تاریخ: ۱۶مارچ ۲۰۱۹ء
وقت: شام، ساڑھے پانچ بجے
مقام: ابّا جی کا کمرہ……
ہاشمی ہاؤس کے تمام مکین اس وقت کمرے میں موجود تھے۔ کمرہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ پریشان صورت و متفکر صولت بیگم اور فائزہ بیگم کھڑکی کے پاس کرسیاں ڈالے بیٹھی تھیں۔ بیمار و مضمحل سے ابّا جی، اپنے بیڈ پر پیر اونچے کیے اور ٹانگوں پر ہلکا کمبل اوڑھے، ان کی پائنتی کی جانب نسرین اور اس کی گود میں عبداللہ۔ کھڑکی کے مقابل دیوار کے ساتھ ایک ترتیب سے سلمیٰ اور وسیم، آپائی، لبنیٰ اور اس کی ماں ،قالین پر ایک دوسرے کے ساتھ ذرا جڑ کر بیٹھی تھیں۔ ان سے ذرا سے فاصلے پر نور، ہادیہ، جویریہ، فاطمہ، بینش اور بتول تھیں۔ سبھی چہرے سنجیدہ تھے، فکر مند تھے، اور جیسے کسی انہونی کے منتظر تھے۔
کمرے کے دوسرے کونے میں کتابوں کے شیلف کے پاس گھر کے تمام لڑکے بیٹھے تھے۔ زین، اویس، صہیب، حسن ، حسین اور شہیر ……خواتین کے برعکس ان کے چہرے جوش و جذبے سے دمک رہے تھے، جیسے کچھ طے کر کے آئے ہوں، اور اپنی منوا کر جانے کے ارادے سے بیٹھے ہوں۔ ادھ کھلے دروازے کے پاس زوار دیوار سے ٹیک لگائے، یوں کہ ایک گھٹنا موڑ کر پاؤں دیوار پر رکھا تھا، جبکہ دوسرے پاؤں اور کمر کی ٹیک کے سہارے دیوار سے لگا کھڑا تھا۔ دروازے کے باہر اور کمرے میں موجود افراد کی آنکھوں سے اوجھل، سکیورٹی گارڈ امانت چوکس کھڑا تھا۔ اس کے ساتھ دروازے کے پیچھے نذیر، سلطان اور پرویز بھی موجود تھے، مگر کمرے کے اندر بیٹھے افراد کی نظروں سے اوجھل تھے۔
کمرے کے وسط میں جو چند گز کی خالی جگہ بچی تھی، وہاں عمیر بے چینی سے ٹہل رہا تھا۔ وہ دونوں ہاتھ کمر پر باندھے ، کسی گہری سوچ میں گم، چلتے چلتے نور کے سر پر پہنچ جاتا، جو ابّا جی کے بیڈ کے قریب بیٹھی تھی۔ پھر واپس پلٹتا اور کمرے کے دوسرے کونے میں ، داخلی دروازے کے ساتھ رکھے اس سنگل صوفے تک کے چند قدم طے کرتا جس پر اس وقت صہیب براجمان تھا۔
وہ شدید فکری خلفشار کا شکار لگ رہا تھا۔ جیسے کسی فیصلے پر پہنچنا چاہ رہا ہو اور پہنچ نہ پا رہا ہو۔ اور یہی……اس وقت کمرے میں موجودکم و بیش ہر ایک شخص کی ذہنی کیفیت تھی۔ وہ پچھلے ڈھائی تین گھنٹوں سے یہاں جمع تھے۔ اور صبح کے واقعے کے بعد جس طرح نبیلہ ذہنی صدمے کا شکار ہو کر تقریباً ناکارہ ہو کر اپنے کمرے میں پڑی تھی، عمیر نے ان سب کو اس لیے جمع کیا تھا کہ ان کے لیے اس صورتحال میں اپنے لیے کسی لیڈر کا تعین کرنا ضروری تھا۔ گھر کی بھاری اکثریت کی نذیر کے حق میں نکالے جانے والی احتجاجی ریلی نے نبیلہ کو شدید متاثر کیا تھا۔ زوار کے مطابق اس نے جب نبیلہ کو اس کے کمرے میں بحفاظت پہنچایا تو نبیلہ ہذیانی انداز میں رو اور چیخ رہی تھی۔ اسے سنبھالنا اس قدر مشکل ہو گیا کہ زوار نے اس کو ٹرینکوئلائزر (سکون آوار دوا) کھلا کر سلا دیا۔ یہی اس کی ذہنی صحت کے پیشِ نظر ضروری بھی تھا۔ اور وہ اب تک اپنے کمرے میں دوا کے زیرِ اثر مدہوش پڑی تھی۔
اب اس صورتحال میں جبکہ ہاشمی ہاؤس اندرونی تنازعوں اور جھگڑوں میں گھرا ہوا تھا، گھر کے اہم قائدین جیسے عثمان صاحب بیمار تھے اور ابوبکر صاحب شہر سے باہر، جبکہ جاوید صاحب ان دونوں کی کمی پوری کرنے کے لیے اکیلے معاشی محاذ سنبھالے ہوئے تھے، سربراہِ خانہ کی اچانک خالی ہونے والی جگہ سے کاروبارِ زندگی میں جو خلا متوقع طور پر پیدا ہونے والا تھا، اس کا سدِ باب کیسے کیا جائے؟ اس سوال کا جواب تلاشنے میں وہ پچھلے ڈھائی گھنٹے سے سرگرداں تھے۔ تجاویزسب کے پاس تھیں، اور ہر ایک کی دوسرے سے مختلف تھیں۔ اپنی اپنی تجویز کے حق میں دلائل دیے جا چکے تھے، بحث مباحثہ بار بار خطرناک حد تک ماحول کو گرما دیتاا ور عمیر کو بلند آواز میں سب کو جمہوریت کی روح یاد کروا کے یہ یاد دلانا پڑتا کہ وہ مہذب افراد کی طرح اپنے مسائل گفتگو و مذاکرات سے حل کر سکتے تھے۔
فاطمہ کا خیال تھا کہ نبیلہ کی مدت ختم ہونے سے پہلےاسے ہٹانا یا معطل کرنا نا انصافی ہے۔ انہیں اس کو اس کا موقع پورا پورا دینا چاہیے، لیکن اس تجویز کی حمایت کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ البتہ بینش کا خیال تھا کہ سربراہِ خانہ کے معطل ہونے کا یہ مطلب نہیں تھا کہ برسرِ ااقتدار پارٹی کو ہی معطل کر دیا جائے، بلکہ پارٹی کو اپنے درمیان سے ہی کسی نئے سربراہ کو نامزد کر دینا چاہیے۔ ہادیہ اور جویریہ کے نزدیک بھی یہی زیادہ قرینِ انصاف بات تھی۔ صولت بیگم کا کہنا تھا کہ چند دن کی بات تھی،انہیں ابوبکر صاحب کی واپسی تک انتظار کر لینا چاہیے۔ جلدبازی میں کوئی نیا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔
گھر کے لڑکوں کی رائے بھی بٹی ہوئی تھی۔ ایک گروہ اویس کے حق میں تھا، چونکہ وہی لڑکوں کی جانب سے پارلیمانی نمائندہ بھی تھا، اور نبیلہ کا تختہ الٹنے میں سب سے نمایاں اور پیش پیش بھی، تو کسی فاتح کی طرح اسے مفتوح کی سلطنت و اقتدار ورثے میں ملنا چاہیے ۔ جبکہ دوسرا گروہ شاید کمرے کی سب سے جمہوری صدا بلند کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور وہ یہ کہ نئے سرے سے الیکشن کرائے جائیں۔
دفعتاً عمیر کے قدم رکے، وہ کمرے کے وسط میں کھڑا اب دو انگلیوں سے اپنی پیشانی مسل رہا تھا۔ کمرے میں موجود تمام افراد کی نظریں اس کے چہرے پر جمی تھیں۔
’’……ہم ایک جمہوریت ہیں……‘‘، بالآخر عمیر ان سب سے مخاطب تھا۔ اس کے سنجیدہ چہرے پر سوچ اور فکر کی پرچھائیاں واضح تھیں، اور آنکھوں سے سنجیدگی اور خلوص جھلکتا تھا۔’’……سب سے پہلے……ہر حال میں ……کوئی بھی مشکل ہو……کیسی بھی پریشانی ہو……ہمیں سب سے پہلے یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم ایک جمہوریت ہیں……!‘‘، وہ ایک ایک لفظ پر زور ڈالتا ہوا ، گویا یہ پیغام ان کے اندر ، ان کی روحوں تک پہنچا دینا چاہتا تھا۔
’’……اور جمہوریت کا حسن یہ ہے کہ یہ کسی ایک کی نہیں……بلکہ سب کی حکومت ہوتی ہے۔ لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ آپ سب یہ بات سمجھ لیں……اچھی طرح جان لیں……ذہن نشین کر لیں……کہ کچھ بھی ہو جائے، میں جو بھی فیصلہ کروں گا، وہ آپ سب کی مرضی و منشا کے مطابق ہو گا۔ وہ آپ سب کے بھلے کے لیے ہو گا، ہم سب کے مجموعی مفاد میں ہو گا……‘‘۔ قالین پر بیٹھے چند سر اثبات میں ہلنے لگے۔
’’یہ بات واضح کر دینے کے بعد میں چاہتا ہوں کہ آپ سب اب ذرا اس گھر کی صورتحال پر غور کریں۔ پہلی اور اہم ترین حقیقت جو ہمیں سمجھنے اور تسلیم کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ان حالات میں ہم گھر کو بغیر کسی سربراہ کے نہیں چھوڑ سکتے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری سکیورٹی کی نازک صورتحال، معاشی حالات کی گھمبیرتا اور پھر آج کل نسرین کا مقدمہ جس نہج پر چل رہا ہے، اسے بغیر کسی نمائندے کے چھوڑ دینا، گویا خود اپنا مقدمہ تباہ کر دینے کے مترادف ہے۔ لہٰذا، ہمیں جلد از جلد ایک لیڈر پر متفق ہونے کی ضرورت ہے۔‘‘ اس نے ذرا سا رک کے ایک طائرانہ نگاہ حاضرین پر ڈالی۔ سب کی نگاہیں اسی پر جمی تھیں، وہ سب ہمہ تن گوش تھے۔
’’اصولاً تو ایک سربراہ کی غیر دستیابی کی صورت میں اس کے قائم مقام کو اس کی جگہ لینی چاہیے، لیکن چونکہ ہم پہلی دفعہ ایسی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں اور پہلے سے کوئی قائم مقام یا نائب سربراہ متعین نہیں کیا گیا، تو میرے خیال میں اصولی اور آئینی طریقہ یہی ہے کہ نئے سرے سے الیکشن کرائے جائیں ……مگر مجھے یقین ہے کہ آپ سب میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ اس وقت چونکہ سربراہی کے لیے موزوں افراد میں سے اکثر گھر میں موجود نہیں ہیں، لہٰذا ان کی غیر موجودگی میں انتخابات کرانا کچھ عجیب سا لگتا ہے……پھر یہ بھی ممکن ہے کہ گھر واپسی پر ایسے کسی انتخابات کے نتائج پر ان افراد کو اعتراض ہو……‘‘
’’……لہٰذا بہت زیادہ سوچ بچار کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں، ……کہ اس گھر کے بڑوں کی واپسی اور آئینی انتخابات منعقد کروانے تک……میں خود ہاشمی ہاؤس کا انتظام سنبھال لوں اور گھر کے قائم مقام سربراہ کے فرائض اپنے ذمّے لے لوں!…… ‘‘، اس کی گہری نظریں ایک ایک کے چہرے کا جائزہ لے رہی تھیں، مگر وہ رکا نہیں، بلکہ تیزی سے اپنی بات مکمل کرنے لگا،’’……مگر آپ میرے اس فیصلے سے یہ تاثر ہر گز مت لیں کہ میں خود سربراہ بننا چاہتا ہوں……نہیں بالکل نہیں!! بلکہ میں نے یہ فیصلہ محض اس لیے کیا ہے کیونکہ ہمارے گھرانے میں اس وقت مجھ سے زیادہ تجربہ کار شخص کوئی نہیں، جس نے سب سے لمبی مدّت اس گھر کی سربراہی کی ہو اور بطریقِ احسن کی ہو……مجھے یقین ہے کہ آپ سب کو یاد ہو گا کہ ماضی میں میرے ادوار ہاشمی ہاؤس کے لیے ترقی اور خوشحالی، امن اور استحکام کے ادوار ثابت ہوئے ہیں……میں صرف یہ اضافہ مزید کروں گا کہ یہ میرا آپ سے وعدہ ہے کہ……مستقبل میں بھی میری ترجیح ہمیشہ آپ سب کا مفاد ہی ہو گا……!!‘‘۔
کمرے میں دبیز خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ساکت چہروں پر کوئی بھی تاثر نہیں ابھرا۔ شاید وہ ابھی تک سمجھے ہی نہ تھے کہ عمیر کیا کہہ رہا ہے۔ یوں بھی بڑے بڑے الفاظ و اصطلاحات کے استعمال کے باعث اس کی گفتگو اب گھر کی اکثریت کے لیے سمجھنامشکل ہو گئی تھی۔ یا شاید وہ سب سمجھ گئے تھے مگر کچھ بھی ایسا غیر متوقع نہیں تھا کہ کسی ردّعمل کا اظہار کرتے۔ مگر عمیر ان کے تاثرات پر غور کرنے نہیں رکا، اسے اپنی بات مکمل کرنا تھی۔
’’……یہ بات کہنا تو میرے نزدیک احمقانہ فعل ہو گا کہ ہم سب کو اپنے گھرانے کی بد حالی کا شدت سے احساس کرنے کی ضرورت ہے۔ آج جس مقام پر ہمارا گھرانہ کھڑا ہے، شاید ماضی میں کبھی بھی ایسی نازک صورتحال سے دوچار نہیں ہوا۔ یہ وہ حالات ہیں جن تک ہماری سابقہ سربراہ نے ہمیں پہنچایا ہے……اس کے باوجود……میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ ……میرا ہر عمل اور ہر فعل، اس گھرانے کو اس پاتال سے نکالنے کے لیے ہو گا……مجھے جو کرنا پڑا میں کروں گا، جو بھی قربانی دینی پڑی ، میں دوں گا……لیکن ہاشمی ہاؤس کو ایک بار پھر اس کے سابقہ مقام تک پہنچانے کی خاطر دن رات ایک کر دوں گا……!!‘‘، پر خلوص لہجہ، ماتھے پر چمکتا ہلکا سا پسینہ، جذبات کی شدت سے سرخ پڑتا چہرہ……عمیر ہاشمی ایک پیدائشی لیڈر تھا، اور ان حالات میں ہاشمی ہاؤس کی واحدامید۔
’’……چند دن……میرا آپ سے وعدہ ہے……چند دنوں کی بات ہے، میں آپ سب سےگزارش کرتا ہوں کہ آپ میرا ساتھ دیں ……ہم ان حالات سے مل کر لڑیں گے، یہ چند دن کی مشکل ہے، ہم مل کر اس کو شکست دیں گے اور ہاشمی ہاؤس کو دوبارہ معاشی و معاشرتی، ہر دو اعتبار سے اس بلند مقام تک پہنچائیں گے جس کا یہ حقدار ہے……! ‘‘۔
اس کی تقریر اگلے کئی منٹ جاری رہی۔ ان حالات سے نبٹنےکے لیے اس کے پاس کیا تجاویز اور حل ہیں،اس نے اپنی ٹیم کی مدد سے پہلے ہی اس سلسلے میں غور و فکر شروع کر رکھا تھا۔ اور اب تک تو وہ ایک قابلِ عمل لائحہ بھی تیار کر چکا تھا۔ اس کا نائب ان سب کے درمیان اس لائحہ کی کاپیاں تقسیم کر دے گا۔ وہ جانتا تھا کہ آنے والے چند مہینے شاید گھر کے افراد کے لیے قدرے مشکل ثابت ہوں، مگر دنیا میں کوئی قابلِ قدر چیز محنت اور قربانی کے بغیر کہاں ملتی ہے۔ آخر میں بس وہ تمام افرادِ خانہ کو یہ یقین دہانی کرانا چاہتا تھا کہ وہ ان کا سب سے ادنیٰ خادم ہے۔ وہ ان کے لیے ہر پل، ہر لمحہ موجود ہو گا۔ ان میں سے کسی نے بھی اپنی کوئی مشکل یا پریشانی اس سے کہنے میں تردد محسوس کیا تو وہ خود کو مجرم تصور کرے گا۔ اس کی پہلی ترجیح، اور اس کے وجود کا مقصد ہی ہاشمی ہاؤس کے لوگوں کی فلاح و بہبود ہے۔
جس وقت وہ بالآخر کمرے سے نکلا، تو مغرب کی اذان ہو چکی تھی۔زوار اب بھی کمرے میں حاضرین کے درمیان ضروری ہدایات پر مبنی سرکلرز اور ہزار ہزار روپے پر مشتمل اس ’تحفہ‘ کو تقسیم کرنے میں مصروف تھا جو عمیر کی جانب سے سربراہی سنبھالنے پر تمام اہلِ خانہ کے لیے خصوصی طور پہ جاری کیا گیا تھا۔ اسے زوار کی اپنے کمرے میں آمد کا انتظار تھا، اصل خوشی تو ان دونوں نے مل کر ہی منانی تھی۔ مگر خوشیاں منانے سے پہلے ابھی اور بھی بہت کام تھے۔ اسے ابھی نبیلہ سے استعفیٰ حاصل کرنا تھا۔ مگر وہ جانتا تھا کہ یہ کام وہ بآسانی کر لے گا۔نبیلہ کی سب سے بڑی کمزوری، اس کا تنہا اور کسی مخلص مشیر کا نہ ہونا تھا۔ اسے نبیلہ کو کیا کہنا تھا، اس کا ذہن ابھی سے فقرے ڈھال رہا تھا۔ وہ اوپر جانے کے لیے سیڑھیوں تک پہنچا ہی تھا کہ قریب ہی کچن کے کھلے دروازے میں اسے وزیر خان کھڑا نظر آیا۔ اسے دیکھ کر وہ لپک کر اس کے قریب آیا۔
’’سر!……وہ آدھا گھنٹہ پہلے کوئی مہمان بچہ آیا تھا……سامان بھی ساتھ تھا۔ اپنا نام ولید ہاشمی بول رہا تھا سر! ……اَم نے نذیر سے پوچھ کر اسے آپ کے آفس میں بٹھایا ہے……‘‘۔
’’ولید…!؟‘‘، عمیر نے چونک کر پوچھا،’’……وہ کیسے اچانک ٹپک پڑا؟……اچھا، ہوں……کسی اور نے تو نہیں دیکھا اسے ابھی تک……گھر والوں میں سے؟‘‘۔
’’نئیں سر!……سب تو اندر کمرے میں تھے……البتہ سر، وہ ……ولید صاب بوت ناراض ہو رہے تھے، کہہ رہے تھے میں مہمان نہیں ہوں، گھر کا بندہ ہوں، مگر سر آپ نے بولا ہے کہ جو بھی گھر پہ آئے ، سب سے پہلے آپ کو ……‘‘
’’ہاں ہاں ٹھیک ہے……میں دیکھ لیتا ہوں……اسے بھی آج ہی آنا تھا‘‘، عمیر بیزاری سے بولتا ہوا تیزی سے سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ اسے سرپرائزز بالکل پسند نہیں تھے۔ وہ پہلے سے مطلع و خبردار ہونا پسندکرتاتھا۔ اور ایسے سرپرائزز جن سے حلق کھٹا ہوتا ہو، وہ تو بالکل بھی پسند نہیں تھے۔
وہ جس وقت دفتر میں داخل ہوا، ولید انتظار سےاکتا کر بُک شیلف میں رکھا کوئی میگزین اٹھا کر اس کی ورق گردانی میں مصروف تھا۔
’’ولید!! بڑا زبردست سرپرائز دیا ہے تم نے یار……! یہ اچانک کہاں سے نازل ہو گئے تم……؟‘‘، عمیر چہرے پر بڑی سی مسکراہٹ سجائے، بڑے بڑے قدم اٹھاتا اس تک پہنچا اور مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھا دیا۔ ولید میگزین پرے رکھ کر اٹھ کھڑا ہوا اور گرمجوشی سے چچا کے گلے لگ گیا۔
’’یقین کریں، اس سے زیادہ بڑا سرپرائز آپ نے مجھے دیا ہے، جو ریسپشن (استقبال)مجھے گھر آ کر ملی ہے…… ایک جامہ تلاشی نہیں لی گئی، ورنہ باقی رویہ تو ایسا ہی تھا گویا طالبان واشنگٹن چلے آئے ہوں ……‘‘، وہ عمیر سے علیحدہ ہوتے ہوئے مسکراتے ہوئے بولا۔
’’بس یار……کیا کریں……حالات ہی ایسے ہیں……مجبوری ہے، سکیورٹی پروٹوکول فالو کرنے پڑتے ہیں……‘‘، عمیر کی مسکراہٹ سمٹی۔ اس کی محتاط اور جانچتی ہوئی نظریں ولید کے چہرے پر تھیں۔ نجانے وہ کتنا جانتا تھا گھر کے حالات اور سیاست کے بارے میں۔ دور ہونے کے باعث ایک ولید ہی تھا جس پر نظر رکھنا ممکن نہیں تھا۔ جس کا واضح ثبوت اس کی یوں اچانک اور غیر متوقع آمد تھی۔
’’……اور سناؤ!……کیسا رہا تمہارا کورس……؟ ……مکمل ہو گیا ہے کیا؟……میرا تو خیال تھا کہ اگست میں مکمل ہو گا……‘‘، اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے وہ گھوم کر میز کے پیچھے رکھی اپنی پاور چئیر کی طرف بڑھ گیا۔
’’……میں نے مرجر (merger) کے لیے اپلائی کر دیا تھا جاتے ہی۔ آخری دو سمسٹر مَرج کرا لیے، ٹیسٹ کلئیر کیے اور جلدی فارغ ہو گیا……‘‘، ولید صوفے پر پیچھے ہو کر بیٹھتے ہوئے مختصراً بتانے لگا۔ کیا تھا جو اسے چبھ رہا تھا، وہ سمجھ نہ پا رہا تھا۔ عمیر کا بدلا بدلا سا انداز……یہ تو وہ فون پر بارہا ابوبکر صاحب، صولت بیگم، نسرین اور دیگر گھر والوں سے سن چکا تھا کہ عمیر اب پہلے جیسا نہیں رہا تھا۔ گھر کے تیزی سے بدلتے اور چکراتے حالات کے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ اسے پتہ چلتا ہی رہتا تھا۔ مگر ……نہیں………یہ کچھ تکلّف سا تھا عمیر کے رویّے میں۔ اس کی بات پوری توجہ سے سنتے ہوئے بھی وہ بتا سکتا تھا کہ عمیر کا دھیان کہیں اور ہے۔ یہ کچھ اس کی مسکراہٹ میں تھا، جو یوں تو چہرے پر پھیلی ہوئی تھی مگراس کی گرمی بھی عمیر کی آنکھوں کی ٹھنڈک دور کرنے سے قاصر تھی۔ یا گرمجوشی سے اس سے مصافحہ کرتے ہوئے بھی……اس کے ساتھ بیٹھنے کے بجائے ایک افسرانہ شان سے اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے خود دور سربراہی کرسی پر جا بیٹھنا……شاید یہ تھی وہ بات جو اسے کھٹک رہی تھی……محبت اور گرمجوشی کے اظہار کے باوجود کچھ اوپری پن……
’’……تو گویا کہ اب تم سنگا پور سے ڈگری لے کر آئے ہو……یہ تو بہت اچھا ہوا……اب تم یہ بتاؤ کہ تمہارے ارادے کیا ہیں…… کاروبار کی بہتری کے لیے کوئی آئیڈیا……منصوبہ……کوئی تجویز……کچھ ہے تمہارے پاس؟……یقیناً……‘‘، عمیر نے رک کر اس پر ایک گہری نظر ڈالی،’’یقیناً تم با خبر ہو گے کہ آج کل ہمارا گھرانہ شدید ترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے……ایسے میں تم کیا کر سکتے ہو ہمارے لیے؟‘‘۔
’’ارادہ……‘‘، ولید مسکرایا،’’ فی الحال تو چاچو……ارادہ صرف اچھا سا کھانا کھانے، گھر والوں سے ملنے اور لمبی تان کر سونے کا ہے…… آپ کا سوال ذرا تفصیل طلب ہے، اجازت دیں تو پھر کسی وقت بات کریں گے ا س پر…… یوں بھی نماز کا وقت اب بس ختم ہی ہونے والا ہے……‘‘، وہ گھڑی پر نگا ہ ڈالتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔
’’ہاں……ہاں……کیوں نہیں……مجھے خیال ہی نہ رہا……‘‘، عمیر قدرے خفّت سے جلدی سے بولا۔ وہ دونوں اکٹھے ہی دفتر سے نکلے اور اپنے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئے۔
٭٭٭٭٭
اس کا کمرہ نسرین کے زیرِ استعمال تھا۔ وہ جس وقت کمرے میں داخل ہوا، نسرین دیوار کی جانب جائے نماز بچھائے نماز میں مشغول تھی۔ بیڈ پر عبداللہ نسرین کے موبائل سے بیٹھا کھیل رہا تھا۔ ولید کے اندر آنے پر اس نے سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا، چند لمحے ٹکر ٹکر دیکھتا رہا، پھر اس سے پہلے کہ ولید کچھ کرتا یا کہتا، وہ اچانک منہ پھاڑ کر بھاں بھاں رونا شروع ہو گیا۔ ’’ابے یار!‘‘، ولید نے جلدی سے کندھے سے لٹکتا اپنا بیگ اتار کر کونے میں رکھا، اور عبداللہ کو گود میں لے کر چپ کرانے کی سعی کرنے لگا۔
نسرین سلام پھیرتے ہی پریشان ہو کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ مگر اس کی یہ پریشانی پہلےشدید ترین حیرت اور پھربے تحاشا خوشی میں ڈھل گئی تھی۔
’’ولید……!‘‘، وہ مسرّت سے سرخ پڑتے چہرے کے ساتھ تقریباً چیخ کر بولی،’’اوہ خدایا……! ……ولید……!!‘‘۔
’’……آرام سے آپا!……‘‘، اس کے تاثرات سے محظوظ ہوتے ہوئے ولید مسکرایا،’’……یہ ذرا اپنے اس باجے کو سنبھالیں اور مجھے نماز پڑھنے دیں……اس کے بعد باہر جا کر بی بی سی کی رپورٹنگ کیجیے گا……ورنہ میری نماز نکل جائے گی……‘‘۔
مگر نسرین کے لیے اتنی بڑی خوشی سنبھالنا مشکل تھا۔ وہ وضو کر کے باہر آیا تو وہ ’’صرف امّی کو بتاؤں گی‘‘ کا کہہ کر جھپاک سے کمر ےسے نکل گئی، اور ابھی اس نے دوسری رکعت بھی مکمل نہ کی تھی کہ کمرے کا بار بار کھلتا دروازہ اسے ہاشمی ہاؤس کے مکینوں کا اپنی آمد سے باخبر ہونے کا پتہ دینے لگا تھا۔ سلام پھیرا تو کمرا پورے خاندان سے بھرا ہوا تھا۔
اچانک آ گئے! بتایا کیوں نہیں……کب پہنچے؟ گھر کیسے آئے؟ سفر کیسا رہا؟ کھانا کھایا ہے؟ کہاں کھایا ہو گا، جہاز والے تو ایک نمبر کے کنجوس ہوتے ہیں!آنے سے پہلے بتایا کیوں نہیں؟ ہم پھولوں کا ہار لے کر ائیر پورٹ پر لینے آتے……یہ آخری شکوہ حسن اور حسین کی جانب سے تھا، جس پر اس نے ہنس کر اللہ کا شکر ادا کیا کہ وہ بنا بتائے آنے سے ان کے پھولوں کے ہار سے بچ گیا۔ سوالوں کی بھرمار میں ولید کو سمجھ نہ آ رہا تھا کہ کس کا جواب دے اور کس کو جواب دے۔ نسرین جا کر ابّا جی کو بھی اس کے آنے کا بتا چکی تھی۔ ذرا دیر بعد ہی وہ ابّا جی کے بلاوے پر اٹھ کھڑا ہوا تو صولت بیگم کو اس کو کچھ کھلانے پلانے کی فکر ہوئی۔
کچھ دیر بعد وہ اپنے گھر والوں کے جھرمٹ میں ابّا جی کے کمرے میں بیٹھا تھا۔ اویس، صہیب، فائزہ چچی اور بینش چچی، ابتدائی ملاقات کے بعد اب رات کے کھانے کے لیے اپنے پورشن کی طرف چلے گئے تھے۔جاوید صاحب کی تاحال واپسی نہ ہوئی تھی۔ زوار اس کا سن کر آیا تھا، اور بہت گرمجوشی سے ملا۔ مگر کچھ دیر بیٹھنے کے بعد تھکاوٹ کا عذر کرتا جلدی اٹھ گیا۔
’’بس یار……گھر کے حالات اچھے نہیں ہیں……سارا دن کاموں میں جتا رہتا ہوں……ایک دکان کا چکر……پھر دوسری……پھر تیسری……ان چکروں میں ہی خرچ ہو گیا ہوں……رات کو اتنی تھکاوٹ ہوتی ہے کہ پیروں پر کھڑا ہونا مشکل ہوتا ہے……‘‘، زوار اسے اپنی مصروفیت کی روداد سنا رہا تھا،’’مگر خیر……اب تُو آ گیا ہے ناں……اب تو کچھ تُو بھی سنبھال لے گا……ہاں……یہاں سنگاپور والے مزے نہیں ہیں……عادت ڈلتے ڈلتے کچھ وقت لگے گا……‘‘، وہ عادتاً آخر میں طنز کر گیا۔
گھر کے بقیہ افراد کے متفقہ فیصلے کے مطابق دسترخوان ابّا جی کے کمرے میں ہی بچھا دیا گیا۔ نبیلہ کہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔ اس کے پوچھنے پر نسرین نے بتایا کہ بیمار تھی اور سو رہی تھی۔ وہ مزید تفصیل پوچھ نہ سکا، حسن اور حسین اب اس سے تحفوں اور ٹریٹ کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ابّا جی پہلے کی نسبت بہت کمزور ہو گئے تھے۔ صولت بیگم نے کئی بار کہا کہ ان کے سونے کا وقت ہے لہٰذا وہ لوگ اپنی محفل کسی اور کمرے میں سجائیں، لیکن ابّا جی نے خود ہی اصرار کر کے انہیں روک لیا تو کھانے کے بعد بھی وہ سب وہیں بیٹھے رہے۔حسن، حسین اور زین اس کے موبائل کی گیلری میں سنگاپور کے مختلف مقامات کا تصویری دورہ کرنے میں مصروف ہو گئے جبکہ وہ نسرین، صولت بیگم، فاطمہ اور ابّا جی کے ساتھ گپ شپ میں ۔ وقت گزرنے کا احساس تب ہوا جب ساڑھے گیارہ بجے کسی نے مرکزی دروازہ کھٹکھٹایا۔ زین اٹھ کر دیکھنے گیا اور جب لوٹا تو جاوید صاحب ساتھ تھے۔ وہ کوئی آدھ گھنٹہ پہلے گھر آئے تھے اور کھانا کھانے کے دوران بینش سے انہیں ولید کی اچانک واپسی کی اطلاع ملی ۔ وہ سونے سے پہلے یہ دیکھنے کے لیے آئے تھے کہ اگر ولید جاگ رہا ہو تو اس سے ملاقات ہو جائے، جو حسبِ توقع ہو بھی گئی۔ اسے دیکھ کر جاوید صاحب کے بقول ان کی آدھی تھکاوٹ دور ہو گئی تھی، مگر بقیہ آدھی دور کرنے کی خاطر وہ سب اس کے بعد جلدی اٹھ گئے، اور ان کی محفل برخواست ہوئی۔
٭٭٭٭٭
کھڑکیوں کے پردے سمیٹ کر نفاست سے ڈوری سے باندھ دیے گئے تھے۔ پورا کمرہ سورج کی اجلی اجلی روشنی سے بھرا ہوا تھا۔ عثمان صاحب اپنے بستر پر بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے نیم دراز تھے۔ ہاتھ میں کوئی کتاب اور آنکھوں پر قریب کی نظر کا چشمہ، وہ حسبِ عادت اپنی کتاب میں غرق تھے۔ دروازے پر ہلکی سی دستک پر انہوں نے سر اٹھایا، سامنے دیوار گیر گھڑی صبح کے نو بجے کا وقت بتا رہی تھی۔
’’آ جاؤ……‘‘، وہ جانتے تھے کون ہو گا۔ نرم مسکراہٹ اور خوشگوار طبیعت کے ساتھ انہوں نے آنے والے کا استقبال کیا۔
’’السلام علیکم چچا جان……‘‘، ولید نے داخل ہو کر سلام کیا۔’’آؤ……آؤ بیٹا……وعلیکم السلام ……وہ کرسی لے لو اور ادھر قریب آ کر بیٹھ جاؤ‘‘، انہوں نے دیوار کے پاس رکھی کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ ولید پہلے بھی دو بار ان سے ملنے آ چکا تھا۔ مگر اتفاق سے جب پہلی دفعہ آیا تو عین اسی وقت نذیرعثمان صاحب کی معمول کی فزیوتھراپی کے لیے آ گیا، اور دوسری دفعہ ان کی دوا کا وقت تھا، دوا بھی نیند آور تھی ، ولید بمشکل پانچ سات منٹ ہی ان کے پاس بیٹھا ہو گا، تو عثمان صاحب نے خود ہی اسے صبح آنے کا کہہ کر رخصت کر دیا۔
’’سنائیں کیا حال ہے چچا جان……سنا ہے خوب مزے ہو رہے ہیں‘‘، ولید مسکراتے ہوئے بے تکلفی سے بولا۔’’آرام کرتے ہیں ……کتابیں پڑھتے ہیں……کچھ لکھنے لکھانے کا شغل بھی جاری ہے……یہی حال رہا تو مجھے ڈر ہے جلد ہی شاعری بھی نہ شروع کر دیں آپ……‘‘۔
’’شاعری کے لیے بیٹا……ٹوٹی ہوئی ٹانگ کی نہیں……ٹوٹے ہوئے دل کی ضرورت ہوتی ہے……‘‘، انہوں نے اس کی بات سے لطف اندوز ہوتے ہوئے جواب دیا۔’’اس کے لیے تمہاری منظر کشی کچھ یوں ہونا چاہیے تھی کہ آہیں بھرتے ہیں……تنہائی میں پڑے سڑتے ہیں……کچھ پینے پلانے کا شغل بھی جاری ہے……ڈر ہے آپ شاعری نہ شروع کر دیں……‘‘۔
’’توبہ چچا……آپ کے خیال میں کوئی حد ادب ملحوظ نہیں مجھے……ایسا گستاخ سمجھ رکھا ہے؟‘‘،ولید نے ان کا ہاتھ دباتے ہوئے شرارت سے کہا۔
’’یعنی کہنا یہی چاہ رہے تھے…… ‘‘، انہوں نے ایک گہری سانس لی اور ہاتھ میں پکڑی کتاب سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے ذرا مزید سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔ ’’خیر……کچھ ایسی حقیقت سے دور بھی نہیں تمہاری منظر کشی……‘‘
’’یعنی دال میں ہے کچھ کالا……؟‘‘، اس کے لہجے میں تجسس در آیا۔
’’کچھ……؟! یہاں ساری دال ہی کالی ہے، ……گھور تاریک،…… اندھیر نگری ہے……‘‘، ان کے لہجے میں مایوسی و شکستگی کی جھلک تھی۔ ولید کو اچنبھا ہوا، اس کی توقع کے بر خلاف، ہمیشہ ہنسنے ہنسانے والے اس کے یہ چچا بہت اداس و مضمحل لگ رہے تھے۔ کیا بیماری اتنا شکستہ کر دیتی ہے انسان کو……؟
٭٭٭٭٭
ابوبکر صاحب جب گھر واپس آئے تو سارانقشہ ہی بدلا ہوا پایا۔ عمیر پوری تندہی سے ہاشمی ہاؤس کے حالات معمول پر لانے کی ہر ممکن کوشش میں مصروف تھا۔ ولید کے آ جانے سے گھر کے تمام مرد ہی پہلے کی نسبت اپنا بوجھ ہلکا محسوس کر رہے تھے، سوعمیر نے یہ کہہ کر زوار کو دکان کے کام سے بالکل ہی چھٹی دلا دی کہ چونکہ اب یہ کام دیکھنے کے لیے ولید موجود ہے، لہٰذا زوار پہلے کی طرح سربراہِ خانہ کی نیابت کے فرائض ادا کرنے کے لیے تیار ہو جائے، کیونکہ کام اس قدر زیادہ تھے کہ ایک اکیلے آدمی کے بس کی بات نہ تھی۔
یہ حقیقت تھی۔ ابوبکر صاحب اپنی واپسی کے بعد دو تین دفعہ عمیر کو جلد از جلد نئے الیکشن کروانے کی یاد دہانی کرا چکے تھے۔ مگر عمیر کے صبح و شام اس قدر مصروف تھے کہ باوجود مخلصانہ کوشش کے وہ گھر کے ان اندرونی معاملات کی جانب توجہ نہیں دے پا رہا تھا۔ وہ اکثر صبح کا نکلا ، رات گئے گھر پہنچتا تھا، نہ جانے کس کس سے ملاقاتیں کرتا، کون کون سے معاملات نمٹاتا پھر رہا تھا۔ اس نے اپنے مختلف تعلقات استعمال کرتے ہوئے، گھر کے لیے بینک سے ایک بھاری قرضہ حاصل کیا تھا۔ گو کہ اس قرضے کی عثمان و جاوید اور ولید، سب ہی نے مخالفت کی، کہ ان کا خیال تھا کہ وہ اپنے بل پر بھی حالات کا رخ موڑ سکتے ہیں۔ مگر عمیر انہیں جلد ہی قائل کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ قائم مقام سربراہِ خانہ کی حیثیت سے، جن امور و معاملات پر اس کی نظر تھی، تصویر کے وہ رخ باقی سب کی نظروں سے اوجھل تھے۔
نسرین کے کیس کی سماعت آخری مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ ایک یا دو پیشیوں میں ہی مقدمے کا فیصلہ متوقع تھا۔ ارشد اور اس کے گھر والوں کی سر توڑ کوشش کے باوجود نسرین اور ہاشمی ہاؤس کے دیگر مکین اپنے موقف میں مضبوط رہے تھے۔انہوں نے ارشد سے ملنے یا بات کرنے یا عدالت سے بالا کوئی بھی سیٹلمنٹ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ انہیں انصاف چاہیے تھا، اس دھوکہ دہی کا جس کا سامنا پچھلے پانچ سالوں میں نسرین نے کیا تھا۔ مگر اب مسئلہ عبداللہ کی کسٹڈی کا تھا۔ ماں کی حیثیت سے فی الحال تو عبداللہ نسرین ہی کو ملنا تھا مگر نسرین یہ چاہتی تھی کہ ارشد اور اس کے گھر والے آئندہ کبھی اس سے یا عبداللہ سے کوئی واسطہ نہ رکھیں۔وہ عبداللہ کی کفالت کے مکمل حقوق حاصل کرنا چاہتی تھی، اس نے کورٹ سے یہ مطالبہ کر رکھا تھا کہ چونکہ ارشد نے باپ کی حیثیت سے غیر ذمہ دارانہ رویّے کا مظاہرہ کیا ہے لہٰذا اس کی عبداللہ سے ملاقات پر مکمل پابندی عائد کر دی جائے۔ المختصر، وہ اپنی زندگی سے ارشد نام کا صفحہ قطعی طور پہ پھاڑ دینا چاہتی تھی۔ چاہے یہ کام کورٹ آرڈر کے ذریعے ہو یا ارشد کے ساتھ کوئی ڈیل کر کے، اسے پیسے دے دلا کر۔
ایسے میں یہ عمیر کی دور اندیشی ہی تھی کہ اس نے مالی حالات کا اندازہ کرتے ہوئے گھرانے کے بینک بیلنس کو قرضے کے ذریعے سہارا دیا۔ پھر دو ماہ بعدان کے گھر کے چھ بچے بورڈ کے امتحانات دینے والے تھے۔ فاطمہ،جویریہ ، ہادیہ، نور، زین اور اویس، سبھی اپنی اپنی مختلف کلاسز کے بورڈ کے امتحانات کے لیے داخلہ بھجوا چکے تھے۔ یکدم ہی اکیڈمیوں اور امتحانات کی تیاری کے لیے شروع کیے گئے کورسز کی بھاری بھرکم فیسوں کے بِل پے در پے گھر آنا شروع ہو گئے۔
سبھی بچّے اپنی اپنی پڑھائیوں میں مصروف سے ہو گئے۔ نسرین نے بھی بالآخر عبداللہ کو سکول میں داخل کرا دیا تھا، آجکل وہ ہر وقت عبداللہ یا ابّا جی، ان دونوں کی صحت کی فکر میں مشغول رہتی تھی۔ ایسے میں اگر کوئی فارغ نظر آتا تو وہ نبیلہ تھی۔ وہ زیادہ وقت اپنے کمرے میں ہی بسر کرتی ۔ گھر کے سبھی افراد سے وہ کھنچ سی گئی تھی، یا وہ اس سے کھنچ گئے تھے۔ بہر حال کوئی بھی اس سے زیادہ بات نہ کرتا، اور جو کوئی بھولے بھٹکے کوئی بات کر لیتا، تو وہ خود ہی جواب دینا قصرِ ِ شان تصور کرتی تھی۔ اس کا بنیادی مشغلہ آج کل انٹرنیٹ تھا۔ وہ اپنا وقت یا تو اپنے ٹیبلِٹ پی سی پر موویز دیکھ کر، یا اپنے فیس بُک پیج پر نت نئے فلسفے اور اقوال شئیر کر کے بسر کرتی تھی۔ چونکہ فاطمہ نے اس پیج کو دیکھنا اور ہینڈل کرنا بالکل ہی چھوڑ دیا تھا، لہٰذا نبیلہ نے کچھ کہے بغیر ہی یہ ذمّہ داری سنبھال لی تھی۔ اپنا وقار قائم و بحال رکھنا بہر حال ایک کام تھا، اور یہ کام وہ کسی صورت ترک نہیں کر سکتی تھی۔
دوسری طرف عثمان صاحب کے پورشن میں بھی ایک بلبلِ نالاں کا بسیرا تھا۔ بینش نے گو کہ اپنی خود اختیاری نظر بندی ختم کر دی تھی، لیکن وہ پہلے کی نسبت بے حد چڑچڑی ہو گئی تھی۔بچوں کی طرف توجہ مزید کم ہو گئی، گھریلو معاملات کی جانب توجہ تو پہلے ہی ختم تھی۔ فائزہ بیگم اور ان کی بچیاں اب حتی الامکان اس کا سامنا کرنے یا اس سے کوئی بھی بات چیت کرنے سے احتراز کرتی تھیں۔ یہ اور بات کہ اس کے بیگانگی بھرے رویّے پر فائزہ بیگم شدید گرم ہو جاتیں اور تاحال اسے تو کچھ نہ کہا تھا، مگر بیٹیوں کے سامنے اچھی طرح بینش کو برا بھلا کہہ کر وہ دل کی بھڑاس نکال لیتیں۔ عثمان صاحب، جو اب پہلے کی نسبت بہتر تھے، اور کچھ کچھ ٹانگ کو جنبش دینے کی کوشش کرتے رہتے، اپنی جگہ لیٹے لیٹے کچن میں برتنوں کے پٹخنے کی، زوردار دھڑ دھڑاہٹ سے بند ہوتے دروازوں اور غصّہ بھری بڑبڑاہٹوں کی بھنبھناہٹ سنتے رہتے۔
٭٭٭٭٭
’’اس سارے معاملے میں، میں کیا چاہتی ہوں، میں یہ بات کئی دفعہ دہرا چکی ہوں، آپ میرے موقف سے واقف ہیں……پھر دوبارہ کیا پوچھنا چاہ رہے ہیں؟‘‘، نسرین نے قدرے تکان آمیزلہجے میں پوچھا۔
عمیر نے آنکھوں سے نفیس سا چشمہ اتارکر میز پر رکھا، دو انگلیوں سے ماتھا رگڑتے ہوئے وہ سنجیدہ ، متفکر اور کافی تھکا ہوا لگ رہا تھا۔ دوبارہ چشمہ ناک پر جماتے ہوئے وہ اپنی کرسی پر آگے کو ہو کر بیٹھ گیا، جب وہ بولا تو اس کے الفاظ احتیاط سے چنے گئے تھے۔
’’……جانتی ہو نسرین، یہ کرسی جس پر میں اس وقت بیٹھا ہوں ناں، اس کے بے شمار تقاضے ہیں…… اور ان میں سے ایک اہم تقاضا یہ ہے کہ میں تم سب کے لیے وہ فیصلہ کروں جو تمہاری زندگی کے لیے، مستقبل کے لیے بہترین ہو……‘‘، وہ رکا، نسرین نے کوئی جواب نہیں دیا، وہ خاموش و سپاٹ اپنی جگہ بیٹھی اسے سن رہی تھی۔
’’……یہاں بیٹھ کر……چھوٹے سے چھوٹا فیصلہ کرنے سے پہلے بھی میں اپنے فیصلے کو ایک ہزار ایک رخ سے جانچتا پرکھتا ہوں……بے تحاشا غور و فکر کرتا ہوں……اور پھر ہی کوئی حتمی قدم اٹھاتا ہوں……اس لیے کیونکہ میرا چھوٹے سے چھوٹا فیصلہ بھی تم سب کی زندگیوں پر اثر انداز ہوتا ہے……اور جس اعتماد و اعتبار کا تم لوگوں نے مجھے امین بنایا ہے ……یہ اس کا تقاضا ہے کہ میں تم لوگوں کی زندگی کے لیے بہترین اور مفید فیصلے کروں……‘‘
’’سو ہاں…… میں جانتا ہوں کہ تم کیا چاہتی ہو، میں تمہارے ہر فیصلے سے متفق ہوں……میں تمہارا ساتھ دوں گا……مگر یہ بھی میرا فرض ہے کہ میں اس وقت تمہیں دستیاب تمام آپشنز سے تمہیں آگاہ کروں ……‘‘، وہ پھر رکا، نسرین ہنوز بے تاثر سی بیٹھی تھی۔
’’تم ابھی کم عمر ہو……اس……اس ’حادثے‘ کے اثرات سے مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ جلد نکل آؤ گی……اس کے بعد تمہارے آگے پوری زندگی پڑی ہے۔ تم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتیں کہ بہر حال جلد یا بدیر تمہیں زندگی میں ایک ساتھی کی ضرورت پڑے گی……ایسے میں عبداللہ تمہارے لیے سہارا نہیں……بلکہ شاید ’آزار‘ بن جائے گا‘‘، نسرین نے ان الفاظ پر تڑپ کراس کی طرف دیکھا، اس کی آنکھوں میں آنسو چھلکنے لگے تھے،’’……نہیں ، سنو! جذباتی مت ہو……‘‘، عمیر نے جلدی سے ہاتھ اٹھا کر اسے کچھ کہنے سے روکا،’’……میں نے کہا ناں……یہ میرا فرض ہے……حقائق چاہے تلخ ہی ہوں، مگر تمہیں بے خبری اور جذباتیت میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے……‘‘
’’عبداللہ ابھی اتنا چھوٹا ہےکہ اس وقت وہ جس بھی فیملی کا حصّہ بنے گا، اسے قبول کر لے گا۔ حتی کہ……تم سے جدائی بھی……چاہے مشکل سے سہی……مگر بالآخر اس کا عادی ہو جائے گا……کیا تم واقعی اسے اس کے باپ سے محروم کرنا چاہتی ہو؟……یہ جانتے ہوئے کہ ارشد ایک محبت کرنے والا باپ ہے……کیا تم واقعی عبداللہ کو سوتیلے باپ اورسوتیلے رشتہ داروں کے ساتھ زندگی گزارنے پر رضامند ہو؟……کیونکہ عبداللہ کے لیے یہی دو آپشنز ہیں……سوتیلا باپ……یا بن باپ کے یتیموں کی سی زندگی……اور یا پھر……اگر تم اپنے بیٹے کے لیے دل بڑا کر سکو……تو باپ کا ساتھ، اس کی محبت و شفقت اوراس کا سہارا… …‘‘
’’……اور ماں……؟ کیا ماں کی کوئی ضرورت نہیں میرے ننھے سے بچے کو؟……کیا آپ مجھ سے یہ توقع کرتے ہیں کہ میں اپنا دل اتنا بڑا کروں کہ ایک معصوم سی ننھی سی جان کو اتنی دور……اتنی دور کہ جہاں سے اس کی خوشبو بھی مجھ تک نہ آ سکے……میں اپنے بیٹے……اپنے دل کے ٹکڑے کو ایک عیسائی عورت کے حوالے کر دوں؟……کیا وہ سوتیلی ماں نہ ہو گی؟ کیا اس سے وابستہ سارے رشتے سوتیلے نہیں ہوں گے؟……اور باپ……وہ باپ جو اس عیسائی عورت کے لیے عبداللہ کی ماں کو ذرا سی عزت نہ دے سکا ……جو عبد اللہ کی کے لیے چند روپے نکالتے ہوئے اپنی جیب پر بھاری بوجھ محسوس کرتا تھا……جس کو مہینوں اس سے بات کرنے کی فرصت نہیں ملتی تھی……اس کے حوالے کر دوں اور یہ سمجھوں کہ میں نے اپنا دل ’بڑا‘ کر کے عبد اللہ کے لیے بہت بڑی قربانی دی ہے……؟‘‘۔
’’نہیں……‘‘، وہ اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے قطعیت سے بولی،’’عبد اللہ کے حوالے سے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کروں گی……وہ میرا بیٹا ہے……میری جان ہے……چار سال سے میں ہی اس کے سب رشتے نبھا رہی ہوں……اور آئندہ بھی میں جو ضروری ہوا کروں گی، مگر عبداللہ کو اس بے رحم شخص کے حوالے نہیں کروں گی!!……اونہہ! گر اس کواولاد اتنی پیاری ہوتی تو وہ چھوڑ دیتا اپنی بیوی کو بیٹے کی خاطر……مگر نہیں……اس کو سب کچھ چاہیے……‘‘
’’مگر آپ سن لیں……عبداللہ میں میری جان ہے……کچھ بھی ہو جائے، میں عبداللہ کو نہیں چھوڑ سکتی۔ زندگی میں مجھے مزید کون سے رشتے نبھانے ہوں گے……یہ سوال ابھی پیدا نہیں ہوا۔ مگر عبداللہ موجود ہے، اور فی الحال مجھے ایک ماں کی حیثیت سے اپنا رشتہ نبھانے کی ضرورت ہے……آئندہ بھی، میں اپنے لیے جو بھی فیصلہ کروں گی، آپ بے فکرر ہیں، میں عبداللہ پر کبھی آنچ نہیں آنے دوں گی……وہ میرا بیٹا ہے، مجھ سے زیادہ کسی کو اس کی فکر نہیں……!‘‘۔
عمیر اسے ٹوکے بغیر سن رہا تھا۔ اس کی بات ختم ہوئی تو اس نے سر کو ذرا سا خم دے کر گویا اس کی تائید کی۔’’تم ٹھیک کہہ رہی ہو……میں تم سے متفق ہوں……سو فیصد!‘‘۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭