معاشرے میں متحرک کر دے۔پھر یہی سیاسی تنظیم آگے چل کر جنگ میں قیادت اور مرکز کا کردار ادا کرتی ہے۔ یہ عمل انتہائی ہوشیاری اور کمال حکمت مانگتا ہے، اور اسی عمل کے ذریعے مختلف دینی ادارے اور معاشرے کے مختلف طبقے ایک لڑی میں پروئے جاتےہیں اور ایک دھارے میں بہنے لگتے ہیں۔ جس قدر مستحکم صف بندی کی جائے گی، اسی قدر آگے چل کر مستحکم تنظیمِ جہاد کھڑی ہوگی۔ حضرت شیخ الہند نے اپنے تئیں یہ کام بخوبی کرنے کی کوشش کی۔ تاہم بہت سے اسباب ایسے پیش آئے جس کے سبب بعض خامیاں باقی رہ گئیں اور پھر وقت بھی کچھ تیزی کا متقاضی تھا،جیسا کہ اگلے مرحلے میں بیان ہوگا۔

سوم: اقامتِ دین کی تحریک کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ اپنے معاشرے کے عمومِ مسلمین کو اپنے ساتھ لے کر چلنی والی ہو اور اس کی سیاست ایسی ہو کہ سبھی اس کی قیادت تلے جمع ہوجائیں۔ اس کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہوتی ہے کہ وہ معاشرے کے مختلف الفکر طبقات کو اپنے ساتھ جوڑلے۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب قیادت کے یہاں وسعت ہو، اور تنگ نظری یا تعصب نہ ہو۔ اگر کوئی تحریک مسلم معاشروں میں اپنے آپ کو خاص مسلک سے جوڑے جبکہ دیگر مسالک بھی موجود ہوں21، اور چاہے کہ دوسرے تمام مسالک بھی اسی مسلک میں خود کو ضم کر دیں، تو ایسی تحریک اول تو اقامتِ دین کی درست فکر سے محروم ہے کہ اس کے یہاں حق کا معیار خود اس کا اپنا فرقہ، طائفہ یا مسلک ہے نہ کہ معیارِ سنت وجماعت، اور دوم یہ کہ جب وہ تحریک کسی خاص مسلک کی چھاپ لے کر اٹھے گی تو دوسرے مسالک ومکاتب کی تائید سے خود ہی ہاتھ دھو بیٹھے گی اور اپنی منزل کو خود دشوار بنالے گی۔

یہ تو ہم نے مذہبی فکر کے اعتبار سے مسلک وفرقہ کے تعصب کی بات کی، جس کے سبب اقامتِ دین کی تحریک مفید نتائج سے محروم رہتی ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ تحریک کی قیادت اپنی سیاسی سوچ میں بہت محدود ہوتی ہے اور حالات کے موافق اس میں لچک موجود نہیں ہوتی…… واضح رہے کہ شریعت کے دائرۂ سیاست کے اندر کی بات ہو رہی ہے…… اور وہ چاہتی ہے کہ اسی کی سیاسی فکر کی من وعن تابعداری کی جائے۔ واقعاتی دنیا میں ایسی قیادت بھی زیادہ کامیابی حاصل نہیں کرپاتی، کیونکہ ایک تومباحات کے دائرے میں اس نے تنگی کی، دوسرا مختلف اہل اللہ کی رائے کی اجتماعیت سے جو خیر برآمد ہونی تھی اس کا دروازہ بند کیا، اور تیسراحالات واحوال کے موافق لچک پیدا نہ کی۔ یہ ایک انتہا کا ذکر ہم نے کیا، اس کی دوسری طرف بھی انتہا ہے جس کا ذکر بھی ضروری ہے؛ وہ یہ کہ قیادت کے یہاں سیاسی فکر میں کوئی بندھن اور حدود ہی نہ ہو، کہ حالات جس طرف بھی کھینچ کر لے جائیں اسی طرف چل دے، اور سیاسی فکر حالات کے ہاتھوں یرغمال ہو۔ ایسی قیادت بھی تحریک کی ناکامی کا سبب بن جاتی ہے۔

حضرت شیخ الہند کو اگرچہ اپنے اساتذہ اور بالخصوص الامام الکبیر﷫ سے بےحد محبت وعقیدت تھی، اور وہ اپنے مسلک میں بہت متصلب تھے، مگر یہ تصلب آپ کی سیاسی تحریک میں کبھی رکاوٹ نہ بنا اور آپ نے اپنی سیاسی تحریک کا عنوان کبھی ’دیوبندیت‘ نہ بننے دیا۔ آپ نے دیگر دینی مکاتبِ فکر کو بھی اپنے ساتھ اقامتِ دین کی تحریک میں بھرپور شریک کیا، کیونکہ جس دین کے قائم کرنے کی تحریک ہے وہ تو سبھی کا ساجھا ہے اور سبھی اسی کے دعویدار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ سندھ کا اہل حدیث خانوادہ راشدی بھی آپ کے ساتھ شریک ہے، مولانا آزاد کی طرح آزاد طبیعت کا عالم بھی آپ کے ہمراہ ہے، فرنگی محل اور پنجاب کے علماء بھی اپنے مسالک کے ساتھ آپ کے ہمرکاب ہیں22، خانقاہی سلسلوں کے بزرگ بھی آپ کے ساتھ ہیں، تو ہندوستان کے معقولی علماء بھی گرویدہ ہیں23، اور تو اور علی گڑھ کے جدید تعلیم یافتہ دنیادار بھی آپ کی صف میں شامل ہیں جن میں سے بعض ظاہراً متدین ومتشرع بھی نہ تھے24۔ نواب وقار الملک، مولانا محمد علی جوہر اور حکیم اجمل خاں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں25۔ حضرت شیخ الہند نے ان سب طبقات کو اپنی تحریک میں کامیابی سے شامل کیا۔

پانچواں مرحلہ: تحریکِ جہاد کا قیام

حضرت شیخ الہند اپنی رفتار سے تحریکِ جہاد کی تنظیم سازی اور صف بندی کر رہے تھے، اور لوگوں سے بیعتِ جہاد لے رہے تھے، کہ اسی اثناء میں ۱۹۱۴ء میں پہلی جنگِ عظیم چھڑ گئی، جس میں برطانیہ خلافتِ عثمانیہ سے برسرِ پیکار تھا۔ اب حضرت شیخ الہند کے سامنے عملی جہاد کا موقع آن کھڑا ہوا۔ اور انھوں نے یہی مناسب سمجھا کہ اب برصغیر میں برطانوی حکومت کے خلاف مسلح جنگ شروع کر دینی چاہیے۔26 کیونکہ خلافت کے دفاع کا بھی تقاضا ہے کہ یہاں برطانیہ کے خلاف جنگ کی جائے تو دوسری طرف خود برطانیہ دوسری جگہوں پر جنگ میں مصروف ہے تو اس کے لیے ایک اور محاذ بڑھایا جائے۔ یوں امید تھی کہ خلافت کا دفاع بھی ہوسکے گا اور ہندوستان کی آزادی کے لیے بھی امکانات بن پائیں گے۔ چنانچہ حضرت شیخ الہند نے اپنی ساری سیاسی سرگرمیوں کا محور اب عملی جہاد کے قیام کو بنا لیا، سبھی متعلقین کو براہِ راست جہادی اقدامات کی طرف متوجہ کیا27، اور اسی کے لیے حکمتِ عملی بنائی۔

تحریک کے مراکز

حضرت شیخ الہند کی تحریک کے اس وقت تک درج ذیل مراکز قائم ہوچکے تھے:

۱۔ دیوبند؛ جہاں خود حضرت شیخ الہند ابھی تک موجود تھے، اور آپ کے معاون مولانا احمد اللہ صاحب پانی پتی﷫ تھے۔ مولانا منصور انصاری﷫ اور مولانا عزیرگل﷫ بھی اس وقت تک وہیں موجود تھے جو بنیادی طور پر حضرت شیخ الہند کے لیے سفارت کا کام کرتے تھے۔ آگے چل کر جب حضرت شیخ الہند نے یہ مقام چھوڑا تو یہاں کے فروعی کام مولانا احمد اللہ صاحب اور اصل نظامت حضرت رائے پوری کے ہاتھ میں تھمائی28۔

۲۔ یاغستان؛ یہاں حاجی صاحب ترنگ زئی﷫ امیر تھے اور ان کی معاونت کے لیے حضرت شیخ الہند نے اپنے کئی مصاحبین کو بھیجا تھا، جس کا ذکر ابھی آئے گا۔ وہ ملا صاحب سنڈاکے﷫ اور اہلِ سوات سے بھی رابطے میں تھے، اور جماعتِ مجاہدین سے بھی اتصال تھا۔

۳۔ دہلی؛ یہاں ڈاکٹر مختار احمد انصاری مرحوم کاموں کو منظم کر تے تھے۔ جب مولانا عبید اللہ یہاں آئے تو یہ خود ان کے ساتھ معاون ہوگئے، اور آپ کے جانے کے بعد دوبارہ سارے امور کی نگرانی خود کرنے لگے۔29 بعض امور میں مولانا آزاد بھی شامل ِ عمل تھے۔

۴۔ دین پور شریف [رحیم یار خان]؛ خلیفہ غلام محمد دین پوری﷫ کی پوری خانقاہ ہی تحریک کا بنیادی مرکز بنی ہوئی تھی۔

۵۔ امروٹ شریف[سکھر]؛ یہاں مولانا تاج محمود امروٹی﷫ متحرک تھے۔30

۶۔ کراچی؛ مولانا محمد صادق صاحب﷫ فعال تھے۔

۷۔ چکوال؛ یہاں مولانا محمد احمد صاحب چکوالی﷫ صدر تھے۔31

ان مراکز پر نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قلبِ ہند دیوبند ودہلی کے علاوہ سرحد، پنجاب اور سندھ کے مسلم اکثریتی علاقوں میں حضرت شیخ الہند کی تحریک کا زور تھا۔32

جنگ کی حکمتِ عملی

تحریک کی جو تفصیلات مدون ہوئی ہیں، ان کے مطالعہ اور استقراء سے حضرت شیخ الہند کی ابتدائی حکمتِ عملی کے درج ذیل نکات معلوم ہوتے ہیں:

أ۔

یاغستان کو جہاد کا مرکز بنایا جائے اور وہاں سے برطانوی حکومت کے خلاف جنگ شروع کی جائے،

ب۔

باقی ہند کے مراکز کو اول جنگ کی رسد وکمک کا مقام رکھا جائے، اور دوم یہاں برطانیہ کے خلاف جنگ میں رائے عامہ ہموار اور سیاسی ماحول مجاہدین کےحق میں کیا جائے اور انقلاب کا ماحول پیدا کیا جائے۔

ج۔

رفتہ رفتہ جنگ کا دائرہ یاغستان سے دوسرے مراکز کی طرف پھیلایا جائے۔

 یہ قریب قریب وہی خطہ عمل تھا جو ہمیں سید احمد شہید﷫ اور شاہ اسماعیل شہید﷫ کی تحریک میں ملتا ہے۔

مرکزِ یاغستان سے جنگ کی ابتداء

اسی کےپیشِ نظر حضرت شیخ الہند نے مولانا منصور انصاری کے ذریعے حاجی صاحب ترنگ زئی کو پیغام پہنچایا کہ وہ یاغستان پہنچ کر جنگ شروع کردیں۔33 پھر یہاں سے اپنے کئی مصاحبین کو یاغستان کی طرف جہاد کی غرض سے ہجرت کروائی، جن میں مولانا سیف الرحمن قندھاری، مولانا فضل ربی، مولانا محمد اکبر، مولانا فضل محمود﷭ وغیرہ شامل ہیں۔ یہ سب حضرات وہاں سے جنگ کو منظم کرنے میں لگ گئے۔ علمائے کرام نے ایک طرف جا بجا تحریضِ جہاد کے بیانات شروع کیے34 تو دوسری طرف مقامی قبائل اور خوانین میں اتفاق پیدا کرنے کی سعی کی35۔ پھر سب نے مل کر حاجی صاحب کی قیادت میں جنگ شروع کردی۔36

خود حضرت شیخ الہند کا ارادہ یہی تھا کہ یہاں داخلِ ہند کا نظامِ رسد وکمک مستحکم کرکے خود یاغستان تحریکِ جہاد کی قیادت کرنے پہنچیں گے۔ مگر حکمتِ عملی میں کچھ تبدیلی لانی پڑی جس کا ذکر آگے آئے گا۔

یاغستان کی طرف حاجی صاحب ترنگ زئی﷫ نے جنگ شروع کردی۔ دوسری طرف اہلِ سوات نے بھی ملا صاحب سنڈاکے﷫ اور سید عبد الجبار ستھانوی﷫ کی قیادت میں انگریزوں سے جنگ چھیڑ دی۔ تیسری طرف جماعتِ مجاہدین کے مرکز ’چمرقند‘ کے مجاہدین بھی ان کے ساتھ جنگ میں شامل ہوگئے37۔

بلوچستان میں بغاوت

یہی نہیں ، بلکہ مولانا محمد صادق صاحب﷫ نے کراچی مرکز سے ’بس بھیلا‘ [لس بیلا] کے بلوچ قبائل کو بھی آمادہ کرکے بلوچستان میں بغاوت کرادی تھی جس کے سبب وہ فوج اور کمک جو کراچی سے ہرہفتے عراق جنگ کے لیے جاتی تھی، یہیں مصروف ہوگئی38۔

داخلِ ہند میں انقلاب کی تیاری

پھر جنگ کا دائرہ بڑھانے کی تیاری میں تحریک کے مرکز ’دین پور‘ میں اسلحہ اور کارتوس وغیرہ سامان بہم پہنچا دیا گیا تھا۔ تاہم وہ کام میں نہ لایا جاسکا۔39 اس کے علاوہ کسی جگہ کی بابت راقم کو معلومات نہیں ملیں کہ وہاں بھی جنگی سامان جمع کیا گیا تھا، تاہم بہت ممکن ہے کہ کئی مقامات پر جنگ کی تیاری کی گئی ہو۔

جنگ کی صورتحال اور حکمتِ عملی میں تبدیلی

ابتداء میں حاجی ترنگ زئی صاحب﷫ کی قیادت میں مجاہدین کو خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی، اور کئی جنگوں میں انگریزوں کا بےحد نقصان ہوا۔ لیکن چونکہ مجاہدین بے سروسامان تھے اور انگریزوں کے مقابلے میں ان کی عسکری صلاحیت بہت محدود تھی۔ اس لیے وہاں سے یہ درخواست آئی کہ آزاد مسلم حکومتوں کا عملی تعاون حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔

ابھی تک حضرت شیخ الہند کے ذہن میں یہی تھا کہ وہ داخلِ ہند کی انتظامی صورتحال بہتر کرکے خود یاغستان ہجرت کر جائیں گے اور وہاں سے بھرپور جنگ شروع کریں گے، لیکن تازہ صورتحال دیکھ کر حکمتِ عملی میں کچھ تبدیلی لانی پڑی، بالآخر یہ طے کیا کہ ایک طرف خلافتِ ترکی سے تعاون حاصل کیا جائے، اور دوسری طرف افغانستان کی مسلم حکومت کو اس جنگ کی پشت پر کھڑ ا کرنے کی کوشش کی جائے۔ ثانی الذکر کے لیے مولانا عبید اللہ سندھی صاحب کو تیار کیا کہ وہ کابل چلے جائیں اور اس کی کوشش کریں، اور خود حجاز جا کر وہاں سے خلافتِ عثمانیہ کے وزیرِ حرب انور پاشا سے ملاقات کا تہیہ کرلیا۔40حضرت شیخ الہند کے سفر کامقصد ترکوں سے بنیادی تائید لے کر واپس مرکز یاغستان پہنچ کر جہاد وجنگ کی قیادت کرنا تھا41۔

حضرت شیخ الہند﷫ کا سفرِ حجاز اور ترکی خلافت کا تعاون

چنانچہ حضرت شیخ الہند﷫ نے اپنے خاص رفقاءکے ساتھ مشاورت کی، کئی دن تک مدرسہ مظاہر العلوم میں مشورہ ہوتارہا۔42 بالآخر حضرت رائے پوری﷫ کو اپنا نائب بنا کر حضرت شیخ الہند﷫ نے حجاز کے سفر کا عزم کیا، حضرت سہارنپوری﷫ کو بھی سفر کا حکم ہوا، نیز بعض دیگر اصحاب بھی ساتھ شامل ہوگئے۔ یوں حضرت شیخ الہند کا قافلہ ذیقعدہ ۱۳۳۳ھ میں حجاز پہنچا۔ حج کے مناسک بھی ادا کیے اور مکہ معظمہ میں ہی خلافتِ عثمانیہ کی طرف سے گورنر حجاز ’غالب پاشا‘ سے ملاقات کی۔ملاقات میں حضرت شیخ الہند نے اپنا مقصد بھی بیان کیا اور اس کے لیے خلافت کے وزیرِ حرب انور پاشا کی ملاقات کی استدعا کی۔ غالب پاشا نے حضرت شیخ الہند کی تمام باتوں کی تائید کی۔ اپنی حیثیت سے ایک تحریر اہلِ ہند کے نام لکھی جس میں انھیں انگریزوں سے آزادی کے لیے اٹھنے کی ترغیب تھی، یہ تحریر ہندوستانی تاریخ میں ’غالب نامہ‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اسی طرح انور پاشا سے ملاقات کے لیے حضرت شیخ الہند کی استنبول روانگی کی بھی ترتیب طے کی۔

حضرت شیخ الہند مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ چلے گئے، مناسک بھی ادا کیے اور وہاں استنبول جانے کی تیاری میں تھے کہ خلافتِ عثمانیہ کے وزیرِ حرب انور پاشا اور گورنر شام جمال پاشا مدینہ منورہ پہنچ گئے۔ چنانچہ وہاں ان دونوں سے تخلیہ میں ملاقات ہوگئی۔ ان دونوں نے بھی غالب پاشا کی طرح حضرت شیخ الہند کی تحریک کی حمایت کی اور پورے ہندوستان کی آزادی کے لیے کام کرنے پر زور دیا، تاکہ عالمی ممالک کی کانفرنس میں خلافت اس نکتے کو اٹھاسکے اور ہند کی آزادی کے لیےعالمی سطح پر برطانیہ پر سیاسی دباؤ ڈال سکے۔ اس کے لیے ان حضرات نے یہ یقین دہانی چاہی کہ خود ہندوستان میں کامل آزادی کے لیے سیاسی فضا بنائی جائے۔ ان حضرات نے اس مقصد کے لیے تحریرات بھی دینے کی ہامی بھری، اور بعد میں دیں بھی۔ حضرت شیخ الہند نے ان سے یہ گزارش بھی کی کہ حضرت شیخ الہند کے لیے ایران و افغانستان کے راستے یاغستان پہنچنے کی ترتیب بنادی جائے، تاکہ حضرت شیخ الہند محفوظ طریق پر یاغستان پہنچ سکیں۔43

اب حضرت شیخ الہند کے سامنے عملی کام واضح تھا، اور وہ جس مقصد سے حجاز گئے تھے، وہ حاصل ہوگیا تھا۔ حضرت شیخ الہند کے سامنے اب درج ذیل امور کی انجام دہی تھی:

اول: غالب نامہ اور دیگر تحریرات جلد سے جلد ہندوستان پہنچائی جائیں اور وہاں پھیلائی جائیں۔ اسی طرح یاغستان بھی پہنچا دی جائیں، کیونکہ مسلمانوں کے لیے برطانیہ کے خلاف اٹھنے میں ان تحریرات کا معنوی کردار ہر عاقل سمجھ سکتا ہے۔

دوم: اس موقع پر ہندوستان میں آزادی کی عمومی سیاسی فضا بنا دی جائے، اور وہاں کے سیاسی لیڈران اور جماعتوں کو اسی منشور پر چلنے کے لیے تیار کیا جائے۔44

سوم: خود یاغستان پہنچیں تاکہ جہادی تحریک کو مزید مضبوطی سے آگے بڑھائیں، کہ اسی کے زور پر کامل آزادی کا حصول ممکن ہوسکتا تھا۔

حضرت شیخ الہند نے تحریرات کے بھجوانے کا بھی انتظام فرما دیا اور اپنے پیغامات بھی ہندوستان میں اپنے کارندوں اور سیاسی لیڈروں تک پہنچا دیے۔ اب محض اپنے سفرِ یاغستان کے انتظار میں ٹھہر گئے۔ یہ ۱۹۱۵ء کے اواخر کی بات ہے۔ گویا یہاں تک سفرِ حجاز کامیاب رہا۔

مولانا عبید اللہ سندھی﷫ کا سفرِ کابل

حضرت شیخ الہند نے حجاز روانگی سے قبل مولانا عبید اللہ سندھی کو ……جو اس وقت دہلی کے مرکز میں مصروف تھے…… کہا کہ وہ کابل چلے جائیں۔ آپ کے ذمے دو بنیادی کام تفویض ہوئے؛ اول: افغانستان کی مسلم حکومت کو آزادیٔ ہند کے لیے قائم تحریکِ جہاد کی پشتیبانی کے لیے تیار کیا جائے، دوم: یاغستان کی تحریکِ جہاد کے لیے جنگی کیمپ بنایا جائے۔45 مولانا عبید اللہ سندھی اگست ۱۹۱۵ء میں افغانستان میں داخل ہوئے۔46 خاصی محنت سے آپ نے وہاں کے دربار میں رسائی حاصل کی۔ تاہم امیر حبیب اللہ برطانیہ سے خائف تھا اور اس کی طرفداری بھی کر رہا تھا۔ اس لیے وہ خاص حمایت پر آمادہ نہ ہوا۔ البتہ نائب السلطنت امیر امان اللہ حمایت کرتے رہے۔ انھی کی حمایت سے مولانا عبید اللہ سندھی نے ’جنود اللہ‘ کے نام سے ایک تنظیم بنائی جس میں ہندوستانیوں کو شامل رکھا۔ جب تک امیر حبیب اللہ حاکم رہا، تحریکِ آزادی کو کچھ خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا۔ بلکہ برطانیہ اور امیر کی مشترکہ سازش سے یاغستان کا جہاد بھی کمزور پڑگیا۔ کیونکہ برطانیہ نے وہاں یہ پروپیگنڈا کیا کہ امیر کے بغیر جہاد نہیں، اور مسلمانوں کا امیر تو امیر حبیب اللہ ہے۔ دوسری طرف یہ امیر حبیب اللہ اپنی بیعت کے لیے وکیل بھجواتا رہا کہ یاغستان کے تمام لوگ اس کی بیعت کریں،اور جب وہ اعلانِ جہاد کرے تو جہاد شروع کیا جائے۔ برطانیہ سے ساز باز کے سبب امیر حبیب اللہ نے اعلانِ جہاد نہ کیا اور وہاں کے مخلص مجاہدین کا عملی جہاد بھی رک گیا۔47

البتہ ہندوستان کی آزادی کی کچھ سیاسی حمایت ہوسکی۔ وہ اس طرح کہ امیر نے راجہ مہندر پرتاب کی قائم کردہ حکومتِ موقتہ ہند کی رسمیت مان لی تھی۔ مولانا عبید اللہ نے یہی بات ریشمی رومال پر لکھ کر حضرت شیخ الہند کی طرف بھجوائی تھی جو پکڑی گئی۔ حضرت شیخ الہند اس صورتحال سے بے خبر تھے، اور حکومتِ موقتہ کی تجویز اور اس میں شمولیت نہ حضرت شیخ الہند کے مشورے سے تھی اور نہ ان کا مطمح نظر۔ یہاں تک کہ جب ریشمی رومال پکڑا گیا تو برطانیہ کے دباؤ پر مولانا عبید اللہ سندھی اور دیگر حضرات کو بھی حکامِ افغانستان نے گرفتار کر لیا۔

یوں جو حضرت شیخ الہند کا جو منصوبہ تھا کہ افغانستان کی زمین سے آزادی ہند کی تحریک کو زمینی وسیاسی تائید میسر آئے گی، وہ پورا نہ ہوسکا۔ الٹا تحریکِ جہادِ یاغستان کو نقصان پہنچا۔ گویا سفرِ کابل اس تحریک میں خاطر خواہ فائدہ نہ دے سکا۔

حجاز میں بغاوت اور حضرت شیخ الہند﷫ کی گرفتاری

دوسری طرف جنگِ عظیم میں بھی صورتحال خلافتِ عثمانیہ اور ترکوں کے حق میں نہ رہی اور وہ شکست سے دوچار ہونے لگے۔ دریں اثناء اتحادی حکومتوں کے زیرِ اثر شریفِ مکہ نے عثمانیوں کے خلاف حجاز میں بغاوت کردی، اور حجاز پر قابض ہوگیا۔ اس نے برطانیہ کے کہنے پر حضرت شیخ الہند کو گرفتار کر کے برطانیہ کے حوالے کردیا۔ یہ ۱۹۱۶ء کے اواخر میں ہوا۔ حضرت شیخ الہند کو اپنے تین رفقاء کے ساتھ مالٹا کے جزیرے میں لے کر قید کردیا گیا، جہاں آپ نے قریباً ساڑے تین سال قید گزاری۔ اور جون ۱۹۲۰ء میں رہا ہو کر واپس ہندوستان پہنچے۔

مولانا عبید اللہ سندھی کے ریشمی رومال کے پکڑے جانے سے ہندوستان بھر میں کارپردازانِ تحریک کی پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی اور اکثر زیرِ حراست آگئے، دوسری طرف قائدِ اعلیٰ حضرت شیخ الہند بھی گرفتار کر لیے گئے، تیسری طرف مولانا عبید اللہ سندھی کو بھی نظر بند کردیا گیا۔ اب کوئی دوسرا فرد ایسا باقی محفوظ نہ بچا تھا کہ دوبارہ سے تنظیم بندی کرتا اور قائد کی گرفتاری میں تحریک کو آگے بڑھاتا۔ یوں عملی تحریکِ جہاد رک گئی۔ مگر اس کے باوجود تحریک یکسر ختم نہ ہوسکی۔ حضرت شیخ الہند کے پایۂ استقلال میں اب بھی لغزش نہ آئی، آپ کا عزم پیرانہ سالی کی قید ومشقت سے بھی کمزور نہ پڑا۔ آپ جب رہا ہوئے تو پھر آگے بڑھے، اور اگلہ مرحلہ شروع ہوا۔

تاہم اگلے مرحلے پر بات کرنے سے قبل یہاں ٹھہر کر چند نکات پر نظر ڈالتے ہیں۔ تحریکِ جہاد کی ناکامی کے اسباب پر طویل کلام ہوسکتا ہے اور اس کے کئی جوانب پر بحث ہوسکتی ہے۔ عسکری زاویوں سے کسی بھی عسکری تحریک کی کارکردگی کو بخوبی جانچا جاسکتا ہے، اور ناکام نتائج کی بابت عملی پہلووں میں خامی وکوتاہی کی کئی بنیادیں فراہم کی جاسکتی ہیں۔اس تحریک کا عسکری تجزیہ ہماری تحریر کی وسعت سے باہر ہے۔ ہمیں یہاں عمومی اسباق سے غرض ہے، اور اس میں بھی خوبیوں [ایجابی پہلووں] کی طرف نشاندہی اور ان کی ترغیب ہمارا مطمحِ نظر ہے، جبکہ مختصراً سلبی پہلووں کی طرف اشارہ مقصودہے۔ چنانچہ ہم عرض گزار ہیں کہ:

اول: حضرت شیخ الہند﷫ کے نزدیک ہند کی تحریکِ آزادی میں جہاد وقتال کا مقام بنیادی اور مسلّم تھا۔ یہ سبق آپ نے اپنے استاذ الامام الکبیر﷫ سے ہی سیکھا تھا، اور آغاز سے ہی آپ اس کی تیاری میں مصروف تھے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ غاصب قوت کا مقابلہ قوت سے ہی ہوسکتا ہے، اور اس کی فراہمی کا سب سے اونچا درجہ جہاد وقتال ہے۔ اقامتِ دین کی تحریک کے سامنے اگر باطل اس طرح کھڑا ہو کہ کفر کی بالادستی ہو، تو ایک وقت آتا ہے کہ اس سے تصادم ناگزیر ہوجاتا ہے۔ اور جب تک باطل کا سر جہاد [مسلح تصادم] کے ذریعے نہ کچلا جائے، اسلام اور مسلمانوں کے حق میں کما حقہ نتائج حاصل نہیں ہوتے۔ جہاد کے بغیر تحریکات کے ذریعے باطل کے مقابلے میں جزوی نتائج ضرور حاصل ہوسکتے ہیں، لیکن کفر کی مکمل زوال پذیری اور اسلام کا کامل غلبہ نہیں ہو پاتا، باطل اپنی باقیات بچانے میں کامیاب رہتا ہے، اور مسلمان کامل آزادی اور کامل عزت سے محروم رہتے ہیں، جیسا کہ آئندہ آنے والے سالوں میں برصغیر کی تاریخ نے ظاہر کیا۔

اس کا ایک مزید پہلو بھی تھا جو حضرت شیخ الہند﷫ کے یہاں نظر آتا ہے، اور وہ یہ کہ جس دین کے اقامت کی تحریک چلائی جاتی ہے، اس دین کا ذروۃسنام اور اعلیٰ ترین فرض جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ اگر اسی کو دین سے نکال دیا جائے تو وہ دین ہی ناقص ہوجائے گا۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس اسلام کی بیعت ہی قبول نہ کی جس میں جہاد نہ ہو۔

پس حضرت شیخ الہند﷫ کے یہاں یہ نکتہ واضح تھا، آپ اسی بنیاد پر مسلمانوں سے بیعتِ جہاد لیتے رہے، اور زندگی کے آخری لمحات میں بھی یہی کہتے ہوئے ہم سے رخصت ہوئے کہ:

’’مرنے کا تو کچھ افسوس نہیں، مگر افسوس ہے کہ میں بستر پر مر رہا ہوں، تمنا تو یہ تھی کہ میں میدانِ جہاد میں ہوتا اور اعلائے کلمۃ الحق کے جرم میں میرے ٹکڑے کیے جاتے‘‘۔48

[جاری ہے، ان شاء اللہ]


1 یہ الفاظ حضرت مولانا حسین احمد مدنی﷫ نے نقل فرمائے ہیں۔ دیکھیے: ملفوظات مدنی مرتبہ مولانا ابو الحسن بارہ بنکوی، ص ۱۸۔ مولانا محمد میاں صاحب﷫ نے ’علمائے حق‘ میں یوں لکھا ہے: ’’۱۲۹۷ھ میں حجۃ الاسلام قدس اللہ سرہ العزیز کی وفات ہوئی تو امامِ ربانی نے فرمایا کہ سالارِ قافلہ چل بسا جو کسی وقت خود بھی شہید ہوتا اور ہمیں بھی قربان کراتا‘‘۔ [علمائے حق اور ان کے مجاہدانہ کارنامے؛ ص ۸۴]

2 مولانا میاں اصغر حسین﷫ لکھتے ہیں: ’’حضرت مولانا قاسم صاحب کے علوم وکمالات مختلف فیض یافتہ اور خوشہ چینوں کو نصیب ہوئے، مگر مظہر تام اپنے استاد کے کمالات کے حضرت مولانا شیخ الہند ہی تھے‘‘۔ [حیات شیخ الہند؛ ص ۲۱۶]

3 مولانا غلام رسول مہر﷫ لکھتے ہیں: ’’میرے مطالعہ اور غور وفکر کا نچوڑ یہ ہے کہ حضرت شیخ الہند اپنی عملی زندگی کے آغاز ہی میں ایک نقشہ عمل تیار کرچکے تھے، اور اسے لباسِ عمل پہنانے کی کوششیں انھوں نے اس وقت سے شروع کردی تھیں جب ہندوستان کے اندر سیاسی سرگرمیاں محض برائے نام تھیں‘‘۔ [سرگزشتِ مجاہدین، ص ۵۲۹]

4 حضرت مولانا حسین احمد مدنی﷫ لکھتے ہیں: ’’بہرحال حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے تمام خطرات سے قطع نظر کرنا ضروری سمجھا اور ’ہرچہ باد اباد من کشتی در آب انداختم‘ کہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا نام لے کر بحرِ زخار اور ہولناک طوفان میں کود کر آگے بڑھے، اور لوگوں کو ہم خیال اور رفیقِ سفر بنانے لگے…… اپنے تلامذہ اور مخلص مریدوں کو اپنا ہم خیال بناتے رہے‘‘۔ [نقشِ حیات؛ ص ۵۵۲] آگلے صفحے کے حاشیہ میں لکھتے ہیں: ’’چونکہ مولانا شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ تقریباً پچاس برس سے مسندِ تدریس پر متمکن رہے تھے، اس لیے مخلص شاگردوں اور جانباز معتقدوں کی تعداد ہزاروں سے زیادہ تھی۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے عموماً انھی لوگوں کو اپنا ہم خیال بنا کر مشنِ تحریکِ آزادی میں شریک کیاتھا‘‘۔ [ص ۵۵۳]

5 مولانا محمد میاں﷫ لکھتے ہیں: ’’اکابر سے موثق طور پر سنا ہے کہ حضرت شیخ الہند قدس اللہ سرہ العزیز نے اس تحریک سے پیشتر حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب رائےپوری، حضرت مولانا احمد حسن صاحب امروہی، حضرت مولانا خلیل احمد صاحب مدرس مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور، اور حضرت مولانا اشرف علی صاحب قدس اللہ سرہ العزیز کو جمع کرکے زمانہ کی موجودہ ضرورتیں ان کے سامنے پیش کیں۔ حضرت مولانا اشرف علی صاحب نے تو ضعفِ قلب کا عذر کرکے معذرت کردی، اور باقی سب حضرات نے موافقت فرمائی‘‘۔ [علمائے حق؛ ص ۱۳۳]

6 مولانا محمد میاں﷫ لکھتے ہیں: ’’ہندوستان کے دیگر زعماء مثلاً ڈاکٹر انصاری، حکیم اجمل خاں، مولانا محمد علی صاحب مرحوم، مولانا ابو الکلام صاحب آزاد حضرت شیخ الہند سے وابستہ تھے۔ ڈاکٹر انصاری تو باقاعدہ حضرت شیخ سے بیعت تھے‘‘۔ [علمائے حق اور ان کے مجاہدانہ کارنامے؛ حصہ اول، ص ۱۳۴]

7 مولانا محمد میاں﷫ لکھتے ہیں: ’’باخبر حضرات واقف ہیں کہ ۱۸۷۸ء میں حضرت شیخ الہند اور آپ کے احباب نے فضلاء اور بہی خواہانِ تحریکِ دار العلوم دیوبند کی ایک جماعت بنائی تھی۔ جس کا نام ’ثمرۃ التربیت‘ یعنی تعلیم وتربیت کا پھل تھا۔ ایک عرصہ تک اس جماعت نے کام کیا۔ مگر پھر وہ بظاہر سست پڑگئی۔ اور تیس سال بعد ایک دوسرے نام سے اس کا ظہور ہوا‘‘۔ [اشارہ جمعیت الانصار کی طرف ہے] [علمائے حق اور ان کے مجاہدانہ کارنامے؛ حصہ اول، ص ۱۰۲]

8 مولانا اسجد قاسمی ندوی لکھتے ہیں: ’’سب سے پہلے آپ نے اپنے استاذ حضرت نانوتوی کی ایماء پر اپنے رفقاء کے ساتھ ۱۲۹۵ھ میں ایک تنظیم انجمن ثمرۃ التربیت کے نام سے بنائی۔ یہ بظاہر دار العلوم کے ابنائے قدیم کی ایک اجتماعی تنظیم تھی، جو درحقیقت آزادیٔ وطن اور جہادِ حریت کا اصل مشن آگے بڑھانے کے مقصد سے وجود میں آئی تھی‘‘۔ [حضرت شیخ الہند، شخصیت، خدمات وامتیازات؛ ص ۱۶]

9 الامام الکبیر﷫ کے ایک دوسرے شاگرد اور حضرت شیخ الہند﷫ کے رفیق مولانا احمد حسن امروہی﷫ نے جمعیت الانصار کے مرادِ آباد کے جلسے میں فرمایا: ’’جمعیت الانصار کی تحریک غالباً اب سے تیس برس پہلے شروع ہوگئی تھی…… لیکن یہ تحریک اس وقت ضروریاتِ زمانہ سے متعلق نہ تھی،اس لیے رک گئی، اور آخر اس کلیہ کی بنا پر کہ ضرورت ہر چیز کو خود بخود پیدا کر دیتی ہے۔ ۱۳۲۷ھ سے اس انجمن کو دوبارہ زندہ کرکے جمعیت الانصار نام رکھا گیا‘‘۔ [علمائے حق؛ حصہ اول، ص ۱۳۴]

10 علامہ سید سلیمان ندوی﷫ لکھتے ہیں: ’’اسی زمانہ میں مولانا عبید اللہ سندھی، حضرت مولانا شیخ الہند رحمہ اللہ تعالیٰ کی طلب پر دیوبند میں آکر مقیم ہوئے تھے، ان کا مشن یہ تھا کہ دیوبند پر جو تعلیمی فضا محیط ہوگئی تھی اور سید احمد شہید اور مولانا اسماعیل شہید کی مجاہدانہ روح جو اس حلقے سے دبتی چلی جا رہی تھی، اس کو دوبارہ زندہ کیا جائے اور اس سلسلہ میں ’موتمر الانصار‘ کی بنیاد پڑی‘‘۔ [یاد رفتگاں؛ ص ۳۸۷] مولانا انوار الحسن شیرکوٹی﷫ لکھتے ہیں: ’’دار العلوم میں حضرت شیخ الہند نے مولانا عبید اللہ صاحب سندھی کو بلایا اور یہاں اب فضاؤں میں انقلابی حرکت اور تعلیمی پروگرام میں ایک خاص تبدیلی رونما ہونے کے آثار ہوئے۔ شیخ الہند کے اشاروں پر الانصار کے نام سے ایک انجمن کی تشکیل ہوئی۔ مولانا عثمانی اس کے سرگرم رکن رہے۔ [حیاتِ شیخ الاسلام، ص ۹۹] خود مولانا عبید اللہ سندھی﷫ لکھتے ہیں: ’’۱۳۲۷ھ میں حضرت شیخ الہند نے دیوبند طلب فرمایا، اور مفصل حالات سن کر دیوبند رہ کر کام کرنے کے لیے حکم دیا اور فرمایا کہ اس کے ساتھ سندھ کا تعلق بھی قائم رہے گا۔ چار سال تک جمعیۃ الانصار میں کام کرتا رہا۔ اس جمعیۃ کی تحریکِ تاسیس میں مولانا محمد صادق صاحب سندھی اور مولانا ابو محمد لاہوری اور عزیزی مولوی احمد علی میرے ساتھ شریک تھے‘‘۔ [ذاتی ڈائری؛ ص ۲۰]

11 مولانا انوار الحسن شیر کوٹی﷫ لکھتے ہیں: ’’دار العلوم میں نصابِ تعلیم میں تبدیلیوں کے ساتھ ایک خاص درجہ تعلیم کھولا گیا تھا جس میں فارغ التحصیل طلبہ کو تبلیغ کے لیے تیار کیا جانا تھا، اور اس درجہ خصوصی میں حضرت شاہ رفیع الدین صاحب، حضرت شاہ محمد اسماعیل صاحب، شاہ ولی اللہ صاحب اور حضرت مولانا قاسم صاحب کی تصنیفات کا درس دیا جانا بھی شامل تھا‘‘۔ [حیات شیخ الاسلام؛ ص ۹۳]

12 علامہ سید سلیمان ندوی﷫ لکھتے ہیں: ’’بہرحال مولانا عبید اللہ سندھی کو دیوبند سے ہٹنا پڑا اور دہلی میں مسجد فتح پوری کے ایک گوشہ میں دائرۃ المعارف کی بنیاد ڈالی اور اس میں انگریزی خواں تعلیم یافتوں اور عربی کے فارغ التحصیل عالموں کو قرآنِ پاک کا درس اس جہادی اسپرٹ سے دینے لگے جو سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کی زندگی کی روح تھی، اور مجاہدینِ سرحد (یاغستان وچمرقند) سے حلقہ اتصال قائم کیا گیا‘‘۔ [یادِ رفتگاں؛ ص ۳۸۹]

13 مولانا عبید اللہ سندھی﷫ لکھتے ہیں: ’’حضرت شیخ الہند کے ارشاد سے میرا کام دیوبند سے دہلی منتقل ہوا۔ ۱۳۳۱ھ [ ۱۹۱۳ء] میں نظارۃ المعارف قائم ہوئی۔ اس کے سرپرستوں میں حضرت شیخ الہند کے ساتھ حکیم اجمل خاں اور نواب وقار الملک ایک ہی طرح شریک تھے۔ حضرت شیخ الہند نے جس طرح چار سال دیوبند میں رکھ کر میرا تعارف اپنی جماعت سے کرایا۔ اسی طرح دہلی پہنچ کر مجھے نوجوان طاقت سے ملانا چاہتے تھے۔ اس غرض کی تکمیل کے لیے دہلی لے آئے اور ڈاکٹر انصاری سے میرا تعارف کرایا۔ ڈاکٹر انصاری نے مجھے مولانا ابو الکلام اور محمد علی مرحوم سے ملایا۔ اس طرح تخمیناً دو سال مسلمانانِ ہند کی اعلیٰ سیاسی طاقت سے واقف رہا‘‘۔ [ذاتی ڈائری؛ ص ۲۰، ۲۱]

14 مولانا غلام رسول مہر﷫ لکھتے ہیں: ’’میرے اندازے کے مطابق انھوں نے یہ طے کیا تھا کہ جن جن اصحاب میں عملی صلاحیت پائیں، انھیں جا بجا خصوصاً یاغستان کے مختلف حصوں میں دینی اور اسلامی درس گاہیں قائم کرنے کی ترغیب دیں‘‘۔ [سرگزشتِ مجاہدین؛ ص ۵۳۰]

15 مولانا عبید اللہ سندھی﷫ لکھتے ہیں: ’’اس کے علاوہ مولانا رشید الدین صاحب العلم الثالث کی صحبت سے مستفید ہوا۔ میں نے ان کی کرامتیں دیکھیں۔ ذکر اسماء الحسنیٰ میں نے انھی سے سیکھا۔ وہ دعوتِ توحید وجہاد کے ایک مجدد تھے‘‘۔ [ذاتی ڈائری؛ ص ۱۶] ’’دورانِ مطالعہ میں نے مولانا اسماعیل شہید کی سوانح عمری دیکھی۔ اسلامی مطالعہ کی ابتداء سے میرا قلبی تعلق مولانا مرحوم سے پیدا ہوچکا تھا۔ دیوبند کی طالب علمی نے بہت سے واقعات اور حکایات سے آشنا کر دیا تھا…… مولانا شہید کے مکتوبات میں سے ایک مضمون لے کر میں نے اپنا مختصر سیاسی پروگرام بنالیا۔ وہ اسلامی بھی تھا اور انقلابی بھی… … اور اس طرح اپنے خیال کے موافق آہستہ آہستہ کام کرنا شروع کردیا‘‘۔ [ص ۱۸] ’’۱۳۱۵ھ میں دیوبند پہنچا…… بعض مسائلِ جہاد کے ضمن میں ہماری اس جماعت کا بھی ذکر آیا۔ حضرت مولانا [یعنی حضرت شیخ الہند] نے اسے بہت پسند فرمایا، اور چند اصلاحات دے کر اسے اتحادِ اسلامی کی کڑی بنا دیا۔ اس کام کو جاری رکھنے کی وصیت کی……اس کے بعد مدرسہ بنانے کی کوشش جاری کی۔ مگر اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔ ہمارا کام بغیر مدرسہ کے چل نہیں سکتا تھا۔ اس کے لیے دوسری جگہ کی تلاش میں تھا، کہ حضرت مولانا راشد اللہ العلم الرابع نے ۱۳۱۹ھ میں میری تجویز کے موافق مدرسہ بنانے کا ارادہ کیا۔ یہ نام بھی [یعنی دار الرشاد] میری تجویز سے مقرر ہوا‘‘۔ [ص ۱۹]

16 مولانا غلام رسول مہر﷫ لکھتے ہیں: ’’ان ملا صاحب کا اسم گرامی علی احمد تھا۔ چکسیر کی طرف دریائے سندھ کے کنارے پر ’سنڈاکے‘ نام ایک گاؤں ہے، ملا صاحب اسی کی نسبت سے مشہور ہوئے۔ زہد وعبادت میں انھیں اونچا درجہ حاصل تھا۔ اہلِ سوات نے نواب دیر کے تصرف سے آزادی حاصل کرنے کے لیے تنظیمات کا سلسلہ شروع کیا تو ملا صاحب کو اپنے یہاں لے آئے‘‘۔ [سرگزشتِ مجاہدین؛ ص ۵۲۱] سوات میں انگریزوں کے خلاف جنگوں میں شریک رہے۔

17 مولانا غلام رسول مہر﷫ لکھتےہیں: ’’ملا صاحب سنڈاکے نے بھی حضرت شیخ الہند سے ملاقات کی تھی۔ انھوں نے جب کام شروع کیا تو ابتداء میں ایک اہم اسلامی درس گاہ ہی قائم کرنے کی کوشش کی تھی۔ حاجی صاحب ترنگ زئی شیخ الہند سے استفادہ کرچکے تھے۔ ان کے پیشِ نظر بھی درس گاہیں قائم کرنے ہی کا سلسلہ تھا‘‘۔ [سرگزشتِ مجاہدین؛ ص ۵۳۰]

18 حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی﷫ لکھتے ہیں: ’’ان ہی ایام میں اعلیٰ حضرت رائے پوری قدس سرہ کے ذمے حضرت شیخ الہند کی غیبوبیت میں ان کی تحریک کی سرپرستی تجویز ہوئی تھی‘‘۔ [آپ بیتی؛ ص ۲۸۲]

19 مولانا عبید اللہ سندھی﷫ جب جلاوطنی کے بعد وطن واپس لوٹے تو دوبارہ یہیں آباد ہوئے، اور آپ کی قبر مبارک بھی دین پور شریف میں خلیفہ غلام محمد دین پوری﷫ کی قبر کے سنگ میں ہے۔ راقم الحروف کو ۲۰۱۴ء کے اخیر میں دین پور کی زیارت کا موقع اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا۔ ان مجاہد مشائخ کی جائے سکونت پر راقم کے دل پر عجیب روحانیت وطمانیت کا احساس جاگزیں ہوا، جو زندگی میں پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ نور اللہ مراقدھم وطاب ثراھم وجعل الجنۃ مثواھم۔

20 مولانا حسین احمد مدنی﷫ لکھتے ہیں [اور یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت شیخ الہند نےحضرت رائے پوری کو ابھی شریکِ عمل نہ کیا تھا]: ’’مولانا عبد الرحیم صاحب نے مجھ سے فرمایاکہ حضرت شیخ الہند لوگوں سے بیعتِ جہاد لیتے ہیں، یہ تو بہت خطرناک امر ہے، انگریزوں کو اگر خبر ہوگئی تو دار العلوم کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے اور مسلمانوں کا یہ مرکزِ علمی ودینی اجاڑ دیا جائے گا۔ چونکہ مجھ کو اس کی کوئی خبر نہ تھی، میں نے لاعلمی کا اظہار کیا اور یہ عرض کیا کہ میں خود حضرت شیخ الہند سے پوچھوں گا۔ واقعہ یہی تھاکہ باوجود یہ کہ حضرت مجھ پر بہت زیادہ کرم فرماتے تھے مگر اس وقت تک کسی کارروائی کی خبر نہیں کی گئی…… میں نے رائے پور سے واپسی پر مولانا عبد الرحیم صاحب کا مقالہ ذکر کیا تو حضرت شیخ الہند نے فرمایا کہ حضرت مولانا قاسم صاحب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے دعا فرمائی تھی کہ پچاس برس تک یہ دار العلوم قائم رہے، سو بحمد للہ پچاس برس گزر چکے ہیں، اور دار العلوم اپنی خدمات باحسنِ وجوہ انجام دے چکا ہے۔ میں یہ جواب سن کر دم بخود ہوگیا اور سمجھ گیا کہ جو واقعات نقل کیے جا رہے ہیں، وہ صحیح ہیں۔ حضرت کا اس امر میں پختہ خیال قائم ہوگیا ہے۔ اب اپنے ارادہ سے ٹل نہیں سکتے اور نہ کوئی ہٹا سکتا ہے۔ چنانچہ یہی ہوا‘‘۔ [نقشِ حیات؛ ص ۶۲۳]

21 یہاں ہمارا مقصود اہل البدع نہیں ہیں، جبکہ اہل البدع کے ساتھ بھی تعامل کے اصول اہل السنۃ کے یہاں موجود ہیں، اور ان میں بھی حالات واحوال کے مطابق مصلحت ومفسدہ کی میزان پر عمل کا وسیع میدان ہوتا ہے۔

22 شیخ الہند مولانا محمود حسن؛ ایک سیاسی مطالعہ؛ ص ۲۵، ۲۶

23 مولانا مناظر احسن گیلانی﷫ نے ’احاطہ دار العلوم‘ والے مضمون میں مولانا معین الدین اجمیری﷫ کا ذکر کیا ہے جو خیرآبادی مسلک کے عالم تھے، اور انھی نے مولانا گیلانی کو حضرت شیخ الہند سے متعارف کروایا تھا۔ [احاطہ دار العلوم میں بیتے ایام؛ ص ۳۸، ۳۹]

24 اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ سیاسی تحریک میں منکرات کی روک تھام کی کوشش ہی نہ ہو۔ یہاں صرف اتنا بتانا مقصود ہے کہ حکمت ودانشمندی یہ ہے کہ اقامتِ دین کی تحریک معاشرے کے سبھی صالح عناصر کو اپنے ساتھ شامل کرے، چاہے بعض میں کچھ منکر بھی ہو۔ کیونکہ جس بڑے مقصد پر سب جمع ہوں گے، وہ خود شخصی منکرات کی روک تھام کروادے گا۔ ہاں، منکرات کی روک تھام کے سلسلے میں قیادت کی بیدار مغزی ضروری ہے۔

25 یہ تمام وہ لوگ ہیں جو اس وقت ہند کی اعلیٰ سیاسی قیادت تھے، اور انھی میں سے کوئی اس وقت کانگریس میں نظر آتا تھا، اور کوئی مسلم لیگ میں۔ جبکہ گاندھی ابھی تک ہندوستان کی سیاست میں متعارف بھی نہ ہوئے تھے۔

26 مولانا اسجد قاسمی لکھتے ہیں: ’’۱۹۱۴ء میں جنگِ عظیم شروع ہوئی، جس میں دولتِ عثمانیہ کو زبردستی گھسیٹا گیا، اور اس کے وجود کو خطرات لاحق ہونے لگے۔ ہندوستان میں بھی مسلمانوں کے ساتھ ظلم وتشدد کا رویہ اپنایا جانے لگا۔ حضرت شیخ الہند نے اس موقع پر تحریکِ جہاد شروع کرنے کا فیصلہ فرمالیا‘‘۔ [حضرت شیخ الہند، شخصیت، خدمات وامتیازات؛ص ۱۷]

27 مولانا حسین احمد مدنی﷫ ذکر کرتے ہیں کہ اس وقت حضرت شیخ الہند﷫ نے مولانا عبید اللہ﷫ کو بھی متحرک کر دیا جو دائرۃ المعارف چلارہے تھے۔ لکھتے ہیں: ’’حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ دہلی تشریف لے گئے اور مولانا عبید اللہ صاحب سے ملاقات کی اور تذکرہ میں فرمایا کہ جبکہ انگریزی حکومت اور اقتدار ہندوستان میں قائم ہے تو جس مدت تک تم اپنی اس تعلیم اور اس مدرسے سے دس بیس آدمی صحیح الخیال مسلمان بناؤگے اس مدت میں انگریز ہزاروں کو ملحد اور زندیق بنا دیں گے۔ چنانچہ مولانا عبید اللہ صاحب کی سمجھ میں حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی اسکیم آگئی اور وہ عالی ہمتی اور تن دہی کے ساتھ تمام ہولناک خطرات کو پسِ پشت ڈالنے اور ہر قسم کی مصیبتوں کو جھیلنے کے لیے تیار ہوگئے‘‘۔ [نقشِ حیات؛ ص ۵۵۶]

28 مولانا مدنی﷫ لکھتے ہیں: ’’جب حضرت حجاز جانے لگے تو فروعی کاروبار اور نیچے کی کارروائیوں کا ناظم انھی کو بنا گئے تھے…… اور اصولی اور اونچے مرتبے کی کارروائیوں کا ناظم حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب رائے پوری کو بنا گئے تھے‘‘۔ [نقشِ حیات؛ ص ۶۱۲]

29 مولانا حسین احمد مدنی﷫ لکھتے ہیں: ’’یہ حضرت شیخ الہند کے مشنِ آزادی کی چوتھی برانچ کے (جو کہ دہلی میں تھی) صدر تھے…… ہاں مولانا عبید اللہ صاحب کے نظارۃ المعارف قائم کرنے کے بعد ان کی جدوجہد ایک درجے تک ڈھیلی پڑگئی تھی، جو کہ مولانا عبید اللہ صاحب کے سفرِ کابل کے بعد اور ان کی غیبوبیت میں قوی ہوگئی‘‘۔ [نقشِ حیات؛ ص ۶۲۱]

30 مولانا مدنی﷫ لکھتے ہیں: ’’موصوف خدارسیدہ، متقی اور پرہیزگار، نہایت جوشیلے بزرگ تھے۔ اطراف وجوانبِ سکھر میں ان کا بہت بڑا اثر ورسوخ تھا۔ ہزاروں بلکہ لاکھوں مسلمان ان کے متوسل اور مریدان اطراف میں موجود تھے… … ان کا مقام سندھ کے ان اضلاع میں حضرت شیخ الہند کے مشن کا مرکز رہا‘‘۔ [نقشِ حیات؛ ص ۶۱۶]

31 مولانا مدنی﷫ مولانا محمد احمد صاحب﷫ کے متعلق لکھتےہیں: مشنِ تحریکِ آزادی کی پانچویں برانچ جو کہ پنجاب میں تھی، موصوف اس کے صدر تھے۔ نہایت استقلال اور بے جگری کے ساتھ مشن کے کاروبار میں شریک رہے اور ہزاروں کو ممبر اور ہم خیال بنایا‘‘۔ [نقشِ حیات؛ ۶۲۲]

32 یہاں یہ بات قابلِ تعجب ہے کہ حضرت شیخ الہند کی تحریک کی جزئیات میں ہمیں اہلِ بنگال کا کردار نظر نہیں آتا، حالانکہ وہ ہمیشہ کی تحریکات میں موثر کردار ادا کرتے رہے اور کوئی بھی تحریک ان کی شمولیت کے بغیر نامکمل رہی۔

33 مولانا حسین احمد مدنی﷫ لکھتے ہیں: ’’واقعہ یہ پیش آیا کہ ۱۹۱۴ء میں جب جنگِ عظیم چھڑ گئی تو حضرت شیخ الہند کی جماعت کے مرکز یاغستان سے جس میں مولانا سیف الرحمن صاحب اور حاجی ترنگ زئی صاحب وغیرہ حضرات وہاں موجود تھے،اور عرصہ سےجماعت کی تنظیمی ضروریات انجام دے رہے تھے۔ ان کو حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کا پیغام پہنچا کہ اب سکون سے کام کرنے کا وقت نہیں، میدان میں آجانا اور سربکف ہوکر کام شروع کردینا از بس ضروری ہے‘‘۔ [نقشِ حیات؛ ص ۵۶۲]

34 مولانا حسین احمد مدنی﷫ مولانا فضل ربی﷫ کے متعلق لکھتے ہیں: ’’مولانا شیخ الہند نے حکم فرمایا کہ آپ یاغستان (آزاد علاقہ) میں چلے جائیں اور وہاں لوگوں کو جہادِ آزادی کے لیے آمادہ کریں، اور اس کی تبلیغ میں زیادہ سے زیادہ حصہ لیں… … ان کی جوشیلی تقریروں کا وہاں بہت اچھا اثر ہوا اور بہت بڑی تعداد میں لوگ جانبازی کے لیے تیار ہوگئے۔ [نقشِ حیات؛ ص ۶۱۸]

35 مولانا حسین احمد مدنی﷫ مولانا محمد اکبر﷫کے متعلق لکھتے ہیں: ’’حضرت شیخ الہند نے ان کو جہادِ آزادی میں شامل ہونے اور لوگوں کو اس کے لیے آمادہ کرنے کا حکم کیا۔ ان کی مساعی جمیلہ سے یاغستانی خوانین کے آپس کے افتراقات اور پرانی عداوتیں جو ان میں سالہا سال سے چلی آتی تھیں، دور ہوئیں۔ سب میں اتفاق واتحاد پیدا کیا گیا، اور جہادِ آزادی کی صفوف میں کھڑا کیا گیا۔ [نقشِ حیات؛ ص ۶۱۸]

36 مولانا محمدمیاں﷫ لکھتے ہیں: ’’ضروری سمجھا گیا کہ مندرجہ ذیل امور عمل میں لائے جائیں؛ الف) ان علاقوں کے باشندوں سے آپس کے نزاعات قدیمہ اور قبائلی دشمنیوں کو مٹایا جائے۔ ب) ان میں اتحاد اور ہم آہنگی پیدا کی جائے۔ ج) ان میں جوشِ جہاد اور آزادی کی تڑپ پیدا کی جائے۔ [تحریکِ شیخ الہند؛ ص ۷۴]

37 تفصیل کے لیے دیکھیے؛ سرگزشتِ مجاہدین؛ ص ۵۲۰ تا۵۲۸۔ حضرت مدنی﷫ لکھتے ہیں: ’’چنانچہ جب حاجی صاحب مرحوم پہنچے۔ مجاہدین کا جمگھٹا شمار سے زیادہ ہوگیا۔ مجاہدینِ چمرقند (حضرت سید احمد صاحب شہید ) کی جماعت بھی مل گئی‘‘۔ [نقشِ حیات؛ ص ۶۳۰]

38 مولانا حسین احمد مدنی﷫ مولانا محمد صادق صاحب﷫ کے متعلق لکھتے ہیں: ’’ایامِ جنگِ عمومی میں جبکہ انگریزوں نے عراق پر حملہ کیا تو انھوں نے اور ان کے رفقاء نے بس بھیلا وغیرہ کے بلوچستانی قبائل سے بغاوت کرادی۔… جب بلوچستان اور بس بھیلا وغیرہ میں بغاوت ہوگئی تو وہ فورس اور فوج جو کہ بصرہ جارہی تھی، اس داخلی بغاوت کے رفع کرنے کے لیے سندھ میں اتار دی گئی‘‘۔ [نقشِ حیات؛ ص ۶۱۷]

39 مولانا حسین احمدمدنی﷫ لکھتے ہیں: ’’دین پور شریف بھی اس تحریکِ آزادی کا مرکزِ ثانوی تھا…… انقلاب کی تیاری کے جملہ سامان یہاں جمع کر لیےگئےتھے، اور مزید کوششیں جاری تھیں‘‘۔ [نقشِ حیات؛ ص ۶۱۵]

40 مولانا مدنی﷫ لکھتے ہیں: ’’یاغستانی مرکز سے پہلے سےتقاضا بار بار یہ ہوتا رہا تھا کہ حضرت شیخ الہند مرکز آجائیں تو اطراف وجوانب سے مجاہدین ایسے جمع ہوجائیں گے کہ تفرق کا خطرہ نہ رہے گا…… مگر حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کو مالی امداد کی وجہ سے اس کی مصلحت معلوم نہ ہوئی کیونکہ مرکز کو اس کی مالی امداد کی ضرورت زیادہ تھی اور دیوبند میں کوئی ایسا نہ تھا کہ جس کی وجاہت سے مالی امداد خفیہ طور سے حاصل کی جائے،اس لیے توقف فرمایا۔ اخیر میں جبکہ جہاد کی عملی کارروائی شروع ہوگئی تو حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ بالکل جانے کے لیے تیار ہوگئے تھے۔ مگر پھر خبر آئی کہ رسد اور کارتوسوں کے ختم ہوجانے کی بنا پر ضروری ہے کہ کوئی باقاعدہ حکومت پشت پناہ ہوجو کہ رسد اور ہتھیار پہنچاتی رہے۔ اس لیے یاغستان جانے کا ارادہ فسخ کرنا اور مولانا عبید اللہ صاحب کو کابل بھیج کر اسے مرکز بنانا اور ترکوں کو امداد کے لیے آمادہ کرنا ضروری ہے۔ ثانی الذکر امر کے لیے خود کو منتخب فرمایا‘‘۔ [ص ۶۰۶]

41 مولانا آزاد﷫ نے مولانا غلام رسول مہر﷫ سے ایک مجلس میں فرمایا تھا: ’’ہندوستان میں گرفتاریاں شروع ہوئیں تو مولانا محمود حسن کو تشویش پیدا ہوئی کہ کہیں بیٹھے بٹھائے گرفتار نہ ہوجائیں۔ ان کے نزدیک کام کا سازگار زمانہ آگیا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ ہر اقدام کے لیے آزاد رہیں۔ چنانچہ انھوں نے مجھے بلا بھیجا۔ دہلی میں ملاقات ہوئی۔…… میری قطعی رائے یہ تھی کہ باہر نہ جانا چاہیے۔… …لیکن مولانا محمود حسن نے یہی مناسب سمجھا کہ پہلے حجاز جائیں، پھر ترکوں سے ربط ضبط پیدا کرکے ایران وافغانستان کے راستے یاغستان پہنچ جائیں جسے وہ آزادی کے لیے تمام سرگرمیوں کا مرکز بنانا چاہتے تھے‘‘۔ [شیخ الہند مولانا محمود حسن؛ ایک سیاسی مطالعہ، ص ۳۳]

42 مولانا شیخ الحدیث حضرت زکریا کاندھلوی﷫ لکھتے ہیں: ’’حضرت شیخ الہند کا سفرِ حجاز کو روانگی سے قبل قیام ایک ہفتہ مدرسہ مظاہر علوم ہی میں رہا اور اعلیٰ حضرت شاہ عبد الرحیم صاحب رائے پوری اور مولانا الحاج احمد صاحب رامپوری رحمہ اللہ تعالیٰ کا قیام بھی اس زمانہ میں سہارنپور ہی رہا۔ یہ چاروں حضرات صبح کی چائے کے بعد مدرسہ کے کتب خانے میں تشریف فرما ہوتے۔ …ان چار حضرات کے علاوہ کوئی شخص اندر نہیں جاسکتا تھا۔ … تین چار دن تک یہی سلسلہ رہا۔ جو لوگ اجمالاً حضرت شیخ الہند کی تحریک سے واقف تھے، وہ تو اجمالاً سمجھے ہوئے تھے کہ کس موضوع پر گفتگو ہو رہی ہے‘‘۔ [آپ بیتی؛ ص ۲۸۲]

43 حضرت شیخ الہند﷫ کے سفرِ حجاز کی جملہ تفصیلات مولانا حسین احمد مدنی﷫ کی ’ سفرنامہ اسیر مالٹا‘ اور ’نقشِ حیات‘، اور مولانا محمد میاں صاحب﷫ کی ’تحریکِ شیخ الہند‘ میں موجود ہیں۔ انھی کا خلاصہ یہاں بیان ہوا ہے۔ واقعات کی تصدیق کے لیے ان مصادر کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔

44 یہاں عبرت کے لیے یہ درج کرتے چلیں کہ گاندھی صاحب نے تو پہلی جنگِ عظیم کے دوران ۱۹۱۷ء میں برطانوی فوج میں بھرتی ہونے کے لیے تحریضی مہم چلائی تھی، اور برطانیہ کے دفاع کو ہندوستان کی بھلائی کے لیے ناگزیر بتلایا تھا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے؛ گاندھی صاحب کے سیکرٹری مہادیو ڈیسائی کی Day to day with Gandhi کی پہلی جلد۔ یقیناً اللہ والوں کی سیاست کی تو اخلاقیات ہی الگ ہوتی ہیں اور وہ شریعت کے اصول کے مطابق ہی ہوتی ہے، سیاست برائے سیاست نہیں ہوتی۔

45 یہ درست ہے کہ مولانا عبید اللہ سندھی﷫ نے آغاز میں کابل جانے سے تردد ظاہر کیا اور اس کا سبب واضح منصوبے کا نہ ہونا تھا۔ ہم اس کی یہی تعبیر سمجھتے ہیں کہ منصوبے کی کامیابی کے لیے موجود وسائل ناکافی تھے، نہ کہ منصوبہ ہی کوئی نہ تھا۔ منصوبہ تو واضح تھا، لیکن نہ معتمد روابط تھے اور نہ ہی کابل کے سربراہوں کا دقیق مطالعہ، کہ جن کی بنیاد پر منصوبے کی کامیابی کے امکانات جانچے جاسکیں۔ بس توکلاً علی اللہ حضرت شیخ الہند﷫ نے مولانا عبید اللہ﷫ کو بھجوا دیا تھا۔

46 کابل کے واقعات بہت ہیں، مگر ہم یہاں صرف سرسری انداز میں انھی واقعات کا ذکر کریں گے جو براہِ راست حضرت شیخ الہند﷫ کی تحریک سے وابستہ ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے؛ مولانا عبید اللہ﷫ کی ذاتی ڈائری۔یہاں بیان کردہ واقعات کا مصدر بھی یہی ہے۔

47 مولانا عبید اللہ سندھی﷫ لکھتے ہیں: ’’انگریزوں نے کافی روپیہ امیر کو دیا کہ یاغستان میں تقسیم کرے اوراپنی سلطنت کے نام قبائلِ افغانیہ سے بیعت نامہ حاصل کرے۔ اور پشاور میں افغانوں کو کہا جاتا کہ امیرِ کابل جہاد کرے تو اس وقت بے شک جہاد میں شریک ہوجاؤ، لیکن بغیر بادشاہ کے جہاد ناجائز ہے، اس لیے عام بدنظمی سے پرہیز کرو۔اس طرح حاجی ترنگ زئی اور دوسرے مجاہدین کا کام رک گیا۔ بلکہ حاجی ترنگ زئی کے آدمی اور ہندوستانی مجاہدین کے کارندے سب اسی کام پر مامور ہوگئے کہ وہ امیر کابل کے نام بیعت نامے حاصل کریں۔ یہ انگریزی روپیہ انھی لوگوں کے ہاتھ یاغستان میں تقسیم ہوا‘‘۔ [ذاتی ڈائری؛ ص ۱۲۶] جماعتِ مجاہدین کے وکیل مولانا محمد بشیر صاحب بھی یہ بیعت ناموں والی خدمت انجام دیتے رہے، جیسا کہ مولانا غلام رسول مہر﷫ نے لکھا ہے: ’’چنانچہ وہ یاغستان چلے گئے اور تھوڑی ہی مدت میں وہاں کے اکثر ملاؤں اور سرداروں سے امیر صاحب کے نام بیعت کےخطوط حاصل کر لائے‘‘۔ [سرگزشتِ مجاہدین؛ ص ۵۴۵]

48 مولانا حسین احمد مدنی﷫ نے مولانا شبیر احمد صاحب﷫ کے حوالے سے نقشِ حیات میں یہ الفاظ نقل کیے ہیں۔ [ص ۶۸۷]

Exit mobile version