الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علیٰ سید الانبیاء والمرسلین محمد و علیٰ آلہ و صحبہ و ذریتہ اجمعین اما بعد
فقد قال اللہ سبحانہ وتعالیٰ فی کتابہ المجید بعد أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمان الرحیم
﴿ إِذْ أَنتُم بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا وَهُم بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوَىٰ وَالرَّكْبُ أَسْفَلَ مِنكُمْ ۚ وَلَوْ تَوَاعَدتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيعَادِ وَلَٰكِن لِّيَقْضِيَ اللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ وَإِنَّ اللَّهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌإِذْ يُرِيكَهُمُ اللَّهُ فِي مَنَامِكَ قَلِيلًا وَلَوْ أَرَاكَهُمْ كَثِيرًا لَّفَشِلْتُمْ وَلَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَۗ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِوَإِذْ يُرِيكُمُوهُمْ إِذِ الْتَقَيْتُمْ فِي أَعْيُنِكُمْ قَلِيلًا وَيُقَلِّلُكُمْ فِي أَعْيُنِهِمْ لِيَقْضِيَ اللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ﴾ (سورۃ الانفال: ۴2 تا 44)
صدق اللہ مولانا العظیم
رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ، وَيَسِّرْ لِيْٓ اَمْرِيْ، وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِيْ، يَفْقَـــهُوْا قَوْلِيْ
اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
إِذْ أَنتُم بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا جب تم میدان کے یا وادی کے قریبی کنارے میں تھے یا نزدیکی کنارے میں تھے، ہم نے پہلے ذکر کیا کہ غزوۂ بدر کے پس منظر میں بات ہورہی ہے، اور اس سے قبل جو آیات پڑھیں ان کا اختتام یہاں پر ہوا کہ يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ وہ دن جو یوم فرقان تھا، جب اللہ تعالیٰ نے حق و باطل میں فرق کیا، جب دونوں لشکر آپس میں ٹکرائے،تو اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ اس لشکر کے ٹکرانے کا جو منظر ہے، میدان کا جو منظر ہے اس کو بیان فرما رہے ہیں کہ یاد کرو اس وقت کو جب تم میدان کے نزدیکی کنارے پر تھے، مدینہ کے قریب جو کنارہ تھا بدر کا اس پہ مسلمانوں کا لشکر تھا، وَهُم بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوَىٰ اور وہ اس کے دور والے کنارے پر تھے، یعنی اس کے مقابل جو کنارہ تھا اس پر مشرکینِ مکہ تھے ، وَالرَّكْبُ أَسْفَلَ مِنكُمْ اور حضرت ابو سفیانؓ کا قافلہ ، جو مکہ سے آیا تھا، ابو سفیان اس وقت مسلمان نہیں تھے، وہ قافلہ تم سے نیچے ساحل کی جانب رہ گیا تھا، تو یہ اللہ تعالیٰ کا سجایا ہوا میدان ہےاور اس میدانِ جہاد میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ موجود ہیں۔ یہ وہ تصاویر ہیں کہ جنہیں کافر برداشت نہیں کرتا کہ ہمارے بچوں کو دکھائی جائیں، یہ وہ مناظر ہیں جنہیں وہ چھپانا چاہتے ہیں، جنہیں وہ ہمارے نصابوں سے نکالنا چاہتے ہیں کہ اللہ کے نبی اور صحابہ جو منبر پر نظر آتے ہیں یا مسجد میں نظر آتے ہیں، یا دعوت کے سفر پہ طائف جاتے اور پتھر کھاتے نظر آتے ہیں، وہیں وہ کفر کو جواب دیتے اور اس سے ٹکراتے بھی نظر آتے ہیں، اور وہ منظر اللہ کو اتنا محبوب ہے کہ اللہ اس پورے منظر کا، اس میدان کا نقشہ اپنی کتاب میں کھینچ دیتے ہیں اور قیامت تک وہ نقشہ یونہی پڑھا جائے گا، بیان کیا جائے گا۔ تو ایک طرف مسلمانوں کا لشکر، ایک طرف کافروں کا لشکر اور وہ قافلہ جس کے پیچھے اصلاً نکلے تھے وہ سائیڈ پہ رہ گیا، تم سے نیچے رہ گیا ساحل کی جانب۔ تو یہ اللہ کا ترتیب دیا ہوا میدان تھا، یہ نقشہ کسی نے نہیں طے کیا تھا کہ اس طرح ہونا ہے۔ مسلمان کسی اور نیت سے نکلے، کافر کسی اور نیت سے نکلے، اللہ نے وہاں پہ اکٹھا فرما دیا۔
اللہ فرماتے ہیں: وَلَوْ تَوَاعَدتُّمْ کہ اگر تم آپس میں وعدہ کرکے، یعنی میعاد طے کر کے آتے، یہ تو اتفاقی ہوگیا سب کچھ، لیکن اگر تم آپس میں طے کرکے آتے تو لَاخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيعَادِ ضرور تمہارے درمیان وقت کچھ آگے پیچھے ہوجاتا۔ یعنی یہ اللہ نے ایسی زبردست ترتیب بنائی کہ اگر تم طے کرکے بھی اس طرح میدان سجانا چاہتے تو نہ سج پاتا، لیکن اللہ نے ٹائم ایسا برابر کیا کہ تم بھی پہنچ گئے، وہ بھی پہنچ گئے اور ایسا آمنا سامنا ہوگیا کہ واپسی کی کوئی صورت باقی نہیں بچی۔ اور مفسرین نے ایک مفہوم یہ بھی بیان کیا ہے کہ اگر تم وقت یا میعاد طے کرکے آتے تو دونوں اختلاف کرتے میعاد میں، یعنی دونوں بچنے کی کوشش کرتے، دونوں کی خواہش یہ ہوتی کہ یہ جنگ نہ ہو، دونوں میں سے کوئی ایک مؤخر کردیتا، کوئی ایک مقدم کردیتا اس کو اور دونوں کسی بہانے سے بچ جاتے لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور منظور تھا۔ وَلَٰكِن لِّيَقْضِيَ اللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا لیکن یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ اللہ نے جس چیز کا فیصلہ کرلیا تھا وہ اللہ تعالیٰ کرکے رہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا طے کیا ہوا میدان تھا، اللہ نے اس کو یہ شکل دی، اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے حالات اور اسباب مہیا کیے، کیوں؟ اللہ کو مقصود تھا کہ دونوں آپس میں ٹکرائیں، تاکہ لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ کہ جو ہلاک ہو یا جو ہلاکت کا رستہ اختیار کرے وہ بھی واضح دلائل کی روشنی میں اختیار کرے اور جو زندگی کا رستہ یعنی ایمان کا رستہ اختیار کرے وہ بھی واضح دلائل کی روشنی میں اختیار کرے۔ یعنی ایک ایسی جنگ ہوجائے کہ جس سے حق اور باطل واضح ہوجائے۔ جس سے، جیسا کہ ہم نے پہلے بھی ذکر کیا کہ کم عدد والے زیادہ عدد والوں پر غالب آجائیں، کم قوت والے زیادہ قوت والوں پر غالب آجائیں اور یہ بات واضح ہوجائے کہ جس چیز کی وجہ سے غلبہ ملا وہ عقیدے کی پاکیزگی ہے اور اس کی قوت ہے اور اللہ کی نصرت اور تائید ہے کہ جس کی وجہ سے مسلمانوں کا لشکر کافروں کے لشکر پر غالب آیا، وہ اتنی کھلی اللہ کی نصرت تھی کہ کافر خود اس کی گواہی دیتے تھے، آسمان سے، بادلوں پر سے گھوڑوں کی اور کوڑے چلنے کی آوازیں آتی تھیں اور خود ان کے اوپر چیزیں برستی تھیں، تو مفر تھا نہیں اس سے، منہ پھیر نہیں سکتے تھے اس سے۔
دعوت کے اظہار کا بہترین ذریعہ: جہاد
پس اللہ نے اس جنگ کے ذریعے حق کو واضح کردیااور یہ جہاد کی خاصیت ہےاور یہ ہم نے پہلے بھی ذکر کیا کہ جہاد سے جو دعوت واضح ہوتی ہے، جہاد سے دین کا پیغام جس طرح واضح ہوتا ہے، اس طرح کسی اور ذریعے سے نہیں ہوپاتا۔ بعض اوقات انسان کو ظاہراً سبب نہیں سمجھ میں آرہا ہوتا، ہوسکتا ہے کہ بدر پہ جانے سے چند لمحے پہلے تک بھی اگر کوئی مادی اعتبار سے کیلکولیٹ کررہا ہوتا تواسے یہی لگتا کہ یہ تو بڑا خسارے کا سودا ہےاور پتہ نہیں اس کا کیا نتیجہ ہوگا، اور خود اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے جو دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اے اللہ! اگر تو نے اس گروہ کو ہلاک کردیا تو اس کے بعد تیری زمین میں تیری عبادت کرنے والا کوئی باقی نہیں بچے گا، تو قلوب کی یہ کیفیت تھی لیکن اللہ کو کچھ اور منظور تھا، اللہ نے وہ ٹکر کروائی اور اس سے حق کو واضح کیا اور باطل کو واضح کیا تاکہ جس نے جو رستہ اختیار کرنا ہے وہ دلیل کی روشنی میں بڑی بصیرت کے ساتھ اختیار کرے، جس نے ہلاک ہونا ہے وہ بھی پوری بصیرت کے ساتھ ہلاک ہو اور جس نے زندگی کا، ایمان کا رستہ لینا ہے وہ بھی پوری بصیرت کے ساتھ وہ رستہ اختیار کرے وَإِنَّ اللَّهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ سننے والے اور علم رکھنے والے ہیں، نیتوں اور دلوں کے حال تک سے واقف ہیں۔
إِذْ يُرِيكَهُمُ اللَّهُ جب اللہ تعالیٰ آپ کو، یعنی اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ دکھا رہے تھے کافروں کا گروہ فِي مَنَامِكَ آپ کی نیند میں قَلِيلًا تھوڑا کرکے، تو اللہ تعالیٰ کی جو نصرتیں اتریں ان میں سے ایک نصرت یہ بھی تھی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں کافر تھوڑے کرکے دکھائے گئے، یعنی جو لشکر ان کا تھا وہ اصل تعداد سے تھوڑا کرکے دکھایا گیا۔ وَلَوْ أَرَاكَهُمْ كَثِيرًا لَّفَشِلْتُمْ اور اگر تمہیں وہ زیادہ کرکے دکھاتے تو تم کمزور پڑ جاتے، تمہاری ہمت اکھڑ جاتی وَلَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ اور تمہارے درمیان اس معاملے میں تنازع ہوجاتا۔ یعنی ان کی تعداد زیادہ تھی اور تمہیں ان کی اصل تعداد معلوم ہوجاتی اور اللہ تعالیٰ تمہیں وہی تعداد دکھلاتے تو تمہارےمابین آپس میں اختلاف ہوجاتا کہ ان سے لڑنا چاہیے یا نہیں یا ان کا مقابلہ کرنا چاہیے یانہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے خواب میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ تعداد تھوڑی کرکے دکھلائی ۔
کیا لازم ہے کہ سچا خواب عین مطابقِ واقع بھی ہو؟
تو اس سے ضمنی ایک بات یہ نکلتی ہے پیارے بھائیو کہ نبیوں کے خواب سچے ہوتے ہیں اور نبی کا خواب وحی ہوتی ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب بھی سچا تھا، لیکن خواب کے سچے ہونے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ عین مطابقِ واقع بھی ہو، عملاً کیا تعداد وہی تھی جو خواب میں دکھائی گئی؟ نہیں! تعداد اس سے زیادہ تھی لیکن خواب سچا تھا، خواب سچا اس لیے تھا کہ اس کا مقصود ہی یہ تھا کہ دلوں کو مضبوط کیا جائے، اس کا مقصود بشارت دینا اور حوصلوں کو بڑھانا تھا، تو سچے خواب کی نشانی یہی نہیں ہے کہ اس میں جو کہا گیا ہے، عملاً وہی ہو، وہ بعض اوقات صرف ہمت بڑھانے کے لیے ہوتا ہے، حوصلہ دینے کے لیے ہوتا ہے۔
اس آیت پہ سے گزرنے سے پہلے اکثر ذہن میں یہ سوال آتا تھا کہ لال مسجد کا جب واقعہ ہوا تو خوابوں کا ایک تانتا بندھ گیا تھا اس وقت۔ وہاں جو طلبہ محصور تھے، علما تھے، جو بچیاں تھیں، جو بہنیں تھیں ان سب کو خواب آتے رہےاور اس سے پہلے بھی خواب آتے رہے جس کی وجہ سے ان کو ثابت قدمی ملی ، یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت کثرت سے خوابوں میں زیارت ہونا اور ان کی تائید کرنا اور ان کو ایسی بشارتیں دینا گویا انہوں نے ہی فتح یاب ہونا ہے، تو بعد میں بہت سے لوگوں نے یہ باتیں بنائیں کہ یہ کیا ہوا؟ اور اس طرح کے طنزیہ جملے کسے کہ خوابوں پہ چل پڑے تھے اور اس کا انجام دیکھا کہ کیا ہوا! تو یہ بات کہ خواب ان کے ان شاء اللہ سچے تھےالبتہ اللہ کی کوئی اور حکمت تھی، اللہ نے اس سے جہاد کا یہ پورا دروازہ کھلوانا تھا، اللہ تعالیٰ کو اس سے حق و باطل کو واضح کرنا تھا، نظام کا ظلم کھول کے سامنے لانا تھا، اللہ نے ان کو ثابت قدم رکھنے کے لیے ان کی سکینت کا سامان کیا، اور عملاً وہ سب شہید بھی ہوگئے اور باقی گرفتار بھی ہوگئے تو بھی جو مقصود تھا خواب کاوہ حاصل ہوگیا۔
اور اگر فتح کی بات کریں تو فتح عاجلاً ہونا ضروری تو نہیں ہوتی کہ فوراً ہی فتح میسر آجائے، وہ حالات دیکھیں کہ ایک مسجد کے اندر گھرے ہوئے چند لوگ جو فوج کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں، اور پھر یہ حال کہ یہاں سے سوات تک پوری پٹی مجاہدین سے بھری ہوئی اور اب بھی الحمدللہ ہر جگہ ہی مجاہدین موجود ہیں جو اس نظام کے خلاف قتال کررہے ہیں اور جو اسی شریعت یا شہادت کے نعرے کو لے کے آگے بڑھ رہے ہیں۔ تو وہ اللہ تعالیٰ کے کام ہوتے ہیں کہ بعض اوقات، جیسا کہ ہم نے کہا کہ خواب مطابقِ واقع نہیں ہوتا لیکن وہ سچا ہوتا ہے اور اس سے مقصود بشارت دینا اور دلوں کو سکینت بخشنا ہوتا ہے۔
کیا خواب فی ذاتہ حجت ہوسکتا ہے؟
ایک تو ہوئی یہ بات، لیکن یہیں پہ ایک ضمنی بات یہ بھی پیارے بھائیو کہ نبی کا خواب تو ہوتا ہے وحی اور بعد از انبیاء کسی کا خواب بھی حجت نہیں ہے، وہ وحی کا مقام نہیں رکھتا ہے لہٰذا ایسے سب کے سب خواب شریعت کے سامنے پیش کیے جائیں گے اور جو موافقِ شریعت ہوگا اسے قبول کیا جائے گااور جو مخالفِ شریعت ہوگا تو چاہے کوئی یہ دعویٰ کرے کہ خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ بات کہی، چاہے کوئی یہ دعویٰ کرے کہ مجھے صحابہ میں سے کسی نے یہ بات کہی خواب میں، چاہے کوئی یہ بات کہے کہ مجھے اللہ کی طرف سے ندا آئی خواب میں، کوئی بھی ایسی بات کرے مگر وہ شریعت سے ٹکراتی ہو تو اس کو رد کیا جائے گا۔ جس طرح ہمارا ظاہر شریعت کا پابند ہے اور ہمارے لیے ایک ہی پیمانہ ہے جس سے ہم ہر چیز کو جانچتے ہیں اور وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے، اسی طرح ہماری قلبی کیفیات اور ہمارے شعور اور لاشعور پر گزرنے والی جتنی چیزیں بھی ہیں وہ سب بھی اسی شریعت کے سامنے پیش کی جائیں گی اور کوئی چیز بھی اس کے احکامات سے دائیں بائیں ہوگی تو اس کو رد کیا جائے گا۔
کیا صالح افراد کے خوابوں کو من و عن قبول کیا جانا چاہیے؟
ایک بات یہ کہ ہر خواب شریعت پر پیش کیا جائے اور اس کی جو بھی چیز شریعت سے ٹکراتی ہواس کو ایک طرف رکھ دیا جائے چاہے وہ خواب دیکھنے والا کتنا ہی صالح کیوں نہ ہو۔ بغیر شرعی حدود کا پاس رکھے، محض خوابوں کے پیچھے آنکھیں بند کرکے چل کر امت نے بڑے بڑے نقصانات اٹھائے ہیں۔ خواب ابھی بھی رحمت ہیں اور اس امت کے لیے تقویت کا باعث ہوتے ہیں، لیکن تب جب شرعی حدود کا پاس کیا جائے ۔ جب جب شرعی حدود کا پاس نہیں کیا گیا تو امت نے بہت نقصان اٹھایا۔ مثلاً یہ پورا واقعہ جُہیمان اور ان کے ساتھیوں کا کہ جس کے بعد پاکستانی فوج نے جا کر خانہ کعبہ پر گولیاں چلائیں، حالانکہ وہ ایک صالح شخص تھے اور ان کے ساتھ چلنے والے لوگ بھی صالح تھے، لیکن ایک ہی وقت میں مکہ اور مدینہ کے کئی لوگوں کو یہ خواب آتا ہے کہ یہ شخص مہدی ہیں، تو بغیر یہ دیکھے کہ یہ بات کتنی موافقِ شریعت ہے، مہدی کی جو نشانیاں صحیح احادیث کے اندر بتلائی گئیں وہ ان میں کتنی موجود ہیں، اس کو دیکھے بغیر لوگ ان کے پیچھے چل پڑےاور اس کے بعد نقصان اٹھانا پڑا۔ وہ ایک غلط موقف تھا جو ان لوگوں نے اختیار کیا۔ یہ ایک مرتبہ نہیں ہوا۔ امت میں بار بار ایسے واقعات پیش آتے رہے ہیں کہ جب خوابوں کو شریعت کے تابع نہیں رکھا گیا تو نقصان اٹھانا پڑا۔ اور دنیا میں نقصان ہونہ ہو، شرعاً ایک چیز درست نہیں ہے تو اس سے اجتناب لازم ہے۔
خواب کی بنیاد پر فیصلے کرنا
دوسرا پہلو اسی بات کا یہ کہ خواب ہمارے فیصلوں کی بنیاد نہیں ہوسکتا۔ مثلاً خواب میں کسی کے خلاف کوئی چیز دکھلائی گئی تو آپ اس کو حتمی دلیل بنا کر اس کے اوپر فیصلہ نہیں کھڑا کرسکتے۔ مثال کے طور پر خواب میں دیکھا کسی نے کہ مجموعے کے اندر فلاں ساتھی جاسوس ہے اور جاکر امیر صاحب کو خواب بتایا اور انہوں نے بندے کو پھڑکا دیا کہ خواب میں آیا ہے، تو یہ قتل ہی شمار ہوگا کہ یہ کوئی دلیل نہیں ہے کہ جس کے اوپر قدم اٹھایا جائے گا۔ حتیٰ کہ علماء نے اتنی سختی کی ہے کہ کہا ہے کہ محض خواب کی بنیاد پر دل میں اس کے لیے برا گمان قائم کرنا جائز نہیں ہے۔ ہم کون سے اتنے پاکیزہ نفوس والے ہیں کہ ہمارے خواب سارے کے سارے نبوت کے اس چھوٹے سے حصے کے دائرے کے اندر آتے ہیں؟ ایسی بات نہیں ہے بھئی۔عملاً ایسے واقعات ہو بھی چکے ہیں۔ یعنی ہمارے اپنے ساتھ یہ چیز پیش آچکی ہے۔ میں خود اس چیز کا گواہ ہوں کہ ایک بھائی کے بارے میں کسی نیک ساتھی کو، ایک مجاہد ساتھی کو خواب آیا کہ یہ جتنی بمباریاں ہوئی ہیں ان کے پیچھے اس کا ہاتھ ہےاور وہ بھائی کہ جس کے بارے میں خواب آیا وہ آج فدائی کرکے، شہید ہوکے اللہ کے پاس پہنچ چکا ہے، لیکن ایک پورا عرصہ جب تک کہ وہ زندہ تھا تب تک اس ایک خواب نے کتنے لوگوں کے ذہن خراب کیے، کتنے لوگوں کے دلوں کو اس سے پھاڑا، کتنوں کو اس سے بدگمان کیا، کتنوں کا اس پر تجسس ابھارا، صرف اس وجہ سے کہ جی ایک نیک آدمی نے خواب دیکھا ہے۔ تو خواب کے اوپر کوئی فیصلہ نہیں ہوگا۔ جاسوس کو جانچنے کا شریعت نے پیمانہ دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ یا وہ خود اقرار کرے تو وہ جاسوس ہوتا ہے، یا اس پر دو گواہ پیش ہوں تو وہ جاسوس ٹھہرتا ہے، یا ہمارے حالات میں بعض ایسے قرائن جو واضح کریں کہ وہ جاسوس ہےتو اس سے اس کا جاسوس ہونا ثابت ہوتا ہے، اس کے علاوہ کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے آپ اسے جاسوس قرار دیں۔ زیادہ سے زیادہ اتنی بات ہو کہ کسی ذمہ دار شخص کو وہ خواب بتا دیا گیااور وہ جائز شرعی طریقوں کی حدود میں رہتے ہوئے معاملے کی تحقیق کرلے، یہاں تک بات سمجھ میں آتی ہے، لیکن اس بات کو نشر کیا جائے، لوگوں کو اس خواب کی وجہ سے خبردار کردیا جائے، یا اس کی بنا پر اس کے بارے میں ایک رائے قائم کرلی جائے، اس کی بنیاد پر اسے ذمہ داریوں سے ہٹانا شروع کردیا جائے، تو یہ کام نہیں ہوسکتا۔ منفی چیزوں میں بھی اسی طرح ہے اور مثبت چیزوں میں بھی اسی طرح ہے کہ خواب کی بنیاد پر کسی کارروائی کا فیصلہ، خواب کی بنیاد پہ کسی سے لڑنے یا نہ لڑنے کا فیصلہ، آگے بڑھنے یا پیچھے ہٹنے کا فیصلہ، خواب کا بس اتنا کردار ہو کہ ہم ایک فیصلہ کرچکے ہوں مگر دل میں اس فیصلے پر کوئی خلجان باقی ہو تو خواب نے آپ کو اس فیصلے پر اطمینان بخش دیا اور آپ پورے شرح صدر کے ساتھ اگلے دن میدان میں اترے، جب کہ آپ فیصلہ کر چکے تھے کارروائی کرنے کا، یہ ایک بات ہے لیکن فیصلے کی بنیاد یہ نہیں ہوگی۔ فیصلہ دین کی مصلحت اور مفسدے کو سامنے رکھ کر ہوگا کہ اس کارروائی کے اندر دین کا کوئی فائدہ ہے یا نہیں اور یہ شرعاً جائز ہے یا ناجائز ہے، اس بنیاد پر فیصلہ ہوتا ہے۔تو ہمارے لیے پیمانہ ایک ہے۔ خوابوں کو ان چیزوں کا پیمانہ بنائیں گے تو ایسے ایسے بڑے بڑے کوارث اور ہلاکتوں میں پڑیں گے کہ جن کا تدارک پھر بہت مشکل ہوجاتا ہے۔
پس دونوں چیزوں میں توازن رہے۔ نہ ان میں سے ہوں کہ جو خوابوں کو رد کرنے والے ہوں کہ خواب اللہ کی اپنے مجاہد بندوں پر تو خصوصی رحمت ہے۔ میں نے نہیں دیکھا کہ جہاد میں آنے سے پہلے کہ کہیں بھی لوگوں کو اتنی کثرت سے اچھے خواب آتے ہوں جتنے جہاد کے میدان میں آتے ہیں۔یہاں تو ہر دوسرے دن ہی کسی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہورہی ہے خواب میں تو کسی کو انبیا علیہم السلام کی تو کس کو صحابہ کرام کی، مختلف طرز کے خواب جن کا تزکرہ عام زندگی کے اندر محال ہے کہ ہم نے کبھی سنا ہو کہ اتنے تواتر کے ساتھ ایسے خواب آتے ہوں۔ جتنی آزمائش بڑھتی ہے اتنا ہی خوابوں میں اضافہ ہونا شروع ہوجاتا ہے، بہت واضح نظر آتی ہے یہ بات۔ تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے دلوں کو سکینت بخشتے ہیں، دلوں کو اطمینان دیتے ہیں لیکن اطمینا ن و سکینت ایک بات ہے، مثلاً ایک بھائی جیل میں ہو ، پھنسا ہوا ہو وہاں پہ، بھرپور سختی کا عالم ہو، کوئی اس کو پوچھنے والا نہ ہو، اس حال میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کے خواب میں آنا اور چند بول صبر کے اس سے کہہ دینا کہ صبر کرو تم حق پر ہو تو یہ تو سراسر رحمت ہے، اس سے کیسے کوئی انکار کرسکتا ہے؟ تو نہ اس کا مذاق اڑانا چاہیے اور نہ اس کا انکار ہونا چاہیے۔یہ ایک انتہا ہوتی ہے کہ انسان اس کے انکار کی طرف چلاجائے، یہ تو رحمت ہے اللہ تعالیٰ جس کو بھی عطا کریں۔ اور دوسری انتہا پھر یہ ہے کہ اس کو بنیاد بنا کے پھر اس پہ فیصلے مرتب ہونا شروع ہوجائیں اور ذمہ داران کی آرا پہ اس کے اثرات پڑنے شروع ہوجائیں کہ چونکہ فلاں کو خواب میں آیا تھا اس لیے یہ فلاں کام کرنا ہے تو شرعاً اس طرح فیصلہ نہیں کیا جاتا ہے اور خوابوں کی بنیاد پر کیے جانے والے غلط فیصلوں سے تاریخ بھری ہوئی ہے۔ مہدویت کے جتنے دعوی دار گزرے ہیں ان کی غالب اکثریت خوابوں کی بنیاد پر اٹھی ہے، وہ خود بھی اور ان کے پیچھے جتنے لوگ چلے ہیں وہ بھی، تو اس سے ہوشیار رہا جائے۔ کسی کو خواب آیاکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے خواب میں کہا کہ فلاں عالم کی کتابیں پڑھ لیں، تو اس کو دیکھا جائے گا کہ یہ خواب حجت نہیں ہے اور پھر اس کو اس معنی میں لینا کہ یہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت ہے، تو بھئی یہ خواب ہے، اس کو اس طرح بیان کرنا کہ یہ میرے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت ہے گویا وہ کوئی حدیث ذکر کررہا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ کتاب پڑھ لیں تو یہ بات اس طرح نہیں ہے، حدیثیں اس طرح نہیں ثابت ہوتیں، اللہ کے نبی کے احکامات اس طرح نہیں ثابت ہوتے ، اس کے لیے ایک پورا اسماء الرجال کا فن ہے، علمِ حدیث ہے، وہاں سے احکامات ثابت ہوتے ہیں۔ اگر ایسا معاملہ ہو کہ ایک عالم ہوں جو صالح بھی ہوں ، علما کے ہاں مزکیّٰ ہوں، وہ سب ان کی کتابیں پڑھنے کی نصیحت کرتے ہوں اور پھر مخصوص حالات میں ایک خواب آتا ہے اور مزید اس کی تاکید کردیتا ہے تو آپ اس کو برکت کے طور پر ساتھ ذکر کردیتے ہیں مزید اسی چیز پہ تحریض دینے کے لیے تو اس دائرے میں تو یہ بات جائز ہے۔ لیکن اگر کسی ایسی شخصیت کے بارے میں خواب آجائے کہ جس کی کتابوں پہ ملاحظات ہیں ، شرعی اعتراضات ہیں تو وہاں یہ بات شریعت کے سامنے پیش ہوگی اور وہاں پہ بات کو یوں نہیں نقل کرنا چاہیے کہ یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت ہے، تو بھئی یوں نہیں ثابت ہوتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین۔ پس خوابوں کے معاملے میں درمیان کا رستہ اختیار کیا جانا چاہیے کہ نہ ان کا انکار ہو اور نہ وہ ہمارے فیصلوں کی بنیاد بنیں۔
نصرت الہی نیتوں کے اخلاص کے مطابق اترتی ہے
پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے خواب میں آپ کو کافر تھوڑے کرکے دکھائے اور اگر وہ آپ کو زیادہ کرکے دکھاتے تو تم لوگ کمزور پڑجاتے اور تمہارے درمیان اختلاف ہوجاتا وَلَٰكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ اور لیکن اللہ تعالیٰ نے اس سے بچا لیا۔ پس اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے حال سے، ان کے ضعف اور کمزوری سے واقف ہیں ، لہٰذا اللہ نے ان کو بچایا کمزور پڑنے سے، اختلاف کرنے سے اور اللہ تعالیٰ نے کافروں کی تعداد کم کرکے دکھائی، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ بلاشبہ وہ دلوں کا حال جانتا ہے، جو کچھ سینوں کے اندر ہے اس کا علم رکھتا ہے۔
تو پیارے بھائیو! یہاں پہ مفسرین نے یہ بات لکھی کہ جو اللہ نے بچایا اور جو اللہ تعالیٰ نے خواب میں تھوڑا کرکے دکھلایا اور اختلاف کی طرف جانے یا کمزور پڑنے سے مدد فرمائی اور اس سے بچا لیا، یہ کیوں تھا؟ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ کیونکہ وہ تمہارے سینوں کا حال جانتا ہے۔ اس نے تمہارے سینوں میں کچھ صدق دیکھا ، تمہارے دلوں کے اندر کچھ ایسی سچائی پائی ، کچھ ایسی خوبی پائی کہ جس کی وجہ سے اللہ نے تمہاری یہ نصرت فرمائی۔ تو نصرت دلوں کے حال کے مطابق اترتی ہے ۔ جن دلوں میں صدق ہوتا ہے اللہ ان کی مدد فرماتے ہیں اور جن دلوں کے اندر نفاق ہوتا ہے، جن دلوں کے اندر امراض ہوتے ہیں، ان کے دلوں پر اللہ تعالیٰ مطلع ہیں، اس کی نصرت بھی ان سے اٹھ جاتی ہے۔ پس اپنے دلوں کی حفاظت اس لیے ضروری ہے کہ ظاہر میں ہم جتنے بھی عمدہ نظر آتے ہوں، لیکن اللہ کے ساتھ معاملہ دل کا ہے ، إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ ، اللہ کے ہاں کیا چیز نفع دے گی؟ صرف وہ کہ جو سلیم دل لے کر آئے گا، جو ہر شرک سے، ہر نفاق سے، ہر شر کی محبت سے ، ہر گناہ پر اصرار سے، ہر قسم کے مرض سے پاک دل ہوگا، وہ دل وہاں پہ نفع دے گا۔ تو وہ دل وہاں بھی نفع دیتا ہے اور وہ دل یہاں بھی نفع دیتا ہے۔ اللہ کی نصرتیں دلوں کے مطابق اترتی ہیں۔ پس دلوں کی صفائی کا اہتمام کرنا، اپنے دلوں کو کینے سے پاک رکھنا، دوسرے بھائیوں کے لیے محبت کا جذبہ اس میں ہو، اپنے دلوں کو برائی کی پسندیدگی سے، گناہوں کی پسندیدگی سے پاک رکھنا اور اللہ سے دعا کرنا کہ اللہ ہمارے دلوں کو ایمان کے ساتھ مزین کردےاور خیر کی محبت، نیکیوں کی محبت اس کے اندر ڈال دے، اپنے دلوں کو شرک و بدعت کے ہر ادنیٰ ذرے سے پاک رکھنا، اس کے اندر اللہ کی توحید کو، اللہ پر توکل ، اللہ کی خشیت، اللہ کی محبت، ان چیزوں کو جگہ دینا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت، صحابہ کی محبت، صالحین کی محبت، قلوب میں ان پاکیزہ چیزوں کو جگہ دینا، اس کے اوپر پھر اللہ تعالیٰ کی نصرتیں اترتی ہیں۔ کئی علماء کے نزدیک دل کے اعمال جسم کے اعمال سے زیادہ افضل ہیں اور دل کے اعمال کے لیے، اپنے دل کو صاف کرنے اور دل کے اچھے اعمال کا اہتمام کرنے کے لیے جو جہد کرنا پڑتی ہے وہ جسم کی نسبت بہت زیادہ مشقت طلب کرتی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کے حال سے واقف تھے ، ان کے سینوں کا حال دیکھتے ہوئے اللہ نے ان کو بچا لیا ۔
وَإِذْ يُرِيكُمُوهُمْ إِذِ الْتَقَيْتُمْ فِي أَعْيُنِكُمْ قَلِيلًا وَيُقَلِّلُكُمْ فِي أَعْيُنِهِمْ اور جب اللہ نے آپ کی نگاہوں میں ان کو تھوڑا کرکے دکھایا اور ان کی نگاہوں میں آپ کو تھوڑا کرکے دکھایا ، یعنی دو طرفہ معاملہ ہوا، مسلمانوں کو خواب میں یوں دکھایا گیا کہ کافر تھوڑے ہیں اور کافروں کو یوں دکھایا گیا کہ مسلمان تھوڑے ہیں تو گویا دونوں کو ابھار دیا گیا، یعنی یہ جو ہم نے کہا کہ پورا میدان ہی اللہ کا سجایا ہوا تھا۔ عملی حالات بھی اور قلبی حالات بھی اللہ نے ایسے بنا دیے کہ دونوں پورے عزم کے ساتھ میدان کے اندر اتر آئے۔ سامنے آئے تو حقیقت کچھ اور کھلی، لیکن وہاں اللہ تعالیٰ نے پھر لِيَقْضِيَ اللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا جو اللہ نے فیصلہ کیا تھا، جو اللہ نے منصوبہ بنایا تھا، اللہ نے اس کو پورا کرنا تھا، اس کی خاطر اللہ نے یہ سب کیا، وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ اور معاملات سارے کے سارے لوٹ کر اللہ ہی کی طرف جاتے ہیں۔
پس پیارے بھائیو! ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں بری لگے لیکن اللہ نے اس میں تمہارے بھلائی رکھی ہو اور کوئی چیز تمہیں اچھی لگے اور اللہ نے اس میں تمہارے لیے برائی رکھی ہو۔ سورۂ کہف میں مذکور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر کا پورا واقعہ یہی بتاتا ہے کہ انسان بعض اوقات ظاہر پہ نگاہ رکھتا ہے اور ظاہری چیزوں کو دیکھتے ہوئے جلد بازی میں فیصلہ کرلیتا ہے اس کا کہ شر کس چیز میں ہے اور جس کو وہ ظاہر میں شر سمجھ رہا ہوتا ہے اس کا مآل یا اس کا انجام خیر کا ہوتا ہے ، تو اللہ تعالیٰ اس کو بظاہر ایک شر میں مبتلا کرتے ہیں لیکن کچھ عرصے میں اسے پتہ چلتا ہے کہ یہ خیر تھی میرے لیے۔ بظاہر اس کو یہ محسوس ہورہا ہوتا ہے کہ فلاں چیز میرے لیے خیر ہے لیکن اللہ تعالیٰ اس خیر کو اس سے پھیرتے ہیں اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ خیر مجھ سے پھری حالانکہ حقیقت جب کھلتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اللہ نے اس کو ایک برائی سے بچا لیا۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کے اپنے منصوبے ہیں اور قضا و قدر کے عقیدے کی یہی خوبی ہے کہ وہ انسان کو یہ ایمان دیتی ہے کہ وہ ذات جو ہر چیز کا علم رکھتی ہے، اس کا فیصلہ اٹل ہے ، ہمارا فیصلہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا، اس کی قضا اور اس کی قدر نافذ ہوکر رہتی ہے اور انسان اس کی قضا و قدر پر راضی رہے کیونکہ بعض اوقات ہمیں ایک چیز شر لگ رہی ہے لیکن اللہ جانتا ہے کہ اللہ نے اس میں کیا خیر رکھی ہے اور ایک چیز ہمیں خیر لگ رہی ہے اور ہم تڑپ رہے ہیں کہ کسی طرح ہمیں یہ حاصل ہوجائے لیکن اللہ جانتا ہے کہ کتنا بڑا شر اس کے بعد منتظر تھا جس سے اللہ نے ہمیں بچا لیا۔ تو یہ عقیدہ جس کا ہو وہ ہر حال میں راضی رہتا ہے ، جہاں بھی اللہ اس کو جس بھی کیفیت میں رکھتے ہیں ، وقتی طور پہ اس کو شر بھی محسوس ہو تو وہ اس میں خوش رہتا ہے۔
ایک نکتہ اور جو اس پوری بات سے نکلتا ہے پیارے بھائیو! بہت سی آیات آپ کو جہاد کے میدان میں آکر ہی سمجھ میں آتی ہیں۔ یہ دین ایک متحرک دین ہے پیارے بھائیو! اور یہ جامد و ساکت و بے جان دین نہیں ہے ۔ یہ زندہ معاشروں کےلیے اپنے آپ کو کھپانے اور گھلانے والے، نہر کی طرح بہتے ہوئے ، چلتے ہوئے معاشروں کے لیے اترا ہے تو جب تک معاشرہ حرکت نہیں کرتا تو محض آرام کمروں میں بیٹھ کر اس کی بہت سی آیتیں اپنے حقیقی مفاہیم کبھی کھول بھی نہیں سکتیں آپ کے سامنے۔ بہت سے بڑے بڑے ائمہ جن کی کتب پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ فتح من اللہ، اللہ نے ان پہ کھول دیے یہ معانی، تو معانی کھلنے کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنے آپ کو گھلایا تھا، دعوت میں گھلایا تھا، حکام کے سامنے حق بات کہنے میں گھلایا تھا، کفار سے جنگ کرنے میں گھلایا تھا، تو جب وہ انبیاء کے رستے سے گزرتے ہیں، تو گزرنے کے ساتھ ساتھ آیتیں معانی کھولنا شروع کردیتی ہیں، کیونکہ وہ خود اس رستے پہ قدم بہ قدم چل رہے ہوتے ہیں۔ تو جہاد کے حوالے سے بھی ایک بات یہ ہے کہ بعض اوقات شہر کا ذہن تازہ تازہ میدان میں پہنچتا ہے ، بہت سی چیزیں غیر مرتب اور غیر منظم اور بلا منصوبہ ، الل ٹپ سی محسوس ہورہی ہوتی ہیں ــ شرعاً تو ہم پہ لازم ہے کہ جو بھی میدان جہاد میں آئے وہ اپنے کام کو منظم کرنے کی کوشش کرے ، وہ منصوبہ بندی سے بھی چلنے کی کوشش کرے، وہ کوشش کرے کہ ایک منصوبہ فلاپ بھی ہوجائے تو وہ دوسرا منصوبہ لے کر آئے ، کافروں کو شکست دینے کے لیے یا اپنے کام کو ترتیب دینے کے لیے اپنی پوری جہد کھپائے، لیکن عملاً ایسا ہوتا نہیں ہے۔ یعنی یہ کوشش کرنے کے بعد بھی وہ منصوبے عملاً چل نہیں پاتے ، منصوبہ وہ چلتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے ہو، لِيَقْضِيَ اللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا ، جو اللہ کے ہاں لکھا ہوا ہوتا ہے۔ تو جہاد کے میدان میں جتنی یہ بات واضح ہوتی ہے اتنا دنیا کے کسی اور میدان میں نہیں ہوپاتی، یہاں کھلی آنکھوں سے یہ سب نظر آتا ہے کہ ہم بھی ایک منصوبہ بنا رہے تھے اور وہ بھی ایک منصوبہ بنا رہے تھے، مگر نہ ہمارا چلا نہ ان کا چلا بلکہ ایک تیسرامنصوبہ آگیاجو رب کا منصوبہ تھا۔یہاں پہ بھی یہی ہوا۔ نہ مسلمانوں کا ارادہ تھاجنگ کرنے کا اور نہ ان کاارادہ تھا جنگ کرنے کا۔ وہ بھی متردد تھے اور مسلمان بھی قافلے کے پیچھے گئے لیکن اللہ نے پورے حالات مہیا کردیے اور اس سے اللہ تعالیٰ کو کچھ اور چیز مطلوب تھی۔ آپ خود لال مسجد کے واقعے پر تھوڑی دیر غور کریں تو بعینہ آپ کو یہی چیز محسوس ہوتی ہے۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ جو اس کے اندر موجود تھے ان کو بھی چند دن پہلے تک نہیں پتا تھا کہ اس پورے واقعے کا انجام کیا ہونا ہے اور اس کے نتیجے میں یہ سب کچھ ہوجائے گا، اس کی ان کو بھی توقع نہیں تھی اور جو باہر تھے ان کو بھی توقع نہیں تھی کہ بات اتنے خطرناک رخ پر چلی جائے گی اور اتنا خون خرابہ ہوگا اور اختتام اس کا اس طرح ہونا ہے۔ لیکن اللہ کو کچھ اور مقصود تھا۔ ایک ایسی چیز ہوئی، دنیا کی نگاہوں کے سامنے ہوئی، میڈیا نے اس کو لائیو ریکارڈ کیا ، ایک ظلم جو آج تک چھپا ہوا تھا، یعنی ہتھیار اٹھانے کے لیے بھی چیزوں کا ایک خاص سطح تک عیاں ہونا ضروری ہے ورنہ قوم نہیں تیار ہوتی، تو یہ جو ہزاروں نوجوان نکلے اس کے بعد ، قبائل میں ہزاروں لوگ اٹھے، سوات میں لوگ اٹھے کہ جنہوں نے ہتھیار اٹھائے اور اس نظام کو الٹانے کی جہد شروع کی، تو وہ اس سے کم تر کسی چیز کے بغیر اٹھ بھی نہیں سکتے تھے۔ اللہ نے اس کا نظام بنایا کہ وہ ایک واقعہ ہوا عین دارالخلافہ میں۔ دارالخلافہ کی اصطلاح مناسب نہیں ہے اسلام آباد کے لیے، البتہ کہہ لیں کہ دارالحکومت میں، اس دارالحکومت کے اندر بھی ٹی وی کیمرے فکس ہیں، سارا کچھ ریکارڈ ہورہا ہے، انٹرویوز جارہے ہیں، بچیاں نکل کر آرہی ہیں اور اندر کے مظالم بیان کررہی ہیں، سب کچھ کھل کے واضح ہو تاکہ قوم پہ بھی حجت تمام ہوجائے اور جس نے اٹھنا ہے وہ اٹھ جائے اور جس کا نفاق ہے اس کا نفاق ظاہر ہوجائے، جس کے اندر ایمان ہے اس کا ایمان ظاہر ہوجائے تو اللہ تعالیٰ نے اس کا انتظام فرمایااور اس کے نتیجے میں وہ خیر برآمد ہوئی اس سے کہ جو کسی کے بھی تصور میں نہیں تھی۔ وقتی طور پہ یہ لگا کہ دنیا اندھیر ہوگئی جب وہ ساری شہادتیں ہوئیں لیکن اس کے بعد کس کو پتا تھا کہ اگلے سالوں میں شریعت کا نعرہ لے کے جمہوریت سے بغاوت کرتی ہوئی ایک اتنی بڑی تحریک برپا ہونی ہے اور ایک خالص شرعی نظام کی خاطر جہد کرنے والی ایک تحریک نے کھڑا ہونا ہے؟ یہ اللہ تعالیٰ کے کام تھے، تو یہ ہوتا ہے کہ بعض اوقات پیارے بھائیوکسی انسان کا منصوبہ نہیں چل پاتا اس لیے کئی بھائی کہ جن کے دلوں میں ایسے شکوے پیدا ہوجاتے ہیں کہ بھئی بلا منصوبہ بندی! تو بلا منصوبہ بندی نہیں کام چل رہا، مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ اتنی تیزی سے چیزیں بدلتی ہیں یا اللہ کا منصوبہ اتنی تیزی سے آپ کے منصوبے الٹاتا ہے کہ انسانی عقل اس پہ فیل ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ بار بار منصوبے بنا بنا کے، ہر تین ماہ بعد، ہر دو ماہ بعد، بعض اوقات ہر ہفتے کی بنیاد پر منصوبہ آپ کا ٹوٹ رہا ہوتا ہےتو اتنی دفعہ جب ٹوٹتا ہے تو آخر کار بندہ کہتا ہے کہ وَأُفَوِّضُ أَمْرِي إِلَى اللَّهِ ، ٹھیک ہے! اللہ کے حوالے یہ گاڑی ، اسی طرف جائے جہاں اللہ اسے لے کے جانا چاہتے ہیں۔ مقصود یہ نہیں کہ ہم اپنی ذمہ داری ادا کرنا چھوڑ دیں۔ جو جتنی ذمہ داری پہ ہے اس پہ اتنا بھاری بوجھ ہےکہ وہ اتنا جہد کرے اتنا کام کو منظم کرنے کی سعی کرتا رہےلیکن عملاً یہ ہوگا نہیں اور عملاً بہت سی چیزیں کسی اور ہی رخ پہ جاتی محسوس ہوں گی، اس رخ پہ کہ جسے رب نے متعین کیا، کسی انسان کا متعین کردہ نہیں تھا۔
اگر لا ل مسجد نہ ہوتا تو ہم سب اپنے آپ سے سوال کریں کہ ہم میں سے کتنے لوگ اس رستے پہ چلتے؟ کتنے لوگ اپنے قلب کے اندر یہ جرأت پاتے یعنی یہ غصہ اور غیض و غضب اس سطح تک پہنچتا کہ کہتے ہاں! اب اس کے سوا کوئی رستہ نہیں بچا کہ بندوق اٹھائی جائے؟ تو یہ چیز ہے کہ یہ اللہ کا کام ہے۔ کتنے علماء فتاویٰ دیتے؟ آج الحمدللہ بہت سے علماء ہیں جو آہستہ آہستہ سالوں چیزیں ہوتی رہیں، دھماکے ہوتے رہے، شروع میں ہر دھماکہ ذہن پہ بھی ایک دھماکہ محسوس ہوتا تھا، آہستہ آہستہ یہ روٹین کی بات ہوگئی، اتنی روٹین کی بات ہوگئی کہ جب دھماکے کی خبر نہ آتی تو لوگ حیرت سے پوچھتے کہ یہ کیا ہوا؟ آج کوئی دھماکہ نہیں ہوا! تو لوگ عادی ہوگئے، علماء عادی ہوگئےاس چیز کے تو وہی علما کہ جن سے لال مسجد واقعے سے دس دن پہلے تک بھی آپ پوچھتے کہ پاکستان میں بندوق اٹھانا کیسا ہے تو وہ کہتے کہ،آپ خود بھی جانتے ہیں کہ وہ کیا جواب دیتے۔ کم سے کم بھی حرام کا جواب تو ملتا ہی ملتا۔ اور پاکستان کے جو باقی شہری علاقے ہیں وہاں سے بھی الحمدللہ مستقل علماء کی تائیدات میں اضافہ ہورہا ہے ،کمی نہیں ہورہی۔ مستقل طلبا کی، علماء کی صفوں سے نکل کےلوگ یا شامل ہورہےہیں یا کم از کم اپنی محبت و تائید کے جذبات ساتھ ساتھ بھجوا رہے ہیں۔ تو یہ اللہ کے کام ہیں، لِيَقْضِيَ اللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا ابھی بھی ہم نہیں جانتے کہ اللہ اس پورے سمندر کا رخ اب کہاں لے کے جانا چاہتے ہیں۔ حقیقی بات ہے کہ ہم نہیں جانتے۔ ہم جو بھی منصوبے بناتے رہیں کہ ہم نے اس کو بتدریج لے کے چلنا ہے اور ہم پہلے اس علاقے پہ قبضہ کریں گے اور پھر یوں کریں گے اور پھر یوں کریں گے،ہوسکتا ہے کہ دھڑام سے کوئی اور ایسا واقعہ آئے کہ دوسرے دن ہم بنگال پہنچے ہوئے ہوں اور کلکتہ میں بیٹھے ہوں طارق (بنگالی) بھائی وغیرہ کے ساتھ، یہ اللہ بہتر جانتے ہیں کہ اس سارے نے کیا رخ لینا ہے۔ہمیں نہیں پتہ ہوتا ، اللہ تعالیٰ اس کا رخ بناتے ہیں ، اللہ تعالیٰ اس کے لیے حالات متعین کرتے ہیں۔
پس یہ اطمینان مجاہد کےلیے ضروری ہے کہ وہ اپنی جہد کے ساتھ ساتھ اللہ کی رضا پہ راضی رہنے کی خو پیدا کرے اور اللہ اس کو جس رخ پہ لے جائیں، آج اس کو ادھر رکھا، کل اس کی دوڑ لگی، پرسوں اس کو کسی اور آزمائش سے گزارا، ترسوں کہیں اس کو تمکین دے دی، جہاں لے جائے جہاد وہاں وہ ساتھ ساتھ جاتا ہو۔
شیخ یوسف العییری رحمہ اللہ کی کتاب ہے بہت خوبصورت، ثوابت علی درب الجہاد، تو اس میں انہوں نے چار پانچ اساسی نکات بیان کیے ہیں جو ایک مجاہد کے سامنے رہنے چاہیے ہیں ، ان میں سے ایک نکتہ یہ ہے، الجہاد لیس معلقاً بأرض دون أرض، جہاد کسی خاص زمین سے معلق نہیں ہے، تو اپنے آپ کو کسی زمین سے، کسی خاص ٹکڑے سے یوں وابستہ کرلیناکہ میں نے یہیں جہاد کرنا ہے (مطلوب نہیں ہے)، اللہ کی زمین ہے اور وہ وسیع ہے، یہاں نہیں ہوسکے گا تو کہیں اور کرلیں گے۔ ہدف ضرور ہے کہ پاکستان میں شریعت لے کر آنی ہے اور ہدف ضرور ہے کہ افغانستان میں امارت قائم کرنی ہے لیکن اللہ کہاں ہمیں لے کے جانا چاہتے ہیں اللہ ہی بہتر جانتے ہیں۔
کچھ شخصیتوں کی مثال لیں، ہوسکتا ہے کہ جماعت کے طور پہ ایک جماعت وہیں باقی رہے، لیکن اللہ نے کسی فرد کو ابتلا میں ڈالنا ہو، اس کو کہیں سے کہیں لے جائیں۔ ابھی ماضی قریب کی مثال لیں تو شیخ عیسیٰ کی مثال ہے کہ وہ گزشتہ دس پندرہ سال سے یہاں بیٹھے تھے، عین اس وقت کہ جب کسی کو توقع بھی نہیں تھی کہ عرب دنیا میں انقلابات شروع ہونے والے ہیں، اس وقت انہوں نے کہا کہ میں عراق کی طرف رخ کرتا ہوں، تو وہ اس طرف نکلے، رستے میں گرفتار ہوئے، انہیں مصر کی حکومت کے حوالے کیا گیا، چند ماہ بعد ہی مصر میں حالات الٹ گئے، ابھی وہ رہا ہوکے تحریر چوک میں بیٹھ کر تقریر کررہے ہیں اور جہاد کی دعوت دے رہے ہیں۔ یہ اللہ کی ترتیب تھی کہ اللہ نے ان کو وہاں پہنچانا تھا ان حالات کے لیے کہ جب دعوت کا موقع میسر ہوگا تو ایک عالم کی ضرورت تھی کہ وہ وہاں پہنچے جس نے میدان میں وقت گزارا ہو، چیزوں کو قریب سے دیکھا ہو اور وہ جہاد کی دعوت دے تو اللہ نے ان کے لیے ایک ترتیب بنائی ۔ تو ایسے کتنے ہی واقعات آپ کو ملتے ہیں۔ بمباریوں تلے ہمارا ایک ذمہ دار شہید ہوتا ہے اور اسی دور میں پاکستان، ایران یا امریکہ کی جیل سے رہا ہوکے اسی سطح کا ایک ذمہ دار یہاں پہنچ جاتا ہے، یہ اللہ کی ترتیب ہے، یہ کسی کے درمیان کوئی اتفاق نہیں ہے، مستقل ایسے واقعات ہوتے ہیں۔
اس سے پہلے دیکھ لیں کہ جزیرۂ عرب میں پہلے امیر کہ جنہوں نے شیخ یوسف العییری کے ساتھ مل کے تنظیم القاعدہ کی بنیاد پوری کھڑی کی، شیخ عبدالعزیز مُقرِن، ان کی اپنی زندگی اسی طرح ہےکہ ان کی عمر تیس برس سے بھی کم ہے اور اس دوران وہ بوسنیا بھی گھوم چکے ہیں، شیشان بھی جاچکے ہیں ، افغانستان بھی جاچکے ہیں، یمن بھی جاچکے ہیں، صومالیہ بھی جاچکے ہیں اور بالآخر جزیرۂ عرب میں جہاد کرتے ہوئے شہید ہوتے ہیں۔تو اللہ نے ان کو کہاں کہاں سے گزارا، کس دن کے لیے کیوں تیار کیا، اللہ کو ان سے کیا کام لینا مقصود ہے، یہ اللہ بہتر جانتے ہیں ۔ ہر بندے کی زندگی میں یہ موڑ آسکتے ہیں، وہ اپنے ذہن کو بس اس پہ راضی کرے کہ رب کے دین کے ساتھ چمٹا رہنا ہے، جہاد کے ساتھ چمٹا رہنا ہے، وہ جہاں مرضی لے گیا مجھے۔ مجھے شیشان کی پہاڑی پہ لے گیا وہاں چلا جاؤں گا، وہ مجھے کہیں صومالیہ کے صحرا میں لے گیا یا سوڈان میں پہنچا دیا تو وہاں چلا جاؤں گا، مجھے مسئلہ نہیں ہے اس کے اندر، مجھے بس اس عبادت پر قائم رہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے اورآپ کو اس پہ ثبات نصیب فرمائے۔
سبحانک اللھم و بحمدک ونشھد ان لا الہ الا انت نستغفرک و نتوب الیک و صلی اللہ علی النبی
٭٭٭٭٭