اَلقاعِدہ کیوں؟ | چھٹی قسط

میں القاعدہ میں کیوں شامل ہوا؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الحمد للہ وکفیٰ والصلاۃ والسلام علیٰ أشرف الأنبیاء.

اللّٰھم وفقني کما تحب وترضی والطف بنا في تیسیر کل عسیر فإن تیسیر کل عسیر علیك یسیر، آمین!

(۷) …… کیونکہ وہ مستقبل کی تیاری کرنے والے ہیں

اس عنوان کی اہمیت جاننے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اس کے شرعی حکم کو جانیں۔امام ابنِ تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

’’جہاد کے لیے تیاری کرنا، طاقت اور گھوڑوں کو جمع رکھنا اُس وقت بھی واجب ہے جب بظاہر عجز کی وجہ سے جہاد ساقط ہو، کیونکہ جو چیز واجب کے قائم ہونے کے لیے ضروری ہو وہ بھی واجب ہے۔‘‘ (مجموع الفتاویٰ)

امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے سیاستِ شرعیہ کے تحت اس مسئلے کا حکم ذکر کیا ہے، جب انہوں نے اس قاعدے پر بات کی ’’جس امر کو پورا کیے بغیر کوئی واجب ادا نہ ہوتا ہو تو اس امر کا پورا کرنا بھی واجب ہے‘‘۔ اور اس قاعدے کی مثال یہ دی کہ جہاد واجب ہے، اور اگر جہاد کی استطاعت موجود نہ ہو تو تیاری پھر بھی واجب ہے، کیونکہ جہاد واجب ہے اور جو چیز واجب کے بغیر پوری نہ ہو وہ بھی واجب ہے۔

پس میں چاہتا ہوں کہ اے میرے بھائی! آپ اس امر کو محسوس کر لیں اور یہ سمجھ لیں کہ واجب کا مطلب کیا ہے، یعنی وہ واجب جسے چھوڑنے والا گناہ گار ہے:

  1. تیاری فکر و عقیدے کے پہلو سے ہو۔
  2. جسمانی پہلو سے۔
  3. اسلحے کے ساتھ۔
  4. اور تجربے کی روشنی میں کسی ایسی جماعت کے تحت شامل ہو جانا جو خود تیاری کرتی ہے، تاکہ آپ کو تیاری کی سہولت میسر ہو۔ اور تنظیم القاعدہ نے مجھے اس لیے زیادہ متاثر کیا کہ اس نے تیاری کے شرعی مفہوم کو سمجھا اور اس پر عملی طور پر عمل کیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ دیگر جماعتوں سے تیاری میں بہتر ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بعض جماعتیں بالکل تیاری نہیں کرتیں، اور بعض جماعتوں میں تیاری کے معاملے میں بہت بڑی کوتاہی پائی جاتی ہے۔

اور بعض جماعتیں جیسا کہ ہم نے ذکر کیا، تیاری نہیں کرتیں اور ان کے اندر تیاری کے مفہوم کو سمجھنے میں خرابی پائی جاتی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ:

وہ تیاریٔ عقیدہ میں اس قدر مبالغہ کرتے ہیں کہ عمر گزر جاتی ہے اور وہ یہی دعویٰ کرتے رہتے ہیں کہ وہ تیاری کر رہے ہیں۔ بلکہ جو نسل وہ عقیدے کے اعتبار سے تیار کرتے ہیں، یہ حضرات خود اس نسل کے بارے میں سمجھتے ہیں کہ وہ جہاد نہیں کرے گی، بلکہ ان کا گمان ہے کہ یہ نسل آگے ایسی نسلیں پیدا کرے گی جو جہاد کریں گی۔ سوچیے اگر مربّی ہی میں خرابی ہو تو اس کے شاگرد کا کیا حال ہوگا؟ میں کہتا ہوں کہ ان کے اندر تیاری کے شرعی مفہوم کی پہچان میں خرابی ہے، اور اس خرابی میں یہ بھی داخل ہے کہ وہ جس عقیدے کی تیاری کا دعویٰ کرتے ہیں اس میں بھی وہ کوتاہ ہیں۔ کیونکہ جہاد فرضِ عین ہے اور وہ اپنے طلبہ کو یہ نہیں سکھاتے۔ ان کے اندر ولاء و براء میں بھی کمزوری ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر ہم مان بھی لیں کہ یہ حکام طاغوت کافر نہیں ہیں تو کم از کم وہ فاسق و فاجر تو ہیں ہی، لیکن پھر بھی ان میں سے بعض بلکہ اکثر ان سے وہ بغض نہیں رکھتے جو رکھنا چاہیے، بلکہ کبھی ان کی تعریف بھی کرتے ہیں، لوگوں کو انہیں دوبارہ منتخب کرنے کی دعوت دیتے ہیں، ان کی تعریف میں کہتے ہیں کہ انہوں نے ملک کو مصیبتوں سے بچایا، اور اس سے ملتی جلتی باتیں کرتے ہیں۔ اور یہ باتیں کرنے والے وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں ہم حسنِ ظن رکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ وہ درباری علماء نہیں ہیں۔ اگر ان کے عقیدے اور فکر کی تیاری ایسی ہے تو مجھے قسم اٹھا کر بتائیے کہ یہ حضرات کب ایسی نسل تیار کریں گے جو ذلت کو رد کرے، عزت کی طلب گار ہو اور امت کو اس کی عزت و بزرگی واپس دلائے؟ جبکہ حقیقت یہ ہےکہ یہ حضرات ایسی تیاری کرتے ہیں جو نوجوانوں کے دلوں میں یاس اور ناامیدی بوتی ہےاور ان کے دلوں میں یہ کمزوری ڈالی جاتی ہے کہ شریعت کا نفاذ ہمارے زمانے میں ممکن نہیں ہوگا۔ یہ وہ بات ہے جو وہ زبانِ حال یا زبانِ قال سے کہتے ہیں۔ پھر جب بھی تیاری اور جہاد کا ذکر آتا ہے تو کہتے ہیں کہ لازماً ایمانی تیاری ضروری ہے۔ تیاری ایک ایسے درجے تک بیان کرتے ہیں جس کا حاصل کرنا عوام کے لیے ناممکن ہے، گویا جہاد صرف علماء اور طلبہ ہی کا کام ہے کہ پہلے وہ اپنی تعلیمی اسناد حاصل کریں اور اس کے بعد جہاد کے لیے میدان میں اتریں، اور وہ اس میں نبوی ہدایت کو نہیں سمجھتے جیسا کہ آگے ذکر آئے گا، ان شاء اللہ۔

کہاں ہیں اہلِ فکر؟ جن کی سوچ کے دھارے
مری مظلوم اِس اُمت کا رُخ بدل ڈالیں
کہاں گیا وہ مُعلِّم؟ جو میرے بچوں کو
حسنؓ، حسینؓ کے اُسوے کا درس سکھلائے
کدھر ہے میرے محلّے کا خوش نوا واعِظ!
جو کافروں کے تسلُّط پہ آج برہم ہو
کدھر گئے وہ ’پڑھے لکھے‘؟ جو یہ کہتے تھے
جہالتوں سے نمٹنا بہت ضروری ہے
ستم کے سَیل تو گزرے، سروں سے اُمت کے
ہَنُوز اُن کی تیاری مگر اَدھوری ہے!

پس اگر ان میں خرابی اُس پہلو میں ہے جس کی طرف وہ بلاتے ہیں یعنی عقیدے کی تیاری، تو خود ہی سوچیے ان کی تیاری دوسرے پہلوؤں میں کیسی ہوگی؟ دوسرے پہلوؤں پر تو انہوں نے گویا نمازِ جنازہ پڑھ لی ہے۔ حتیٰ کہ بعض لوگوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ نیک شخص اسلحہ نہیں اٹھاتا، یہ بات بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہم برِّ صغیر ہند و پاک میں دیکھتے ہیں ’شرفاء‘ کے یہاں اسلحہ رکھنا ’رذالت‘ کی علامت تھا۔ چنانچہ خیر الشرفاء میں سے ایک حضرت سیّد احمد شہیدرحمہ اللہ اکثر جسم پر ہتھیار سجا کر نکلا کرتے تھے اور اپنے اہل بیعت کو بھی اس کی ترغیب دیتے۔ ایک موقع پر رفقاء کے ہمراہ ہتھیار لگا کر نکلے۔ کسی نے کہا کہ یہ تلوار یا بندوق وغیرہ باندھنا آپ کے شایان شان نہیں ہے، یہ جہالت کے اندازہیں اور آپ کے آباء کے طرزِ عمل کے خلاف ہیں۔ یہ سن کران کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ کہنے لگے:

’’اس بات کا آپ کو کیا جواب دوں؟ اگر سمجھیے تو یہی کافی ہے کہ یہ وہ اسباب خیر و برکت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کو عنایت فرمائے تھے تاکہ کفار و مشرکین سے جہاد کریں اور خصوصاً ہمارے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی سامان سے تمام کفار و اشرار کو زیر کر کے جہان میں دین حق کو روشنی بخشی ۔ اگر یہ سامان نہ ہوتا تو تم نہ ہوتے اور اگر ہوتے تو خدا جانے کس دین و ملت میں ہوتے ۔ ‘‘ (وقائع احمدی)

تیاری کا معاملہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی شامل ہے:

’’إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُدْخِلُ بِالسَّهْمِ الْوَاحِدِ ثَلَاثَةَ نَفَرٍ الْجَنَّةَ صَانِعَهُ يَحْتَسِبُ فِي صَنْعَتِهِ الْخَيْرَ وَالرَّامِيَ بِهِ وَمُنْبِلَهُ وَارْمُوا وَارْکَبُوا وَأَنْ تَرْمُوا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ تَرْکَبُوا وَمَنْ تَرَکَ الرَّمْيَ بَعْدَ مَا عَلِمَهُ رَغْبَةً عَنْهُ فَإِنَّهَا نِعْمَةٌ تَرَکَهَا أَوْ قَالَ کَفَرَهَا.‘‘ (ابو داود)

’’بے شک اللہ تعالیٰ ایک تیر کے سبب تین آدمیوں کو جنت میں داخل کرے گا ۔ ایک اس کے بنانے والے کو جو کہ اپنے پیشہ میں ثواب کی امید رکھے گا۔ دوسرا تیر پھینکنے والے کو (یعنی جو دوران جنگ تیر استعمال کرے گا۔ تیسرے اس شخص کو جو تیر انداز کو تیر اٹھا کردیتا ہے۔ پس تیر اندازی کرو اور سواری کرو (یعنی تیر اندازی اور گھڑ سواری سیکھولیکن میرے نزدیک سواری کی نسبت تیر اندازی زیادہ پسندیدہ ہے (کیونکہ تیر اندازی پیادہ بھی کرسکتا ہے۔ جو شخص تیر اندازی سیکھنے کے بعد اس کو غیر اہم سمجھ کر چھوڑ دے تو اس کو جان لینا چاہیے کہ تیر اندازی ایک نعمت تھی جو اس نے چھوڑ دی یا یہ فرمایا اس نے نعمت کی ناقدری کی۔‘‘

اور تیر اندازی کی اہمیت پر یہ بھی دلیل ہے کہ بعض علما ءنے کہا کہ جس نے تیر اندازی سیکھی پھر جان بوجھ کر بھلا دی تو اس نے کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا۔

اے میرے پیارے بھائی! کیا آپ اس معاملے کو سمجھے کہ بعض جماعتیں ایک واضح مسئلے میں کوتاہی کر رہی ہیں۔ تو آپ کہیں گے کہ وہ کیا ہے؟ جواب ہے ، اعداد یا تیاری۔ اگر ہم لڑنے کے قابل نہیں ہیں تو تیاری تو بہر حال لازم و واجب ہے۔ خاص طور پر اسلحے کی تیاری۔ یہ سب جماعتیں اسلحے کی تیاری سے غافل کیوں ہیں؟ حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر فرمایا:

’’وأعدوا لهم ما استطعتم من قوة، ألا إنّ القوة الرمي، ألا إنّ القوة الرمي، ألا إنّ القوة الرمي.‘‘ (صحیح مسلم)

’’اور ان (دشمن)کے مقابلے کے لیے تیار رکھو جو کچھ تم طاقت سے تیار کر سکو۔ سن لوطاقت رمی (تیر اندازیمیں ہے ، سن لوطاقت رمی (تیر اندازیمیں ہے ، سن لوطاقت رمی (تیر اندازیمیں ہے!‘‘

پس وہ شخص جسے پندرہ سال یا کم و بیش عرصہ ہو گیا ہے اور وہ تاحال اپنے آپ کو عقیدے کے پہلو سے ہی تیار کر رہا ہے، کیا اب وقت نہیں آ گیا کہ یہ شخص مسلح تیاری بھی کرے؟ کیا ہمارے ملکوں میں امن و امان ہے ؟ کیا ہمارے ملکوں میں شریعت کی حکمرانی قائم ہے؟ کیا لوگوں کو ان کے حقوق مل رہے ہیں؟ کیا مسلمانوں کے ممالک یہود و نصاریٰ اور دوسرے دشمنوں کے تسلط سے آزاد ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ شریعت قائم ہو اور دشمن کا تسلط نہ ہو تب بھی تیاری کا حکم اپنی جگہ قائم رہتا ہے، یہاں تک کہ ہم کفار کے ممالک بھی فتح کر لیں۔ میرے بھائی اسلامی احکام تو یہی ہیں، ہائے افسوس کہ ہم سمجھ میں بھی خرابی کا شکار ہیں اور عمل میں بھی۔

البتہ القاعدہ نے اللہ کے فضل سے تیاری کے شرعی مفہوم کو سمجھا اور اپنی استطاعت کے مطابق اس پر عمل کیا۔ وہ تیاری میں اور اس کے مفہوم کو سمجھنے میں دوسروں سے بہتر ہیں۔ اور یہ معاملہ امریکی تصورِ اعتدال اور منافقین کے تصورات کے خلاف ہے، وإلی اللہ المشتکیٰ وعلیہ التکلان واللہ المستعان!

(۸)…… کیونکہ انہوں نے مصالح و مفاسد کے بت کو
دلائل پر مقدم نہیں ہونے دیا

مصالح و مفاسد کا قاعدہ ایک معتبر اور اجماعی قاعدہ ہے، لیکن آج کے زمانے میں اسے ضرورت سے زیادہ بڑھا چڑھا دیا گیا ہے۔ اور اسے بے جا و بے محل استعمال کرنے کے نتیجے میں شریعت کے بہت سے احکام معطل ہو گئے ہیں۔ اس لیے مصالح و مفاسد پر بحث سے پہلے اصولوں پر اتفاق ضروری ہے۔ اگر مخالف یہ مانتا ہے کہ اللہ کی شریعت کے مقابل انسانی ساختہ وضعی قوانین کفر ہیں، اور یہ کہ کفار کی مسلمانوں پر مدد اور ان کے مقابلےمیں کفار کا ساتھ دینا ایک ایسا عظیم گناہ ہے جو دہلیزِ کفر تک لے جاتا ہے، تو وہ اصول میں ہمارا ہم خیال ہے، اور اس کے ساتھ ہم تطبیقِ احکام اور مصالح و مفاسد کی بات کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر وہ یہ عقیدہ ہی نہیں رکھتا کہ جان بوجھ کر اللہ کی شریعت کے مقابل وضعی قوانین بنانا کفر ہے، اور یہ بھی نہیں مانتا کہ مسلمانوں کے مقابلے میں کفار کی مدد اور ان کا ساتھ دینا ایک ایسا عظیم گناہ ہے جو دہلیزِ کفر تک لے جاتا ہے، تو ہم اس سے کہتے ہیں: ہمارا اختلاف تمہارے ساتھ اصول ہی میں ہے، لہٰذا نہ تطبیقِ احکام میں کوئی بحث ہوگی اور نہ مصالح و مفاسد میں۔

اور جو اصول میں ہمارا موافق ہے، ہم اس سے کہتے ہیں: جو لوگ وضعی قوانین بناتے ہیں اور آج حکومت بھی کر رہے ہیں ، ان کے لیے امن و سکون اور خوشحال زندگی کے ساتھ جینا خود عین مفسدہ ہے ۔ دشمن کے خلاف قتال میں تو اصول یہ ہے کہ کچھ نقصان تم دشمن کو پہنچاؤ اور کچھ نقصان دشمن تم کو پہنچائے ، نہ کہ یہ کہ تمہارا دشمن کفر بھی کرے اور پھر امن و چین کی زندگی بھی بِتائے!

میں نے تنظیم القاعدہ کو دیکھا کہ وہ اللہ کی شریعت کے باغی اور کفار کے حامی حکمرانوں کے خلاف جہاد کرتی ہے اور ان سے برأت کا اعلان کرتی ہے، جبکہ بعض لوگ ان حکمرانوں کی کفر و کفار دوستی اور اللہ کی شریعت سے کھلے متصادم قوانین بنانے کے کفر کو کفر مانتے ہوئے بھی ان کے ساتھ بیزاری اور برأت کا اعلان نہیں کرتے، کیوں؟ کیونکہ یہ لوگ صرف ’مصلحتِ دعوت‘ کا سہارا لیتے ہیں۔ان کے خیال میں ہمیں آج دعوت کے لیے جو سہولتیں حاصل ہیں اگر ہم نے ان حکمرانوں سے بیزاری و برأت کا اعلان کیا تو وہ ’دعوتی سہولیات‘ یا ’مواقع‘ بھی ضائع ہو جائیں گے۔ ایسے لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں حضرت مجدد الفِ ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کا سیاسی و دعوتی و اصلاحی اسوہ اپنانا چاہیے جو انہوں نے وقت کے بادشاہوں کے خلاف اپنایا۔ ہمارے ایسی باتیں کرنے والے حضرات سے عقل کو مخاطب کرتے چندسوالات ہیں:

حضرتِ مجدد کے پاس ایک نہایت عظیم موقع تھا کہ وہ بھی مصالح و مفاسد کے قاعدے کو ملحوظِ نظر رکھتے تو پادشاہِ وقت جہانگیر کا قرب حاصل کر سکتے تھے، پھر اس قرب کو وہ اصلاحِ حاکم کا ذریعہ بناتے اور پھر حکمران کے ذریعے ایک خیرِ کثیر عوام و خواص میں پھیلتی۔ لیکن مجدد الفِ ثانی ایسا کرتے تو آخر کیوں؟ ان کے سامنے تو اسوۂ خلیل علیہ السلام تھا کہ انہوں نے اپنے کلہاڑے سے بتوں کو توڑا اور آگِ نمرود کو ترجیح دی، ورنہ آزر تو نمرود کا مقرب تھا، کیوں خلیل اللہؑ نے اس تقربِ پادشاہ کا فائدہ نہ اٹھایا؟ حضرتِ مجدد نے یوسف علیہ السلام کی اس دعا کو اپنا شعار بنا لیا ’ قَالَ رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَيَّ مِمَّا يَدْعُوْنَنِيْٓ اِلَيْهِ ‘، اے رب جس کی دعوت مجھے دی جاتی ہے تو اس پر میں قید کو ترجیح دیتا ہوں۔ ان کے سامنے تو اسوۂ حسنہ تھا کہ جب رسولِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش نے کہا کہ ہم آپ کو بادشاہ بناتے ہیں تو انہوںؐ نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا اور اس کے بعد شعبِ ابی طالب کی طویل قید کو ترجیح دی۔ حضرتِ مجدد نے بادشاہ کا ساتھ نہ دیا، وہ بادشاہ جس کی گمراہی ذاتی یا ایک خاص حلقے میں محدود تھی اور متعدی نہ تھی یا عوام پر اس کا اثر نہ تھا، کہ مؤرخین نے بیان کیا ہے کہ اس زمانے میں بھی فقہِ حنفی بطورِ قانون ملک میں نافذ و جاری تھی، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

’’حق اور باطل کو پہچاننے کا معیار صرف شریعتِ محمدی (علی صاحبہا ألف صلاۃ وسلام)ہے۔ جو شریعت کے موافق ہے وہی حق ہے، اور جو شریعت کے خلاف ہے وہی باطل ہے، خواہ ساری دنیا اس پر جمع ہوجائے۔‘‘3’’ ميزان در شناخت حق از باطل، شريعتِ محمدی صلی الله علیہ وسلم است۔ هر چه موافقِ شريعت بود، حق است و هر چه مخالفِ شريعت بود، باطل است، اگر چه تمامِ خلق بر آن اجتماع كنند۔‘‘ (مکتوباتِ امام ربانی، دفتر اوّل، مکتوب 193)

سجدۂ تعظیمی کے متعلق فرمایا:

’’ اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا کسی کے لیے سجدہ کرنا شریعتِ محمدیہ(علی صاحبہا ألف صلاۃ وسلام) میں جائز نہیں ہے۔ اگرچہ وہ محض تعظیم کے ارادے سے ہی کیوں نہ ہو، (غیر اللہ کو سجدہ)اس ملت میں حرام اور ممنوع ہے۔‘‘4’’سجده كردن جز در حضرت حق سبحانه و تعالی، نزد شريعت مطهره محمديه جايز نيست۔اگر چه به قصد تعظيم باشد، در اين ملت حرام و ممنوع است۔‘‘ (مکتوباتِ امام ربانی، دفتر اوّل، مکتوب 67)

مغل بادشاہ جہانگیر لکھتا ہے:

’’ شیخ احمد سرہندی نے میری بیعت اور دربار کے آداب بجا لانے سے انکار کیا اور سجدہ کرنے پر آمادہ نہ ہوئے، اس گستاخی پر میں نے انہیں قید کا حکم دیا۔‘‘ (تُزکِ جہانگیری، ج ۲)

پس آج ہمارے کچھ حضرات میں مصالح و مفاسد کا ایسا’ علم و عرفان‘ پیدا ہو گیا ہے جو اس امت کے نہ سلف میں تھا نہ خلف میں! ہم آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا آج امریکہ و اسرائیل سے بڑا بھی کوئی اسلام کا دشمن موجود ہے؟ تو اس دشمنِ اعظم کا کہیں اتحادی ہونا اور کہیں غلام ہونا، کیا یہی عین اسلام ہے؟ أفضل الخلائق بعد الأنبیاء، حضرتِ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جن کو عرش سے بدستِ جبریلِ امین علیہ السلام سلام پہنچایا جاتا تھا، ان کا فہم تو یہ ہے کہ فرمایا کہ جو اونٹ کی نکیل برابر بھی پہلے زکاۃ ادا کرتا تھا اور اب نہیں کرتا تو میں ان سے لڑوں گا لیکن، ہائے ہائے…… ردۃٌ ولا أبا بکرٍ لھا …… فتنۂ ارتداد ہے لیکن اس سے مقابلے کرنے والا کوئی ابو بکر موجود نہیں!

مجاہدین پر ایک اور اعتراض

بعض کوتاہ نظر لوگ مجاہدین پر اس لیے سخت اعتراض کرتے ہیں کہ مجاہدین جس عمل میں شریک ہیں وہ عملِ قتال ہے اور قتال میں اپنا اور دشمن دونوں کا خون بہایا جاتا ہے ۔ بے شک خون بہانا، قتل و قتال ایک بہت عظیم معاملہ ہے، لیکن یہ حضرات بھول جاتے ہیں کہ کفر و شرک کا نظام قائم ہے اور فتنۂ کفر و شرک کی نسبت خون بہانا ایک ہلکا فعل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَالْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ (سورۃ البقرۃ۱۹۱)

’’ فتنہ قتل سے زیادہ سنگین برائی ہے۔‘‘

اور فرمایا:

وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ (سورة الانفال: 39)

’’ اور (مسلمانوان کافروں سے لڑتے رہو، یہاں تک کہ (کفر و شرک کا)فتنہ باقی نہ رہے، اور دین پورے کا پورا اللہ کا ہوجائے ۔‘‘

اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ مرض کی حقیقت کو ہی نہیں سمجھے۔ شریعت کے زمین پر نافذ نہ ہونے کا مسئلہ اس سے کہیں بڑا ہے کہ زمین پر خون بہایا جائے۔ جیسا کہ شیخ سلیمان بن سحمان رحمہ اللہ نے کہا:

’’اگر اہلِ شہر و دیہات آپس میں لڑ کر ایک دوسرے کو فنا کر ڈالیں تو یہ اس سے ہلکا ہے کہ وہ ایک طاغوت کی حکمرانی کو قائم کر دیں جو اللہ کے نازل کردہ قانون کے بغیر فیصلہ کرے۔‘‘

شہید ِ اسلام سیّد قطب رحمہ اللہ نے کہا:

’’اور بسا اوقات ’دعوت کی مصلحت‘ ایک ایسا بت بن جاتی ہے جس کی عبادت اہلِ دعوت کرنے لگتے ہیں، اور اسی میں مشغول ہو کر وہ دعوت کے اصل منہج کو بھول جاتے ہیں۔ اہلِ دعوت پر لازم ہے کہ وہ اسی منہج پر سیدھے کھڑے رہیں اور اس کی پیروی کریں، بغیر اس پر نظر ڈالے کہ اس التزام کے نتائج کیا ہوں گے، خواہ ان نتائج میں انہیں اپنی دعوت اور اپنے آپ پر کسی خطرے کا گمان ہی کیوں نہ ہو۔ وہ خطرہ جس سے اہلِ دعوت کو لازماً ڈرنا چاہیے، بس ایک ہی ہے: کہ وہ کسی بھی سبب سے اس منہج سے ذرا بھی ہٹ جائیں۔ چاہے یہ انحراف تھوڑا ہو یا زیادہ۔ اللہ تعالیٰ ان مصلحتوں کو ان سے زیادہ جانتا ہے، اور (اس کے بندے مکلف نہیں ہیں کہ وہ انحراف کی راہ اختیار کر کے مصلحتوں کو ترجیح دیں)5فی ظلال کے ترجمے کی عبارت میں جملہ مجہول تھا، اس لیے راقم نے صاحبِ تفسیر ہی کی بات میں وضاحت کی خاطر بین القوسین اضافہ کیا ہے۔ ان پر تو صرف ایک چیز فرض ہے: کہ وہ منہج سے انحراف نہ کریں اور اس سیدھی راہ سے نہ ہٹیں۔‘‘ (فی ظلال القرآن)

چنانچہ مصالح و مفاسد کے نام پر حرام امور کیے گئے۔ جہاد کے ترک کی دعوت دی گئی، جمہوری عمل میں شمولیت اختیار کی گئی۔ مصالح و مفاسد کے نام پر مجاہدین کو مطعون کیا گیا۔ مصالح و مفاسد کے نام پر شرعی دلائل کی ہیبت ختم کی گئی۔ مصالح و مفاسد کے نام پر عقل کو نقل (یعنی وحی)پر مقدم کیا گیا۔ بدعتیں پھیلیں اور مسلمان بے سہارا رہ گئے۔ ضروری ہے کہ معتبر شرعی مصالح و مفاسد اور ذاتی و شخصی مفاسد و مصالح میں فرق رکھا جائےوہ ذاتی و شخصی مفاسد و مصالح جن کی قربانی دین کی ضرورت کے لیے دینا واجب ہے۔

پس ابلیس کے دھوکے سے خبردار رہیے! مصالح و مفاسد کے نام پر بعض اسلامی جماعتیں امریکی سفارت خانوں کے چکر لگاتی رہیں، انہی مصالح و مفاسد کے نام پر دوسرے مذاہب کے ساتھ کانفرنسیں ہوئیں تاکہ مسئلۂ ولاء و براء کو مدھم کیا جائے۔ اسی مصلحت و مفسدے کی بنیاد پر جزیرۃ العرب میں امریکی فوجوں کو داخل ہونے اور مکہ مکرمہ سے چند کلومیٹر دور فوجی اڈے بنانے کی اجازت دےد ی گئی۔ انہی کے نام پر ہماری ماں حضرتِ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گستاخوں رافضیوں کے ساتھ کانفرنسیں ہوئیں، وہی رافضی جنہیں آج کہا جا رہا ہے کہ وہ ہمارے عقیدے میں بھائی ہیں، حالانکہ کل انہیں کافر کہا جاتا تھا،لاحول ولا قوۃ إلا باللہ۔

البتہ القاعدہ ، وہ القاعدہ جو اللہ کی شریعت پر ڈٹنے والے اہلِ حق میں سے ایک جماعت ہے ، اس باب میں اس کا منہج بالکل واضح اور روشن ہے،واللہ المستعان۔

اللھم اجعلنا هادين مهتدين، غير ضالّين ولا مضلّين، سلماً لأوليائك، وحرباً علی أعدائك، نحب من أحبك، ونعادي بعداوتك من خالفك. اللهم هذا الدعاء ومنك الإجابة، اللهم هذا الجهد وعليك التكلان، ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم، آمين!

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭

Exit mobile version