جن کو بننا تھا بتول!

 اللہ رب العزت ہمارے خالق ہیں، مالک ہیں، پالنہار ہیں، رب ہیں؛ تنہا اسی رب کی بادشاہی تب بھی تھی جب کچھ نہ تھا، آج بھی ہے اور تا ابد رہے گی؛ وہ سلطان ہے، وہ شہنشاہ ہے اس نے جس کو چاہا جیسے چاہا تخلیق فرمایا اور ہر ایک کو بہترین ساخت، بہترین شکل اور بہترین کردار عطا کیا۔ جنھیں انسان بنایا، انھیں اپنی رحمت سے اشرف المخلوقات بنایا، وہ چاہتا تو زمین پر رینگنے والا کوئی سانپ بچھو یا چار پاؤں پر چلنے والا کوئی کتا یا سور بنا دیتا، چاہتا تو ذہن و دل انسان کا دیتا اور ساخت بدترین جانور کی؛ کسی مخلوق کے شایاں نہیں کہ وہ یہ سمجھے کہ اللہ رب العزت نے اس کے استحقاق کی بنا پر اسے اچھی جنس، اچھی شکل، اچھا ذہن، زیادہ مال یا کثیر اولاد سے نوازا ہے؛ یہ سراسر اللہ رب العزت کی رحمت ہے کہ انسانوں کی اکثر تعداد کو نک سک سے درست کرکے مکمل انسان بنایا، پھر بعض کو بعض نقائص کے ساتھ بھی پیدا فرمایا تاکہ مکمل انسان ان کو دیکھ کر اپنی نعمتوں کا شکر ادا کریں اور جس میں کچھ نقص ہے وہ صبر کرے اور اللہ کی عطا کردہ دیگر نعمتوں کا شکر ادا کرے۔

اسی طرح اللہ رب العزت نے ہر جنس سے اس کے جوڑے پیدا فرمائے۔ انسانوں میں، جنات میں، جانوروں میں، پھولوں، پودوں میں اور اس سب میں بھی جنھیں انسان جانتا ہے اور جنھیں نہیں جانتا۔ اصل بات اللہ رب العزت کو پہچاننے، اس کی قدرت کاملہ اور حکمت کے ادراک اور اس کی شہنشاہی تسلیم کرنے کی ہے۔ انسان اگر سلیم فطرت رکھتا ہو تو وہ صحرا میں بسنے والا بدو بھی ہوتو کائنات میں اللہ رب العزت کی جابجا بکھری نشانیوں کو دیکھ کر اپنے خالق حقیقی کو پہچان جاتا ہے اور اگر زیغ قلب کا مریض ہو تو چاند چھوڑ مریخ کو پہنچ کر بھی اسے اللہ رب العزت نظر نہیں آتا۔ ہم مسلمان جو زبان سے لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کرتے ہیں، ہمارے اعمال اس کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ لا الٰہ الا اللہ ہمارے دلوں کے اندر بھی پیوست ہے یا نہیں۔ ہماری زبانیں جو الفاظ اگلتی ہیں، وہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارے دلوں میں رب واحد کے شہنشاہ ہونے ، اس کے مختار کل ہونے اور اس کے نہ صرف خالق بلکہ مالک الملک ہونے کا ادراک اور اس کا یقین موجود ہے یا نہیں۔ جن دلوں نے اپنے رب کی شہنشاہی کو تسلیم کیا انھیں ایک طرف تو اپنی ذات اس کائنات کے حقیر ترین ذرے سے بھی حقیر دکھائی دیتی ہے اور دوسری جانب اپنے رب کی بندگی کی سعادت کی بدولت ان کی رسائی عرش معلیٰ تک ہوتی ہے۔ یہی مطلوب ہے کہ انسان اپنے آپ کو اپنے رب کے غلام کے سوا کچھ نہ سمجھے، جو رب اسے بتادے وہ کرے اور رب جس سے منع فرما دے وہ رک جائے، رب جن فرائض کا اسے پابند بنائے انھیں ادا کرے اور(اپنی ذات سے متعلق) حقوق کی عدم ادائیگی پر صبر کرے اور اپنے رب سے مدد طلب کرے۔

جیسے جیسے دنیا اپنے انجام کی طرف بڑھتی جارہی ہے، فرائض بھلائے جا رہے ہیں اور حقوق کی جنگ بھڑکتی جارہی ہے۔ ان میں سے جو جنگیں حقیقی ہیں، انھیں لغو اور مہمل قرار دے کر دبا دیا جاتا ہے، مثلاً قیدیوں کے حقوق، ان مسلمان بچوں اور عوام کے حقوق جو غاصبین کی لگائی اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے مرنے پر مجبور ہیں، فلسطینیوں کے حقوق، ترکستانی (ایغور)مسلمانوں کے حقوق، روہنگیا مسلمانوں کے حقوق، ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کے حقوق وغیرہ اور جن جنگوں کی کوئی بنیاد ہی نہیں ان کا واویلا صبح و شام سنائی دیتا ہے، جن میں سرفہرست عورتوں کے حقوق ہیں۔ یہ عورتیں جو سڑکوں پر اپنے حقوق کی خاطر نکلتی ہیں، انھیں عورت کہنا بھی لفظ عورت(جس کے لفظی معنی مستور کے ہیں) کی توہین معلوم ہوتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ سڑکوں پر نکلی ان مادر پدر آزاد عورتوں کو دیکھ کر قریباً انھی جیسی ایک بے پردہ خاتون نے تبصرہ کیا کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان خواتین کو مزید کس قسم کی آزادی چاہیے۔ آپ ان خواتین کے حلیے ملاحظہ کریں، قسم قسم کے عریاں ملبوسات میں ملبوس، سر عام سگریٹ پیتی، ہاتھوں میں سمارٹ فون تھامے، نعرے لگاتی، آوازے کستی یہ تمام خواتین اپنے گھروں سے بےنیاز ہیں، ان میں سے ہر ایک خواہ وہ بہن بیٹی ہو یا بیوی اور ماں اپنے گھر اور گھر والوں سے اپنے شوہر و بچوں سے بے نیاز ہے، کسی قسم کی ذمہ داری اس کے کاندھوں پر نہیں ہے، بہترین برانڈز کے لباس، جوتے ، ہینڈ بیگ، گاڑیاں اور موبائل فون ان کے پاس ہیں، مزید انھیں کیا چاہیے؟

پھر ایک کلاس وہ بھی ہے جو سڑکوں پر تو نہیں نکلتی مگر ان سے بھی چار ہاتھ آگے ہے۔ یہ وہ خواتین ہیں جو سوشل میڈیا پر فعال ہیں۔ غالباً ان کے باپ بھائیوں کو بھی علم نہیں ہوتا کہ ان کی عزت کیسے کیسے سر بازار نیلام ہورہی ہے۔ ہر ایک کی رسائی انٹرنیٹ تک ہے، ہر ایک کے ہاتھ میں سمارٹ فون ہے، کیمرہ ہے، ہر ایک ملین ملین فالورز کو اپنے پیچھے لگانے کی دوڑ میں ایک دوسرے سے بڑھ کر برہنگی ، عریانیت اور فحاشی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ ایسے ہی دو واقعات جنھوں نے کچھ عرصہ قبل میڈیا کی توجہ کھینچی ، مصری حکومت کی طرف سے دو بیس بائیس سالہ مصری دوشیزاؤں کو دی جانے والی دس اور چھ سال قید کی سزا سے متعلق ہیں۔ مذکورہ لڑکیوں میں سے ایک ساڑھے نو لاکھ اور دوسری دس لاکھ سے اوپر فالورز رکھتی ہے۔ اور ان کے سوشل میڈیا افعال میں فحش رقص، طرح طرح سے اپنے جسم کے ایک ایک عضو کی نمائش اور دوسری عورتوں کو اس فحاشی کے ذریعے پیسے کمانے کی دعوت دینا شامل ہے۔ مصری حکومت، جو خود بھی دین سے اتنی ہی دور ہے جتنی کوئی بھی سیکولرحکومت، نے اس واقعے کا نوٹس تب لیا جب ان میں سے ایک لڑکی نے ایک ایسے انٹرنیٹ فورم کے لیے اشتہاری پیغام دیا جو ویڈیوز پوسٹ کرنے پر ادائیگی کرتا ہے، پیغام میں لڑکی نے خواتین کو تحریض دی کہ وہ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کے ذریعے گھر بیٹھے پیسے کما سکتی ہیں، ان کی جسمانی کشش جتنے زیادہ فالورز کھینچےگی ان کو ملنے والی رقم میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔ اس پر بعض لوگوں نے تبصرہ کیا کہ یہ تو قحبہ گری ہے، اس میں اور ایک طوائف میں کیا فرق ہے، وہ بھی اپنا جسم بیچ کر پیسہ کماتی ہے اور تم بھی اسی چیز کی دعوت دے رہی ہو، اس قسم کے تبصروں سے حکومتی حلقوں کی توجہ ان خواتین کی طرف مبذول ہوئی اور مصری عدالت نے انھیں سزا سنائی۔عدالت نے اپنے بیان میں سزا کی دیگر وجوہات بتانے کے علاوہ یہ بھی کہا کہ مذکورہ خواتین مصری معاشرے اور خاندانی اقدار کے خلاف کام کررہی تھیں اور دیگر عورتوں کو ورغلا رہی تھیں۔

اس سزا پر انٹرنیشنل میڈیا میں خاصی لے دے ہوئی کہ اب خواتین گھر بیٹھ کر اپنی مرضی سے اپنا سوشل میڈیا اکاؤنٹ بھی نہیں چلا سکتیں؟ اور اگر یہ خواتین نسبتاً غریب طبقے سے تعلق نہ رکھتی ہوتیں تو انھیں ایسی سزا نہ سنائی جاتی ، نیز یہ بھی کہ معاشرتی اور خاندانی اقدار کیا ہیں، ان کی وضاحت کہاں موجود ہے؟ اسلام ، مسلمانیت، اللہ رب العزت کے احکام، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا حوالہ تو نہ عمل کرنے والوں کے عمل میں موجود ہے اور نہ ہی سزا سنانے والوں کی سزا میں۔ گویا اسلام سے تو دونوں اطراف یکساں بری ہیں۔ رہ گئی بات ایک مشرقی معاشرے کی مشرقی روایات اور اقدار کی تو حقیقت یہ ہے کہ یہ بھی اب کہاں باقی رہ گئی ہیں۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مفہوم ہے کہ جب تم میں حیا نہ رہے تو جو جی چاہے کرو؛ حیا دراصل وہ رکاوٹ ہے جو انسان کو حلال و حرام کی جائز و ناجائز کی اور اچھے اور برے کی تمیز دلاتی ہے اور اس کے لیے اس کی حدود واضح کرتی ہے۔ جب حیا کا چولا اتار پھینکا پھر کہاں کی روایات اور کہاں کی اقدار۔ آج یہی میڈیا جو ان خواتین کو سزا سنائے جانے کے خلاف سیخ پا ہے، کل انھی خواتین کےان کے فالورز کے ہاتھوں preplanned rape‘ (یاد کیجیے مینار پاکستان ریپ کیس) کی داستان مرچ مسالے لگا کر نشر کررہا ہوگا اور ان خواتین کو اس واقعے میں کلیتاً معصوم قرار دے رہا ہوگا۔

مسلمان عورت یا تو مسلمان کا ٹیگ اپنے ساتھ سے ہٹا لے پھر میرا جسم میری مرضی کے نعرے لگاتی پھرے، مگر جس کی غیرت اس ٹیگ کو خود سے دور کرنا گوارا نہیں کرتی اسے یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ اللہ رب العزت نے اسے عورت بنا کر اسے چند فرائض کا پابند کیا ہے۔ اس کے حقوق اس کے باپ بھائی شوہر اور بیٹوں پر ہیں۔ مگر ان حقوق کو بھی اللہ رب العزت نےغیر واضح نہیں چھوڑا کہ ہر چیز جو عورت چاہے اور مانگے وہ اس کا حق ہے۔ اسی طرح مرد کے اوپر نہ صرف اس کے گھر کی بلکہ امت کی کثیر ذمہ داریاں عائد کی ہیں اور اس کے حقوق اس کے بیوی، بچوں ،اس کے رشتہ داروں کے ذمہ ہیں۔ پس جو اللہ کو اپنا رب جانتا اور مانتا ہے، جو اس کی غلامی پر راضی اور خوش ہے اسے اس کی مرد و زن کی اس تقسیم پر بھی راضی اور خوش ہونا چاہیے کہ اللہ رب العزت کے کسی ایک فیصلے کو بھی نہ ماننے اور رد کرنے اور اس میں نقص نکالنے سے آدمی کے اپنے دین میں نقص آتا ہے۔ اسلام نے عورت کو حقوق کے دائرے میں بہت کچھ عطا کیا ہے اور جو فرائض اس کے ذمے ہیں وہ ان حقوق کے مقابلے کچھ بھی نہیں، مگر اسلام ہماری زندگیوں میں، ہمارے معاشروں میں ہے کہاں؟ اسے تو ہم نے دودھ سے مکھی کی طرح نکال پھینکا ہے۔ جو مسلمان کہلاتے ہیں ان کی اپنی زندگیوں بھی اسلام بس اتناہی ہے جتنا ان کی معاشرت اور معیشت کو ان کے معیار زندگی کو سوٹ کرتا ہے۔مسلمان ممالک میں کالجوں یونیورسٹیوں میں پڑھنے والی یا جاب کرنے والی اکثر لڑکیاں اور خواتین جو اپنے آپ کو کٹرمسلمان سمجھتی ہیں ان کی مسلمانی بس سرڈھانپنے تک ہی ہے یا کبھی کبھار نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے کی حد تک۔ باقی جسم پر کسا ہوا لباس پہننا، مخلوط نظام تعلیم، دفاتر میں مخلوط ماحول، مخلوط نجی محفلیں اور بازاروں میں مارا مار صبح سے شام تک پھرنا، موسیقی کی دھنوں پر سر دھننا ، صنف مخالف سے دوستی رکھنا اور سوشل میڈیا پر جو چاہے جیسے چاہے پوسٹ اور وصول کرنا…… ان سب سے ان کی لکڑ ہضم پتھر ہضم مسلمانی پر کوئی ضرب نہیں پڑتی۔

اسلام ایک نظریہ ہے، ایک دین ہے، مکمل نظامِ حیات ہے، ایک مکمل پیکج ہے جس میں pick & choose (اختیار ) کی گنجائش نہیں ہے؛ یا تو پورے کا پورا اسلام لے لو اور خود کو اس کے رنگ میں رنگ دو ، یا پھر پورے کے پورے باہر نکل جاؤ، اور جو آدھا دین کے اندر اور آدھا باہر رہنے پر خوش ہے تو پھر اللہ رب العزت کی ذات بہت غیرت والی ہے اسے بھی اس کی کوئی پروا نہیں جسے اللہ اور اس کے دین کی پروا نہیں۔ کسی شاعر نے کئی عشروں پہلے جو کہا تھا کہ

قوم کی وہ بیٹیاں جن کو بننا تھا بتول
کالجوں میں سیکھتی ہیں ناچ گانے کے اصول

بھلا ہوا کہ کہنے والے نے آج کے دور کی بیٹیاں نہیں دیکھیں، جو خواہ کالج جائیں یا نہ جائیں گھر بیٹھے ہی نہ صرف ناچ گانے کے اصول سیکھ رہی ہیں بلکہ عوام الناس کو ان سے لطف اندوز ہونے کے بھرپور مواقع بھی ’بالکل مفت‘ فراہم کررہی ہیں۔ ایک بنت حوا عافیہ صدیقی ہیں جو سینے میں اللہ پاک کا کلام محفوظ کیے، کفار کے نرغے میں ہر روز اپنی عزت و عصمت لٹنے کا ماتم کرتی ہیں اور فیصل اکرمؒ شہید جیسے غیرت مند بھائی اپنی بہن کی عزت بچانے کی خاطر اپنی جان قربان کرتے ہیں، یا وہ عفت مآب ترکستانی بہنیں ہیں جو اپنے ہی گھروں میں غاصب ظالم چینیوں کے ہاتھوں ہر رات زیادتی کا نشانہ بنتی ہیں اور دوسری طرف امت کی یہ بیٹیاں ہیں جو بصد شوق اپنی عزت و عصمت لٹانے کو تیار ہیں۔ ایسے میں غیرت کے نام پر کوئی قتل ہوجائے تو قاتل کو کیا ملامت کرنا؟

معاشرے کے بگاڑ میں، دینی، معاشرتی اور خاندانی اقدار و روایات کے بکھرنے میں، خاندانی بنیادوں کے منہدم ہونے میں ہم سب کا کردار ہے، ہم سب قصوروار ہیں۔

حدیث پاک میں جو کشتی کی مثال دی گئی ہے کہ کشتی میں سوراخ کرکے پانی حاصل کرنے والوں کو نہ روکنے والے بھی ڈوبتی کشتی کے ساتھ ساتھ ڈوبے۔ ایسے ہی ہم اور آپ جو سمجھتے ہیں کہ ہم اور ہمارے بچے تو درست راہ پر ہیں، باقی معاشرے کا سدھار ہمارے ذمے نہیں، وہ بھی اس آگ سے اپنا دامن بچا نہیں پائیں گے۔ زینب انصاری اور اس جیسی دیگر کئی بچیاں شریف دیندار گھرانوں کی کم سن نوخیز کلیاں تھیں، کیا معاشرے میں پھیلنے والی بے راہ روی کی آگ نے انھیں اور ان کے خاندانوں کو لپیٹ میں نہیں لیا، اور وہ ننھی بچی کائنات جسے کسی شقی القلب نے اپنی سفاکی کا نشانہ بنایا اور اپنے طور پر قتل کرکے کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا، وہ معصوم بچی جس کی سانسیں باقی تھیں آج ایک زندہ لاش کی صورت موجود ہے، نہ بول سکتی ہے، نہ حرکت کرسکتی ہے، بس سانسیں ہیں جو اس کا ناتا اس دنیا سے جوڑے ہوئے ہیں۔ اپنے آپ کو ، اپنی اولاد کو، اپنے خاندانوں کو اور اپنی امت کو بے راہ روی، فحاشی، عریانی اور مادر پدر آزادی کے طوفان سے بچانے کے لیے ہم سب کو ہی محنت کرنی ہے، ہاتھ سے زبان سے ہم سب کو اپنی اپنی صلاحیتیں استعمال کرنی ہیں۔ انسان سوچتا ہے کہ اس موضوع پر اتنا اتنا کچھ لکھا اور بولا جارہا ہوتا ہے پھر ایسے گھناؤنے واقعات میں کب کمی آجاتی ہے، کہاں کسی کو ان مضامین سے ہدایت ملتی ہے؛ ہدایت دینے والی ذات اللہ پاک کی ہے، میرے اور آپ کے ذمے اللہ نے کوشش رکھی ہے، پس ہم کوشش کریں اور اس درد کے ساتھ کریں گویا ہمارا اپنا گھر اس آگ کی لپیٹ میں ہے، تو ان شاء اللہ یہ کوششیں رنگ لائیں گی اور عند اللہ ہم اللہ کے حضور کھڑے ہونے اور معذرت پیش کرنے کے قابل بھی ہوسکیں گے۔

٭٭٭٭٭

Exit mobile version