خوش قسمتی سے اگر اہلِ شرف و عزت نے سرکس کا تماشا نہیں دیکھا تو بھی اس کی تفصیلات سے یقیناً ہم سبھی واقف ہیں۔ سرکس کے مندرجات ہمارا مطمح نہیں، سرکس کا ’دجل‘ ہمارا موضوع ہے۔ سرکس کے اکثر کرتب جو نظر آتے ہیں وہ ہوتے نہیں ہیں۔ دو تین صدیوں سے دنیا کے چند ممالک میں اور پچھلی سات آٹھ دہائیوں سے تقریباً ساری ہی دنیا میں جو جمہوری نظام نافذ ہوا ہے، تو یہ اسی سرکس کی مانند ہے یا اس سرکس سے بھی بدتر۔ اہلِ علم و دانش جانتے ہیں اور ہم بھی گاہے یہ لکھتے ہی رہتے ہیں کہ دنیا کی سبھی ’جمہوریتوں‘ کو چلانے والی اصل قوت اسٹیبلشمنٹ یا ڈیپ سٹیٹ ہوتی ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کے بد نما چہرے کو جس جمہوری غازے نے دہائیوں سے چھپا رکھا تھا وہ عالمی منظر نامے پر پچھلے چند سالوں سے تھوڑا تھوڑا آشکار ہونا شروع ہو گیا ہے1۔ افغانستان و عراق میں امریکہ کے براہِ راست قبضے اور یمن، پاکستان، لیبیا، شام اور صومالیہ میں امریکیوں کی غیر مستقیم جنگ (فضائی چھاپوں، ڈرون حملوں اور انٹیلی جنس کارروائیوں کی صورت) نے دنیا میں جمہوریت کے سب سے بڑے علم بردار ’امریکہ‘ کی جمہوریت کا پردہ فاش کیا، کہ حکومت میں ڈیموکریٹ ہوں یا ری پبلکن، سبھی نے اس غیر عادلانہ، غیر عاقلانہ اور ظالمانہ جنگ کو جاری رکھا۔ پھر افغانستان میں مجاہدینِ امت کی عسکری کارروائیوں کے نتیجے میں امریکی شکست ثم سیاسی حکمتِ عملی کے سبب مذاکرات کی میز پر شکست نے بھی اس حقیقت کو نمایاں کیا۔افغانستان میں ’ڈیموکریٹ‘ اوبامہ جنگ کو مذکرات کے ذریعے ختم کرنا چاہتا تھا، ’ری پبلکن‘ ٹرمپ نے یہ کر دکھایا اور پھر الیکشن کے بعد منتخب ہونے والے ’ڈیموکریٹ‘ بائیڈن نے افغانستان سے ’ری پبلکن‘ شرائط ہی پر انخلا کیا۔بھارت میں کانگریس ہو یا بی جے پی، دونوں ہی کے ادوار میں باگِ حکومت ہندوستان کے برہمنوں کے ہاتھ میں رہی، ہندتوائی نظریہ ہر دور میں ہی نظر آتا رہا(گو کہ اس کا اصل ظہور بی جے پی کے اقتدار میں آنےکے بعد ہوا)، اور یہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ (برہمنوں) ہی کا کمال ہے جس کے سبب آج بھارت کی ’سیکولر‘ پارٹی ’کانگریس‘ بھی اقتدار میں آنے کے لیے اپنے آپ کو’ ہندو‘ ظاہر کرنا شروع ہو گئی ہے۔ پاکستان میں اصل قوت اسٹیبلشمنٹ ہے، اس پر تو اب سوال اٹھانا ہی بے عقلی کی بات ہے۔
چند ماہ قبل ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں جب ایک صوبے میں ایک پارٹی نے اکثریت حاصل کی تو اسی پارٹی سے دہائیوں وابستہ رہنے والے ایک سینئر رہنما نے کہا کہ پارٹی کے سربراہ کی جی ایچ کیو کے گیٹ نمبر چار سے پرانی شناسائی ہے۔ عمران خان نے جب چند معاملات میں فوج سے بالا بالا کچھ معاملات کرنے کی کوشش کی تو بقول اسی کے کہ رات کو بارہ بجے عدالتیں کھولی گئیں۔ عدلیہ ہو یا سول بیوروکریسی یا پارلیمان کے اپر و لوئر ہاؤس میں حزبِ اقتدار و حزبِ مخالف کے بینچوں پر بیٹھنے والے، حالیہ ’سلیکٹڈ‘حکومت کے بننے اور چند روز قبل رخصت ہونے والی ’سلیکٹڈ‘ حکومت، یہ سبھی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ماتحت ہیں۔ یہ نظام ایک ایسا شیطانی گھن چکر اور دجل و فریب پر مبنی سرکس ہے جسے کی تولید پیرس و لندن کے ایوانوں میں ہوئی اور جس نظام کی اصلاح ممکن نہیں۔
اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
الیکشن، ممبری، کونسل، صدارت
بنائے خوب آزادی نے پھندے
میاں نجّار بھی چھیلے گئے ساتھ
نہایت تیز ہیں یورپ کے رَندے
ایک سلیکٹڈ کی رخصتی اور دوسرے سلیکٹڈ کی بارات نے جہاں اسٹیبلشمنٹ کے ’ہونے‘ کی خبر دی تو ساتھ ہی اسٹیبلشمنٹ کس کے ماتحت ہے اس کا پتہ بھی، اعلانیہ، واضح انداز میں دیا۔ دراصل ان سب واقعات نے ملکِ پاکستان کے نظام کے کھوکھلے ’خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ ‘ہونے کا پتہ دیا۔ چند نقاط میں بات سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں:
-
آج سے ستّر برس قبل پاکستان کے وردی و بے وردی حکمرانوں نے یہ’عملی‘ فیصلہ کیا کہ وہ اس ملک میں ’اقتدارِ اعلیٰ‘ کا مالک ، ’الملک‘ و ’القہار‘ و’المقتدر‘ کو نہیں بنائیں گے یعنی وحدہٗ لا شریک کی طرف سے محمدِ مصطفیٰ احمدِ مجتبیٰ (فداہ آباؤنا وأبناؤنا وأرواحنا علیہ ألف صلاۃ وسلام) پر اتاری گئی شریعت کو نافذ نہیں کریں گے۔ (اللّٰہ کی مشیت سے اپنی دانست میں) ان حکمرانوں نے جب ’مقتدرِ اعلیٰ‘ کی کرسی کو خالی کر دیا تو اس کرسی پر کسے بٹھایا جائے، اس پر بحث و مشورہ ہوا۔ نتیجتاً اس وقت کی سول و فوجی اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کیا کہ وہ امریکی بلاک کا حصہ بنیں گے۔
-
پھر ان ستّر سالوں میں دسیوں بار ایسے واضح مناظر دیکھے گئے جنہوں نے ملکِ پاکستان پر اصل حاکم امریکہ کو ثابت کیا۔
-
اور پچھلی دو دہائیوں میں جب پاکستان ’دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ‘ میں اتحادی بنا تو امریکی حاکمیت اور دیسی حکمرانوں کی امریکی غلامی اظہر من الشمس ہو گئی۔ اس عرصے میں حکمرانی کی کرسیوں پر بہت سے وردی و بے وردی بٹھائے اور اتارے گئے۔
-
وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’ریاستِ‘ پاکستان کے ناخداؤں نے اپنے لا دین و بے دین افکار کے سبب چونکہ پہلے روز سے ہی فیصلہ یہ کر رکھا تھا کہ اقتدار تو کوئی بڑی قوت ہی دیتی ہے، اور بڑی قوت یہاں کی اسٹیبلشمنٹ نے امریکہ ہی کو مانا اور اب جب عمران خان کے اقتدار کی کشتی اسٹیبلشمنٹ سے نا چاقی کے سبب ہچکولے کھانے لگی تو عمران خان نے امریکہ کے مقابلے میں بظاہر دوبارہ ابھرتی قوت روس سے رشتے کے تانے بانے جوڑنا چاہے۔
-
امریکی ڈیپ سٹیٹ کے آدمی زلمے خلیل زاد نے پاکستان کا ہنگامی دورہ کیا، جنرل باجوہ سے ملاقات کی اور پھر ’اسلام آباد سکیورٹی ڈائیلاگ۲۰۲۲ء‘ میں جنرل باجوہ کے ہمراہ شرکت کی ۔ اسی مجلس میں جنرل باجوہ نے اپنے اور اسٹیبلشمنٹ کے ’بیانیے‘ کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کا دیرینہ تعلق ہے، جنرل باجوہ نے روس کی مذمت کی، یوکرین پر روسی حملے کو ’invasion‘ قرار دیا اور کہا کہ پاکستان ائیر فورس کے کئی طیارے یوکرینی عوام کی امداد کے لیے یوکرین بھیجے گئے ہیں۔
-
اس کے بعد جی ایچ کیو اور آبپارہ کے مختلف گیٹوں سے مختلف النوع شناسائیاں رکھنے والوں کی ایک نئی حکومت وجود میں آ گئی۔
جس طریقے پر پاکستان کے ناخداؤں نے امریکہ کو خدا مانا، اسی طرز پر بنگلہ دیش کے حکمرانوں نے امریکہ سے بھی اسفل بھارت کو خدا مان لیا۔ یہ زمین، اس زمین پر قائم ممالک کے آئینوں اور حکمرانوں کی نہیں، اللّٰہ وحدہ لا شریک کی ہے۔بلا شرکتِ غیرے’اقتدارِ اعلیٰ‘ کا مالک وہی ہے، جس نے زمین اور آسمانوں کو چھ روز میں اپنی حکمتِ کاملہ کے ساتھ پیدا فرمایا۔
پس قلب میں یقین اور اعضا و جوارح میں روحِ عمل پھونکنے کی ضرورت ہے اور پھر اپنے قول و فعل سے للکار کر امریکی و اسرائیلی و بھارتی ورلڈ آرڈر اور اس کے غلاموں کو کہنے کی ضرورت ہے:
؏پادشاہوں کی نہیں، اللّٰہ کی ہے یہ زمیں!
اللھم وفقنا كما تحب و ترضى وخذ من دمائنا حتى ترضى .اللھم زدنا ولا تنقصنا وأکرمنا ولا تھنّا وأعطنا ولا تحرمنا وآثرنا ولا تؤثر علینا وأرضنا وارض عنا. اللھم إنّا نسئلك الثّبات في الأمر ونسئلك عزیمۃ الرشد ونسئلك شكر نعمتك وحسن عبادتك. اللھم انصر من نصر دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم واجعلنا منھم واخذل من خذل دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا تجعلنا منھم، آمین یا ربّ العالمین!
٭٭٭٭٭
1 اور اس کا بنیادی سبب افغانستان تا یمن و صومالیہ مجاہدینِ امت کی جہادی ضربیں ہیں۔