بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
تمام تعریفیں، بلا شبہ اللہ ہی کے لیے ہیں۔وہ اللہ جو ہمارا ربّ ہے،ہمارا ہے،ہمارا اللہ ہے!اسی نے ہمیں پیدا کیا اور وہی ہمیں موت دیتا ہے اور بلا شبہ اس نے موت و حیات کو اس لیے پیدا کیا کہ وہ دیکھےکہ ہم میں سے کون ہے جو بہترین عمل کرتا ہے۔
مع الأستاذ فاروق، استاد احمد فاروق کے ساتھ چند ملاقاتیں، ان کی چند یادیں، ان کی قیمتی باتیں، ان کی بعض ایسی باتیں جو مجھے خاص طور پر اچھی لگیں۔ حضرتِ استاذ سے آج تک جتنی ملاقاتیں رہیں، سب کا احوال اور سب کی سب تو یاد نہیں، لیکن جتنی ذہن میں تازہ ہیں سب ہی لکھنے کا ارادہ ہے کہ یہ ان شاء اللہ توشۂ آخرت ہوں گی، مجھ سمیت حضرتِ استاذ کے محبّین کے لیے دنیا و آخرت میں فائدہ مند ہوں گی۔اللہ تعالیٰ صحیح بات، صحیح نیت اور صحیح طریقے سے کہنے والوں میں شامل فرما لے۔نوٹ: اس سلسلہ ہائے مضامین میں جہاں بھی ’استاذ‘ کا لفظ آئے گا تو اس سے مراد شہید عالمِ ربّانی استاد احمد فاروق (رحمہ اللہ) ہوں گے۔
۲۰۱۲ء کی آخری ملاقات
الحمد للہ وکفیٰ والصلاۃ والسلام علی أشرف الأنبیاء.
اللّٰھم وفقني کما تحب وترضی والطف بنا في تیسیر کل عسیر فإن تیسیر کل عسیر علیك یسیر، آمین!
یہ محفلِ استاذ ۲۰۱۲ء کے ابتدائی ایام پر مشتمل ہے۔ یہ استاذ کے ساتھ مستقل صحبت کے میرے آخری آخری دن تھے۔
میرے مرشد، ظہیر بھائی کی تشکیل استاذ اور مرکزی القاعدہ کے مشائخ نے کہیں اور کر رکھی تھی اور عموماً اگر مرشد کا ذکر آتا تھا تو سبھی کہتے تھے کہ ظہر بھائی مائزر میں ہیں۔ مائزر شمالی وزیرستان کا ایک قصبہ تھا اور چونکہ وزیرستان کے اندرونی فاصلے کچی سڑکوں اور دشوار گزار دروں، پہاڑوں اور دریاؤں و نالوں سے گزرتے تھے لہٰذا وزیرستان ایک پورا ملک محسوس ہوتا تھا جس کی ایک جگہ سے دوسری جگہ تک کا فاصلہ کئی کئی گھنٹوں پر مشتمل ہوتا۔ جس جگہ ہم تھے، یعنی لِواڑا منڈی کے قریب کا علاقہ یوں مائزر سے دو تین گھنٹے دور تھا۔ لیکن مرشد دراصل مائزر میں نہ تھے۔ مرشد کی تشکیل ۲۰۱۱ء میں داخل پاکستان کر دی گئی تھی اور یہ تشکیل خالص دعوتی و اعلامی تشکیل تھی، یہ تشکیل ظاہراً بھی تھی کہ افراد کو بھیجا گیا تھا، لیکن دعوتی و اعلامی اعتبار سے یہ تشکیل ایک نیا باب بھی تھی، بہرکیف محفلِ ہٰذا کا یہ موضوع نہیں۔
انہی ۲۰۱۲ء کے ایام میں استاذ نے مجھے کہا کہ ’آپ کی تشکیل بھی ہم نے ظہیر بھائی کے ساتھ کر دی ہے‘۔ میں نے پوچھا ’مائزر ؟!‘۔ کہنے لگے ’نیچے!‘۔ میں نے جب نیچے کا ذکر سنا تو مزید حیران ہوا۔ ساتھ ہی میں نے فوراً کچھ جذبات کا اظہار کیا۔ نیچے کی اصطلاح مجاہدین پاکستان کے لیے استعمال کرتے تھے اور قبائل کے علاقوں کو اوپر کہتے تھے۔
میں نے جذبات کے اظہار میں کہا کہ میں نیچے تو نہیں جاؤں گا۔ استاذ نے پوچھا کیوں؟ میں نے کہا کہ اتنے فتنوں والی جگہ ہے، ہم تو وہ چھوڑ کر یہاں آئے تھے، اب دوبار کیسے چلے جائیں؟ اس پر استاذ نے فرمایا کہ فتنوں والی جگہ سے بھاگنا اچھا جذبہ ہے، بلکہ مطلوب ہے۔ لیکن ہم نے کام بھی تو اسی جگہ، اسی معاشرے میں کرنا ہے۔ لہٰذا وہاں جانا ہو گا۔ بات زیادہ نہیں چلی۔ بس استاذ نے راز کی حفاظت کی اس خصوصی موقع پر بھی تاکید کی اور اس وقت مجلس برخاست ہو گئی۔ ہمارے ایک ساتھی، دانیال بھائی نے مجھے اسی طرح کا ایک واقعہ سنایا کہ شہید کمان دار ڈاکٹر ارشد وحید رحمہ اللہ نے کسی موقع پر کہا کہ ’ہمیں ایسے افراد چاہییں جن کے دل قبائل میں اٹکے ہوئے ہوں1، اور یہ ساتھی شہروں میں واپس لوٹنے پر بالکل بھی راضی نہ ہوں (مفتون ہو جانے کے خطرے کے سبب) لیکن جب ہم ان کی تشکیل شہروں کی جانب کریں تو وہ اطاعت میں ایسے ہوں کہ روتے ہوئے جائیں لیکن تشکیلات بہترین طریقے سے گزاریں‘۔
دراصل یوں دو باتیں ہمیں معلوم ہوئیں۔ ایک تو یہی کہ فتنوں والی جگہ سے بھاگنا چاہیے، جیسا کہ علمائے کرام سے سنا ہے کہ یہ حکم و مطلوبِ شریعت ہے۔ لیکن ساتھ ہی دوسرا یہ کہ ایسے کام ہوتے ہیں مثلاً دعوت اور قتال کہ وہ ہم فتنوں سے مامون جگہوں پر بیٹھ کر کرنے سے رہے۔ یہاں مراد یہ بھی نہیں ہے کہ نیچے کا معاشرہ فتنوں سے بھرا ہے تو ہم اس کو جائے فساد کہہ رہے ہیں اور وہاں کے لوگوں کو فاسد و مفسد۔
ہوتا یوں ہے کہ امیر کو مطلوب شرعاً جائز ایک تشکیل سے بعض لوگ بھاگتے ہیں کہ وہاں فتنہ ہے اور اس فتنے کا خیال نہیں کرتے جس کا ابھی شکار ہو چکے ہیں یعنی اطاعتِ امیر نہ کرنے کا فتنہ۔ جیسا کہ راقم نے امرائے جہاد سے سنا ہے کہ ہاں امیر کو اپنی ضرورت اور اپنی حالت ضرور بتا دینی چاہیے، پھر بھی اطاعت ہمیشہ امیر ہی کی کرنی چاہیے کہ امیر کے سامنے صورتِ حال زیادہ واضح ہوتی ہے۔
استاذ نے میری تشکیل بھی اسی طرح اوائلِ ۲۰۱۲ء میں نیچے کر دی۔ جتنا عرصہ میں استاذ کے ساتھ اس اطلاع ملنے سے پہلے اور بعد میں رہا یہ راز فاش نہ ہوا کہ ظہیر بھائی کہاں ہیں اور کس قسم کی تشکیل ہے؟یہاں رازداری کی اہمیت اور ساتھیوں کا رازداری سے کام کرنے کا پہلو معلوم ہوتا ہے۔ رازداری امورِ جہاد میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے۔ جس کسی کا پیٹ ہلکا ہوا، وہ کام بھی گیا اور اس کام کے امکانات بھی اور ایسا ساتھی بھی طویل المدتی کام نہیں کرپاتا۔ اللہ تعالیٰ مجھ سمیت تمام مجاہدین کو رازوں کی حفاظت کی توفیق عطا فرمائے۔
ہماری نیچے کی تشکیل ایک نئے انداز میں، نئے طریقوں سے اعلامی و دعوتی کام کرنے کی تشکیل تھی، جس سے میں اس وقت کما حقہ بلد نہیں تھا۔ یہ دعوتی و اعلامی طریقہ و ٹرینڈ دنیا میں سوشل میڈیا کے ’کامیاب‘ ظہور سے سامنے آیا تھا۔ جس کی واضح مثال عرب انقلابات تھے۔ لہٰذا آج کل کے ’ناکام‘ سوشل میڈیا میں اب تک جو ٹرینڈز اور طریقے دیکھنے میں آ رہے ہیں، انہی کے حوالے سے بہت قلیل، لیکن کسی درجے میں بات استاذ رحمہ اللہ سے ان دنوں ہوئی۔ لیکن یہ میرا ان کے ساتھ اس وقت موضوع نہ تھا۔ یہ وضاحت کر دوں کہ سوشل میڈیا کو میں نے اولاً کامیاب اور ثانیاً ناکام کیوں کہا؟ تو میں کسی بھی طریقے کو مکمل کامیاب یا ناکام نہیں کہہ رہا۔ بلکہ صرف اپنا ایک تجربہ نما بیان کر رہا ہوں۔ عرب انقلابات کے باقاعدہ ظہور پذیر ہونے سے قبل دنیا کا سوشل میڈیا اس طرح کنٹرولڈ نہ تھا جیسا اب ہے۔ اکیسویں صدی کی پہلی دہائی کے اختتام اور دوسری دہائی کے شروع میں bots، algorithms اور مصنوعی ذہانت کا اس پلیٹ فارم پر غلبہ نہ تھا۔ یوں اس فورم یعنی سوشل میڈیا کا عرب انقلابات میں کافی مؤثر استعمال ممکن ہو پایا۔ لیکن آج سوشل میڈیا اپنی مثبت اثر پذیری کے اعتبار سے ناکام ہے کہ یہاں مشینوں اور مشینوں کے بنانے والوں کا غلبہ ہے۔ جہادی اور خالص دینی دعوتی بات کو اس سوشل میڈیا میں بیان کرنا اور ایک کثیر تعداد میں متبعین کو حاصل کرنا، میرے تجربے کے مطابق نا ممکن ہے۔ ہاں یہ ایک آلہ ہے، لیکن اگر اس آلے کی افادیت دس سال پہلےپچاس فیصد تھی تو شاید اب گھٹ کر دس فیصد رہ گئی ہے (یہ سب بات جملۂ معترضہ میں آ گئی)۔
مجھے بھیجنے سے قبل استاذ نے ظہیر بھائی کی خدمت اور ان کی اطاعت کی خاص کر نصیحت کی اور ثانیاً کہا کہ آپ سب ایک ہی مکان میں رہ رہے ہوں گے لہٰذا وہاں پردے کا بہت خیال رکھوں۔ استاذ نے کہا کہ کوشش تو ہم کرتے ہیں کہ حالات و امکانات جس قدر بہتر ہو سکیں مہیا کیے جائیں، لیکن بعض دفعہ ایک بہت ہی تنگ سی جگہ پر زیادہ لوگوں کو رہنا ہوتا ہے۔ محض ساتھی ساتھی (مجرد) ہوں تب تو رہنا آسان ہوتا ہے لیکن کوئی صاحبِ عیال بھی ہو تو پردے کا خیال بہت رکھنا ہوتا ہے خاص کر دل کے پردے کا اور کام و حالات سے فرار بھی ممکن نہیں ہوتا۔ پھر استاذ نے اپنی مثال دی کہ ان کو چند دن شیخ احسن عزیز کے ساتھ یوں رہنا پڑا کہ شیخ بھی تھے اور ان کی اہلیہ بھی اور استاذ نے بھی رہنا تھا اور رہنے کی جگہ کُل ایک ہی کمرہ تھی۔ لہٰذا ان لوگوں نے کمرے کو ایک کپڑے کے پردے سے تقسیم کیا، ایک طرف استاذ ہوتے اور ایک طرف شیخ مع اہلیہ۔ ایسے حالات سے حد درجے بچنا چاہیے، لیکن استاذ نے کہا کہ یوں بھی میں نے کام کیا ہے۔ لہٰذا جہاں جا رہے ہو، وہاں دل و نظر کی حفاظت کا بہت خیال رکھنا۔
آخری آخری دنوں میں استاذ نے میری دعوت کی۔ استاذ کے پاس ایک دیسی مرغا تھا۔ انہوں نے وہ ذبح کروایا، ساتھیوں نے اس کا پلاؤ پکایا۔ یوں یہ دعوت کھلا کر استاذ نے مجھے رخصت کیا اور اس کے بعد کم و بیش چودہ ماہ تک استاذ سے ملنے کا موقع میسر نہیں آیا۔ ہاں کاموں کے سلسلے میں بہت ہی تھوڑی سی خط و کتابت میری براہِ راست ہوئی اور دیگر ہدایات ِ استاذ بذریعہ مرشد ملتی رہیں۔ان شاء اللہ اگلی ایک دو محافلِ استاذ میں، استاذ سے مربوط کاموں کا تذکرہ لکھنے کی کوشش کروں گا۔ابھی کی محفل اپنی بے بضاعتی کے احساس کے ساتھ یہیں روکتا ہوں۔
وما توفیقي إلّا بالله. وآخر دعوانا أن الحمد للہ ربّ العالمین.
وصلی اللہ علی نبینا وقرۃ أعیننا محمد وعلی آلہ وصحبہ ومن تبعھم بإحسان إلی یوم الدین.
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
1 قبائل اس لیے کہا کہ پاکستان میں اس وقت ہجرت و جہاد کی سرزمین اور ہجرت و جہاد کی علامت قبائل اور قبائل میں رہنا تھی۔