اصلاحِ معاشرہ | نویں قسط

سورۃ الحجرات کی روشنی میں

يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ؀ (سورۃ الحجرات۱۳)

’’اے لوگوہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا، اور تمہارے خاندان اور برادریاں بنادیں تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو، بلاشبہ تم میں سے بڑا عزت دار وہ ہے جو تم میں سب سے بڑا پرہیزگار ہو، بے شک اللہ خوب جانتا، خوب خبر رکھتا ہے۔‘‘

وحدتِ آدمیت

اونچ نیچ کی بنیادیں

انسان میں آج جتنا بھید بھاؤ ہے، شاید ہی کبھی دنیا نے اپنے اوپر بسنے والوں میں اس کا مشاہدہ کیا ہو، کہیں رنگ ونسل کا فرق ہے، کہیں علاقائی زبان کی بنیادوں پر ایک دوسرے کا خون کیا جارہا ہے، مال دار غریبوں کا خون چوسنے میں مصروف ہیں، انسانی مساوات و ہمدردی کی چولیں ہل چکی ہیں، سگے رشتوں میں اجنبیت کی پرچھائیاں دکھائی دیتی ہیں، ایک افراتفری بلکہ نفسانفسی کا عالم ہے، یہ نتیجہ ہے دنیا کے ان خودساختہ نظاموں کا جن کے تجربے سے آج یہ دنیا گزر رہی ہے۔

یورپین قوموں کا اگر جائزہ لیا جائے تو سفید چمڑی کے پیچھے کالے کرتوتوں کا ایک سلسلہ ہے، خاندانی بنیادوں پر ان کے یہاں جو تفریق ہے، پڑھے لکھے لوگوں میں شاید ہی اس کی مثال ملے، کالے گورے کا امتیاز ان کی گھٹی میں پڑاہے، کالوں کا درجہ ان کے یہاں جانوروں سے زیادہ نہیں تھا، اور اب بھی اس کی خُوبُو ان کے مزاج میں بسی ہوئی ہے، لسانی تعصب کا حال یہ ہے کہ فرانس کے باشندہ کو جرمن زبان سے بیر ہے، تو جرمن کا رہنے والا جاننے کے باوجود فرانسیسی زبان بولنے کا روادار نہیں، انگریزی زبان جس کو مشرقی ملکوں کے سرتھوپ دیا گیا ہے، آج بھی بہت سے مغربی ممالک اس کا استعمال باعثِ عار سمجھتے ہیں، قبائلی عصبیت کی بنیادیں ان کے یہاں بہت گہری ہیں، البتہ موجودہ مغربی نظام نے آزادی کے پردہ میں بے حیائی کو اس قدر فروغ دے دیا ہے کہ باپ بیٹے کے مقدس رشتے میں گہری دراڑیں پڑ گئی ہیں۔

ہمارا ملک ہندوستان تو چھوت اچھوت کا مرکز ہی ہے، یہاں انسان کو خاندانی بنیادوں پر جس طرح اونچ نیچ کا شکار بنایا گیا ہے، اس کی مثال دوسری جگہ ملنی مشکل ہے، یہ ہندوؤں کا مستقل ایک ’’مذہبی فلسفہ‘‘ ہے، جس کی انتہاء یہ ہے کہ اگر شودر کے کان میں ان کی مقدس کتاب کے اشلوک پڑجائیں تو اس کے کانوں میں سیسہ پلا دینے کا مذہبی حکم ہے، خاندانی بنیادوں پر مذہبی مقامات کی تقسیم ہے، نچلی ذات کا آدمی اعلیٰ ذات کے مذہبی مقام پر نہیں جاسکتا، نہ ان کے ساتھ مذہبی رسوم میں شریک ہوسکتا ہے، ان کا تصور یہ ہے کہ اس ذات کے آدمی کو اعلیٰ ذات والوں کی خدمت کے لیے پیدا کیا گیا ہے، اعلیٰ ذات والوں سے برابری کا وہ خیال بھی نہیں لاسکتا۔

لسانی عصبیت کا عالم یہ ہے کہ ہندی جو سرکاری زبان ہے، جنوبی ہندوستان کی ریاستوں میں اس کا ملنا مشکل ہے، وہاں کے رہنے والوں سے اگر ہندی میں کوئی ضرورت مند سوال بھی کرے تو واقفیت کے باوجود وہ انجان بن جائیں گے، اور اب تو صوبائی عصبیت کو بھی فروغ دیا جارہا ہے۔

دنیا کے دوسرے خطوں میں بھی کچھ اس انداز کی عصبیتیں نظر آئیں گی، رنگ ونسل، زبان، قومیت و وطنیت، خدا جانے کتنے بت ہیں جو دنیا کے انسانوں نے اپنے دلوں پر بٹھا رکھے ہیں، کچھ یہی صورت حال آج سے چودہ سو سال پہلے جزیرۃالعرب کی بھی تھی، انسانوں کی تقسیم قبائلی بنیادوں پر تھی، اسی کو تقابل و تفاخر کا معیار سمجھا جاتا تھا، زمانۂ جاہلیت کی عربی شاعری اس سے بھری پڑی ہے، ’’أنصر أخاک ظالما أو مظلوما‘‘1صحیح بخاری، باب أعن أخاک ظالما أو مظلوما، صحیح مسلم، باب نصر الاخ ظالما زمانۂ جاہلیت کا نعرہ تھا کہ اپنے بھائی کی مدد کرنی ہے، وہ حق پر ہو یا حق پر نہ ہو، ظلم کوئی کرتا تھا، پکڑا کوئی جاتا تھا، اسلامی مساوات نے آکر یہ سارے امتیازات مٹا دیئے اور صاف صاف اعلان کردیا:

يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا ۭ

’’اے لوگوہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تم کو برادریوں اور قبیلوں میں اس لیے بانٹا تاکہ تم ایک دوسرے سے تعارف حاصل کرو۔‘‘

یہ سورۂ حجرات کی تیرہویں آیت ہے، جس میں انسان کی اصل بیان کی گئی ہے، اور یہ بات صاف کردی گئی ہے کہ سب کے سب انسان ایک باپ اور ایک ماں کی اولاد ہیں، گویا کہ یہ ایک ایسی انسانی برادری ہے جس سے انسانی اخوت کا رشتہ قائم ہے، ایک بھائی کو دوسرے بھائی پر کسی قسم کا خاندانی امتیاز حاصل نہیں ہوتا، جو کچھ بھی امتیاز ہوتا ہے وہ فضل و کمال کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اسی آیت میں خاندانوں اور قبیلوں کی تقسیم کے بارے میں بھی صاف صاف کہہ دیا گیا کہ اس کی مصلحت صرف یہ ہے کہ اتنی بڑی انسانی آبادی میں ایک دوسرے کو پہچاننا اور معاملہ کرنا آسان ہو، خاندانی بنیادوں پر کسی کو کوئی تفوق وامتیاز حاصل نہیں، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے پہلے جو لشکر تیار فرمایا، حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو اس کا امیر بنایا، جبکہ حضرت عمرؓ جیسے حضرات اس لشکر میں موجود تھے2صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب بعث النبی صلی اﷲ علیہ وسلم أسامۃ، تاکہ اسلامی مزاج کی مکمل شرح و ترجمانی ہوجائے۔ اسی طرح فتح مکہ کے موقع پر جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں داخل ہورہے تھے، تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی سواری پر قریشی بچوں کے بجائے ان بچوں کو بٹھایا جو خاندانی اعتبار سے وہ حیثیت نہیں رکھتے تھے3صحیح بخاری، باب دخول النبی صلی اﷲ علیہ وسلم من أعلی مکۃ، اس کی مصلحت یہی تھی، تاکہ عربوں کے ذہن سے نسلی تفاخر کا بیج نکل جائے، حجۃالوداع کے موقع پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کو خطاب کرکے فرمایا تھا:

إن ﷲ قد أذھب عنکم عبیۃ الجاھلیۃ و فخرھا بالآباء، مؤمن تقی وفاجر شقی، أنتم بنو آدم وآدم من تراب۔4ابوداؤد، کتاب الادب،باب فی التفاخر بالاحساب، ترمذی

’’اللہ تعالیٰ نے جاہلی نخوت اور باپ دادا پر فخر و غرور کو تم سے دور کردیا، اب یا تو پرہیزگار مومن ہے یا بدبخت فاسق وفاجر، تم سب آدم کی اولاد ہو، اور آدم مٹی سے بنے تھے۔‘‘

اولاد آدم کو باربار یہ بتانے کی ضرورت اس لیے پڑ رہی ہے کہ اس نے اسی حقیقت کو فراموش کردیا کہ وہ سب ایک باپ کی اولاد ہیں، ان سب کی اصل ایک ہی ہے، وہ اس بنیاد پر کس طرح اظہار فخر کرسکتے ہیں، جبکہ آدم کو مٹی سے بنایا گیا، بلال حبشیؓ، زید بن حارثہؓ، صہیب رومیؓ، سلمان فارسیؓ، سب اسی وحدت انسانی کی یادگار ہیں، جو انسانیت کے لیے اسلام کا بہت بڑا عطیہ ہے، اسلام نے ان غلاموں اور دورافتادہ کم حیثیت لوگوں کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا، رحمۃ للعالمین صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو کس طرح آغوش محبت میں لیاکہ قریش کے بڑے بڑے سرداروں کے لیے یہ حضرات باعث فخر بن گئے، حضرت عمر فاروقؓ ایک حبشی غلام کو سیدنا بلال کہہ کر کیوں خطاب کر رہے ہیں، یہ صرف اسلام کا تحفہ ہے، اس نے عزت کے پیمانے بدل دیے، جو کمزور سمجھے جاتے تھے وہ سردار قرار پائے، جو عزت و ناموری میں ممتاز تھے، ان میں کتنوں کے نام و نشان مٹ گئے۔

جاہلیت نئے قالب میں

اس نبی امی صلی اﷲ علیہ وسلم کے ماننے والوں میں آج دوبارہ وہ جاہلیت لوٹ کر آرہی ہے، جو اہل دین سمجھے جاتے ہیں ان کے یہاں یہ بات پیدا ہورہی ہے، مسجدوں اور مدرسوں کے نام برادریوں کے نام پر رکھے جانے لگے ہیں، یقینا یہ اسی نخوت جاہلیت کا ایک بیج ہے، جو دماغوں میں پڑگیا ہے، اس کو کھرچ کر پھینک دینے کی ضرورت ہے، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر ارشاد فرمایا تھا:

من تعزی بعزاء الجاھیلۃ فأعضوہ بھن أبیہ و لا تکنوا5شرح السنۃ،کتاب الاستئذان، باب التعزی بعزاء الجاہلیۃ، مسند احمد

’’جوجاہلیت کا نعرہ لگائے، اس کو اس کے باپ کی کھلی گالی دو اور اشارہ کنایہ سے کام نہ لو۔‘‘

یہ الفاظ اس زبان مبارک سے ادا ہوئے ہیں جو سراپا رحمت تھی، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اعمال جاہلیت کو مٹانے کے لیے تشریف لائے تھے، جاہلی نخوت کو کیسے برداشت فرماتے، ایک حدیث میں ارشاد ہوتا ہے:

لیس منا من دعا إلی عصبیۃ۔6ابوداؤد، کتاب الادب،باب فی العصبیۃ

’’جو عصبیت کی دعوت دے، اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘

نشان امتیاز

اسلام نے تفاخر وتفاضل کے سارے حدود ختم کردیئے، صرف ایک حد باقی رکھی جو وجہ امتیاز ہے، اور نشان فخر ہے، اور وہ ہے تقویٰ اور پرہیزگاری کی حد۔

آیت شریفہ میں ایک بات اور خاص طور پر توجہ کرنے کی ہے، سورۂ شریفہ کی ابتداء سے باربار اہل ایمان کو خطاب ہورہا تھا، لیکن یہاں عمومی خطاب ہے، تمام انسانوں کے لیے، اس میں عالمی انسانی برادری کی طرف اشارہ ہے، تمام انسان خواہ کسی مذہب کے ماننے والے ہوں، کالے ہوں، گورے ہوں، امیر ہوں، غریب ہوں، محلات کے رہنے والے ہوں یا کاخ فقیری ان کا نشان امتیاز ہو، سب ایک باپ کی اولاد ہیں، اس حیثیت سے کسی کو کسی پر کوئی امتیاز حاصل نہیں، ارشاد نبویؐ ہے:

فلیس لعربي علی عجمي فضل ولا لعجمي علی عربي فضل ولا لأسود علی أبیض ولا لأبیض علی أسود فضل إلا بالتقوی۔7معجم کبیر للطبرانی، باب العین/۱۶، بیہقی، شعب الایمان، فصل ومما یجب حفظ اللسان، شعب الایمان میں ابیض کی جگہ احمر کا لفظ مذکور ہے۔

’’کسی عربی کو عجمی پر، عجمی کو عربی پر، گورے کو کالے پر، کالے کو گورے پر کوئی امتیاز وفضیلت نہیں، سوائے تقویٰ کے امتیاز کے۔‘‘

اس میں خاص طور پر دعوت عمل ہے کہ کوئی محض خاندانی امتیاز کی بناء پر مطمئن ہوکر بیٹھ نہ رہے، اصل وجہ امتیاز خصائص و کمالات اور صفات ہیں، جن کے لیے مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے، یہی خصائص و کمالات انسان کو دوسروں پر ممتاز کرتے ہیں۔

قبیلوں کی تقسیم کا مقصد

خاندانوں اور قبیلوں میں انسانوں کی تقسیم کا مقصد ایک دوسرے سے تعارف ہے، ایک خاندان آپس میں متعارف ہوتا ہے پھر اس کے دوسرے خاندانوں سے رشتے قائم ہوتے ہیں، ایک دوسرے سے ضروریات وابستہ ہوتی ہیں، اور خاندانوں میں یہ چیز مزید ربط و ارتباط کا ذریعہ بنتی ہے، لیکن لوگوں نے بجائے اس کے کہ اس کو تعارف و محبت کا ذریعہ بناتے، تفرقہ، انتشار اور بھیدبھاؤ کا ذریعہ سمجھ لیا تھا، آیت میں مختلف خاندانوں کے وجود میں آنے کا جو مقصد بیان کیا گیا ہے اس کو پلٹ دیا گیا تھا، اور اس خاندانی تعصب کی بنا پر حسد، غیبت، بدگمانی، بہتان طرازی، چغلی اور خدا جانے کتنے امراض اندر پیدا ہوگئے تھے، مذکورہ آیت سے پہلے والی آیت میں ان ہی باطنی امراض کے دور کرنے کا تذکرہ تھا، اب اس آیت میں خاص طور پر اس جاہلی تعصب پر بندش لگائی جارہی ہے، جس کے نتیجہ میں خاص طور پر مذکورہ بالا امراض پیدا ہورہے تھے۔

طبعی شرافت

گزشتہ آیات میں اہل ایمان کو یہ حکم تھا کہ وہ بھائی بھائی بن کر رہیں، اور جو چیز بھی اس شفاف رشتہ کو گندہ کرسکتی ہو، اس سے پوری طرح گریز کریں، اب یہاں یہ بات یاد دلائی جارہی ہے کہ سب سے پہلا مرحلہ اخوت انسانی کے رشتہ کاہے، جس کو ایمانی اخوت کا رشتہ مستحکم کرتا ہے، عقیدہ و ایمان کی وحدت سے اس میں زبردست قوت پیدا ہوجاتی ہے، اس کا حاصل یہی ہے کہ تمام انسان ایک ہی باپ کی اولاد ہیں، کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں، جو کچھ امتیاز ہے وہ ایمان کا اور ایمانی صفات و کمالات کا ہے، اب اگر کسی کے اندر خاندانی طور پر قبول کرنے کی صلاحیت زیادہ ہے تو ذاتی طور پر وہ شرافت نفس رکھتا ہے، وہ خیر کو قبول کرنے میں ایک جاذبیت محسوس کرتا ہے، تو یہ حقیقت میں ماحول کا اثر ہے، جن خاندانوں میں تعلیم وتربیت کا اہتمام رہتا ہے، ان کے بچوں میں ابتداء ہی سے اس کا رنگ نظر آنے لگتا ہے، اور کبھی شخصی اور ذاتی طور پر بعض لوگوں میں طبعی شرافت ہوتی ہے، اسی کی طرف آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا ہے:

الناس معادن کمعادن الفضۃ والذھب، خیارھم فی الجاھلیۃ خیارھم فی الإسلام إذا فقھوا۔8صحیح مسلم، کتاب البروالصلۃ، باب الارواح جنودمجندۃ، مسند احمد

’’لوگ کانوں کی طرح ہیں،جیسے سونے چاندی کی کانیں ہوتی ہیں، جو جاہلیت میں بہتر ہیں وہ اسلام میں بھی بہتر ہیں، اگر وہ دین کی سمجھ پیدا کرلیں۔‘‘

کبھی کبھی خاص ماحول کی نتیجہ میں خاندانوں میں یہ ملکہ پیدا ہوجاتا ہے، عام طور پر یہ چیز تعلیم وتربیت سے پیدا ہوتی ہے، اور گہری ہوتی جاتی ہے، طبعی طور پر ان لوگوں کے لیے خیر کی صفات کا حاصل کرنا آسان ہوجاتا ہے، اور کم محنت سے بعض مرتبہ ان کو بہت کچھ حاصل ہوجاتا ہے، لیکن وجہ امتیاز صفات ہی ہیں، جو ان صفات ایمانیہ کو جتنا اپنے اندر پیدا کرے گا اتنا ہی وہ حقیقی عزت کا مالک ہوگا، اسی لیے صاف صاف یہ اصول بتادیا گیا:

اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ

’’اللہ کے نزدیک تم میں سب سے بڑھ کر عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو۔‘‘

أتقیٰ، تقویٰ سے اسم تفضیل بنایا گیا ہے، یعنی سب سے زیادہ تقویٰ والے، یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ تقویٰ کی حقیقت کیا ہے، وہ کیسے اور کب حاصل ہوتا ہے؟ عام طور پر لوگ اس کو متقی سمجھتے ہیں جس کی ظاہری وضع قطع متقیوں کی سی ہو، لیکن یہ تنہا کافی نہیں، اس میں ظاہر وباطن دونوں کی شفافیت مطلوب ہے، وہ کب حاصل ہوگی، اور اس کے لیے کیا شرائط واصول ہیں، اس کی وضاحت کے لیے آیات قرآنیہ کا سہارا لینا ضروری ہے۔

تقویٰ درحقیقت دل کی اس کیفیت کا نام ہے جو انسان کے اندر خشیت الٰہی پیدا کرے، اور اس کو خیر پر قائم رکھے، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسی لیے ایک بار تین مرتبہ سینہ مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:

التقویٰ ھٰھنا9مسند احمد، مسند انس بن مالک

’’تقویٰ کی جگہ یہ ہے۔‘‘

صدق تقویٰ کا زینہ

قرآن مجید میں صفت ِ صدق کو تقویٰ کی سیڑھی کہا گیا ہے، ارشاد ہوتا ہے:

وَالَّذِيْ جَاۗءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهٖٓ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُتَّـقُوْنَ؀(سورۃ الزمر۳۳)

’’جوسچائی کے ساتھ آیا اور اس کو سچ مانا، وہی لوگ تقویٰ والے ہیں۔‘‘

یہ صدق صرف زبان کی سچائی نہیں ہے، بلکہ اندرباہر کا توافق ہے، حقیقت شناسی اور حق رسی ہے جس کی روشنی انسان کے ظاہر وباطن کو یکساں روشن کردیتی ہے، یہ سچائی جس کو مل جاتی ہے، اس کے دل کے داغ دھبے مٹ جاتے ہیں، اور وہ تقویٰ سے آراستہ ہوجاتا ہے، قرآن مجید میں دوسری جگہ تفصیل سے اہل تقویٰ کا بیان ہے:

وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةِ وَالْكِتٰبِ وَالنَّبِيّٖنَ ۚ وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰي حُبِّهٖ ذَوِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ ۙ وَالسَّاۗىِٕلِيْنَ وَفِي الرِّقَابِ ۚ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ ۚ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰھَدُوْا ۚ وَالصّٰبِرِيْنَ فِي الْبَاْسَاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ وَحِيْنَ الْبَاْسِ ۭ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ؁ (سورۃ البقرۃ۱۷۷)

’’لیکن نیکی یہ ہے جو اللہ پر، آخرت کے دن پر، فرشتوں پر، اور کتاب پر، اور نبیوں پر ایمان لایا، اور چاہت کے باوجود رشتہ داروں پر، یتیموں پر اورمسکینوں پر، مسافروں پر اور سوال کرنے والوں پر اور غلام آزاد کرنے میں مال خرچ کیا، اور نماز قائم کی، اور زکوٰۃ کی ادائیگی کی، اورجو وعدہ کرکے اپنے وعدے کو پورا کرنے والے ہیں، اور سختی اور تکلیف اور لڑائی میں صبر کرنے والے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو سچے ٹھہرے اور تقویٰ والے ہیں۔‘‘

اس آیت میں بھی صفات قبولیت کے بیان کے بعد پہلے ’’أُولٓئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا‘‘ (یہی لوگ سچے ٹھہرے) کہہ کر یہ حقیقت واضح کردی گئی کہ صدق، تقویٰ کی سیڑھی ہے۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭

Exit mobile version