سحر ہونے کو ہے | آخری قسط(۱۵)

عبادہ نے خطرات کی بنا پر خواتین کو ایک گھر میں شفٹ کردیا۔ ابوبکر کو ان کی نگرانی کے لیے چھوڑا اور خود مصعب اور ارمغان کے ہمراہ دوبارہ سے کارروائی کی ترتیب بنانے اسلام آباد پہنچ گیا۔ ابوبکر کا ایک ہفتے بعد وہاں آنا طے پایا تھا، جب مصعب اس کو مناسب صورتحال کا اشارہ دے گا۔ ابوبکر کے جانے کی صورت میں علی اور منال نے آجانا تھا۔

نور حالات کا اندازہ نہ ہونے کے سبب جویریہ اور مومنہ کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع پاکر بہت خوش تھی۔ مصطفیٰ اور خدیجہ بھی اپنے علاوہ ایک اور بچے کو پاکر خوش ہوگئے تھے۔

عبادہ اور مصعب کو گئے ہوئے دو مہینے ہوگئے تھے مگر ان کی طرف سے کوئی اشارہ نہ آیا تھا۔ ابوبکر انجانے خدشات کی وجہ سے بے حد پریشان تھا۔ مگر اس نے مومنہ کے علاوہ اپنی پریشانی کا اظہار کسی اور کے ساتھ نہیں کیا تھا۔

انتظار کی تکلیف دہ کیفیت میں اس کے دن سولی پر گزر رہے تھے۔

٭٭٭٭٭

’’مومنہ؟‘‘ ابوبکر نے اچانک کتاب سے سر اٹھایا۔ مومنہ کے کام کرتے ہاتھ رک گئے اور اس نے چونک کر اس کی جانب دیکھا۔

’’جی؟‘‘

’’اگر میں شہید ہوگیا تو تم کیا کرو گی؟‘‘ ابوبکر دھیرے سے اس کی آنکھوں میں جھانک کر بولا۔ اس کی آنکھوں میں کچھ زخمی ہوتا نظر آیا۔

’’پتہ نہیں!‘‘

’’پلیز! اس راستے سے ایک قدم پیچھے نہ ہٹنا!…… اور میری بیٹی کو بھی اسی راستے کا راہی بنانا!‘‘

’’ابوبکر! میں آپ کے ساتھ ہی شہید ہوں گی!‘‘ مومنہ اتنے پرزور انداز سے بولی کہ ابوبکر بے اختیار ہنس دیا۔

’’میں فرانس میں شہید ہوں گا تو تم کیسے میرے ساتھ جاؤ گی؟‘‘

’’اللہ تعالیٰ کے لیے کیا مشکل ہے؟‘‘ مومنہ بے نیازی سے بولی اور جھاڑو لگانے لگی اور ابوبکر اپنی سوچوں میں گم ہوگیا۔

خدیجہ اور مصطفیٰ کے لڑتے جھگڑتے کمرے میں داخل ہونے پر وہ دونوں اپنی اپنی سوچوں سے باہر آئے۔ ابوبکر ان کی صلح صفائی کرانے لگا۔

٭٭٭٭٭

ڈرون کی آواز مسلسل فضا میں گونج رہی تھی۔ پچھلے ایک ہفتے سے ڈرون بہت عجیب و غریب انداز سے گھوم رہا تھا۔ اور سب کو روز بروز یقین ہوتا جارہا تھا کہ اس کے ارادے ٹھیک نہیں ہیں۔

ابھی نور اذکار پڑھ کر اور پورے گھر اور تمام مجاہدین کو اللہ تعالیٰ کی امان میں دے کر لیٹی تھی کہ مومنہ نے اس کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ مصطفیٰ خوش ہوکر اٹھ گیا۔

’’مومنہ خالہ! مومنہ خالہ!‘‘ وہ کہتا ہوا اس کی طرف بھاگنے لگا، نور نے بمشکل اس کو پکڑا اور دوبارہ بستر میں گھسا دیا۔

’’نور! ڈرون بہت زیادہ ہے…… ابوبکر کہیں باہر جارہے ہیں!…… میں تمہارے پاس آجاؤں؟‘‘

’’ہاں ہاں آجاؤ!‘‘ نور خوش ہوکر بولی۔

مومنہ خدیجہ کو گود میں لیے اندر آگئی۔

’’اصل میں ابوبکر کا خیال ہے کہ اگر اللہ نہ کرے چھاپہ پڑتا ہے تو اگر خواتین زیادہ ہوں گی اور اکٹھی ہوں گی تو ان شاء اللہ فوجی کچھ نہیں کہیں گے!‘‘

مومنہ بھی اس کے ساتھ بستر میں گھس گئی۔ مصطفیٰ خوش ہو کر اسے دیکھنے لگا۔

’’مومنہ خالہ؟…… ہمالے شاتھ؟‘‘

’’جی! آپ کے شاتھ!‘‘ مومنہ نے پیار سے اس کے پھولے پھولے گال کھینچے اورلیٹ گئی۔ مصطفیٰ بھی خوشی خوشی اس کی طرف کروٹ لے کر لیٹ گیا۔

٭٭٭٭٭

نور ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ فضا میں ہیلی کاپٹر اور سی ون تھرٹی کی دل دہلا دینے والی آوازیں سنائی دے رہی تھی۔

’’مومنہ! مومنہ! چھاپہ پڑ گیا ہے!‘‘

مومنہ بھی ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ نور کا اندازہ درست تھا۔ ہیلی کاپٹر ان کے صحن میں لینڈ کررہا تھا۔

’’اناللہ وانا الیہ راجعون!‘‘ نور کا دل بری طرح دھڑکنے لگا۔

’’نور! اب کیا ہوگا؟‘‘ مومنہ نے گھبرا کر کہا۔

’’اللہ سے دعا کرو!‘‘ لرزتے ہونٹوں سے اس کے منہ سے صرف اتنا ہی نکل پایا۔

اس نے جلدی سے عائشہ کو کمبل میں لپیٹا۔ ہل چل کی وجہ سے مصطفیٰ اور خدیجہ بھی اٹھ گئے۔ مومنہ ان دونوں کو بستر کے اندر کرنے لگی۔

اچانک بہت سارے امریکی اور پاکستانی کمانڈوز دروازہ دکھلتے ہوئے اندر داخل ہوگئے اور ان کو گن پوائنٹ پر ہاتھ کھڑے کرنے کا کہا۔ وہ دونوں ہاتھ اٹھائے بستروں سے باہر نکل آئیں۔

٭٭٭٭٭

ہیلی کاپٹر کو نیچے لینڈ کرتا دیکھ کر ابوبکر کا سانس اوپر کا اوپر رہ گیا۔ وہ اس وقت گھر کے بڑے سے صحن کے کونے میں گھنے سے درخت کی شاخوں میں چھپا ہوا تھا۔ آدھا گھنٹہ کمانڈوز پورے گھر کی تلاشی لیتے رہے، مگر کچھ بھی پانے میں ناکام رہے تو سب واپس جانے کی تیاری کرنے لگے۔ ابوبکر کی بھی جان میں جان آئی۔

اچانک کمانڈوز کے افسر کو نجانے کیا سوجھی۔ اس نے واپس مڑ کر اپنے ماتحتوں سے کچھ کہا۔ پانچ چھ فوجی دوبارہ گھر کے اندر چلے گئے اور چند منٹ بعد چاروں خواتین کو ہتھکڑیاں لگا کر باہر لے آئے۔ ابوبکر حیرت سے ان کو دیکھنے لگا۔ جتنی دیر میں ابوبکر بات سمجھا، وہ نور اور جویریہ کو ہیلی کاپٹر میں بٹھا چکے تھے اور مومنہ اور امینہ خالہ کو بٹھا رہے تھے۔ ابوبکر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور وہ درخت سے نیچے کود گیا اور اندھا دھند فائرنگ کرتا ہوا ان کی طرف دوڑا۔ اس کے پاس صرف ایک کلاشنکوف تھی۔ آج وہ یا ان کو مار دے گا، یا خود مر جائے گا۔ کمانڈوز میں بھگدڑ مچ گئی، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امینہ خالہ اور جویریہ نے گھر کی طرف بھاگنا چاہا مگر سفاک درندوں نے نازک صنف کا بھی لحاظ نہ کیا اور ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔ مومنہ اور امینہ خالہ خون میں نہا گئیں اور زمین پر گر کر تڑپنے لگیں۔ ابوبکر سے یہ دیکھ کر برداشت نہ ہوسکا۔ اس نے جعبے میں پھنسے گرنیڈ نکالے اور فوجیوں کی طرف اچھالنے چاہے مگر اس سے پہلے ہی ڈرون نے تاک کر ایک میزائل مارا جو سیدھا نشانے پر لگا اور ابوبکر، مومنہ اور امینہ خالہ کے ساتھ اپنی مراد پاگیا۔

اس نے تکبیر کا نعرہ لگایا۔

’’اے اللہ! تو گواہ رہنا! میں نے اپنا خون تیرے اور تیرے رسول کے تقدس پر آنچ آنے کے ردعمل میں بہا دیا ہے…… اے اللہ! تو گواہ رہنا!!!‘‘

اس نے دھیرے سے سر اٹھا کر ویران آنکھوں سے اوپر آسمان کی طرف دیکھا اور پھر اس کی آنکھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہوگئیں۔

٭٭٭٭٭

آج وہ منہ اندھیرے ہی چھت پر آگیا تھا۔ اس کو دوبارہ دیکھنے کی خواہش، اس کو چین سے بیٹھنے نہ دے رہی تھی۔ کل کا سارا دن وہ اس کو نظر نہ آئی تھی۔ فجر کی اذان ہوئی مگر اس سے وہاں سے ہلا نہ گیا۔ ساتھی تو ویسے بھی سورہے ہوں گے۔

اتنے اندھیرے میں اس کے باہر نکلنے کے آثار تو نہ تھے۔ مگر وہ پھر بھی نیچے جھکا ہوا تھا کہ اچانک نیچے کے گھر کا دروازہ کھلا اور وہ باہر آگئی۔ اس کے پیچھے ہی ایک شخص اس کو بازو سے پکڑے ہوئے تھا۔ وہ لڑکھڑا کر چل رہی تھی۔ اس کے قریب ہی ایک اور شخص کھڑا گہری نظروں سے اس کا جائزہ لے رہا تھا۔ اس شخص پر نظر پڑتے ہی اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اس کا دماغ بری طرح کھولنے لگا۔ اس نے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اس شخص کا سر دیوار میں دے مارے یا کم از کم اس کا بھیجا ہی اڑا دے۔ وہ اس کا سب سے بڑا دشمن جنرل کالن پارکر تھا۔

وہ غصے سے نیچے ہی دیکھ رہا تھا کہ اپنے کندھے پر دباؤ محسوس ہونے پر چونک کر مڑا اور ساکت رہ گیا۔

’’بھیا! میں کافی دنوں سے آپ کے چھت پر لگتے چکر نوٹ کر رہا ہوں!…… آپ ان خاتون میں کچھ دنوں سے غیر معمولی دلچسپی نہیں لے رہے؟‘‘ مخاطب کا لہجہ اتنا سنجیدہ تھا کہ اس کا دماغ بھک سے اڑ گیا اور اس سے چاہنے کے باوجود صحیح جواب ادا نہ ہو پارہا تھا۔ اتنی اچانک افتاد نے اس کو گونگا ہی کردیا تھا۔

امیر صاحب اس کو لے کر نیچے آگئے۔ سب ساتھی نماز کی تیاریاں کررہے تھے۔ نماز پڑھ کر سب نے ناشتہ کیا۔ ناشتے کے بعد سب ساتھی اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوگئے تو امیر صاحب نے اس کو اپنے پاس بلا لیا۔

’’بھیا! آپ ساتھ والے گھر میں اتنی دلچسپی لینے کی کیا وجہ بیان کریں گے؟‘‘ امیر صاحب دھیرے سے بولے تو عبادہ کی آنکھیں گیلی ہونے لگیں۔

’’احمد بھائی! وہ عورت میری بیوی تھی!…… ساتھ والے گھر میں میری بیوی اور بہن کی موجودگی!…… مجھے سمجھ نہیں آتا کہ وہ یہاں کیا کر رہی ہیں!…… پتہ نہیں…… شاید…… لگتا ہے کہ وہ گرفتار ہوگئی ہیں!‘‘ بے ربط سے جملے اس کی دلی کیفیت کی عکاسی کررہے تھے۔ اب دھک سے رہ جانے کی باری امیر صاحب کی تھی۔ عبادہ کی آنکھ سے آنسو بہہ پڑے۔ عبادہ بہت مضبوط اعصاب رکھتا تھا مگر یہ آزمائش اچھے اچھوں کو توڑ کر رکھ دیتی ہے۔

اچانک کمرے کا دروازہ کھلا اور ارمغان اندر داخل ہوا۔ عبادہ نے اپنا گیلا چہرہ چھپانے کی کوشش میں چہرہ موڑ لیا مگر وہ دیکھ چکا تھا۔ وہ چونک پڑا۔

’’عبادہ! کیا ہوا ہے؟ خیر ہے؟‘‘ ارمغان نے اس کی طرف آتے ہوئے پوچھا۔ مگر عبادہ نے کچھ جواب نہ دیا اور منہ موڑے بیٹھا رہا۔ امیر صاحب نے اس کو ’بعد میں‘ کا اشارہ کیا تو وہ کمرے سے نکل گیا۔

’’بھیا!…… آپ فکر نہ کریں! ہم کچھ کرتے ہیں!…… ان شاء اللہ!‘‘

’’مصعب کو پتہ نہ لگے تو بہتر ہے!…… وہ پہلے ہی اتنے ضروری کام میں پھنسا ہوا ہے…… ابوبکر بھی انتظار……‘‘ عبادہ بولتے بولتے رک گیا۔ ’’ابوبکر کہاں ہے؟…… اللہ نہ کرے، وہ بھی گرفتار نہ ہو؟‘‘

امیر صاحب کے بھی ماتھے پر لکیریں ابھر آئیں اور وہ کسی گہری سوچ میں ڈوب گئے۔

’’بھیا! آپ پریشان نہ ہوں! اللہ تعالیٰ مدد کریں گے!…… ہم کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں!‘‘

عبادہ خاموش رہا۔ وہ اس وقت زیادہ سوچنے کی حالت میں نہ تھا۔

٭٭٭٭٭

’’تم لوگوں نے مجھے کیوں نہیں بتایا تھا؟‘‘ ارمغان غصے سے اپنے سامنے بیٹھے افسر کو دیکھ رہا تھا۔

’’ہمیں منع تھا!‘‘ وہ افسر بے نیازی سے بولا۔

’’پھر بھگتو!…… کم از کم مجھے بتا دیا ہوتا کہ اس گھر میں رکھا ہوا ہے!…… اب تمام متعلقین کو پتہ چل چکا ہے…… اور جلد ہی عبادہ تک بھی بات پہنچ جائے گی!…… ان کو تو گھر کا بھی پتہ چل چکا ہے!‘‘ ارمغان منہ بنا کر بولا۔ وہ افسر چونک کر سیدھا ہوا۔

’’کیا واقعی؟…… تمہیں کیسے پتہ؟‘‘

’’آج کل پورے مجموعے میں ہاٹ ترین موضوع بنا ہوا کہ ان کو کیسے چھڑوایا جائے!‘‘

وہ افسر سوچ میں پڑ گیا۔ ارمغان ابھی بھی منہ بنا کر بیٹھا تھا۔ اس کو یوں اپنا آپ نظر انداز کیا جانا اچھا نہیں لگا تھا۔

’’ایک کام تم کر سکتے ہو؟‘‘

’’ہوں! بولو!‘‘

’’تم عبادہ تک کسی طرح رسائی حاصل کرکے اس کو سرینڈر کرنے کی ترغیب دلاؤ!‘‘ افسر کے چہرے پر ایک مکروہ مسکراہٹ ناچنے لگی۔ ارمغان سوچ میں پڑ گیا۔

’’ہوں!…… مگر مشکل ہے…… کیونکہ سب کا شک مجھ پر جائے گا!‘‘

’’ہوں!‘‘ افسر نے بغور اس کی جانب دیکھا۔ ’’پے(تنخواہ) کی تم پرواہ نہ کرو!…… اگر تم نے اس کو سرینڈر کرنے پر مجبور کردیا…… تو تمہاری پے کو مستقل طور پر ڈبل کردیا جائے گا!…… اور ہاں! یہ سو (۱۰۰) ڈالر تم پیشگی طور پر رکھ لو!‘‘

ارمغان کی آنکھوں میں چمک آگئی۔ پھر ذرا سنبھل کر بولا۔

’’ٹھیک ہے…… مگر یہ ہوگا کافی مشکل!…… میں اپنی زندگی خطرے میں ڈال رہا ہوں تم لوگوں کی خاطر!…… یہ بات ذہن میں رکھنا!‘‘ وہ اس کو جتا کر اٹھ کھڑا ہوا اور کمرے سے نکل گیا۔

افسر اپنی فتح کے خواب پورے ہونے کی امید پر مکروہ انداز سے مسکرا دیا۔ اس کی ترقی اب یقینی ہوگئی تھی۔

٭٭٭٭٭

نور اور جویریہ پیلے پڑتے چہروں کے ساتھ بے حس و حرکت بیٹھی تھیں۔ نور کمرے کے ایک کونے میں منہ ٹانگوں میں دبائے بیٹھی تھی جبکہ دوسرے کونے میں جویریہ چہرہ دوپٹے سے لپیٹے لیٹی ہوئی تھی۔ کبھی مصطفیٰ روتا، کبھی عائشہ رو پڑتی تو کبھی خدیجہ اپنے اماں بابا کو پکارنے لگتی…… مگر نور اور جویریہ کے کانوں پر جوں بھی نہ رینگتی۔ وہ خود ہی رو رو کر چپ ہوجاتے۔ پچھلے پانچ دنوں سے ان کی یہی حالت تھی۔ کھانا صبح شام آجاتا مگر وہ دونوں ایک لقمہ تک نہ چکھ سکی تھیں۔ گارڈز دن رات ان کو دھمکاتے رہتے۔ تفتیش کے لیے بھی لے جایا جاتا مگر وہ ایک لفظ بھی نہ بول پاتیں۔

آج ان کو چھٹا دن تھا اور تفتیشی کمانڈ کے حکم پر ان کو کھانا ملنا بند ہوگیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ جب بچے بھوک سے بلکیں گے تو مائیں خود ہی سکتے سے باہر آجائیں گی۔

اچانک دروازہ زوردار آواز سے بجا۔ ان دونوں میں سے کوئی نہ ہلا۔

’’دروازہ کھولیں!‘‘ ایک شناسا سی آواز سنائی دی، جس نے نور کو چونکنے پر مجبور کردیا اور وہ ٹرانس کی کیفیت میں دروازے تک گئی اور دروازہ کھول دیا۔ دروازے میں ارمغان کو کھڑا دیکھ کر نور دھک سے رہ گئی۔

’’السلام علیکم! نور!…… آپ بالکل فکر نہ کریں!…… آپ کو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا! میں آپ کو چھڑوانے آیا ہوں!…… بس ایک آدھ دن لگ جائے گا! آپ……‘‘ مگر اس کا جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی نور نے دھاڑ سے دروازہ بند کردیا۔ وہ لڑکھڑا کر پیچھے کو ہوا اور حیرت سے بند دروزے کو دیکھنے لگا۔ پاس کھڑے گارڈ اپنی ہنسی چھپانے کے لیے اِدھر اُدھر دیکھنے لگے۔

نور پیر پٹختی تیزی سے واپس مڑی اور واپس اپنی جگہ پر بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ وہ ان چھ دنوں میں پہلی دفعہ روئی تھی۔

’’جیا؟‘‘

جیا نے کچھ جواب نہ دیا اور منہ لپیٹے یوں ہی لیٹی رہی۔

’’جیا!…… ارمغان آیا تھا دروازے پر!‘‘

اب کی دفعہ جویریہ نے چونک کر دوپٹے میں سے سر باہر نکالا۔

’’کیا؟…… ارمغان جاسوس ہے؟…… اسی نے ہماری جاسوسی کروائی ہے؟‘‘ وہ پلکیں جھپکا کر بولی۔ سکتہ ٹوٹ گیا تھا اور وہ ان چھ دنوں میں پہلی دفعہ آپس میں بات کر رہی تھیں۔

’’لگتا تو یہی ہے!…… ابھی بھی بڑا ہمدرد بن کر آیا تھا۔‘‘ نور کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔ ’’میں عبادہ سے پہلے ہی کہتی تھی کہ اس کا اچانک سے آپ لوگوں کا ہمدرد بن جانا مشکوک لگتا ہے…… مگر میری بات کو کوئی سمجھتا ہی نہیں تھا!‘‘

جویریہ خاموشی سے اسے دیکھے گئی۔

٭٭٭٭٭

فجر سے پہلے کا وقت تھا۔ نور کافی دیر سے دروازہ دھڑدھڑا رہی تھی۔ مگر کوئی بھی نہ سن رہا تھا۔ آخر آدھے گھنٹے کے بعد ایک شخص غصے سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا اور سامنے کھڑی نور کو زوردار دھکا دیا۔

’’کیا مسئلہ ہوگیا ہے ذلیل!‘‘ وہ غصے سے بولا۔ وہ دھکا کھا کر زمین پر گرگئی۔

’’بچے کو باتھ روم لے کر جانا ہے! تم لوگ آ کیوں نہیں رہے تھے؟‘‘ نور نے بھی جواباً غصے سے جواب دیا اور زمین سے اٹھ کھڑی ہوئی۔

’’اوئے بکواس بند کر! تمیز سے بات کر!‘‘ وہ سانپ کی طرح پھنکارا اور زناٹے دار تھپڑ اس کے چہرے پر رسید کیا۔ نور کا دماغ گھوم گیا۔ وہ ان لوگوں سے اتنی گراوٹ کی امید نہیں کررہی تھی۔ یہ اس کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ وہ لڑکھڑا کر پیچھے ہوئی اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کو دیکھنے لگی۔

’’بچے کو باتھ روم نہیں لے کر جاؤ گے تو تم لوگوں کا ہی کمرہ گندہ ہوگا!‘‘ وہ بمشکل اپنی کیفیت چھپا کر بولی۔

وہ بکتا جھکتا کمرے سے باہر نکل گیا۔ اس کے باہر نکلتے ہی نور کو اپنے اوپر قابو پانا مشکل ہوگیا اور وہ بلک بلک کر رونے لگی۔ جویریہ نے بے بسی سے اس کو اپنے ساتھ لگا لیا۔

آدھے گھنٹے کے مزید انتظار کے بعد وہ شخص دوبارہ آگیا۔ اس کے ہاتھ میں بیڑیاں تھیں۔ وہ اس نے نور کے پاؤں میں ڈال دیں۔ نور نے مصطفیٰ کو گود میں اٹھا لیا۔ دو مردوں نے اس کو دونوں بازوؤں سے پکڑ لیا۔

’’بزدلو!…… کیا میں اس حالت میں کہیں بھاگ سکتی ہوں؟‘‘ نور غصے سے بولی۔

’’بکواس بند کرو! اور چلو!‘‘ ان میں سے ایک نے اس کو زور سے ٹہوکا دیا۔ نور مجبوراً لڑکھڑاتے قدموں سے چلنے لگی۔ باتھ روم سے واپسی پر نجانے کیسے اس کو احساس ہوا تھا کہ ساتھ والے گھر کی چھت سے کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔ مگر جب اس نے سر اوپر اٹھایا تو وہاں کوئی نہ تھا۔ شاید اس کو وہم ہوا تھا ۔

’’اللہ کرے یہ وہم نہ ہو اور کسی نے مجھے دیکھ لیا ہو۔ شاید کہ بات باہر نکل جائے۔‘‘

٭٭٭٭٭

عبادہ بے چینی سے کمرے میں ٹہل رہا تھا۔ گھر میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ اس کے اپنے دل کی حالت بھی کچھ مختلف نہ تھی۔ وحشتوں نے اس کے دل میں بسیرا کرلیا تھا۔ وہ کیوں اتنا مجبور تھا کہ اپنی بیوی، بچوں اور بہن کو اپنی دسترس میں ہوتے ہوئے چھڑوا نہیں پارہا تھا۔ اس کا دل گھبرانے لگا تو وہ دوسرے کمرے میں آگیا۔

اس کو علی اور اس کے ایک اور ساتھی کا انتظار تھا۔ مقررہ وقت تو کب کا گزر چکا تھا مگر دونوں کے آنے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے۔ آخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور گھر کا دروازہ بجا۔ اسی کے ساتھ عبادہ کا دل بھی دھڑکا۔ علی کا مخصوص طے شدہ انداز تھا اس لیے جلدی سے دروازہ کھول دیا۔ علی اور ایک اور مجاہد کسی شخص کو بے ہوش حالت میں اٹھائے اندر داخل ہوئے۔

عبادہ نے جلدی سے جگہ بنائی اور اس شخص کو بستر پر ڈال دیا گیا۔ وہ کوئی امریکی فوجی تھا۔

’’کیا رینک ہے اس کا؟‘‘

’’کرنل ہے سی آئی اے کا!‘‘ علی نے کپڑے جھاڑتے ہوئے کہا۔

’’اچھا!…… چلو اس کو ہوش میں لاتے ہیں…… پھر کچھ سوچتے ہیں!‘‘ عبادہ نے کہا تو وہ تینوں اس کو ہوش میں لانے میں جت گئے۔

٭٭٭٭٭

’’مگر ان کو لینے کے لیے تمہیں جانا پڑے گا!…… وہ یوں نہیں مان رہے!‘‘ ارمغان عبادہ کی طرف پریشان نگاہوں سے دیکھ کر بولا۔

’’ارمغان!…… مگر میرے جانے پر وہ مجھے گرفتار کرلیں گے اور ان دونوں کو بھی نہیں چھوڑیں گے!‘‘

’’ہوں!…… اس بات کی ضمانت تو میں خود نہیں دے سکتا!…… میں جاکر افسر سے دوبارہ بات کرتا ہوں اور تمہارے خدشات بیان کرتا ہوں!‘‘

’’ارمغان! تمہارے تو ان سے پرانے تعلقات بھی ہیں!…… ان کو کم از کم تمہارا تو لحاظ کرنا چاہیے!‘‘

’’ہاں! عبادہ میں کوشش کرتا ہوں!…… ان شاء اللہ کچھ کرتے ہیں…… اگر وہ ضمانت دے دیں کہ تمہیں گرفتار نہیں کیا جائے گا تو پھر یہ صحیح رہے گا!‘‘ ارمغان سوچتے ہوئے بولا۔

عبادہ نے کچھ جواب نہ دیا۔ وہ کسی گہری سوچ میں تھا۔ ارمغان جواب نہ پاکر اٹھ کھڑا ہوا۔

٭٭٭٭٭

’’نان سینس! نہیں! یہ نہیں ہوسکتا!…… ہم ان کے علاقے میں کیسے جاسکتے ہیں؟…… وہ ہمیں مار دیں گے!‘‘ جنرل کارٹر کافی کا کپ زور سے میز پر رکھ کر بولا۔

’’سر! وہ بھی اس بات کا خطرہ محسوس کررہے ہیں کہ ہم لوگ ان کو گرفتار نہ کرلیں!…… سر آپ لوگ مجھے ان کی نظروں میں مشکوک بنا رہے ہیں!‘‘ ارمغان بے بسی سے بولا۔ ’’اور اگر ہم نے زیادہ دیر کی تو وہ کرنل ران کو مار بھی سکتے ہیں…… انہوں نے اگلے مہینے تک کا الٹی میٹم دیا ہے!‘‘

’’ایک آئیڈیا ہے!‘‘ جنرل یکدم خوش ہوکر بولا۔ ’’تم چلے جاؤ ان کو لے کر!‘‘

جنرل کی بات سن کر ارمغان کا چہرہ زرد پڑگیا۔

’’سر! آپ مجھے پھنسوانا چاہتے ہیں ان کے علاقے میں بھیج کر؟‘‘ وہ کرسی پر ذرا آگے ہوکر بولا۔

’’اگر تم یہ کام کرلو…… اور ساتھ میں عبادہ کو پکڑنے میں کامیاب ہوجاؤ تو تمہیں ترقی مل سکتی ہے!‘‘

’’اور اگر میں واپس نہ آپایا؟…… انہوں نے مجھے مار دیا تو؟…… کیونکہ وہ میرے معاملے میں شک کرنے لگے ہیں!…… اور نور اور جویریہ اب مجھے دیکھ بھی چکی ہیں۔‘‘

’’گدھے ہو تم!…… کیوں ان کے سامنے گئے تھے؟‘‘ جنرل غصے سے دھاڑا۔

’’وہ میں دیکھنے گیا تھا کہ ان کے ساتھ زیادہ سختی تو نہیں ہورہی!‘‘

’’تمہیں ان سے کیا ہمدردی؟…… جیسے بھی رہتیں…… تمہیں کیا؟‘‘ جنرل نے مشکوک نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا۔ پھر اپنی میز کی دراز کھولی اور اس میں سے نوٹوں کی ایک گڈی نکال کر ارمغان کی طرف اچھال دی۔

’’ایڈوانس رکھ لو اور کام کرکے لاؤ!‘‘

ارمغان کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ جنرل نے نفرت سے اس کے لالچی چہرے پر ایک نظر ڈالی۔

’’اوکے سر!…… مگر اگر میں پکڑا گیا تو آپ لوگوں نے میری رہائی کی ضرور کوشش کرنی ہے!‘‘ یکدم ہی اس کا انداز بدل گیا تھا۔

’’اوکے! اوکے!‘‘ جنرل نے جان چھڑانے والے انداز میں کہا۔

ارمغان اس کا اشارہ پاکر اٹھ گیا اور احتیاط سے نوٹوں کی گڈی اپنی جیب میں رکھ کر کمرے سے نکل گیا۔

٭٭٭٭٭

عبادہ اور مصعب گاڑی سے اترے۔ عبادہ نے ایک نظر اِدھر اُدھر دوڑائی۔ اس کے تمام ساتھی اپنی اپنی جگہیں سنبھال چکے تھے۔ اچانک ملٹری کی ایک گاڑی آکر رکی۔ ان دونوں کے دل بری طرح دھڑکنے لگے اور دونوں نے اپنی گنیں لوڈ کرلیں۔ گاڑی کا دروازہ کھلا اور ارمغان کو اترتا دیکھ کر وہ دونوں دھک سے رہ گئے۔ وہ آخری شخص تھا جس کے آنے کی وہ امید کرسکتے تھے۔ اسی لمحے دو برقعہ پوش خواتین اپنے تین بچوں کے ساتھ گاڑی سے نکل آئیں۔ ان پر نظر پڑتے ہی اس کی آنکھیں ڈبڈبانے لگیں۔ دل پر گویا ٹھنڈے پانی کی آبشار گری ہو، دل کو سکون آیا…… جو کہ پچھلے دو ماہ سے ندارد تھا۔

فضا تکبیر کے نعروں سے گونج اٹھی۔ نور اور جویریہ بے تحاشہ رو رہی تھیں۔ عبادہ اور مصعب کی اپنی بھی حالت غیر ہورہی تھی۔ انہوں نے ان دونوں کو سنبھالا اور گاڑی میں لاکر بٹھا دیا۔

کرنل ران کو ملٹری کے حوالے کردیا گیا۔ وہ گاڑی میں بیٹھ چکا تھا۔ ارمغان بھی موقع غنیمت جان کر گاڑی میں بیٹھنے لگا تھا کہ ایک مجاہد نے اس کے سر پر گن تان لی۔

’’بھائی صاحب! آپ نہیں جاسکتے!‘‘ عبادہ نے ارمغان کی طرف دیکھتے ہوئے سختی سے کہا پھر گاڑی میں بیٹھے فوجیوں کی طرف دیکھا۔ ’’تم لوگ جاسکتے ہو اور اپنے جنرل کو کہہ دینا کہ ہم اس جاسوس کو ٹھکانے لگانے لگے ہیں…… اگر وہ اس کی خیر چاہتا ہو تو ۱۹ تاریخ کو اس کے موبائل پر فون کرلے!‘‘

گاڑی والوں نے کوئی مزاحمت نہ کی اور بھاگ جانے میں ہی عافیت جانی۔

٭٭٭٭٭

عبادہ زمین پر بیٹھا بے آواز آنسو بہا رہا تھا۔ نور اس کو دلاسہ دینے کی کوشش کرتے ناکام ہوچکی تھی۔ مصعب اور جویریہ بھی چہرہ جھکائے کسی گہری سوچ میں گم تھے۔

’’بھیا! بس کرو!…… تم تو اتنے صابر تھے!…… تم کیوں اس طرح رو رہے ہو؟‘‘ آخر کافی دیر کے بعد جویریہ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

’’جیا!…… میں سمجھا تھا کہ ماما بھی تمہارے ساتھ ہوں گی!‘‘ عبادہ آنسو صاف کرتے ہوئے بولا مگر آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ ’’اب اتنا صدمہ ہونا تو فطری بات ہے ناں!‘‘

’’بھیا!……‘‘ جویریہ اس سے زیادہ کچھ نہ کہہ پائی۔ اس کی آنکھیں بھی بھر آئیں۔

پھر وہ عبادہ کے سینے سے لگ کر رونےلگی۔ نور اور مصعب خشک آنکھوں سے دونوں کو دیکھے گئے۔ وہ پہلے ہی بہت رو چکے تھے۔ اب چاہنے کے باوجود آنسو سوکھ گئے تھے۔

’’ابوبکر ہمیں بچانے آیا تھا!…… مگر‘‘ عبادہ کے سنبھلنے کے بعد نور نے کہانی دوبارہ شروع کی۔ ’’ہمیں تو بس فائرنگ کی آواز آئی تھی…… ہمیں پکڑنے والوں کی بدحواسی سے فائدہ اٹھا کر ہم نے نیچے جھانکا تو…… ایک طرف ابوبکر خون میں لت پت پڑا تھا……‘‘ نور کی آواز بھر آئی۔ ’’اس کا چہرہ آسمان کی طرف تھا…… اور شہادت کی انگلی بھی آسمان کی طرف اٹھی ہوئی تھی…… اور میرے کمرے کے دروازے کے قریب…… مومنہ اور امینہ خالہ اپنی آخری سانسیں……‘‘

نور کی آواز بند ہوگئی اور وہ رونے لگی۔ باقی تینوں کے بھی آنسو بہنے لگے۔ کافی دیر کے بوجھل لمحات کے بعد کہیں جاکر ان سب کو قرار آیا۔

’’اس بچی کا کیا کریں گے؟‘‘ آخر کافی دیر کے بعد عبادہ کو خدیجہ کا خیال آیا جو حالات سے بے خبر مصطفیٰ کے ساتھ زمین پر قلابازیاں لگا رہی تھی۔

’’یہ میری بیٹی ہے!‘‘ مصعب نے محبت سے اس کی جانب دیکھا۔ ’’ہم ویسے بھی اولاد کی نعمت سے محروم ہیں!…… اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے ہماری کمی دور کردے گا!‘‘

نور نے غمگین نگاہوں سے خدیجہ کی طرف دیکھا۔ ’’معصوم سی کلی! یتیمی کی مہر لگی ہوئی معصوم جان!‘‘

٭٭٭٭٭

ارمغان عبادہ کی بیٹھک میں رہ رہا تھا۔ ۱۹ تاریخ گزر جانے کے باوجود کسی نے رابطہ نہیں کیا تھا۔ نور اب اس کو مجاہدین کے ہاتھوں میں دیکھ کر پرسکون ہوگئی تھی۔ شکر ہے اب مزید تو وہ کسی کو دھوکہ نہیں دے سکے گا!

مگر اس کی مایوسی کی انتہا نہ رہی جب ایک ماہ بعد ارمغان کو چھوڑ دیا گیا۔

’’عبادہ! کیا ہوگیا ہے آپ لوگوں کو؟…… کیوں چھوڑ رہے ہیں اس کو؟‘‘ وہ غصے میں لگ رہی تھی۔ عبادہ اس کو دیکھ کر بے نیازی سے مسکرا دیا۔ اس کی مسکراہٹ دیکھ کر اس کو مزید غصہ چڑھ گیا۔

’’عبادہ!…… آپ کو یاد نہیں کہ ابوبکر کی جاسوسی بھی اسی نے کروائی تھی!…… اور وہ آپ کو پکڑنے کی نیت سے بھی آیا تھا!‘‘

’’نور! تم جہادی معاملات کو نہیں سمجھ سکتی!‘‘ عبادہ منہ بناکر بولا۔ نور بے چینی سے پہلو بدلنے لگی۔ عبادہ کچھ دیر گہری نگاہوں سے اس کو دیکھے گیا۔ ’’ہم نے بلاوجہ اس کو نہیں چھوڑا بلکہ مجاہدین کی گرفتار خواتین کے تبادلے میں چھوڑا ہے!…… تم بلاوجہ پریشان نہ ہو!‘‘

’’مگر عبادہ!…… وہ دوبارہ بھی تو کسی کو دھوکہ دے سکتا ہے!‘‘

اس کی بات سن کر عبادہ معنی خیز انداز سے مسکرا دیا۔

’’تم سمجھتی ہو کہ ہم نے کچی گولیاں کھیلی ہیں؟…… ہم نے اس کا پورا بندوبست کردیا ہے…… ان شاء اللہ اب وہ دوبارہ اس زمین پر نہیں نظر آئے گا!…… ان شاء اللہ!‘‘

عبادہ مسکرا دیا اور اس کے الفاظ کی گہرائی کو سمجھتے ہوئے نور کے جسم میں سنسنی دوڑ گئی۔

٭٭٭٭٭

دن چیونٹی کی رفتار سے گزر رہے تھے۔ مجاہدین کے لیے بہت نازک صورتحال تھی۔ تقریباً ۹۰ فیصد علاقے پر مجاہدین کا قبضہ ہوچکا تھا۔ پڑوسی ملک بھی بس فتح ہونے کے قریب تھا۔ دونوں خطوں کے مسلمان ایک وسیع رقبے پر قائم اسلامی مملکت کا خواب دیکھنے لگے۔ مجاہدین کی تمام تر توجہ آج کل اسلام آباد اور راولپنڈی پر مرکوز تھی۔ اور اس میں موجود پاکستانی اور امریکی کیمپوں کی حالت محاصرے میں آئی فوج سے کم نہ تھی۔ امریکہ اپنی تمام تر فوجی صلاحیت خرچ کررہا تھا۔

ایسے میں امریکہ کے پاکستان میں تعینات چیف آف آپریشنز کی موت نے مجاہدین کی جنگ میں ایک نئی روح پھونک دی اور اسلام آباد اور راولپنڈی کے فوجی کیمپوں اور صدارتی عمارتوں پر شریعت کا مطالبہ کرنے والے کالے جھنڈے لہرانے لگے۔ ایک دن بھی مزید نہ لگا اور پورے ملک میں فتح کا اعلان ہوگیا۔

٭٭٭٭٭

ریڈیو کی شاں شاں پورے کمرے میں گونج رہی تھی۔ نور مصطفیٰ کو کوئی کہانی سنانے کی کوشش کررہی تھی کہ اچانک عبادہ نے تکبیر کا نعرہ لگایا۔ نور فوراً اٹھ کر بیٹھ گئی۔ مصطفیٰ بھی اپنے بابا کو جوش میں دیکھ کر تکبیر کے نعرے لگانے لگا۔ عائشہ ان دونوں کو دیکھ کر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔

’’کیا ہوا عبادہ؟‘‘

’’امریکہ کا چیف آف آپریشنز جنرل کالن پارکر مارا گیا!…… اللہ اکبر! اسلام آباد مجاہدین کے ہاتھوں میں آگیا ہے!‘‘ عبادہ اچھل کر کھڑا ہوگیا۔ اور پھر سجدے میں گر کر زاروقطار رونے لگا۔ نور بھی اس کے پہلو میں ہی سجدہ ریز ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی قربانیاں قبول کرلی تھیں۔

سجدے سے سر اٹھا کر عبادہ نے چہرہ اس کی جانب موڑ کر عجیب نظروں سے اس کو دیکھا۔

’’کیا ہوا؟ ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں؟‘‘

عبادہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ بہت مضبوط اعصاب کا مالک تھا۔ نورنے بہت کم مواقع پر اس کو روتے دیکھا تھا۔ مگر اب وہ بہت جلدی ہی رو پڑتا تھا۔

’’نور! تمہیں پتہ ہے یہ فدائی ہمارے ایک بہت پیارے اور عزیز ساتھی نے کیا ہے…… جانتی ہو وہ کون تھا؟‘‘

نور نے حیرت سے اس کی جانب دیکھا۔ وہ اتنا جذباتی کیوں ہورہا تھا۔

’’کون تھا؟‘‘

’’ارمغان!‘‘

عبادہ کی بات اس پر بم بن کر گری۔ وہ حیرت سے گنگ رہ گئی۔ اور ٹکر ٹکر اسے دیکھے گئی۔

’’تمہیں یقین نہیں آتا تھا ناں کہ وہ میرا ہمدرد کیسے بن گیا…… وہ ڈبل ایجنٹ کا کردار ادا کر رہا تھا…… اس کی وجہ سے مجاہدین کو بہت سے فائدے ہوئے…… وہ بہت عجیب کھیل کھیلتا تھا اور نجانے کیسے ایسی اداکاری کرتا تھا کہ ان کو آخر تک شک ہی نہ ہوا……‘‘ جذبات کی وجہ سے عبادہ کی آواز بھاری ہونے لگی۔ ’’وہ بہت عظیم بندہ تھا!…… بہت نیک بندہ تھا!…… میں نے کبھی تمہیں بھی اسی لیے نہیں بتایا تھا کہ بات باہر نہ نکلے اور دشمن کو شک نہ ہوجائے!…… وہ ہماری کچھ باتیں جن سے نقصان کا اندیشہ نہیں ہوتا تھا، ہماری اجازت سے ان تک پہنچا تا تھا…… مثال کے طور پر جب عادل بھائی گرفتار ہوئے اور ہم لوگ وہاں سے بھاگ کر واپس آگئے تو اس نے مخبری کی جس کی بنیاد پر انہوں نے چھاپہ بھی مارا مگر ان کے ہاتھ کچھ نہ آیا!…… وہ کافی عرصے سے میرے پیچھے پڑا ہوا تھا کہ میں نے فدائی کرنا ہے…… مگر میں کسی بڑے ہدف کے انتظار میں تھا جو کہ آج الحمدللہ کام آگیا!…… اور مجاہدین کی جنگ کا پلڑا بھاری کرگیا!‘‘ عبادہ ایک ہی سانس میں ساری بات کرگیا۔ نور بس پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کو دیکھے گئی۔ حیرت کے مارے اس کی زبان نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ اور وہ اتنے بڑے انکشاف پر کچھ بھی نہ بول پائی تھی۔

٭٭٭٭٭

’’فرانس میں گستاخانہ خاکے چھاپنے والے اخبار پر گزشتہ ماہ ہونے والے حملے میں ملوث شدت پسندوں کی تلاش ابھی تک جاری ہے…… تمام بیرونی راستے بند کر دیے گئے ہیں…… تاہم سکیورٹی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ اگر حملہ آور پہلے ہی فرار ہوگئے ہوں تو اب ان کو پکڑا نہیں جاسکتا!…… یاد رہے کہ یہ حملہ فرانس کی تاریخ کا سب سے زیادہ خطرناک دہشت گردانہ حملہ تھا…… جس میں سو کے قریب ہلاکتیں ہوئی تھیں…… اور پانچ کارٹونسٹ ہلاک ہوئے تھے…… فرانس کے وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ایسے حملوں سے اظہار رائے کي آزادی کو خطرہ لاحق ہے!‘‘

’’نور! تمہارے بھائی بہت عظیم ہیں!‘‘ خبر سن کر عبادہ بے دھیانی میں بول گیا۔ نور نے حیرت سے اس کی جانب دیکھا۔

’’کیا مطلب؟‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا تو وہ گڑبڑا گیا۔

’’وہ…… یہ…… حملہ پہلے ابوبکر نے کرنا تھا ناں!‘‘

نور کے چہرے پر ایک حیران اور اداس مسکراہٹ چھاگئی۔ اس کو تو یہ بات ابھی تک نہیں معلوم تھی۔

دوسری طرف اسی محلے میں…… ان کے گھر سے دو گھر کے فاصلے پر مصعب اپنے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا۔ جویریہ نے دروازہ کھولا تو اس کو زندہ سلامت دیکھ کر حیران رہ گئی۔ خبر سن کر تو وہ اس کو شہید ہی کروا چکی تھی۔ مصعب اس کو دیکھ کر مسکرا دیا اور اندر داخل ہوکر احتیاط سے دروازہ بند کرکے اس کی طرف مڑا اور اپنا ہاتھ اس کے سامنے لہرایا۔ اس کے ہاتھ میں خود آلود اخبار کا ایک ٹکڑا تھا۔ جویریہ نے اس کے ہاتھ سے وہ جھپٹ لیا۔ وہ گستاخانہ خاکے شائع کرنے والے اخبار کا پھٹا ہوا ٹکڑا تھا۔ مصعب اپنی کارروائی کی نشانی ساتھ لایا تھا۔

جویریہ کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی اور اس کے دانت موتیوں کی طرح چمکنے لگے۔ اس کا شوہر نبی کریمﷺ کے گستاخوں کو مزا چکھا کر آیا تھا۔ اور اس بات پر وہ جتنا فخر کرے، کم تھا!

٭٭٭٭٭

نور، عبادہ، مصعب، جویریہ اور علی کی زندگی کی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی، اور نہ وہ چین سے بیٹھے۔ ان کی تحریک خاموش نہ ہوئی بلکہ بدستور بڑھ رہی ہے۔ اور وہ اس دن کا بے چینی سے انتظار کررہے ہیں جب وہ اپنے ہاتھوں سے فلسطین آزاد کرکے وہاں اسلام کا جھنڈا لہرائیں گے۔ وہ مسلسل بڑھتے رہیں گے یہاں تک کہ پوری دنیا میں اسلام غالب آجائے! ان شاء اللہ!

٭٭٭٭٭

تمت بالخیر

وصلی اللہ علی النبی وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین

Exit mobile version