مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چھتیس (۳۶)

چھتیسویں وجہ: فارغ رہنا

سلف میں سے ایک عالم کا قول ہے:

رسوائی ، مکمل رسوائی یہ ہے کہ تم تمام تر مصروفیتوں سے فارغ ہو جاؤ پھر ’اُس‘ کی طرف بھی متوجہ نہ ہو۔ تمام رکاوٹیں ختم ہو جائیں پھر بھی تم ’اُس‘ کی جانب رخت سفر نہ باندھو۔“

ان کی مراد اللہ ﷯ کی طرف متوجہ ہونا اور رخت سفر باندھنا ہے۔

اللہ سبحانہ و تعالی ٰنے قرآن میں فرمایا:

فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ۝ 1(سورۃ الشرح: ۷)

تو جب فارغ ہوا کرو تو (عبادت میںمحنت کیا کرو۔ “

علامہ سعدی ﷫ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

یعنی جب تم اپنے کاموں سے فارغ ہو جاؤ اور تمہارے جی میں کوئی ایسی چیز باقی نہ رہے جو اس کے سامنے رکاوٹ بنے، تب تم عبادت اور دعا میں خوب لگ جاؤ۔

وَاِلٰى رَبِّكَ فَارْغَبْ۝ 2(سورۃ الشرح: ۸)

وَ اِلٰى رَبِّكَ اور فقط اپنے رب کی طرف فَارْغَبْ راغب اور متوجہ ہو جاؤ ۔ یعنی اپنی دعا کی استجابت اور عبادت کی قبولیت کی طر ف متوجہ ہو جاؤ۔

ان لوگوں میں سے نہ ہونا جو جب کاموں سے فارغ ہو جاتے ہیں تو کھیل کود میں لگ جاتے ہیں اور اپنے رب سے اعراض کرتے ہیں اور اس کی یاد سے غافل رہتے ہیں۔ اس طرح تو تم خسارہ پانے والوں میں شامل ہو جاؤ گے۔“

پیغمبر مصطفیٰ ﷺ نے عافیت اور وقت کی نعمت سے غافل رہنے سے خبردار کیا ہے جس میں اکثر لوگ مبتلا رہتے ہیں:

نِعْمَتَانِ مِنْ نِعَمِ اللَّهِ، مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ؛ الصِّحَّةَ وَالْفَرَاغَ

اللہ کی دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں بہت سے لوگ دھوکے میں پڑے ہیںتندرستی اور فراغت۔“3(بروایت بخاری)

حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

اغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍشَبَابَكَ قَبْلَ هَرَمِكَ، وَصِحَّتَكَ قَبْلَ سَقَمِكَ، وَغِنَاكَ قَبْلَ فَقْرِكَ، وَفَرَاغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ، وَحَيَاتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ

پانچ چیزوں کو پانچ سے پہلے غنیمت جانواپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے۔ اپنی صحت کو مرض سے پہلے۔ اپنی مالداری کو فقر سے پہلے۔ اپنی فراغت کو مشغولیت سے پہلے۔ اور اپنی زندگی کو موت سے پہلے۔“4(بروایت حاکم اور البانی نے صحیح قرار دیا)

سلف صالحین کو یہ نا پسند تھا کہ کوئی شخص ایسا فارغ رہے کہ نہ وہ کسی دینی کام میں مشغول ہو اور نہ دنیاوی کام میں۔

ابو العتاہیہ کا شعر ہے:

إِنَّ الْفَرَاغَ وَالشَّبَابَ وَالْجِدَهْ
مَفْسَدَةٌ لِلْمَرْءِ أَيَّ مَفْسَدَهْ

’’انسان کے لیے جوانی، فراغت اور مال داری کا جمع ہونا انتہائی تباہ کن ہے۔‘‘

حضرت عمرؓ بن الخطاب سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا:

میں کسی شخص کو دیکھتا ہوں اور وہ مجھے بھلا معلوم ہوتا ہے۔ پھر جب میں اس کے بارے میں دریافت کرتا ہوں تو بتایا جاتا ہے کہ اس کا کوئی کام کاج نہیں ہے۔ پھر وہ میری آنکھوں سے گر جاتا ہے۔“

انہوں نے یہ بھی فرمایا:

مجھے نا پسند ہے کہ میں تم میں سے کسی کو بے کار اور فارغ بیٹھا دیکھوں کہ وہ نہ دنیاوی کاموں میں مشغول ہو اور نہ آخرت کے کاموں میں۔“

کسی دانا کا قول ہے:

جو شخص اپنی عمر کا ایک دن بھی کسی کا حق ادا کرنے، اپنے ذمے فرض ادا کرنے، عزت کی حفاظت کرنے، نیک نامی کمانے، خیر کی بنیاد رکھنے، یا علم حاصل کیے بغیر گزارے تو ایسے شخص نے اس دن کی نا قدری کی اور اپنے اوپر ظلم کیا۔“

فراغت فکر، عقل اور جسمانی طاقتوں کے لیے تباہ کن مرض ہے۔ کیونکہ ہر جان کے لیے حرکت اور کام نا گزیر ہے۔ اگر کوئی انسان کام کاج سے بالکل فارغ رہے تو اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مانند پڑ جاتی ہے، عقل کمزور ہو جاتی ہے، چستی ختم ہو جاتی ہے اور دل پر وسوسے اور برے خیالات چھا جاتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ فراغت کی وجہ سے جس اکتاہت اور تنگی کا شکار ہو وہ اس سے نکلنے کے لیے برے اور شر آمیز کاموں کا ارادہ کر بیٹھے۔

اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا:

 لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِيْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَ۝ مَا يَاْتِيْهِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنْ رَّبِّهِمْ مُّحْدَثٍ اِلَّا اسْتَـمَعُوْهُ وَهُمْ يَلْعَبُوْنَ Ą۝ لَاهِيَةً قُلُوْبُهُمْ ۭ 5(سورۃ الأنبياء: 1 – 3)

لوگوں کا حساب ِ(اعمال کا وقتنزدیک آپہنچا ہے اور وہ غفلت میں (پڑے اس سےمنہ پھیر رہے ہیں ۔ان کے پاس کوئی نئی نصیحت ان کے پروردگار کی طرف سے نہیں آتی مگر وہ اسے کھیلتے ہوئے سنتے ہیں ۔ ان کے دل غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔“

استاد سید قطب ﷫ ان آیات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

یہ اُن فارغ انسانوں کی حالت ہے جنہیں سنجیدگی نہیں سوجھتی۔ چنانچہ وہ انتہائی خطرناک حالات میں بھی غافل رہتے ہیں ،سنجیدگی کے مقام پر ہنسی مذاق کرتے ہیں اور مقدس لمحات میں لا پرواہی برتتے ہیں۔ ان کے پاس جو (نصیحت ) آتی ہے وہ (ان کے پروردگار کی طرف سے) ہوتی ہے۔ لیکن یہ بغیر کسی وقار اور تقدیس کے کھیل تماشے میں اسے لیتے ہیں۔

جو نفسِ انسانی سنجیدگی، اہتمام اورقدسیت سے خالی ہو وہ گھٹیا پن، بے بضاعتی اور زوال کی ایسی حالت تک پہنچ جاتی ہے جس کے بعد وہ نہ بوجھ اٹھانے کے قابل رہتی ہے، نہ فرض کی ادائیگی میں حصہ لے سکتی ہے اور نہ کوئی ذمہ داری نبھا سکتی ہے۔ اس کی زندگی بے کار، بے وقعت اور بے قیمت رہ جاتی ہے! مقدسات سے کھیلنے والی بے پرواہ روح در حقیقت مریض روح ہے۔ لا پرواہی اور ذمہ اٹھانا ایک دوسرے کے بالکل بر عکس ہے۔ ذمہ اٹھانا ایک با شعور اور سنجیدہ طاقت ہے۔ جبکہ لا پرواہی شعور کا فقدان اور لاغر پن ہے۔“

امام ابن القیم ﷫ فرماتے ہیں:

جان لو کہ تمہارے سانس گنے چنے اور ختم ہو جانے والے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک سانس کے بدلے ہمیشہ رہنے والی زندگی کے ہزاروں سال ہیں۔ تو سوچو!تمہارے لیے کتنا ضروری ہے کہ تم ان سانسوں میں سے ہر ایک سانس کو بس اللہ تعالی کے محبوب ترین کاموں میں گزار دو۔ اور اپنے رب سے مدد طلب کرو کہ وہی مدد طلب کرنے کے لائق ہے۔ ولا حول ولا قوۃ الا بہ۔ اس کے بغیر نہ کوئی چارہ ہے اور نہ قوت ۔“

امام ابن الجوزی ﷫ فرماتے ہیں:

انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے وقت کی قدر و منزلت جانے۔ پس ایک لمحہ بھی نیکی کیے بغیر نہ گزارے۔ بہتر ین سے بہترین قول و عمل پیش کرے۔“

خطیب بغدادی ﷫ کے بارے میں روایت ہے کہ چلتے ہوئے بھی ان کے ہاتھ میں کسی نہ کسی علم کا کتابچہ ہوتا تھا جسے وہ مطالعہ کرتے رہتے تھے تاکہ وقت سے فائدہ اٹھائیں۔

شاعر کہتا ہے:

إنا لنفرح بالأيام نقطعها
وكل يوم مضى نقص من الأجل

’’ہم خوش ہوتے ہیں کہ دنوں کو کاٹے جا رہے ہیں۔ حالانکہ ہر گزرے دن سے اجل میں کمی واقع ہوتی ہے۔‘‘

امام ماوردی ﷫ اپنی کتاب ادب الدنیا والدین میں فرماتے ہیں:

اللہ آپ کو توفیق عطا کر کے آپ کا بھلا کرے ، آپ پر لازم ہے کہ آپ جسم کی تندرستی اور وقت کی فراغت کو اپنے رب کی اطاعت میں گزاریں۔ اور سابقہ اعمال پر بھروسہ کیے نہ بیٹھ جائیں۔ تندرستی سے فائدہ محنت کی صورت میں حاصل کریں۔ اور فراغت کی فرصت کو کام میں لائیں۔ کیونکہ خوشحالی ہر وقت میسر نہیں ہوتی۔ اور جو وقت گزر جائے وہ دوبارہ نہیں آتا ۔ فراغت یا کجروی پر منتج ہو گی ،یا پشیمانی پر۔ اور بے جا خلوت سے انسان یا پھسلے گا یا افسوس سے ہاتھ ملتا رہے گا۔‘‘

حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’راحت مردوں کے لیے غفلت کا باعث ہے اور عورتوں کے لیے شہوت کا ۔‘‘

حکیم بزرجمہر نے کہا:

’ ’اگر کام میں محنت ہے تو فراغت میں فساد ہے۔‘‘

بعض داناؤں نے کہا:

’’بے کار خلوت سے بچو کیونکہ وہ عقلوں کو خراب کرتی ہے اور حل شدہ کو پیچیدہ کر دیتی ہے۔‘‘

اور بعض ادباء کا قول ہے:

’’اپنا دن مفید کام میں لگے بغیر نہ گزارو۔ اور اپنی رقم کسی صنعت میں لگائے بغیر ضائع نہ کرو۔کیونکہ عمر اتنی لمبی نہیں کہ غیر مفید کاموں میں لگائی جائے۔ اور مال اتنا زیادہ نہیں کہ صنعت کے علاوہ میں خرچ کیا جائے۔‘‘

عقلمند کا مرتبہ اس سے کجا اونچا ہے کہ وہ اپنے وقت کو ایسی چیزوں میں صرف کرے جس میں نہ اسے کوئی فائدہ ہو نہ بھلا ملے۔ اور اپنے مال کو ایسی جگہ خرچ کرے جہاں نہ اس کو ثواب ملے اور نہ بدلہ۔

سب سے بلیغ قول حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام کا ہے کہ:

’’نیکی تین کاموں میں ہے: کلام میں، نظر میں اور خاموشی میں۔ پس جس کا کلام ذکر سے خالی ہو تو وہ لغو ہے۔ اور جس کی نظر عبرت سے خالی ہو تو وہ سہو ہے۔ اور جس کی خاموشی تدبر سے خالی ہو تووہ لہو ہے۔“

٭٭٭٭٭

Exit mobile version