عافیہ صدیقی

ظلم و اسیری کی داستان…… کہاں ہیں غیرت کے پاسبان؟

الحمد للّٰہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللّٰہ وبعد

تمام امت مسلمہ کے نام!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اسلامی تاریخ میں یہ واقعہ محفوظ ہے کہ ایک مسلمان خاتون نے، جسے رومیوں نے قید کر لیا تھا…… جب اُس وقت کے عباسی خلیفہ معتصم باللہ کو مدد کے لیے پکارا تو پوری سلطنتِ اسلامی کے ایوان لرز اٹھے۔ خلیفہ معتصم نے اُس عورت کی فریاد کے جواب میں غیرتِ اسلامی کا کامل مظاہرہ کرتے ہوئے نفیرِ عام کا حکم دیا اور اُس قیدی بہن کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے بذاتِ خود ایک لشکرِ جرّار کی قیادت کرتا ہوا روم کے سب سے مضبوط شہر عموریہ پر حملہ آور ہوا، جہاں اس نے ظالم رومیوں کی لاشوں کے انبار لگا دیے اور شہر کا ایسا حال کر دیا گویا کل تک وہاں کچھ تھا ہی نہیں، یہاں تک کہ وہ خاتون پوری عزت و احترام کے ساتھ واپس پہنچ گئیں۔ رومیوں کو اپنے کیے کا پورا پورا خمیازہ بھگتنا پڑا اور ایک مسلمان عورت کی پکار ان کی ذلت و تباہی کاباعث بن گئی۔ اسی واقعے کے حوالے سے مشہور شاعر ’ابو تمام‘ کا قصیدہ آج تک زبانِ زد عام ہے کہ:

تلوار کی کاٹ کتابوں کے انبار سے زیادہ مؤثر ہوتی ہے
اور اس کی تیز دھارحقیقت اور افسانے کو جدا کر دیتی ہے

اسی طرح تاریخ شاہد ہے کہ سندھ کے راجہ کے ایک مسلمان خاتون کو قید کرنے پر اُس وقت کا سفاک حکمران حجاج بن یوسف بھی تلملا اٹھا۔ اس نے بلا تاخیر سندھ پر حملے کا حکم دیا اور اس مقصد کے لیے خزانے کے انبار خرچ کر دیے، یہاں تک کہ اُس خاتون کو بازیاب کروا کر باعزت طریقے سے اس کے شہر پہنچا دیا گیا۔

لیکن آج حالت یہ ہے کہ طواغیت کی جیلیں پاک دامن مسلمان خواتین سے بھری پڑی ہیں، جہاں انہیں ایسے سنگدل مجرموں کے ہاتھوں قسم قسم کے مظالم اور رسوائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کے دلوں کی سختی سے پتھر بھی پناہ مانگیں۔ اِن خواتین کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ ایک اللہ وحدہ لا شریک پر ایمان لائیں اور انہوں نے اپنے رب کی کتاب کو اپنے سینوں میں بسایا۔

فلسطین میں یہودیوں کی کال کوٹھریاں ہوں یا مصری راہبوں کی خانقاہیں، عراق کی جیلیں ہوں یا جزیرۂ عرب کے اذیت خانے، ہر جگہ آج ہماری عفت مآب بہنیں طرح طرح کے تشدد اور تعذیب کا سامنا کر رہی ہیں۔ لیکن ان مظلوم خواتین کی چیخ و پکار قید خانوں کے درودیوار سے ٹکرا کر، وہیں دم توڑ جاتی ہیں۔ اُن کی فریادیں، اُمت کی اکثریت پر طاری وہن، بے حسی اور لا پرواہی کے سمندر میں غرق ہو کر رہ جاتی ہیں۔ ولا حول ولا قوۃ الاّ باللہ!

کفر کے جرائم کی فہرست میں ایک اور جرم کا اضافہ کرتی ایسی ہی المناک داستان ہماری بہن ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ اُنہیں جلد آسانی عطا فرمائیں!

عالمی کفر کے سرغنہ امریکہ کو کفر و سرکشی میں مزید طول دینے اور مسلمانوں کی عزت و ناموس کو بے قدروقیمت ثابت کرنے کی غرض سے ایک امریکی عدالت نے دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں ساری دنیا کے سامنے ایک مسلمان خاتون ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اسّی سال سے زائد عرصے کے لیے قید کی سزا سنا دی۔ حالانکہ اس سے پہلے سات سال تک انہیں جیل میں جس جسمانی اور نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنایا گیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اُن کا یہ دعویٰ کہ انہوں نے ڈاکٹر عافیہ کو ۲۰۰۸ میں گرفتار کیا تھا، سراسر جھوٹ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ ۲۰۰۳ سے آج تک قیدوبند کی صعوبتیں جھیل رہی ہیں۔ ان کی گرفتاری عزت و شرف سے عاری پرویز مشرف اور اس کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مکمل تعاون کے ساتھ پاکستان ہی سے عمل میں لائی گئی تھی نہ کہ افغانستان سے ،جیسا کہ اِن جھوٹوں کا دعوی ہے۔

چنانچہ جب سنہ ۲۰۰۴ میں ہمیں قید کرکے بگرام جیل منتقل کیا گیا تو اُس وقت بھی ڈاکٹر عافیہ جیل میں تھیں۔ ان کا نمبر۶۵۰ تھا جو کہ بالکل شروع کے نمبروں میں سے ہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں جیل سے رہائی عطا فرمائی تو ہم نے اُن پر ڈھائے جانے والے مظالم کی نشاندہی بھی کی تھی۔ لہٰذا یہ جھوٹے کس بنیاد پر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں ۲۰۰۸ میں گرفتار کیا گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ جب کوئی حیا ہی نہ کرے، تو پھر جو چاہے کرے!

(مذکورہ ویڈیو کے حصے کا ترجمہ):

شیخ ابو یحییٰ :

’’یہاں میں اس بات کی جانب بھی توجہ دلانا چاہوں گا کہ بگرام جیل میں پانچ سو سے زائد مرد قیدیوں کے ساتھ ایک پاکستانی خاتون بھی ہیں جنہیں عرصۂ دو سال سے مسلسل قیدِ تنہائی کی کوٹھری میں رکھا گیا تھا۔ اگر انہیں بیت الخلاء بھی جانا ہوتا تھا تو ایک نجس امریکی کافر اپنا ایک پلید ہاتھ ان کے کندھے پر رکھ کے اور دوسرے ہاتھ سے ان کا بازو تھام کر زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑ کر اُنہیں قضائے حاجت کے لیے لے کر جاتا تھا۔ اُن کے ساتھ بالکل ویسا برتاؤ کیا جاتا ہے جیسا ایک مرد کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ اُنہیں ویسا ہی سرخ لباس پہنایا جاتا ہے جو گوانتانامو اور دیگر جیلوں میں مجاہدین کو پہنایا جاتا ہے۔ اُس خاتون کا حال یہ ہو چکا تھا کہ وہ اپنے ہوش و حواس تک کھو چکی تھیں، سارا دن اور ساری رات اُن کی چیخوں کی آوازیں سنائی دیتی تھیں اور شدتِ کرب سے وہ ہر وقت دروازہ پیٹتی رہتی تھیں۔ اِس کے جواب میں امریکی فوجی اُنہیں حقارت کے ساتھ اُن کے نمبر سے بلا کر یہ کہتے تھے کہ:

“Six five zero! What is the problem?”

’’چھ پانچ صفر(قیدی نمبر چھ سو پچاس)! تمہیں کیا مسئلہ ہے؟‘‘

حقیقت یہ ہے کہ کوئی انسان ایسا نہ تھا جس سے وہ بات ہی کر سکتیں! وہ خود قیدِ تنہائی میں ہیں، اُن کے دائیں بائیں آگے پیچھے سب قیدِ تنہائی کی کوٹھریاں ہیں۔ کوئی خاتون ایسی نہیں جس سے وہ بات کر سکیں، سوائے امریکی فوج میں موجود حیا باختہ عورتوں کے۔ اِس وقت وہ خاتون اپنا ذہنی توازن کھو چکی ہیں اور وہ گزشتہ دو سال سے اسی حال میں سسک رہی ہیں۔ غالباً ابھی تک کسی نے اُن کے بارے میں سنا بھی نہیں ہو گا! ولا حول ولا قوۃ الاّ باللہ۔‘‘

شیخ ابو ناصر (اللہ تعالیٰ ان کو قید سے رہائی عطا فرمائے):

’’عرب و عجم کے اُن حکمرانوں کے نام جو مسلمان ہونے کا دعوی کرتے ہیں! اللہ تمہیں غارت کرے!

ذرا دیکھو! اس خاتون کو جیل میں سسکتے ہوئے دو سال ہو گئے ہیں، حتیٰ کہ میں نے اور بھائی ابو یحییٰ نے ان سب ساتھیوں اور بعض افغانی بھائیوں کے ساتھ مل کر اُس خاتون کو کوٹھری سے نکلوانے کے لیے بھوک ہڑتال کر دی۔ اللہ کی قسم! ہم نے مسلسل نو دن تک کھانے پینے کی کسی چیز کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ اِس پر امریکی تفتیش کارنے ہم سے پوچھا کہ تمہیں کیا مسئلہ ہے، کھاتے پیتے کیوں نہیں؟ اس پر ہم نے اُسے صاف کہہ دیا کہ جب تک اس خاتون کو کوٹھری سے نہیں نکالا جاتا، ہم نہ کچھ کھائیں گے نہ پئیں گے! بلکہ یوں ہی بھوکے پیاسے مر جائیں گے۔‘‘

(یاد رہے کہ یہ ویڈیو سنہ ۲۰۰۵ کی ریکارڈ شدہ ہے)

چنانچہ امریکہ کو تو ہم خوب جان چکے ہیں اور مسلمانوں بلکہ پوری دنیا کے حق میں کیے گئے اُس کے مظالم کے نتیجے میں نکلنے والی آہیں تو سماعت سے محروم لوگوں کو بھی سنائی دیتی ہیں، اس لیے امریکہ کی جانب سے ایسے جرائم کا ارتکاب کرنا اور بعد ازاں ذرائع ابلاغ کے دجل و فریب کے ذریعے اسے کچھ کا کچھ بنا کر پیش کرنا قطعاً تعجب کی بات نہیں! مسئلہ تو ہمارا اپنا ہے۔ کیونکہ جب چرواہا ہی ریوڑ کا دشمن ہو جائے تو پھر بھیڑیے کو کیا الزام دینا؟

اصلاً مطلوب تو یہ ہے کہ ہم مسلمان، اور خاص طور پر اہلِ پاکستان اور وہاں کے فاضل علماء کرام…… خود اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ آیا اس مقصد کے لیے مجرد ایک دو دن مظاہرے اور احتجاج کر لینا کافی ہے جن کے بعد اس مظلوم بہن کا مسئلہ بھی ویسے ہی قصۂ پارینہ بن جائے، جس طرح اس جیسے دیگر مسائل ماضی کی دھول میں گم ہو کر رہ گئے؟ اور کیا ان مظاہروں، احتجاجوں، کھوکھلے نعروں اور بلند بانگ دعووں سے امریکہ کے کان پر کبھی جُوں بھی رینگی؟

سو جس کی سمجھنے کی نیت ہی نہ ہو
اسے نصیحت کرنے سے کیا حاصل

ڈاکٹر عافیہ کا مسئلہ محض اتنا نہیں کہ ایک کمزور اور لاچار مسلمان عورت کو کفار نے قید کر لیا، بلکہ اس سے بڑھ کر یہ پوری امت کی غیرت و حمیت کا مسئلہ ہے اور بھلا ایسے شخص میں کیا خیر ہوگی جو غیرت سے ہی عاری ہو؟

ہم نے بارہا انفرادی قید کی کوٹھری سے ان کی چلاّنے کی آوازیں سنیں، گویا وہ ہمیں پکار پکار کر ہم سے ہماری بے حسی کا شکوہ کر رہی ہوں۔ اس لیے ہمیں اس حقیقت کو بخوبی سمجھ لینا چاہیے کہ امریکہ کو مطالبات اور مذمت کی زبان کبھی سمجھ میں نہیں آسکتی اور نہ ہی ہڑتالوں اور احتجاجوں کے ذریعے اسے اس کی سیاہ کاریوں سے روکنا ممکن ہے۔ ان متکبرین کے دل ایسے نہیں کہ شکوہ و شکایت سے نرم پڑ جائیں۔ اپنا حق کبھی بھی التجاؤں اور فریادوں کے ذریعے نہیں ملا کرتا!

اس لیے جب تک اللہ تعالیٰ ہمارے اور اِن کفار کے درمیان فیصلہ نہیں کر دیتا تب تک صبر و استقامت کے ساتھ جہاد و قتال کے راستے پر جمے رہنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَاۗءِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ اَهْلُھَا ۚ وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِيًّـۢا ڌ وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِيْرًا(سورۃ النساء: ۷۵)

’’اور تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور اُن ضعیف مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو یہ فریاد کرتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ تو ہمیں ظالموں کی اس بستی سے نکال دے اور تو اپنی جانب سے ہمارے لیے کوئی حمایتی بنا دے اور اپنی ہی جانب سے ہمارے لیے کوئی مددگار مقرر فرما دے۔‘‘

اے اہلِ پاکستان!

ظالم امریکہ جس نے آپ کی بہن اور اس کے بچوں کو اغوا کیا، آپ سے ایسا دور نہیں کہ آپ کے اور اس کے مابین سمندر اور صحرا حائل ہوں، بلکہ اُس کے اڈے اور فوجی آپ کے سامنے موجود ہیں۔ آپ کے افغانی بھائیوں کے لیے موت اور تباہی کا سامان لیے اِن کی رسد کے قافلے دن دہاڑے آپ کی آنکھوں کے سامنے آپ ہی کی سڑکوں کو روندتے ہوئے گزرتے ہیں۔ ان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے دفاتر اور ان کی خفیہ جیلوں کا مکروہ جال آپ کے شہروں میں ہر جگہ پھیلا ہوا ہے، جہاں ان کی حفاظت کی ذمہ داری ایک ایسی فوج نے اٹھا رکھی ہے جن کا ربّ صرف اور صرف ڈالر ہے۔ قبائلی علاقوں میں مسلمانوں پر بمباری کی غرض سے امریکی فوج کے ہوائی جہاز روزانہ آپ ہی کے ہوائی اڈوں سے اڑتے ہیں اور اس کے بحری بیڑے اور آبدوزیں آپ ہی کے پانیوں میں بے خوف و خطر تیرتی پھرتی ہیں۔ پھر ساری حقیقت واضح ہو جانے کے بعد بھی آخر وہ کیا عذر ہے جو آپ کو اس فرض کی ادائیگی سے روکے ہوئے ہے؟

انہیں جہاں پائیں قتل کریں! قید کریں! ان کا محاصرہ کریں! اور ہر گھات لگانے کی جگہ اِن کے لیے گھات لگائیں! ان کی رسد کے راستوں کوکاٹ ڈالیں! اِن کا امدادی سامان جلا ڈالیں! اور اپنے مجاہد بھائیوں کے ساتھ مل کر اُن کی صفوں کو مضبوط کریں!

اللہ کی قسم! اس مقصد کی خاطر نکالے گئے ایسے سینکڑوں مظاہروں سے، جن میں چاہے نعرہ گو لوگ شدت سے اپنے گلے ہی کیوں نہ پھاڑ لیں…… ان کی طرف چلائی گئی ایک گولی زیادہ بہتر اور نتیجہ خیز ثابت ہوگی۔

پاکستان کے قابلِ صد احترام علمائے کرام!

آپ ہمیشہ سے اپنے عالی قدر اسلاف کے یہ اقوال پڑھتے اور پڑھاتے رہے ہیں کہ:

’’اگر مغرب میں بھی کسی مسلمان عورت کو قید کرلیا جائے تو اہل مشرق پر اسے آزاد کرانا فرض ہے۔‘‘

اسی طرح انہوں نے فرمایا:

’’اسیر کا چھڑانا ہر اس شخص پر فرض ہے جس کو اس بارے میں علم ہو جائے، اور اس فرضیت میں اہلِ مشرق و مغرب سب برابر ہیں۔‘‘

جبکہ یہاں تو ایک مسلمان خاتون کو آپ کے سامنے اٹھا کر جیل کی اندھیر نگری کے سپرد کر دیا گیا، اور بعد ازاں نصرانی کافر اُسے انواع و اقسام کے تشدد اور عذاب دینے کے لیے ظلم وجبر کی نمائندہ سرزمین امریکہ اٹھا کر لے گئے، جہاں وہ اپنی بے بسی اور بے چارگی کا شکوہ لیے کئی سالوں سے پڑی گل سڑ رہی ہے۔ ذرا بتائیے کہ اس حوالے سے آپ پر کیا فرض عائد ہوتا ہے؟ اگر آپ میں سے ہر کوئی خاموشی کی چادر تانے سویا رہے گا توآخر پھر وہ کون ہوگا جو اِس مظلوم عورت کی فریاد رسی کے لیے اٹھے گا اور لوگوں کو اُسے قید کرنے والوں کے خلاف قتال پر ابھارے گا؟

آپ لوگوں کے راہبر اور راہنما ہیں، اگر آپ خاموش ہوگئے تو لوگ بھی خاموش ہو جائیں گے۔ لیکن اگر آپ لوگوں کو اُبھارتے ہوئے کھڑے ہوگئے تو لوگ بھی آپ کے نقشِ قدم پر اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ اس بہن کے حوالے سے آپ کے کاندھوں پر علمی و عملی دونوں اعتبار سے بھاری امانت کا بوجھ ہے۔ اور پھر ایسے علم سے کیا حاصل جس پر عمل ہی نہ ہو۔ ہر شخص بخوبی جانتا ہے کہ اِن کافروں کا زور توڑنا اور اِن کے شر کے آگے بند باندھنا، قتال فی سبیل اللہ اور اس کی دعوت کے بغیر ممکن نہیں!

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

فَقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۚ لَا تُكَلَّفُ اِلَّا نَفْسَكَ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ ۚ عَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّكُفَّ بَاْسَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۭ وَاللّٰهُ اَشَدُّ بَاْسًا وَّاَشَدُّ تَنْكِيْلًا(سورۃ النساء: ۸۴)

’’سو اے نبی ﷺ! آپ اللہ کی راہ میں لڑیں! آپ اپنے سوا کسی کے ذمہ دار نہیں اور مومنین کو بھی ترغیب دیں! قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں کا زور توڑ دے گا اور اللہ تعالیٰ لڑائی میں بہت سخت ہے اور سزا دینے میں بھی بہت سخت ہے۔‘‘

افغانستان اور عراق پر امریکی حملے کے بعد اگر مسلمان محض احتجاجی مظاہروں، فلک شگاف نعروں، جوشیلی تقریروں اور کانفرنسوں کے انعقاد پر اکتفا کیے، بیٹھے رہتے تو آج امریکہ کی جو ابتر حالت ہم دیکھ رہے ہیں ایسی نہ ہوتی، بلکہ وہ یکے بعد دیگرے تمام اسلامی ممالک پر قبضہ کرتا چلا جاتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے مقابلے پر ایسے سچے مومنین اور مجاہدین کو کھڑا کر دیا جنہوں نے اپنے اوپر سے وہن اور جھوٹی خواہشات کی چادر کو اتار پھینکا اور وہ دشمن کے قلعے مسمار کرتے، اس کے فوجیوں کوجہنم واصل کرتے، اس کے ایجنٹوں کو سبق سکھلاتے، صبر و استقامت کے ساتھ، اپنے زخموں کی پرواہ کیے بغیر آگے بڑھتے چلے گئے۔ انہوں نے قتل کا بدلہ قتل اور تباہی کا بدلہ تباہی سے لیا۔ یہ ان کی ثابت قدمی ہی کا ثمر ہے کہ آج اسلام کا علم سربلند اور امریکہ اور اس کے حلیفوں کا جھنڈا سرنگوں ہے۔ لہٰذا ہمیں حوصلے اور ہمت کے ساتھ جہاد اور قربانی کی اِس عظیم تجارت کے لیے کمر بستہ ہو جانا چاہیے جس میں صرف نفع ہی نفع ہے، خسارہ نہیں۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

فَلْيُقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ الَّذِيْنَ يَشْرُوْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا بِالْاٰخِرَةِ ۭوَمَنْ يُّقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَيُقْتَلْ اَوْ يَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِيْهِ اَجْرًا عَظِيْمًا(سورۃ النساء: ۷۴)

’’سو جو لوگ آخرت کے بدلے میں دنیا کو بیچنا چاہتے ہیں انہیں چاہیے کہ اللہ کی راہ میں قتال کریں۔ اور جو شخص بھی اللہ کی راہ میں لڑے گا پھر شہید ہو جائے یا غلبہ پا جائے تو عنقریب ہم اسے بڑا اجر عطا فرمائیں گے۔‘‘

اشعار کا نثری ترجمہ:

امریکہ کے مقدر میں چین تب تک نہیں

جب تک عافیہ اپنی آنکھ سے فتح نہ دیکھ لے

قسم اللہ کی! یہ کسی دیوانے کا خواب نہیں

امریکہ کی تباہی توایک اٹل حقیقت ہے

ہمارے جوانوں کے کارنامے فخر کی داستان ہیں

معرکوں میں ان کی شجاعت شیروں سے کم نہیں

جب نفیر کی صدا لگی تو یہ فوراً نکل کھڑے ہوئے

سو اوباما ان کے مقابل جسے چاہے بلا کر دیکھ لے

یہ وہ لشکر ہیں کہ جب میدان میں اتریں

تو ان کا دشمن ایک بھولا ہوا قصہ بن جاتا ہے

کابل و بغداد سے ان کا حال تو پوچھو!

خودداری کی زمین مقدیشو کو دیکھو!

الجزائر اور جزیرۂ عرب میں بھی ہماری تلواریں

ابھی تک ان کے خون سے رنگی ہوئی ہیں

جنگ کے دن بزدلی اور وہن جیسی بیماریاں

ان شہسواروں سے کوسوں دور دکھائی دیتی ہیں

ان کی دعوت سچی ہے صبر ان کا زادِ راہ ہے

ان کے دل اخلاص کے زیور سے مالا مال ہیں

تم ان کو ہر دم پرسکون حالت میں دیکھتے ہو لیکن

ان کے دل شہادت کی طلب میں روتے رہتے ہیں

امریکہ! تیری ساری امیدیں اور اندازے

سوائے وہم اور خود فریبی کے کچھ بھی نہیں

اس خوابِ غفلت سے اب تو تبھی اٹھے گا جب

تیرے درودیوار کو جنگ کی شدت نے لپیٹا ہوگا

یہ مجاہدین حق کے لشکر اور سچائی کے پیکر ہیں

تیری مانند دھوکہ اور فریب ان کا شیوہ نہیں

تیرا زوال اب بالکل قریب آن پہنچا ہے

اور تیری تباہی اور بربادی اب زیادہ دور نہیں

کفر و ضلالت کی تیری یہ مملکت اب کمزور پڑ چکی ہے

اس کے ستونوں اور ایوانوں میں دراڑیں پڑ چکی ہیں

خوشحالی اور آسودگی تجھ سے بہت دور رہ گئی ہے

اپنے لیے پستی اور ذلت کو تُو نے خود منتخب کیا ہے

اے امریکہ! تیری شہ رگ بس کٹنے کو ہے

کیا اب بھی تو ان خطرات سے بالکل بے خبر ہے

کیا تجھے اپنے ظلم کا خمیازہ بھگتنا نہ ہو گا؟

اور تُو غم سے بے پرواہ یوں ہی چین سے رہے گا؟

نہیں! نہیں! تیری پھانسی کا پھندا تو تیار پڑا ہے

مگر تُو اب تلک گہری نیند میں مدہوش پڑا ہے

تیری زندگی کے ایام اب بدمزہ ہی رہیں گے

بس اب تُو فیصلہ کن ضرب کا انتظار کر

سو جان رکھ کہ جو ضلالت کی راہ پر راضی ہوجاتا ہے

وہ اپنے ہی ہاتھوں خود کو آگ کا ایندھن بنا دیتا ہے

اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج امریکہ اپنی آخری سانسیں گن رہا ہے۔ اب ظاہری طور پر وہ جتنے چاہے بلند بانگ دعوے کرے اور جتنا چاہے عزم و ہمت کا اظہار کرے، ان سب کی حقیقت کھوکھلے دعووں سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس کی معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے، لوگ انتشار کا شکار ہیں، سیاست پٹری سے اتر چکی ہے، فیصلوں میں اضطراب ہے، پے در پے شکست ان کا مقدر بن چکی ہے اور ان کی فوجیں اس طویل جنگ اور مسلسل جانی و مالی نقصانات کی وجہ سے تھکن اور اکتاہٹ کا شکار ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔

وَلَا تَهِنُوْا فِي ابْتِغَاۗءِ الْقَوْمِ ۭ اِنْ تَكُوْنُوْا تَاْ لَمُوْنَ فَاِنَّھُمْ يَاْ لَمُوْنَ كَمَا تَاْ لَمُوْنَ ۚ وَتَرْجُوْنَ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا يَرْجُوْنَ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِــيْمًا حَكِــيْمًا(سورۃ النساء: ۱۰۴)

’’اور ان کافروں کا پیچھا کرنے میں سستی مت کرو! اگر تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تو انہیں بھی تکلیف پہنچتی ہے جیسے تمہیں تکلیف پہنچتی ہے، جبکہ تمہیں اللہ سے اس چیز کی امید ہے جس کی انہیں امید نہیں اور اللہ تعالیٰ علم والا حکمت والا ہے۔‘‘

سو اے گروہِ مجاہدین! اپنے ربّ پر توکل کرتے ہوئے اور اس کے سچے وعدوں پر یقین رکھتے ہوئے فتح کے اس راستے پر گامزن رہیے! سختیوں پر صبر اور آسانیوں پر شکر کو اپنا وطیرہ بنائیے! اس راہ پر لگنے والے زخم ہی آپ کا زادِ راہ ہیں۔ اور اگر ربّ کی رضا ہی آپ کا مقصود ہے تو ہر مشکل آپ کے لیے آسان ہے۔ اور پھر جب منزل ربّ کی جنت ہو، تو راستے کی طوالت کا کیا غم؟اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ(سورۃ آل عمران: ۱۸۵)

سو جسے آگ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا تو وہ کامیاب ہو گیا۔ اور دنیا کی زندگی تو ہے ہی دھوکے کا سامان۔‘‘

وَاللّٰهُ مَعَكُمْ وَلَنْ يَّتِرَكُمْ اَعْمَالَكُمْ(سورۃ محمد: ۳۵)

’’اور اللہ تمہارے ساتھ ہے اور وہ ہرگز تمہارے اعمال میں کمی نہ کرے گا۔‘‘

وآخر دعوانا أن الحمد للّٰہ رب العالمین.

Exit mobile version