مولانا حنیف شہیدؒ
اس تحریر میں چند ایسے واقعات ہیں جو مجھے کبھی نہیں بھولتے ان میں سے چند تو میرے ساتھ پیش آئے یعنی میں نے ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور چند دوسروں سے سنے۔ یہ واقعات کسی خاص موضوع سے تعلق نہیں رکھتے: ان میں مجاہدین کے ایثار، بہادری، تقویٰ وغیرہ کے واقعات ہیں، چند انصار کے مہاجر مجاہدین کے ساتھ محبت کے قصے ہیں اور چند کافروں کے مظالم کی داستانیں بھی۔ بس ملے جلے واقعات ہیں ، اللہ سے دعا ہے کہ وہ اس تحریر کو اپنے حضور قبول فرما لے، آمین۔ (ابرار احمد)
میں مولانا حنیف رحمہ اللہ کے ساتھ افغانستان میں ایک سفر میں تھا ۔ ان دنوں میں سفر کافی مشکل ہوا کرتا تھا اور سفر دشتوں میں اور صحراؤں میں ہوتا تھا۔ ڈبل کیبن ڈالے کے پیچھے مجاہدین بیچارے کافی مشکل سے ایک علاقے سے دوسرے علاقے جاتے تھے، سِیٹ پہ جگہ کافی مشکل سے ملتی تھی۔ پانچ دن کا سفر ہم نے موٹر سائیکل پر کیا، مزید آگے گاڑیوں پر جانا تھا۔ ہم کُل چار ساتھی تھے، دو ساتھیوں کو تو ہم نے پہلے روانہ کر دیا کیوں کہ ایک ایک ساتھی کی ترتیب بن رہی تھی وہ دو ساتھی عیسیٰ اور موسیٰ شہید تھے۔ یہ دونوں بھائی اپنے ایک تیسرے بھائی اور والدہ سمیت ایک امریکی چھاپے میں شہید ہوئے اور ان کا چوتھا بھائی بھی ان سے کچھ عرصہ پہلے ہی شہید ہوا۔ اللہ تعالیٰ ان سب کی شہادتیں قبول فرمائے، آمین۔ ان دونوں کو ہم نے الگ الگ گاڑیوں میں روانہ کردیا۔ اب میں اور مولانا حنیف بچ گئے۔ اگرچہ جانا ہم نے بھی علیحدہ علیحدہ ہی تھا مگر ہماری قسمت کہ ایک ہی گاڑی میں ہمیں جگہ مل گئی۔ سفر رات کا تھا اور ٹھنڈ بھی کافی زیادہ تھی۔ ایک سیٹ بھی خالی تھی اور ایک بندے کو پیچھے بیٹھنا تھا۔ مولوی حنیف مجھ سے کہنے لگے یار سیٹ پر تو میری طبیعت خراب ہوتی ہے، شکر ہے پیچھے بھی جگہ ہے۔ ایسا کریں آپ آگے بیٹھ جائیں، میں پیچھے بیٹھ جاتا ہوں۔
ڈالے میں پیچھے بیٹھنا وہ بھی سردی میں کافی مشکل ہوتا ہے اور گاڑی بہت تیز بھی چلتی ہے۔ دشت میں کبھی کسی جمپ پر پیچھے سے بندہ گر بھی سکتا ہے۔ اس طرح ایک بندے کو گرتا ہوا میں نے خود دیکھا جب میں ایک صحرائی لینڈ کروزر میں سفر کر رہا تھا۔ ہمارے آگے بھی ایک صحرائی لینڈ کروزر تھی، اور سفر صحرا میں تھا۔ آگے والی گاڑی بہت تیز جارہی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے گاڑی ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ ہم تھوڑا سا آگے گئے تو ایک آدمی کو دیکھا، اس نے ہمیں ہاتھ سے اشارہ کیا۔ صحرا میں ڈاکوؤں کی وجہ سے کوئی گاڑی بھی نہیں روکتا، لیکن میں نے اس آدمی کو پہچان لیا۔ میں نے ڈرائیور سے کہا کہ یہ تو اگلی گاڑی میں تھا، ڈرائیور نے گاڑی روک دی اور پیچھے واپس اس کی طرف گیا۔ جب اس سے پوچھا کے یہاں کیوں کھڑے ہو تو اس نے کہا کے اگلی گاڑی والا اتنی سپیڈ میں تھا کہ ایک جمپ پہ میں گر گیا اور ڈرائیور کو اندازہ بھی نہیں ہوا۔ وہ بیچارہ زخمی بھی تھا لیکن ریت پے گرنے کی وجہ سے اتنے زیادہ زخم نہیں تھے۔
یہ واقعہ درمیان میں اس لیے سنا رہا ہوں کہ اندازہ ہو کہ پیچھے ڈالے میں بیٹھنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ اگر بندہ اپنے آپ کو مضبوطی سے نہ پکڑے تو گرنا لازمی ہوتا ہے۔ خیر مجھ سے جب مولانا نے کہا کہ آپ آگے بیٹھ جائیں کیونکہ میرے لیے آگے بیٹھنا مشکل ہے تو میں بھی آگے بیٹھ گیا کیونکہ میرے لیے اس سے زیادہ اچھی بات کیا تھی کہ اتنا مشکل سفر اتنی آسانی سے گزر جائے حالانکہ مجھے مولانا سے پوچھنا چاہیے تھا کہ ’مشکل ہوتی ہے‘ سے مراد آپ کی کیا ہے۔ میں نے بھی ڈنڈی ماری اور موقع غنیمت جانتے ہوئے آگے بیٹھ گیا۔ جب سفر شروع ہوا تو شروع میں تو دشت تھا اور ہوا بھی اتنی زیادہ نہیں تھی۔ تھا تو گرمیوں کا موسم لیکن گرمیوں میں بھی صحرا کی راتیں بہت ٹھنڈی ہوتی ہیں۔ جب صحرا کا سفر شروع ہوا تو ریت کا طوفان شروع ہو گیا۔ ہم جب راستے میں رکے تو میں نے نہ چاہتے ہوئے مروت میں ایک بار مولانا سے کہہ دیا کہ مولانا صاحب آپ آگے آ جائیں۔ مولانا کہنے لگے نہیں یار سیٹ پہ مجھے مشکل ہوتی ہے۔ سفر پھر شروع ہوا اور میں ایک بار پھر آگے سیٹ پہ تشریف فرما ہو گیا۔ یہ تھے بھی رمضان کہ دن اور ہمارا سحری کا وقت بھی سفر میں ہی کٹا۔ روزہ تو ہم دونوں نے نہیں رکھا کیونکہ اگلا دن بھی سفر کرنا تھا اور وہ بھی صحرا میں۔
ہم مجاہدین کی ایک زنجیر(چیک پوائنٹ ) پہ پہنچے، وہیں سے ہمیں دوسری جگہ کی گاڑی ملنی تھی۔ ادھر ہم نے ناشتہ بھی کیا جس کا انتظام ادھر موجود مجاہدین نے ہی کیا کیونکہ ان کو اندازہ تھا کہ آگے جو ہمارا سفر تھا اس میں روزہ رکھنا بہت مشکل تھا۔ ناشتے کے بعد ہماری گاڑی کا انتظام بھی ہو گیا اور اتفاق سے اس میں دو سیٹیں موجود تھیں۔ میں نے مولانا صاحب سے کہا کہ حضرت آپ تو پیچھے بیٹھیں گے، حالانکہ اس میں دو سیٹیں موجود ہیں۔ مولانا کہنے لگے؛ نہیں یار! میں آگے ہی بیٹھوں گا۔ میں نے حیرت سے کہا؛ آپ نے تو کہا تھا……… میرا جملہ ابھی ادھورا ہی تھا کہ مولانا اپنے خاص انداز میں کہنے لگے؛ اچھا بس بس ابھی زیادہ باتیں نہیں کرو۔ میں نے کہا؛ نہیں حضرت! یہ تو اچھی بات نہیں ہے، آپ نے ایسا کیوں کہا اور پوری رات پیچھے بیٹھ کے گزاری۔ آپ نے تو کہا تھا مجھے سیٹ پہ مشکل ہوتی ہے۔ مولانا کہنے لگے:میں نے جھوٹ تو نہیں بولا میرا بھائی پیچھے تکلیف میں ہو اور مجھے مشکل نہ ہو یا میری طبیعت خراب نہ ہو…… یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ واقعی مولانا نے جھوٹ تو نہیں کہا تھا۔
مولانا سلمان (مولانا حنیف) جیسا ایثار کم لوگوں کو ہی نصیب ہوتا ہے اور جس انسان کی نظر فقط آخرت پر ہو تو اس کے سامنے دنیا کی تکالیف کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ وہ بندہ اپنے رب کی محبت میں سب کچھ برداشت کرتا جاتا ہے۔ اور آخر اس کی آزمائش کی گھڑیاں ختم ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کو اپنی جنتوں میں بلا لیتے ہیں۔
مولانا سلمان کا ایک اور واقعہ بھی آپ لوگوں کو سنائے دیتا ہوں۔
ہم لوگ ایک علاقے میں تھے جہاں کے مسئول مولانا سلمان تھے۔ اس علاقے میں چار یا پانچ مراکز تھے اور ان میں کچھ ساتھیوں کے مسائل تھے۔ کچھ فتنہ پرور لوگوں کی وجہ سے ماحول کافی خراب تھا اور غیبت جیسی بیماری کچھ لوگوں کی وجہ سے مراکز میں عام ہونے لگی۔ یہ سطور لکھنا میرے لیے کافی مشکل ہے لیکن کیا کروں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جہاد میں کچھ ایسے کردار بھی ہوتے ہیں جن کا سارا وقت مجاہدین کے بیچ پھوٹ ڈالنے میں صرف ہوتا ہے اور وہ اس کو دین کی خدمت سمجھ کے کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہر دور میں ایسے لوگوں کی سازشوں کو بے نقاب کرتے ہیں اور ان لوگوں کا جہاد کا لبادہ بھی اتار کے پھینک دیتے ہیں جس سے انہوں نے اپنے آپ کو چھپایا ہوتا ہے کیونکہ وہ اللہ کے اولیا سے دشمنی مول لیتے ہیں۔ جب کوئی کسی اللہ کے ولی سے دشمنی کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے مقابلے میں خود آتے ہیں اور جس کے مقابلے میں میرا رب آ جائے تو ذلت اور رسوائی اس کا مقدر ہوتی ہے۔
تو ایک دن ہم ایک مرکز میں بیٹھے تھے اور مولانا بہت دکھی تھے۔ مجھ سے مولانا کہنے لگے:آپ سے ایک بات کرنی ہے۔ ہم دونوں مرکز کے پیچھے ایک باغ میں چلے گئے۔ مولانا نے مجھے گلے لگایا اور بچوں کی طرح رونے لگے اور کہا کہ یار ساتھی کیوں اس طرح کرتے ہیں، آخر میں نے کیا برا کیا ہے ان لوگوں کے ساتھ، یہ لوگ کیوں اس طرح جہاد کو بدنام کرتے ہیں اور میں نے جو کام کیا نہیں ہے وہ مجھ سے منسوب کر رہے ہیں۔ میں نے مولانا سے کہا: مولانا! ان لوگوں کو سزا دینی چاہیے۔ تو پھر ایک دم کہنے لگے کہ نہیں یار! یہ سب لوگ بیوقوف ہیں۔ اتنے میں نماز کا وقت ہوگیا۔ ہم نے نماز پڑھی۔ نماز کے بعد مولانا نے سب سے کہا کہ نماز کے بعد بیٹھے رہیں، میں نے چھوٹی سی بات کرنی ہے۔ پھر مولانا ساتھیوں سے گویا ہوئے کہ مجھ سے کسی کو کوئی تکلیف تو نہیں ہے؟ …… سب نے نفی میں سر ہلایا۔ پھر مولانا کہنے لگے کہ آج آپ لوگوں کو اللہ کا واسطہ دے کے کہتا ہوں، اگر آج کے بعد میرے بارے میں کوئی بری بات کرے تو برائے مہربانی مجھے نہ بتائیں، اگر میرے اندر وہ کمزوری ہو تو میری اصلاح کی کوشش کریں یا مجھے وہ ساتھی خود آ کے بتا دے کہ مولانا آپ میں یہ مسئلہ ہے، لیکن اگر میری کوئی غیبت کرے یا مجھے برا بھلا کہے تو آپ لوگوں کے آگے جھولی پھیلاتا ہوں مجھے نہ بتائیں۔
پھر مولانا دو ساتھیوں سے مخاطب ہوئے جو آپس میں بات چیت نہیں کر رہے تھے۔ ان کو بھی کسی فتنہ پرور نے آپس میں لڑوایا تھا۔ مولانا ان سے کہنے لگے؛ میں کافی دنوں سے محسوس کر رہا ہوں کہ آپ لوگ آپس میں بات چیت نہیں کر رہے حالانکہ آپ لوگوں کو علم ہے کہ تین دن سے جو زیادہ بات نہ کرے اس کا اسلام میں کیا حکم ہے، پھر آپ لوگ مجاہد ہیں…… بس مجھے کچھ نہیں سننا، اٹھو اور ایک دوسرے کو گلے لگاؤ۔ ایک ساتھی تو فوراً اُٹھ گیا، دوسرا تھوڑا سا تذبذب کا شکار ہوا۔ تو مولانا نے اس کے آگے ہاتھ جوڑ لیے کہ اللہ کا واسطہ دیتا ہوں اپنے بھائی کو گلے لگا لو اور اللہ کو ناراض نہ کرو۔ وہ ساتھی بھی اٹھا اور دونوں آپس میں بغل گیر ہو گئے۔ ہم سب نے ماشاءاللہ کی صدا بلند کی اور پھر مولانا نے دعوت کا اعلان کیا جس سے ایک بار پھر فضا میں اللہ اکبر کی صدا گونجی۔ مولانا سلمان اس طرح ساتھیوں کو خوش کرتے، ہنستے ہنساتے اپنے رب کے پاس پہنچے۔ اللہ تعالیٰ مولانا سے راضی ہو،آمین!
ایک اور واقعہ جو مجھے مولانا سلمان رحمہ اللہ نے ہی سنایا، وہ بھی آپ لوگوں کو سناتا ہوں۔ یہ واقعہ علامہ غازی عبدالرشیدؒ شہید کے متعلق ہے۔ مولانا سلمان جامعہ فریدیہ سے فارغ التحصیل تھے۔ غازی صاحب کے ساتھ ان کا بہت قریبی تعلق تھا کیونکہ مولانا مدرسے میں ایک کشمیری جہادی تحریک کے بہت فعال کارکن تھے۔ اور مولانا صاحب دعوت کے معاملے میں بہت متحرک تھے۔ یہ تو ممکن ہی نہیں تھا کہ مولانا کسی بندے کے ساتھ تھوڑا سا وقت گزاریں اور اسے جہاد کی دعوت نہ دیں۔ اس لیے غازی صاحب ان سے بہت محبت کرتے تھے اور ان کو غازی صاحب کی صحبت میں رہنے کا بہت موقع ملا۔
مولانا ایک دفعہ غازی صاحب کی سادگی اور زہد کا تذکرہ کر رہے تھے۔ کہنے لگے کہ ایک دن غازی صاحب کہیں کام کےلیے گئے ہوئے تھے، رات میں کافی دیر ہو گئی۔ جب واپس آئے تو مجھے بلایا اور کہا یار ’ڈیروی‘ کھانے کےلیے کچھ ہے؟…… میں نے کہا: استاد جی! میں مطبخ میں جا کے دیکھتا ہوں۔ کہنے لگے؛ چلیں میں بھی آپ کے ساتھ چلتا ہوں۔ ہم دونوں گئے تو تھوڑے سے ٹھنڈے چاول اور خشک روٹی رکھی ہوئی تھی۔ میں نے کہا؛ استاد جی! رکیں میں باہر سے کچھ لے کے آتا ہوں، ادھر تو کچھ بھی نہیں ہے۔ غازی صاحب نے کہا؛ کیوں جی؟…… یہ کھانا ہے ناں۔ میں نے کہا: غازی صاحب! یہ تو کھانے کے قابل نہیں ہے، چلیں میں باورچی کو بلاتا ہوں، وہ کچھ بنا دے گا۔ غازی صاحب کیسے کسی کو تکلیف دے سکتے تھے…… کہنے لگے: نہیں ڈیروی! میں یہ کھا لوں گا۔ اور خود ہی چاول پلیٹ میں نکالے اور خشک روٹی کے ساتھ کھانے لگے۔ پھر مجھ سے کہنے لگے: مولانا! آپ بھی کھائیں، بہت مزے کا لگ رہا ہے۔ مولانا سلمان کہتے ہیں کہ میں نے مروت میں لقمہ منہ میں تو ڈال لیا لیکن نگلنا میرے لیے آزمائش بن گیا، خیر کسی طرح میں نے نگل ہی لیا لیکن غازی صاحب تو اس سادہ سے کھانے کو ایسے کھا رہے تھے جیسے اس کے عادی ہوں۔ یہ تو حقیقت ہے اللہ والوں کی نظریں اس دنیاکی پُرآسائش زندگی پر نہیں ہوتیں کیونکہ ان کی وسعتِ نظر ان کو اس دنیا میں دل نہیں لگانے دیتی۔ غازی صاحب اور مولانا سلمان ان شاءاللہ رب کی جنتوں میں خوش و خرم ہوں گے کیونکہ دونوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی بہترین نعمت شہادت سے نوازا اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان دونوں سے محبت کی وجہ سے مجھے بھی جنتوں میں ان سے دور نہیں کریں گے، آمین!
٭٭٭٭٭