یومِ حشرکے چند ضوابط
یوم حشر کے چند اصول یا ضابطے ہیں:
- عدل
- انفرادی احتساب
- اعمال کی پیشی
- نیکیوں کی افزائش
- گواہیوں کا پیش کیا جانا
ان میں سے سب سے پہلا اصول عدل ہے۔
العدل
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ایک پیارا نام العدل بھی ہے اور یوم حشر عدل ہی کا دن ہے۔اس روز اللہ رب العزت کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں فرمائیں گے اور نہ ہی کسی کا حق ماریں گے بلکہ ہر ایک کو وہ سب کچھ عطا کریں گے جو اس کا حق ہوگا اور جس کا وہ سزاوار ہوگا۔ پس یوم حشر، عدالت کا دن ہوگا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَاتَّقُوْا يَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِيْهِ اِلَى اللّٰهِ ۼ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ ﴾ (سورۃ البقرۃ: ۲۸۱)
’’ اور اس دن سے ڈرتے رہو جس میں تم (سب) اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ پھر ہر شخص کو اس کا معاوضہ پورا پورا ملے گا، اور ان پر ظلم (ذرا بھی) نہ ہوگا۔‘‘
اللہ رب العزت ہر ایک کو اس کی کمائی کے بقدر عطا فرمائیں گے، کسی کے ساتھ ناانصافی نہ فرمائیں گے۔عدل کا یہ معیار بہت نزاکت کا حامل ہے۔اللہ رب العزت ہر کسی کو اس کا حق عطا فرمائیں گے خواہ وہ ایک ذرے کے برابر ہی کیوں نہ ہو۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ﴾ (سورۃ النساء: ۴۰)
’’ اللہ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا ۔‘‘
لقمان حکیم اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
﴿يٰبُنَيَّ اِنَّهَآ اِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِيْ صَخْـرَةٍ اَوْ فِي السَّمٰوٰتِ اَوْ فِي الْاَرْضِ يَاْتِ بِهَا اللّٰهُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَطِيْفٌ خَبِيْرٌ ﴾(سورۃ لقمان: ۱۶)
’’ بیٹا!اگر کوئی (عمل) رائی کے دانے کے برابر بھی ہو، پھر وہ کسی پتھر میں ہو یا آسمانوں یا زمین میں بھی ہو تو اس کو بھی اللہ لاحاضر کرے گا (قیامت کے دن)‘ بےشک اللہ باریک بین، خبردار ہے ۔‘‘
اگر ایک دانے یا ایک ذرے کے بقدر بھی کسی کا کوئی حق کسی پتھر کے اندر بھی چھپا ہوگا تو قیامت کے دن اللہ پاک اسے اس کا حق عطا فرمائیں گے، کچھ بھی ضائع نہیں ہوگا۔ ہر وہ چیز جس پر کسی کا حق ہوگا وہ اسے مل کر رہے گی۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗ ﴾ (سورۃ الزلزال: ۷)
’’ پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا ۔‘‘
اللہ دیکھ رہا ہے!
ہمیں ہر وقت اس بات کا استحضار رکھنا چاہیے۔ حضرت لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو پہلی نصیحت کیا کی تھی؟ ﴿لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ﴾، اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ یہ وہ پہلی نصیحت تھی جو انہوں نے اپنے بیٹے کو کی۔ اور دوسری نصیحت یہ کی کہ ﴿وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ﴾، والدین کے ساتھ حسن سلوک اور اس کے معاً بعد ، نماز سے متعلق بات کرنے سے بھی پہلے لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو وہ نصیحت کی جو ہم نے ابھی پڑھی کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہر وہ چیز جس کے تم حق دار ہو، تمہیں عطا فرما کر رہیں گے۔ کیونکہ وہ اپنے بیٹے میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا مراقبہ بیدار کرنا چاہتے تھے لہٰذا انہوں نے یہ حقیقت کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہر وقت تمہیں دیکھ رہے ہیں اپنے بیٹے کو ذہن نشین کروائی۔ اس حقیقت کو اپنے اور اپنی اولاد کے دلوں میں بچپن سے راسخ کرنے کی کوشش کرنا بہت اہم ہے کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے، اور تم جہاں بھی جاؤ گے اللہ رب العزت کی نگاہ میں ہوگے۔ بحیثیت والدین بعض اوقات ہم اپنے بچوں کو سیدھے راستے پر گامزن رکھنے کے لیے ان کی نگرانی میں حد سے گزر جاتے ہیں، پل پل کی خبر رکھنا کہ وہ کیا کررہے ہیں، کہاں جارہے ہیں، کس سے مل رہے ہیں، ان کی دوستیاں کن لوگوں سے ہیں، مگر یہ نگرانی بس اسی حد تک ہی رہ سکتی ہے کیونکہ آپ ان کی نگرانی کی جس قدر بھی کوشش کرلیں، بہرحال بہت سی باتیں ایسی رہ جائیں گی جو آپ کبھی جان نہیں پائیں گے۔ بحیثیت انسان ہمارے دیکھنے، سننے اور ہمارے علم کی ایک حد ہے۔ ان کی نگرانی کی بہترین صورت یہ ہے کہ انہیں یہ یقین ہو کہ اللہ رب العزت انہیں دیکھ رہے ہیں وہ جہاں کہیں بھی ہیں۔ اگر آپ کے بچے کو یہ یقین ہوگا تو آپ کی غیر موجودگی میں بھی وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے ڈرے گا۔ والدین کا خوف بچے کی حفاظت کی ضمانت نہیں دے سکتا کیونکہ وہ ہمارا لحاظ ہمارے سامنے کریں گے، لیکن جب وہ ہم سے دور، گھر سے باہر ہوں گے تو وہ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل کے مصداق کیونکر ہم سے ڈریں گے اور ہمارا لحاظ رکھیں گے؟ لیکن اگر ہم ان کے دلوں میں یہ ادراک پیدا کرسکیں کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے، ہم نہیں، اور تم اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہوگے، ہمارے سامنے نہیں، تو یہ احساس ہمارے خوف سے کہیں زیادہ قوی ہے کیونکہ پھر وہ جانتے ہوں گے کہ اللہ انہیں ہر جگہ دیکھ رہا ہے اور ان کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے۔
احسان
اور یہی وجہ ہے کہ حضرت لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو ایک اور نصیحت بھی کی جس کا ذکر قرآن کریم میں موجود نہیں ہے مگر یہ روایات میں موجود ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اے میرے بیٹے! اگر تم گناہ کرنا چاہتے ہو تو کرو، (انہوں نے اپنے بیٹے کو گناہ کی مشروط اجازت دے دی)، مگر ایسی جگہ گناہ کرو جہاں اللہ تمہیں نہ دیکھ رہا ہو۔چناچہ مراقبۃُ اللہِ عز وجل ، یعنی یہ استحضار کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے بہت ہی کارگر ہتھیار ہے ہر مسلمان کے لیے اوراسی کو احسان کہا گیا ہے، یعنی تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، گرتم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تو تمہیں دیکھ ہی رہا ہے، یہ احسان ہے۔
انفرادی احتساب
یوم حساب کا اگلا اصول انفرادی جوابدہی یا فرداً فرداً حساب دینے کا ہے۔ انسان کے اوپر صرف اس کے اپنے عمل کی ذمہ داری ہے، کسی اور کے عمل کا ذمہ دار وہ نہیں ٹھہرایا جائے گا۔ آپ صرف اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہوں گے اور انہی کے بارے میں اللہ رب العزت قیامت کے دن سوال فرمائیں گے۔
اس کے برعکس عیسائیت میں جوابدہی کا جو عقیدہ ہے اس میں وہ کہتے ہیں کہ ایک ابتدائی گناہ ہے جس کا ارتکاب کسی اور نے کیا، اور وہ اس کا مرتکب حضرت آدم علیہ السلام کو ٹھہراتے ہیں،اور عیسائیت کے مطابق ہم آدم علیہ السلام کے اس عمل کے لیے جوابدہ ہیں جو کروڑوں سال پہلے ان سے سرزد ہوا تھا ۔ یعنی ایک ایسے عمل کی ذمہ داری ہمارے اوپر ہے جو سرے سے ہم نے کیا ہی نہیں بلکہ آدم علیہ السلام نے کیا تھا۔اور پھر اس گناہ کا تاوان کس نے ادا کیا؟ وہ گناہ جس کی ذمہ داری ہمارے اوپر ہے، اس کا تاوان ہم نہیں بھریں گے بلکہ اس کا تاوان ان کے عقیدے کے مطابق (نعوذ باللہ) اللہ کے بیٹے، جو معصوم ہیں، نے بھرا۔ جن پر گناہ کی ذمہ داری ڈالی جارہی ہے انہوں نے سرے سے وہ گناہ کیا ہی نہیں اور اس گناہ کی سزا اس نے بھگتی جو معصوم ہے۔ اس معاملے کو کسی بھی عدالت میں لے جائیں اور پھر دیکھیں کیا فیصلہ ہوتا ہے۔ایک ایسے عمل کا ذمہ دار ٹھہرایا جانا کہ جو کسی نے کیا ہی نہ ہو اور ایسے شخص کو اس کی سزا ملنا جو معصوم ہو، ناقابل فہم ہے۔ اسلام کی رو سے ایک انسان صرف اسی عمل کا جواب دہ ہے جو اس نے کیا ہو۔ اللہ کے معصوم بیٹے (نعوذ باللہ) کا انسانوں کے کیے اعمال کا تاوان بھرنا اللہ کی صفت عدل کے بالکل خلاف ہے۔اللہ رب العزت العدل ہے، وہ کسی بھی ایسے شخص کو ایسے عمل کا ذمہ دار نہیں ٹھہراتا جو اس نے کیا ہی نہ ہو۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿مَنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا يَهْــتَدِيْ لِنَفْسِهٖ ۚ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۭ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى ۭ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا﴾ (سورۃ بنی اسرائیل: ۱۵)
’’ جس کسی نے ہدایت کی راہ اختیار کی تو اس نے اپنے ہی (بھلے کے) لیے ہدایت کی راہ اختیار کی اور جو کوئی گمراہ ہوا تو اس کی گمراہی کا وبال اسی پر ہے اور کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ اٹھانے والی نہیں بنے گی اور ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ کسی رسول کو نہ بھیج دیں۔‘‘
کوئی اسلام قبول کرکے اسلام پر احسان نہیں کرتا بلکہ جو کوئی بھی ہدایت کی پیروی کرتا ہے تو وہ اپنے فائدے کے لیے کرتا ہے۔ مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے والے مسجد پر تو کوئی احسان نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے آپ کو ہی نفع پہنچاتے ہیں۔ کوئی بھی اللہ رب العزت کی فرمانبرداری کرکے اللہ رب العزت پر احسان نہیں کرتا، بلکہ وہ خود ہی اس کے ثمرات سمیٹتا ہے۔ جو ہدایت کی پیروی کرتا ہے وہ اپنے فائدے کے لیے کرتا ہے اور اسی طرح جو گمراہ ہوتا ہے وہ خود ہی اس گمراہی کا نقصان اٹھاتا ہے۔ ہر ایک اپنا بوجھ خود ہی اٹھائے گا، نہ اس کا بوجھ کوئی اور اٹھائے گا اور نہ ہی وہ کسی اور کا بوجھ اٹھائے گا۔ اور یہ تعلیمات صرف نبیٔ خاتم محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی نہیں ہیں بلکہ ان سے پہلے جتنے بھی نبی آئے، بشمول عیسی علیہ السلام ، سب کے سب نے اسی اصول کی تعلیم دی اور یہی تعلیم موسیٰ، ابراہیم، نوح اور آدم علیہم السلام نے بھی دی۔ انسان اپنی خطاؤں کی سزا بھگتے گا اور اپنے ہی اچھے اعمال کی جزا پائے گا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿اَمْ لَمْ يُنَبَّاْ بِمَا فِيْ صُحُفِ مُوْسٰى وَاِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّيٰٓ اَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى وَاَنَّ سَعْيَهٗ سَوْفَ يُرٰى ثُمَّ يُجْزٰىهُ الْجَزَاۗءَ الْاَوْفٰى وَاَنَّ اِلٰى رَبِّكَ الْمُنْتَهٰى﴾ (سورۃ النجم:۳۶ تا ۴۲ )
’’ کیا اسے خبر نہیں پہنچی اس بارے میں جو کچھ موسیٰؑ کے صحیفوں میں تھا؟ اور ابراہیمؑ، جس نے وفا کی انتہا کردی، (کےصحیفوں میں تھا) کہ نہیں اٹھائے گی کوئی جان کسی دوسری جان کے بوجھ کو۔ اور یہ کہ انسان کے لیے نہیں ہے مگر وہی کچھ جس کی اس نے سعی کی ہوگی۔ اور یہ کہ اس کی سعی عن قریب اسے دکھا دی جائے گی۔ پھر اس کو بدلہ دیا جائے گا پورا پورا بدلہ۔ اور یہ کہ بالآخر پہنچنا تمہارے رب ہی کی طرف ہے۔‘‘
یہ ہے انفرادی احتساب، فرد فرد کا علیحدہ محاسبہ ۔ انسان کے اوپر کسی دوسرے کے عمل کی ذمہ داری نہیں اور اسے وہی ملے گا جس کی اس نے کوشش و سعی کی اور اسے اس کی مکمل جزا عطا کی جائے گی۔
اختلاف
لیکن جب ہم قرآن کی بعض دیگر آیات پڑھتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے گویا مذکورہ آیات اور دیگر آیات میں اختلاف ہے۔مثلاً اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
﴿وَلَيَحْمِلُنَّ اَثْــقَالَهُمْ وَاَثْــقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ …﴾ (سورۃ العنکبوت: ۱۳)
’’ البتہ وہ لازماً اٹھائیں گے اپنے بوجھ بھی اور ان کے ساتھ کچھ دوسرے بوجھ بھی …‘‘۔
اس آیت میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ وہ اپنے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور اس کے علاوہ اضافی بوجھ بھی اٹھائیں گے۔ ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ قیامت کے دن انفرادی محاسبہ ہوگا جبکہ اس آیت میں مذکور ہے کہ وہ اپنے گناہوں کے ساتھ ساتھ دوسروں کے گناہوں کا بوجھ بھی اٹھائیں گے؟ ہمیں عین اسی آیت میں اپنے سوال کے جواب کی جانب اشارہ بھی ملتا ہے۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَلَيُسْـَٔــلُنَّ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ عَمَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ﴾ (سورۃ العنکبوت: ۱۳)
’’ اور ان سے لازماً باز پرس ہوگی قیامت کے دن اس کے بارے میں جو جھوٹ یہ گھڑ رہے ہیں ۔‘‘
انہوں نے جھوٹ گھڑے اور لوگوں نے ان کے گھڑے ہوئے جھوٹ کی پیروی کی۔لہذا جس جس نے ان کے کذب کی پیروی کی ان سب کے عمل کا بوجھ اس افترا پرداز کو اٹھانا پڑے گا۔ پس یہ درست ہے کہ انسان صرف اپنے گناہوں کے لیے جوابدہ ہے مگر یہ بھی درست ہے کہ انسان ان گناہو ں کے لیے بھی جوابدہ ہے جن کی وجہ وہ خود بنا ہے۔اگرانسان کسی اور کے گناہ کی وجہ بنا ہے تو پھر اس کو اس کی ذمہ داری بھی اٹھانی پڑے گی۔لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ گناہ کرنے والوں پر اپنے گناہ کا بوجھ باقی نہیں رہے گا، بلکہ وہ بھی اپنے گناہوں کا وبال بھگتیں گے۔پس گناہ کرنے والا بھی اپنے گناہ کا بوجھ اٹھائے گا اور اس گناہ کی وجہ بننے والا بھی اس گناہ کا بوجھ اٹھائے گا۔مثلاً اگر آپ نے پانچ برائیاں ایجاد کی ہیں تو جو لوگ ان برائیوں میں مبتلا ہوں گے وہ بھی ان پانچ برائیوں کی سزا بھگتیں گے اور آ پ بھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ أَجْرُهَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئٌ وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً کَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْئٌ‘‘ (صحیح مسلم)
’’ جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ رائج کیا تو اس کے لیے اس کا (اپنا بھی) اجر ہے اور ان کے جیسا اجر بھی جنہوں نے اس کے بعد اس (طریقے ) پر عمل کیا، اس کے بغیر کہ ان کے اجر میں کوئی کمی ہو، اور جس نے اسلام میں کسی برے طریقے کی ابتدا کی، اس کا بوجھ اسی پر ہے اور ان کا بوجھ بھی جنہوں نے اس کے بعد اس پر عمل کیا، اس کے بغیر کہ ان کے بوجھ میں کوئی کمی ہو۔‘‘
اسی وجہ سے علما نے فرمایا کہ انسان کا علانیہ گناہ کرنا، پوشیدہ گناہ کرنے سے کہیں زیادہ برا ہے۔ اگر انسان کوئی گناہ کرے یا کوئی بدعت ایجاد کرے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دے تو یہ کہیں زیادہ برا اور شدید ہے اس سے کہ وہ تنہائی میں گناہ کرے یا کسی بدعت میں مبتلا ہو اور کسی کو اس کی خبر نہ ہونے دے۔
حدیث میں آتا ہے جو کہ ایک آیت کی تفسیر بھی ہے کہ قیامت تک جو قتل بھی زمین پر ہوگا اس کا گناہ پہلا قتل کرنے والے ابن آدم کو بھی ہوگا۔معروف واقعہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں قابیل اور ہابیل کے مابین تنازع ہوا اور اس کے نتیجے میں قابیل نے ہابیل کو قتل کردیا۔ چونکہ قابیل قتل کے عمل کا موجد ہے لہٰذا قیامت کے دن تک زمین پر جو بھی قتل ہوگا اس کے گناہ میں قابیل بھی حصہ دار ہوگا۔
-
اعمال کی پیشی
یہ تیسرا اصول ہے۔انسان کے تمام کے تمام اعمال اس کے سامنے پیش کردیے جائیں گے۔ جو جو کچھ انسان نے کیا ہوگا وہ اسے اپنے اعمال نامے میں پالے گا۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ﴾ (سورۃ المائدۃ: ۱۰۵)
’’ اللہ ہی کی طرف تم سب کو لوٹ کر جانا ہے، اس وقت وہ تمہیں بتائے گا کہ تم کیا عمل کرتے رہے ہو۔‘‘
ہماری آخری منزل اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے سامنے پیش ہونا ہے اور وہاں ہمارے اعمال ایک کتاب کی شکل میں ہمارے سامنے پیش کردیے جائیں گے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿ وَكُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰۗىِٕرَهٗ فِيْ عُنُقِهٖ ۭ وَنُخْرِجُ لَهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ كِتٰبًا يَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا اِقْرَاْ كِتٰبَكَ ۭ كَفٰى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيْبًا﴾ (سورۃ بنی اسرائیل: ۱۳، ۱۴)
’’ اور ہر شخص (کے عمل) کا انجام ہم نے اس کے اپنے گلے سے چمٹا دیا ہے۔ اور قیامت کے دن ہم (اس کا) اعمال نامہ ایک تحریر کی شکل میں نکال کر اس کے سامنے کردیں گے جسے وہ کھلا ہوا دیکھے گا۔ (کہا جائے گا کہ) لوپڑھ لو اپنا اعمال نامہ ! آج تم خود اپنا حساب لینے کے لیے کافی ہو۔‘‘
ہر عمل جو انسان نے کیا ہوگا وہ اس اعمال نامے میں درج ہوگا۔ یہ کتاب جامع ہوگی اور انسان کا ذرا ذرا سا عمل بھی بالتفصیل اس میں درج ہوگا۔ شاید قیامت کے دن کے پچاس ہزار برس طویل ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ ایک ایک فرد اپنے ایک ایک عمل اور اس کی جزئیات کے لیے جوابدہ ہوگا۔ کوئی اگر ساٹھ برس جیا تو ان ساٹھ برسوں میں بِتائے لمحے لمحے کی تفصیل بارے اللہ رب العزت سوال فرمائیں گے۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
﴿ وَوُضِـعَ الْكِتٰبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِيْنَ مُشْفِقِيْنَ مِمَّا فِيْهِ وَيَقُوْلُوْنَ يٰوَيْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا يُغَادِرُ صَغِيْرَةً وَّلَا كَبِيْرَةً اِلَّآ اَحْصٰىهَا ۚ وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا ۭ وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا ﴾ (سورۃ الکہف: ۴۹)
’’ اور (اعمال کی) کتاب سامنے رکھ دی جائے گی۔ چنانچہ تم مجرموں کو دیکھو گے کہ وہ اس کے مندرجات سے خوف زدہ ہیں، اور کہہ رہے ہیں کہ ہائے ہماری بربادی ! یہ کیسی کتاب ہے جس نے ہمارا کوئی چھوٹا بڑا عمل ایسا نہیں چھوڑا جس کا پورا احاطہ نہ کرلیا ہو۔ اور وہ اپنا سارا کیا دھرا اپنے سامنے موجود پائیں گے۔ اور تمہارا پروردگار کسی پر کوئی ظلم نہیں کرے گا۔‘‘
ہر چیز خواہ چھوٹی ہو یا بڑی اس کتاب میں لکھی ہوگی اور انسان کے سامنے پیش کردی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اس روز گناہ گار جب اس عظیم کتاب کو دیکھیں گے جس میں ان کے ایک ایک گناہ کی تفصیل درج ہوگی تو نہایت مضطرب ہوں گے ۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭