سب سے پہلے امریکہ!

زیادہ دور نہیں جاتے۔ تاریخ کا بہت عمیق و طویل مطالعہ کرنے کی ہر گز ضرورت نہیں۔ ابھی دو سال قبل غزّہ میں شروع ہونے والے قتلِ عام سے تاریخ دیکھنا شروع کرتے ہیں۔ کتنے لوگ قتل کیے گئے، کتنے زخمی ہوئے، کتنوں پر قحط مسلط کر کے قتل کیا گیا، کتنوں کو اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی رحمِ مادر کو سنائپر بندوقوں سے تاک کر قبل از پیدائش قتل کر دیا گیا۔ تمام عالَمِ انسانیت اس سے بخوبی واقف ہے۔ یہ قتلِ عام تاریخِ مخلوق کی بدترین قوم یہود کے ہاتھوں برپا ہے۔ یہود جو ارضِ انبیاء پر، ارضِ مقدس پر ایک یہودی ریاست ’اسرائیل‘ کے نام سے مسلط ہیں، یا ایک صدی پیش تر مسلط کر دیے گئے۔

اسرائیل۔ برطانیہ کی ناجائز اولاد۔ اسرائیل۔ برطانیہ کی وہ نا جائز اولاد جس کو برطانوی بربریت سے پیدا ہونے والی قوم و سلطنت ’امریکہ‘ نے گود لیا، پالا پوسا، نا جائز و لاڈلی اولاد کے لاڈ اٹھا کر جوان کیا، ناجائز و بگڑی اولاد کو دنیا کی تمام آسائشیں و آلائشیں اور پیسوں سے لے کر اہم ترین چیز سیاسی و سفارتی ثم عسکری امداد کے ذریعے ایک بدمعاش بلا بنا دیا۔ امریکہ کا عظیم ترین جرم اسی اسرائیل کی پشت پناہی ہے، لیکن یہ امریکہ کا واحد جرم نہیں ہے، بلکہ امریکہ کے جرائم کی فہرست بہت طویل ہے۔

آئیے اس تحریر میں دو نکات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اولاً، امتِ مسلمہ ہی نہیں، بلکہ انسانیت، بلکہ انسانیت ہی نہیں محیط (atmosphere) كا سب سے بڑا دشمن کون ہے؟ اور دوئم، اس دشمن کے خلاف کیا کرنے کی ضرورت ہے!

اس دشمن کا نام ’امریکہ‘ ہے۔ ہم کہتے ہیں’سب سے پہلے امریکہ‘، یعنی ہماری ہر عسکری، سیاسی، سفارتی، دعوتی ضرب کا پہلا ہدف امریکہ ہونا چاہیے، جب ہم یہ بات کہتے ہیں تو اس کے کچھ دلائل ہیں:

یہ ہے وہ امریکہ جس کی قوت سے پوری دنیا کے نظام ہائے باطل تقویت حاصل کرتے ہیں۔ یہ ہے وہ امریکہ جو اس کانٹے دار اور کڑوے پھل والے درخت کی جڑ اور اس درخت کا تنا ہے۔ شیخ اسامہ بن لادن رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تعبیر کے مطابق شجرِ خبیثہ کی جڑ و تنا۔ اس شجرِ خبیثہ کی شاخیں اور شاخچے وہ طاغوتی نظام ہیں جو کہیں تیونس و ترکی میں جمہوریت، پاکستان میں فوجی جمہوری ہائبرڈ نظام، مصر میں آمریت اور باقی عرب میں بادشاہتوں کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ اگر اس شجرِ خبیثہ کی جڑ پر وار کیا جائے تو یہ شاخچے کم محنت کے ساتھ جلد تلف کیے جا سکیں گے۔ ہاں ان شاچخوں کے کڑوے پھل اور کانٹوں سے انہی کے مقام پر لڑنا خود بھی کئی جگہوں پر دفاعی طور پر ضروری ہے ۔

آج وقت کی اہم ترین ضرورت اس فرضِ عین جہاد کی پکار پر لبیک کہنا ہے جو اپنی تمام تر شرائط کے ساتھ غزہ میں جاری قتلِ عام کے سبب پوری دنیا کے مسلمانوں کی طرف متوجہ ہے۔ جہاد ایک اجتماعی فریضہ ہے اور اس کی ادائیگی اپنی اپنی جگہوں پر رہتے ہوئے انفرادی طور پر ممکن نہیں۔ پس میادینِ جہاد کا رخ کیا جائے، جو میادین میں براہِ راست نہ پہنچ سکے تو مجاہدین سے رابطے استوار کرے اور مجاہدین کے موجودہ لشکروں کا حصہ بن کر اس یہودی درخت، اس غرقد، اس شجرِ خبیثہ پر وار کرے جس کی جڑ امریکہ اور جس کی جان اسرائیل ہے، وہ اسرائیل جو امریکہ کے بنا ایک عضوِ معطل ہے۔ غزہ میں جاری حالیہ قتلِ عام کو رکوانے کا اصل، حقیقی، مؤثر…… اور سچ پوچھیے تو آخرت میں بھی گلو خلاصی کروانے والا واحد ذریعہ، الطریق الوحید، جہاد فی سبیل اللّٰہ ہے! پہلے بھی کئی بار شائع کردہ، لیکن اپنے الفاظ و پیغام میں زندۂ جاوید، شہیدِ اسلام، سپاہ سالارِ مجاہدینِ قدس ابو خالد محمد الضیف رحمۃ اللّٰہ علیہ کے یہ الفاظ ہم یہاں پھر سے نقل کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں:

’’ اے اردن و لبنان، مصر و الجزائر، مراکش اور پاکستان، انڈونیشیا و ملائیشیا اور کل عالمِ عرب اور عالمِ اسلام میں بسنے والے ہمارے لوگو!

آج ہی نکلو اور فلسطین کی طرف چلنا شروع کردو ۔ کل نہیں! آج اور ابھی!آج ہی روانہ ہو جاؤ! ان سرحدوں، حکومتوں اور پابندیوں میں سے کوئی بھی تمہیں جہاد میں شرکت اور مسجدِ اقصیٰ کی بازیابی کا شرف حاصل کرنے سے محروم نہ کر سکے!

اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِقَالًا وَّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝

’’(جہاد کے لیےنکل کھڑے ہو، چاہے تم ہلکے ہو یا بوجھل، اور اپنے مال و جان سے اللّٰہ کے راستے میں جہاد کرو۔ اگر تم سمجھ رکھتے ہو تو یہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔‘‘

آج ہی وہ دن ہے (کہ جب جہاد کے لیے نکل کھڑا ہوا جائے)۔ پس جس کسی کے پاس بندوق ہو تو وہ اسے لے کر نکلے، کہ یہی اس کا وقت ہے۔ اور جس کے پاس کوئی بندوق نہیں تو وہ اپنے خنجر اور چاقو، ہتھوڑے اور کلہاڑے لے کر نکلے، یا اپنے دیسی ساختہ بم، یا اپنے ٹرک اور بلڈوزر یا اپنی گاڑی… …کہ آج کا دن ہی وہ دن ہے(کہ جب جہاد کے لیے نکل کھڑا ہوا جائے)!

تاریخ نے اپنے سب سے روشن، ممتاز اور ذی عزت و شرف صفحات پھیلا دیے ہیں، تو کون ہے جو نور و سعادت کے ان صفحات میں اپنا، اپنے خاندان اور اپنے علاقے کا نام لکھوائے؟

اے ہماری ملّت کے بیٹو! اور اے پوری دنیا کے مردانِ حُر!……وہ حکومتیں جنہوں نے غاصب اسرائیل کے ساتھ اپنی حمایت و تعاون جاری رکھ کر اسرائیل کے جرائم کی پردہ پوشی کی اور خود بھی اس کے جرم میں شریک رہے، ان کا راستہ روکو!

آج کا دن عظیم انقلاب کا دن ہے۔ اس دنیا میں قائم آخری قابض اور نسلی تعصب پر مبنی آخری نظام کو ختم کرنے کے لیےاٹھنے کا دن آج ہی کا دن ہے!‘‘

پس بڑی نادانی ہو گی کہ ہم اسرائیل و امریکہ میں ایک ایسی تفریق کریں جس تفریق کا نہ ٹرمپ قائل ہے اور نہ نیتن یاہو! پس ہم پر لازم ہے کہ ہم دامے، درمے، قدمے، سخنے اس جہاد کا حصہ بنیں جس کا دنیوی نتیجہ اہلِ اسلام کی فتح اور آخرت میں جنتیں ہیں، وہ جنتیں جہاں اللّٰہ نے صرف مجاہدین کے لیے سو درجات تیار کر رکھے ہیں!

سب سے بڑا جو دشمن اُس سے سب سے پہلے جنگ
پوری ملتِ ايماں جس کے کرتوتوں سے تنگ
غزّہ تا کابل جب ایک ہے پانی خون کا رنگ
طاغوتِ اکبر سے لڑنے میں ہوں ہم آہنگ

سارے جھگڑے چھوڑ کے پہلے یہ نمٹائیں ہم
امریکہ کے ایوانوں میں آگ لگائیں ہم

اسرائیل کا آج تلک ہے کون بھلا رکھوالا
انگریزوں کی اس اولاد کو امریکہ نے پالا
ان کی صف میں جو ہے وہ دوزخ میں جانے والا
ملّت کے غداروں کا ہے، تن، من، دھن سب کالا

تفریقِ حق و باطل سب کو سمجھائیں ہم
امریکہ کے ایوانوں میں آگ لگائیں ہم
جاگیں خود اور کُل امت کو ساتھ ملائیں ہم
کچلیں ان کی توپیں، ان کے ٹینک اڑائیں ہم
گستاخوں کی لاشیں ان کے گھر پہنچائیں ہم
ہر مسلم خطے سے اُن کو مار بھگائیں ہم

عالَم میں اسلام کا پرچم پھر لہرائیں ہم
امریکہ کے ایوانوں میں آگ لگائیں ہم

اللھم اهدنا فيمن هديت وعافنا فيمن عافيت وتولنا فيمن توليت وبارك لنا فيما أعطيت وقنا شر ما قضيت إنك تقضي ولا يقضی عليك وإنه لا يذل من واليت ولا يعز من عاديت تبارکت ربنا وتعاليت!

اللھم وفقنا لما تحب وترضى وخذ من دمائنا حتى ترضى .اللھم اهدنا لما اختلف فيه من الحق بإذنك. اللھم زدنا ولا تنقصنا وأکرمنا ولا تھنّا وأعطنا ولا تحرمنا وآثرنا ولا تؤثر علینا وارضنا وارض عنا. اللھم إنّا نسئلك الثّبات في الأمر ونسئلك عزیمۃ الرشد ونسئلك شكر نعمتك وحسن عبادتك. اللھم انصر من نصر دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم واجعلنا منھم واخذل من خذل دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا تجعلنا منھم، آمین یا ربّ العالمین!

٭٭٭٭٭

Exit mobile version