مجلّہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ بطلِ اسلام، مجاہد قائد، شہیدِ امت، صاحبِ سیف و قلم شیخ یحییٰ ابراہیم السنوار رحمۃ اللہ علیہ کےایمان اور جذبۂ جہاد و استشہاد کو جلا بخشتے، آنکھیں اشک بار کر دینے والے خوب صورت ناول اور خودنوشت و سرگزشت ’الشوک والقرنفل‘ کا اردو ترجمہ، قسط وار شائع کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔ یہ ناول شیخ نے دورانِ اسیری اسرائیل کی بئر سبع جیل میں تالیف کیا۔ بقول شیخ شہید اس ناول میں تخیل صرف اتنا ہے کہ اسے ناول کی شکل دی گئی ہے جو مخصوص کرداروں کے گرد گھومتا ہے تاکہ ناول کے تقاضے اور شرائط پوری ہو سکیں، اس کے علاوہ ہر چیز حقیقی ہے۔ ’کانٹے اور پھول‘ کے نام سے یہ ترجمہ انٹرنیٹ پر شائع ہو چکا ہے، معمولی تبدیلیوں کے ساتھ نذرِ قارئین ہے۔ (ادارہ)
بارہویں فصل
میری خالہ کے شوہر اپنی قید کی مدت پوری کر کے جیل سے رہا ہو گئے تھے اور اپنی تجارتی سرگرمیاں دوبارہ شروع کر دی تھیں اور خاندانی زمینوں کے معاملات کی نگرانی کرنے لگے تھے، ان کا بیٹا عبد الرحیم اب زمین پر رینگنے لگا تھا اور اپنے ابتدائی الفاظ دہرانے لگا تھا۔
میری خالہ کے شوہر انہی دکانوں پر جاتے جن پر وہ پہلے الخلیل میں جاتے تھے اور جن سے ان کے مضبوط تجارتی روابط تھے، وہی پرانی محفلیں جمتی تھیں اور پھر سے آگ کے الاؤ کے گرد بیٹھ کر باتیں ہوتی تھیں اور چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے لوگ ان سے جیل کے بارے میں پوچھتے، کہ وہاں ان کے ساتھ کیسا سلوک ہوا؟ کیسے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا؟ اور کیسے ان سے تفتیش کی گئی ؟ اور وہ عاجزی سے بات کرتے، ان کے خوف اور قید سے متعلق بے چینی کو کم کرنے کی کوشش کرتے، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ یہ واقعی مشکل ہے، لیکن ممکن اور قابل برداشت ہے، اور یہ انسان کو مضبوط بناتا ہے اور اس کی روح کو طاقتور بناتا ہے اور انسان کو اپنی قوت اور عظمت کا احساس دلاتا ہے۔ لوگ اپنے سروں کو ہلاتے اور ایک دوسرے کی طرف حیرانی اور ناگواری کے احساس کے ساتھ دیکھتے، شاید ان میں سے کوئی کہتا : دیکھو، اس کم عقل نے خود کو اور اپنے خاندان کو مصیبت میں ڈال دیا اور اپنے آپ پر ایک انقلاب برپا کیا اور کہتا ہے کہ یہ ممکن اور قابل برداشت ہے! یہ کیا باتیں کر رہا ہے؟ ان کا بھائی عبد الرحمن الخلیل میں طارق بن زیاد ثانوی اسکول میں تیسرے سال (ثانویہ عمومی) میں تھا، وہ اپنی محنت، دیانتداری، اخلاق اور اپنے ہم عمر لوگوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے لیے مشہور تھا۔ انہی دنوں طارق بن زیاد ثانوی اسکول میں اسلامی رجحان رکھنے والے نوجوانوں کا ایک گروہ بننا شروع ہوا، اس اسکول کے کئی اساتذہ پہلے اردن یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہو چکے تھے اور وہاں پڑھائی کے دوران اخوان المسلمین میں شامل ہوگئے تھے، جب وہ الخلیل واپس آئے اور یہاں اسکولوں میں کام کرنے لگے تو انہوں نے شہر میں اسلامی فکر کو پھیلانے کی کوشش شروع کی اور انہیں ثانوی اسکول کے طلباء میں اس کے لیے زرخیز زمین ملی۔ اسی وقت شہر میں ایک شریعہ کالج بھی کھولا گیا، شہر کے میئر نے اس کے قیام کی نگرانی کی تھی، کالج میں نوجوانوں کے اجتماع نے اساتذہ اور اسلامی و شرعی تعلیمات کے اثر کی وجہ سےخود بخود سیاسی اور فکری رجحانات کو جنم دیا جن میں سب سے نمایاں اخوان المسلمین کا رجحان تھا۔ کالج میں ایک گروہ نے اخوان المسلمین کی سرگرمیوں کے لیے ایک مرکز کے طور پر کام کرنا شروع کیا اور انہوں نے اپنی سرگرمیوں کو ثانوی اسکولوں تک پھیلانا شروع کیا، اس طرح ان کی کوششیں طارق بن زیاد اسکول کے اساتذہ کی کوششوں سے مل گئیں، چنانچہ طلباء کا ایک گروپ اخوان المسلمین کے نظریات کے گرد جمع ہونا شروع ہوا، شہر الخلیل میں اخوان المسلمین کا نام زیادہ غیر مانوس نہیں تھا جبکہ غزہ کی پٹی یا شمالی مغربی کنارے میں اس نام کا ذکر ایک گالی یا توہین کے طور پر کیا جاتا تھا۔ الخلیل میں اخوان کی ایک پرانی تاریخ تھی، یہاں اخوان کے نظریات کو مالدار اور معزز خاندانوں نے اپنا رکھا تھا، اس لیے اس نام کا ظاہر ہونا اور اعلان کرنا یہاں زیادہ مشکل نہیں تھا۔
طارق بن زیاد اسکول میں عبد الرحمن کی ملاقات شہر اور دیہات کے دیگر نوجوانوں سے ہوئی، اور انہوں نے یونیورسٹی/کالج آف شریعہ کے طلباء اور کچھ اساتذہ کے اثر و رسوخ سے اخوان المسلمین کے نظریات کو اپنانے والا ایک کھلا فریم ورک تشکیل دیا، جہاں اسلام اور معاصر اسلامی فکر کی کتابوں کا مطالعہ کیا جاتا تھا،ایک دن ان میں سے کچھ ساتھی عبد الرحمن کے گاؤں (صوريف) میں اس سے ملنے آئے، یہ اخوان کے تعارفی اور تربیتی سرگرمیوں کا حصہ تھا، تقریباً دس طلباء کا یہ گروپ ایک پہاڑی کی ڈھلان پر جمع ہوا۔ وہ کھیل اور بات چیت کر رہے تھے، عبد الرحمن کے کہنے پر خالہ نے دوپہر کے کھانے کی تیاری کی تھی، عبد الرحمن نے صبح سویرے چار مرغیاں ذبح کیں اور خالہ نے ’’مسخن‘‘ تیار کرنا شروع کیا، دوپہر کے وقت، خالو اپنی دکان سے واپس آئے، اور جب عبد الرحمن کھانا لینے کے لیے وقت پر نہ پہنچے تو وہ خود اسے میدان میں لے گئے۔ خالو نے انہیں سلام کیا اور عبد الرحمن کو پکارا کہ میں کھانا لے آیا ہوں، عبد الفتاح نے شکریہ کے ساتھ جواب دیا اور کہا : آپ نے خود کو کیوں تکلیف دی، میں اسے لینے ہی والا تھا ؟ عبد الفتاح نے وضاحت کی کہ اس میں کوئی تکلیف نہیں ہے اور یہ نوجوانوں سے تعارف کا ایک موقع ہے، وہ ان کے ساتھ بیٹھے، دوپہر کا کھانا کھایا، ان سے تعارف کروایا اور ان کی خوشی اور بات چیت میں حصہ لیا۔ ان کے جذبات اور قومی وابستگی کو جاننے کی کوشش کی، اور ان کے خیالات اور تیاری کے بارے میں جاننے کے لیے سوال کیا : آپ لوگوں کا قومی کام اور موجودہ سطح کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ایک نوجوان نے جواب دیا : مسئلہ یہ ہے کہ ہماری قوم ابھی بھی قومی کام اور مزاحمت کے بنیادی عناصر سے محروم ہے، اس لیے تیاری اور قربانی کی سطح ابھی بھی کم ہے۔ عبد الفتاح نے حیرت سے پوچھا : آپ ایسا کیوں کہتے ہیں اور اس دعوے کی بنیاد کیا ہے؟ نوجوان نے جواب دیا : مسجد اقصیٰ، قبلہ اول اور تیسرے حرم مقدس جیسا اہم اسلامی مسئلہ بہت زیادہ قربانیوں اور جدوجہد کا مطالبہ کرتا ہے، اور قومی کام کی سطح ابھی تک مطلوبہ معیار سے بہت کم ہے، اور لوگوں کی تیاری مطلوبہ سطح سے ایک لاکھ گنا کم ہے۔
عبد الفتاح نے دوبارہ بحث کرتے ہوئے کہا : لیکن کیا تم نے غزہ کے علاقے، شمالی مغربی کنارے، وسطی مغربی کنارے، یروشلم، الخلیل اور دیہاتوں میں ہونے والی فدائی کارروائیوں کے بارے میں نہیں سنا ؟ نوجوان نے بات کاٹتے ہوئے کہا : ہاں، میں نے سنا ہے، لیکن یہ سب کچھ مطلوبہ حد سے بہت کم اور بہت معمولی ہے! کیا تم نہیں دیکھتے کہ یہودی کس طرح الخلیل شہر میں گھومتے پھرتے ہیں اور کوئی ان پر اعتراض نہیں کرتا، سوائے شاز مواقع پر؟ سیاح کیسے حرم ابراہیمی کی زیارت کے لیے آتے ہیں اور یہودی وہاں آزادانہ گھومتے ہیں؟ کیسے وہ الخلیل میں کاروبار کرتے ہیں، ورکشاپس میں لوہے اور لکڑی کے کام کرتے ہیں؟ اور ہمارے لوگ ان کے ساتھ ایسے برتاؤ کرتے ہیں جیسے وہ قبضہ کرنے والے اور ہماری زمین و مقدسات کے غاصب نہ ہوں۔
عبد الرحمن نے مداخلت کرتے ہوئے کہا: یقیناً، صرف قومی جذبہ ہی کافی نہیں ہے کہ جنگ کو چلا سکے، اور ضروری ہے کہ……
عبد الفتاح نے اسے کاٹتے ہوئے کہا : بھائی، ہماری یہ قوم ہمیشہ اپنی زمین کی حفاظت کرتی آئی ہے اور کبھی ہار نہیں مانی……
نوجوان نے پھر کہا : میں تمہیں ایک کہانی سناتا ہوں جو میرے ساتھ ہوئی تھی۔ جب اسرائیلیوں نے الخلیل پر قبضہ کیا تھا تو میں ابھی چھوٹا تھا، اور میں نے ایک یہودی کو الخلیل کے ایک سڑک پر اکیلا چلتے دیکھا، تو مجھے غصہ آیا اور میں نے زمین سے ایک پتھر اٹھا کر اس یہودی پر پھینکا اور پھر (سیب کے) درختوں کے پیچھے بھاگ کر چھپ گیا۔ کچھ دیر بعد، جب مجھے لگا کہ یہودی چلا گیا ہوگا، تو میں نے اپنے پڑوسی کو آواز لگاتے ہوئے سنا : جمال، جمال! آؤ، وہ چلا گیا ہے۔ جب میں درختوں کے پیچھے سے نکلا، تو وہ یہودی گھر کے کونے کے پیچھے چھپا ہوا تھا، وہ میری طرف آیا اور اپنا پستول میرے سر کی طرف تان دیا، اور مجھے ڈرانے کی کوشش کی تاکہ میں دوبارہ ایسا نہ کروں۔ میں نے سمجھا کہ جب میں نے اس پر پتھر پھینکا تھا، اس نے پڑوسیوں کے دروازے پر دستک دی تھی اور دھمکی دی تھی کہ اگر انہوں نے مجھے اس کے حوالے نہیں کیا تو وہ ان کا گھر تباہ کر دے گا اور ان کے بچوں کو جیل میں ڈال دے گا، پھر ان کے ایک بچے نے مجھے اس یہودی کے حوالے کر دیا تھا۔
عبد الفتاح نے کہا : یہ ہوتا ہے، یہ ہوتا ہے، لیکن لوگ ٹھیک ہیں اور ہماری قوم ٹھیک ہے، میں کہتا ہوں کہ ہماری قوم ٹھیک ہے، حتی کہ وہ لوگ بھی ٹھیک ہیں، وہ اچھے لوگ ہیں لیکن مسکین ہیں۔ اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے خوفزدہ ہیں یعنی ان کی قربانی کی صلاحیت محدود ہے، اور ایک طویل عمل کی ضرورت ہے کہ…… عبد الفتاح نےاپنی ہی بات کاٹتے ہوئے کہا : بھائی کسی عمل کی ضرورت نہیں، ہر ایک کو اپنا فرض ادا کرنا چاہیے، لیکن کیوں ہم اس بات پر بات کریں؟ مجھے آپ لوگوں کو چھوڑ دینا چاہیے تاکہ آپ اپنا دن گزار سکیں، وہ اپنے کپڑے جھاڑتے ہوئے اٹھے اور کہا : اللہ حافظ، بھائیو، اللہ حافظ! السلام علیکم اور اپنے کپڑے جھاڑتے ہوئے چل دیے، نوجوان درختوں کے درمیان ہنستے اور مذاق کرتے رہے۔
میرے بھائی محمد اور میرے چچا زاد بھائی ابراہیم حسن بھائی کی دین داری سے بہت متاثر ہوئے اور نماز پڑھنے لگے اور رفتہ رفتہ نماز کے پابند ہوگئے اور مسجد میں ان کے ساتھ آنے جانے لگے، میں ان کی طرح نہیں تھا، کبھی کبھی نماز پڑھتا اور کبھی چھوڑ دیتا تھا اور کبھی کبھار ان کے ساتھ مسجد جاتا اور ہم جماعت کے ساتھ نماز پڑھتے، پھر کبھی کبھی ہم نماز کے بعد منعقد ہونے والے حلقوں میں بیٹھ جاتے، جہاں کوئی نہ کوئی دینی موضوع پر بات کرتا، قرآن کی تفسیر سناتا یا حدیث شریف کی تشریح کرتا، یا کسی کتاب کا مطالعہ کرتا اور اس کی وضاحت کرتا، یا سیرت نبوی کی کچھ باتیں بیان کرتا۔ کبھی کبھی مغرب کی نماز کے بعد جب میں ان کے ساتھ مسجد میں نماز پڑھتا، تو وہ ان حلقوں میں بیٹھ جاتے اور دعائیں پڑھنے لگتے جنہیں وہ مأثورات کہتے تھے،اور یہ دعائیں اجتماعی طور پر پڑھتے، میں ان کی طرح دعائیں یاد نہیں کر سکتا تھا، اس لیے میں بھی ان کے ساتھ ہونٹ ہلاتا جیسا کہ مجھے سب کچھ یاد ہو۔
محمود، محمد اور ابراہیم کی دینداری سے بہت ناراض تھا، اور اس سے پہلے حسن کی دینداری سے ناراض تھا، وہ اکثر ان سب کے ساتھ بیٹھتا یا ان میں سے کسی ایک کے ساتھ اکیلے بیٹھ کر انہیں مسجد جانے اور وہاں بیٹھنے اور وہاں ہونے والی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے منع کرتا۔ وہ انہیں خبردار کرتا کہ ان سب کا انتظام کرنے والے اخوان المسلمین کے افراد ہیں، اور کہتا کہ شیخ احمد اخوانجی ہے اور اخوان عبدالناصر کے خلاف ہیں اور عرب اتحاد کے خلاف ہیں اور فلسطین کی آزادی تنظیم کو نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ فلسطینی انقلاب کے شہداء (فطايس) ہیں، شہداء نہیں، اور مزاحمت اور مسلح جدوجہد میں حصہ نہیں لیتے، تو وہ تینوں یا ان میں سے کوئی اکیلا ہوتا تو حیران ہو کر کہتا کہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ میں مسجد جا رہا ہوں، حلقوں میں بیٹھ رہا ہوں اور جو کہا جا رہا ہے سن رہا ہوں، وہاں ایسا کچھ نہیں ہے جیسا تم کہہ رہے ہو۔ تو محمود کہتا اور اس کی آواز بلند ہو جاتی اور وہ زیادہ غصے میں کہتا، میں انہیں جانتا ہوں، وہ ابھی تمہیں یہ سب نہیں بتا رہے، ابھی تمہیں دین، اسلام، رسول اور نماز کے بارے میں بتا رہے ہیں، پھر وہ گرم موضوعات پر بات کریں گے۔ تو ان میں سے کوئی غصے سے کہتا، ارے بھائی چھوڑو یہ باتیں، کیا تم ہمیں بچے سمجھتے ہو؟ میں جتنی بھی بار مسجد میں جا کر ان حلقوں میں بیٹھا، کبھی کسی نے سیاست کا ذکر نہیں کیا، نہ ہی فلسطین، مزاحمت، قبضے، فلسطینی مسئلے کی تاریخ، نہ ہی آزادی تنظیم کا ذکر کیا، نہ فتح، نہ شہداء اور نہ ہی کسی اور کا، وہ صرف دینی موضوعات پر بات کرتے تھے۔
ان موضوعات پر کیا بات چیت ان نشستوں میں ہوئی جن میں میں شریک نہیں تھا ؟ میں نہیں جانتا، لیکن میں بھی کیمپ کے دیگر نوجوانوں کی طرح اس وقت ابو عمار یاسر عرفات کے لیے بہت احترام اور قدر کا جذبہ محسوس کرتا تھا، جو فلسطینی انقلاب کی علامت بن گئے تھے۔ میں انہیں اپنا قائد اور رہنما مانتا تھا، اور ہم نے ہمیشہ مظاہروں میں ان کی تصویر اٹھائے رکھی، اور ’’بالروح بالدم نفديك يا أبو عمار‘‘ کا نعرہ لگایا، ہم یہ نعرہ دل کی گہرائیوں سے، پوری سچائی اور سنجیدگی کے ساتھ لگاتے تھے۔
لیکن میں نے محسوس کیا کہ میرا بھائی حسن میرے اور کیمپ کے دیگر نوجوانوں کی طرح نہیں تھا، کیونکہ جب ابو عمار کا ذکر ہوتا، تو وہ ہمارے جیسا جوش و خروش نہیں دکھاتا تھا، جیسے کہ یہ کوئی عام شخص ہو جس کا ذکر ہو رہا ہو، لیکن میں نے کبھی اسے ابو عمار یا فلسطین لبریشن آرگنائزیشن1المنظمة التحرير الفلسطينية (PLO) ایک قومی تنظیم ہے جو فلسطینی عوام کی نمائندگی کرتی ہے. اس کی بنیاد 1964 میں رکھی گئی تھی، اور اس کا مقصد فلسطینیوں کی خودمختاری اور حقوق کے حصول کے لیے کوشش کرنا ہے۔
جب شہداء کا موضوع آتا، اور کہا جاتا کہ فلاں شہید ہوگیا، تو وہ کبھی کبھی کہتا کہ اللہ ہی جانتا ہے کہ کون شہید ہے اور کون نہیں، یہ نیتوں اور دلوں کا معاملہ ہے، اس کی صاف گوئی اس وقت زیادہ نمایاں ہوتی جب الجبھۃ الشعبیۃ کے کسی رکن کی شہادت کا ذکر ہوتا، وہ کہتا : کسے پتا ہے کہ وہ شہید ہے؟ ہو سکتا ہے کہ وہ اصلاً خدا پر ایمان نہ رکھتا ہو اور ملحد ہو، تو وہ کیسے شہید ہو سکتا ہے ؟ ایسے مواقع پر محمود غصے میں آ جاتا اور چیخ کر کہتا : تم کون ہو اور تمہارے سارے مشائخ کون ہوتے ہیں جو یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ فلاں شہید ہے اور فلاں نہیں؟ تم لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ کر، اپنی عورتوں کے پاس بیٹھ کر ان لوگوں پر فتوے لگاتے ہو جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر وطن کے لیے لڑتے ہیں، حسن کچھ غیر واضح الفاظ میں بڑبڑاتا، غصے میں اٹھتا اور وہاں سے چلا جاتا، اور اگر محمد اور ابراہیم وہاں ہوتے تو تھوڑی دیر بعد وہ بھی چلے جاتے، اور محفل بگڑ جاتی اور ٹوٹ جاتی۔ جب عبد الحفیظ ان نشستوں میں ہوتا تو گفتگو بہت زیادہ گرم ہو جاتی، وہ مشائخ اور دین پر حملہ کرنا شروع کر دیتا اور یہاں تک کہتا کہ اخوان المسلمین ایجنٹ ہیں کیونکہ وہ سعودی عرب سے تنخواہیں لیتے ہیں، اس کے علاوہ مختلف فکری مباحثے ہوتے، حسن اسے غصے میں ملحد اور خدا پر ایمان نہ رکھنے کا الزام دیتا، اور یہ کہ وہ سوویت یونین کے دم چھلے ہیں، جس نے 1948ء میں اسرائیل کے قیام کو سب سے پہلے تسلیم کیا تھا۔
حسن کی بہت سی باتیں مجھے پسند آتیں اور میری روح کی گہرائیوں میں اترتی، لیکن میں اس کے کچھ موقف نہیں سمجھ پاتا تھا اور میں اس کی کمزوری کو واضح طور پر محسوس کرتا تھا جب وہ اسلام پسندوں کے قومی ہمدردی میں کردار، مسلح جدوجہد میں ان کے کردار، اور وطن کے لیے جان دینے والے شہداء کے بارے میں بات کرتا تھا۔چنانچہ ان کا فلسطین کی آزادی تنظیم PLO کے بارے میں مبہم موقف تھا، حسن، محمد اور ابراہیم ان معاملات میں اپنی واضح بے بسی محسوس کر رہے تھے اور وہ دوسروں کو اپنے موقف پر قائل کرنے سے قاصر تھے کیونکہ وہ خود بھی بالکل نہیں سمجھتے تھے کہ ان معاملات پر ان کا موقف کیا ہے، یوں لگتا تھا جیسے انہوں نے شیخ احمد سے اس بارے میں پوچھا تھا تو انہوں نے کہا تھا کہ وہ ان امور پر اگلے دنوں میں مسجد میں ہونے والی نشستوں میں بات کریں گے۔
چند دن بعد مجھے محسوس ہوا کہ وہ چاہتے ہیں کہ میں ان کے ساتھ مغرب کی نماز مسجد میں پڑھنے جاؤں، کیونکہ عام طور پر یہ نشستیں مغرب اور عشاء کے درمیان ہوتی تھی، تو میں ان کے ساتھ چلا گیا، ہم نے شیخ حامد کے پیچھے مغرب کی نماز ادا کی جو کہ بہت بوڑھے ہو چکے تھے اور ان کی آواز بمشکل سنائی دے رہی تھی، مسجد نوجوانوں، مردوں اور بچوں سے بھری ہوئی تھی، جو کہ اس کے برعکس تھی جب میں اپنے مرحوم دادا کے ساتھ بچپن میں آیا کرتا تھا۔ نماز کے بعد کچھ لوگ مسجد سے چلے گئے اور تقریباً پچاس نوجوانوں کا ایک بڑا حلقہ بن گیا، شیخ احمد بیٹھ گئے اور اپنی بات کا آغاز اللہ کی حمد و ثناء اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے سے کیا، پھر انہوں نے انسان کے زمین پر کردار اور اللہ کی عبادت کے بارے میں بات شروع کی، اور ایک واضح مثال دی ربعی ابن عامر کی، جو سعد بن ابی وقاص کے قاصد کے طور پر رستم، جو کہ فارسی فوج کا کمانڈر تھا، کے پاس قادسیہ کے دن سے پہلے گئے، جب رستم نے ان سے پوچھا کہ ’’تم لوگ جزیرۃ العرب سے ہمارے خلاف جنگ کے لیے کیوں آئے ہو؟ تو ربعی ابن عامر نے جواب دیا : ہم تمہیں بندوں کی بندگی سے اللہ کی بندگی کی طرف، ادیان کے ظلم سے اسلام کے عدل کی طرف، اور دنیا کی تنگی سے دنیا اور آخرت کی وسعت کی طرف نکالنے کے لیے آئے ہیں ۔
انہوں نے تفصیل سے وضاحت کی کہ ہمارے لوگوں کے لیے آج کے حالات میں اس پیغام کو سمجھنا مشکل ہے جبکہ ہماری قوم اور زمین پر قبضہ ہے، لیکن یہ واحد راستہ ہے آزادی اور نجات کا، لیکن لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے اور شاید اس کے خلاف بھی ہو سکتے ہیں، جیسے رسول اللہ ﷺ مکہ میں لوگوں اور عربوں کو اسلام کی دعوت دیتے تھے اور ان میں عزت اور بلندی کی بات کرتے تھے، لیکن وہ نہیں سمجھتے تھے اور ان کے خلاف ہو گئے، آخر کار ثابت ہوا کہ عربوں کی عزت اسلام میں ہے اور یہی ہوا ۔
پھر انہوں نے اسلام میں شہید کی تعریف پر بات کی کہ جو اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے لڑے وہ اللہ کی راہ میں ہے اور یہی شہید کی شرعی تعریف ہے، لوگوں میں جو شہید کا رواج ہے، وہ کچھ اور ہے، انہوں نے اسلامی جماعت کی نوعیت سے متعلق بہت سے مفاہیم پر بات کی، گویا کہ وہ تحفظات کے بارے میں بات کررہے تھے، فلسطینی آزادی تنظیم PLO فلسطینی قوم کی واحد نمائندہ ہے، لیکن یہ واضح طور پر نہیں بلکہ اشاروں میں کہا ۔
شیخ حامد آئے اور عشاء کی اذان دی، تو ہم نماز کے لیے کھڑے ہو گئے، شیخ حامد نے احمد کو امامت کے لیے آگے کر دیا، احمد نے لوگوں کو نماز پڑھائی اور نماز میں سورہ اسراء کی ابتدائی آیات کی تلاوت کی۔ وہ نماز میں بعض الفاظ یا جملے بار بار دہرا رہے تھے جیسے کہ وہ نماز سے پہلے کے درس کو مکمل کر رہے ہوں جس کا موضوع ’’عباداً لنا أولي بأس شديد‘‘ تھا، میں نے محسوس کیا کہ شیخ حامد صریحاً قبضے کے خلاف جدوجہد کے موضوع پر بات کرنے سے گریز کر رہے تھے اور اس کی طرف اشارے کرنے کی کوشش کر رہے تھے تاکہ قابض حکام کی طرف سے ان کی گرفتاری اور ان کے پیغام کو پھیلانے سے روکنے سے بچ سکیں۔
حسن، محمد اور ابراہیم مسجد سے خوش ہو کر باہر نکلے اور واپسی کے دوران انہوں نے شیخ کی باتوں سے اپنی رضامندی اور قناعت کا اظہار کیا اور ان کی تعریف کی۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ انہیں اس بات میں کیا پسند آیا، حالانکہ شیخ کی باتیں خوبصورت اور متاثر کن تھیں لیکن ان میں محمود اور عبد الحفیظ کے حسن کے ساتھ مکالمے میں اٹھائے گئے سوالات کے واضح جوابات نہیں تھے۔
کیمپوں میں زندگی کا معیار نمایاں طور پر بہتر ہو رہا تھا کیونکہ زیادہ تر گھروں میں ایک یا دو افراد اسرائیل میں کام کر رہے تھے اور پرانے حالات یا سعودی عرب اور کویت جیسے ممالک کے مقابلے میں بہتر آمدنی حاصل کر رہے تھے، لوگوں کی حالت واضح طور پر بہتر ہو رہی تھی، ہر گھر میں ریڈیو اور بہت سے گھروں میں ٹیلی ویژن موجود تھے، بہت سے گھروں نے بجلی کے نظام میں شمولیت اختیار کی تھی اور وہ روشن ہوگئے تھے، کچھ کے پاس فریج یا گیس کے چولہے بھی تھے اور زیادہ تر گھروں نے پانی کے نظام میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ہمارے گھر میں ایک اچھا ریڈیو تھا اور ہم نے بجلی اور پانی کے نیٹ ورک میں شمولیت اختیار کی تھی، لیکن ابھی تک ہمارے پاس ٹیلیویژن، فریج یا گیس کا چولہا نہیں تھا، اس کے باوجود ہماری حالت بہت سے خاندانوں سے بہتر تھی، جو اب بھی مشکل حالات میں زندگی گزار رہے تھے۔
اہم بات یہ تھی کہ ہجرت کے بعد کی دو دہائیوں میں کیمپوں کی آبادی حیرت انگیز طور پر بڑھ گئی تھی اور مکانات میں رہائشیوں کی گنجائش نہیں رہی تھی، کیونکہ بہت سے لوگ جو اس وقت بچے تھے یا ہجرت کے بعد پیدا ہوئے تھے، اب جوان ہو کر شادی شدہ ہو چکے تھے اور ان کے بچے بھی تھے، ہر گھر میں ایک یا زیادہ شادی شدہ بھائی تھے اور کیمپوں کے پہلے ہی سے بھرے ہوئے مکانات مرغیوں کے ڈربوں کی مانند ہو گئے تھے، اس وقت حکومتی فوجی حکام کی طرف سے رہائشی منصوبوں کے بارے میں بات شروع ہو گئی تھی، جس کے تحت جو لوگ کیمپ میں اپنے گھر کو بڑھانا چاہتے ہیں، وہ رہائشی منصوبوں میں اپنا نام درج کر سکتے ہیں اور معمولی فیس ادا کر سکتے ہیں بشرطیکہ وہ کیمپ کا گھر گرا دیں، اس طرح ہر شادی شدہ فرد کو نئی بستیوں میں ایک کمرہ ملے گا۔
یہ معاملہ کیمپ کے رہائشیوں میں شدید بحث کا باعث بن گیا، اور کوئی بھی اجتماع یا ملاقات ہو، اس معاملے پر بات ہوتی اور لوگ حامی اور مخالف میں بٹ جاتے۔ حامی یہ نظریہ پیش کرتے کہ ہمیں حقیقت کے ساتھ سمجھوتہ کرنا پڑے گا، کیونکہ ہم ہمیشہ کے لیے کیمپوں میں سردین کے ڈبوں کی طرح نہیں رہ سکتے۔ گھروں میں ہماری بڑھتی ہوئی نسل کی وجہ سے جگہ نہیں ہو سکتی، اور مسئلے کا کوئی حل نظر نہیں آتا اور نہ ہی ہم عام زمین خرید کر اس پر مکان بنا سکتے ہیں کیونکہ اس کی لاگت ہماری پہنچ سے زیادہ ہے۔ مخالفین کو خدشہ ہے کہ کیمپوں سے آبادی کو نکالنے سے پناہ گزینوں کا مسئلہ ختم ہو جائے گا، اور یہ کہ یہ قبضے کا مقصد ہے کہ پناہ گزینوں کو ان محلوں میں آباد کیا جائے اور ان کا مسئلہ ختم کیا جائے۔ بحث جاری رہی اور یہ منصوبے ابھی تک ایک خیال ہی تھے جو عمل میں نہیں آئے تھے تاکہ کسی ایک فریق کی رائے یا اس کے برعکس ثابت ہو سکے۔
ایک دن جب میں سمندر کے کنارے سے گھر واپس آ رہا تھا، تو میں نے دیکھا کہ میرا چچا زاد ابراہیم مسجد سے واپس آ رہا تھا اور ہمارے پڑوس کی ایک شوخ لڑکی اپنے گھر کے دروازے پر بیٹھی تھی، جب اس نے ابراہیم کو دیکھا، جو شرم کے مارے زمین کی طرف دیکھ رہا تھا، تو اس نے شوخی سے کہا : او بڑے صاحب، ہماری طرف بھی دیکھ لو، نیچے کیوں دیکھ رہے ہو؟ ابراہیم کا چہرہ شرم سے سرخ ہو گیا اور اس کے قدم تیز ہوگئے، جیسے وہ کسی لمبی قید سے بھاگ رہا ہو۔ یہ بات ابراہیم کے لیے بہت شرمناک تھی اور میں اسے دھمکاتا کہ اگر اس نے میرے ساتھ کوئی چالاکی کی، تو میں یہ بات اس کی چچی (میری ماں) کو بتا دوں گا۔
۱۹۷۳ء کی جنگ میں فتح کے باوجود جو فلسطینیوں کے لیے عملی طور پر کوئی تبدیلی نہیں لائی، ہمارے جذبات میں یہ ایک اسٹرٹیجک موڑ تھا۔صحیح ہے کہ ہم نے اسرائیل کو فلسطین سے ختم ہوتے نہیں دیکھا، نہ ہی ہم اپنے شہروں اور دیہاتوں میں واپس آئے جہاں سے ہمارے لوگ ۱۹۴۸ء میں ہجرت کر گئے تھے، اور نہ ہی ۱۹۶۷ء میں مقبوضہ مغربی کنارے، غزہ، جولان اور سینائی کے علاقے آزاد ہوئے، اس کے باوجود، جو عملی طور پر ہوا وہ یہ تھا کہ مصری فوج نے نہر سویز اور بارلیو لائن کو پار کیا، مگر ہم اسرائیل کی شکست سے مکمل طور پر مطمئن اور راضی ہو گئے، ہم نے اس وقت چیزوں کو اسی طرح سمجھا، یقین کیا اور اپنے پورے دل و دماغ سے مان لیا کہ اسرائیل اور اس کی ناقابل شکست فوج کی کہانی عظیم عرب فوج کے ارادے کے سامنے ختم ہو گئی ہے، چاہے وہ مصری محاذ ہو یا شامی محاذ۔ ہم سب کا سر فخر اور عظمت سے بلند تھا، لیکن ہمارے یہ جذبات بتدریج بدلنے لگے جب ہم نے مصری صدر سادات کو اسرائیل کے ساتھ امن کے لیے تیار ہونے کی باتیں سنی، ہمارے صدمے کی حد اس وقت بڑھ گئی جب ہم نے سنا کہ وہ اسرائیلی پارلیمنٹ (کنسٹ) جانے کے لیے تیار ہیں۔ ہماری حیرانی اس وقت عروج پر پہنچ گئی جب ہم نے سادات کی یروشلم کے دورے اور کنسٹ میں ان کے خطاب کی خبریں سنیں، ہمارے پاس گھر میں ٹیلی ویژن نہیں تھا، لہذا ہم نے وہ مناظر نہیں دیکھے، لیکن ریڈیو پر اس واقعے کی کوریج ہمارے لیے کافی تھی، یہ سمجھنا مشکل ہو گیا کہ یہ حقیقت تھی یا خیال؟ یہ صدمہ شاید پورے عرب دنیا کو متاثر کر گیا، کیونکہ مختلف نظاموں کے درمیان تضادات اور اختلافات شدید اور دور رس تھے۔
فلسطینی ہونے کے ناطے، ہم پوری طرح سے سادات اور کیمپ ڈیوڈ معاہدوں کے خلاف تھے، اور ہم خاص طور پر ان مخالف چینلوں کو سننا پسند کرتے تھے جو بغداد سے نشر ہوتے تھے۔ ہمارے خاندان کے لئے سب سے بڑا واقعہ یہ تھا کہ مصری جامعات نے فلسطینی طلباء کے لیے اپنے دروازے بند کر دیے تھے، جس کی وجہ سادات اور اسرائیل کے ساتھ امن کے معاہدے کی مخالفت کرنے والی تنظیمِ آزادی فلسطین کے درمیان شدید اختلافات تھے۔ اس کے نتیجے میں کچھ فلسطینیوں نے معروف صحافی ’’السباعی‘‘ کو قتل کر دیا، اس کے بعد مصری حکومت نے فلسطینیوں کے ساتھ تعلقات محدود کر دیے، جس میں فلسطینی ہائی اسکول کے فارغ التحصیل طلباء کی مصری جامعات میں داخلہ نہ دینا شامل تھا۔
میرے بھائی محمد نے اس سال اپنی ثانوی تعلیم مکمل کی اور اسے مصری یونیورسٹیوں میں داخلہ ملنا تھا، اس وقت ہمارے مالی حالات اس کے لیے انتہائی موزوں تھے۔ محمد کے پاس کئی راستے تھے کہ کہاں پڑھائی کرے، آخر کار اس نے فیصلہ کیا کہ وہ مغربی کنارے کے شہر رام اللہ کے قریب بیرزیت یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرے گا، اس نے وہاں کا سفر کیا اور یونیورسٹی میں داخلہ کی درخواست دی، جسے قبول کر لیا گیا اور وہ سائنس فیکلٹی میں داخل ہوگیا۔ اس نے نئے تعلیمی سال کے آغاز سے وہاں پڑھائی شروع کی، جہاں اس نے دوسرے طلباء کے ساتھ مل کر رام اللہ شہر میں ایک اپارٹمنٹ کرائے پر لے لیا اور وہیں رہائش پذیر ہوگیا۔ محمد ہر مہینے ایک بار گھر آتا، چند دن ہمارے ساتھ گزارتا اور پھر واپس رام اللہ چلا جاتا۔
فدائی کار روائیاں مقبوضہ علاقوں اور 1948ء میں مقبوضہ ہونے والی زمینوں کے اندر جاری رہیں، لیکن ان میں کافی حد تک کمی آئی۔ قومی سرگرمیوں نے زیادہ تر سیاسی، انقلابی اور عوامی شکل اختیار کرلی تھی، اسرائیلی حکام نے مغربی کنارے میں بلدیاتی انتخابات کی اجازت دی تھی اور مختلف علاقوں میں سیاسی فریم ورک تشکیل دیے گئے تھے تاکہ انتخابات میں حصہ لے سکیں۔
الخلیل میں فتح تحریک کے نمائندوں نے جن کی قیادت فہد القواسمي نے کی، اخوان المسلمین اور دیگر کے ساتھ شیخ الجعبری کے خلاف اتحاد کیا، جو مغربی کنارے پر اردنی حکمرانی اور اسرائیلی قبضہ کے دوران میونسپلٹی کے صدر تھے۔ جب شیخ الجعبری نے دیکھا کہ ان کی جیت کا امکان کم ہے، تو وہ دستبردار ہوگئے اور فتح/اخوانی اتحاد جیت گیا اور میونسپلٹی کونسل ایک فکری اور سیاسی آمیزے سے تشکیل پائی۔ مغربی کنارے کے دیگر شہروں میں بھی قومی نمائندے اور معروف قومی شخصیات جیسے نابلس میں بسام الشکعہ وغیرہ جیت گئے، اسی وقت مختلف پروفیشنل سوسائٹیز جیسے انجینئرنگ سوسائٹیز، میڈیکل سوسائٹیز، اور وکلاء کی سوسائٹیز مغربی کنارے کے مختلف شہروں میں تشکیل دی گئی جہاں ان کے انتظامی بورڈز کے انتخاب کے لیے دورانیہ انتخابات ہوتے تھے۔ ان انتخابات میں مارکسی یساری جماعتوں اور فتح کے درمیان مقابلہ ہوتا تھا، پھر اسلامی دھارا ابھرنے لگا جو اکثر مارکسی یساری کے خلاف فتح کے ساتھ اتحاد کرتا تھا اور کچھ مقامات پر خود بھی انتخابات میں حصہ لیتا تھا۔ اسی طرح کی سرگرمیاں یونیورسٹیوں میں بھی شروع ہوئیں جیسے نابلس کی النجاح نیشنل یونیورسٹی، رام اللہ کے قریب بئرزیت یونیورسٹی، اور الخلیل یونیورسٹی جو شہر کے شریعت کالج سے ترقی کر رہی تھی۔
اُس وقت 1970ء کی دہائی کے آخر میں، جب غزہ کی پٹی کے طلباء کے لیے مصری یونیورسٹیوں کے دروازے بند ہو گئے، غزہ شہر کی کچھ اہم شخصیات نے مل کر غزہ کی پٹی میں ایک یونیورسٹی کھولنے کا فیصلہ کیا اور انہوں نے اس کے لیے اسرائیلی حکام سے رابطہ کیا، جنہوں نے یونیورسٹی کے قیام کی اجازت نہیں دی،لیکن اس بات پر اتفاق مشکل نہیں تھا۔ کیونکہ غزہ میں الازہر دینی انسٹیٹیوٹ کے ثانوی اسکول میں شام کے وقت ایک یونیورسٹی کھولی گئی، جو انسٹی ٹیوٹ کا تسلسل معلوم ہوتی تھی۔ پھر آہستہ آہستہ یہ پھیلنے لگی اور یونیورسٹی میں تبدیل ہوگئی، حالانکہ اسے کبھی بھی قابض حکام کی جانب سے تسلیم نہیں کیا گیا، بلکہ اسے ہمہ وقت محاصرے اور مشکلات کا سامنا رہا۔
ان شخصیات نے یونیورسٹی کھولنے کے لیے بیرون ملک تنظیم آزادی فلسطین کی قیادت سے رابطے جاری رکھے، اور فلسطین اور بیرون ملک کے کچھ معروف شخصیات سے بھی رابطہ کیا تاکہ عرب ممالک میں یونیورسٹی کے لیے مالی مدد حاصل کی جا سکے۔ اور چونکہ مصر اور اسرائیل کے درمیان کیمپ ڈیوڈ معاہدوں کو عملی جامہ پہنایا جا چکا تھا، اسرائیل نے 1967ء میں مقبوضہ علاقوں میں اپنی تصویر بہتر بنانے کی کوششیں شروع کیں، اور کیمپ ڈیوڈ معاہدے میں شامل خود مختاری کی تیاری کے طور پر نام نہاد شہری انتظامیہ قائم کی، جسے ایک مرحلہ وار خود مختاری کے قیام کے لیے فوجی قیادت سے علاقوں کی انتظامیہ کی ذمہ داری لینی تھی۔
شہری انتظامیہ محض فوجی حکمرانی کے لیے ایک نیا نام تھا اور تبدیلیاں واضح اور نمایاں نہیں تھی، لیکن کچھ کنٹرول شدہ سیاسی اظہار کے مواقع کھولنے کے حوالے سے یہ محسوس کیا گیا تھا۔ اس دوران اسلام پسندوں نے متحرک ہو کر ادارے اور انجمنیں کھولنے کی درخواستیں دیں، عثمانی قانون کے مطابق انہیں اس کی اجازت دی گئی، جیسے اسلامی انجمنیں، نوجوانوں کی مسلم انجمنیں، خیراتی ادارے، کلب، نرسریاں اور طبی کلینک جن کے ذریعے انہوں نے لوگوں کو خدمات فراہم کرنا شروع کیں اور اس طرح اسلام پسندوں کے خیالات کو پھیلانا شروع کیا۔
میری بہن تہانی نے اس دوران معلمات کے انسٹیٹیوٹ سے گریجویشن کیا اور کچھ وقت کے بعد ایک پناہ گزین کیمپ میں اقوام متحدہ کی امدادی اسکول میں بطور معلمہ ملازمت اختیار کی، کچھ وقت کے بعد ایک نیک نوجوان نے اس سے شادی کی، اور وہ اپنی شادی میں بہت خوش اور مطمئن تھی ۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭
- 1المنظمة التحرير الفلسطينية (PLO) ایک قومی تنظیم ہے جو فلسطینی عوام کی نمائندگی کرتی ہے. اس کی بنیاد 1964 میں رکھی گئی تھی، اور اس کا مقصد فلسطینیوں کی خودمختاری اور حقوق کے حصول کے لیے کوشش کرنا ہے۔