ہندُ تْوا پر نظر

شک کی بنیاد پربلا نوٹس کسی کے بھی جسمانی نمونے لینے کا بل پاس


بی جے پی نے Criminal Procedure Identification Bill 2022 کے نام سے ۲۸ مارچ کوایک بل پیش کیا، ۳ اپریل کو اسے لوک سبھا میں جب کہ ۶ اپریل کو راجیا سبھا میں اسے منظور کر لیا گیا۔ اس بل کے مطابق پولیس صرف شک کی بنیاد پر گرفتار کسی شخص کے جسم سے مختلف نمونے (Biological Samples) لینے کی مجاز ہو گی۔

ان نمونوں میں خون، تھوک، نطفہ، پسینہ، آنکھوں کی پتلیوں، ہاتھ کی انگلیوں اور آواز کے نمونوں کے علاوہ دستخط، عادات و اطوار اور جسم کی ساخت بھی نوٹ کی جائے گی۔

بل کے مطابق کوئی بھی ایسا شخص جو خفیہ ایجنسیوں کے شک کے دائرے میں ہو تو پولیس کے ہیڈ کانسٹیبل درجے کے افسر کو یہ اختیار حاصل ہو گا کہ وہ بلا کسی نوٹس کے نمونے جمع کرے۔ اگر نمونے دینے سے کوئی شخص انکار کرے تو یہ انکار جرم ہو گا اور ایسا کرنے پر پولیس اس شخص پر ایک اور فوجداری مقدمہ دائر کرنے کی مجاز ہو گی۔

اس قانون کے مطابق اس طرح کے نمونوں کا ڈیٹا کرائم ریکارڈ بیورو National Crime Record Bureau (NCRB) کے پاس ۷۵ سال تک محفوظ رکھا جائے گا۔

اجمیر میں ۵۵ سالہ مسلمان ہجوم زنی کا شکار


۱۲ اپریل ۲۰۲۲ء: ریاست راجستھان کے شہر اجمیر میں ایک مسلم شخص ہجوم زنی کا شکار ہوا جس کے سبب اس کی موت واقع ہو گئی۔ ۵۵ سالہ محمد سلیم نامی شخص سبزی فروش تھے۔ چشم دید گواہ کے مطابق محمد سلیم اپنے بیٹے کے ساتھ مارکیٹ گئے اور اپنی دکان کے سامنے بائک کھڑی کی ۔ اسی دوران ایک ہندو ’سورج ماروتھیا‘ نامی شخص کی کار محمد سلیم کی بائک سے ٹکرا گئی۔ اس پر سورج نے محمد سلیم کے ساتھ بدسلوکی کی اور نازیبا الفاظ کا استعمال کیا، اور چھ افراد کو ملا کر لوہے کی سلاخوں اور ڈنڈوں سے محمد سلیم پر حملہ کر دیا جس کے سبب سلیم زخمی ہو گئے، اور ہسپتال جاتے ہوئے ان کی وفات ہو گئی۔

جن گھروں سے پتھر پھینکے گئے انہیں پتھروں کا ڈھیر بنادیں گے: وزیر داخلہ


۱۳ اپریل ۲۰۲۲: کھرگون میں رام نومی جلوس میں ہونے والے فسادات کے بعد مدھیا پردیش کے وزیر داخلہ ’نروتم مشرا‘ نے دھمکی دی کہ جن گھروں سے جلوس پر پتھر پھینکے گئے ان کے گھروں کو پتھروں کے ڈھیر میں تبدیل کر دیں گے۔ اس دھمکی پر فوری عمل درآمد کیا گیا اور کھرگون کی میونسپلٹی نے غیر قانونی تجاوزات کے نام پر مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کو بلڈوز کرنا شروع کر دیا۔ مسلمانوں کے ۱۶ گھروں اور ۲۹ دکانوں کو بلڈوز کیا گیا اور سینکڑوں مسلمانوں کو فسادات کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ اس کے علاوہ وہاں پر کرفیو بھی نافذ کردیا گیا جس کی وجہ سے جمعہ کی نماز مساجد میں ادا نہیں کی جا سکی۔

اکھنڈ بھارت کا قیام اگلے پندرہ سال میں ممکن: موہن بھاگوت


۱۵ اپریل ۲۰۲۲ء: آر ایس ایس کے سر سنگھ چالک موہن بھاگوت نے ہری دوار میں سَنَتوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سنَتَن دھرم ہی ’ہندو راشٹر‘ ہے۔ اگر ملک کے لوگ کوشش کریں تو اگلے پندرہ سالوں میں اکھنڈ بھارت کا قیام ہو سکتا ہے، اسے کوئی روکنے والا نہیں۔ اس کے راستے میں جو آئے گا وہ مٹ جائے گا۔ اس نے مزید کہا کہ ہم عدم تشدد کی بات تو کریں گے لیکن ہاتھ میں ڈنڈا لے کر۔ کیونکہ یہ دنیا طاقت پر یقین رکھتی ہے۔

بھوپال میں جہادیوں کی چھاتی پر بھگوا لہرائیں گے: ہندتوا تنظیمیں


۱۶اپریل ۲۰۲۲ء : بھوپال کی ہندتوا تنظیموں نے اعلان کیا کہ وہ ۱۶ اپریل کو ہنومان جینتی کے موقع پر شہر میں ’’شوبھا یاترا‘ نکالیں گے اور ’جہادیوں کی چھاتی پر بھگوا لہرائیں گے‘۔ اس سلسلے میں واٹس ایپ گروپ پر بڑی تعداد میں میسج شیئر کیے گئے جس میں بڑی تعداد میں ہندوؤں سے ریلی میں شرکت کی اپیل کی گئی۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اپنے نام سے ’مسلم‘ کا لفظ ہٹائے: ویشواہندو پریشد


۱۶ اپریل ۲۰۲۲ء: ویشوا ہندو پریشد کے جوائنٹ جنرل سیکریٹری ڈاکٹر سریندر جین نے جمعہ ۱۵ اپریل ۲۰۲۲ء کو اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اگر اپنے نام سے ’مسلم‘ کا لفظ نہیں ہٹاتی تو پھر اسے مرکزی مراعات نہیں لینی چاہییں۔ اس بارے میں یونیورسٹی کے ترجمان شافع کدوائی نے کہا کہ یونیورسٹی کا نام ایک پارلیمنٹری ایکٹ کے تحت رکھا گیا تھا۔ نہ ہم نے یہ نام رکھا ہے اور نہ ہی ہم اسے بدل سکتے ہیں۔ ۲۰۱۸ء میں یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کے آڈٹ پینل نے بھی یونیورسٹی کے نام سے ’مسلم‘ ہٹانے کی تجویز دی تھی، جس کے جواب میں اُس وقت کے یونیورسٹی کے رجسٹرار جاوید اختر نے جوابی خط میں کہا کہ ایسا کرنے سے یونیورسٹی اپنے بے مثال تاریخی کردار سے محروم ہو جائے گی۔ سریندر جین نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ اس ملک کے مستقبل کا فیصلہ ہندو برادری کرے گی۔ اس ضلع کا نام بھی بدل کر ’ہری گڑھ‘ رکھا جائے گا۔ علی گڑھ نام کچھ حملہ آوروں کا رکھا ہوا ہے۔ علی گڑھ میں رہنے والی مسلمان برادری کو چاہیے کہ وہ ماضی میں رہنا چھوڑ دیں یہی اُن کے حق میں بہتر ہو گا۔ اس ملک کی شناخت رام اور ہری سے ہے نہ کہ مسلمان حملہ آوروں سے۔

دہلی پولیس نے وی ایچ پی اور بجرنگ دل کو جہانگیر پوری فسادات میں ملزم قرار دینے کے کچھ گھنٹوں بعد ہی بیان واپس لے لیا۔


۱۸ اپریل ۲۰۲۲ء: دہلی پولیس نے جہانگیر پوری فسادات کے بعد میڈیا کے سامنے ایک سرکاری بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے وشوا ہندوپریشد اور بجرنگ دل کے خلاف ۱۶ اپریل کی شام انتظامیہ کی اجازت کےبغیر جلوس نکالنے پر ایف آئی آر درج کر لی ہے۔ پولیس نے مزید کہا کہ انہوں نے ایک شخص جس کی شناخت پریم شرما کے طور پر ہوئی ہے اور جو وشوا ہندو پریشد کا مقامی رہنما ہے، اسے بھی گرفتار کیا ہے۔

اس کے جواب میں وشوا ہندو پریشد کے ترجمان ’ونود بنسل‘ نے دھمکی دی کہ اگر وی ایچ پی کے کارکنان کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی تو وی ایچ پی جنگ چھیڑ دے گی۔ اس نے مزیدکہا کہ پولیس نے’جہادیوں‘ کے آگے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔

وی ایچ پی کی اس دھمکی کے کچھ ہی وقت بعد دہلی پولیس نے اپنا بیان واپس لے لیا اور اس کی بجائے ایک نیا بیان جاری کیا جس میں نہ تو کسی تنظیم کا نام لیا گیا تھا اور نہ ہی کسی گرفتاری کا۔

نئے بیان میں کہا گیا کہ پولیس نے جلوس کے منتظمین کے خلاف بلا اجازت جلوس نکالنے پر کیس درج کیا ہے۔ اور ایک ملزم کو تفتیش میں شامل بھی کیا گیا ہے۔

اس بیان سے پہلے ہی دہلی پولیس نے وی ایچ پی کے گرفتار مقامی رہنما پریم شرما کو رہا کر دیاتھا۔

لیکن میڈیا میں پولیس پر یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جلوس پولیس کی اجازت کے بغیر نکلا ہو جبکہ جلوس کی حفاظت کے لیے دو پولیس جیپیں اس کے ساتھ ساتھ تھیں۔ اور پولیس کی موجودگی میں ہی وی ایچ پی کے غنڈے تلواریں اور پستول لہراتے مسجد کے سامنے دنگا کر رہے تھے۔

ہندو چار بچے پیدا کریں، دو آر ایس ایس کو دیں: درگاواہنی کی سربراہ


۱۹ اپریل ۲۰۲۲ء: ویشوا ہندو پریشد کے وومن ونگ ’درگا واہنی‘ کی سربراہ ’سادھوی رِتھمبرا‘ نے بیان دیا ہے کہ ہر ہندو میاں بیوی کو چاہیے کہ وہ چار بچے پیدا کریں اور ان میں سے دو ہندو قوم کے لیے وقف کر دیں۔ اس طریقے سے ہندوستان بہت جلد ’ہندو راشٹر‘ بن جائے گا۔ ہندو قوم کے لیے وقف کرنے کی مزید وضاحت کرتے ہوئے اس نے کہا کہ انہیں آر ایس ایس کے لیے وقف کر دیں اور انہیں ویشوا ہندو پریشد کا کارکن بنائیں۔

کرناٹک: پری یونیورسٹی امتحانات میں حجاب کی اجازت نہیں


۲۰ اپریل ۲۰۲۲ء: حجاب پہننے والی طالبات کو کرناٹک میں سالانہ پی یو سی امتحان میں بیٹھنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ کرناٹک کے وزیر تعلیم ’بی سی ناگیش‘ نے کہا کہ تمام طلبہ کو یونیفام کے اصولوں پر عمل کرنا چاہیے۔ حجاب پہننے والی طالبات کو امتحان میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ واضح رہے کچھ روز قبل مسلم طالبات نے کرناٹک کے وزیر اعلیٰ کو خط لکھ کر اپیل کی تھی کہ ان کے مستقبل کا خیال کریں اور انہیں امتحان میں بیٹھنے کی اجازت دیں۔ لیکن ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔

جہانگیر پوری: بڑے پیمانے پر مسلمانوں کی املاک پر انہدامی کارروائی


۲۱ اپریل ۲۰۲۲ء: دہلی کی جہانگیر پوری میں ہنومان جینتی کے جلوس سے شروع ہونے والے فسادات کے بعد دہلی میونسپل کارپوریشن (ایم سی ڈی) کے ذریعے بڑے پیمانے پر مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں پر بلڈوزر چلا کر انہیں منہدم کر دیا گیا اور اس دوران اُس مسجد کا دروازہ بھی توڑ دیا گیا جہاں پر گزشتہ دنوں ہندتوا غنڈوں نے بھگوا جھنڈا لہرایا تھا۔ مسجد کے قریب ہی مندر بھی تھا جہاں غیر قانونی تعمیرات تھیں لیکن اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ چار سو پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں ۹ بلڈوزروں کی مدد سے غیر قانونی تعمیرات کہہ کر مسلمانوں کی املاک کو منہدم کیا گیا۔ سپریم کورٹ کی طرف سے بلڈوزر کی کارروائی روکنے کا حکم دیے جانے کے ڈیڑھ دو گھنٹے بعد تک انہدامی کارروائی جاری رہی۔

کھرگون: دونوں ہاتھوں سے محروم شخص بھی پتھر پھینکنے کا ملزم قرار


۲۱ اپریل ۲۰۲۲ء:کھرگون، مدھیا پردیش میں ہندوؤں کے مذہبی جلوس پر مسلمانوں کی طرف سے پتھراؤ کرنے کے الزام میں ایک ایسے شخص کو ملزم قرار دے کر گرفتار کر لیا گیا جو دونوں ہاتھوں سے محروم ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ کھرگون میونسپلٹی نے اس الزام کے تحت اس مسلم شخص کی دکان بھی بلڈوزر سے منہدم کر دی۔ وسیم شیخ نامی شخص ۲۰۰۵ء میں ایک حادثے میں اپنے دونوں ہاتھوں سے محروم ہو گئے تھے۔ وسیم شیخ کھرگون میں ایک چھوٹی سی دکان چلاتے تھے۔ یہ دکان اسی جگہ تھی جہاں رام نومی کے دن ہندو شر پسندوں نے تشدد برپا کیا۔ اس کے بعد حکومت نے یہاں کے مسلمانوں کی دکانوں کو یہ کہہ کر منہدم کر دیا کہ مسلمانوں نے رام نومی جلوس پر پتھر پھینکے تھے۔

عید کے موقع پر جودھ پور میں فسادات


۴ مئی ۲۰۲۲ء: جودھ پور، راجستھان میں چاند رات کو فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ جالوری گیٹ چوراہے پر ہندتوا وادی گروپ کی جانب سے بھگوا جھنڈا لہرائے جانے کے بعد مذہبی جھنڈتوں پر تنازع شروع ہو گیا اور تشدد پھوٹ پڑا۔ پولیس نے دونوں مذاہب کے جھنڈوں کو ہٹا کر ترنگا لہرا دیا اور تنازع حل کیا۔ مگر اگلے ہی دن قریب ہی موجود عید گاہ بھر جانے کی وجہ سے کچھ مسلمانوں نے سڑک پر نماز ادا کرنے کی کوشش کی تو ہندوؤں کا ایک گروپ سامنے آگیا اور احتجاج کرنے لگا۔ اس پر مسلمانوں نے بھی چوراہے پر جمع ہو کر احتجاج کیا۔ جس کے نتیجے میں تصادم شروع ہو گیا۔ پولیس کے مطابق دونوں گروپوں نے ایک دوسرے پر لاٹھیوں، بیس بال کے بلّوں، پتھروں اور جو کچھ بھی ہاتھ میں تھا اس سے حملہ شروع کر دیا۔ اس پر قابو پانے کے لیے پولیس نے آنسو گیس چھوڑی اور لاٹھی چارج کیا۔ راجستھان پولیس نے جودھ پور اور اطراف کے اضلاع میں کرفیو نافذ کر دیا اور انٹرنیٹ خدمات معطل کر دیں۔

کانپور : ۸۰ سالہ قدیم مدرسے کی عمارت کو غیر قانونی طور پر بلڈوز کر دیا گیا


۵ مئی۲۰۲۲ء: اترپردیش کے ضلع کانپور کی گھاٹم پور تحصیل میں بھدرس روڈ پر واقع مدرسہ اسلامیہ کی عمارت کو ڈسٹرک مجسٹریٹ کے حکم سے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے غیر قانونی قبضے ہٹانے کے نام پر منہدم کر دیا گیا۔ مدرسہ کے اراکین نے جب اس کارروائی کی مخالفت کی تو انتظامیہ نے بھاری پولیس فورس تعینات کر کے ان کی آواز کو دبا دیا۔ اس انہدامی کارروائی میں مدرسہ انتظامیہ کو اتنی مہلت نہیں دی گئی کہ عمارت میں رکھے قرآن پاک اور دیگر مذہبی کتابوں کو نکالا جا سکے۔ مدرسے کے پرنسپل نے بتایا کہ مدرسے کی عمارت ان کی ذاتی زمین پر تعمیر ہے اور مدرسے کے نام سے اس کی رجسٹری ہے اور اس کے تمام کاغذات محفوظ ہیں۔ سرکاری انتظامیہ نے مدرسے کو بغیر تحقیق کے نقصان پہنچایا۔

کرناٹک: ایک ہزار مندروں سے لاؤڈ اسپیکر پر فجر کے وقت ہنومان چالیسیا کا پاٹھ


۱۰ مئی۲۰۲۲ء: مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کے خلاف ریاست کرناٹک میں ۹ مئی کو ایک ہزار سے زیادہ مندروں میں صبح ساڑھے ۵ بجے سے ۶ بجے تک ہنومان چالیسیا کا پاٹھ کیا گیا اور بھجن گائے گئے۔ بنگلور، میسور، منڈیا، بیلگام، دھارواڑ، ہبلی، کلبرگی اور ریاست بھر کے دیگر مقامات پر ہنومان چالیسیا کا پاٹھ کیا گیا اور ساتھ ہی ہندو شرپسندوں نے دھمکی دی کہ اگر ریاستی حکومت نے مساجد کے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کے خلاف کارروائی نہیں کی تو ہندو کارکن آنے والے دنوں میں ہنومان چالیسیا کا پاٹھ تیز کر دیں گے۔

بی جے پی کا نئی دہلی میں چھ سڑکوں اور ۴۰ دیہاتوں کے نام بدلنے کا مطالبہ


۱۱ مئی ۲۰۲۲ء: بی جے پی نے نئی دہلی میونسپل کاؤنسل سے دارالحکومت کی چھ سڑکوں کے نام بدلنے کا مطالبہ کیا ہے جو کہ اس کے مطابق ’غلامی‘ کی علامت ہیں۔

دہلی بی جے پی کے صدر آدیش گپتا نے میونسپل کارپوریشن کے چئیرمین کو ایک خط میں کہا کہ تغلق روڈ، اکبر روڈ، اورنگزیب لین، ہمایوں روڈ، شاہجہان روڈ اور بابر لین کے نام بدلے جائیں۔

گپتا نے تجویز دی کہ تغلق روڈ کا نام بدل کر گورو گوبند سنگھ مرگ، اکبر روڈ کا مہارانا پرتاپ مرگ، اورنگزیب لین کا اے پی جی عبدالکلام لین، ہمایوں روڈ کا مہاراشی والمکی روڈ، شاہجہان روڈ کا بیپن راوت روڈ جبکہ بابر لین کا کھدی رام بوس لین رکھا جائے۔

اس کے علاوہ اس نے نئی دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال سے مطالبہ کیا کہ ۴۰ گاؤں جن میں ہمایوں پور، یوسف سرائے، بیگم پور اور حوضِ خاص شامل ہیں، ان کے نام بدل کر انہیں تحریک آزادی کے رہنماؤں، شہدا، دہلی فسادات کا شکار ہونے والوں اور ملک کے مشہور فنکاروں اور کھلاڑیوں کے ناموں پر رکھا جائے۔

اس سے پہلے گپتا نے دہلی کے علاقے محمد پور میں نام کے بورڈ بدل کر ان کی جگہ ’مادھوْ پورم‘ کا بورڈ لگا دیا تھا۔

اترپردیش: تمام مدارس میں قومی ترانہ گانا لازمی قرار


۱۲ مئی ۲۰۲۲ء: اتر پردیش مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے رجسٹرار ایس این پانڈے نے حکم نامہ جاری کیا ہے کہ مدارس میں کلاس شروع ہونے سے پہلے قومی ترانہ گانا تمام اساتذہ اور طلبہ کے لیے ضروری ہو گا۔ اس نے کہا کہ رمضان کی چھٹیوں کے بعد مدارس ۱۲ مئی کو کھل رہے ہیں اور اُسی دن سے اس حکم نامے پر عمل شروع ہو گا۔

پچھلے ماہ اقلیتوں کے حقوق کے وزیر دھرم پال سنگھ نے زور دیا تھا کہ تمام مدارس میں قوم پرستی کی تعلیم لازمی دی جائے۔ اس کے علاوہ بی جے پی کے مسلمان ریاستی وزیر دانش آزاد انصاری نے ایک بیان میں کہا کہ حکومت چاہتی ہے کہ مدارس کے تمام طلبہ ’حب الوطنی سے بھرپور‘ ہوں۔

کرناٹک: سرنگاپٹم کی جامعہ مسجد نشانے پر


کرناٹک کے شہر شری رنگا پٹنا (سابقہ سرنگا پٹم) میں ہندتوا شدت پسندوں کی طرف سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ شہر کی جامعہ مسجد ایک ہنومان مندر کو گرا کر بنائی گئی تھی اور اس مسجد کے خلاف تحریک چلائی جائے گی۔

مقامی ہندتوا شدت پسند رشی کمار سوامی کا دعویٰ ہے کہ ٹیپو سلطان نے ہنومان مندر کو مسجد میں تبدیل کیا۔ اور یہ مندر ۱۷۸۴ء میں منہدم کیا گیا تھا۔

رشی کمار سوامی نے اس مسجد کو منہدم کرنے کی تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ جامعہ مسجد کی انتظامیہ نے ضلعی انتظامیہ سے کئی بار اپیل کی ہے کہ ہندو شدت پسندوں سے مسجد کو تحفظ فراہم کیا جائے۔

ہندو قوم پرست کرناٹک میں شری رنگا پٹنا کو اسی طرح اپنے لیے مقدس تصور کرتے ہیں جیسے اتر پردیش میں ایودھیا کو،جہاں بابری مسجد تھی۔

٭٭٭٭٭

Exit mobile version