بنگلہ دیش میں دینِ اسلام اور رسول اللہ ﷺ کی توہین کرنے اور ان پر سب وشتم کرنے والوں كا قتل

Statement: PR_109_AQS

بیان: PR_109_AQS

تاریخ:6ذو القعدہ 3144 ھ بمطابق5 جون 2022ء

بنگلہ دیش میں دینِ اسلام اور رسول اللہ ﷺ کی توہین کرنے اور ان پر سب وشتم کرنے والوں كا قتل

انصاف کے نام پر معصوم مسلمانوں کو سزائے موت سنانے کے تناظر میں


الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علی سید الأنبیاء والمرسلین وعلی آلہ وصحبہ ومن تبعھم بإحسان إلی یوم الدین، وبعد

رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’لزوال الدنیا أھون على اللہ من قتل مؤمن بغیر حق.‘‘ 1

’’ساری دنیا کا برباد ہو جانا اللہ تعالیٰ كے نزدیك كسی مومن كا ناحق خون بہانے سے زیادہ ہلکی بات ہے۔‘‘

۱۵ نومبر، ۲۰۱۴ء بمطابق محرم الحرام ۱۴۳۶ھ کو القاعدہ برصغیر سے وابستہ مجاہدین نے بنگلہ دیش كے شہر راجشاہی میں اسلام اور شریعتِ مطہرہ کی تحقیر و تذلیل کرنے اور احکامِ اسلام کی توہین کرنے کے مرتکب ایک شخص، شفیع الاسلام لیلن کو قتل کیا۔ اسی طرح ۱۲ مئی ۲۰۱۵ ء بمطابق رجب ۱۴۳۶ھ کو القاعدہ بر صغیر سے وابستہ مجاہدین نے ایک دوسرے دشمنِ اسلام اور شاتمِ رسول اننتا بیجوائےكا قرض چکا دیا اور اسے جہنم واصل کیا۔ الحمد للہ! تمام توفیق اور کامیابی اللہ رب العزت ہی کی جانب سے ہے۔ ان دونوں واقعات کے بعد القاعدہ برصغیر نے قتل کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے اعلامیے بھی جاری کیے۔

یہ اشخاص محض اپنی ذاتی زندگی میں ملحد و مرتد ہونے اور اسلام سے عناد رکھنے کی بنا پر قتل نہیں کیے گئے، بلکہ یہ دونوں افراد معاشرے اور انسانیت کے بھی کھلے دشمن تھے ۔ یہ ہر طرح سے اسلام اور امتِ مسلمہ کی تحقیر و تذلیل کرنے اور ان کی توہین کرنے پر کمر بستہ تھے، حتیٰ کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی شان میں بدترین الفاظ استعمال کرتے ہوئے گستاخی کی، اللہ کے حبیب ،ہمارے وہ رسول جو ہر مسلمان کو اس کی جان سے بڑھ کر عزیز ہیں، صلی اللہ علیہ وسلم۔ان کے یہ جرائم بذاتِ خود اللہ جل جلالہ ، اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان بحیثیت قوم و امّت کے خلاف ایک کھلم کھلا اعلانِ جنگ تھے۔اللہ رب العزت کی نازل کردہ شریعت کے مطابق ان دونوں اشخاص کا قتل نہ صرف روا تھا بلکہ مسلمانوں پر واجب و لازم تھا۔مگر ہندُتوا کی مددگار و تابع فرمان ، بنگلہ دیش کی طاغوتی حکومت نے ان ملعونوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کے لیے کچھ نہ کیا۔بلکہ اس کے برعکس، ان مجرمین کو تحفظ فراہم کیا اور ان مسلمانوں کو قید اور قتل کیا گیا جنہوں نے ان مجرمین کی سزاکا مطالبہ کیا۔ الحمدللہ ، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مجاہدینِ القاعدہ نے ان موذی مجرموں کو ان کے کیے کا پورا پورا بدلہ دیا، شریعت کے عائد کردہ فرض کو ادا کیا اوراپنے اس عمل سے لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کی آنکھوں اور دلوں کی ٹھنڈک کا سامان کیا۔بے شک تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے۔

ان مبارک حملوں کے بعد بنگلہ دیش کا انسانی ساختہ، ظلم و عدوان پر کھڑا کیا گیا طاغوتی نظامِ عدل حرکت میں آیا اور عدالتی کارروائیوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔اپنی عدم اہلیت اور ناکامی کو چھپانے کے لیے ایسے لوگوں پر ان حملوں کے الزام لگائے گئے جن کا سرے سے ان واقعات سے کوئی تعلق ہی نہ تھا۔ حال ہی میں بنگلہ دیش کی نا اہل عدلیہ نے تین افراد کو لیلن کے قتل کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے سزائے موت کی سزا سنائی جبکہ چار افراد کو اننتا بیجوائےکے قتل کے سلسلے میں یہی سزا سنائی گئی۔

ہم صاف اور واضح طور پر اعلان کرتے ہیں کہ ان مجرموں کو قتل کرنے والے القاعدہ برصغیر سے تعلق رکھنے والے عالی قدر مجاہدین تھے۔ بنگلہ دیش کی عدلیہ نے جن سات افراد کو ان مقدموں میں سزا سنائی ہے، ان کا ان حملوں سے کوئی واسطہ یا تعلق نہیں تھا۔ نہ ہی ان سات افراد کا القاعدہ بر صغیر کے مجاہدین سے کوئی تعلق ہے۔ ایسے میں ان سات بے قصور و معصوم افراد کو سزا سنانا انتہائی شرمناک اور انصاف و قانون کی رو سے ناجائز و غلط ہے۔ صرف شریعتِ اسلامی ہی نہیں ، بلکہ عقل اور انسان کے اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے قانون کی رو سے بھی یہ فیصلہ ناجائز اور ظلم و ناانصافی پر مبنی ہے۔ کسی ملک اور اس کے عدالتی نظام کے لیے ایسی نا اہلیت شرمناک اور قابلِ افسوس ہے۔

ڈھونگ اور ناٹک پر مبنی تفتیش اور تحقیقات ، مقدمے اور ایسے لغو قسم کے فیصلے اور فرمان، ان سب نے انسان کے بنائے ہوئے قانون و نظام کی بے بسی و لاچاری، اس کی کمزوری اور بے بساطی اور طاغوتی نظام کا اصل کھوکھلا پن عوام کی نظروں میں واضح کر دیا ہے۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جو اسلام اور پیغمبرِ خدا ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کو سزا دینے کے بجائے ان کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جو بے گناہوں کو انصاف کے نام پر موت کی سزا دیتا ہے۔ انسانوں کا بنایا یہ نظام تو جرم کی تعریف وتشریح کرنے کے بھی قابل نہیں ، کجا کہ عدل و انصاف مہیا کرے۔اس کے باوجود کتنی دہائیوں سے عوام اسی نا انصافی پر مبنی، نااہل نظامِ حکومت و عدل کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔اس غلامی سے نجات کا واحد راستہ انسان کے وضع کردہ ان افکار و نظریات اور نظام سے چھٹکارا حاصل کرنے اور اللہ کی نازل کردہ پاکیزہ و مطہرہ شریعت کی اتباع میں ہے۔

ان تمام لوگوں سے جو اس ڈھونگ اور ناٹک پر مبنی مقدموں اور عدالتی سلسلے سے وابستہ رہے ہیں، ہم یہ کہتے ہیں کہ: اس ظلم و ناانصافی سے توبہ کر یں اور اپنے ان فیصلوں سے رجوع کریں۔ قانون کی عطا کردہ اس طاقت کا ایسا بے جا اور ظالمانہ استعمال انتہائی شرمناک ہے۔ یہ لوگ یاد رکھیں، کہ ایک دن آنے والا ہے جب انہیں خود بھی منصفِ اعلیٰ کی عدالت میں حاضر ہونا پڑے گا۔ ایک ایسا دن جب کوئی شخص اپنی اولاد اور دنیا بھر کا مال و دولت فدیے میں دے کر بھی اپنی گردن نہ چھڑا سکے گا۔ لہٰذا، ان بے گناہوں کو جن کو تم نے ناروا سزا سنائی ہے، با عزت طور پر رہا کر دو، اور اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کے لیے اسلام و شریعت کے سائے میں لوٹ آؤ۔

اللہ تعالیٰ امّتِ مسلمہ پر اپنے رحم و کرم کا سایہ فرمائیں، اس زمین پر اسلام کو استحکام عطا کریں تاکہ مظلوم کی مدد کی جا سکے، ظالم کا ہاتھ روکا جا سکے اور لوگ حقیقی امن و سکون اور عدل و انصاف کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں۔

وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین وصلی اللہ تعالیٰ علی نبینا الأمین، آمین!


1 سنن ابن ماجه ، حديث نمبر 2619، سنن ترمذي، حديث نمبر 1452، 1453، سنن ابن ماجة 2619 باب التغليظ في قتل مسلم ظلما. قال الشيخ شعيب الأرنؤوط رحمه الله في النسخة المحققة لابن ماجة: ’’حسن لغيرہ‘‘.

Exit mobile version