دو سفر
الحمد للہ وکفیٰ والصلاۃ والسلام علیٰ أشرف الأنبیاء.
اللّٰھم وفقني کما تحب وترضی والطف بنا في تیسیر کل عسیر فإن تیسیر کل عسیر علیك یسیر، آمین!
پچھلی یا اس سے پچھلی نشست میں ذکر کیا تھا کہ فاروق بھائی کے ساتھ ڈوگہ سے بطرفِ مائزر سفر کا ایک واقعہ لکھوں گا۔ یاد پڑتا ہے کہ ہم نوا اڈہ، دتہ خیل سے گزر چکے تھے کہ اسی میں لاہور کے ایک عالمِ دین کا ذکر چھڑ گیا، میں ابھی آیا بھی تازہ تازہ لاہور ہی سے تھا۔ ان عالمِ دین کا تقویٰ و قربانی اور حق گوئی معروف ہے، جدید نظاموں خصوصاً جمہوریت وغیرہ پر بہت جان دار رد کیا کرتے تھے، اب پاکستانی انٹیلی جنس اداروں کے دباؤ کے سبب ملک بدر ہیں۔ انہی کی مجلس میں مجھے ایک اچنبھے کی بات محسوس ہوئی، وہ دیگر واقعات کے ہمراہ بیان کرتا ہوں۔ ہم ایک دن بعد از نمازِ جمعہ انہی حضرت کی مجلس میں جا کر بیٹھ گئے، ساتھ میں میرا برادرِ نسبتی شہید علی طارق رحمہ اللہ بھی تھا۔ ان عالم سے وہاں کسی نے شیعہ روافض کی پولیس ڈیوٹی کے متعلق سوال کیا تو کہنے لگے کہ روافض کی حفاظت کسی صورت میں جائز نہیں1یہ تب ہے جب رافضی پاکستان یا اس طرح کے کسی ملک میں ہوں۔ اگر یہ رافضی اپنا شر و فساد نہ پھیلاتے ہوں اور مستامن یا معاہد وغیرہ کی حیثیت میں کسی اسلامی حکومت کے تحت رہتے ہوں تو ان کو بھی باقی کفار یا اہلِ کتاب کی طرح تحفظ وقت کی اسلامی حکومت فراہم کرے گی یا جس طرح آج کل امارتِ اسلامی افغانستان ان کو ملک کے باشندوں کے طور پر حفاظت و دیگر حقوق فراہم کرتی ہے، جس طرح سکھوں یا ہندوؤں کو حاصل ہیں۔، تو جس سپاہی کی اس کام پر ڈیوٹی لگے اس کو چاہیے کہ کوئی بہانہ بنا کر جان چھڑائے۔ پھر کسی نے علماء کی حق گوئی کے متعلق سوال پوچھا تو بولے کہ علماء پر حق گوئی لازمی ہے اور میں کہتا ہوں کہ جو عالم حق گوئی نہ کر سکے اور وقت کا طاغوت اس سے کوئی اپنے حق میں فتویٰ مانگے اور اس عالم کے پاس اس طاغوت کے حق میں بات کرنے یا بظاہر دوسری طرف قید و بند یا موت ہو تو جس مجلس میں اس سے فتویٰ طلب کیا جائے تو اس عالم کو چاہیے کہ اسی مجلس میں بیٹھے بیٹھے اپنے کپڑوں میں قضائے حاجت کر دے، حکمران بھی سوچے گا کہ کیسا جاہل آدمی ہے اور اس کو اپنی مجلس سے ذلیل کر کے نکال دے گا، لیکن فائدہ یہ ہو گا کہ یہ عالم غلط فتویٰ دینے سے بچ جائے گا، دنیا میں تو ذلیل ہو گا لیکن آخرت کی ذلت سے بچ جائے گا۔ یہ صاحب تقویٰ و ادب میں ایسے تھے کہ مجھ جیسا نوجوان جو اِن کے سامنے ہی بیٹھا تھا تو اس سے انہوں نے اجازت طلب کی کہ مجھے ٹانگوں میں تکلیف ہے تو کیا میں اپنی ٹانگیں پھیلا لوں؟ میں تو شدید شرمندہ ہو گیا اور شرمندگی ہی کے سبب کچھ نہیں بولا، لیکن جب تک انہوں نے مجھ سے میری زبان سے اجازت نہیں لے لی پاؤں نہیں پھیلائے، حالانکہ یہ کوئی سُوئے ادب نہ تھا اور وہ بھی میرے جیسے کے حق میں!؟
اس کے بعد ، میں نے فاروق بھائی کو بتایا کہ ان سے حجۃ الاسلام مولانا شاہ اسماعیل شہید دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’میں اگر ان کی توحید دیکھتا ہوں تو کہتا ہوں کہ ان سے بڑا موحد کوئی نہیں، اور اگر ان کا شرک دیکھتا ہوں تو کہتا ہوں کہ ان سے بڑا مشرک کوئی نہیں‘۔ میں نے یہ بات سنی تو طبیعت شدید مکدر ہو گئی اور ایک لمحہ بھی وہاں مزید بیٹھنا نا ممکن ہو گیا، میں وہاں سے بس اٹھااور باہر نکل کر ٹہلنے لگا اور اپنے ساتھیوں کا انتظار کرنے لگا۔
میں نے فاروق بھائی کو یہ بات بتائی، رات کا وقت تھا اور ہم گاڑی میں جا رہے تھے۔ فاروق بھائی نے بڑی صراحت سے مجھ سے دوبارہ یہ واقعہ پوچھا، میں نے سنایا اور پھر انہوں نے کہا کہ پکی بات ہے کہ یہی واقعہ ہوا ہے؟ میں نے کہا کہ بالکل پکی بات ہے اور چند دیگر راویوں کے حوالے سے بھی بتایا کہ انہی صاحب نے چند دیگر مجالس میں حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں بھی کچھ باتیں کی ہیں (ایسے واقعات کا راوی صرف میں نہیں ہوں، بلکہ ان حضرت کی مجالس میں شریک ہونے والے عام و خاص لوگ اس کے شاہد ہیں)۔ یہ سن کر فاروق بھائی نے بہت افسوس کا اظہار کیا۔
پھر فاروق بھائی بولے کہ جب ہم نے دستاویزی فلم ’امامِ برحق‘ بنائی (جو مولانا عبد الرشید غازی شہید پر بنائی گئی تھی) تو انہی صاحب نے مشائخ کو ایک خط لکھا اور کہا کہ اس میں جو آپ نے سید احمد شہید اور دیگر بزرگوں کا ذکر کیا ہے تو یہ بڑا غلط کیا ہے اور ساتھ میں سید احمد شہید کے بارے میں لکھا کہ ’ھذا المبتدع‘ [(یعنی بدعتی)، حاشا وکلا، معاذ اللہ من ذلک!] تو شیخ عطیہ رحمہ اللہ نے بہت حلم سے ان صاحب کو جواب لکھا اور اپنا موقف و منہج بیان کیا۔ فاروق بھائی نے کہا کہ شیخ عطیہ نے مجھے کہا کہ ان صاحب کے خط میں جو بات مجھے سب سے بری لگی وہ یہ الفاظ تھے جو انہوں نے سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں لکھے ’ھذا المبتدع‘۔ فاروق بھائی نے کہا کہ یہ ان صاحب کی بڑی ہی فاش غلطی ہے اور یہ بالکل غلط طریقہ ہے، ہم اس کے شدید مخالف ہیں اور ایسی باتوں سے بری ہیں۔ یہاں لطیف نکتہ یہ ہے کہ فاروق بھائی اور ہم ان کے تلامذہ جو مسلکاً حنفی ہیں یہاں شیخ عطیہ کا ذکر کر رہے ہیں اور سلفی عالم شیخ عطیہ، سید احمد شہید کا دفاع کر رہے ہیں، وہ سید احمد شہید جنہوں نے اپنے ایک مکتوب میں لکھا اور یہ مکتوب اب بھی سید صاحب کے عوام میں معروف قبر و مزار کے احاطے میں لکھا لگا ہوا ہے کہ ’میں اباً عن جدٍ حنفی ہوں‘ اور یہ کتبہ مولانا شاہ نفیس الحسینی صاحب رحمہ اللہ (صاحبِ مکتبہ سید احمد شہید و خانقاہِ سید احمد شہید ) نے لکھوا کر لگوایا تھا۔
سچی بات تو یہ ہے کہ فاروق بھائی کو حضرت سید احمد شہید سے عشق تھا اور اس عشق پر حضرت الأستاذ کو شیخ المجاہدین اور شیخ الأستاذ شیخ احسن عزیز شہید رحمہ اللہ نے مبتلا کیا تھا۔ سید صاحب سے فاروق بھائی کو پھر اتنا لگاؤ ہو گیا کہ حضرت سید بادشاہ ہی کے نام پر فاروق بھائی نے اپنے جہادی مجموعے کا نام ’کتیبہ سید احمد شہید‘ رکھا۔ فاروق بھائی اکثر سید بادشاہ کی تحریک سے اپنی نسبت کرتے، ان کی تاریخ سے اپنے حال کو جوڑتے، سمجھتے، سمجھاتے، اپنے ساتھیوں کو ان کی سیرت پڑھاتے۔ مرشد ظہیر بھائی نے مجھے بتایا کہ جنوبی وزیرستان کے علاقۂ محسود میں جب مشائخ حضرات کا ہمارے ساتھیوں کے مراکز میں آنا جانا ہوتا تھا تو مشائخ میں سے کسی نے ہمارے حضرات سے ایک دن کسی ’احمد بن عرفان‘ کا پوچھا، سبھی خاموشی سے مشائخ کو تکتے رہے کوئی احمد بن عرفان کو نہیں جانتا تھا۔ مشائخ ان احمد بن عرفان صاحب کی تعریف کرتے اور تعجب کرتے کہ آپ کیسے برِّ صغیر پاک و ہند کے لوگ ہیں جو احمد بن عرفان جیسی شخصیت کو نہیں جانتے۔ ظہیر بھائی کہتے ہیں کہ بعد میں یہ عقدہ وا ہوا کہ سید احمد شہید عالمِ عرب میں احمد بن عرفان کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ سید بادشاہ ایک ایسا موضوع ہیں کہ مجھ جیسا بے بضاعت بھی یہاں ذکر کرنے بیٹھے تو فاروق بھائی کی محفل ایک طرف کو رہ جائے۔
ہمارا مائزر جانا پھر واپس آنا، پھر میرا ریحان بھائی کے ہمراہ لواڑہ جانا پچھلی دو نشستوں میں گزر چکا ہے۔لواڑہ سے ہم دوبارہ ڈوگہ پہنچے۔ ڈوگہ پہنچ کر معلوم ہوا کہ فاروق بھائی پھر وہیں تشریف فرما ہیں۔ جب ظہیر بھائی مجھے لاہور سے وزیرستان بھیج رہے تھے تو وہاں ہمیں کچھ ساتھیوں کے ساتھ ایسے معاملات درپیش تھے جن کی تفصیل ظہیر بھائی نے مجھے فاروق بھائی کے سامنے رکھنے کو کہی۔ دونوں ہی معاملات کچھ ساتھیوں سے منسلک تھے اور امنیت کی نسبت سے تھے۔ میں اب کی بار جب فاروق بھائی سے ملا تو اس معاملے پر بات شروع ہوئی۔فاروق بھائی نے کچھ بات سنی تو کہنے لگے، بھیا جہاں تک امنیات سے متعلق بات ہے تو آپ کو ایسے ساتھیوں سے اپنے آپ کو دور کرنا چاہیے جو اپنا رویہ بار بار بتانے کے باوجود بھی (جان بوجھ کر)نہ بدلتے ہوں تاکہ گڑیں تو وہ خود ہی گڑیں باقیوں کو ساتھ نہ گڑوائیں، باقی میں ان ساتھیوں کے تذکروں کی باتوں سے بہت تنگ ہوتا ہوں، لوگوں کی برائیاں سن کر میری نمازیں خراب ہو جاتی ہیں، اس لیے بس مجھے مزید نہ بتائیں، میران شاہ جا کر فلاں بھائی (فاروق بھائی نے اپنے نائب کا نام لیا) کو بتائیں تا کہ جو ہینڈل کرنا ہے وہ خود ہینڈل کرلیں۔
فاروق بھائی کی پہلی بات یعنی امنیات سے متعلق تو کچھ اچنبھے کی بات نہ تھی، دنیا بھر کا یہی اصول ہے۔ لیکن دوسری بات سن کر میں بہت چونکا بھی اور متاثر بھی ہوا۔ امورِ سیاسی و انتظامی میں عام مشاہدہ و تجربہ ہے کہ انسانوں کی اچھی بری صفات کا ذکر عام طور سے بار بار آتا ہے اور جیسا کہ علمائے کرام نے اس میں صراحت و وضاحت کی ہے یہ غیبت میں شامل نہیں، بلکہ چونکہ اس گفتگو سے مسلمانوں کی ایک بڑی مصلحت خصوصاً ذمہ داریوں کا تقرر وغیرہ مقصود ہوتا ہے تو یہ ایک جائز امر ہے (تفصیل کے لیے علمائے کرام ہی سے رجوع کیا جائے)۔ لیکن فاروق بھائی اب ایسے معاملات سے بھی گزر چکے تھے۔ جیسے مشاہدے و تجربے کی بات پچھلی ہے تو سچ یہی ہے کہ مشاہدہ و تجربہ یہ بھی کہتا ہے کہ ایسی ڈسکشنز جن کا مقصد اگرچہ اصلاح و مصلحت ہوتا ہے، بہر کیف انسان کے دل پر منفی اثرات چھوڑتی ہیں، مکرر، نہ تو میری ایسی حیثیت ہے اور نہ ہی میں یہ کہہ رہا ہوں کہ جس امر کو شریعت نے جواز کے درجے میں بیان کیا ہے اس کو مصلحتِ مسلماناں کی خاطر کرنے والے اچھا نہیں کرتے، میں تو بس ایک وارداتِ قلب بیان کر رہا ہوں۔
ہم یہی بات چیت کر رہے تھے کہ میں نے ہی فاروق بھائی کو بتایا کہ معلوم ہوا ہے کہ فلاں ساتھی نیچے (شہروں کی طرف سے)میران شاہ آئے ہیں۔ یہ سنتے ہی فاروق بھائی کہنے لگے نجانے وہ کیوں آئے ہیں، بہر حال جس لیے بھی آئے ہیں مجھے ان سے ملنے جانا ہے۔ یاد پڑتا ہے کہ فاروق بھائی نے مجھے کہا کہ مخابرے (واکی ٹاکی وائرلیس سیٹ)پر ریحان بھائی یا مولانا صابر صاحب سے رابطہ کروں۔ فاروق بھائی خود امنیت ہی کے سبب مخابرے پر بات نہیں کیا کرتے تھے۔ میں کچھ دیر رابطہ کرتا رہا، لیکن جواب نہیں ملا۔ پھر فاروق بھائی نے مجھے کہا کہ میں آپ کو ایک خط لکھ کر دیتا ہوں، آپ یہ عمران بھائی کو دے دیں۔ عمران بھائی، عمر میں ہمارے والد صاحب یا ان سے بڑے، لیکن میدانِ جہاد کے عرف کے مطابق ’بھائی‘ ہی تھے (از راہِ مزاح عرض ہے کہ ان کے داماد بھی ان کا بھائی کہہ کر ذکر کر دیا کرتے تھے)، عمران بھائی یعنی میجر عادل عبد القدوس خان۔ فاروق بھائی نے خط لکھا اور میں وہ لے کر عمران بھائی کے گھر کی طرف روانہ ہوا جو شاید دو منٹ پیدل کے فاصلے پر تھا۔ میں نے دروازہ بجایا، عمران بھائی نے دروازہ کھولا، حالانکہ ایک خط ہی تھا اور بس وہ جلدی سے پڑھ کر مجھے وہیں سے جو بھی پیغام دینا ہوتا، دے کر واپس بھیج سکتے تھے، لیکن وہ کمالِ شفقت و اکرام سے مجھے گھر کے اندر اپنی بیٹھک میں لے گئے۔ وہیں جا کر فاروق بھائی کا خط پڑھا، خط پڑھتے جاتے اور اپنے مخصوص دھیمے اور پھر قدرے عیاں انداز سے مسکراتے جاتے اور پھر ان کی مسکراہٹ خوب خوب پھیل گئی۔ خط پڑھ کر مجھے کہنے لگے آپ چلیں میں آتا ہوں تھوڑی دیر میں۔ میں چل پڑا اور جا کر فاروق بھائی کو اطلاع دی۔ فاروق بھائی نے عمران بھائی کے لیے دعائیہ کلمات کہے اور پھر میران شاہ جانے کی تیاری کرنے لگے۔
کچھ دیر میں عمران بھائی آ گئے، فاروق بھائی ان کی بنجو (ٹویوٹا کرولا سٹیشن ویگن، ۹۰ء کی دہائی کا ماڈل) میں آگے بیٹھے اور میں پیچھے، اور ڈوگہ سے میران شاہ جانے کا سفر شروع ہوا۔
نجانے مجھے عمران بھائی کے متعلق پہلے کبھی لکھنے کا کچھ موقع ملا ہے یا نہیں۔ ان شاء اللہ ذرا فرصت سے پچھلی تحریریں کھنگالوں گا، اگر کچھ لکھا ہوا نہ ملا تو ضرور ان کے بارے میں چند سطور لکھوں گا، ان شاء اللہ۔
راستے میں ہم برِّ صغیر کے علماء و داعی حضرات کے مزاج وغیرہ پر گفتگو کرتے رہے اور مختلف طبقات کو کیسے مخاطب کیا جائے، فاروق بھائی یہ نصیحت کرتے رہے۔کوئی دو گھنٹے کے سفر کے بعد ہم میران شاہ پہنچے۔ وہاں ہمارا ایک مرکز تھا جہاں ایک بڑی خندق کھدی ہوئی تھی۔ ہم اس خندق والے مرکز میں پہنچے۔ نیچے خندق میں اترے تو معلوم ہوا کہ جن ساتھی کے آنے کی خبر تھی ان کے ہم نام ایک اور نئے ساتھی وہاں آئے تھے۔ ساتھ ہی معلوم ہوا کہ ایک طالبِ علم ساتھی سراقہ بھائی (مولوی حافظ سعد شہید رحمۃ اللہ علیہ) بھی آئے ہوئے۔ یہ میری سراقہ بھائی سے پہلی ملاقات تھی۔ اس ملاقات کے ابتدائی چند منٹ میں ہم دونوں کی یاری ہو گئی۔ اپنی زندگی کا کل سرمایہ یہی محبتیں، یہی دوستیاں، یہی یاریاں ہیں، بقولِ شاعر:
کچھ درد سنبھالے سینے میں، کچھ خواب لٹائے ہیں ہم نے
اِک عمر گنوائی ہے اپنی، کچھ لوگ کمائے ہیں ہم نے
دل خرچ کیا ہے لوگوں پر، جاں کھوئی ہے، غم پایا ہے
اپنا تو یہی ہے سُود و زیاں، اپنا تو یہی سرمایہ ہے
محفلِ استاذ یہیں روکتا ہوں۔ ان شاء اللہ، اگلی محفل، سراقہ بھائی کے نام ، جو فاروق بھائی کے شاگردوں اور احباء و اصحاب میں سے تھے۔
وما توفیقي إلّا بالله. وآخر دعوانا أن الحمد للہ ربّ العالمین.
وصلی اللہ علی نبینا وقرۃ أعیننا محمد وعلی آلہ وصحبہ ومن تبعھم بإحسان إلی یوم الدین.
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭
- 1یہ تب ہے جب رافضی پاکستان یا اس طرح کے کسی ملک میں ہوں۔ اگر یہ رافضی اپنا شر و فساد نہ پھیلاتے ہوں اور مستامن یا معاہد وغیرہ کی حیثیت میں کسی اسلامی حکومت کے تحت رہتے ہوں تو ان کو بھی باقی کفار یا اہلِ کتاب کی طرح تحفظ وقت کی اسلامی حکومت فراہم کرے گی یا جس طرح آج کل امارتِ اسلامی افغانستان ان کو ملک کے باشندوں کے طور پر حفاظت و دیگر حقوق فراہم کرتی ہے، جس طرح سکھوں یا ہندوؤں کو حاصل ہیں۔