خیالات کا ماہنامچہ | مئی تا جولائی ۲۰۲۲

ذہن میں گزرنے والے چند خیالات:فروری تا جولائی ۲۰۲۲ء

تمام تعریف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے ہے جس نے ہمیں مسلمان بنایا اور اپنے محبوبؐ کا امتی بنایا، صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم! اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے صغیرہ و کبیرہ گناہوں کو اپنے فضلِ محض سے معاف کر دے، اپنے دین کی خدمت کی مبارک محنت کا کام لے لے اور جنت الفردوس میں اپنے حبیب کے قدموں میں جگہ عطا فر ما دے۔ بے شک مانگنے والے کو نہ مانگنا آتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی اہلیت ہم میں پائی جاتی ہے!

نظامِ پاکستان اور تحریکِ طالبان پاکستان


تحریکِ طالبان پاکستان کے حکومتِ پاکستان سے مذاکرات چل رہے ہیں۔ اور تحریکِ طالبان کے بارے میں ان کا موقف جاننے کا بہترین ذریعہ تحریک خود ہے۔ اسی طرح نظامِ پاکستان کن اصولوں، طریقوں اور قوانین پر مشتمل ہے، اس کو بھی ہم بخوبی تحریکِ طالبان پاکستان کے مجاہدین ہی کے مواقف سے جان سکتے ہیں۔

تحریکِ طالبان پاکستان نے اپنے بیان نمبر سترہ (۱۷)، بتاریخ ۲۴ جون ۲۰۲۲ء میں لکھا:

’’تحریکِ طالبان پاکستان کبھی بھی ایسا خود ساختہ آئین نہیں مانتی جس آئین کے ہاں شریعتِ الٰہی اب تک قانون نہیں ہے بلکہ قانون بننے کے لیے نعوذ باللہ انسانی رائے شماری سے گزرنا پڑتا ہے……

……شریعتِ الٰہی کی روشنی میں اپنی دینی و ملی اقدار کے ساتھ آزادی و خود مختاری ہمارا حق ہے، اس حق پر ہم کبھی ڈیل نہیں کریں گے……‘‘

اسی طرح شہید امیر بیت اللہ محسود رحمۃ اللہ علیہ جیسے قائدین اور مفتی ولی الرحمن و مولانا فضل اللہ رحمۃ اللہ علیہم جیسے علمائے کرام کی قیادت میں شروع ہونے والی تحریک کے مجاہدین نے جولائی کے اواخر میں پاکستان کے نامور علمائے کرام سے ملاقات کی، اس ملاقات سے قبل انہوں نے ایک اعلامیہ ؍ خط جاری کیا اور نہایت عزت و احترام کے ساتھ ان علمائے کرام کا استقبال کیا۔ تحریک کی جانب سے جاری کیے گئے خط میں قبائل اور صوبۂ سرحد کی آزاد ریاستوں(مثلاً سوات) کا پاکستان سے الحاق کا مقصد واضح کیا گیا کہ

’’……اس شرط پر پاکستان سے الحاق کیا کہ یہاں اسلامی نظام ہو گا اور اس عہد کے لیے حضرت شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب اور مفتیٔ اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب (رحمہما اللہ) محمد علی جناح کے کہنے پر پشتونوں کی سرزمین کی طرف تشریف لائے…… لیکن بد قسمت سے دہائیاں گزرنے کے باوجود اسلامی نظام کے نفاذ کا عہد و میثاق پورا نہیں ہو سکا، بلکہ اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے آواز اٹھانا افواجِ پاکستان کے یہاں نا قابلِ معافی جرم بن گیا۔‘‘۔

اسی طرح تحریکِ طالبان پاکستان سے وابستہ مجاہد ساتھیوں اور تحریک کے امرا و قائدین نے اس خطے میں قبائل کی آزاد حیثیت اور قبائل کے مرکزِ جہاد ہونے کو واضح کرتے ہوئے لکھا:

’’ قبائل کی آزاد حیثیت نے فرنگی سامراج کو شکست سے دوچار کر دیا اور یہی آزاد قبائل تھے جو کہ سوویت یونین کے الحادی سیلاب کے مقابلے میں مجاہدینِ اسلام کے لیے سب سے بڑی قرارگاہ اور بیس کیمپ بن گئے۔ جس کی برکت سے سرخ ریچھ ٹکڑے ٹکڑے ہو (گیا اور)اس کے شر سے یہ پورا خطہ محفوظ ہوا۔

گیارہ ستمبر کے بعد جب عالمی کفر اور اس کے غلاموں نے امریکی قیادت میں امارتِ اسلامیہ (اعزھا اللہ) پر حملہ کیا تو قبائل کی آزاد حیثیت تھی جس نے مجاہدین اور مہاجرین کو پناہ گاہ فراہم کی اور ان آزاد قبائل سے معاصر مقدس جہاد منظم ہوا، جس کے نیتجے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے شکست کھائی اور امارتِ اسلامیہ (اعزھا اللہ وادامھا) دوبارہ قائم ہوئی۔ قبائل کی اس آزاد دینی اور جہادی حیثیت و اہمیت کو دیکھتے ہوئے عالمی کفر اور اس کے مقامی ایجنٹوں نے حالات سے سُوئے استفادہ کرتے ہوئے قبائل کی آزاد حیثیت کو ختم کر کے اس کو غلام اور غیر اسلامی جمہوری نظام میں ضم کر دیا جو کہ تحریکِ طالبان پاکستان کے مجاہدین (جو اپنے آباؤاجداد کے اصل جانشین ہیں) کو کسی صورت میں اس آزاد حیثیت کو ختم کرنا قابلِ قبول نہیں اور کسی بھی صورت میں اپنی آزاد قبائلی زندگی اور نظام کے مقابلے میں میں غلامی کی زندگی اور نظام کے لیے تیار نہیں ہیں۔‘‘

اسی طرح مقصدِ جہاد کو واضح کرتے ہوئے تحریک کی جانب سے جاری کردہ بیان نمبر پندرہ (۱۵)، بتاریخ ۲ جون ۲۰۲۲ء میں لکھا گیا:

’’ہم اپنے قابلِ قدر قبائلی عمائدین اور پاکستانی قوم پر یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ تحریکِ طالبان پاکستان کے مقدس جہاد کا مقصد اعلائے کلمۃ اللہ یعنی اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام ہے اور بس۔

تحریکِ طالبان پاکستان کے مطالبات میں قبائل کی آزاد حیثیت کو برقرار رکھنا ایک اہم مطالبہ ہے اور اسی آزاد حیثیت کی بدولت تین سپر پاورز کو شکست ہوئی، الحمد للہ۔

۱۔ برطانوی سامراج

۲۔ سوویت یونین

۳۔ عالمی کفر کی معیت میں امریکہ

اس وجہ سے یہ ایک عالمی کفری ایجنڈا تھا کہ قبائل کی آزاد حیثیت ختم ہو جائے اور قبائل میں مغربی جمہوری نظام اور کلچر آ جائے تا کہ قبائل کی جہادی اور دینی اقدار ختم ہو جائیں اور پھر کبھی بھی کفری یلغار کے مقابلے میں یہ جہادی مرکز نہ رہے۔ اسی وجہ سے تحریکِ طالبان پاکستان کے اہداف و مطالبات میں قبائل کی آزاد حیثیت ایک اہم ہدف اور مطالبہ ہے۔ جو حضرات صلحِ حدیبیہ آڑ میں ہمیں صلح کی ترغیب دیتے ہیں ان پر یہ بات واضح ہو کہ صلح حدیبیہ میں مدینہ منورہ کی آزاد حیثیت، مسلمانوں کی مسلح شکل اور ان کا شرعی نظام متاثر نہیں ہوا تھا۔‘‘

قبائل کی آزاد اور خودمختار حیثیت کا مطالبہ اور اس کی جدوجہد جس کے نتیجے میں قبائل پھر سے مرکزِ جہاد بنیں اور یہاں سے اعلائے کلمۃ اللہ کی محنت ہو بہت اچھا موقف ہے۔ یہی موقف ہے جس سے ہمارے خطے میں مظلوموں کی اعانت اور نفاذِ دین کی راہ ہموار ہو گی ۔ مجاہدینِ قبائل و علاقہ سرحد کے یہی مواقف تھے کہ جن کے سبب سیّد احمد شہید و شاہ اسماعیل شہید نے اس علاقے کو اپنا مرکز بنایا تاکہ سکھوں کے غلبے کو توڑ دیا جائے اور انگریزوں کو پورے برِّ صغیر سے بے دخل کر دیا جائے۔ حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ نے بھی قبائل کے جہادی مرکز ہونے کے سبب ’یاغستان‘ میں عسکری قوت جمع کرنے کا لائحہ طے کیا۔ محی الدین محسود المعروف ملا پاوندہ نے جہادی تحریک اپنے وطن میں قبائل کی دینی غیرت اور نفاذِ اسلام کے جذبات کے سمندر میں کھڑی کی۔اور حاجی میرزا علی خان کے جہاد و سیاست کا مقصد یہی نظامِ اسلام کا غلبہ اور انگریزوں ثم انگریزوں کے وارثوں کے نظام کو ختم کرنا تھا جس کے سبب قیامِ پاکستان سے قبل اور بعد از قیامِ پاکستان ۱۹۴۸ء میں حاجی میرزا علی خان کے جہادی جلسوں پر فضائیہ کے جہاز بمباریاں کرتے رہے۔ سوات و مالاکنڈ کے علاقوں میں مولانا صوفی محمد کی تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدیؐ ارباب بہرام خان شہید اور حاجی میرزا علی خان جیسے اسلاف کی تحریک ہی کا حصہ تھی۔ شیخ الہند کے آزاد قبائل میں عسکری قوت جمع کرنے سے آج تک مجاہدینِ قبائل کا یہی مبنی بر حق موقف رہا ہے کہ مجاہدینِ قبائل کسی آئین، کسی حکومت اور کسی فوج اور کسی نظریے اور نظام کی غلامی نہیں کرسکتے، وہ ’آزاد‘ ہیں اور اگر کسی کی غلامی قبول کرتے ہیں تو بس شریعتِ مطہرہ کی اور ان کی جد و جہد کا کوئی مقصد و مطمح ہے تو اعلائے کلمۃ اللہ!

عافیہ صدیقی کی والدہ محترمہ کا سانحۂ وفات!


کم و بیش انیس سال تک امتِ مسلمہ کی غیرت پر نوحہ کناں رہنے کے بعد عافیہ صدیقی کی والدہ عصمت صدیقی صاحبہ جائے فانی سے جائے قرار کی جانب کوچ کر گئیں۔ جانا سب کو ہے، بس دکھ اس بات کا ہے کہ عصمت صدیقی صاحبہ اگلے جہاں میں ہمارے خلاف جرائم کی چارج شیٹ کے ساتھ گئیں۔ نجانے روزِ قیامت وہ کس کس کا گریبان پکڑیں گی اور کس کس سے پوچھیں گی کہ میری بیٹی کے ساتھ جو کچھ بیتا اس کا حساب دو۔

ہم نے نہ صدیقِ اکبر ؓ کی عصمت کی حفاظت کی اور نہ عافیہ کی۔ دنیا و آخرت میں ہمارے لیے باعثِ نجات اگر کچھ ہو سکتا ہے تو دل و جگر کا سرخ لہو، ورنہ قلم کی سیاہی سے اعمال کی سیاہی دھلنے والی نہیں!

اندروں چنگیز سے تاریک تر


جدید دنیا جوں جوں ’جدید‘ ہوتی جارہی ہے، توں توں تنزل کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ یوں تو ٹیکنالوجی کے طفیل ہزار ہا سہولتیں ہماری انگلیوں کے پور کنٹرول کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی، ہم انسانوں سے ’انسانیت‘ چھینتے جا رہے ہیں۔ دنیا کے جدید نظاموں میں جب ہم کوئی بے ضابطگی اور غیر انسانی رویہ دیکھتے ہیں تو اس نظام کے ٹھیکیدار فوراً کہتے ہیں’اوہو…… یہ غلط ہو گیا، یہ نہیں ہونا چاہیے تھا، سسٹم میں کوئی کمی رہ گئی وغیرہ‘۔ ایک اعتبار سے یہ بات ٹھیک ہے کہ کوئی بھی نظام کیوں نہ ہو جب اس کو برتنے والے انسان ہوں گے تو غلطیاں کریں گے۔ لیکن اسی کے ساتھ ایک مستقل حقیقت اور بھی ہے۔ اور وہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا حق و باطل کا میدانِ کارزار ہے۔ حق اور باطل مستقل ایک دوسرے سے لڑتے رہتے ہیں۔ حق کا نظام، اللہ کا بنایا ہوا ہے جسے ہم ’اسلام‘ کہتے ہیں اور باطل کا نظام حکمت و مشیتِ ایزدی سے شیطان کا تشکیل کردہ ہے جو غیر اسلام ہے، یعنی اسلام کے سوا جو کچھ ہے وہ سبھی باطل ہے وہ اسی باطل کے مطابق 10,000 B.C. (دس ہزار سال قبل مسیح) کا کوئی نظام ہو یا آج کا سرمایہ دارانہ جمہوری نظام۔

آج کی دنیا میں ہم جو انٹرنیٹ اور موبائل اور نجانے کیا کیا جدید ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہیں تو اس کے پیچھے آرٹیفشل انٹیلی جنس یعنی مصنوعی ذہانت بڑی حد تک کار فرما ہے۔ ہمیں ٹوئٹر، فیس بک، انسٹا گرام وغیرہ پر کیا دیکھنے کی ضرورت ہے، گوگل کے سرچ رزلٹس میرے لیے کیا ہونے چاہییں سے لے کر خودکار چلنے والی گاڑیوں (self-driving cars)اور ہوائی جہازوں؍ہیلی کاپٹروں تک سبھی آرٹیفیشل انٹیلی جنس ہے۔ اور چونکہ یہ مصنوعی ذہانت اس جدید نظام کے مارے انسانوں نے تشکیل دی ہے فلہٰذا یہ بھی قوم پرست، لسانیت پرست، وطن پرست، رنگ و نسل پرست وغیرہ ہے۔ آف لائن و آن لائن دنیا میں آج کے بچے بچے کے زیرِ استعمال گوگل اور اس کی ایپس کی ’کرم فرمائی‘ دیکھیے کہ حبشی النسل انسانوں کی تصویروں کو اس کے مصنوعی ذہانت کے سسٹم نے ’گوریلاؤں کی تصویریں (Gorillas)قرار دیا۔ مشہور مجلّے ’دی اکانومسٹ‘ کے مطابق پچھلی چند دہائیوں سے ہسپتالوں میں استعمال ہوتا وہ آلہ جو انسان کی انگلی پر چٹکی کی صورت میں لگا دیا جاتا ہے اور پھر وہ دل کی دھڑکن کی رفتار اور خون میں آکسیجن کی مقدار کا اندازہ بتاتا ہے، یہ بھی کورونا کی وبا میں نسل پرست ثابت ہوا کہ اس کو بنانے والے گورے تھے اور گوری رنگت والی جلد کے اعتبار سے ہی یہ آلہ صحیح نتائج دیتا ہے، یوں کالے رنگ والے انسانوں کو یہ آلہ صحت مند بتاتا رہا اور وہ ہسپتالوں سے بیمار ہونے کے باوجود ڈس چارج کیے جاتے رہے۔ مشہور ٹیکنالوجی کمپنی ’اُوبر‘ نے اپنے کتنے ہی کالے کارمندوں (employees) کو اپنے مصنوعی ذہانت کے سسٹم کے سبب نکال دیا۔

پھر دی اکانومسٹ ہی کی رپورٹ کے مطابق تصویر سازی کی صنعت سے وابستہ مشہورِ زمانہ کمپنی ’کوڈک (Kodak)بھی کردار کے اعتبار سے ’کوڈُو‘ تھی کہ اس کا تصویر اتارنے والا سسٹم [کیمرہ و فوٹو فلم (نیگیٹو؍ negative) وغیرہ] کالے لوگوں کی تصویر میں دھبے دکھاتا تھا۔ اور یہ دھبے ہمارے جیسے انسان ’کالوں‘ کے احترام میں نہیں ، چاکلیٹ بنانے والی کمپنیوں کے اعتراض کے کے بعد دور کیے گئے کہ بے چاری چاکلیٹ بھی چاکلیٹی رنگ کی حامل ہے لیکن گوروں کو بھی مرغوب ہے۔

آج کل اسی مصنوعی ذہانت کے ساتھ میٹا ورس کا بھی بڑا چرچا ہے۔ ساری دنیا ورچؤل (virtual) ہوتی جا رہی ہے۔ پچھلے مہینے فیس بک کے میٹا ورس پر جیسے ہی ۴۳ سالہ ایک عورت نے اکاؤنٹ بنایا تو چار مردوں نے اسے ورچؤلی (virtually) گینگ ریپ کا نشانہ بنایا۔

پھر لائقِ صد افسوس مقام تو یہ ہے کہ عبد الرحمٰن سدیس صاحب اسی غیر حقیقی (میٹاورس کی)دنیا میں حجرِ اسود کے مناظر سے خوش ہو رہے ہیں اور اسے ترقیٔ اسلام گردان رہے ہیں، جبکہ حجرِ اسود کو اپنے مبارک ہاتھوں سے نصب کرنے والے محبوب (صلی اللہ علیہ وسلم) کا نظام سدیس صاحب جیسوں کے خطبوں اور حکمِ شریعت سے بعید تر فتووں کے سبب محمد بن سلمان جیسے اعدائے رسول چلا رہے ہیں، بلکہ محض چلا نہیں رہے ان کو اولو الامر قرار دیا جا رہا ہے1۔

ڈھوندنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا

اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلۂ نفع و ضرر کر نہ سکا

جس نے سورج کی شعاعوں کو کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا!

مجھے ۲۰۱۱ء میں وال سٹریٹنیو یارک میں ہونے والے مظاہرات میں ایک سن رسیدہ شخص کا تھاما پلے کارڈ یاد آ رہا ہے۔ اس پر درج تھا ’The system is not broken, it was built this way!‘۔

سِر فروشی ہے ایماں تمہارا


چند روز قبل سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو گردش کرتی ’سنی‘، دیکھنے کے قابل نہ تھی، اس لیے سننی پڑی، ایک منظر کے لیے البتہ آنکھوں پر ہاتھ ہٹا کر دیکھا، اس میں بھی کچھ نہ دیکھنے والی چیز سے سامنا ہو ہی گیا، ناک پر ہاتھ البتہ بدستور رکھے رکھا، اس لیے کہ ویڈیو بدبودار بھی تھی۔ اس ویڈیو میں کئی کردار موجود ہیں۔

یہ ویڈیو ’بزرگ‘ فوجیوں کی ایک محفل ہے ۔ نجانے محفل کہاں جمائی گئی ہے کہ اس میں ایک سکھ بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ فوجیوں کی روایتِ خاص کے مطابق محفل مخلوط ہے۔ ایک برہنہ نما بڑھیا مغنیہ گا رہی ہے…… اے وطن کے سجیلے جوانو!۔ سامنے جرنیل کرنیل بیٹھے ہیں۔ بعض کے ہاتھوں میں جام بھی ہیں۔ انہی مجرمین میں ایک عظیم مجرم بھی کھڑا ہے۔ لکھنے والوں نے اس کے بارے میں لکھا کہ یہ شیخ اسامہ کا امریکیوں کو راز بیچنے والا کرنل ہے۔

نور جہاں سے اس مغنیہ تک، جس جس نے یہ مصرع گایا ہے سچ گایا ہے، بس زبر کی جگہ زیر پڑھیے:

سِر فروشی ہے ایماں تمہارا……

جولین اسانج کو ایکسٹراڈائٹ کرنے کا فیصلہ


جولین اسانج، آسٹریلوی صحافی اور ہیکر جس نے امریکی جرائم کے راز افشا کیے اور ہزاروں دستاویزات نشر کیں، کے متعلق چند ماہ قبل (جنوری ۲۰۲۲ء میں) چند اسی ماہنامچے میں درج کیے تھے کو ایکسٹراڈائٹ یعنی بطورِ مجرم امریکہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر دیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ کہنے کو دنیا کے سب سے بہترین عدالتی نظام، یعنی برطانیہ کی عدلیہ نے کیا ہے۔ یہاں مزید اس سب کے بارے میں کیا لکھا جائے؟

بنے ہیں اہلِ ہَوَس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں

آزادی، مساوات اور ترقی کے دروازے کھلے ہیں، بس اس عالمی نظام پر کسی قسم کی بھی زد نہ آئے!

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا!


خلا میں بھی فوجی کمانڈ رکھنے اور خلا کو بھی مسخر کرنے کا دعویٰ و خواہش رکھنے والے امریکہ کے ادارے ناسا نے چند ہفتے قبل جیمز ویب دوربین سے حاصل کی گئی تصاویر نشر کیں۔ بلا شبہ ارض و سما میں اہلِ بصیرت کے لیے نشانیاں ہیں۔ دیکھنے والوں کو ہر شئے میں اللہ کی قدرتِ کاملہ کے انوارات نظر آتے ہیں، لیکن دیکھنے اور پھر جاننے کے لیے ظاہر کی آنکھ نہیں دل کی آنکھ چاہیے اور دل کی آنکھ کا تعلق نورِ ہدایت سے ہے، جسے اللہ نے ہدایت دے دی تو کوئی اسے گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے اللہ نے گمراہ کر دیا اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا! ناسا اور یورپین و کینیڈین سپیس ایجنسیوں کی مشترکہ کاوش جیمز ویب خلائی دور بین نے صدیوں کے نوری سالوں کا فاصلہ کم کیا، لیکن بیس سال میں دس بلین ڈالر خرچ کر کے جو دور بین بنی اس نے خالق و مخلوق کے درمیان اہلِ ضلالت کا فاصلہ مزید بڑھا دیا۔ ناسا کے ایک ایڈمنسٹریٹر ’بل نیلسن‘ نے خوشی اور حیرت سے کانپتی ہوئی آواز کے ساتھ کہا:

“We’re gonna learn more about ‘who we are?’, ‘what we are?’, ‘what is our existence in this cosmos?’, we are looking back in time almost to the beginning!”

’’ہم مزید جان پائیں گے کہ ’ہم کون ہیں؟‘، ’ہم کیا ہیں؟‘، ’اس کائنات میں ہمارا وجود کیا ہے؟‘، ہم زمانے کو مڑ کر دیکھ رہے ہیں، تقریباً جب یہ (کائنات) شروع ہوئی تب تک کا زمانہ!‘‘

اسی منصوبے سے وابستہ ایک اور خاتون ’جین رِگبی‘ جو جیمز ویب ٹیلی سکوپ منصوبے میں آپریشنز سائنٹسٹ ہے نے جذبات کی شدت میں کہا :

“May be people on a broken world, managing to do something right and see some of the majesty that’s out there.”

’’ٹوٹی ہوئی دنیا کے باسی لوگ، کچھ صحیح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہاں دنیا سے باہر جو عظمت ہے اس کو دیکھنے کے خواہاں ہیں!‘‘

انّا للہ وانّا الیہ راجعون!گمرہی کی کیسی اتھاہ گہرائی ہے۔ جیمز ویب دوربین جو روشنیوں کے سالوں میں سفر کرتی معلومات ہم تک پہنچا رہی ، قاصر ہے کہ ’ہمیں‘ یہ بتائے کہ ہم کون ہیں اور کیا ہیں؟ یہ وحی کے نور کو چھوڑ کے ظاہر کی روشنیوں کے سراب اور گھمن گھیریاں ہیں۔ اگر اس لادین و بے دین سائنس نے کچھ بتا بھی دیا تو یہی بتائے گی کہ کسی حادثے کے نتیجے میں کچھ جراثیم یہاں سے وہاں ہوئے اور خود بخود، کچھ کیمیائی و طبیعاتی و ایٹمی تغیرات برپا ہوئے، یہ دنیا بنی، یہاں گرم زمانہ تھا، پر آئس ایج تھی، ڈائنا سار تھے۔ واقعی، یہ کائناتِ ارض و سما خود بخود بن گئی، بالکل اسی طرح جیسے پہلے ہبل ٹیلی سکوپ خود سے بن کر خلا میں چلی گئی اور جس طرح اب جیمز ویب ٹیلی سکوپ خود سے خلا میں کسی مقام تک پہنچ کر خود سے تصویریں کھینچ کر بھیج رہی ہے، یا للأسف!

عظمت کے متلاشی، پچھلے بیس سال میں دس بلین ڈالر کی اگر صحیح مقامات پر سرمایہ کاری کرتے تو شاید آج مادی دنیا سے مادی غربت کا خاتمہ ہو چکا ہوتا۔ اور کچھ نہیں تو climate change ہی پر خرچ کیا ہوتا تو دنیا آج رہنے کے اعتبار سے بہتر جگہ ہوتی!

اللہ تعالیٰ اپنے دین کے داعیوں اور مجاہدوں کو توفیق دے کہ وہ اللہ کے دین کی دعوت کو ہر اس گوشے تک پہنچا سکیں جہاں ضلالت کا اندھیرا ہے، جس اندھیرے کو جیمز ویب ٹیلی سکوپ دیکھ کر سحر نہیں کر سکتی، آمین یا ربّ العالمین!

٭٭٭٭٭


1 یاد کیجیے علمائے اسلام کے نام کو استعمال کرنے والے اس زمین کے بوجھ کو جس نے کہا تھا کہ ولی عہد محمد بن سلمان اگر روزانہ آدھا گھنٹہ ٹی وی پر آکر پوری قوم کے سامنے بھی زنا کرے تو بھی اس کی اطاعت واجب ہے؟!

Exit mobile version