مشکلات نہیں ،انعامات پر نظر ……! | [چراغِ راہ | ۱۴]

استاد اسامہ محمود حفظہ اللہ نے یہ سلسلۂ مضامین ’اصحاب الاخدود‘ والی حدیث کو سامنے رکھ کر تحریر کیا ہے۔ (ادارہ)


بسم اللہ والحمد للہ والصلاۃ والسلام علیٰ سیدنا وحبیبنا محمد وآلہ وصحبہ أجمعین

’’وزیر شفایابی کے بعد بادشاہ کے دربار میں اس کے سامنے بیٹھا تو بادشاہ نے اس سے پوچھا،’’تمہاری نظر کس نے تمہیں لوٹادی ؟‘‘ مَنْ رَدَّ عَلَيْكَ بَصَرَكَ؟وزیر نے کہا، ’’ میرے رب نے ‘‘، بادشاہ نے کہا، ’’ کیا تیرا میرے علاوہ بھی کوئی رب ہے؟‘‘ وزیر نے جواب دیا، رَبِّي وَرَبُّكَ اللَّهُ’’میرا اور تمہارا رب اللہ ہے ‘‘،پھر بادشاہ اس کو پکڑ کر اسے عذاب دینے لگا تو اس نے بادشاہ کو لڑکے کے بارے میں بتادیا۔ پھر جب وہ لڑکا آیا تو بادشاہ نے اس سے کہا کہ’’بیٹے! کیا تیرا جادو اب اس حدتک پہنچ گیا ہے کہ اب تو اندھوں اور کوڑھیوں کو بھی صحیح کرنے لگا اور تم اس سے اور بھی کام کرتے ہو؟ لڑکے نے کہا:إِنِّي لَا أَشْفِي أَحَدًا إِنَّمَا يَشْفِي اللَّه’’میں کسی کو شفا نہیں دیتا ،شفا تو اللہ تعالیٰ دیتا ہے‘‘۔ بادشاہ نے اسے پکڑ کر عذاب دیا یہاں تک کہ اس نے راہب کے بارے میں بادشاہ کو بتا دیا۔ راہب آیا تو اس سے بھی کہا گیا کہ تو اپنے دین سے پھر جا، راہب نے انکار کردیا پھر بادشاہ نے آرا منگوایا اور اس راہب کے سر پر رکھ کر اس کا سر چیر کر اس کے دو ٹکڑے کر دیے۔ پھر بادشاہ کے وزیر کو لایا گیا اور اس سے بھی کہا گیا کہ تو اپنے دین سے پھر جا۔ اس نے بھی انکار کردیا۔ بادشاہ نے اس کے سر پر بھی آرا رکھا اور سر کو چیر کر اس کے دو ٹکڑے کروا دیے۔‘‘

ہدایت پر صبر کی آزمائش

وزیر نابینا تھا ، آنکھوں سے محرومی بڑی آزمائش تھی ، اس سے اللہ نے اس کو نجات دی ،اور ایسے انداز سے دی کہ اس کا دل روشن ہو ا اور ایمان کی نعمت سے وہ سرفراز ہوا ۔ مگر امتحان ختم نہیں ہوا ، راہ ہدایت پر صبر کرنےاوردعوی ٔ ایمان وفا کرنے کا امتحان ابھی باقی تھا، یہ آزمائش آنی تھی اور یہ آکر رہی ۔اس کو دین ِ حق چھوڑنے کا کہا گیا ، اس نے انکار کیا،ایمان پراس نے استقامت دکھائی اور ضلالت کی زندگی پر ہدایت کو ترجیح دی ۔ اسے جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی مگر وہ ڈٹا رہا،بالآخر اس کے جسم کے دو ٹکڑے کر دیے گئے اور یوں اس نے سرخرو ہوکر دارِ فانی سے دارِ ابدی کوچ کیا ۔یہ واقعہ بتاتاہے کہ ایمان دل میں راسخ ہو تو بندۂ مومن کے لیے سب سے قیمتی اثاثہ اس کا دین ہوتا ہے اور یہ ایک اثاثہ اتنا قیمتی ہے کہ اس کے مقابل کسی چیز کی پھر کوئی قیمت نہیں ، دیگر نعمتیں دین کی خدمت، اس کی اطاعت اور اس کے دفاع میں استعمال ہوں تو ہوں مگر…… جان ومال ،بیوی بچوں، جاہ ومنصب جیسی نعمتوں کا ٹکراؤ اگر دین کے ساتھ آجائے ، تو ترجیح دین کو دی جائے گی اور باقی ساری دنیا اس ایک نعمت پر قربان ہوگی۔ایک مومن کے لیے زندگی اس آزمائش کا نام ہے کہ اللہ اور رسول کی محبت واطاعت کا جو دعویٰ وہ کرتاہے اس میں وہ کتنا سچا ہے اور یوں اپنا یہ دعوی و عہد وفا کرنے کے لیے ہی قدم قدم پر اُسے امتحان کے پرچے بھرنے ہوتے ہیں ۔عقل و خرد کا بھی یہی تقاضہ ہے کہ جن نعمتوں نے بہرحال ختم ہونا ہے ، ان کی خاطر اُن نعمتوں کا سودا نہ کیا جائے کہ جوکبھی ختم نہ ہوں گی۔پھر یہ بھی کس قدر ناشکری ، بے وفائی اور احسان ناشناسی ہوگی کہ تحفوں کی تو قدر ہو مگرتحائف دینے والی ذاتِ عظیم اور محسن ِ اعظم کی ناقدری اور ناشناسی ہو ۔

دو نقطہ ہائے نظر

اس واقعہ کو دیکھنے کے دو انداز ہیں ، ایک یہ کہ نوجوان نے وزیر کے ساتھ اچھا نہیں کیا ، آنکھیں کیا لوٹا دیں اس کی زندگی تباہ کردی ، دولت ، منصب ،راحت بلکہ جینے کی سانسوں تک سے بھی اس بے چارےکو محروم کیا ۔جبکہ دوسرا طرزِ فکر یہ ہے کہ نوجوان وزیر کی ہدایت کا ذریعہ بنا، اس نے اسے اپنے رب کے ساتھ جوڑا ،خیر و شر اور کامیابی وناکامی کی صحیح پہچان اسے کرا دی اورایسے راستے پر اسے ڈالا کہ جس پر شہادت سے سرفراز ہو کر اللہ کی رضا اور ہمیشہ کی جنتیں اس کو نصیب ہوئیں ۔ حالات کو دیکھنے کے لحاظ سے یہ دو مختلف فریق ہیں ، ان دونوں کے سوچنے اور عمل وسعی کے محور ، چاہت و نفرت کے پیمانے ، کامیابی و ناکامی کے تصور اور جینے ومرنے کے مقصد میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ پہلافریق جس کو اپنی کامیابی سمجھتا ہے دوسرا اُس کو ناکامی و نامرادی کہتاہے ، ایک جن مقاصد کے لیے اپنا دن رات ایک کرتاہے اور اپنی صلاحیت و وسائل صرف کرتا ہے ، یہ دوسرا فریق اُن مقاصد کے راستے میں ایک قدم بڑھانا بھی اپنے لیے فضول سمجھتا ہے ۔اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ ایک نقطۂ نظررکھنے والا فریق دنیا کا بندہ ہے اور دوسرا گروہ اللہ کے بندوں کا ہے، ایک ضلالت و گمراہی اپنانے والوں کا طرزِ فکر ہے ، اُن بدنصیبوں کا نقطہ نظر ہے جن کی آنکھوں اور قلوب پر دارِ غرور نے پردے چڑھارکھے ہیں ، جبکہ دوسرا اہل ہدایت اور اُن اصحاب ِ بصیرت کا انداز ہے جن کی نگاہیں دنیا کی اصل حقیقت پر ہیں اورجن کا مقصد ِ حیات اللہ کی بندگی و رضا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں خیر و شر کے پیمانے ایک نہیں۔

خیر و شر کا معیار تنگی ہے نہ وسعت !

اول الذکر فریق، دنیا کے بندوں کے ہاں خیر وشر اور سعادت و شقاوت کا بس ایک ہی پیمانہ ہے اور وہ ہے دنیا وی نعمتوں کی وسعت و تنگی ! ان کی نظر میں مصائب و مشاکل ہر لحاظ سے شر ہیں ، اس سے یہ خود بھی بھاگتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس سے ڈراتے ہیں ۔ یہ خود بھی جہاد سے دور رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی یہ ڈراتے ہیں کہ راہ ِ جہاد سے دور رہو ، مجاہدین کے قریب مت جاؤ، ورنہ مشکلات و مصائب سے نہیں بچ پاؤ گے ۔ حالانکہ سچ یہ ہے کہ خیر و شر کا معیار اس چار دن کی زندگی کی یہ تنگی و راحت نہیں ہے ، اس کا معیار تو وہ مقصد اور راستہ ہوتا ہے جس میں یہ تنگیا ں اور آسانیاں پیش آتی ہیں ، اگر راستہ خدا کی نافرمانی کا ہے ، تو پھر تنگی ہو یا وسعت ، دونوں شر ہیں ، دونوں تباہی ہیں اور دونوں کا انجام اللہ کی رحمت سے دوری اور بالآخر عذاب ہوگا ، اور یہ ایسا شر ہے کہ جس کو کوئی بھی عقل مند کبھی قبول نہیں کرے گا ۔لیکن اگر راستہ اللہ کاہو، رب کی رضا اور اس کی بندگی ہی اس میں مدنظر ہو تو راحت توراحت ہے یہاں کی مصیبت و تنگی بھی شر نہیں،خیر ہے ﴿فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا ﴾1اور اللہ رب العزت کا فرمان ہے :﴿ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾ 2۔ ابتلاء نفس کو یقیناً اچھی نہیں لگتی ہے مگر سچ یہ ہے کہ شہادت کی منزل ہو یا فتح و نصرت کا انعام ، یہ دو نوں اعلیٰ انعامات دنیا کی طرف جھکاؤ اورراحت و عشرت کے پیچھے بھاگنے سے نہیں ملاکرتے ہیں ، ابتلاءات پر جب صبر کیاجاتاہے تو تب ہی جاکر کہیں یہ ملتے ہیں اور تب ہی جاکر بندہ اللہ کی رضا اور اس کی جنتوں کا مستحق بنتا ہے۔

خیر و شر کا یہ تصور ہے کہ جس کے سبب حبِ دنیا کے اسیر جس موت کو محض ِ شر سمجھتے ہیں اور اس سے بچنے کے لیے صبح و شام تگ و دو کرتے ہیں اور دنیا جہاں کے وسائل جھونکتے ہیں ، اہل ایمان اللہ کی محبت میں نہ صرف اسے گلے لگاتے ہیں ، بلکہ اسے پانے کے لیے خود ہی اس کے پیچھے بھاگتے ہیں ۔وزیرستان میں برطانیہ سے ایک بھائی عبدالمجید آئے تھے ،یہ بھائی استشہادی تھے اور بہت زیادہ اصرار کرتے تھے کہ کسی طرح ہم ان کی ترتیب بنادیں۔اُس وقت ترتیب نہیں تھی اس لیے ہم نے انہیں دور ایک مرکز میں ٹھہرایا تھا ، وہاں سے ہرکچھ عرصہ بعد ان کا خط آتا تھا اورباربار وہ اپنی درخواست دہراتے تھے ، اس دوران ساتھیوں نے ایک کارروائی کی ترتیب بنائی، امیر محترم اوراپنے شیخ ، فاروق بھائی رحمہ اللہ سے ان کے لیے اجازت حاصل کرنے کے بعد میں نے انہیں بلوایا ،سخت گرمی میں دوپہر کے وقت یہ بھائی میران شاہ پہنچے ، مجھے ملتے ہی بلوانے کی وجہ پوچھی ، میں نے عرض کیا ’آپ کا کام تیارہے!!‘ یہ سنتے ہی خوشی سے اس کی حالت غیر ہوگئی ، لپک کر اس نے میرا ماتھا چوما اور اس قدر محبت و خوشی سے چوما کہ میرے ماتھے پر پسینہ کے قطروں تک کی پروا نہ کی ، پھر مجھ سے لپٹ گئے اور ایک بات دوتین دفعہ انھوں نے کی ، کہا’’ واللہ ِ ، میں آپ کا احسان نہیں بھولوں گا، آخرت میں بھی یاد رکھوں گا!‘‘ وہ شکریہ ادا کررہاتھا ، خوشی کے اظہار کے لیے الفاظ ڈھونڈ رہاتھا اور اور میں اس کی کیفیت و الفاظ پر سو چ رہاتھا کہ ہم اسے’موت ‘ پر بھیج رہے ہیں ، اس کا جسم ٹکڑے کروانے اسے روانہ کر رہے ہیں ، اسے اس کی دنیا ،اس کی بیوی اور بچی سے ’ ہمیشہ‘ کے لیے جدا کررہے ہیں ، مگر اس کے باوجود بھی …… ہم اس کے ’محسن ‘ ہیں اور وہ بھیگی آنکھوں اور احسان مندانہ لہجے میں باربار شکریہ ادا کررہاہے … …کیا دنیا کے پیچھے بھاگنے والے ان کیفیات کو سمجھ سکتے ہیں؟ کیا انہیں اللہ کے ساتھ اس محبت کے اسرار و رموز کا ادراک ہے ؟ واللہ اگر انہیں یہ ادراک ہوگیا تو وہ دنیاکے بندے پھر نہیں رہیں گے ! ان بھائی نے دوتین دنوں میں روانہ ہونا تھامگر اس نے ایک روز میں ہی کمپیوٹر، ہارڈ ڈسکیں ،گھڑی…… اپنی ساری قیمتی اشیاء مجاہدین میں بانٹ دیں ، بس یہ رہا اور اس کا قرآن ! خوشی اس کے چہرے پر دیدنی تھی ، اس کا سفر اور ارادہ صیغۂ راز میں تھا، مگر اس کی خوشی دیکھ کر بعض بھائیوں کو اس کا اندازہ ہوگیا ۔ ان کی اہلیہ لندن میں تھیں انہوں نے مجھے ان کے نام خط دیا،کہا آپ پڑھ لیں اور میری شہادت کے بعد اسے اس ای میل پر روانہ کردیں۔میں یہ خط پڑھنے لگا تو بمشکل اپنے آنسو روک سکا! بیوی کو ایسے انداز میں اپنی ’موت‘کی خوش خبری دے رہا تھا جیسے اربوں کھربوں کا پرائز بانڈ نکل آیاہو یا زندگی بھر کا حاصل اور مقصد ہاتھ آیا ہو، صبر و استقامت کی تلقین اور راہ حق پر آگے بڑھنے ، اللہ کے ساتھ اپنا وعدہ نبھانے کی نصیحت کر رہاہے اور ساتھ یہ یقین بھی دلا رہاہے کہ میں جنت کے دروازے پر تمہارا انتظار کروں گا ، آنے میں دیر نہیں کرنا !!! جب اس بھائی کی شہادت میڈیا میں عام ہوئی تو برطانیہ کے ایک اخبار میں اس پرایک رپورٹ چھپی، لکھا تھا ،یہ لندن میں اچھی بھلی زندگی گزار رہاتھا، اس کے بنک اکاونٹ میں بہت بڑی رقم بھی پڑی تھی ،مگر اس کے باوجود بھی اس نے یہ انتہائی قدم اٹھایا، پھر سوال اٹھایا تھاکہ کیا وجہ ہے کہ اس طرح خوش حال زندگی گزارنے والے بھی دہشت گرد بن جاتے ہیں ؟ میں نے سوچا یہی وہ سوال ہے جو تمہیں دعوت ِ فکر دیتاہے اور اگر اس پر تم نے غور کیا ، دل و ذہن کو آلودگیوں سے پاک کرکے اگر اس سوال کا ہی تم نے جواب ڈھونڈا تو بعید نہیں کہ تم بھی اللہ والے بن جاؤ!

قرآن کو درکار مؤمنانہ مزاج

عا م انسانوں کی طبیعت ہے کہ وہ مصائب وتکالیف کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور ان کو بہت بھاری سمجھتے ہیں جبکہ اللہ رب العزت اپنی کتاب کے ذریعہ مومنین کی تربیت کچھ اس طرح کرتاہے کہ اس کے راستے کی آزمائشیں انہیں بہت ہلکی محسوس ہوں اور ان کی نظریں بس دو چیزوں پر مرکوزہوں ، اپنی ذمہ داری پر یعنی اپنے حصے کی حق کی گواہی پر اور دوسراآخرت میں ملنے والے انعامات پر ۔باقی بیچ میں ، دوران سفرتنگی ، قربانیاں ، قیدو بند، دربدری اور قتل و قتال کی تکالیف…… تو قرآن میں ان کا ذکر اس انداز میں تو ضرور ہے کہ ان پر استقامت دکھائے بغیر جنتوں کا سودا ممکن نہیں ، مگر قرآن چاہتاہے کہ مومن ان آزمائشوں کو بہت ہلکا لے ، ان کی پروا نہ کرے اور انہیں زیادہ اہمیت نہ دے ، شاید یہی وجہ ہے کہ قرآنی واقعات میں ان کاذکر بہت ہلکا ہے جبکہ ان کے مقابل حق کی گواہی اور اخروی انعامات کا ذکر بہت تفصیلی اور باربار ہے ، بعض جگہوں پر تو ان تکالیف کی منظر کشی سرے سے کی ہی نہیں گئی ہے ،جبکہ اہل حق کی جدوجہد اور بدلے میں ملنے والے انعامات کا ذکر مفصل موجودہے ۔ مثال کے طور پر سورۃ یس میں رجل ِ مومن کا واقعہ ہے کہ اس نے قوم کے سامنے اپنے ایمان کا اعلان کیا اور قوم نے اس کو مار مار کر شہید کردیا۔اس کی شہادت کی تفصیل ابن کثیر نے نقل کی ہے کہ’’ کفار نے اس مومن کامل کو بری طرح مارا پیٹا اسے گرا کر اس کے پیٹ پر چڑھ بیٹھے اور پیروں سے اسے روندنے لگے یہاں تک کہ اس کی آنتیں اس کے پیچھے کے راستے سے باہر نکل آئیں‘‘۔آپ دیکھیے کہ اگر یہ واقعہ آپ کے سامنے ہوجائے اور آپ اسے بیان کریں گے تو آپ کیسے اس کی منظر کشی کریں گے ؟ ظاہرہے شہید پر لگنے والے اول ضرب سے اس کی سانس نکل جانے اور بعد میں اس کی میت کی کیفیت تک کا پورا منظر بیان کریں گے ، مگر قرآن کاانداز دیکھیے اورغور کیجیے کہ قرآن اہل ایمان کے دلوں میں کس چیز کی عظمت واہمیت بٹھانا چاہتاہے اور کس چیز کو بہت عام اور انتہائی ہلکا دکھانا چاہتاہے ، اللہ رب العزت پہلے اس بندہ ٔ مومن کی حق کی گواہی’’وَجَاءَ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعَى ‘‘سے لےکر ’’إِنِّي إِذًا لَفِي ضَلَالٍ مُبِين ‘‘ تک بیان کرتاہے اور ان آیات میں جس جگہ سے وہ آئے وہ جگہ ، اس کے آنے کی رفتار، پھر اس کی دعوت کے الفاظ ، اس کا خیرخواہانہ انداز اور انتہائی دل نشین استدلال کا تفصیلی ذکر ہے …… پھر اس کی جرأت ایمانی کی عکاسی ہے جب وہ قوم کے سامنے کھڑے ہوکر اعلان کرتاہے کہ إِنِّي آمَنْتُ بِرَبِّكُمْ فَاسْمَعُونِ ’’ سن لو ! میں تو تمہارے رب (اللہ ) پر ایمان لا چکا ‘‘مگراس اعلان کے بعداگلی آیات ہیں ﴿قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ قَالَ يَا لَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ ۝ بِمَا غَفَرَ لِي رَبِّي وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِين﴾ یعنی اعلان ِ ایمان کے بعد اللہ رب العزت فوراً اس کے جنت میں داخلے کاذکرکرتاہے اور جنت میں اس کو جو عزت واکرام ملتاہے اس کی زبانی اس کوبیان کرتاہے!! جبکہ بیچ کا واقعہ ، جس میں یہ قتل ہوا، جس کیفیت اور جس ظلم کے ساتھ یہ قتل ہوا، اس کا ذکر ہی نہیں ہے ! کیوں؟ شیخ ابو قتادہ حفظہ اللہ کے مطابق غالباً یہ ا س لیے کہ اللہ کے ہاں یہ قابل التفات نہیں ہے اور اللہ چاہتاہے کہ اس کے بندے بھی اس کو کوئی اہمیت نہ دیں، ان کی نظر بس اُن امور پرہو جو اہم ہیں اور جو اللہ نے تفصیلی بیان کیے ہیں ۔

غزوۂ احد کا پورا منظر اگر ہمارے سامنے ہو اور اس کے بعد ہم کسی کو سنائیں تو کیسے سنائیں گے ؟؟ اس غزوے میں جو درد اور تکلیف ہے ظاہرہے اس کا ذکر ہم زیادہ کریں گے ۔مگر اللہ رب العزت غزوۂ احد کا ذکر کس اسلوب میں فرماتے ہیں؟جس زخم کو انسانی طبیعت بہت بڑا خیال کرتی ہے اور اس کے سبب غم زدہ ہوجاتی ہے ، اللہ اس سے توجہ ہٹاتاہے ، فرماتاہے ’ کمزور نہ پڑو، غم زدہ مت ہو ، تم ہی غالب ہو گے اگر تم مومن ہو!‘‘﴿ وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ ﴾پھر فرماتاہے ’’اگر تمہیں زخم پہنچا ہے تو تمہارے دشمن کو بھی توزخم پہنچاتھا ،(گویا یہ کوئی بہت بڑی بات نہیں ہے ) اللہ دنوں کو لوگوں میں تبدیل کرتاہے ، (یہ شہادتیں اور زخم ، یہ مصائب و تکالیف اور یہ کبھی خود ٹھوکر کھانا اور کبھی دشمن کو مارنا اور گرانا،اس سب کا مقصد ہے اور وہ یہ کہ )اہل ایمان کا پتہ کرایا جائے اور شہداء کا چناؤ ہوجائے۔﴿إِنْ يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُهُ وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاءَ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ﴾ پھر فرماتے ہیں کہ ان آزمائشوں پر صبر کیے بغیر جنت میں داخل ہونا ممکن نہیں ، یہ آزمائشیں آنی ہیں اور ان پر صبر کرو!﴿أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّابِرِينَ﴾ پھر جو صحابہ شہید ہوئے آگے جاکر ،جنتوں میں ان کو جو انعامات ملے ان کا تفصیل سے ، بہت ہی پیارے اور دل کش انداز میں بیان ہے ﴿وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ ۝ فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ۝ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ یہ انداز بتاتاہے کہ اہل ایمان راہ حق کے انجام یعنی اخروی انعامات کے بس اپنے دل اسیر بنائیں اور اپنی ذمہ داری ادا کریں! باقی بیچ کی جن مشکلات سے گزر ہو، نہ خود ان کی پروا کریں اور نہ دوسروں کو وہ مشکل دکھائیں، کہ یہ سب مشکلات اللہ کے فضل سے آسان ہوجاتی ہیں، ان پر اجر ہے ، اللہ کی قربت ہے اور جنتوں میں اعلیٰ درجات ہیں ۔ ایک مجاہد تلوار سے قتل ہو، یا گولی ، گولے اور میزائیل سے شہید ہو ، حدیث کے مطابق اس کو چیونٹی کے کاٹنے جتنی تکلیف ملتی ہے ، خون کا پہلا قطرہ گر نے کے ساتھ اس کے سارے گناہ معاف کیے جاتے ہیں ، جنت میں اس کا مقام اس کو دکھایا جاتاہے ، حوریں اس کے استقبال کے لیے اترتی ہیں اور اسے جنت کا لباس پہنایا جاتاہے ۔لہٰذا ظاہری طورپر اگر چہ ہمیں اس کا جسم ٹکڑوں میں بٹا، خون میں لت پت اور مٹی میں اٹا نظر آتا ہے مگر حقیقت میں وہ کامیاب وفرحان ہوتاہے اوربہشت کی اُن نعمتوں سے مستفید ہو رہاہوتاہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھی ہیں ،نہ کان نے سنی ہیں اور نہ ان کا کوئی تصور کرسکتاہے ۔ ہم نے دیکھا ہے بعض اوقات اللہ رب العزت شہید کا یہ اکرام اس کے جسد سے اٹھنے والے خوشبو کی صورت میں لوگوں کو دکھاتا بھی ہے ، اور ایسا ہونا شہید کی کرامت تو ہوتی ہی ہے مگر حقیقت میں زندوں کے لیے اس میں اطمینان اور تحریض ہوتی ہے کہ ان کا ایمان قوی ہو ، وہ اللہ کی بندگی پر ڈٹے رہیں اور اپنے سروں کا جو سودا انہوں نے کیا ہے اُسے وہ وفا کریں۔

عار گناہ پر ، مجبوری پر نہیں!

اس واقعے میں وزیر نے تشدد کے سبب بادشا ہ کو نوجوان کا پتہ بھی دے دیا اور نوجوان نے بھی تعذیب کے تحت راہب کا راز کھول دیا ۔ ا س پر گزشتہ اقساط میں بات ہوئی تھی کہ مجبوری اور تعذیب کے تحت اگر غلط ، گناہ اور کفریہ بات تک بھی کہلوائی جائے اور دل وہ بات کرنے پر راضی نہ ہو ، تو اس پر ان شاء اللہ پکڑ نہیں ہے ، حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ کا واقعہ مشہور ہے کہ مشرکین نے سخت تعذیب کے ذریعہ ان سے ایسی باتیں کہلوائی تھیں اور اس کے باعث وہ تشویش میں مبتلا تھے ، آپ ﷺ سے دریافت کیا تو ان کے اطمینان کے لیے قرآن کی آیات نازل ہوئیں اور یہ اصول بیان ہوا کہ سخت مجبوری اور اکراہ کی حالت میں ایسی کوئی بات اگر زبان سے کہنی پڑے مگر دل ایمان پر مطمئن ہو تو اس پر پکڑ نہیں ہے ، زیر نظر واقعہ سے مزید ایک نکتہ یہ بھی نکلتاہے کہ اگر کسی سے تعذیب کے تحت جہاد ی راز افشا ہو جائیں یا کوئی اور ایسی بات ہوجائے ، تو اس پر نہ اس کوعار دلانا چاہیے اور نہ ہی اس سے شکوہ کرنا چاہیے ۔اسی طرح اگر کوئی خود ایسی آزمائش سے گزرےاور بہ وجہ تعذیب اس سےکچھ ایسی باتیں افشا ہوں تو شیطان کی کوشش ہوتی ہے کہ بندے کو اس پر ملامت کرے اور اتنی عار دلائے کہ وہ مایوس ہو کر گناہوں کے راستے پر خود قدم رکھے۔ استخبارات والے بھی بلیک میلنگ کے لیے ایسے حربے استعمال کرتے ہیں ، لہٰذا شیاطین کے ان حربوں کو سمجھنا چاہیے اور کبھی بھی اس جال میں پھنسنا نہیں چاہیے، اصل عیب کی بات یہ ہے کہ انسان خود سے گناہ کرے ،جہاد و مجاہدین اور اسلام و مسلمین کے خلاف کسی جرم میں شریک ہوجائے ، یہ عیب ہے ، اس سے بچنا چاہیے ، لیکن اگرایسا کوئی گناہ قصداً نہیں کیا ہے تو پھر عار کیوں ہو؟ اور اگر خدانخواستہ اس لحاظ سے کوئی گناہ قصداً ہوا بھی ہے تو توبہ کا دروازہ کھلا ہے ، گناہوں پر گناہ کرنے اور جہنم کی ایندھن بننے سے بدرجہا بہتر ہے، بلکہ اس کا اس سے کوئی تقابل نہیں کہ انسان توبہ کرے ، جونقصان اس کے سبب ہوسکتاہے جہادی مسئولین کے سامنے اعتراف کرکے اس نقصان کا راستہ روکے اور عہد کرے کہ آئندہ ایسا کوئی فعل نہیں کروں گا ۔ایسا اگرکیا تو اللہ نہ صرف معاف فرمائیں گے ، بلکہ دنیا وآخرت دونوں میں اس کوعزت دیں گے اوراپنے محبوبین میں اسے شامل کریں گے ۔

اللہ راہ حق پر،ایمان و ہدایت پر ہمیں استقامت دے اور اپنی رہنمائی اور نصرت سے کبھی محروم نہ کرے ، آمین ثم آمین !

وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭


1 ’’ اور اگر تم انہیں پسند نہ کرتے ہو تو یہ عین ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو اور اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔ ‘‘(سورۃ النساء: ۱۹)

2 ’’ تم پر (دشمنوں سے) جنگ کرنا فرض کیا گیا ہے، اور وہ تم پر گراں ہے، اور یہ عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو برا سمجھو حالانکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو پسند کرو، حالانکہ وہ تمہارے حق میں بری ہو، اور (اصل حقیقت تو) اللہ جانتا ہے، اور تم نہیں جانتے۔ ‘‘(سورۃ البقرۃ: ۲۱۶)

Exit mobile version