ہِندُتْوا کیا ہے ؟ | چوتھی قسط

سَنگھ پریوار (Sangh Parivar)

سنگھ پریوار (تنظیموں یا جماعتوں کا خاندان) ان ہندو قوم پرست تنظیموں کے گروہ کو کہا جاتا ہے جو یا تو آر ایس ایس کے پرچارکوں نے شروع کی ہوں یا آر ایس ایس کے نظریات سے اتفاق رکھتی ہوں۔ زندگی کے ہر شعبے میں یعنی سیاسی،معاشی، سماجی ، تعلیمی، پیشہ وارانہ، مذہبی، لسانی وغیرہ جیسے شعبوں میں سَنگھ پریوار سے منسلک درجنوں تنظیمیں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ خواتین کی مخصوص تنظیمیں، بچوں کی تنظیمیں، بیرون ملک مقیم ہندوستانیوں کے لیے تنظیمیں، تھنک ٹینک ادارے اور میڈیا ادارے بھی سنگھ پریوار سے منسلک ہیں۔اس کے علاوہ قصبوں اور شہروں کی سطح پر سینکڑوں چھوٹے چھوٹے متحارب گروپ بھی غیر رسمی طور پر آر ایس ایس سے منسلک ہیں۔

۱۹۴۷ء میں ہندوستان کی آزادی تک آر ایس ایس پورے ہندوستان میں پھیل چکی تھی اور اس کی سینکڑوں شاخیں پورے ہندوستان میں قائم ہو چکی تھیں۔ اپنی اس طاقت اور اثر و رسوخ کا آر ایس ایس نے تقسیم کے دوران ہندو مسلم فسادات میں کھل کر استعمال کیا۔ لیکن گاندھی کے قتل اور اس کے بعد ترنگا اور بھارتی آئین کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے لگنے والی پابندی کے بعد آر ایس ایس کو احساس ہوا کہ ہندو راشٹر بنانے کے اپنے مشن کو پورا کرنے کے لیے اور اس سے منسلک اہداف کو حاصل کرنے کے لیے اسے زندگی کے ہر شعبے میں نفوذ حاصل کرنے کی ضرورت ہے ۔ لیکن اپنی خفیہ حیثیت برقرار رکھنے کے لیے اور حکومتوں کی گرفت سے بچنے کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ یہ نفوذ آر ایس ایس ہر جگہ اپنے نام سے نہ کرے بلکہ اس کے لیے علیحدہ تنظیمیں کھڑی کی جائیں اور انہیں آزاد حیثیت دی جائے تاکہ اگر کوئی حکومت کسی ایک تنظیم پر ہاتھ ڈالتی ہے تو قانوناً اس کا اثر دوسری تنظیم پر نہ پڑ سکے۔

آزادی سے پہلے تک آر ایس ایس کے پرچارکوں کا کام زیادہ سے زیادہ شاخیں قائم کرنا تھا جبکہ آزادی کے بعد ان میں سے چنیدہ پرچارکوں کو زندگی کے مختلف شعبوں میں تنظیمیں قائم کرنے کی ذمہ داری دی گئی۔ عموماً کسی ایک پرچارک کو کوئی ایک تنظیم کھڑی کرنے کی ذمہ داری دی جاتی تھی۔

آزاد تنظیمی ڈھانچے کے ذریعے زندگی کے ہر شعبے میں نفوذ حاصل کرنے کی حکمت عملی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک دہائی کے اندر اندر سَنگھ پریوار نے اتنی طاقت حاصل کرلی کہ ۱۹۷۵ء میں جب اندرا گاندھی نے ایمرجنسی نافذ کی اور آر ایس ایس پر پابندی لگا دی تو اس سے آر ایس ایس کو کچھ فرق نہیں پڑا۔ سَنگھ پریوار نے حکومت کے خلاف اپنی خفیہ کارروائیاں بڑھا دیں، دو سال کے اندر ہی ایمرجنسی کا خاتمہ ہوگیا اور ساتھ ہی آر ایس ایس پر پابندی کا بھی۔ اور ساتھ ہی سَنگھ پریوار کی حمایت یافتہ جنتا دل کی حکومت قائم ہو گئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ سَنگھ پریوار کی طاقت اور اثر و رسوخ میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور آج یہ ہندوستان کی سب سے طاقتور اور مؤثر ترین تحریک بن چکی ہے اور پوری دنیا میں ہندو قوم پرستی کی ترجمانی کر رہی ہے۔ اور اسی کا سیاسی بازو یعنی بھارتیہ جنتا پارٹی ۲۰۱۴ء سے اب تک ہندوستان پر بھاری اکثریت کے ساتھ حکمرانی کر رہی ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی (Bhartiya Janata Party – BJP)

بھارتیہ جنتا پارٹی یا بی جے پی آر ایس ایس کا سیاسی بازو ہے۔ ۲۰۱۸ء سے یہ ریاستی اور مرکزی اسمبلیوں میں نمائندگی کے اعتبار سے ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔ ۲۰۲۲ء میں بی جے پی کی طرف سے ایک سرکاری بیان کے مطابق بی جے پی کے رجسٹرڈ ارکان کی تعداد اٹھارہ کروڑ ہے، اس طرح یہ اپنے سیاسی کارکنان کی تعداد کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔

سَنگھ پریوار کی سیاسی تاریخ

آزادی کے فوراً بعد خاص طور پر گاندھی کے قتل کے بعد آر ایس ایس پر لگنے والی پابندی کی وجہ سے کریا کرتاؤں میں یہ مانگ بڑھتی جا رہی تھی کہ آر ایس ایس کو سیاست میں حصہ لینا چاہیے تاکہ سیاسی طاقت حاصل کی جائے اور اپنے کام اور نظریات کو مزید آگے پھیلایا جا سکے۔ لیکن آر ایس ایس نے چونکہ ایک سماجی تنظیم کا چہرہ اپنایا ہوا تھا اور کھل کر مرکزی سیاست میں حصہ لینا اس کے خفیہ طریقہ کار کے بھی خلاف تھا اس لیے اُس وقت کے سرسنگھ چالک ایم ایس گولوالکر نے اس رائے کو قبول نہیں کیا۔

بھارتیہ جن سنگھ

اُسی عرصے میں ہندو مہاسبھا کے سابق صدر ’سیام پرشاد مکھرجی‘(Syama Prasad Mookerjee) نے اختلافات کی وجہ سے مہاسبھا سے علیحدگی اختیار کر لی اور آر ایس ایس کے قریب ہو گیا۔ گولوالکر نے اسے ایک نئی سیاسی جماعت کھڑی کرنے کا کہا۔ اس طرح گولواکر کی حمایت کے ساتھ مکھر جی نے ۱۹۵۱ء میں بھارتیہ جَن سَنگھ (Bhartiya Jana Sangh) کی بنیاد رکھی۔ اس جماعت کو تشکیل دینے کا مقصد ہندوؤں کی ’ثقافتی شناخت‘ کی حفاظت اور کانگریس کا ایک ہندو قوم پرستانہ متبادل پیش کرنا تھا۔ آر ایس ایس نے اس پارٹی کو مضبوط کرنے کے لیے اور اسے مستقل اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لیے اپنے بہت سے اہم پرچارک اس جماعت میں شامل کیے اور اہم عہدوں پر فائز کیے۔ اس میں آر ایس ایس کے مشہور وچارک(مفکر) دین دیال اپادھیائے کو پارٹی کا جنرل سیکٹری بنایا گیا جبکہ دو نوجوان پرچارکوں ’اٹل بہاری واجپائی‘ اور ’لال کرشن ایڈوانی‘ کو بھی پارٹی میں شامل کیا گیا۔ ابتدا میں یہ جماعت ہندوستان میں مقبول نہ ہو سکی۔ ۱۹۵۲ء کے لوک سبھا چناؤ میں اسے صرف ۳ نشستیں مل سکیں۔ ۱۹۶۷ء میں دین دیال اپادھیائے پارٹی کا سربراہ بن گیا لیکن ایک ہی سال کے اندر ہارٹ اٹیک سے اس کی موت ہو گئی اور ۱۹۶۸ء میں ’اٹل بہاری واجپائی‘ بھارتیہ جن سنگھ کا سربراہ مقرر ہو گیا۔ اس عرصے میں اس پارٹی کے اہم سیاسی مطالبات مذہب کی بنیاد پر جدا جدا ’پرسنل لاز‘ کی بجائے ’یکساں سول کوڈ‘ کا نفاذ ، گائے ذبح کرنے پر پابندی اور جموں و کشمیر سے آرٹیکل ۳۷۰ کو ختم کر کے اس کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنا رہے۔ پارٹی کی مقبولیت میں آہستہ آہستہ اضافہ ہوا لیکن اندرا گاندھی کے ایمرجنسی نافذ کرنے تک یہ پارٹی ہندوستان میں زیادہ مقبولیت نہ پا سکی۔

جنتا پارٹی

ایمرجنسی کے خاتمے کے بعد ۱۹۷۷ء کے لوک سبھا چناؤ میں جن سنگھ نے کانگریس کے خلاف دیگر پارٹیوں کے ساتھ الحاق کرکے ’جنتا پارٹی‘ بنا لی۔ جنتا پارٹی اس الیکشن میں کامیاب ہوئی اور سابق جن سنگھ کے سربراہ ’اٹل بہاری واجپائی‘ کو وزیر خارجہ جبکہ دوسرے رہنما ’لال کرشن ایڈوانی‘ کو وزیر اطلاعات و نشریات بنا دیا گیا۔

۱۹۷۸ء اور ۱۹۷۹ء میں جنتا پارٹی میں شامل جن سنگھ کے ارکان علی گڑھ اور جمشید پور میں ہونے والے مسلم مخالف فسادات میں شریک ہوئے جس کی وجہ سے جنتا پارٹی میں اختلاف ہو گیا۔ جنتا پارٹی کے دیگر سیکولر اراکین کا مطالبہ تھا کہ جن سنگھ آر ایس ایس سے علیحدگی اختیار کر لے لیکن جن سنگھ نے اس سے انکار کر دیا۔ جس کی وجہ سے جنتا پارٹی تحلیل ہوگئی۔

بھارتیہ جنتا پارٹی

۱۹۸۰ء میں جنتا پارٹی کی تحلیل کے بعد بھارتیہ جن سنگھ کے سابق ارکان نے سنگھ پریوار کے نظریات سے موافقت رکھنے والے کچھ دیگر رہنماؤں کے ساتھ مل کر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی بنیاد رکھی۔ جس کا پہلا صدر ’اٹل بہاری واجپائی‘ کو بنایا گیا۔

۱۹۸۰ء کی دہائی میں ہندو مسلم فسادات میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ابتدا میں جن سنگھ کے برخلاف سیاست میں ایک معتدل چہرہ اپنانے کی کوشش کی۔ لیکن ۱۹۸۴ء کے انتخابات میں اسے صرف دو سیٹیں مل سکیں۔ اس کے بعد واجپائی کو اپنے معتدل نظریات رکھنے کی وجہ سے پارٹی کی صدارت سے ہٹا دیا گیا اور اس کی جگہ ’لال کرشن ایڈوانی‘ کو پارٹی کا نیا صدر بنا دیا گیا۔ ایڈوانی پارٹی کو اپنی اصلیت پر لے آیا اور اس نے ایودھیا میں رام جنم بھومی کا مسئلہ اٹھایا اور نعرہ لگایا کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنایا جائے گا۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ۱۹۸۹ء کے انتخابات میں بی جے پی کو ۸۶ نشستیں حاصل ہوئیں اور یہ حکومتی اتحاد ’نیشنل فرنٹ‘ میں شامل ہوئی جس کا وزیر اعظم وی پی سنگھ بنا۔

۱۹۹۰ء میں ایڈوانی نے ’رتھ یاترا‘ کے نام سے سومنات سے ایودھیا تک رام مندر تحریک کی حمایت میں لاکھوں متشدد قوم پرست ہندو غنڈوں پر مشتمل ایک ریلی کا آغاز کیا۔ یہ ایک متشدد اور مسلمان مخالف ریلی تھی اور اس کے شرکا جس جس علاقے سے گزرتے تھے وہاں مسلمانوں پر حملے کرتے اور ان کی املاک کو نقصان پہنچاتے جاتے تھے۔ بہار ریاست کے وزیر اعلیٰ ’لالو پرشاد یادوْ‘ نے فساد کو روکنے کے لیے ایڈوانی کو نظر بند کر دیا۔ رتھ یاترا جب ایودھیا پہنچی تو بہت سے ہندو قوم پرست غنڈوں نے مسجد پر حملہ کر دیا۔ تین دن تک ان کی سکیورٹی اداروں کے ساتھ لڑائی چلتی رہی جس میں بہت سے غنڈے مارے گئے۔ سَنگھ پریوار سے منسلک تنظیم ویشوا ہندو پریشدنے، جس نے بابری مسجد گرانے کا عَلم اٹھا رکھا تھا، ان اموات کا بدلہ لینے کا اعلان کیا اور سارے اتر پردیش میں مسلمانوں کے خلاف فسادات شروع ہو گئے۔

حکومت کی طرف سے رتھ یاترا میں سنگھ پریوار کا راستہ روکنے اور متشدد ہندو غنڈوں کو گرفتار کرنے کے اقدامات کے جواب میں بی جے پی نے وی پی سنگھ کی حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی، جس کی وجہ سے دوبارہ انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات میں بی جے پی کو پہلے سے بھی زیادہ ۱۲۰ نشستیں ملیں اور اتر پردیش جہاں یہ ساراماجرا پیش آیا وہاں کی ریاست میں بی جے پی کی اپنی حکومت آگئی۔

۶ دسمبر ۱۹۹۲ء کو سَنگھ پریوار نے ایک لاکھ سے زیادہ بھگوا غنڈے جمع کیے اور بابری مسجد پر دھاوا بول دیا اور اسے شہید کر دیا گیا۔ آنے والے ہفتوں میں پورے ملک میں فسادات پھوٹ پڑے جس میں دو ہزار کے قریب لوگ مارے گئے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔

بابری مسجد کو شہید کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کے ۱۹۹۶ء کے انتخابات میں بی جے پی کو لوک سبھا میں ۱۶۱ نشستوں کے ساتھ اکثریت مل گئی اور یہ حکومت میں آگئی۔ اور اٹل بہاری واجپائی نے وزیر اعظم کا حلف اٹھا لیا۔ لیکن لوک سبھا میں سیاسی کشمکش کی وجہ سے یہ حکومت ۱۳ دن میں ہی ختم ہو گئی۔

۱۹۹۶ء میں دوبارہ انتخابات کے نتیجے میں ایک اتحادی حکومت بنی لیکن وہ بھی زیادہ عرصہ نہ چل سکی۔ ۱۹۹۸ء میں بی جے پی نے انتخابات کے لیے نیا اتحاد ’نیشنل ڈیموکریٹک الائنس‘ (این ڈی اے) بنایا۔ این ڈی اے نے انتخابات میں اکثریت حاصل کی اور اٹل بہاری واجپائی پھر وزیر اعظم بن گیا۔

۱۹۹۹ء میں ایک اتحادی جماعت کے علیحدہ ہونے سے این ڈی اے اتحاد ٹوٹ گیا اور دوبارہ انتخابات کرانے پڑے۔ لیکن اس دفعہ این ڈی اے کو پہلے سے بھی کہیں زیادہ نشستیں حاصل ہوئیں اور اسے لوک سبھا میں ۳۰۳ نشستوں کے ساتھ سادہ اکثریت حاصل ہو گئی۔ اس میں بی جے پی کو اپنی تاریخ کی سب سے زیادہ ۱۸۳ نشستیں ملیں۔ واجپائی تیسری دفعہ وزیر اعظم بنا اور ایڈوانی اس کا نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ بنا۔ اس حکومت نے اپنے پانچ سال پورے کیے۔اندرا گاندھی کے ایمرجنسی نافذ کرنے کے بعد سے پچیس سال تک سیاسی انتشار کے بعد یہ پہلی حکومت تھی جس نے اپنی مدت پوری کی۔ اور ہندوستانی سیاسی منظر نامہ دو نظریات سیکولرازم اور ہندو قوم پرستی تک محدود ہو گیا۔

اسی حکومت کے دوران فروری ۲۰۰۲ء میں گجرات میں مسلم کش فسادات ہوئے۔ یہ فسادات بی جے پی کی طرف سے گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کے اشارے پر کیے گئے اور فساد کرنے والےبھگوا غنڈوں کو ریاستی پولیس کی مکمل حمایت اور تعاون حاصل تھا۔ ان فسادات میں دو ہزار کے قریب مسلمان شہید ہوئے جب کہ ڈیڑھ لاکھ کے قریب مسلمانوں کو اپنے گھر بار چھوڑ کر جانا پڑا۔

۲۰۰۴ء میں دوبارہ انتخابات ہوئے اور بی جے پی کو شکست ہوئی اس کے بعد اگلے دس سال تک بی جے پی اپوزیشن میں رہی۔ ان دس سالوں میں سَنگھ پریوار نے اپنی کمزوریوں کو دور کرنے پر توجہ دی اور اونچی ذات کے ہندوؤں کے ساتھ ساتھ دلِتوں کو بھی ہندو قوم پرستی کے نعرے پر اپنے ساتھ جوڑنے پر محنت کی۔ اس کے علاوہ اس عرصے میں سنگھ پریوار نے دیہی علاقوں اور جنوبی ریاستوں میں بھی اپنی توجہ کو بڑھایا۔

اس دس سالہ محنت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ۲۰۱۴ء کے انتخابات میں این ڈی اے کو لوک سبھا کی ۵۴۳ نشستوں میں سے ۳۳۶ نشستیں ملیں جن میں سے ۲۸۲ نشستیں بی جے پی کی تھیں۔ ۱۹۸۴ء کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ ایک اکیلی پارٹی کو لوک سبھا میں سادہ اکثریت حاصل ہو گئی ہو۔ اور یہ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ کسی سیاسی پارٹی نے خالص اپنی طاقت کے بل بوتے پر لوک سبھا میں اکثریت حاصل کی ہو۔

۲۰۱۹ء کے انتخابات میں بی جے پی نے پھر فتح حاصل کی اور اُس وقت سے تا دم تحریر بی جے پی ہندوستان پر حکومت کر رہی ہے۔

بی جے پی کے سیاسی اہداف

بی جے پی نے اپنے قیام کے بعد سے ہندوقوم پرستی کو ہی اپنی سیاست کا بنیادی موضوع بنائے رکھا۔ اور اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے درج ذیل اہداف رکھے۔

  1. بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر،

  2. کاشی میں گیان واپی مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر،

  3. مَتُھرا میں شاہی عید گاہ مسجد کو ختم کر کے اس جگہ کو ساتھ موجود مندر کا حصہ بنانا،

  4. گائے ذبح کرنے پر پابندی،

  5. آرٹیکل ۳۷۰ ختم کر کے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ،

  6. ہندوستان کی تاریخ کو ہندُتوا نظریہ کے مطابق دوبارہ تحریر کرنا اور اس مقصد کے لیے تدریسی نصاب میں بھی تبدیلی لانا،

  7. ترنگا کی جگہ بھگوا دھواج کو بھارت کا قومی پرچم بنانا۔

ان اہداف میں بابری مسجد کو شہید کرنے کاہدف ۹۰ ء کی دہائی کے آغاز میں ہی حاصل کر لیا گیا تھا۔ ۲۰۱۹ء میں بی جے پی کی حکومت دوبارہ آنے پر آرٹیکل ۳۷۰ بھی ختم کر دیا گیا۔ اب متھرا اور کاشی کی مساجد کے خلاف پوری سرگرمی سے کام جاری ہے۔ جبکہ مختلف ریاستوں میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے لیے قانون سازی بھی کی جا رہی ہے۔ ہندوستان کی تاریخ کو ہندتوا نظریے کے مطابق ڈھالنے کے لیے ۲۰۱۴ء کے بعد سے سرکاری سطح پر کام جاری ہے۔ ۲۰۲۲ء میں تدریسی نصاب میں اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں جس میں سے ایک یہ ہے کہ مغل دور کی تاریخ کو تدریسی نصاب سے ختم کر دیا گیا ہے۔ گائے ذبح کرنے پر سرکاری سطح پر اگرچہ تاحال پابندی ایک آدھ ریاست میں ہی لگ سکی ہے، لیکن غیر سرکاری طور پر پورے ملک میں ہی لگ چکی ہے۔ جہاں کبھی بھی علم ہوتا ہے کہ کسی نے گائے ذبح کی ہے وہاں بھگوا دہشت گرد پہنچ کر ذبح کرنے میں ملوث لوگوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ جبکہ بھگوا دھواج کو قومی پرچم بنانے کے لیے ماحول سازگار کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔

یہ سب اہداف بالاصل سَنگھ پریوار کے بنیادی مقصد یعنی ہندوستان کو ایک ہندو راشٹر بنانے کے حصول میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔

بی جے پی کی کامیابی کی وجوہات

مذہبی کارڈ کا استعمال

ہندوستان میں ۸۰ فیصد آبادی ہندو ہے جب کہ باقی ۲۰ فیصد آبادی دیگر مذاہب پر مشتمل ہے۔ لیکن یہ ہندو آبادی ذات پات اور طبقات میں بری طرح تقسیم ہے۔ ہر ذات اور طبقے کے حقوق کے تحفظ کے لیے جدا جدا پارٹیاں موجود رہی ہیں جن کی وفاداریاں بھی مختلف بڑی سیاسی پارٹیوں میں تقسیم رہی ہیں۔ بی جے پی کی کامیابی یہ رہی ہے کہ اس نے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ہندوؤں میں ذات پات اور طبقات کی تفریق کو مٹایا اور سب کو ہندو قوم پرستی اور ہندُتوا کے نظریے پر متحد کر دیا۔ بی جے پی نے ’۸۰ فیصد بمقابلہ ۲۰ فیصد‘، ’اکثریت کے حقوق کا تحفظ‘، ’ہندو راشٹر‘ اور ’رام راج‘ جیسے نعرے لگا کر ہر طبقے کے ہندوؤں کو اپنے ساتھ جوڑا۔ حتیٰ کہ ہندوؤں میں سب سے پسا ہوا اور سب سے نچلا طبقہ ’دلِت‘ بھی اپنے اوپر ہونے والے سارے مظالم کے باوجود خوشی خوشی یہ کہتے ہوئے بی جے پی کو ووٹ دینے جاتا ہے کہ ’جو رام کو لائیں گے ہم انہیں لائیں گے‘۔

مسلم دشمنی

ہندو اکثریت کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کو بھڑکانا بی جے پی کی فتح کا سب سے بڑا سبب ہے۔ بی جے پی اپنے قیام کے بعد پہلی اتحادی حکومت تب بنا پائی جب اس نے ’رام جنم بھومی تحریک‘ شروع کی اور بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کا نعرہ لگایا۔

۱۹۹۰ء میں ایڈوانی کی ’رتھ یاترا‘ نے بی جے پی کی کایا پلٹ دی۔ اس رتھ یاترا کے نتیجے میں بابری مسجد شہید کر دی گئی جس کے بدلے میں فوراً ہی اتر پردیش کی ریاست میں بی جے پی کی حکومت آگئی اور چند سالوں کے اندر بی جے پی نے اکثریت حاصل کر کے مرکز میں حکومت بنا لی۔

۲۰۰۲ء میں گجرات فسادات کے نتیجے میں نریندر مودی نے ہندوؤں میں ایک ہیرو کی حیثیت اختیار کر لی۔ اور مسلم دشمنی کی اسی شہرت کو مودی نے ۲۰۱۴ء کے انتخابات میں استعمال کیا اور تاریخی کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد بھی چاہے ۲۰۱۹ء کے عام انتخابات ہوں یا ۲۰۲۲ء کے ریاستی انتخابات، مسلم دشمنی اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کے جذبات بڑھکانا ہی بی جے پی کی کامیابی کا سب سے بڑا عنصر رہا۔ مودی کے بعد اب اتر پردیش کا وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ بھی اپنی مسلم دشمنی کی وجہ سے شہرت کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ جس طرح گجرات فسادات نے مودی کو ہیرو بنایا، اسی طرح اتر پردیش میں مسلم مخالف اقدامات یوگی ادتیہ ناتھ کو ہیرو بنا رہے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ شاید مودی کے بعد بی جے پی میں سب سے طاقتور ترین شخصیت یوگی ادتیہ ناتھ ہی ہے۔

گھر گھر رسائی

بی جے پی کی کامیابی کی ایک اور اہم ترین وجہ اس کا رابطہ کاری کا نظام ہے۔ بی جے پی ایک اکیلی جماعت نہیں ہے بلکہ ایک بڑے نظام یعنی سنگھ پریوار کا حصہ ہے جس کی سربراہی آر ایس ایس کرتی ہے۔ آر ایس ایس کے پرچارک نہ تو شادی کرتے ہیں نہ ہی کوئی روزی کماتے ہیں بلکہ اپنی پوری زندگی آر ایس ایس کے کاموں کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔ انتخابات کے دنوں میں بھی بی جے پی کی کامیابی کے لیے سب سے زیادہ یہی پرچارک متحرک ہوتے ہیں اور آر ایس ایس کے تمام کریاکرتاؤں اور سیوکوں کو متحرک رکھتے ہیں۔ اور سنگھ پریوار کی دیگر تنظیمیں چونکہ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھتی ہیں اس لیے یہ تنظیمیں بھی انتخابات کے دنوں میں ہر طبقے تک پہنچنے میں بی جے پی کی مددگار ہوتی ہیں۔ اسی طرح آر ایس ایس کا شاخوں کا نظام اس طرح سے منظم ہے کہ اس کے کریاکرتا اور سوائم سیوک تقریباً ہر ہر ہندو کے گھر تک براہ راست رسائی رکھتے ہیں۔ اس سارے نیٹ ورک کی مدد سے جہاں سَنگھ پریوار ہندوؤں کے تمام طبقات کو ہندو قوم پرستی پر اور اسلام دشمنی پر اکٹھا کرتے ہیں وہیں غریب اور نچلے طبقے کے ہندوؤں میں انتخابات سے کچھ پہلے مفت راشن اور پیسے تقسیم کر کے بھی ان کے ووٹ کو یقینی بنایا جاتا ہے۔

بی جے پی کی مضبوطی اور طاقت کی وجوہات

آر ایس ایس اور سنگھ پریوار سے وابستگی بی جے پی کی طاقت اور مضبوطی کی بنیادی وجہ ہے۔ کانگرس کے برخلاف یہ پوری طرح خودمختار سیاسی جماعت نہیں ہے بلکہ ایک نظریے اور مقصد کی بنیاد پر ایک خاندان کا حصہ ہے۔ اسی لیے جہاں دیگر سیاسی جماعتوں میں دھڑے بندیاں ہوتی ہیں اور جماعتیں ٹوٹ کر کئی جماعتوں میں تقسیم ہو جایا کرتی ہیں وہاں بی جے پی کے قیام سے آج تک اس جماعت میں کوئی دھڑے بندی یا انتشار دیکھنے میں نہیں آیا۔ اس لیے کہ بی جے پی کا وجود ایک نقطے پر مرکوز ہے اور وہ ہے آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کے ساتھ وفاداری۔ جو اس سے جڑا رہے گا وہ دھڑے بندی نہیں کرے گا، اور جو اس سے ہٹے گا وہ ناصرف اپنی حیثیت اور مقام کھو دے گا بلکہ سنگھ پریوار سے دشمنی پال کر وہ اپنی جان و مال کو بھی خطرے میں ڈال دے گا۔

ویشوا ہندو پریشد (Vishva Hindu Parishad)

ویشوا ہندو پریشد (World Hindu Council) یا ’وی ایچ پی‘ (VHP) سَنگھ پریوار سے منسلک ایک متشدد اور جارحیت پسندتنظیم ہے۔ اس تنظیم کے قیام سے اب تک اقلیتوں کے خلاف فسادات میں سَنگھ پریوار کی طرف سے اسی تنظیم کے غنڈے تشدد میں ملوث ہوتے ہیں۔ چاہے وہ بابری مسجد کی شہادت ہو یا گجرات فسادات اور اس طرح کے دیگر فسادات یا مسلمانوں کی ہجوم زنی کا معاملہ ہو، بنیادی کردار اسی تنظیم اور اس تنظیم کے یوتھ ونگ بجرنگ دل کے غنڈوں کا ہوتا ہے۔

وی ایچ پی، بدھ، جین، سکھ اور مقامی قبائلی مذاہب کو ہندو برادری کا حصہ تصور کرتی ہے۔ وی ایچ پی کا قیام ۲۹ اگست ۱۹۶۴ء کو بمبئی میں ایک کانفرنس میں ہوا۔ اس کانفرنس کی میزبانی آر ایس ایس کا سربراہ ایم ایس گولوالکر کر رہا تھا۔ ہندو، سکھ، بدھ اور جین مذاہب کے بہت سے نمائندوں کے علاوہ تبت کے بدھوں کا مشہور مذہبی پیشوا ’دلائی لامہ‘ بھی اس اجلاس میں موجوتھا۔ اس لیے دلائی لامہ کا شمار ویشوا ہندو پریشد کے بانی ارکان میں ہوتا ہے۔ گولوالکر نے اس اجلاس میں کہا کہ ہندوستان کے تمام دھارمک مذاہب کو متحد ہونے کی ضرورت ہے اور لفظ ’ہندو‘ کا اطلاق ان سب دھارمک مذاہب پر ہوتا ہے۔ آر ایس ایس کے ایک پرچارک ’ایس ایس آپتے‘ نے اپنی تقریر میں کہا:

’’دنیا عیسائیوں، اسلام اور اشتراکیوں کے درمیان تقسیم ہے۔ یہ سب ہندو سماج کو ایک اچھی اور مزیدار خوراک سمجھتے ہیں، جس پر یہ دعوتیں اڑاتے ہیں اور خود کو موٹا کرتے ہیں۔ تصادم کے اس دور میں اب ضروری ہو گیا ہے کہ ’ہندو دنیا‘ کے بارے میں سوچا جائے اور اسے منظم کیا جائے تاکہ اسے ان تینوں کے شر سے محفوظ کیا جا سکے۔‘‘1

اس کانفرنس کے شرکا اور بانی ارکان میں ہندوؤں کا روحانی رہنما چِن مایانند سرَسوَتی (Chinmayananda Sarasvati) بھی موجود تھا ۔ دیگر نامور بانی رہنماؤں میں مشہور سکھ رہنما ’ماسٹر تارا سنگھ‘2 نامدھاری سکھ3 رہنما ’ست گورو جگجیت سنگھ‘ اور کانگرس کا مشہور رہنما راما سوامی لیئر بھی شامل تھے۔

اس کانفرنس میں تنظیم کا نام ’ویشوا ہندو پریشد‘ منتخب ہوا، چِن مایانند سرسوتی کو اس کا بانی صدر بنایا گیا، جبکہ ایس ایس آپتے کو اس کا بانی جنرل سیکریٹری منتخب کیا گیا۔ اس تنظیم کے باقاعدہ اعلان کے لیے ۱۹۶۶ء میں الہ آباد میں کمبھ کے میلے میں ایک عالمی اجتماع منعقد کرنا طے کیا گیا۔

یہ تنظیم ہندو گوروؤں کےمذہبی اجتماع ’دھرم سنسد‘ سے براہ راست رہنمائی حاصل کرتی ہے۔ ان ’دھرم سنسدوں‘ میں وی ایچ پی کے لیے ہدایات اور آگے کی حکمت عملی وضع کی جاتی ہے۔ دسمبر ۲۰۲۱ء میں ہری دوار میں منعقد ہونے والے ’دھرم سنسد‘ میں مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے اور ان کی نسل کشی کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

وی ایچ پی کا دعویٰ ہے کہ اس کے ارکان کی تعداد ۶۸ لاکھ سے زیادہ ہے۔ جبکہ ہندوستان سے باہر ۲۹ ممالک میں اس کی شاخیں پائی جاتی ہیں۔

مقصد اور بنیادی کام

وی ایچ پی سرکاری طور اپنا مقصد ’’ہندو سماج کو منظم اور مستحکم کرنا اور ہندو دھرم کی خدمت اور حفاظت کرنا‘‘ بتاتی ہے۔ اس کے علاوہ وی ایچ پی پوری دنیا میں ہندوؤں کا اور ان کے حقوق کا تحفظ بھی اپنا مقصد بتاتی ہے۔ اس تنظیم کے بنیادی کام اور اہداف درج ذیل ہیں:

تبدیلیٔ مذہب سے متعلق اقدامات

وی ایچ پی کے ارکان ایسے ہندوؤں کی نشاندہی کرنے میں متحرک رہتے ہیں جن کے متعلق یہ خدشہ ہو کہ یہ مذہب تبدیل کر سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے اس تنظیم نے خصوصی تربیت یافتہ ارکان پر مشتمل ایک ٹیم بنارکھی ہے جسے ’دھرم پرشار وبھاگ‘ یعنی مذہبی تبلیغ کا یونٹ کہتے ہیں۔ اس یونٹ کا کام ایسے لوگوں کی نشاندہی کرنا ہے جن کے متعلق گمان ہو کہ وہ مسلمان یا عیسائی ہو جائیں گے۔ یہ یونٹ پہلے ان لوگوں کو اپنا مذہب نہ چھوڑنے پر قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اگر قائل نہ ہوں تو زور زبردستی اور دھونس ودھمکی سے بھی اجتناب نہیں کرتا۔ ہندو معاشرے میں چونکہ دلِت بہت زیادہ پستے ہیں اِسی لیے سب سے زیادہ وہی مذہب تبدیل کرنے کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ دلِتوں کے حوالے سے اس یونٹ کا طریقہ یہ ہے کہ اگر وہ اپنا مذہب چھوڑنے پر بضد رہیں تو انہیں بدھ مت قبول کرنے کی طرف لایا جائے، لیکن کسی بھی طور پر انہیں مسلمان یا عیسائی نہ ہونے دیا جائے۔

اس کے علاوہ وی ایچ پی ’’گھر واپسی‘‘ کے نام سے اُن لوگوں کو دوبارہ اپنے پرانے مذہب پر لانے کی مستقل تحریک چلا رہی ہے جنہوں نے اپنا دھارمک مذہب چھوڑ کر اسلام یا عیسائیت قبول کر لی ہے۔ اس میں واپس دھارمک مذہب قبول کرنے والوں کی زیادہ بڑی تعداد عیسائیوں کی ہوتی ہے لیکن ایک قلیل تعداد مسلمانوں کی بھی ہوتی ہے۔ اس حوالے سے یہ تنظیم اپنی کارکردگی کی باقاعدہ رپورٹ بھی نشر کرتی ہے۔ وی ایچ پی کے دعووں کے مطابق ۱۹۸۲ء سے ۱۹۸۵ء تک اس نے ۶۶ ہزار افراد کو واپس ہندو بنایا۔ اسی طرح ۲۰۰۲ء میں ۵۰۰۰ افراد کو دوبارہ ہندو بنایا۔ جبکہ ۲۰۰۴ء میں ۱۲،۸۵۷ افراد کو دوبارہ ہندو بنایا جن میں ۳،۷۲۷ مسلمان جبکہ ۹،۱۳۰ عیسائی تھے۔

خاص ہندوؤں کے تبدیلیٔ مذہب کو روکنے کے لیے اور ’’گھر واپسی‘‘ مہم کے لیے وی ایچ پی نے کچھ ذیلی تنظیمیں بھی بنا رکھی ہیں۔ ان ذیلی تنظیموں میں سب سے زیادہ متحرک ’’ہندو جگرن منچ‘‘ ہے، جبکہ مختلف ریاستوں میں چھوٹی سطح پر اس سے ملتے جلتے ناموں کی مزید ذیلی تنظیمیں بھی موجود ہیں۔ ۲۰۱۴ء میں بی جے پی کے حکومت آنے کے بعد سے یہ ساری تنظیمیں ’’گھر واپسی‘‘ مہم میں بہت متحرک ہیں۔

مساجد کو مندر بنانے کی تحریک

اپنے قیام کے فوراً بعد سے ہی ویشوا ہندو پریشد مساجد گرانے اور انہیں مندر بنانے کی تحریک چلاتی رہی ہے۔ اس حوالے سے بابری مسجد کو شہید کرنے میں اس کا بنیادی کردار رہا ہے۔ ۱۹۸۴ ء میں وی ایچ پی نے ’رام جنم بھومی‘ تحریک شروع کی اور دعویٰ کیا کہ سولہویں صدی عیسوی میں مغل بادشاہ بابر نے رام جنم بھومی پر بنے مندر کو گرا کر وہاں بابری مسجد بنائی تھی۔ اسی سلسلے میں ۱۹۹۰ء میں ایڈوانی نے جو رتھ یاترا شروع کی اس میں وی ایچ پی کے غنڈے بڑی تعداد میں شامل تھے جنہوں نے ہر طرف مسلمانوں کے خلاف فسادات مچائے۔ اور ۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کو شہید کرنے میں بڑی تعداد وی ایچ پی کے غنڈوں کی ہی تھی۔

بابری مسجد کو شہید کرنے کے بعد وہیں کھڑے ہو کر وی ایچ پی کے غنڈوں نے نعرہ لگایا تھا، ’’یہ تو ابھی جھاکی ہے کاشی مَتُھرا باقی ہے‘‘۔ اس سے مراد کاشی (بنارس) میں گیان واپی مسجدکو مندر میں تبدیل کرنا اور مَتُھرا (اُتر پردیش) میں شاہی عید گاہ مسجد کو ختم کر کے مندر کا حصہ بنانا شامل ہے۔

۲۰۱۹ء میں بی جے پی کے دوبارہ حکومت میں آنے کے بعد سے کاشی اور مَتُھرا مساجد کو مندر بنانے کی تحریک نے زور پکڑ لیا ہے۔ اس حوالے سے وی ایچ پی قانون کا سہارہ بھی لے رہی ہے اور عوامی سطح پر بھی ماحول سازگار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

بجرنگ دل (Bajrang Dal)

بجرنگ دل (ہنومان4 کا دستہ) ویشوا ہندو پریشد کا ’یوتھ ونگ‘ ہے۔ اس کا قیام اُتر پردیش میں ہوا اس کے بعد یہ باقی ہندوستان میں بھی پھیل گئی۔ اس کی بھی آر ایس ایس کی طرح کی شاخیں ہیں جسے ’اکھاڑہ‘ کہا جاتا ہے۔ بجرنگ دل کے پورے ہندوستان میں ۲۵۰۰ اکھاڑے ہیں۔

بجرنگ دل کا قیام اکتوبر ۱۹۸۴ء میں عمل میں آیا جب ویشوا ہندو پریشد رام جنم بھومی تحریک چلا رہی تھی۔ اس تحریک کے دوران وی ایچ پی روزانہ کی بنیاد پر جلوس نکال رہی تھی جس میں ہندوؤں کو جوش دلانے کے لیے فرقہ وارانہ اور اشتعال انگیز تقاریر کی جاتی تھیں۔ ان اشتعال انگیز تقاریر کی وجہ سے فرقہ وارانہ تناؤ بڑھ رہا تھا اور فسادات پھوٹ پڑنے کا اندیشہ موجود تھا۔ اس اندیشے کے پیش نظر وشوا ہندو پریشد نے اس یوتھ ونگ کی بنیاد رکھی، جو ان جلوسوں کی حفاظت کرے ۔ آنے والے سالوں میں اقلیتوں کے خلاف غنڈہ گردی اس تنظیم کا مستقل کام بن گیا۔

بجرنگ دل کے اہداف و مقاصد

بجرنگ دل اپنا مقصد ’’ ہندوستان کی ’ہندو‘ شناخت کو اشتراکیت، مسلمانوں کی بڑھتی آبادی اور عیسائیوں کے تبدیلیٔ مذہب کے مشن کے خطرات سے حفاظت‘‘ بتاتی ہے۔ اس کے علاوہ بجرنگ دل کے اہداف درج ذیل ہیں۔

فسادات میں کردار

ویشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے قیام کے بعد سے ہندوستان میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف ہونے والے تمام فسادات میں یہی تنظیمیں ملوث رہتی ہیں۔ اقلیتوں کے خلاف شروع کیے گئے فسادات اور ان کے خلاف شروع کی گئی مہمات کی فہرست بہت طویل ہے۔ ۲۰۱۹ء میں بی جے پی کے دوبارہ حکومت میں آنے کے بعد تقریباً ہر ہفتے ہی کوئی نہ کوئی نیا سانحہ پیش آتا ہے یا ان تنظیموں کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف کوئی نئی مہم شروع ہو جاتی ہے۔ ان میں سے کچھ چنیدہ اور اہم واقعات کا ذیل میں ذکر کیا جا رہا ہے۔

سوشل میڈیا پر کام

بجرنگ دل کے کارندے سوشل میڈیا پر بھی بہت متحرک ہیں۔ فیس بک کی سکیورٹی ٹیم نے اپنی ایک رپورٹ میں بجرنگ دل کو ایک خطرناک تنظیم کہا جو ہندوستان میں اقلیتوں کے خلاف تشدد پر ہندوؤں کو ابھارنے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کرتی ہے۔ اس کے باوجود بجرنگ دل اور اس طرح کے دیگر ہندو قوم پرستوں کے اکاؤنٹ اور ان کا مواد فیس بک سے ہٹایا نہیں جاتا کیونکہ فیس بک کو ایسا کرنے سے انڈیا میں بڑے کاروباری نقصان کا اندیشہ ہے۔

درگا واہنی(Durga Vahini)

درگا واہنی (درگا5 کا لشکر) وشوا ہندو پریشد کا خواتین ونگ ہے۔ اس کا قیام ۱۹۹۱ء میں رام جنم بھومی تحریک کے عروج کے دوران ہوا۔ اس کی بانی سربراہ سادھوی رِتھمبرا (Sadhvi Rithambara)تھی۔ یہ وہ عورت ہے جس کا بابری مسجد کی شہادت میں بہت اہم کردار ہے۔ اس کا شمار اُن مقررین میں ہوتا ہے جنہوں نے ہندو غنڈوں کو بابری مسجد کو شہید کرنے کے لیے ورغلایا۔ یہ خود بھی بابری مسجد کو شہید کرنے کے کام میں آگے آگے شریک رہی۔

درگا واہنی میں خاص طور پر ایسی نوجوان عورتوں کو بھرتی کیا جاتا ہے جن کا تعلق کم آمدنی والے گھرانوں اور نچلی ذات کے خاندانوں سے ہو۔ شامل ہونے والی عورتوں کو کراٹے کی اور لاٹھی چلانے کی تربیت دی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہندُتوا کی نظریاتی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ اس طرح کی خواتین کو اس لیے بھرتی کیا جاتا ہے تاکہ ان سے فسادات اور تشدد کے حوالے سے خطرناک کام لیے جا سکیں جو کہ خوشحال گھرانوں اور اونچی ذات کے خاندانوں کی عورتوں سے نہیں لیے جا سکتے۔ اس لیے ایسے خطرناک کاموں کے لیے ان کی غریبی اور نچلی ذات کا استحصال کیا جاتا ہے۔ جب سَنگھ پریوار مسلمانوں کے خلاف کوئی فساد شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو ہندوؤں کا کوئی مذہبی جلوس مسلمانوں کے علاقوں سے گزارتی ہے۔ اس کے دوران درگا واہنی کی عورتیں جلوس میں آگے بڑھ کر مسلمانوں کے علاقے میں مسلمانوں کا سامنا کرتی ہیں، مسلمانوں کو بھڑکانے کے لیے اشتعال انگیز نعرہ بازی کرتی ہیں اور پوری کوشش کرتی ہیں کہ کسی طرح سے مسلمان اشتعال میں آکر کوئی ایسا اقدام کر دیں جس کو بہانہ بنا کر بجرنگ دل کے غنڈے اُن پر حملہ کر دیں۔ اور جب فساد شروع ہو جائے تو درگا واہنی کی عورتیں بجرنگ دل کے غنڈوں کے ساتھ لاٹھیاں اٹھائے مسلمانوں پر حملوں میں بھی پیش پیش ہوتی ہیں۔

بابری مسجد کی شہادت میں بھی سادھوئی رتھمبرا کی قیادت میں درگا واہنی کی عورتیں بابری مسجد کو شہید کرنے میں بڑھ چڑھ کر شریک تھیں۔اسی طرح گجرات فسادات کے دوران درگاواہنی کی عورتوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ عورتیں ووٹر فہرستوں اور تجارتی لائسنسوں کی مدد سے مسلمان گھرانوں کی نشاندہی کر کے بجرنگ دل کے غنڈوں کو اطلاع دیتی تھیں۔ گھر گھر جا کر مسلمانوں کے گھرانوں میں مردوں، عورتوں اور بچوں کی تعداد کی معلومات اکٹھی کر کے یہ معلومات بجرنگ دل کے غنڈوں کو فراہم کرتی تھیں۔ حتیٰ کہ مسلمان عورتوں کی عصمت دری میں اور مسلمان عورتوں اور بچوں کو زندہ جلانے کے واقعات میں بھی درگاواہنی کی عورتیں بجرنگ دل کے غنڈوں کی مددگار رہیں۔

۲۰۲۲ء میں کرناٹک میں باحجاب مسلمان طالبات کو ہراساں کرنے، ان کا حجاب کھینچنے اور ان پر آوازیں کسنے میں درگا واہنی کی عورتیں بجرنگ دل کے غنڈوں کے ساتھ آگے آگے تھیں۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭


1 Hinduism and Modernity (2003) by David James Smith p. 189

2 ماسٹر تارا سنگھ ہندوستان کی تحریک آزادی کا مشہور سکھ رہنما ہے۔ اس کی شہرت یا ددوسرے لفظوں میں بدنامی کی اصل وجہ تقسیمِ ہند کے دوران ہندوستان میں موجود اور پاکستان ہجرت کے لیے جانے والے مسلمانوں کا قتل عام کروانا ہے۔

3 نامدھاری سکھوں کا ایک فرقہ ہے۔ اس فرقے کا عقیدہ ہے کہ خدا کے نام کا مستقل ذکر کرتے رہنے کے علاوہ کسی اور مذہبی عبادت کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے یہ ’نام‘ دھاری کہلاتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں ’کوُکے‘ بھی کہا جاتا ہے جو پنجابی کے لفظ ’کوُک‘ سے نکلا ہے جس کے معنی چیخ ہیں۔ یہ نام ان کا اس لیے پڑا کہ یہ اپنی ذکر کی محفلوں میں ذکر کے دوران چیخ مارتے ہیں۔

4 ہنومان ہندوؤں کا بندر کی شکل والا دیوتا ہے۔ شمالی ہندوستان میں اسے بجرنگ بَلی بھی کہا جاتا ہے۔

5 درگا ہندوؤں کی کئی بازوؤں والی جنگجو دیوی ہے۔ اسے ’شکتی دیوی‘ بھی کہتے ہیں، یعنی طاقت کی دیوی۔

Exit mobile version