نبیؐ کی شان اقدس پہ فدا ہونا مبارک ہو!

 ہندوستان سے مولانا عبد العلیم اصلاحی اعظمی (دامت برکاتہم العالیۃ) کا زیرِ نظر مضمون انٹرنیٹ سے حاصل کیا گیا ہے۔ (ادارہ)


گزشتہ جمعہ کے واقعات اور اس کے بعد کی مجموعی صورتحال اور پروپیگنڈوں کے متعلق چند باتیں اور اپنے احساسات آپ تمام کے سامنے اس امید کے ساتھ رکھنا چاہتا ہوں کہ

؏شاید کہ ترے دل میں اتر جائے مری بات

گزشتہ سترہ دن سے ہر صاحب ایمان شخص اپنی اپنی جگہ نہایت بے چین و مضطرب ہے کہ نبی پاکﷺ کی شان اقدس میں گستاخی ہوئی ہے اور نہ صرف شاتمین قرار راقعی سزا سے بچے ہوئے ہیں بلکہ مختلف ریاستوں میں ایف آئی آر درج کرانے کے باوجود بھی حکومت کی جانب سے ان مجرمین کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ لہٰذا احتجاج تو ایمانی، فطری اور قانونی تقاضہ تھا اور جمہوریت پر یقین رکھنے والوں کی زبانی یہ احتجاج بالکل جمہوری حق ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس احتجاج کو ہماری مذہبی اور سیاسی قیادت جرم سمجھ رہی ہے اور وہ یہ سوال اٹھا رہی ہے کہ دینی، ملی و سیاسی قیادت کی جانب سے کسی بھی احتجاج سے باز رہنے اور سڑکوں پر نہ آنے کی پرزور اپیلوں اور بیانات کے باوجود بھی عام مسلمانوں کا سڑکوں پر نکلنا اور احتجاج کرنا کس کی شہ پر ہوا ہے؟ مسلم نوجوانوں کو کس نے اکسایا ہے؟ یہ سوالات بالکل فضول اور بے جا ہیں، کیونکہ ہر مسلمان نبی پاکﷺ کی محبت کو شرط ایمان، آپﷺ سے وفاداری کو دنیا و آخرت میں کامیابی کی ضمانت، آپﷺ سے وابستگی کو خوش بختی کی علامت اور آپﷺ کے ناموس کی خاطر جان لینے اور دینے کو سعادت سمجھتا ہے۔ پیارے رسولﷺ کے تیس کروڑ امتی اس ملک میں رہتے ہیں، اس کے باوجود آپﷺ کے جناب میں گستاخی ہوتی ہے تو یہ شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ یہی وہ احساس تھا جس نے ایک عام مسلمان کو بھی اپنے ایمان کا عملی مظاہرہ کرنے پر اکسایا اور آپﷺ سے اپنی محبت و عقیدت کا اظہار کروایا۔ یہ دراصل احتجاج سے زیادہ نبی پاکﷺ سے اپنی محبت، عقیدت اور وفاداری کا اظہار تھا۔

لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس ملک کی حکومت، انتظامیہ اور پولیس مسلمانوں کے کسی بھی احتجاج اور مظاہرے کو پرامن رہنے نہیں دیتی۔ گزشتہ نماز جمعہ کے بعد بھی یہی ہوا ہے۔ ملک کی تقریباً ہر ریاست میں مسلمان نماز جمعہ کے بعد اپنے نبیﷺ سے اپنی محبت و عقیدت کے اظہار کے لیے باہر نکلے لیکن ان کو کھل کر اپنے جذبات کا اظہار بھی نہیں کرنے دیا گیا۔ پولیس نے ہر جگہ بزور تشدد ان کا راستہ روکا، بھگوا وادیوں کے ذریعے ان پر پتھراؤ کروایا، لاٹھی چارج کیا گیا، آنسو گیس کے گولے پھینکے گئے، رانچی میں تو پوائنٹ بلینک رینج سے ان پر گولیاں چلائی گئیں۔ اگر کچھ جی دار نوجوان اپنے دفاع میں اور اشرار کو اپنے سے دور رکھنے کے لیے ہاتھ میں پتھر اٹھاتے ہیں تو یہ ان کا جرم قرار پاتا ہے۔ دکھ اس بات کا ہے کہ اپنوں کے نزدیک بھی وہ مجرم قرار پاتے ہیں! پھر حکومتیں ان کے گھروں پر بلڈوزر چلاتی ہیں اور اپنے ان کے دلوں پر!

جمعہ کے واقعات کے بعد بعض مسلم قائدین کی جانب سے جو بیانیے سامنے آرہے ہیں وہ ناصرف قابل افسوس بلکہ انتہائی شرمناک ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ اس نازک وقت میں اپنے بچوں کو مجرم ٹھہرانے کے بجائے ان کے ساتھ کھڑے ہوتے، ان کے زخموں پر مرہم رکھتے، ان کے دلوں کو ڈھارس دیتے، ان کے حوصلے کو برقرار رکھتے، ان کے عزائم کو سراہتے اور ان کے لیے اپنے آپ کو ڈھال بنا لیتے۔ مگر افسوس کہ قیادت آج اس موقع پر بھی اپنی مردہ ضمیری اور بے حسی کا ثبوت دے رہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پولیس کے ظلم پر سوال کھڑے کیے جاتے کہ نہتے بچوں پر پوائنٹ بلینک رینج سے گولیاں چلانے کا کیا جواز ہے؟ بغیر ایف آئی آر کے گرفتاریاں کرنے کا کیا جواز ہے؟ بغیر جرم ثابت ہوئے گھروں پر بلڈوزر چلانے کا کیا قانون ہے……؟

لیکن اس کے بجائے قیادت الزام تراشیاں کرکے اور بہانے بنا کر مسلم نوجوانوں کی مدد سے اپنا ہاتھ اٹھا رہی ہے۔ نوجوانوں پر انگلی اٹھانے سے پہلے قیادت کو اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ آپ اپنا محاسبہ کیجیے! آپ نے اپنی حکمت و مصلحت، فراست اور صبروتحمل کے ذریعہ ان ستر سالوں میں کیا حاصل کیا ہے؟ کوئی ایک چیز بھی حاصل کی ہو تو بتلائیے! بلکہ جو کچھ ہاتھ میں تھا اسے بھی گنوا بیٹھے ہیں۔ البتہ نوجوانوں نے ہر موقع پر اپنے زندہ ہونے کا ثبوت فراہم کیا ہے۔

اور آج الحمدللہ ناموس رسالتﷺ کے تحفظ کی خاطر، اپنے نبیﷺ سے محبت کے جرم میں اپنے سینوں پر گولیاں اور اپنے جسموں پر لاٹھی، ڈنڈے اور پتھر کھا رہے ہیں، اور قیدوبند کی تکلیفوں سے گزر رہے ہیں۔ بڑے خوش نصیب ہیں یہ نوجوان! ان کی خوش بختی کے کیا کہنے! اگر اس سب کے بدلے انہیں ساقیٔ کوثرﷺ کے ہاتھوں جام کوثر نصیب ہوجائے تو یہ گھاٹے کا سودا ہرگز نہیں ہے۔ واقعی بڑے خوش نصیب ہیں شہید مدثر و شہید ساحل رحمہم اللہ جنہیں رب تعالیٰ نے کروڑوں کے درمیان سے اپنے حبیبﷺ کی ناموس کے حوالے سے چن لیا۔ اس سے بڑی سعادت اور کیا ہوسکتی ہے! اس سے بڑی کامیابی بھلا اور کیا ہوسکتی ہے! ایک نوجوان صحابی کو جب دشمن کا نیزہ لگا تو وہ ’فزت برب الکعبة‘، ’’رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا‘‘ کہہ کر شہید ہوگئے۔ ہم بھی اپنے شہداء کے متعلق یہی یقین رکھتے ہیں کہ ’’رب کعبہ کی قسم یہ کامیاب ہوگئے‘‘۔ زندگیاں سینت سینت کر رکھنا اور بچانا نہیں بلکہ زندگیاں نچھاور کردینا اللہ کے نزدیک بڑی کامیابی ہے، وذلک الفوز العظیم!

 

یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے

یہ بڑے نصیب کی بات ہے!

 

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر مسلمان اپنے دل میں نبی پاکﷺ سے محبت کی شمع جلائے کہ جس کے بغیر ایمان ثابت ہی نہیں ہوتا، ہر قسم کی قربانی اور دفاع کے لیے تیار رہے اور کسی بھی قسم کے ڈر اور خوف کو اپنے اوپر طاری نہ ہونے دے۔ یہ عاشقان مصطفیٰﷺ کے لیے آزمائش کی گھڑی ہے۔ یہی ایمان کو ثابت کرنے کا وقت ہے۔ یہی چھٹائی کا وقت ہے جب مومنین کا ایمان اور منافقین کا نفاق ظاہر کیا جاتا ہے۔

بلاشبہ جس گھر کے بھی بچے شہید ہوئے ہیں، زخمی ہیں، گرفتار ہوکر اذیتیں سہہ رہے ہیں، اور جن کے گھروں پر بلڈوزر چلائے جارہے ہیں، ان گھروں پر تو قیامت ٹوٹ پڑی ہوگی۔ ان کے عزیز و اقارب کے دکھ اور غم کا تو ہم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے! لیکن ہم دکھ کی اس گھڑی میں ان کے ساتھ شامل ہوکر ان کے دکھ کو ہلکا کر سکتے ہیں۔ زخمیوں کے بہترین علاج کا سامان کرسکتے ہیں۔ گرفتار نوجوانوں کی رہائی کے لیے اسباب فراہم کرسکتے ہیں۔ ہم میں سے جس کے بس میں جو ہے وہ اپنی ذمہ داری سمجھ کر کرے ورنہ روز محشر پیارے رسولﷺ کا سامنا نہیں کرسکیں گے اور اللہ کی گرفت سے بچنا بھی محال ہو جائے گا۔

بہرحال مسلمانان ہند اس حقیقت کا ادراک جتنی جلد کرسکیں ان کے حق میں اتنا ہی بہتر ہے کہ اگر ہندوستان میں مسلمان بن کر رہنا ہے تو اپنی جان و مال کی قربانیاں پیش کرنا ہوں گی۔ اس درد سے گزرنا ہوگا ورنہ اس ملک میں ہم مسلمان بن کر نہیں رہ سکیں گے۔

٭٭٭٭٭

Exit mobile version