دعوت و جہاد کے لیے: علمِ شرعی، تربیتِ فکری اور تزکیہ واحسان کی ضرورت

زیرِ نظر خط استاد اسامہ محمود نے دعوتِ جہاد کے میدان میں مشغول ، جماعت القاعدہ برِّ صغیر سے وابستہ ایک داعی و عالم ساتھی کے نام بھیجنے کے لیے ارسا ل کیا تھا، قارئین کے افادے کی نیت سے اسے مجلہ نوائے غزوۂ ہند میں شائع کیا جا رہا ہے ۔ (ادارہ )


بسم اللہ الرحمان الرحیم

الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علیٰ رسولہ الکریم

انتہائی محترم بھائی، مولانااحمد عبداللہ(زیداللہ مجدہٗ) کی خدمت میں

اسامہ محمود کی طرف سے

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

اللہ آپ سے راضی ہو، اپنے محبوب و مقبول بندوں میں آپ کو شامل رکھے، آپ کے ایمان ، اخلاص ، عملِ صالح اور علمِ نافع میں اضافہ فرمائے اور اپنے دین، دعوت وجہاد کی ڈھیر ساری خدمتیں آپ سے لے، آمین !

محترم بھائی !

آپ کا تعارف جان کر خوشی ہوئی اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ تعارف میں کن باتوں سے خوشی ہوئی ؟یہ ان شاء اللہ آگے عر ض کروں گا ۔

کیسے ہیں ؟ مصروفیات کیسی ہیں ؟ یعنی کیا ہیں اور کیسی ہیں؟ اللہ آپ کا وقت آپ کے لیے نافع بنائے اور دیگر سب بھائیوں اور مسلمانوں کے لیے بھی یہ خیر و ہدایت کا ذریعہ رکھے ۔

تاخیر سے خط کا جواب دینے پر معذرت خواہ ہوں ۔ آپ کا خط پڑھا تو اُسی وقت چاہا کہ آپ کے ساتھ رابطہ رہے ،خود اپنی اصلاح و استفادے کے لیے بھی اور جہادی و دعوتی امور کے لیے بھی، مگر اس خیال کے سبب جلدی نہیں لکھ سکا کہ آپ کو خط ذرا تفصیلی لکھنا چاہیے۔ یوں تفصیلی لکھنے کی حرص میں عرصہ دراز تک خط ہی نہیں لکھ سکا اور اب جب لکھ رہاہوں تو خدشہ ہے کہ آپ دل میں شاکی نہ ہوئے ہوں ۔اللہ کرے آپ ناراض نہ ہوں ، امید ہے میرا عذر قبول کریں گے کہ ’’العذر عند کرام الناس مقبول‘‘۔

جی تو میں خوش کیوں ہوا؟ کئی وجوہات ہیں ۔ اول اور اہم سبب ، آزمائشوں سے گزرنے کے بعد بھی آپ کا راہِ جہاد پر عزمِ صمیم ہے ۔ ایمان و عمل صالح پر استقامت عظیم ترین نعمت ہے ، یہ اس کی نشانی ہوتی ہے کہ ایسے فرد سے اللہ کی محبت ہے اور اسے خیرِ عظیم سے محروم نہیں کرنا چاہتا۔ استقامت کو کرامت کہا گیاہے ، اللہ آپ کو مزید استقامت دے ، اپنا محبوب رکھے اور آپ کو ہر اُس فکر وعمل کی توفیق دے جو اُس کو پسند ہو اورہر اس خیال و عمل سے آپ کو دور رکھے جو اُسے ناپسند ہو۔

خوشی کی دوسری وجہ آپ کا حصول علم اور دوسروں کو تعلیمِ دین دینا ہے ،الحمدللہ کہ اللہ نے آپ کو وراثتِ انبیاء کے لیے چنا اور اللہ ہی کا شکر ہے کہ اب آپ اس اعلیٰ عمل کے ساتھ ساتھ دعوت ِ جہاد کے فرض میں بھی مصروف ہیں ۔

محترم بھائی ! دعوت ِ (دین و) جہاد کارِ انبیاء ہے ۔جہاد کی یہ دعوت و تحریض ہو یا خود اس کو ایسے مطلوب انداز میں ادا کرنا ہو کہ جو خالق کے ہاں بھی محبوب و مقبول ٹھہرے اور مخلوق کے حق میں بھی ہدایت وبرکت کا ذریعہ بن جائے ، اس سب کے لیے اخلاص کے بعد علمِ شرع کا ہوناانتہائی ضروری ہے۔ علم ہو ، اس پر عمل ہو ، اور پھر ساتھ ہی اخلاص اور ڈٹے رہنا ،لگے رہنے کاعزم بھی ہو تو ایسا عالم باعمل داعی، مردہ معاشروں میں جان ڈال دیتاہے ، اس کی دعوت وعمل سے بیکار اور بے مقصدلوگ بامقصد، اور خود اپنے حق میں مفید بن جاتے ہیں اور دوسروں کے لیے بھی رشدو ہدایت اور نجات کا ذریعہ ثابت ہوجاتے ہیں ۔ ایسے علمائے کرام جہادی تحریکات کی جان، قلب و دماغ اور زبان ہوتے ہیں ، ان کی دعوت وکردار سے ہی عوام کوہدایت ملتی ہے ،وہ قافلۂ جہاد میں شمولیت اختیارکرتے ہیں اوران ہی کے ذریعے مجاہدین کی تعلیم و تربیت اور تزکیہ و اصلاح کا بنیادی کام بھی انجام پاتا ہے ۔ساتھیوں کے ساتھ آپ کے جڑنے پر مجھے اس لحاظ سے خوشی ہوئی اور دعا ہے کہ اللہ آپ کو علمائے کرام کے اس مبارک زمرے میں شامل رکھے ، آپ کے ایمان اور علم وعمل میں اضافہ فرمائے اور آپ کو ہم سب ، جملہ مجاہدین کے لیے نافع و مبارک رکھے ،آمین!

محترم بھائی !

علم دین کا حصول وپھیلاؤاور دعوتِ (دین و)جہاد ،یہ دونوں انتہائی اعلیٰ عبادات ہیں ، دونوں اصلاً تو فرض کفایہ ہیں ، مگر جن خوش نصیبوں میں ان کی استعداد ہو ،اللہ نے جن کو اس کی اہلیت دی ہو، ان پر آج، دین کی اجنبیت اور امت کی مظلومیت کے اس زمانے میں خاص یہ عبادات بھی شاید فرض عین ہوجاتی ہوں ۔ یہ دونوں کام اہم بھی ہیں اور ایک دوسرے کو تقویت دینے والے بھی ہیں ۔سورۃ التوبہ کی یہ جو آیت ہے :

وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ؀1

اس کی تشریح میں ایک عالم نے پیاری بات لکھی ہے ،حضرت فرماتے ہیں ، اس آیت میں اللہ نے مومنین کو مجاہدین اور مجتہدین(بمعنی حصول علم کے لیے محنت کرنے والوں ، نہ کہ اصطلاحی معنیٰ میں مجتہدین) میں تقسیم کیا ہے ۔اگر کوئی فرد ان دوگروہوں میں سے کسی ایک میں بھی نہ ہو تو اُس میں کوئی خیر نہیں۔ پھر فرمایا، یہ دو گروہ ایک دوسرے سے جدا نہیں، اس آیت کے تحت یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ متعاون اور ایک ہی مقصد کے لیے جدوجہد کرنے والے ہوتے ہیں ۔دونوں کا تعلق بیک وقت علم دین کے ساتھ بھی ہوتاہے اورجہاد فی سبیل اللہ کے ساتھ بھی ہوتاہے،ہاں تخصص کا فرق ہے ، ایک مجاہد مجتہد(یعنی مجاہد طالب علم ) ہوتاہے اوردوسرا مجتہد مجاہد(طالب علم مجاہد) ہوتاہے۔پھر فرماتے ہیں ، جہاد اور اجتہاد، یعنی جہاد و علم دین( کی سعی ) ، ان دونوں شعبوں کا مقصد وہدف ایک ہے اور وہ ہے’’ تعبيد الناس لله وحده وإخراجهم من العبودية للعباد وإزالة الطواغيت كلها من الأرض وإخلاء العالم من الفساد ‘‘، یعنی لوگوں کو تنہا اللہ کی بندگی میں داخل کرنا، انہیں انسانوں کی غلامی سے نکال کر انسانوں کے رب اللہ کا غلام بنانا اورتمام طواغیت کی حکمرانی زمین سے ختم کرکے فتنہ و فساد سے اسے پاک کرنا، یہ مجاہد اور طالب عالم دونوں کا مشترکہ مقصد ہوتاہے ۔

تو محترم بھائی یہ آپ کا علم دین کا شغف اور دعوت ِ جہاد ، پھر اس کے لیے یہ مدرسہ ، معاشرہ ، عوام میں درس و تدریس ، دعوت اور ساتھیوں کی تعلیم وتربیت ،یہ سب انتہائی عظیم نعمتیں ہیں ، ان پر اللہ کا جتنا شکر ادا کیاجائے کم ہے ، اللہ قلباً،قولاً اور عملاً شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔

محترم بھائی !

میری یہ دعا بھی ہے کہ درس نظامی سے فراغت کے بعد آپ کا علمی سفر پہلے سے کہیں زیادہ اچھا ہوا ہو۔ غالباً مولانا شامزئی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ درس نظامی سے فراغت حصول علم کا اختتام نہیں ، آغاز ہوتا ہے ، کیوں کہ اس کے بعد طالب علم متون پڑھنے کے قابل ہوجاتاہے اور یوں اس کے بعد ہی اسے بحر علم میں غوطہ زنی کرنے کی استعداد مل جاتی ہے ۔تو امید یہی ہے کہ فراغت کے بعد آپ کا مطالعہ کم نہیں ، زیادہ ہوا ہو اور علم ِ نافع حاصل کرنے کی حرص بھی اللہ کرے پہلے سے بڑھ گئی ہو ۔

پھر الحمدللہ، جہاد اور غلبۂ دین کی جدوجہد کی جو اہمیت آج کے اس دور میں ہے ، اس سے آپ چونکہ آگاہ ہیں ، اس لیے آپ کے ہاں علم ِ نافع کے تعین میں بھی ابہام نہیں ہوگا ۔ دیگر دینی امور بھی بہت اہم ہیں ، ان کا تفصیلی علم بھی یقیناً نافع ہے، الحمدللہ کہ ان امور کا علم رکھنے والے علماء بھی معاشرے میں مناسب تعداد میں موجود ہیں اور ضروری ہے کہ ہم ان سے استفادہ کریں، مگر چونکہ دعوت وجہاد کے متعلق موضوعات آج عوام کیا، خواص تک میں بھی اجنبی ہوکر رہ گئے ،اس لیے جس طرح جہاد آج اہم ترین فرض عین ہے ، اس طرح آپ جیسے عالم و داعی کے لیے اُن تمام علوم کا حصول اور ان میں تخصص حاصل کرنا بھی انتہائی ضروری ہے جن کے ذریعے جہاد فی سبیل اللہ کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا جا سکے اور انہیں اپنے ساتھ شاملِ سفر کرکے نظام باطل کے خلاف کھڑا کیا جا سکے۔

نیز اس سفر میں الأھم فالأھم، اولویات کا خیال رکھنا بھی یقیناً آپ کی نظر میں ہوگا ۔ آپ کو اس پر شرحِ صدر ہوگا کہ کسی ایسے شرعی لحاظ سے کم اہم مسئلے کو موضوع بحث نہیں بنانا چاہیے کہ جس کے سبب اہم ترین امور کی دعوت متنازع بن جائے اوریوں ہماری ایسی کسی غلطی کے سبب مخاطبین وقت کےتقاضے کو جاننے سے محروم رہ جائیں ۔

بھائی نے لکھا تھا کہ حلقے میں موجود بھائیوں کی تعلیم و تربیت میں بھی الحمدللہ آپ بھرپور حصہ ڈالتے ہیں ، اللہ آپ کو مزید توفیق دے اور اس میں آپ کی بھرپور رہنمائی فرمائے ، اس حوالے سے تذکیراً اور اجر میں شامل ہونے کی نیت سے ایک دو باتیں عرض کرتاہوں ۔

آپ ساتھیوں کو جہادی موضوعات کے متعلق شرعی وفکری تعلیم تو یقیناً دیتے ہوں گے، اللہ اس میں برکت ڈالے ، مگر اس تعلیم کے ساتھ ساتھ ایک دوسری تعلیم ، دوسری تربیت کی اس سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ یہ ہے قلب وذہن کی ایسی تربیت کہ ساتھیوں میں اخلاص واخلاق پیدا ہوں اور اس کے نتیجے میں خالق و مخلوق دونوں کے حقوق ادا ہوں ،یعنی اللہ رب العزت کے ساتھ بھی بہترین تعلق بن جائے اور مخلوق میں دوست و دشمن اور اپنے حامیوں اور مخالفین کے ساتھ بھی عین وہی تعلق ہو جو شریعت کو مطلوب ہے ۔دعوت ِ جہاد کے میدان میں مزاج کے غیر معتدل ہونے کا امکان زیادہ ہوتاہے، جہاد نام ہی دشمنان دین کے خلاف سختی کرنے کا ہے ،اس لیے جہاں مزاج میں کفار کے خلاف انتہا درجے کی سختی مطلوب ہوتی ہے ﴿أشداء علی الکفار ﴾اور یہ سختی دعوت وجہاد کے سبب آ بھی جاتی ہے ، وہاں ساتھ ہی اپنے مسلمانوں کے ساتھ ﴿رحماء بینہم﴾ پر عمل بھی برابر ضروری ہوتاہے مگر شیطان اس نرمی اور محبت کو مشکل بنادیتا ہے اور یہاں بھی بندے سے سختی ہی کرواتاہے ، شیطان کی کوشش رہتی ہے کہ خیر کو اس انداز میں شر میں تبدیل کرے کہ بندہ شر کو بھی پھر خیر سمجھ کر کرے،ابن قیم رحمہ اللہ کے مطابق اگر کسی شخص کا مزاج سختی مائل ہو تو شیطان اُسے ایسی سختی کی طرف دھکیلتا ہے جو غیر شرعی ہو اور جو اللہ کی ناراضگی کا باعث ہو ، یعنی شیطان جائز بلکہ مطلوب منزل کے لیے بندے کے سامنے ناجائز اور بالکل غیر شرعی طریق مزین کرتاہے۔ نظام باطل کے خلاف نفرت اور دشمنان دین کے ساتھ دشمنی وجہاد مطلوب ہے ، مگر شیطان کی کوشش ہوتی ہے کہ اس نفرت اور دشمنی کو اپنے جائز ومطلوب مقام پر نہ رہنے دے ،بلکہ وہاں بھی اس کو مزاج میں لے آئے جہاں شریعت محبت ودوستی کاتقاضا کرتی ہو، یوں وہ محبت و نفرت میں عدل کی جگہ ظلم کرواتاہے، یعنی جہاں ادب کے ساتھ بس جزوی اختلاف مطلوب ہوتا ہے ،وہاں وہ ہمیں ایسے کلی اختلاف کی طرف لے جاتاہے جہاں ہم اپنی رائے وفکر سے اختلاف رکھنے والے کو بالکل مجسم شر دکھائیں اورایسا کرنایقیناً ظلم ہوتاہے ۔ جن کے ساتھ ، ان کی کسی خامی کے باوجود شریعت سے محبت کرنے اور ان کا ذکر خیر کے ساتھ کرنے کا مطالبہ کرتی ہو شیطان ہمیں بھڑکاتاہے اور ساتھ تاولیں بھی سمجھاتاہے کہ ہم اُن کے خلاف اپنی زبانیں گندی کریں اور ان سے مکمل نفرت کا اظہار کریں ۔ ایسا جب ہوتا ہے تو پھر تمام تر یہ غیر شرعی سختی ہماری طرف سے جہادی دعوت کے نام پر ہوتی ہے ، پھر ہم بغض ، غیبت ، تعصب ، طنز وتشنیع پر مبنی اس مکمل طور پر غلط تعامل کو ہی عین نیکی اور جہاد سمجھتے ہیں اور یوں یہ بڑے واضح گناہ بھی پھر ہمارے ہاں جائز ، بلکہ عبادت سمجھ کرکیے جاتے ہیں۔آپ جانتے ہیں کہ بدترین گناہ وہ ہے جو نیکی سمجھ کر کیا جائے ، ایسا گناہ شیطان کودیگر سے محبوب تر کیوں ہوتا ہے؟ وجہ اس کی یہ ہے کہ چونکہ اسے ثواب سمجھ کر کیا جاتاہےاس لیے بندے کو ندامت نہیں ہوتی، احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ گناہ کررہاہے، اس لیے توبہ کی توفیق بھی اسے نہیں ملتی ۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خیر شر کے ذریعے حاصل نہیں ہوتی ، شریعت خود احکامِ شریعت کو ہی پاؤں تلے روندنے سے قائم نہیں کی جاسکتی اور جہاد فی سبیل اللہ کا اجر اللہ ہی کو ناراض کرکے نہیں کمایا جا سکتا ۔پس یہ طرزِ عمل ایسا ہے کہ دوسرے کا دامن آگ میں جلتا دیکھ کر(یعنی اس میں چھوٹی برائی دیکھ کر) خود اپنے آپ کو ، اپنے ہی ہاتھوں آگ لگائی جائے ، اس طرز عمل سے خوداپنے دل پھر سخت اور اخلاق بد ہوجاتے ہیں اوریوں ایسا’’داعی ‘‘نظام کفر کی نفرت اور منکرات روکنے کی ’حرص‘ میں نعوذ باللہ اپنی ہی آخرت برباد کرلیتاہے ۔ ایسے فرد سے جہاد و اصلاح کے دعووں کےباوجود بھی فتنہ وفساد پھیلتاہے ، اس کے قول و عمل سے دعوت ِ جہاد کو نقصان ہوتا ہے ،وہ دین سے متنفر کرنے کا باعث بنتاہے اور ایک وقت آتاہےجب وہ دعوت و جہاد کی عبادت سے محروم ہوجاتا ہے یا…… اس راستے پر ہی اس کا خاتمہ انتہائی عبرت ناک ہوجاتاہے۔ یہ تو دنیا میں نتیجہ ہے ، آخرت کا تصور کریں کیا انجام ہوگا؟!

لہٰذا عزیز بھائی! محبت ونفرت ، مدح و نقد اور تائید ومخالفت) افراد کی ہو یاجماعتوں کی ( لازم ہے کہ یہ مبنی بر علم اور عدل ہوں ،اور اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ ساتھیوں کی فکری تعلیم سے زیادہ شرعی اور اخلاقی تربیت بھی ہو ،اس تربیت میں پھر قلوب کی اصلاح یعنی تزکیہ و احسان کا اہم ترین ہدف ہوناضروری ہے ۔ دعوت وجہاد اور تمام تر عبادات کا اصل مقصد اللہ کی قربت ومحبت حاصل کرنا ہے اور یہ تب ہی ملتی ہیں جب قلب اللہ ہی کی محبت ، اللہ ہی سے طمع اور اللہ ہی کے خوف سے معمور ہو۔اور یہ کیفیت تب ہی حاصل ہوسکتی ہے جب بندے کی محبت و نفرت خالص اللہ کے لیے ہوں ،یعنی جو صفات یا جو لوگ اللہ کو محبوب ہو ں ، وہ اُسے بھی محبوب ہوں اور اُن کی تعریف کرتاہو، چاہے ان صفات والا فرد اس کے اپنے گروہ کا نہ ہو اور جن لوگوں سے اللہ نفرت کرتاہو،وہ ان سے نفرت کرتاہو چاہے وہ بری صفت والا رشتے ناطے کے لحاظ سے اس کا قریبی ہی کیوں نہ ہو، گویا اس کی محبت ونفرت خواہش نفس کی نہیں ، بلکہ شریعت کے تابع ہو اور وہ اپنے اقوال ومواقف میں مکمل طور پر عدل سے کام لیتاہے ۔ایسا جب ہوتاہےتو داعی و مجاہد خیر کی کنجی اور شر کے لیے تالا بن جاتاہے اور اس کے ذریعے پھر لوگ اللہ کے ساتھ اور اس کو راضی کرنے والے راستے دعوت و جہاد کے ساتھ جڑتے ہیں ۔لیکن یہ سب صفات ظاہرہے محض خواہش وارادے سے حاصل نہیں ہوتیں ، اس کے لیے ارادے کے بعد علمِ شرعی اور تربیت کی بھی ضرورت ہے اور ساتھیوں کو یہ سب (ترغیب ،علم شرعی اور تربیت ) دینامربی حضرات ، یعنی آپ جیسے بھائیوں کی ذمہ داری ہے ۔ پس ضروری ہے کہ ہرہر معاملے میں ، ساتھیوں کو علمِ شرعی سے جوڑا جائے ۔ ساتھیوں کی ایسی تربیت ہو کہ وہ خود رائی نہ کریں ،بلکہ ہر قدم اٹھانے اور ہر موقف اپنانے سے پہلے شرعی رہنمائی کی حاجت محسوس کریں اور شرعی رہنمائی ملنے اور اس پر عمل کے بعد ہی انہیں اطمینان ِ قلب حاصل ہو۔

دو باتیں مزید عرض کروں گا۔ ساتھیوں کو افراد پر فتویٰ اور لیبل لگانے سے ڈرایا جائے ، لوگوں پر کفر و فسق کے فتاویٰ لگانا ساتھیوں کا کام قطعاً نہ ہو۔ خطرناک اعمال کی پہچان انہیں ضرور کرائی جائے تاکہ وہ خود ان سے بچیں اور دوسروں کو بھی ان سے بچنے کی پرسوز دعوت دیں۔ مگر ان اعمال کی بنیاد پر کسی پر کفر و فسق کے لیبل لگانا کسی طور پر بھی صحیح نہیں۔یہ طرز ِ عمل خود داعی اور مجاہد کے اپنے دین کو خطرے میں ڈالتاہے اور اس سے دعوت وجہاد کو بھی فائدے کی جگہ نقصان ہوتاہے۔ یہ انتہائی حساس کام ہے جو علم شرعی اور فقہ الواقع میں رسوخ رکھنے والے اصحابِ تقوی مفتیان ِکرام اور قاضیوں ہی کے دائرے میں آتاہے اور وہ بھی یہ کام تب کرتے ہیں جب اس کی واقعی ضرورت ہو اور دین کو اس کا فائدہ ہو۔ ہمارے ساتھی اپنے عوام وخواص کے سامنے داعی ہوں ۔ داعی برے اعمال کی برائی اور دنیا وآخرت میں ان اعمال کے نتائج ضرور بیان کرتا ہے ،مگر یہ سب کچھ سخت ضدی مخالف کے سامنے بھی وہ انتہائی نرمی ، دردمندی اور ہمدردی کے ساتھ پیش کرتاہے اور تب کہیں جاکر وہ مخاطبین کے دلوں میں اپنی دعوت کے لیے جگہ بناتاہے۔

اگلی اہم بات ، علمائے کرام کے احترام سے متعلق عرض کروں گا۔ علماء کے خلاف زبان استعمال کرنے سے ساتھیوں کو روکنا ضروری ہے ۔کسی عالم کی کسی بات سے اتفاق نہ ہو تو اس کے متعلق خاموشی بہترہے، اگر لوگوں کو بات واضح کرنے کی ضرورت ہو تو اس عالم کانام چھوڑ کر ، صرف اُس خاص موضوع پر کسی اور عالم کی مدلل بحث پیش کرنا کافی ہوجاتاہے، مگر اس کے برعکس اُس عالم کے خلاف مہم شروع کرنا ،اس کے خلاف سخت زبان استعمال کرنا، محفلوں میں اس کا مذا ق اڑانا اور اسے موضوع بحث رکھنا یہ کسی طورپر بھی ٹھیک نہیں ۔ اس عمل سے خیر پیدا نہیں ہوتی بلکہ اس سے چونکہ محض نفس کو لذت ملتی ہے ، اس لیے دلوں سے نفس ِعلم شرعی اور علمائے کرام کا احترام اٹھ جاتاہے اور اس کا اول وبال خود یہ عمل کرنے والے پر آتا ہے۔ لہٰذا ساتھیوں کی اس حوالے سے بھی خصوصی تربیت ہو۔ اس طرح ضروری ہے کہ تمام اہل دین ، ہمارے حامی ہوں یا مخالف ، سب کے ساتھ تعامل علم وعدل کی بنیاد پر ہو اور ان کے ساتھ عمومی طورپر خیرخواہی اور خیر کے کام میں تعاون والا تعلق رکھنا ضروری ہے ۔

یہ چند بکھری بکھری باتیں تھیں ، جو آپ کی خدمت میں پیش کیں،اللہ ان باتوں کے شرسے مجھے اور آپ کو محفوظ فرمائے اور اس کی خیر ہم دونوں کو عطا کرے،آپ رابطے میں رہیے ، ساتھیوں کو کیاکچھ آپ پڑھاتے ہیں ، کیا موضوعات زیر تربیت لاتے ہیں ، اگر یہ یہاں ذمہ داران کو بھجوادیں تو اچھا ہوگا۔ اللہ آپ سے راضی ہو، دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔

جزاکم اللہ خیراً

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

۱۷ربیع الاول ۱۴۴۳ھ بمطابق ۲۳ اکتوبر ۲۰۲۱ء

٭٭٭٭٭


1 ’’ اور مسلمانوں کے لیے یہ بھی مناسب نہیں ہے کہ وہ (ہمیشہ) سب کے سب (جہاد کے لیے) نکل کھڑے ہوں۔ لہٰذا ایسا کیوں نہ ہو کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک گروہ (جہاد کے لیے) نکلا کرے، تاکہ ( جو لوگ جہاد میں نہ گئے ہوں وہ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے لیے محنت کریں، اور جب ان کی قوم کے لوگ (جو جہاد میں گئے ہیں) ان کے پاس واپس آئیں تو یہ ان کو متنبہ کریں، تاکہ وہ (گناہوں سے) بچ کر رہیں۔ ‘‘(سورۃ التوبۃ: ۱۲۲)

Exit mobile version