ہندُتوا نظریہ رکھنے والی تنظیمیں
اکھِل بھارتیا ہندو مہاسبھا (All-India Hindu Grand-Assembly)
ہندو مہاسبھا برصغیر میں پہلی ہندو قوم پرست تنظیم ہے۔ ہندُتوا نظریے کے بانی ’وینائک دامودر ساورکر‘ کا تعلق اسی تنظیم سے تھا اور وہ اس تنظیم کا سربراہ بھی رہا۔
اس تنظیم کے قیام کے محرکات میں ۱۹۰۵ء میں تقسیمِ بنگال، ۱۹۰۶ء میں مسلم لیگ کا قیام اور ۱۹۰۹ء میں برطانوی راج کی طرف سے ’مورلے منٹو اصطلاحات‘ (Morley-Minto Reforms) جن کے تحت مسلمانوں کو اسمبلی میں مخصوص نشستیں دے دی گئی تھیں، شامل ہیں۔
ان سب واقعات نے ہندو قوم پرستوں میں بے چینی پیدا کردی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ۱۹۰۷ء میں جب کانگرس کے صدارتی انتخابات ہوئے تو اس میں شدید اختلاف پیدا ہو گیا اور کانگرس ’متشدد‘ اور ’معتدل‘ کے دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی۔ معتدل طبقے کی قیادت ’گوپال کرشن گوکھیل‘ (Gopal Krishna Gokhale)کر رہا تھا جبکہ متشدد طبقے کی قیادت بال گنگادھر تِلک (Bal Gangadhar Tilak)کر رہا تھا اور تِلک کے ساتھ اُس وقت پنجاب سے لالہ لاجپت رائے اور بنگال سے بپن چندر پال (Bipin Chandar Pal) کھڑے تھے۔
۱۹۰۹ء میں کانگرس کے اسی متشدد طبقے سے تعلق رکنے والے رہنما لالہ لاجپت رائے اور آریا سماج1 سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں، لال چند اور شادی لال ، نے پنجاب ہندو سبھا قائم کی۔ جس کا مقصد ہندوؤں کے مفادات کا تحفظ رکھا گیا۔مدن موہن مالاویہ نے اکتوبر ۱۹۰۹ء میں لاہور میں اس کے پہلے اجلاس کی صدارت کی۔ آنے والے برسوں میں پنجاب کی طرح کی مزید ہندو سبھائیں دیگر صوبوں میں بھی قائم کی گئیں۔
اپریل ۱۹۱۵ء میں ہری دوار میں کُمبھ کے میلے کے دوران پورے ہندوستان کی سطح پر ہندو سبھا قائم کی گئی جس کا نام ’سروْدیشک ہندو سبھا‘ (Sarvadeshak Hindu Sabha) رکھا گیا۔ اس اجلاس میں گاندھی اور آریا سماج کا دوسرا سربراہ منشی رام (سوامی شردھانند) بھی موجود تھے اور انہوں نے سروْدیشک ہندو سبھا کے قیام کی مکمل حمایت کی۔ اجلاس کی صدارت ’منِندر چندر نندی‘ (Manindra Chandra Nandy) کر رہا تھا، اور اس نے اعلان کیا کہ سبھا برطانوی راج سے وفادار رہے گی۔
بال گنگا دھر تِلک کی زندگی تک ہندو قوم پرست کانگرس کے ساتھ ہی جڑے رہے اور ہندو مہاسبھا کی حیثیت کانگرس کے ایک ذیلی گروہ کی ہی رہی۔ لیکن ۱۹۲۰ء میں تِلک کے مرنے کے بعد قوم پرستوں اور سیکولر طبقے کے درمیان خلیج میں اضافہ ہو گیا اور اپریل ۱۹۲۱ء میں مہاسبھا کانگرس سے مکمل طور پر علیحدہ ہو گئی اور ایک آزاد تنظیم کی حیثیت اختیار کر گئی۔ اپنے چھٹے اجلاس کے دوران اس تنظیم نے اپنا نام بدل کر اکھِل بھارتیا ہندو مہاسبھا (Akhil Bhartiya Hindu Mahasabha) رکھ لیا۔ اس اجلاس میں تنظیم کے آئین میں تبدیلی کی گئی اور اس میں برطانوی راج سے وفاداری کاجملہ ختم کر دیا گیا اور اس کی جگہ ’ایک متحد اور خودمختار ہندو قوم‘ سے وفاداری کو شامل کیا گیا۔
اگرچہ ہندو مہاسبھا پہلی ہندو قوم پرستانہ جماعت تھی اور ہندُتوا کا نظریہ بھی اسی نے کھڑا کیا اور ابتدا میں یہ ہندوؤں میں خاصی مقبول بھی ہوئی ۔ لیکن بہت جلد اس نے ہندوؤں میں چاہے وہ قوم پرست ہوں یا سیکولر اپنی اہمیت کھو دی اور اس کا حلقہ اثر ۱۹۲۰ء کی دہائی سے ہی بہت محدود ہو کر رہ گیا۔ اس کے پیچھے درج ذیل محرکات کارفرما رہے ہیں۔
آر ایس ایس کا قیام
آر ایس ایس کا قیام ہندو مہاسبھا کے رہنماؤں کی خواہش سے ہی ہوا تھا ۔ اس لیے ابتداء میں آر ایس ایس کا تاثر یہی بنا کہ یہ مہاسبھا کا ہی ’یوتھ ونگ‘ ہے۔ لیکن آر ایس ایس نے جلد ہی اپنی آزاد حیثیت قائم کر لی اور بہت جلد ہندو قوم پرستوں میں مہاسبھا کی جگہ لے لی۔
تحریکِ آزادی کی مخالفت
۱۹۲۱ء میں اگرچہ مہاسبھا نے اپنے آئین سے برطانوی راج سے وفاداری کا جملہ ختم کر دیا تھا لیکن عملی طور پر اس تنظیم نے کبھی برطانوی راج سے آزادی کی تحریک کی نہ حمایت کی اور نہ ہی اس میں کبھی شرکت کی۔اسی طرح گاندھی کی قیادت میں کانگرس نے بہت سی سِول نافرمانی کی تحریکات (ستیاگراہ) شروع کیں ، لیکن مہاسبھا نے ان سے بھی ہمیشہ خود کو دور ہی رکھا۔2
ہندو مہاسبھا کا ایک اور متنازع عمل ۱۹۳۹ء میں حکومت سازی کے لیے کانگرس کے مقابلے میں مسلم لیگ کے ساتھ اتحاد تھا۔ یہ جماعت سندھ، سرحد اور بنگال میں مسلمانوں کے ساتھ اتحادی حکومت میں شامل رہی۔ مارچ ۱۹۴۳ء میں سندھ حکومت ہندوستان کی وہ پہلی صوبائی اسمبلی بن گئی جس نے پاکستان کے قیام کی قرارداد منظور کی۔ اس حکومت میں ہندو مہاسبھا کے ارکان وزراء کے عہدوں پر تھے لیکن انہوں نے اپنی وزارتیں چھوڑنے کی بجائے صرف احتجاج ریکارڈ کروانے پر اکتفا کیا۔
کانگرس نے جب ’ہندوستان چھوڑو تحریک‘ (Quit India Movement) شروع کی تو ہندو مہاسبھا نے کھل کر اس کی مخالفت کی۔ بلکہ اس کا سربراہ ’ساورکر‘ اس حد تک گیا کہ اس نے مہاسبھا کے ارکان کو پورے ہندوستان میں خط لکھا اور کہا کہ ’(سرکاری عہدوں پر) اپنی ذمہ داریوں پر جمے رہو‘۔ اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے بنگال میں ہندو مہاسبھا کے رہنما سیام پرساد مکھر جی جو اس وقت بنگال حکومت میں اتحادی تھا اس نے برطانوی حکومت کو خط لکھا اور اپنی تنظیم اور بنگال حکومت کی وفاداری کا یقین دلایا اور کہا کہ بنگال حکومت ہر طریقہ بروئے کار لائے گی تاکہ اس تحریک کو ناکام بنایا جا سکے، اس کے ساتھ ساتھ برطانوی حکومت کو اس تحریک کو ناکام بنانے کے لیے مشورے بھی دیے۔
قدامت پسند برہمنیت
ایک اور چیز جس نے اس کی مقبولیت کو متاثر کیاوہ یہ تھی کہ اس میں ہمیشہ اعلیٰ ذات کے برہمن غالب رہے ہیں اور یہ ہندوؤں میں ذات پات کے نظام کی مکمل حمایت کرتی ہے ، اور نچلی ذات کے لوگوں کو مخصوص نشستیں دینیں اور انہیں مراعات دینے کی سخت مخالفت کرتی ہے۔ مہاسبھا ہندوستان کو ’ہندو راشٹر‘ تصور کرتی ہے اور’مانوْ سِمْرِتی‘ (جسے مانوْ دھرم شاستر بھی کہتے ہیں) کو ہندوستان کا قانون بنانے کا مطالبہ کرتی ہے۔ اور اس قانون میں بھی ہندوؤں کی ذاتوں کے اعتبار سے ان کے لیے حقوق و فرائض متعین کیے گئے ہیں۔ ان نظریات کی وجہ سے مہاسبھا کا دائرہ کار اعلیٰ ذات کے ہندوؤں تک محدود ہو کر رہ گیا۔
گاندھی کا قتل
گاندھی کے قتل نے بھی مہاسبھا کی ساکھ کو شدید متاثر کیا۔ ناتھورام گوڈسے اور اس کے ساتھ شریک تمام افراد ، دگمبر، گوپال گوڈسے، نارائن آپتے، وشنو کرکرے اور مدن لال پاہوا،ہندو مہاسبھا کے رکن تھے۔ مہاسبھا کے سربراہ ساورکر پر اس قتل کا منصوبہ ساز ہونے کا الزام تھا، اگرچہ ساورکر کی شمولیت کے بہت سے شواہد موجود تھے لیکن تکنیکی بنیادوں پر اسے اس الزام سے بری کر دیا گیا۔ گاندھی کے قتل نے مہاسبھا کے اثرورسوخ کو پہلے سے بھی کہیں زیادہ محدود کر کے رکھ دیا۔ پورے ملک میں مہاسبھا اور اس کے رہنماؤں کے خلاف غم و غصہ پایا جاتا تھا۔ مہاسبھا کا اہم رکن اور بنگال میں اس کا سربراہ سیام پرساد مکھر جی علیحدہ ہو گیا اور آرایس ایس سے تعلقات قائم کر کے بھارتیا جن سنگھ بنائی جو کہ بعد میں بھارتیا جنتا پارٹی بن گئی۔
اسلام دشمنی
ہندو مہاسبھا آج بھی موجود ہے لیکن اس کی موجودگی زیادہ تر صرف مہاراشٹر ریاست میں ہی ہے اور باقی ریاستوں میں اس کی موجودگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ لیکن اسلام دشمنی میں یہ آج بھی باقی قوم پرستوں کے شانہ بشانہ ہی چل رہی ہے۔ اس حوالے سے چند مثالیں درج ذیل ہیں:
-
ایودھیا میں بابری مسجد کو رام مندر بنانے کی تحریک کا علَم بالاصل مہاسبھا نے ہی ۱۹۴۶ء میں اٹھایا تھا۔ پھر مہاسبھا کے غنڈوں نے ۱۹۴۹ء میں مسجد کے اندر بت رکھ دیے جس کے بعد مسجد کو متنازع قرار دے کر مستقل طور پر بند کر دیا گیا تھا۔
-
۲۰۱۴ء میں بھارتیا جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد ہندو مہاسبھا نے گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کے کردار کو دوبارہ زندہ کرنے اور اسے ایک محب وطن ہیرو کے طور پر پیش کرنے کی مہم شروع کی۔ مہاسبھا نے وزیر اعظم نریندر مودی سے درخواست کی کہ ناتھو رام گوڈسے کا مجسمہ نصب کیا جائے۔ ۳۰ جنوری ۲۰۱۵ء کوگوڈسے کی برسی کے موقع پر مہاسبھا نے ایک دستاویزی فلم ’دیش بھگت ناتھورام گوڈسے‘ جاری کی۔ گوڈسے کا بت بنا کر اس کا ایک مندر بنانے کی کوششیں بھی چل رہی ہیں اور یہ مطالبہ بھی کیا جار ہا ہے کہ ۳۰ جنوری کو ’شوری دیواس‘ (بہادری کا دن) کے طور پر سرکاری طور پر منایا جائے۔ گاندھی کی یہ مخالفت اور اس کے قاتل کو ہیرو بنا کر پیش کرنے کی واحد وجہ یہی تھی کہ گاندھی نے مسلمانوں کے ساتھ نرم رویہ کیوں رکھا اور تقسیم پر راضی کیوں ہوا۔
-
۲۰۱۵ء میں ہندو مہاسبھا کی نائب صدر ’سادھوی دیوْ ٹھاکر‘ نے ایک متنازع بیان جاری کیا اور حکومت سے مسلمانوں اور عیسائیوں کی بانجھ کاری مہم کا مطالبہ کیا۔ اس نے کہا:
’’ مسلمانوں اور عیسائیوں کی آبادی روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اس کی روک تھام کے لیے مرکز کو ایمرجنسی نافذ کرنی چاہیے ، اور مسلمانوں اور عیسائیوں کو زبردستی بانجھ بنانے کی مہم شروع کی جانی چاہیے تاکہ یہ اپنی تعداد میں اضافہ نہ کر سکیں۔‘‘3
راشٹریہ سوَائم سیوَک سَنگھ(National Volunteer Organisation)
راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) ہندو رضاکاروں پر مشتمل ہندوستان کی سب سے بڑی تنظیم ہے اور اپنے کارکنوں کی تعداد کے اعتبار سے یہ دنیا کی سب سے بڑی غیر سرکاری تنظیم ہے۔اس وقت پورے ہندوستان میں بلکہ اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہو گا کہ پوری دنیا میں ہندو قوم پرستی، ہندُتوا اور ہندو راشٹر جیسے نعروں کا علَم اسی تنظیم نے اٹھا رکھا ہے اور پورے ہندوستان میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف ’بھگوا دہشت گردی‘ (Saffron terrorism) اور ہجوم زنی (mob lynching) اسی تنظیم سے منسلک غنڈے کرتے ہیں۔
آر ایس ایس کو ریاست مہاراشٹر کے شہر ناگپور سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر کیشاوْ بالی رام ہیڈگوار نے قائم کیا ۔ ہندو مہاسبھا کے رہنما ’بالاکرشن شِوْ رام مونجے‘ (Balakrishna Shivram Moonje) ہیڈگوار کا سیاسی گرو تھا۔ مونجے نے ہیڈگوار کو کلکتہ میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے اور وہاں بنگالیوں کی خفیہ انقلابی تنظیموں سے لڑائی کے گُر سیکھنے کے لیے بھیجا۔ وہاں ہیڈگوار ایک برطانیہ مخالف انقلابی گروہ ’انوشِلن سَمِتی ‘ (Anushilan Samiti)4 کا رکن بن گیا۔ ان تنظیموں کے خفیہ طریقہ کار کو ہیڈگوار نے بعد میں آر ایس ایس کو منظم کرنے کے لیے استعمال کیا۔
ہیڈگوار ’بال گنگا دھر تِلک ‘(Bal Gangadhar Tilak) کے نظریات سے متاثر تھا اور وہ ۱۹۱۸ء میں تِلک کی سوْراج مہم (Home Rule Campaign)میں متحرک بھی رہا۔ ۱۹۲۳ء میں جب ساورکر کی ’ہندُتوا‘ پر کتاب نشر ہوئی تو اسے پڑھ کر بھی ہیڈگوار بہت متاثر ہوا۔ ۱۹۲۵ء میں وہ رتناگری جیل میں ساورکر سے ملنے بھی گیا۔ ساورکر سےملنے اور اس کے نظریات پڑھنے کے بعد ہیڈگوار انقلابی سرگرمیوں سے دور ہو گیا۔ ’بال گنگادھر تِلک‘ اور ’وینائک دامودر ساورکر‘ کی تحریرات سے اثر لینے کے نتیجے میں ہیڈگوار قائل ہو گیا کہ ہندوؤں کا ثقافتی اور مذہبی ورثہ ہندوستانی قومیت کی بنیاد ہونا چاہیے۔
ہیڈگوار نے آر ایس ایس کی بنیاد ۱۹۲۵ء میں دسہرا کے تہوار کے موقع پر رکھی۔ اس موقع پر اس کے ساتھ اس کا سیاسی گرو اور ہندو مہاسبھا کا رہنما ’مونجے‘، ساورکر کا بڑا بھائی گنیش ساورکر، آر ایس ایس میں ہیڈگوار کا نائب بننے والا ’لکشمن ومَن پرنج پے‘بھی موجود تھے۔
’مونجے‘ ۱۹۲۷ء سے ۱۹۳۷ء تک مہاسبھا کا سربراہ رہا لیکن ۱۹۲۵ء میں آر ایس ایس کے قیام کے بعد سے لے کر اپنی موت تک وہ اِس کا سرپرست اور معاون رہا۔ اس نے اور گنیش ساورکر نے مل کر آر ایس ایس کی شاخوں کو مہاراشٹر، پنجاب، دہلی اور راجواڑوں (شاہی ریاستیں یا پرنسلی اسٹیٹس) میں مقامی رابطوں کی مدد سے پھیلایا۔ ساورکر نے بھی بعد میں اپنی نوجوانوں کی تنظیم ’تَرُن ہندو سبھا‘ (Tarun Hindu Sabha)کو آر ایس ایس میں ضم کر دیا۔ ان وجوہات کی بنا پر برطانوی حکومت آر ایس ایس کو ہندو مہاسبھا کی ہی ایک ذیلی رضاکار تنظیم تصور کرتی تھی۔
ہیڈگوار کو یہ تصور پسندنہیں تھا اسی لیے اس نے ۱۹۳۹ء میں اگلے سرسنگھ چالک کے لیے گولوالکر کا انتخاب کیا کیونکہ ہیڈگوار کی نظر میں گولوالکر یہ صلاحیت رکھتا تھا کہ وہ اس تنظیم کے بارے میں ایسا تاثر ختم کر سکے۔
ہیڈگوار نے اس تنظیم کے نام میں ’راشٹریہ‘ (National) کا لفظ استعمال کیا حالانکہ یہ خالصتاً ہندو تحریک ہے۔ اس کے پیچھے مقصد یہی تھا کہ اس بات کا کھل کر اعلان کیا جائے کہ صرف ہندو ہی ہندوستان کی قوم کہلانے کا حق رکھتے ہیں اس لیے جب بھی ’راشٹریہ‘ کا لفظ آئے اس سے مراد ہندو قوم ہی ہو۔
ہیڈگوار نے آر ایس ایس کے لیے انقلابی ذہن رکھنے والے ہندو نوجوانوں کو بھرتی کیا۔ ان کا لباس برطانوی پولیس سے مشابہہ وردی (کالی بیگار ٹوپی، خاکی شرٹ اور خاکی نیکر)بنایا اور انہیں نیم فوجی تربیت دینی شروع کی جس میں لاٹھی، تلوار، برچھی اور خنجر چلانا شامل تھا۔ ہیڈگوار ہفتہ وار نظریاتی تربیت کا اہتمام بھی کرتا تھا جس میں ہندو ؤں کی تاریخ اور کرداروں خاص طور پر مراٹھا سلطنت کے مشہور چترپتی شیواجی کے حوالے سے آگاہی دی جاتی تھی۔ مراٹھا سلطنت ہی کے جھنڈے ’بھگوا دھواج‘ (زعفرانی جھنڈا)کو ہیڈگوار نے آر ایس ایس کی علامت اور جھنڈا بنایا۔
آر ایس ایس کے قیام کے دو سال بعد ۱۹۲۷ء میں ہیڈگوار نے ’افسران‘ کے تربیتی کیمپ کا اہتمام کیا جس کا مقصد کلیدی کارکنوں کا ایک گروہ کھڑا کرنا تھا جسے اس نے پرچارک(مبلغ) کا نام دیا۔ ان ابتدائی پرچارکوں کا کام زیادہ سے زیادہ شاخیں قائم کرنا تھا۔ہیڈگوار رضاکاروں سے مطالبہ کرتا تھا کہ پہلے وہ سادھو بنیں اور اپنی گھریلو اور پیشہ وارانہ زندگی چھوڑ کر اپنی زندگی تنظیم کے کاموں کے لیے وقف کر دیں۔
۱۹۲۷ء میں ہی جب آر ایس ایس کے سوائم سیوکوں کی تعداد ۱۰۰ تک پہنچ گئی تو ہیڈگوار نے اسے اپنے اصلی مقصد کی طرف پہلی بار آگے بڑھایا یعنی مسلم دشمنی۔ اس نے ہندوؤں کا ایک مذہبی جلوس نکالا جس میں ڈھول باجے بجائے جا رہے تھے۔ عمومی رواج یہی تھا کہ مسجد کے سامنے سے موسیقی بجاتے ہوئے گزرنا منع تھا۔ ہیڈگوار نے مسلمانوں کو اشتعال دلانے کے لیے مسجد کے سامنے سے ڈھول بجاتے ہوئے یہ جلوس نکالا۔ یہ مسجد ناگپور کے محل کے علاقے میں تھی۔ مسلمانوں نے جلوس کا راستہ روکا تو وہاں لڑائی شروع ہو گئی۔ یہ لڑائی تین دن تک جاری رہی جسے روکنے کے لیے حکومت کو فوج بلوانی پڑی۔ لیکن آر ایس ایس کے غنڈوں کے شر کی وجہ سے اس علاقے کے مسلمانوں کو اپنے تحفظ کے لیے ناگپور چھوڑ کر جانا پڑا۔ اس کارروائی کی وجہ سے آر ایس ایس کے سیوکوں کے حوصلے بھی بہت بلند ہوئے اور اسے ہندوؤں میں بہت مقبولیت بھی حاصل ہوئی جس نے تنظیم کے پھیلاؤ میں مدد دی۔
برطانوی راج کی مخالفت سے اور تحریکِ آزادی کی حمایت سے اجتناب
آر ایس ایس کے قیام کے بعد ہیڈگوار نے اس تنظیم کو تمام ایسی سیاسی تنظیموں اور سرگرمیوں سے دور رکھا جو برطانوی راج کے خلاف ہوں۔ ہیڈ گوار نے آر ایس ایس کو ایک سماجی تحریک کے طور پر متعارف کروایا۔ اور اس نے ہمیشہ اسے ہندوستان کی آزادی کی تحریک سے فاصلے پر ہی رکھا۔ ہیڈگوار اپنی تقاریر میں صرف ہندوؤں کو منظم کرنے کی بات کرتا تھا اور حکومت کے حوالے سےکسی بھی قسم کا تبصرہ کرنے سے اجتناب کرتا تھا۔
کانگرس کی طرف سے منعقد کی گئی ستیاگراہ (عدم تشدد پر مبنی سول نافرمانی کی تحریک) میں ہیڈگوار نے انفرادی طور پر شرکت کی لیکن آر ایس ایس کو رسمی طور پر اس میں یا آزادی کی تحریک کے کسی بھی کام میں شریک نہیں ہونے دیا۔ اس نے سب طرف یہ پیغام بھیجا کہ آر ایس ایس ستیاگراہ میں شرکت نہیں کرے گی لیکن جو بھی انفرادی سطح پر شرکت کرنا چاہے اسے منع نہیں کیا جائے گا۔
۱۹۴۰ ء میں ’گولوالکر‘ آر ایس ایس کا دوسرا ’سرسَنگھ چالک‘ بنا، تو اس کے نظریات آزادی کی تحریک کے حوالے سے ہیڈگوار سے بھی زیادہ سخت تھے۔ اس نے تنظیم کو آزادی کی تحریک سے زیادہ سختی سے دور کیا اور ہیڈ گوار کے برخلاف انفرادی سطح پر بھی اس میں شمولیت کی روک تھام کی۔ اس کی نظر میں آر ایس ایس کا ہدف یہ ہے کہ آزادی برطانوی راج سے لڑنے کی بجائے ہندو مذہب اور تہذیب کا دفاع کر کے حاصل کی جائے۔
گولوالکر نے ہر اس کام سے اجتناب کیا جس سے برطانوی حکومت کو آر ایس ایس پر پابندی لگانے کا کوئی بہانہ مل سکے۔ اس نے دوسری جنگ عظیم کے دوران حکومت کی طرف سے لگائی گئی تمام بندشوں کی مکمل پاسداری کی یہاں تک کہ اپنے عسکری شعبے کو معطل کرنے تک کا اعلان کر دیا۔ اس طرز عمل پر برطانوی حکومت کا تبصرہ تھا کہ چونکہ آر ایس ایس کسی بھی سِوَل نافرمانی تحریک کی کسی بھی طرح کی حمایت نہیں کر رہی اس لیے اس کی دیگر سیاسی سرگرمیوں کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ بمبئی حکومت نے اپنی ایک رپورٹ میں ذکر کیا کہ آر ایس ایس نے بڑی احتیاط کے ساتھ خود کو قانون کے دائرے میں رکھا اور اگست ۱۹۴۲ء میں پھوٹنے والی شورش (ہندوستان چھوڑو تحریک) میں کسی بھی قسم کا حصہ ڈالنے سے رکی رہی۔ رپورٹ کے مطابق آر ایس ایس نے کسی بھی طریقے سے کوئی حکم عدولی نہیں کی اور ہمیشہ قانون کی پاسداری کرنے میں مکمل رضامندی کا اظہار کیا ہے۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ بمبئی حکومت نے دسمبر ۱۹۴۰ء میں آر ایس ایس کے صوبائی رہنماؤں کو یہ احکامات جاری کیے کہ وہ ہر ایسی سرگرمی سے اجتناب کریں جو حکومت کی نظر میں قابل اعتراض ہو، جواب میں آر ایس ایس نے برطانوی انتظامیہ کو مکمل یقین دہانی کروائی کہ ان کا حکومت کے احکامات کی پامالی کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ ہندو مہاسبھا کی طرح آر ایس ایس نے بھی برطانوی حکومت کی مخالفت نہیں کی اور نہ ہی آزادی کی تحریک کا کسی بھی طرح سے ساتھ دیا۔ لیکن اس عمل نے جہاں ہندو مہاسبھا کی ساکھ کو شدید متاثر کیا وہیں اس عمل سے آر ایس ایس کی ساکھ پر کسی قسم کا کوئی اثر نہیں پڑا ، سوائے اس کے کہ دوسری جنگ عظیم اور ہندوستان چھوڑو تحریک کے دوران اس تنظیم کے بارے میں عمومی تاثر یہ بن گیا کہ یہ ایک غیر متحرک تنظیم ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ان دونوں تنظیموں کی حکمت عملی میں فرق تھا۔ ہندو مہاسبھا نے صرف برطانوی حکومت کی مخالفت سے اجتناب نہیں کیا بلکہ اپنے قول و عمل سے کھل کر برطانوی حکومت کا ساتھ دیا۔ اور برطانوی راج سے ہندوستان کی آزادی کی تحریک سے صرف دور نہیں رہے بلکہ کھل کر اس کی قولی اور عملی مخالفت کی۔ اس کے برعکس آر ایس ایس نے نہ کھل کر کبھی برطانوی حکومت کی حمایت کی نہ مخالفت، اسی طرح اس نے کبھی نہ کھل کر آزادی کی تحریک کی حمایت کی اور نہ ہی مخالفت بلکہ ان دونوں اطراف سے ہمیشہ خود کو بچا کر ہی رکھا۔
ان دونوں تنظیموں کی برطانوی راج کی مخالفت نہ کرنے کی حکمت عملی کی اصل وجہ یہ تھی کہ ان دونوں کی نظر میں دشمنِ اصلی مسلمان تھے اور انہیں اپنی پوری توجہ ہندو قوم کو مسلمانوں کے خلاف متحد کرنے پر لگانی تھی۔ برطانوی حکومت کی مخالفت کرنے سے اس مقصد کے حصول میں رکاوٹیں پیدا ہوتیں اور اس حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے سے اس مقصد کو فائدہ حاصل ہوتا۔ جبکہ دوسری طرف آزادی کی تحریک میں مسلمان بھی شریک تھے اور کانگرس اور اس سے منسلک ہندو ان مسلمانوں کے ساتھ نرم رویہ رکھ رہی تھی اور انہیں اپنے ساتھ لے کر چل رہی تھی جو ہندو قوم پرستوں کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا تھا۔ اس لیے ہندو مہاسبھا نے اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کیا،جس کا اسے خمیازہ بھگتنا پڑا اور اس طرح برطانوی حکومت کی حمایت اور تحریکِ آزادی کی مخالفت سے خود ہندوؤں کے اندر مہاسبھا کے بارے میں بیزاری پیدا ہو گئی۔ اس لیے آر ایس ایس نے ہندو مہاسبھا کے تجربے سے سیکھا اور اس تجربے کو دہرانے سے اجتناب کیا۔
فسطائیت پرستی
ہیڈگوار اور آر ایس ایس کے دیگر رہنما فسطائیت سے متاثر تھے اس لیے اس تنظیم پر بھی فسطائیت کی گہری چھاپ ہے۔ اس تنظیم کے رہنما کھل کر ہٹلر اور اس کی فسطائیت پر مبنی پالیسیوں کی حمایت کرتے تھے۔ اس کے علاوہ گولوالکر کے سرسنگھ چالک بننے کے بعد اس نے ہٹلر کی پالیسیوں کو ہندوستان کے لیے مثالی قرار دیا ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نے اسرائیلی ریاست کے قیام کی مکمل حمایت بھی کی اور یہودیوں کی قوم پرستی کی بھی تعریف کی۔ ۱۹۳۴ء میں ہیڈگوار نے اس ہدف کا اعلان کیا کہ فسطائیت پر مبنی تنظیمی ڈھانچے کو تشکیل دے کر ہندو سماج کو جنگجو بنایا جائے۔ اسی عرصے میں اس نے ’فسطائیت اور مسولینی‘ کے موضوع پر ایک کانفرنس کی صدارت بھی کی۔ ایک اور کانفرنس جس میں ہندو مہاسبھا کا سربراہ ’مونجے‘ بھی شامل تھا موضوعِ بحث تھا کہ ہندو جنگجوؤں کو اٹلی اور جرمنی جیسی فسطائی ریاستوں کی طرح کیسے منظم کیا جائے۔
۱۹۳۳ء کی ایک برطانوی انٹیلی جنس رپورٹ میں آر ایس ایس کے حوالے سے تبصرہ تھا:
’’ایسا کہا جائے تو شاید مبالغہ نہ ہو کہ آر ایس ایس مستقبل میں انڈیا میں ایسی ہونا چاہتی ہے جیسے اٹلی میں فسطائی اور جرمنی میں نازی۔‘‘
گولوالکر نے ہیڈگوار کے ہی نقشِ قدم پر چلتے ہوئے آر ایس ایس میں فسطائیت کے نظریات کو ہی ترویج دی۔ وہ کھل کر جرمنی میں نازی نظریات اور ہٹلر کے اقدامات کی تعریف کرتا تھا۔ اس حوالے سے گولوالکر کی تحریر سے ایک اقتباس ہم گولوالکر کے نظریات میں ذکر کر آئے ہیں جو کہ یہاں دوبارہ ذکر کر رہے ہیں:
’’اپنی نسل اور ثقافت کو خالص رکھنے کے لیے، جرمنی نے سامی نسلوں (یعنی یہودیوں) سے اپنے ملک کو پاک کر کے دنیا کو حیران کر دیا۔یہاں نسلی تفاخر کا اظہار اپنے عروج پر کیا گیا۔ جرمنی نے یہ بھی دکھایا کہ کیسے اُن نسلوں اور ثقافتوں کے لیے ، جن کی بنیادوں میں ہی اختلاف پایا جاتا ہو، ایک متحد اکائی بن کر رہنا بالکل ناممکن ہے۔ یہ ہندوستان میں ہمارے لیے سیکھنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے اچھا سبق ہے۔5
ہندوستان کے قومی جھنڈے ’ترنگا‘ کی مخالفت
آر ایس ایس نے ’ترنگا‘ کو ہندوستان کے قومی جھنڈے کے طور پر قبول نہیں کیا۔ آر ایس ایس کے اُس وقت کے سربراہ گولوالکر کی طرف سے اس پر کی گئی تنقید اس کے افکار کی ذیل میں ذکر کی جا چکی ہے۔ آر ایس ایس کے جریدے ’آرگنائزر‘ نے اپنے اداریے میں مطالبہ کیا کہ ’بھگوا دھواج‘ کو ہندوستان کا قومی جھنڈا ہونا چاہیے۔ جب ۲۲ جولائی ۱۹۴۷ء کو ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی نے ترنگا کو ہندوستان کا قومی جھنڈا قرار دیا تو ’آرگنائزر‘ نے اس پر سخت تنقید کی۔ اس نے اپنے اداریے میں لکھا:
’’وہ لوگ، جن کو قسمت نے اقتدار بخشا ہے، وہ ہمارے ہاتھو ں میں ترنگا تھما تو سکتے ہیں لیکن ہندو کبھی بھی اس کو نہ اپنائیں گے نہ ہی اس کی تعظیم کریں گے۔ تین کا لفظ بذاتِ خود برا ہے، اور ایک ایسا جھنڈا جس میں تین رنگ ہوں وہ لازمی طور پر برے نفسیاتی اثرات پیدا کرے گا اور یہ ملک کے لیے شدید نقصان دہ ہو گا۔‘‘
ہندوستانی آئین کی مخالفت
آر ایس ایس نے آئین ہند کو بھی تسلیم نہیں کیا، اور اس آئین کی تشکیل پر سخت تنقید کی کہ اس آئین میں کہیں بھی منو کے دیے گئے قوانین کا، جو کہ منوسمرتی (Manusmriti) سے اخذ کیے جاتے ہیں، کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس حوالے سے گولوالکر نے جو تنقید اپنی کتاب میں کی اس کا اقتباس اس کے افکار میں ذکر کیا جا چکا ہے۔ آر ایس ایس کے جریدے آرگنائزر نے ۲۰ نومبر ۱۹۴۹ء کے اداریے میں آئین پر تنقید کرتے ہوئے لکھا:
’’لیکن ہمارے آئین میں قدیم بھارت کی اُس بے مثال آئینی پیش رفت کا کوئی ذکر نہیں ہے…… آج بھی منوسمرتی میں دیے گئےقوانین دنیا کو تعریف پر مجبور کرتے ہیں اور بے ساختہ موافقت اور اطاعت پر ابھارتے ہیں۔ لیکن ہمارے آئینی پنڈتوں کے لیے یہ کوئی معنی نہیں رکھتے۔‘‘
۶ فروری ۱۹۵۰ء میں آرگنائزر نے اس حوالے سے ایک اور مضمون نشر کیا جو مزید واضح کر دیتا ہے کہ آر ایس ایس آئینِ ہند کی بجائے منوسمرتی کو ہی قانون مانتی ہے۔ اس میں لکھا ہے:
’’اگرچہ کہا جاتا ہے کہ حال ہی میں ڈاکٹر امبیڈکر نے بمبئی میں کہا ہے کہ منو کے دن گزر گئے، لیکن پھر بھی یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ آج بھی ہندوؤں کی روزمرہ زندگی منوسمرتی میں دیے گئے اصول و فرامین سے متاثر ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ ایک آزاد خیال ہندو بھی کم از کم بعض معاملات میں خود کو ان قوانین سے ضرور جڑا ہوا محسوس کرتا ہے جو اس سمرتی میں دیے گئے ہیں۔ اور وہ اپنے اندر ایسی جرأت نہیں پاتا کہ مکمل طور پر اس سے اپنی وفاداری چھوڑ دے۔‘‘
گاندھی کا قتل اور آر ایس ایس پر پابندی
جنوری ۱۹۴۸ء میں جب گاندھی کا قتل ہوا اور یہ سامنے آیا کہ اس کا قاتل ناتھو رام گوڈسے آر ایس ایس کا رکن رہ چکا ہے تو آر ایس ایس کے بہت سے رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا اور فروری میں اس تنظیم پر پابندی لگا دی گئی۔ اگرچہ عدالتی کاروائی میں آر ایس ایس کا گاندھی کے قتل میں کردار ثابت نہیں ہو سکا لیکن حکومت نے پابندی پھر بھی برقرار رکھی۔ گولوالکر نے اپنی رہائی کے بعد اپنی تنظیم پر پابندی ہٹوانے کے لیے جواہر لال نہرو کو خط لکھا ۔ نہرو نے جواب دیا کہ یہ کام وزیرِ داخلہ ’والابھائی پٹیل‘ کا ہے۔ لیکن ساتھ میں یہ تبصرہ بھی کیا کہ حکومت کے پاس ثبوت موجود ہیں کہ آر ایس ایس کی کاروائیاں چونکہ فرقہ وارانہ ہیں اس لیے یہ وطن مخالف ہیں۔ نہرو نے صوبائی حکومتوں کے سربراہوں کو بھی ایک خط میں کہا کہ ہمارے پاس بہت سے شواہد موجود ہیں کہ آر ایس ایس ایک غیر سرکاری فوج کی طرز پر بنی تنظیم ہے اور جو ہوبہو نازیوں کے نقشِ قدم پر چل رہی ہے ۔
اُس وقت ہندوستان کے پہلے صدرراجیندر پرشاد نے بھی آر ایس ایس کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ آر ایس ایس دہلی اور دیگر ہندو اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کے خلاف فسادات شروع کرنے، انہیں لوٹنے، ان کی املاک کو جلانے اور ان کے قتل عام میں ملوث رہی ہے۔ والا بھائی پٹیل کو ایک خط میں راجیندر پرشاد نے لکھا کہ آر ایس ایس نے منصوبہ بنایا تھا کہ مسلمانوں کا بھیس اپنا کر ہندو اکثریتی علاقوں میں ہندوؤں پر حملے کیے جائیں اور مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں پر حملے کیے جائیں تاکہ دونوں طرف فسادات پھوٹ پڑیں۔اس نے پٹیل سے مطالبہ کیا کہ آر ایس ایس کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں کیونکہ اس تنظیم کا مقصدہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان دشمنی اور نفرت کو فروغ دینا ہے۔ اس نے کہا کہ آر ایس ایس مہاراشٹری براہمن تحریک ہے ، اور یہ ایک خفیہ تحریک ہے جو تشدد کا استعمال کرتی ہے اور فسطائیت کو فروغ دیتی ہے اور راست ذرائع اور آئینی طریقوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتی۔ اس نے خط میں آر ایس ایس کو امنِ عامہ کے لیے ایک خطرہ قرار دیا۔
سردار والا بھائی پٹیل کو جب گولوالکر نے پابندی ختم کرنے کے لیے خط لکھا تو اس کے جواب میں والابھائی پٹیل نے جواب دیا کہ اگرچہ تقسیم کے دوران آر ایس ایس نے ہندوؤں کی ضرور خدمت کی ہے لیکن اس عمل میں اس نے بےگناہ مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں پر بھی حملے کیے۔ اس نے کہا کہ آر ایس ایس کی تقریریں فرقہ وارانہ زہر سے بھری ہوتی ہیں اور اس زہر کی وجہ سے ہی ہندوستان نے گاندھی کو کھو دیا۔ اور آر ایس ایس کے کارکنان نے گاندھی کے قتل پر خوشی منائی اور اس پر مٹھائی بھی بانٹی۔پٹیل نے تنظیم کے خفیہ طریقہ کار پر اعتراض کیا اور یہ اعتراض بھی کیا کہ تنظیم کے تمام ریاستی ذمہ داران مراٹھا براہمن ہیں۔ اس کے علاوہ اس نے آر ایس ایس کے انڈیا کے اندر ہی اپنی نجی فوج رکھنے پر بھی اعتراض کیا اور کہا کہ اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی کیونکہ یہ انڈیا کے لیے ممکنہ خطرے کا باعث ہو سکتی ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ آر ایس ایس کے اہلکار دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ہندومت کے محافظ ہیں ، لیکن انہیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ہندو مت کی حفاظت فساد و ہنگامہ پروری سے نہیں ہو سکتی۔
پٹیل نے آر ایس ایس پر سے پابندی ختم کرنے کی لازمی شرط یہ رکھی کہ یہ اپنا ایک تحریری آئین مرتب کرے اور اسے منظرِ عام پر لائے۔ اس کے تحت آر ایس ایس آئینِ ہند کے ساتھ وفاداری کا عہد کرے، ترنگا کو ہندوستان کا قومی جھنڈا تسلیم کرے، تنظیم کے سربراہ کے اختیارات واضح کرے، تنظیم کو جمہوری طرز پر استوار کرے اور داخلی انتخابات کروائے، نابالغوں کو تنظیم میں شامل کرنے سے پہلے والدین سے اجازت حاصل کرے اور خفیہ طریقہ کار اور پرتشدد کاروائیاں ترک کر دے۔
ان مطالبات کے خلاف گولوالکر نے ایک بڑی احتجاجی تحریک شروع کی جس کی وجہ سے وہ پھر گرفتار ہو گیا۔ بعد میں آر ایس ایس کے لیے آئین تیار کیا گیا جس میں تنظیم کے سربراہ کو منتخب کرنے کے طریقہ کار اور نابالغوں کو رکن بنانے کے لیے والدین سے اجازت کی شرط کو نہیں مانا گیا باقی سب مان لی گئیں۔ لیکن جو شرطیں مانی گئیں ان کی حیثیت بھی ایک منسوخ قانون کی ہی رہی جس پر کبھی عمل نہیں ہوا۔ نہ داخلی انتخابات کا طریقہ رائج ہوا ، نہ خفیہ طریقہ کار اور پرتشدد کاروائیاں ترک کی گئیں اور نہ ہی کبھی عملی طور پر آئین ہند کو اور ترنگا کو بطور قومی جھنڈا تسلیم کیا گیا۔
۱۱ جولائی ۱۹۴۹ء کو حکومتِ ہند نے پابندی ختم کر دی اس اعلان کے ساتھ کہ یہ پابندی گولوالکر کی طرف سے اس یقین دہانی کے ساتھ ختم کی گئی ہے کہ اس کی تنظیم آئینِ ہند کے ساتھ وفادار رہے گی اور ہندوستان کے قومی جھنڈے کو قبول کرے گی اور اس کی تعظیم کرے گی۔
تنظیمی ساخت
رکنیت
چونکہ ہیڈگوار نے آر ایس ایس کا تنظیمی طریقہ کار خفیہ انقلابی تحریکات کی طرز پر رکھا تھا اس لیے اس تنظیم نے رکنیت حاصل کرنے کا کوئی رسمی طریقہ کار نہیں رکھا اور نہ ہی یہ تنظیم اپنے کارکنان کا ریکارڈ رکھتی ہے۔ کوئی بھی مرد یا لڑکا اگر آر ایس ایس میں شمولیت اختیار کرنا چاہے تو اپنی قریب ترین ’’شاکھ‘‘ (شاخ) سے جڑ سکتا ہے۔اگرچہ رسمی طور پر آر ایس ایس کے کارکنان کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق ۲۰۱۵ء میں اس کے کارکنان کی تعداد ساٹھ لاکھ سے زیادہ تھی۔
وردی
ہیڈگوار نے جب آر ایس ایس قائم کی تو اس کے رضاکاروں کے لیے کالی بیگار ٹوپی، خاکی شرٹ اور خاکی نیکر کو بطور وردی منتخب کیا۔ تب یہی لباس برطانوی شاہی پولیس کا بھی تھا۔ کچھ سال بعد خاکی شرٹ کو بدل کر سفید شرٹ کو وردی میں شامل کر دیا گیا۔ جبکہ اپنے قیام کے ۹۱ سال بعد آر ایس ایس نے ۲۰۱۶ء میں خاکی نیکر کو وردی سے ختم کر کے اس کی جگہ خاکی پتلون کو وردی میں شامل کیا۔
شاکھ
شاکھا یا شاکھ (شاخ کے لیے ہندی لفظ) آر ایس ایس کے سب سے بنیادی یونٹ کو کہتے ہیں۔یہ شاخیں روزانہ کی بنیاد پر کسی عوامی مقام پر ایک گھنٹے کے لیے اپنا اجتماع کرتی ہیں۔ اس اجتماع میں یوگا، ورزش اور کھیلوں وغیرہ کے ذریعے سے جسمانی تربیت دی جاتی ہے جبکہ ہندو قوم پرستی، ہندو سماج کی خدمت اور ہندُتوا جیسے موضوعات پر نظریاتی تربیت بھی دی جاتی ہے۔اس کے علاوہ رضاکاروں کے لیے خصوصی طور پر نیم فوجی تربیت کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے تاکہ انہیں ہندوستان کی مذہبی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں اور عیسائیوں کا قلع قمع کرنے کے لیے تیار کیا جا سکے۔آر ایس ایس کی سالانہ رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۹ء میں پورے ہندوستان میں آر ایس ایس کی ۸۴،۸۷۷ (چراسی ہزار آٹھ سو ستتر) شاخیں موجود تھیں۔
تنظیمی درجہ بندی اور عہدے
سوائم سیوک(Swayamsevak) : اس کے معنی رضاکارکے ہیں۔ ہر وہ شخص جو آر ایس ایس کی شاکھوں کے روزانہ کے اجتماعات میں شرکت کرتا ہو اسے سوائم سیوک کہتے ہیں۔ ان رضاکاروں کے لیے آر ایس ایس کی وردی پہننا ضروری ہے۔بی جے پی کے زیادہ تر رہنما کم سےکم درجے میں آر ایس ایس کے سوائم سیوک ضرور رہے ہیں ، ایسے مشہور رہنماؤں میں موجودہ وزیراعظم نریندر مودی، موجودہ ہوم منسٹر راجناتھ سنگھ، سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی، سابق صدر رام ناتھ کووِند، سابق نائب صدر ’ونکائیاہ نیدو‘،سابق ہوم منسٹر ایل کے ایڈوانی، اور سابق وزیر مرلی منوہر جوشی وغیرہ شامل ہیں۔
گٹنائک(Gatanayak) : شاکھ میں شرکت کرنے والے سوائم سیوکوں کا گروپ لیڈر
کریاواہ(Karyawah) : شاکھ کا منتظم
مکھے شِکشَک(Mukhay-Shikshak) :شاکھ کا سربراہ اور استاد
کریاکرتا(Karyakarta) : آر ایس ایس کے متحرک کارکنان کو کہتے ہیں۔ کریاکرتا بننے کے لیے سوائم سیوکوں کو نظریاتی اور جسمانی تربیت کے چار درجوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اِن کریاکرتاؤں میں سے ۹۵فیصد’ گراہستھ کریاکرتا‘ ہوتے ہیں۔ یعنی وہ جن کا گھر بار ہوتا ہے۔جبکہ ۵ فیصد پرچارک ہوتے ہیں جو کہ مکمل طور پر آر ایس ایس کے کاموں کے لیے وقف ہوتے ہیں۔
پرچارک: آر ایس ایس کی فکر و نظریات کے داعی۔ ان لوگوں کے لیے آر ایس ایس کے کاموں کے لیے خود کو مکمل طور پر وقف کرنا ضروری ہے۔ یہ لوگ نہ تو شادی کر سکتے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کا روزگار کما سکتے ہیں بلکہ اپنی سو فیصد توجہ آر ایس ایس کے کاموں پر ہی دیتے ہیں۔ پرچارک تنظیم میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آر ایس ایس کی اپنی رپورٹوں کے مطابق تنظیم میں ۲۵۰۰ کے قریب پرچارک ہیں۔
وچارک: آر ایس ایس کے مفکرین کو کہتے ہیں۔ آر ایس ایس میں تنظیم کی فکر کو ترتیب دینے اور اس کی تشریح کرنے کے لیے افراد مخصوص ہوتے ہیں۔ تنظیم کی قیادت فکر نہیں دیتی بلکہ اس فکر کے مطابق تنظیم کو چلاتی ہے۔ سوائے اس کے کہ تنظیم کا وچارک ہی آگے چل کر سرسنگھ چالک بن جائے۔ جیسا کے گولوالکر بنا۔
سنگھ چالک: ریاستوں کی سطح کے آر ایس ایس کے سربراہان کو کہتے ہیں۔
سرکاریاواہ: آر ایس ایس کے جنرل سیکریٹری کو کہتے ہیں۔ اس کا انتخاب ایک کمیٹی اکھِل بھارتیا پراتنیدھی سبھا کرتی ہے۔
سرسنگھ چالک: آر ایس ایس کے سربراہ کو کہا جاتا ہے ۔ آر ایس ایس میں سابق سربراہ نئے سربراہ کو نامزد کرتا ہے۔ ہیڈگوار آر ایس ایس کا پہلا سرسنگھ چالک تھا اسی نے ایم ایس گولوالکر کو اگلا سر سنگھ چالک نامزد کیا تھا، جبکہ موجودہ سرسنگھ چالک ’موہن بھاگوَت‘ ہے۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
1 آریا سماج ایک ہندو مذہبی تحریک ہے جو ہندو ویدوں پر مبنی اقدار و اعمال کو ترویج دیتی ہے۔ اس تحریک کا بانی دیانند سَرَسْوَتی تھا۔ اس تحریک کے نزدیک خدا صرف ایک ہے جو کائنات کا مالک اور پیدا کرنے والا ہے اور ویدوں کے مطابق اس کا نام ’اوم‘ ہے۔ ہندو روایات کے برخلاف یہ تحریک مورتیوں کی پوجا کرنے کی حوصلہ شکنی کرتی ہے اور ہندوؤں کی مقدس کتابیں پڑھنے کی اجازت عورتوں کو اور برہمن کے علاوہ دیگر ذاتوں کو بھی دیتی ہے۔ آریا سماج نہ گائے کو مقدس تصور کرتی ہے، نہ رامائن، مہابھارت کو مذہبی کتابیں تصور کرتی ہےاور نہ ہی ان میں ذکر کیے گئے دیوی دیوتاؤں کو مانتی ہے۔ ان کے نزیک دنیا میں الہامی کتابیں صرف وید ہیں اور ان کے علاوہ کوئی اور کتاب الہامی نہیں بشمول قرآن کریم اور بائبل کے۔ ان مذہبی اصلاحات کے علاوہ اس تحریک کا سب سے بڑا مقصد اسلام یا عیسائیت قبول کرنے والوں کو واپس ہندو بنانا اور ہندوؤں کے مسلمان یا عیسائی بننے کے رجحان کے آگے بند باندھنا بھی ہے۔
2 ہندو مہاسبھا سے ایسے رہنما ضرور منسلک رہے ہیں جن کا تحریک آزادی سے تعلق رہا۔ لالہ لاجپت رائے ان میں سے ایک ہے۔ کانگرس سے تعلق ہونے کی وجہ سے اس کا شمار بھی تحریکِ آزادی کے رہنماؤ ں میں ہوتا ہے۔ اسی طرح ۱۹۲۸ء میں مہاسبھا کا سربراہ بننے والے مونجے کا تعلق بھی آزادی کی تحریک سے رہا اور ساورکر بھی اپنی جوانی میں برطانیہ مخالف انقلابی سرگرمیوں میں ملوث رہا۔ لیکن سربراہ بننے کے بعد مونجے سے بھی برطانیہ مخالف کوئی اقدام ثابت نہیں ہوتا اور ساورکر تو اپنی قید میں ہی برطانیہ مخالفت سے تائب ہو گیا تھا اور اس نے تحریری طور پر برطانوی حکومت سے وفاداری کا عہد کیا اور پھر اس عہد کو آزادی تک نبھاتا بھی رہا۔ خلاصہ یہ کہ ہندو مہاسبھا نے بحیثیت تنظیم کبھی برطانیہ مخالف سرگرمیوں میں یا تحریکِ آزادی کی حمایت میں کوئی کام نہیں کیا بلکہ عملی طور پر اس کے متضاد کام ہی نظر آتے ہیں۔
3 “Muslims, Christians should be forcibly sterilised, says Hindu Mahasabha leader” (12 April, 2015). Deccan Chronicle.
4 انوشِلن سَمِتی بنگال میں ۱۹۰۲ء میں قائم ہوئی جو برطانوی راج سے آزادی عسکری اور انقلابی سرگرمیوں سے حاصل کرنا چاہتی تھی۔ اس تنظیم کی دو شاخیں تھیں۔ ڈھاکہ کی شاخ انوشِلن سَمِتی کے نام سے ہی جانی جاتی تھی جبکہ کلکتہ کی شاخ کو جُگنتر (jugantar) کہتے تھے۔ مشہور کانگرسی ہندو قوم پرست رہنما سبھاش چندر بوس (Subhas Chandra Bose) اس کی سرپرستی کر رہا تھا جبکہ ایک اور مشہور ہندو قوم پرست کانگرسی رہنما ’اوروبندو گھوش‘ (Aurobindo Ghosh) اور اس کا بھائی بریندر گھوش (Barindra Ghosh) اس تنظیم کے مرکزی رہنما تھے۔ یہ تنظیم برطانوی راج کے خلاف بہت سے بم حملوں اور پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانوی ہندی فوج میں غدر کی کوششوں میں ملوث رہی جو کہ سب ناکام رہیں۔ ۱۹۲۰ء کے بعد اس تنظیم نے ہندوستان رپبلک پارٹی کی شکل اختیار کر لی جس کے تحت ۱۹۲۵ء میں کاکوری میں رام پرشاد بسمل، چندر شیکھر آزاد، اشفاق اللہ خان اور دیگر انقلابیوں نے ٹرین لوٹنے کی مشہور کارروائی کی تھی جو برطانوی راج کے خزانے کی رقم لے کر جا رہی تھی۔
5 We or Our Nationhood defined – M. S. Golwalkar p. 87, 88