گفتار نہیں گھر سے نکلنے کا سمے ہے!

بات کہاں سے شروع کی جائے اور کہاں ختم؟ قرطبہ سے شروع کریں اور میسور تک پہنچیں تو تاریخ کا ہر ورق لہو لہو ہے۔ غزہ تا سرینگر ایک ہی کہانی ہے، ایک سے اسباب ہیں اور ایک ہی حل۔

ایام منانے کی رِیت مغرب سے آئی ہے، جس کو نافذ مغرب ہی کے نیو ورلڈ آرڈر نے کیا ہے1۔ ہمیں کسی کے خلوص پر کوئی شبہ نہیں ہے، لیکن انہی ایام میں ایک یومِ کشمیر بھی ہے۔ منانے والوں کی کثیر تعداد کے اخلاص پر بھی کوئی شک نہیں۔ لیکن بے روزگار آدمی محض یومِ بے روزگاری نہیں مناتا، مزدور، یومِ مزدور کو بھی محنت کرتا ہے، نعرے اور جلسے پیٹ بھرنے کو کام نہیں آتے۔ کچھ کشمیر کی صورتِ حال کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔

ایک کروڑ مسلمانوں کا مسکن ، گلگت بلتستان، لداخ اور جموں و کشمیر جسے ماضی میں کشمیر اور آج جس کے صرف جموں و کشمیر کے حصوں کو چاہے وہ اِس پار (پاکستان) میں شامل ہوں یا اُس پار (مقبوضہ ) ہوں، کشمیر کہتے ہیں۔ یہاں درجنوں اقوام صدیوں سے بستی ہیں۔ یہاں اسلام کی دعوت حضرت عبد الرحمٰن بلبل شاہؒ لے کر پہنچے اور اس دعوتِ دین کا نفاذ بعد میں آنے والے سبھی مسلمان سلاطین نے اپنے جہاد و انتظام سے کیا۔ یہ خطہ دارالاسلام بنا رہا یہاں تک کہ سکھوں نے اس علاقے پر قبضہ کیا اور بعد میں انہی کی روحانی و جسمانی اولادوں نے چند روپوں میں اس سر زمین کا سودا کیا اور ہندو بھگوا دہشت گردوں کا یہاں قبضہ ہو گیا۔ آزاد قبائل کے پابندِ شریعت مہاجر مجاہدوں نے مقامی انصار مجاہدوں کی صدا پر لبیک کہا، جو علاقہ آج آزاد کشمیر کہلاتا ہے، انہیں مردانِ غیرت و حمیت کے جہاد و قتال کے سبب ’آزاد‘ ہوا۔ یہی انصار و مہاجر مجاہدین سری نگر تک جا پہنچے اور سری نگر ائیر پورٹ کا قبضہ سنبھال لیا۔ پاکستانی اداروں کی پالیسی نے ان مجاہدین کو آج سے ستّر برس قبل Abandon‘ کیا اور پاکستان فوج میں شامل فوجی جنہوں نے ملکی پالیسی پر ملتِ اسلام کو ترجیح دی ان مہاجر و انصار مجاہدوں کے ساتھ ڈٹے رہے، ان سبھی مجاہدوں اور فوجیوں میں سے کچھ شہید ہوئے اور کچھ کے پاس آزاد کشمیر میں واپس آنے کے سوا کوئی چارہ نہ بچا۔میر جعفر و میر قاسم کی تاریخ چند سالوں کی تھی ہمارے میروں کی تاریخ، کشمیر سے بے وفائی پر آٹھویں دِہائی میں داخل ہے ، اللّٰہ کرے کہ یہ کلنک کا ٹیکہ صدی کا ’تمغہ‘ حاصل نہ کر پائے!

کشمیر میں ظلم بڑھا اور اس ظلم کے خلاف نہتے کشمیریوں نے چالیس سال تک پتھروں سے مزاحمت کی۔ پھر آج سے تیس برس سے کچھ زائد قبل چند جوانوں نے سرفروشی کی قسم کھائی اور اس راستے کو اختیار کیا جس کو مالکِ کائنات نے اپنا راستہ، فی سبیل اللّٰہ، جہاد قرار دیا۔ یوں کشمیر میں تاریخِ حریت و حمیت کے ایک نئے باب کا اضافہ ہوا۔ اِس پار بیٹھے وردی و بے وردی سیاست دانوں نے جہادِ کشمیر میں اپنی ہند دشمن قومی پالیسی کی بقا دیکھی اور اس جنگ کو تزویراتی بنیادوں پرکمک فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا۔اس پالیسی و منصوبے کے تحت حکمرانوں نے سیاسی و سفارتی فوائد سمیٹے اور جہادِ کشمیر کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔ ان حکمرانوں کی شرانگیزی سے اللّٰہ جو خیر الماکرین ہے، نے امتِ مسلمہ میں عموماً اور اہلِ پاکستان و ہند میں خصوصاً ایک جہادی بیداری کے اسباب بہم فرمائے۔ عرب مہاجر مجاہدین جنہوں نے اپنے انصار افغان مجاہدوں کے ساتھ مل کر روس کو توڑا تھا، کشمیر پہنچے۔ لیکن جرنیلی عہدوں پر فائز امریکی وفاداروں نے ان کو جہادِ کشمیر میں حصہ نہ ڈالنے دیا، کچھ واپس پلٹے اور چند زندانوں کا شکار ہوئے۔ قبل از نائن الیون جہادِ کشمیر کی کامیابی میں بنیادی رکاوٹ جرنیلی پالیسیاں بایں معنیٰ تھیں کہ انہوں نے جہادِ کشمیر کو ’کنٹرولڈ‘ رکھا۔ اسلحہ دیا، لیکن اتنا جس سے مزاحمت کنٹرولڈ رہے، ٹریننگ دی لیکن اپنی پالیسی میں مقید، ساتھ ہی مجاہدین کی صفوں میں ایسے عناصر بھی داخل کرنے کی کوشش کی جنہوں نے جہادِ کشمیر کو کنٹرولڈ رکھنے کی سعی کی2۔ بعد از نائن الیون جہادِ کشمیر کے ساتھ ان امریکی وفادار حکمرانوں نے کیا کیا تو اس کا اظہار امریکیوں کے خاص وفادار جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ان الفاظ میں کیا:

’’نائن الیون کے واقعے نے اصطلاحات کو مکمل تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ ہم نائن الیون سے پہلے اور بعد میں ایک ہی طریقۂ کار پر کاربند نہیں رہ سکتے۔ جو تحریکیں نائن الیون سے پہلے آزادی کی جد و جہد کہلاتی تھیں، نائن الیون کے بعد وہ کچھ اور ہیں۔ ہم ابھی بھی سمجھتے ہیں کہ کشمیر کی تحریک، آزادی ہی کی جد و جہد ہے، لیکن جب آپ کو اس پر کہیں سے کوئی مدد نہ ملے تو آپ کو اپنے معاملات میں سدھار لانا پڑتا ہے۔

مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں ہے کہ ہم نے تحریکِ آزادیٔ کشمیر کی حمایت ترک (abandon)کر دی ہے کیونکہ یہی ہمارے قومی مفاد میں ہے!‘‘3

لاالٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ‘ کی بنیاد پر قائم ہونے والے ملکِ پاکستان کی افواج کے بنیادی افسروں سے لے کر جنرل و مارشل و ایڈمرل کے عہدوں تک پر فائز لوگوں کا فرض تو یہ تھا (اور ہے) کہ رشتۂ لا الٰہ الا اللّٰہ کو خونی لکیر کے اس پار اور اس پار تقسیم نہ ہونے دیتے، قبل و بعد از نائن الیون کی امریکی تعریف برائے ’ٹیرر ازم‘ کو تسلیم نہ کرتے بلکہ کشمیری مجاہدین کی مدد و کمک کرتے اور یہاں سے وہاں جانے والے ہجرت و جہاد کے راہیوں کا راستہ بند نہ ہونے دیتے۔ لیکن للاسف، یہ نہ ہوا۔ بلکہ امریکہ جب اس خطے سے دم دبا کر فرار ہو رہا تھا (اور اب ہو چکا ہے) تو پچھلے دو سال (۲۰۲۰۲۱ء) سے پاکستان کی جانب سے بلا تفریق تمام جہادی تنظیموں پر moratorium یعنی جنگی وسائل، خوراک اور پیسوں کی رسد پر بندش ہے۔ اور یہ بندش وہ نہیں کہ جو نائن الیون کے بعد ریاستی و حکومتی سطح پر لگائی گئی بلکہ جو سپلائی لائن ادنیٰ صورت میں تنظیموں کی جانب سے جاری تھی اس کو بھی مکمل بند کر دیا گیا۔ یہ سب اسی عرصے میں ہوا جب دفعہ 370 اور 35A کے خاتمے کے بعد بھگوا دہشت گرد حکومتِ ہند نے کشمیر کا ’سراپا‘ جغرافیے سے لے کر دین تک بدلنے کے عملی اقدامات کیے۔

دوسری طرف تحریکِ آزادیٔ کشمیر جس کا مساوی عنوان جہادِ کشمیر ہے کو کچلنے کے لیے حکومتِ ہند نے متعدد خفیہ و غیر خفیہ تحقیقاتی کمیشن بٹھائے، رپورٹیں ثم پالیسیاں مرتب کیں۔ سنگ باز مرابط نوجوانوں سے مجاہد کمانڈروں برہان مظفر وانی، سبزار احمد بھٹ، مفتی ہلال اور ذاکر موسیٰ و عبد الحمید للہاری تک شہید کیے گئے۔ داخل کشمیر میں حالیہ صورتِ حال (اگست ۲۰۱۹ء تا دسمبر ۲۰۲۱ء) پر برطانوی ادارے ’سٹوک وائٹ لمیٹڈ‘ کی جنوری ۲۰۲۲ء میں شائع کردہ رپورٹ India’s war crimes in Kashmir | Violence, dissent and the war on terror‘ انہی حقائق سے پُر ہے۔ادارے ’سٹوک وائٹ‘ نے اپنے سروے اور تحقیقات ایک محدود پیمانے پر کیں اور صرف اسی ایک ادارے نے گزشتہ دو سالوں میں دو ہزار (۲۰۰۰)سے زائد جنگی جرائم اور ناحق تعذیب و تشدد کے واقعات دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ محفوظ کیے جن میں ہماری مسلمان کشمیری ماؤں، بہنوں اور بہو بیٹیوں کے ساتھ انفرادی و اجتماعی عصمت دری کے واقعات بھی شامل ہیں، إنّا لله وإنّا إليه راجعون!

اس رپورٹ کے مندرجات کے مطابق ایک حیران کن امر یہ بھی ہے کہ گرفتار کیے گئے کشمیری نوجوانوں سے کئی بار اسرائیلی انٹیلی جنس ادارے’موساد‘ کے ایجنٹوں نے تفتیش کی جن کا رنگ و زبان مغربی تھا۔یہ اسرائیلی یہودی انٹیلی جنس افسر کشمیری نوجوانوں پر براہِ راست بدترین جسمانی تشدد میں بھی ملوث رہے۔اس وقت بھارت کے اسرائیل کے ساتھ سالانہ عسکری اخراجات ایک کھرب ڈالر سے متجاوز ہیں۔ بھارتی فوج نے لداخ و کشمیر کے علاقوں کی جاسوسی کرنے کے لیے اسرائیلی دفاعی فورسز سے بیس (۲۰)کروڑ ڈالر کے اجارے پر چار (۴) ہیرون (Heron) ڈرون طیارے حاصل کیے ہیں۔ بھارتی ائیر فورس کے پاس اس وقت پچھتر (۷۵) ہیرون ڈرون طیارے موجود ہیں۔ اس کے علاوہ مودی سرکار نے بھارتی بَرّی فوج کے لیے چالیس (۴۰) کروڑ ڈالر کی مالیت سے دس (۱۰)عدد ہیرون ڈرون طیارے بھی اسرائیل سے خریدے ہیں۔ ’دی ڈیفنس پوسٹ‘ کے مطابق بھارت دو (۲) عدد امریکی ساختہ مسلح MQ-9 Predator ڈرون طیارے بھی امریکہ سے خریدنے والاہے4۔یہ ہے بھارتی ظلم و ستم، اندھیر نگری اور آئندہ کی جنگ کی تیاری کی عموماً پچھلے چند سالوں اور خصوصاً دو سالوں کی ایک جھلک اور دوسری طرف ریاست و حکومتِ پاکستان کا پچھلے دو سالوں سے moratorium بھی ہمارے سامنے ہے۔ اس moratorium کے سبب کشمیر میں ہندو فوج کو بہت زیادہ تیاری کرنے کا موقع ملا اوریوں محض پچھلے چار ماہ میں ہندو بھگوا فوج کے جارح اقدامات کے سبب جموں و کشمیر میں مجاہدین کی ایک تہائی (1/3) قوت ختم کی جا چکی ہے، حسبنا اللّٰہ ونعم الوکیل ونعم المولیٰ ونعم النصیر!

بھارتی دہشت گردی کی ایک نمایاں تصویر ریاستِ میسور (جس کا نام بدل کر کرناٹک کر دیا گیا) میں تعلیمی اداروں میں مسلمان عفیفات کے حجاب پر پابندی ہے، جس پر پچھلے تین ماہ سے ریاستِ کرناٹک میں مستقل مظاہرات جاری ہیں۔ آج ہندوستان کے حالات اس درجے پر پہنچ چکے ہیں کہ نام نہاد ’سیکولر‘ ریاست کا بد نما چہرہ بے نقاب ہو چکا ہے، عقیدۂ ہندُتوا پوری طرح سے ظاہر و باہر ہے اور اس ریاست کے اس چہرے کے ساتھ ایک اور حقیقت کو بھی ’سلطنتِ خداداد میسور‘ میں سلطان حیدر علیؒ کی پوتی اور سلطان فتح علی ٹیپو شہیدؒ کی بیٹی ’مسکان‘نے کھول دیا ہے۔ امتِ مسلمہ کی بیٹی ’مسکان‘ نے تنِ تنہا بھگوا بھیڑیوں کے جتھے کو محض اپنے نعرۂ تکبیر سے شکست دی۔ ایک طرف گنیش و ہنومان جیسے کروڑوں خداؤں کو پوجنے والے چالیس (۴۰)سے زائد غنڈے اور ایک طرف نہتی نہیں، اللّٰہ کی وحدانیت و عظمت والے نعرۂ تکبیر سے ’مسلح‘ مسکان۔ امتِ مسلمہ کی بیٹی اور شجاعت میں ملتِ اسلامیہ کے مجاہد بیٹوں جیسی مسکان نے اپنے عزم و عمل سے ثابت کیا کہ ہندو دنیا کی بزدل ترین قوم ہے، جو کمزور کو مارتی اور طاقت ور کو پوجتی ہے! اوراگر چالیس غنڈے، ڈنڈوں سے مسلح اور بھگوا چادروں کو گھماتے بھی کسی مسلمان کا گھیراؤ کریں تو ان کو اپنے عزم و عمل سے شکست دی جا سکتی ہے۔ ایک مسکان نے یہ ثابت کیا کہ اگر قوتِ ایمان کے ساتھ ایک مسلمان لڑکی اگر چالیس گنا دشمن کا مقابلہ کر سکتی ہے تو ہندوستان کے چوتھائی ارب (پچیس کروڑ سے زائد) مسلمان بھی تیاری، حکمتِ عملی اور صف بندی کے ساتھ چار گنا بڑے (ایک ارب) دشمن کو شکست دے سکتے ہیں۔

آج امریکی و بھارتی و اسرائیلی ورلڈ آردڑ کے خلاف جاری جنگ من حیث المجموع پوری امت کی جنگ ہے اور امت کے ہر ہر فرد کو اس جنگ میں اپنی استطاعت کے بقدر کہیں جان و مال سے، کہیں زبان و بیان سے اور کچھ نہ ہو تو نیک جذبات اور دعاؤں کے ساتھ باطل کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ پھر برِّ صغیر کے مسلمانوں پر تو پاکستانی، بنگلہ دیشی، ہندوستانی و کشمیری کی تفریق کے بغیر خاص کر اس جنگ کو لڑنا فرضِ عین ہے ۔ اکھنڈ بھارت کا مقابلہ برِّ صغیر کی سلطنتِ اسلامیہ کی بحالی کی کوشش کرنے والے علمائے کرام و مفکرین و اہلِ دانش اور داعیان و مجاہدین ہی کر سکتے ہیں۔ اہلِ برِّ صغیر کو درج ذیل چند اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے:

برِّ صغیر میں بستے اہلِ ایمان کو غم زدہ اور شکستہ پا نہ ہونا چاہیے کہ ہم سے ہمارے اللّٰہ کا وعدہ ہے:

وَلاَ تَهِنُوا وَلاَ تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ؀ (سورۃ آلِ عمران: ۱۳۹)

’’ اور(اے مسلمانو!) ہمت نہ ہارو اور غمگین نہ ہو اور تم ہی غالب و سربلند رہو گے اگر تم مومن ہو !‘‘

کوئی کشمیر میں ہونے والی شہادتوں، رسد و کمک کی کمی ، ہندوستان میں پابندیوں اور گرفتاریوں سے نہ ڈرے کہ برِّ صغیر میں اسلام کا غالب ہونا لوحِ محفوظ میں درج ہے۔ بھارت ماتا کے برہمنوں، راجوں اور حکمرانوں نے عن قریب زنجیروں میں کسا جانا ہے اور اس جہادِ ہند و سندھ میں حصہ ڈالنے والوں کے لیے جہنم سے آزادی کی بشارت ہمیں ہمارے حبیب سیّد الاولین والآخرین نے دی ہے، صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔

اللّٰہ اور اس کے رسولِ برحق (علیہ ألف صلاۃ وسلام) کے وعدے بھی ہیں اور عطا کردہ بشارتیں بھی، لیکن بات یہ ہے کہ ان وعدوں کے نتائج اور بشارتوں کو حاصل کرنے کے لیے ہم کیا کر رہے ہیں؟

گفتار نہیں گھر سے نکلنے کا سمے ہے
الفاظ سے یہ چاک کہاں پہلے سِلا ہے
جمہوری دجل چھوڑ کے تلوار اٹھا لو
شمشیر میں دم توڑتی امت کی جِلا ہے

اللھم وفقنا كما تحب و ترضى وخذ من دمائنا حتى ترضى .اللھم زدنا ولا تنقصنا وأکرمنا ولا تھنّا وأعطنا ولا تحرمنا وآثرنا ولا تؤثر علینا وأرضنا وارض عنا. اللھم إنّا نسئلك الثّبات في الأمر ونسئلك عزیمۃ الرشد ونسئلك شكر نعمتك وحسن عبادتك. اللھم انصر من نصر دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم واجعلنا منھم واخذل من خذل دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا تجعلنا منھم، آمین یا ربّ العالمین!

٭٭٭٭٭


1 عموماً قومی و بین الاقوامی طور پر ایام دو قسم کے منائے جاتے ہیں۔ اول ایشوز (issues)جو نان ایشوز (non-issues)قرار دے دیے گئے ہیں، انہیں نان ایشو ہی رکھنے کے لیے اور دوئم نان ایشوز کو ایشو بنانے کے لیے۔مغرب نے ماں کے جسم کو بھی اور اس کی روح کو بھی پامال کیا، پھر ہر سال لاکھوں ڈالر Mother’s Day پر قربان کیے جاتے ہیں۔ باپ(جس کردار نے انسانیت کے یومِ پیدائش سے اب تک معاشرے کو سنبھال رکھا ہے)کی حیثیت کالعدم کرنے کے لیے پدر شاہی نظام(patriarchy) کا خاتمہ کے نعرے ابھی آنے والے مہینے مارچ کی آٹھ تاریخ کو سنائی دیں گے اور یہی نعرہ زن کہیں چند دنوں اور کہیں چند ہفتوں بعد Father’s Day منائیں گے۔ جدید دنیا کے باپوں نے وَن نائٹ سٹینڈ کے بعد ماؤں کو امید سے چھوڑ کر اور ماؤں نے بچوں کو قبل از پیدائش اور کہیں بعد از پیدائش گرایا ہو گا اور دنیا Children’s Day منا رہی ہوگی۔Valentine’s Day کی تاریخ کو رہنے دیجیے، یہ عیسائی ہے یا یہودی، اب تو بہر حال عالمی ہے۔ محبت کو شہوت اور شہوت بھی اسفل، بے جا و بے حکمت کے ماتحت کر کے دنیا سرخ ہو جاتی ہے، کروڑوں ڈالر اس دن سرخ گلابوں، چاکلیٹوں، غباروں اور ٹیڈی بیئروں کی نذر ہو جاتے ہیں اور جو ڈالر بچ جاتے ہیں وہ محرمات کو پامال کرنے کے بعد مانعِ اولاد ادویہ پر صرف ہو جاتے ہیں۔ پھر عورتوں کا دن ہے، اس دن کے مقاصد، منشور اور نعرےعورت کو حیوان نما مردوں کی سر تا پاخواہشات کے سپرد کر دینے کا دوسرا عنوان و متن ہیں۔ ان چند سطروں میں ہم نے یہی ثابت کیا ہے کہ ان چند ایشوز میں سے بعض نان ایشو ہیں اور ایشوز نان ایشو ، گویابے تکی جگالی، ڈھاک کے تین پات، وہی ٹائیں ٹائیں فِش! پانی کو کہیے کہ تم فضا میں ہوا کے شانہ بشانہ اڑا کرو اور ہوا کو کہیے کہ تم سمندر میں رہا کرو!

2 اس کنٹرولڈ مزاحمت‘ کو سمجھنے کے لیے مجاہدِ اسلام شیخ افضل گورو شہید رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تصنیف ’آئینہ‘ بہت ممد و معاون ہے۔

3 فوجی افسران کی ایک محفل میں گفتگو، جسے آئی ایس پی آر نے فلم بند کیا اور فوج میں موجود بعض مجاہد ساتھیوں نے القاعدہ برِّ صغیر کے ذمہ داران تک پہنچایا، نشر کردہ ’ادارہ السحاب برِّ صغیر‘۔

4 India to Finalize MQ-9 B Predator Drone Acquisition, The Defense Post (July 2021)
https://www.thedefensepost.com/2021/07/30/india-predator-drones-acquisition

Exit mobile version