بنگلہ دیش ایک دوراہے پر!

بنگلہ دیش کے لیے گزشتہ دہائی نہایت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس میں بہت سے اہم و نمایاں واقعات رونما ہوئے۔ ایک طرف تو اس دہائی میں ریاستِ بنگلہ دیش پر بھارتی اثر ور سوخ اور تسلّط میں تیز اور نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ۔ میڈیا سے لے کر مسلّح افواج اور سِوِل انتظامیہ تک، ہر چیز پر بھارتی تسلّط اس حد تک بڑھ گیا کہ اب زیادہ تر چیزیں بھارتی مفادات ہی کے کنٹرول میں ہیں۔ اس دہائی میں معاشرے میں کفر و شرک اور فواحش کے فروغ کے لیے بھی پہلے کی نسبت زیادہ کھلی کھلی اور کسی حد تک جارحانہ پالیسیاں تشکیل دی گئیں۔ اسلام اور مسلمانوں پر نہایت دیدہ دلیری سے حملے کیے گئے۔

لیکن دوسری طرف، اس دہائی میں اسلامی روح بھی بیدار ہوتی نظر آئی۔ اس بیداری کا محرک بنیادی طور پہ مجاہدین کی جانب سے سنت اغتیال کو زندہ کرنا بنا۔ بنگلہ دیش کے مجاہدین نے اپنے محبوب نبی محمد مصطفیﷺ اور دینِ اسلام کے گستاخوں کو قتل کر کے عزت و حمیت اور ناقابلِ تسخیر عزم وشجاعت کی مثال رقم کی۔ ان کے اس عمل کی بدولت ردّعمل کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا ،جو کہ علمائے بنگلہ دیش کی جانب سے بڑے پیمانے پربپا ہونے والی ایک تحریک پر منتج ہوا۔ ابتدا میں حسینہ سرکار نے اس تحریک کو طاقت و قوت کے زور سے کچلنے کی کوشش کی اور بعد میں عیاری و مکّاری اور سیاسی ساز باز کے ذریعے۔ بہر صورت، شجرِ ایمان کی آبیاری کے لیے جو خون بہایا گیا تھا وہ بنگلہ دیش میں سماجی طور پر اسلام کو حیاتِ نو بخش گیا۔ لیکن اس کے باوجود، بنگلہ دیش کے مسلمان تاحال کمزور اور مظلوم ہیں۔

اس کی ایک تازہ مثال بنگلہ دیشی حکومت کی بی جے پی اور اس کی ترجمان نپور شرما کے بھیانک جرائم پر سادھی ہوئی گہری خاموشی ہے۔ جب پوری دنیا کے مسلمانوں نے ان ملعون مشرکوں کی حد سے بڑھی ہوئی حرکتوں کی مذمت کی ، حتیٰ کہ مسلمانوں پر قابض طاغوتی حکومتیں بھی بھارت کے سامنے رسماً اپنے’ غم و غصّے‘ کا اظہار کرنے پر مجبور ہو گئیں، بنگلہ دیش کی حکومت نے کچھ نہیں کہا۔ نہ ہی کچھ کیا۔ اس سے واضح ہے کہ اسلام، اور اسلامی عقائدو شناخت کی بنگلہ دیش میں کیا حیثیت ہے۔

پچھلے تیرہ سال سے بنگلہ دیش پر بھارت کی تابعدار غلام حسینہ کی حکومت ہے۔ سینکڑوں علما، اسلامی تحریکوں کے ارکان اور مجاہدین پابندِ سلاسل ہیں۔اسلام اور شعائرِ اسلام ایک ترتیب اور تدریج کے ساتھ معاشرے سے مٹائے جا رہے ہیں۔مسلمانوں کو قرآنی تعلیمات اور سنّتوں کا محض تذکرہ کرنے پر بھی ہراساں کیا جاتا ہے، اور قید و گرفتار کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔ ہندو تنظیمیں بی جے پی اور حسینہ کی بھر پور سرپرستی میں پورے ملک پر اپنا جال پھیلا رہی ہیں۔

ملک میں منشیات کی بہتات ہے۔ لاکھوں لوگ منشیات کے عادی ہیں۔ کارپوریشنز (کمپنیاں) اور مفاد پرست گروہ معاشرے میں ہر قسم کے فواحش پھیلانے میں سرگرم ہیں۔ بےحیائی پھیل رہی ہے، خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ طلاق اور زنا میں اضافہ ہو رہا ہے۔ نوجوان نسل ڈپریشن اور مایوسی کا شکار ہے۔ اور نوجوانوں کی خودکشی روز کا معمول بنتی جا رہی ہے۔

معاشی اعتبار سے بھی ملک انتہائی نازک مرحلے سے گزر رہا ہے۔تعمیر و ترقی سے متعلق حسینہ کے جھوٹوں کا پول کھلتا جا رہا ہے۔اور جیسے جیسے عالمی معاشی تنزلی کے اثرات پھیل رہے ہیں، ملک کی کرنسی بھی گرتی جا رہی ہے۔ ملک کے بینک بے تحاشا بڑھی ہوئی کرپشن کے سبب انتہائی کمزور اور خستہ حالت کا شکار ہیں۔ بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔چھوٹے کاروبار اور کمپنیاں اس ساری صورتحال میں پِس رہی ہیں جبکہ بڑے سرمایہ دار اپنا مال اور سرمایہ سوئس بینکوں میں ٹھونس ٹھونس کر محفوظ کر رہے ہیں۔ حسینہ اور اس کے لشکریوں کا حقیقت کی دنیا سے ارتباط ختم ہوتا جا رہا ہے۔ لوگ بھارتی بیراجوں سے آنے والے سیلابی ریلوں میں ڈوب کر مر رہے ہیں اور حسینہ بھارت کے ساتھ اپنی دوستی کا جشن منا رہی ہے اور مضحکہ خیز حد تک مہنگے ترقیاتی منصوبے تیار کر رہی ہے۔

سیاسی اعتبار سے سیکولر اسٹیبلِشمنٹ کا سارا زور اس وقت پارلیمانی انتخابات پر ہے، جن کا انعقاد ۲۰۲۳ء کے اختتام پر ہو گا۔گزشتہ سال دسمبر میں امریکہ نے آر اے بی ، حسینہ کے بدنامِ زمانہ قاتل گروہ، کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے کا مجرم ٹھہرایا تھا اور اس پر پابندیاں عائد کی تھیں۔ اس کی وجہ سے سیکولر اپوزیشن میں موجود بہت سے افراد حسینہ کے خلاف الیکشن جیتنے کے خواب دیکھ رہے ہیں یا پھر امریکہ کے زیرِ سر پرستی طاقت و اقتدار کے ہاتھ بدلنے کے منتظر بیٹھے ہیں۔جبکہ امریکہ غالباً ان پابندیوں کو محض حسینہ کو مزید تابعداری پر مجبور کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ امریکہ اپنی خارجہ پالیسی کو ایشیا پر مرکوز کیے ہوئے ہے بالخصوص چین کو محدود کرنے کی خاطر، اور نتیجتاً بنگلہ دیش میں بھی معمول سے زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ حسینہ ہمیشہ سے زیادہ بھارت سے قریب تر ہوتی جا رہی ہے، بھارت پر اس کا انحصار بڑھ رہا ہے، جبکہ ساتھ ساتھ اس کی کوشش ہے کہ چین سے بھی مراعات حاصل کی جائیں، اور اس سب کے دوران امریکہ بھی ناراض نہ ہو۔

لا دین جمہوری انتخابات کی بحث سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، فی الحال بنگلہ دیش کے سیاسی منظر نامے پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ، اور یہ اندازہ کرنے کی کہ آئندہ آنے والے دن کیا لا رہے ہیں۔

حسینہ کی عمر اس وقت چوہتر ۷۴ سال ہے۔ اگرچہ وہ انتہائی مغرور و متکبر اور طاقت و اقتدار کی بھوکی ہے اور سیاست سے اپنی ریٹائرمنٹ کی تاریخ کے بارے میں بارہا جھوٹ بول چکی ہے……اس کے باجود جلد یا بدیر اسے اقتدار کی مسند سے اترنا ہی ہو گا۔ یا اپنی رضامندی سے……یا پھر موت کے اٹل حکم سے جس سے کوئی فرار دستیاب نہیں، یا کسی اور سبب سے۔ مگر حسینہ کی اقتدار سے رخصتی کی صورت میں اس کا کوئی واضح جانشین نظر نہیں آتا۔ اس کا بیٹا، ساجب واجدجوائے نہ صرف بے تحاشا کرپشن کی شہرت رکھتا ہے، بلکہ اسے ناقابلِ بھروسہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہے۔ یہ باتیں درست ہیں یا نہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ ساجب جوائے کو خود اپنی پارٹی کی بھی حمایت حاصل نہیں۔ اس کی بہن، صائمہ واجد اس سے بھی کم متاثر کن ہے۔

پھر ایک معاملہ اندرونی مخالفت کا بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حسینہ کی چھوٹی بہن ریحانہ حسینہ کے بعد اقتدار حاصل کرنے کے عزائم رکھتی ہے۔ ریحانہ کا بیٹا، رضوان صدیق بوبی کو اس کے کزن ساجب جوائے کی نسبت کہیں زیادہ ہوشیار سمجھا جاتا ہے۔ وہ اسلحہ کی انڈسٹری کے ساتھ بھی کافی لین دین رکھتا ہے اور اس کے بارے میں معروف ہے کہ وہ بھارتی انٹیلی جنس کے بہت قریب ہے۔ ریحانہ کی بیٹی ٹیولپ صدیق برٹش لیبر پارٹی کی ممبر ہے اور ہیمپسٹیڈ اور کلبرن کی جانب سے ایم پی ہے۔ مزید حسینہ کا ڈیفنس و سکیورٹی ایڈوائزر طارق احمد صدیقی، جسے ملک کے طاقتور ترین افراد میں سے ایک گردانا جاتا ہے اور جو حسینہ کے ظلم و جبر پر مبنی اقتدار کی مشینری چلانے کے پیچھے بنیادی دماغ کا کردار ادا کر رہا ہے، وہ ریحانہ کے شوہر شفیق احمد صدیقی کا چھوٹا بھائی ہے۔ لہٰذا حسینہ کی موت کی صورت میں اس کے بعد بنگلہ دیش کا تخت ساجب یا اس کی بہن صائمہ کے قبضے میں جاتا دکھائی نہیں دے رہا۔ ان کے برعکس، ریحانہ کے امکانات زیادہ روشن ہیں۔ اقتدار کا خواہشمند و امید وار ایک اور شخص فضل تاپوش ہے، جو حسینہ ہی کا ایک اور رشتہ دار ہے اور فی الحال ڈھاکہ کا مئیر ہے، اس کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اقتدار کی مسند تک پہنچنے کے عزائم رکھتا ہے۔

اس سب کے باوجود درج بالا تمام ناموں میں سے کوئی بھی حسینہ کا مناسب نعم البدل نہیں۔ بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے، حتی کہ عوامی لیگ کی اپنی صفوں میں بھی یہ تصور پایا جاتا ہے کہ حسینہ کی موت کی صورت میں، چاہے وہ قدرتی وجوہات کی بنا پر ہو یا دیگر اسباب کے باعث، ملک میں بڑے پیمانے پر بد امنی اور ہنگامہ پھیل جائے گا۔

جہاں تک حسینہ کے دیگر سیکولر مخالفین کا تعلق ہے، وہ اتنی فکری اور تنظیمی نظم و ضبط اور طاقت کے حامل نہیں ہیں کہ عوامی لیگ کا مقابلہ کر سکیں۔ اس کے بجائے وہ اپنی امیدوں کا محور و مرکز بیرونی نجات دہندوں جیسے امریکہ و یورپ کو بنانے اور ان کی طرف دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مگر یہ بیرونی نجات دہندہ بھی ان کی امیدوں پر پورا اترتے نظر نہیں آتے۔ امریکہ جیسے ممالک اور ریاستوں کے لیے اپنے تمام تر نظریات و عقائد کے باوجود ، اپنے معاشی اور سیاسی مفادات کے حصول کے لیے حسینہ جیسے آمروں کو برداشت کرنا، بلکہ ان کے ساتھ مثبت طور پر تعاون کرنا، معمول کی بات ہے۔ اور جہاں معاملہ اپنا ایجنڈا آگے بڑھانے کا ہو، وہاں امریکہ بے حد آسانی سے جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادی جیسے تصورات کی بولی لگانے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔

بالفرض اگر یہ لوگ (سیکولر اپوزیشن) امریکہ کی مدد سے اقتدار کی مسند تک پہنچنے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں، تو بھی یہ سیکولرائزیشن کی اپنی جارحانہ پالیسی اور عالمی صلیبی صہیونی ہندُتوا محور کی غلامی جاری رکھیں گے۔ حسینہ کی طرح، ان کی بھی پوری کوشش ہو گی کہ حاجی شریعت اللہ کی سرزمین پر اسلام کو ابھرنے اور پھیلنے سے ہر ممکن طور پر روکا جائے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ حسینہ ہو، اس کا کوئی خاندانی جانشین یا سیکولر اپوزیشن……یہ سب افراد کفر کے کیمپ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ گو کہ یہ آپس میں اپنے بہتیرے مسائل اور جھگڑے رکھتے ہیں، لیکن بنیادی طور پہ یہ سب اللہ کے مقابل غیر اللہ کی حکومت قائم کرنے میں جتے ہوئے ہیں۔ یہ سب مغربی سیکولر نظام کے حامی ہیں اور نیو ورلڈ آرڈر کی غلامی و چاکری کرتے رہنے پر بضد۔ خلاصہ یہ ہے کہ مستقبل میں ہمیں دو طرح کے منظر نامے نظر آتے ہیں۔(دیگر منظر نامے بھی ممکن ہیں لیکن وہ یا تو انہی دو کا مرکب ہوں گے یا ان میں سے بنیادی خصوصیات کے حامل ہوں گے):

أ۔

اگلے دو تین سال میں ہمیں امریکہ کی زیر سر پرستی ایک نئی حکومت مل جائے گی، جس میں بھارت کی غلام حسینہ کی جگہ کوئی دوسرا غلام ہو گا جو امریکہ سے وفادار ہو گا۔ اس صورت میں اسلام اور مسلمانوں پر سیکولر یلغار جاری رہے گی۔

 

ب۔

یا بنگلہ دیش آئندہ ۵ سے ۱۰ سالوں میں سیاسی قوت کی تبدیلی دیکھے گا، جو کہ یقیناً بہت ہنگامہ خیز اور متوقع طور پہ جارحانہ انداز میں وقوع پذیر ہو گا۔بنگلہ دیش کی تاریخ گواہ ہے کہ اس قسم کی تبدیلیاں اکثر بہت زیادہ تباہی و بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں۔ حسینہ کے باپ شیخ مجیب کو فوج نے اس کا تختہ الٹتے ہوئے اس کے بیشتر افرادِ خانہ کے ساتھ قتل کیا۔ فوجی آمر ارشاد انتہائی طویل اور جارحانہ احتجاج کے بعد نکالا گیا۔ حسینہ خود بھی ایک طویل سیاسی جھگڑے جس میں ملکی سیاسی نظام تعطل کا شکار رہا اور انتہائی وحشیانہ جارحیت کے بعد اقتدار کی مسند تک پہنچی۔ اور حسینہ کے دور میں جس قدر ظلم و استبداد کا دور دورہ رہا ہے، بھارت کی جانب سے پیدا کیے گئے بی ڈی آر بغاوت جیسے واقعات اور جو قتل و غارت گری ا ور ظلم و تشدد کا بازار خود حسینہ نے گرم کیا ہے، بہت سے لوگ حسینہ کے لیے شدید نفرت اور عداوت کے جذبات رکھتے ہیں۔حسینہ نے نفرت کے بیج بوئے ہیں، وہ امن کاشت کرنے کے خواب نہیں دیکھ سکتی۔

 

اور اس سب کے ساتھ ساتھ، عالمی معیشت کے زیر و زبر ہونے سے معاشی بحران کا آسیب بھی ہے جو سر پر منڈلا رہا ہے۔ بارڈر کے اس پار آسام میں بڑھتی ہوئی ٹینشن بھی ہے ، اسی طرح بھارت اور میانمار میں مسلمانوں کے لیے بڑھتے ہوئے مسائل سب بنگلہ دیش پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔

محسوس ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش واقعتاً ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ گزرنے کا وقت کب آئے گا؟

مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی اسلامی تحریکیں ان میں سے کسی بھی منظر نامے میں کوئی کردار ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔بد قسمتی سے اسلامی تحریکیں اور بیشتر علمائے کرام سیکولر اتحادوں میں ادنیٰ درجے کی سیاسی شراکت داری حاصل کرنے پر ہی مطمئن و قانع ہو جاتے ہیں۔ یا پھر وہ کسی چھوٹے اور ادنی سے منافع کے حصول کے لیے ان سیکولر پارٹیوں کے ساتھ مذاکرات اور ان کی رضا حاصل کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا رہنے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں۔ یہ جانے بغیر کہ اس حکمت عملی کے مقدر میں سوائے ناکامی کے کچھ نہیں۔ یہ دو باہم متعارض و مخالف عقائد اور طریقِ زندگی کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا چاہتے ہیں، یوں کہ کوئی ایک دوسرے پر غالب و حاوی بھی نہ ہو۔حالانکہ ان دو کے درمیان ہم آہنگی یا ایک دوسرے میں جذب ہونے کا عمل نہیں، بلکہ ایک لا متناہی اور ختم نہ ہونے والی جدو جہد ہے۔ لہٰذا ایک دوسرے پر غالب آنے کی کوشش اور جدو جہد اختیاری نہیں بلکہ ناگزیر ہے۔

جتنا لمبا عرصہ بنگلہ دیش پر سیکولر حکمران غالب رہیں گے، اتنی زیادہ عوام الناس میں کرپشن پھیلے گی۔ جتنا زیادہ ان سیکولر و کرپٹ حکمرانوں کو موقع ملے گا، یہ اور ان کے عالمی مالک لوگوں کی فطرت مسخ کریں گے۔ ریاست اور معاشرے میں اسلام کا وجودگھٹتا اور کمزور ہوتا چلا جائے گا۔علما تک کے عقائد میں چپکے چپکے بگاڑ پیدا ہو جائے گا۔یہ سب نوشتۂ دیوار ہے اور اس سے فرار ممکن نہیں۔ یہ بعینہ وہی سب ہے جو مغرب میں عیسائیت کے ساتھ ہوا۔ سیکولرائیزیشن (لادینیت) ان کے عقائد، مذہب، خاندان، فطرت، شناخت، ہر چیز کو کھا گئی یہاں تک کہ آج وہ اپنے جسم اور بدن کے بارے میں بھی مخمصے میں پڑے ہیں کہ آیا وہ مرد ہیں یا عورت۔

اسلامی تحریکوں، علما اور دیندار نوجوان طبقہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ صورتحال کا تجزیہ کریں، پھر بنگلہ دیش کے مخصوص حالات اور اپنی محدود صلاحیتوں کا اندازہ کر کے مناسب اقدامات اٹھائیں۔ سیکولر سیاستدانوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے کا مطلب تو یہی ہے کہ اپنے وطن اور قوم کو کفر کے اندھیرے اور ضلالت میں گرنے اورکھو جانے کے لیے چھوڑ دیا جائے، نعوذ باللہ من ذلک۔

اگر سب ایسا ہی رہا جیسا کہ موجودہ صورتحال ہے،تو بنگلہ دیش میں اسلام کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا جائے گا اور مسلمانوں کی اسلامی شناخت آہستہ آہستہ مٹتی جائے گی۔اس لیے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو ان زنجیروں سے آزاد کرایا جائے، جو کہ نتیجتاً مسلمانانِ بنگلہ دیش کو بھارت اور مغرب کی غلامی سے بھی آزاد کرائے گا۔موجودہ صورتحال میں وقت کا اہم ترین تقاضا یہ ہے کہ ایک ایسا پروگرام و حکمت عملی وضع کی جائے جس کے ذریعے اس سرزمین اور اس کے مسلمان باشندوں پر سیکولر اور کرپٹ سیاستدانوں کا قبضہ اور تسلط ختم کیا جا سکے۔ ایسی کوئی بھی حکمت عملی ممکن ہے کہ بار آور ہونے میں کئی سال کا طویل عرصہ لے لے۔ ممکن ہے کہ اس کوشش میں کئی دہائیاں لگ جائیں، لیکن ضروری ہے کہ پہلا قدم تو اٹھایا جائے۔ سفر چاہے ہزاروں میل کا ہی کیوں نہ ہو، اس کا آغاز پہلے قدم سے ہی ہوتا ہے۔اور اگر ہم ایسا نہیں کرتے، تو آئندہ آنے والی نسلیں جو کفر کی ضلالت و گمراہی میں آنکھیں کھولیں گی، وہ ہمیں ہی قصوروار ٹھہرائیں گی۔اور تاریخ بھی ہمیں کوئی عذر نہیں دے گی۔

اپنی بات کا اختتام میں حکیم الامت، شیخ ڈاکٹر ایمن الظواہری کے الفاظ سے کرتا ہوں، جنہوں نے مسلمانانِ بنگلہ دیش کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

’’بنگلہ دیش میں میرے مسلمان بھائیو! میں آپ کو اس صلیبی یلغار کا مقابلہ کرنے کی دعوت دیتا ہوں، جو آج مغرب نے اور برّصغیر کے بڑے مجرموں نے اسلام، پیغمبرِ اسلام اور عقائدِ اسلام کے خلاف شروع کر رکھی ہے، تاکہ وہ آپ کو ایک ظالم اور کفریہ نظام کا غلام بنا سکیں۔ میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ علمائے حق کے گرد اکٹھے ہو جائیں، ان کی حمایت کریں اور ان کی حفاظت کریں۔

میں بنگلہ دیش کے تمام اکابر علما کو دعوت دیتا ہوں کہ اپنی وہ ذمہ داری ادا کریں جو اسلام نے آپ پر عائد کی ہے۔میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ شریعت کی ہر قسم کے انسانی ساختہ دساتیر اور آئین و قوانین پر حتمی بالادستی کے اصول سے سختی سے چمٹ جائیے، تاکہ شریعت لوگوں کی خواہشات اور تمناؤں پر حاکم ہو، نہ کہ ان کی خواہشات کی تابع، یا کسی بھی دوسری قوت کے ۔ میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ عوام الناس کی قیادت کریں اور معاشرے میں ایک ایسی بھرپور تحریک بپا کر دیں جس کی لہروں کی طغیانی تب تک کم نہ ہو، نہ ہی اس کے جوش و جذبے اور حدت و شدت میں کوئی کمی واقع ہو، یہاں تک کہ سرزمینِ اسلام پر شریعتِ اسلام غالب و حاکم ہو جائے، نہ کہ محکوم و مغلوب۔ یہاں تک کہ اسے سلطہ حاصل ہو جائے، اور وہ کسی دوسری قوت کے تابع نہ رہے، اور یہاں تک کہ وہ رہبر و رہنما بن جائے، نہ کہ دوسری قوتوں کے پیچھے چلنے پر مجبور۔‘‘

٭٭٭٭٭

Exit mobile version