یہ تحریر یمن کے ایک مجاہد مصنف ابو البراء الاِبی کی تصنیف’تبصرة الساجد في أسباب انتكاسۃ المجاهد‘ کا ترجمہ ہے۔ انہوں نے ایسے افراد کو دیکھا جو کل تو مجاہدین کی صفوں میں کھڑے تھے، لیکن آج ان صفوں میں نظر نہیں آتے۔ جب انہیں تلاش کیا تو دیکھا کہ وہ دنیا کے دیگر دھندوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟یہ تحریر ان سوالوں کا جواب ہے ۔(ادارہ)
بارہویں وجہ: خلوتوں کے گناہ
حضرت ثوبان سے روایت ہے نبی ﷺنے فرمایا :
لَأَعْلَمَنَّ أَقْوَامًا مِنْ أُمَّتِي يَأْتُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِحَسَنَاتٍ أَمْثَالِ جِبَالِ تِهَامَةَ بِيضًا فَيَجْعَلُهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هَبَاءً مَنْثُورًا.
”میں جانتا ہوں ان لوگوں کو جو قیامت کے دن تہامہ کے پہاڑوں کے برابر نیکیاں لے کر آئیں گے لیکن اللہ تعالیٰ ان کو اس غبار کی طرح کر دے گا جو اُڑ جاتا ہے۔“
ثوبان نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ان لوگوں کا حال ہم سے بیان کر دیجیے اور کھول کر بیان فرمائیے تاکہ ہم لاعلمی سے ان لوگوں میں نہ ہو جائیں۔ آپ ﷺنے فرمایا:
أَمَا إِنَّهُمْ إِخْوَانُکُمْ وَمِنْ جِلْدَتِکُمْ وَيَأْخُذُونَ مِنْ اللَّيْلِ کَمَا تَأْخُذُونَ وَلَکِنَّهُمْ أَقْوَامٌ إِذَا خَلَوْا بِمَحَارِمِ اللَّهِ انْتَهَکُوهَا. (ابن ماجہ)
”تم جان لو کہ وہ لوگ تمہارے بھائیوں میں سے ہیں اور تمہاری قوم میں سے۔ اور رات کو اسی طرح عبادت کریں گے جیسے تم عبادت کرتے ہو۔ لیکن وہ لوگ یہ کریں گے کہ جب اکیلے ہوں گے تو حرام کاموں کا ارتکاب کریں گے۔“
شیخ محمد ناصر الدین البانی فرماتے ہیں: ”(جب اکیلے ہوں گے) سے مراد خفیہ نہیں ہے۔ بلکہ جب بھی انہیں موقع ملے تو وہ حرام کا ارتکاب کریں گے۔ یعنی کہ خلوا کا مطلب خفیہ نہیں ہے بلکہ یہ اس محاورے جیسا کہ (ماحول سازگار ہوا)۔‘‘
(بحوالہ سلسلۃ الہدی والنوی، کیسٹ نمبر ۲۲۶)
یہ جان لو کہ اللہ کی نگرانی تمہارا پیچھا کر رہی ہے جہاں بھی تم جاؤ اور جہاں بھی تم ٹھہرو گے۔ رات کے اندھیرے میں، دیواروں کے پیچھے، کمروں کے اندر، خلوتوں میں اور جلوتوں میں۔
حضرت ابو حازم سلمہ بن دینار نے فرمایا:
”جو بھی شخص اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان تعلق درست کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اور لوگوں کے درمیان تعلق کو درست کر دیتے ہیں۔ اور جو شخص اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان تعلق کو خراب کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اور بندوں کے درمیان تعلق خراب کر دیتے ہیں۔ ایک ذات کے ساتھ معاملات درست رکھنا بہت سوں کے ساتھ درست رکھنے سے آسان ہے۔ اگر تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملات درست رکھو گے، تمام لوگ تمہاری طرف مائل ہوں گے۔ اور اگر تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملات خراب کرو گے تو تمام لوگ تم سے نفرت کریں گے۔“
امام بن الجوزی صید الخاطر میں فرماتے ہیں:
”میں نے کتنے ہی علم سے منسوب لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ خلوتوں میں اللہ تعالیٰ کی نگرانی سے لا پرواہی برتتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ جلوتوں میں ان کے ذکرِ خیر کو ختم کر دیتے ہیں۔ انہیں دیکھنے میں کسی کو خوشی نہیں ہوتی، ان سے ملاقات کے لیے کوئی راغب نہیں ہوتا، ان کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہو جاتا ہے۔“
مزید کہا:
”گناہوں سے خبردار! خبردار! خصوصاً خلوتوں کے گناہوں سے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ مقابلہ بندے کو اللہ تعالیٰ کی نظر سے گرا دیتا ہے۔ اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان معاملے کو خفیہ حالت میں درست رکھو۔ جب اللہ اعلانیہ تمہاری حالت درست رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی پردہ پوشی سے غرور میں نہ پڑ جانا، ممکن ہےکہ وہ تمہارے عیوب سے پردہ اٹھا لے۔ اور نہ اللہ تعالیٰ کی بردباری کے سبب غرور میں پڑ جانا، ممکن ہے کہ وہ اچانک سزا دے دے۔“
امام ابن القیم فرماتے ہیں:
”عارفین نے اتفاق کیا ہے کہ خلوتوں کے گناہ ہی اصل میں انحطاط کی وجہ ہیں۔ اور خلوتوں کی عبادتیں ثابت قدم رہنے کے اہم اسباب میں سے ہیں۔ سحنون نے فرمایا: خبردار! اعلانیہ ابلیس کی دشمنی کے ساتھ ساتھ خلوت میں اس کے دوست نہ بن جانا۔“
ابن حجر ہیتمی کبیرہ گناہوں کے ارتکاب سے باز رکھنےوالے چیزوں کے بارے میں لکھتے ہیں:
”تین سو چھپنواں کبیرہ گناہ: لوگوں کے سامنے نیکو کاروں کا سلوک کرنا اور خلوتوں میں حرام کا ارتکاب کرنا چاہے صغیرہ گناہ کیوں نہ ہو۔ ابنِ ماجہ نے ثقہ راویوں سے نقل کیا ہے کہ حضرت ثوبان نے نبی اکرم ﷺ سے (آغاز میں ذکر کردہ حدیث) روایت کی۔
اس لیے جس کی عادت ہو کہ وہ اچھا دکھائے اور برا چھپائے، اس کا نقصان اور مسلمانوں کو دھوکہ دینا بڑھ جاتا ہے۔ کیونکہ اس کی گردن سے تقویٰ اور ڈر کی رسی ٹوٹ جاتی ہے۔“
امام ابن کثیر اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں:
”امام احمد سے مروی ہے کہ وہ یہ دو اشعار گنگناتے تھے۔ اپنے لیے بھی اور اوروں کے لیے بھی۔ (جن کا مطلب ہے کہ)
’’اگر تم عمر بھر خلوت میں گزارو، یہ نہ کہنا کہ میں خلوت میں ہوں بلکہ یہ کہو کہ مجھ پر نگران مقرر ہے۔ اور یہ نہ گمان کرنا کہ اللہ کبھی غافل ہوتے ہیں اور نہ کہ ان سے کچھ چھپایا جا سکتا ہے۔“
امام ابن رجب فرماتے ہیں:
”انجام ِبد کی وجہ بندے کا وہ چھپا گنا ہ ہوتا ہے جو لوگوں کے سامنے نہیں آتا۔“
بعض نے کہا:
”خلوتوں کے گناہ انحطاط کا سبب ہیں اور خلوتوں کی طاعتیں تا دم ِمرگ ثابت قدمی کا سبب ہیں۔“
امام ابن الجوزی نے صید الخاطر میں فرمایا:
”خلوت کی ایسی تاثیر ہوتی ہے جو جلوت میں واضح ہوتی ہے۔ اللہ پر ایمان لانے والے کتنے ایسے ہیں جو خلوت میں ان کا خیال رکھتے ہیں۔ چنانچہ اپنی خواہشات کو اللہ تعالیٰ کی سزا کے ڈر میں چھوڑ دیتے ہیں، یا اللہ تعالیٰ کے اجر کی حرص میں، یا اللہ تعالیٰ کے احترام کی خاطر۔ یہ شخص ایسا ہے جیسا کہ کوئی ہندی عود کی لکڑی کوئلے پر رکھے جس سے خوشبو چار سو پھیلے۔ لوگوں کو اس کی خوشبو تو پہنچے لیکن انہیں معلوم نہ ہو کہ کہاں سے آ رہی ہے۔
اپنی خواہشات چھوڑنے میں جتنی وہ جدو جہد کرے گا اتنی ہی محبت زیادہ ہو گی۔ یعنی کہ اپنی مرغوب چیز سے جتنا دور ہٹے گا اتنی ہی خوشبو زیادہ ہو گی۔ جتنی لکڑی عمدہ ہو گی اتنی خوشبو زیادہ ہو گی۔
تم دیکھو گے کہ لوگوں کی نظریں اس شخص کا احترام کرتی ہیں۔ زبانیں اس کی تعریف کرتی ہیں۔ اور وہ نہیں جانتے کہ کیوں۔ اور نہ ہی اس کی تعریف کر سکتے ہیں کیونکہ وہ اس کی حقیقت جاننے سے دور ہیں۔
یہ خوشبویں اپنی تیزی کی بنا پر مرنےکے بعد بھی پھیلتی رہتی ہیں۔ بعض ایسے لوگ ہوتے ہیں کہ ان کا ذکرِ خیر مرنے کے بہت عرصے بعد تک جاری رہتا ہے، پھر لوگ بھول جاتے ہیں۔ بعض کو سو سال تک یاد کیا جاتا ہے اور پھر لوگ اس کی یاد بھی بھول جاتے ہیں اور اس کی قبر بھی۔ اور بعض ایسی نمایاں ہستیاں ہوتی ہیں جن کا ذکر ہمیشہ جاری رہتا ہے۔
اس کے برعکس جو لوگوں سے ڈرے، اور حق تعالیٰ کے ساتھ اپنی خلوتوں میں احترام نہ کرے تو جتنا وہ گناہوں کا ارتکاب کرتاہے اور جتنے وہ گناہ برے ہوتے ہیں، اس سے بد بو پھیلتی ہے اور اس سے دلوں میں نفرت پیدا ہوتی ہے۔
اگر اس کے گناہ کی مقدار کم ہو تو لوگ اس کا ذکرِ خیر تو کم کرتے ہیں لیکن اس کی فقط تعظیم کرتے ہیں۔ اور اگر گناہ کی مقدار زیادہ ہو تو لوگ زیادہ سے زیادہ اس کے بارے میں خاموش رہتے ہیں۔ نہ اس کی تعریف کرتے ہیں اور نہ مذمت۔
خلوت میں گناہ کا ارتکاب کرنے والے کتنے ایسے ہیں جن کے گناہ دنیا و آخرت میں بدبختی کی گھاٹیوں میں گرنے کا سبب بنے۔ جیسے کہ اسے کہا جا رہا ہو: تم اسی پر رہو جسے تم نے پسند کیا۔ چانچہ وہ ہمیشہ سر ٹکراتا رہے۔
تو گناہوں کو دیکھو میرے بھائیو! ان کا اثر بھی ہوتا ہے اور وہ بندے کو گرا بھی دیتے ہیں۔
حضرت ابو الدرداء فرماتے ہیں کہ: بندہ خلوت میں اللہ تعالیٰ کی معصیت کا مرتکب ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ مومنوں کے دلوں میں اس کی نفرت ڈال دیتے ہیں اور اسے احساس بھی نہیں ہوتا۔
سو جو میں نے لکھا اس پر غور کریں، اور جو میں نے کہا اسے یاد رکھیں۔ اپنی خلوتوں سے لا پرواہ نہ ہوں، اس لیے کہ اعمال کا دار و مدار نیت پر ہے۔ اور اتنا انعام ملے گا جتنا اخلاص ہوگا۔“
تیرہویں وجہ: حب منصب
حب منصب اور حب جاہ دلوں کی بیماریوں میں سے ہے۔ نفس کی خیانت اور پوشیدہ چالوں میں سے سب سے بری چیز ہے۔ بلکہ حب منصب حب دنیا سے بھی برا ہے۔ اس لیے کہا گیا کہ: منصب کی محبت ہر ہلاکت خیز گناہ کی جڑ ہے۔
حضرت کعب بن مالک کی روایت میں نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں:
مَا ذِئْبَانِ جَائِعَانِ أُرْسِلَا فِي غَنَمٍ بِأَفْسَدَ لَهَا مِنْ حِرْصِ الْمَرْئِ عَلَی الْمَالِ وَالشَّرَفِ لِدِينِهِ (بروایت ترمذی۔ صحیح از البانی)
’’دوبھوکے بھیڑیے اگر بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیے جائیں تو وہ اتنا فساد نہیں مچائیں گے جتنا انسان کے دل میں مال اور منصب کی حرص اس کے دین میں فساد برپا کرتی ہے۔‘‘
امام ابن رجب جامع العلوم والحکم میں اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”انسان کی منصب پر حرص، مال پر حرص سے زیادہ ہلاکت خیز ہے۔ دنیاوی منصب اور اس میں ارتقا کی طلب، لوگوں پر اقتدار اور زمین میں بالادستی بندے پر پیسوں کی طلب سے زیادہ نقصان دہ ہے۔ اس کا نقصان بھی زیادہ ہے اور اس سے بچنا بھی زیادہ مشکل ہے۔ کیونکہ منصب اور عہدے کی خواہش میں پیسہ بھی خرچ کر دیا جاتا ہے۔“
یہ ایسی بیماری ہے کہ کم ہی اس کی طرف توجہ جاتی ہے اور کم ہی اس سے خلاصی حاصل کی جاتی ہے۔ کیونکہ یہ انتہائی اشتیاق انگیز ہے اور اس کا پوشیدہ ہونا اور اس کی لذت اس سے چھٹکارا حاصل کرنے سے غافل کر دیتی ہے۔
حضرت ابو ہریرۃ کی حدیث میں ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تَعِسَ عَبْدُ الدِّينَارِ وَعَبْدُ الدِّرْهَمِ وَعَبْدُ الْخَمِيصَةِ، إِنْ أُعْطِيَ رَضِيَ وَإِنْ لَمْ يُعْطَ سَخِطَ، تَعِسَ وَانْتَکَسَ وَإِذَا شِيکَ فَلَا انْتَقَشَ. طُوبَی لِعَبْدٍ آخِذٍ بِعِنَانِ فَرَسِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَشْعَثَ رَأْسُهُ مُغْبَرَّةٍ قَدَمَاهُ، إِنْ کَانَ فِي الْحِرَاسَةِ کَانَ فِي الْحِرَاسَةِ وَإِنْ کَانَ فِي السَّاقَةِ کَانَ فِي السَّاقَةِ، إِنْ اسْتَأْذَنَ لَمْ يُؤْذَنْ لَهُ وَإِنْ شَفَعَ لَمْ يُشَفَّعْ.
”دینار اور درہم کا بندہ اور قطیفہ اور خمیصہ کا بندہ ہلاک ہوجائے (یہ دونوں چادریں ہیں)۔ اسے اگر دیا جائے تو مسرور ہوتا ہے اور اگر نہ دیا جائے تو ناخوش ہوجاتا ہے۔ ہلاک ہوجائے اور سرنگوں ہو جائے۔ جب اس کو کانٹا چبھے، تو نہ نکلے۔ خوشخبری ہے اس بندے کے لیے جو اپنے گھوڑے کی لگام اللہ کی راہ میں پکڑے ہوئے ہو، اس کے سر کے بال پراگندہ اور پاؤں گرد آلود ہوں۔ اگر وہ امام کی جانب سے پاسبانی پر مقرر ہو تو حفاظت میں پوری تندہی سے لگا رہے اور اگر فوج کے پیچھے حفاظت کے لیے لگا دیا جائے تو لشکر کے پیچھے لگا رہے۔ اگر اندر آنے کی اجازت چاہے تو اجازت نہ ملے اور اگر وہ کسی کی سفارش کرے، تو اس کی سفارش نہ مانی جائے۔“
امام ابن جوزی فرماتے ہیں: ”مقصد یہ ہے کہ اس کا تذکرہ نہیں کیا جاتا، اور نہ اسے بالادستی پسند ہے۔ جس چیز میں بھی اسے لگا دیا جائے اسی میں لگا رہتا ہے۔“
منصب اور شہرت کی محبت سلف کے درمیان ایسی بیماریاں تھیں جس میں مبتلا ہونے سے وہ ازحد درجہ ڈرتے تھے کیونکہ انہیں علم تھا کہ وہ ان کے مطلوب مقاصد میں حائل ہے۔ لیکن ہمارے زمانے میں یہی ایک دوسرے سے آگے نکلنے کا میدان بن چکی ہیں، اور ازحد درجہ مطلوب اور دل چسپ چیزیں بن چکی ہیں۔
امیر المومنین حضرت علی نے فرمایا:
خَفْقَ النِعَال مُفْسِدَةٌ لِقُلُوبِ نَوْكَى الرِّجَالِ
”(پیچھے چلنے والے لوگوں کی) قدموں کی آہٹ بیوقوف مردوں کے دلوں کے فساد کا باعث ہے۔“
امام سفیان ثوری نے عباد بن عباد کو خط لکھا کہ:
”خبردار! منصب کی محبت سے دور رہو۔ انسان میں منصب کی محبت سونے چاندی کی محبت سے زیادہ ہوتی ہے۔ یہ ایسا پوشیدہ دروازہ ہے جسے علماء میں سے صرف صاحبِ بصیرت ہی دیکھ پاتا ہے۔“
حضرت سفیان نے یہ بھی فرمایا:
”جسے منصب سے محبت ہو وہ اپنے سر کو ٹکرانے کے لیے تیار کر لے۔“
مقصد حضرت کا یہ ہے کہ منصب کے محبت کی وجہ سے اس کے حصول میں حریف پیدا ہوتے ہیں اور حریفوں کے درمیان جھگڑے اور تنازعے پیدا ہوتے ہیں۔ اصحابِ سلوک کے یہاں یہ مہلک خواہش ہے اور زمینی صورت حال بہترین دلیل ہے کہ زعماء کا انجام قتل ہوتا ہے۔
اسحاق بن خلف فرماتے ہیں:
”اللہ لا الہ الا ہو کی قسم! بڑے پہاروں کو ہٹانا منصب کو ہٹانے سے آسان ہے۔“
حضرت ابو نعیم فرماتے ہیں:
”واللہ! ہلاکت میں پڑنے کی وجہ منصب سے محبت کے علاوہ کچھ نہیں۔“
امام فضیل بن عیاض نے فرمایا:
”جسے بھی منصب سے محبت ہے اس سے لوگ حسد اور بغض کرتے ہیں۔ وہ لوگوں کے عیب کے پیچھے پڑا رہتا ہے اور اسے کسی کا ذکرِ خیر برا معلوم ہوتا ہے۔“
امام ابو داؤد سجستانی فرماتے ہیں:
”پوشیدہ خواہشِ نفس حب منصب ہے۔“
بعض سلف فرماتے تھے:
” صدیقوں کے دل سے (بھی) آخری نکلنے والی چیز منصب کی محبت ہوتی ہے۔“
امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
”زیادتی اور ظلم کی بنیاد حب منصب ہے۔“
اور یہ بھی فرمایا:
”بہت سے لوگوں کے دلوں میں حب منصب گھر کرچکا ہوتا ہے لیکن اسے اس کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ وہ اپنی عبادت میں مخلص ہوتا ہے لیکن اسے اپنے عیوب کا علم نہیں ہوتا۔“
جسے منصب سے محبت ہو وہ اسے ڈھونڈتا پھرتا ہے۔ اگر اسے وہ مرتبہ اور منزلت نہ دی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ مجاہدین پر نقد کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اور معمولی حجت کی بنا پر ان کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ حالانکہ قوی حجت یہ ہے کہ اس کی خفیہ خواہش پوری نہیں کی گئی۔ جیسا کہ حدیث میں آیا: ” اسے اگر دیا جائے تو مسرور ہوتا ہے اور اگر نہ دیا جائے تو ناخوش ہوجاتا ہے“۔
امام ابن رجب فرماتے ہیں: ”حبِ جاہ کی باریک آفتوں میں سے منصب کی طلب اور حرص ہے۔ یہ پوشیدہ پہلو ہے۔ اسے صرف اللہ سے محبت کرنے والے عارف باللہ علماء جانتے ہیں، جن سے جاہل انسان دشمنی برتتے ہیں۔ وہ جو اللہ تعالیٰ کی ربوبیت و الوہیت میں شریک ہونا چاہتے ہیں، حالانکہ وہ اللہ اور اللہ کے خاص عارفین بندوں کے نزدیک حقیر اور گری ہوئی منزلت کے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ حسن نے فرمایا: چاہے سواریاں انہیں عمدہ طریقے سے اٹھائے پھریں لیکن گناہ کی ذلت ان کے گردنوں میں لٹکی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ بالضرور اپنی نافرمانی کرنے والوں کو ذلیل کریں گے۔“
امام ابن قیم نے روح میں لکھا ہے:
”منصب کے طالب اس کے پیچھے لگے رہتے ہیں تاکہ زمین میں بالادستی اور لوگوں کے دلوں پر گرفت اور دلوں کا ان کی طرف میلان جیسے اپنے مقاصد پورے کر سکیں۔ وہ لوگوں پر اونچا اور زور آور ہونے کے باوجود لوگوں کی ضروریات پوری کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ اس طلب سے اتنے مفاسد پیدا ہوتے ہیں جنہیں صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ جیسے کہ زیادتی، حسد، سرکشی، بغض، ظلم، فتنہ، اللہ کے حق کے بجائے اپنے آپ کی طرفداری، جسے اللہ ذلیل کرے اس کی تعظیم کرنا، جسے اللہ با عزت کرے اسے ذلیل سمجھنا۔ دنیاوی منصب تو ایسے ہی ہوتا ہےاور ایسے ہی بلکہ اسے کئی گنا زیادہ مفاسد سے ہی حاصل کیا جاتا ہے۔ اور زعماء اس سے اندھے ہوتے ہیں۔ جب پردہ اٹھایا جائے گا تب انہیں معلوم ہو گا کہ وہ کتنے فساد میں تھے۔ قیامت کے دن انہیں ذرات کی شکل میں بنایا جائے گا جنہیں لوگ ان کی توہین اور تذلیل کے لیے روندتے جائیں گے۔ جیسے انہوں نے اللہ کے حکم کو ہیچ جانا اور اللہ کے بندوں کو حقیر جانا۔“
ابن عبد البر نے (شعر )فرمایا:”حب منصب ایسی بیماری ہے جو دنیاداری پیدا کرتی ہے اور آپس میں محبت کرنے والوں میں جنگ برپا کرتی ہے۔ یہ گردنیں کاٹتا ہے اور رشتوں کو پامال کرتا ہے۔ ایسے شخص میں نہ تو انسانیت باقی رہتی ہے اور نہ دین۔“
اور کہا گیا (شعر): ”حب منصب ایسی بیماری ہے جس کا علاج نہیں۔ اور بہت کم لوگ اپنے نصیب پر راضی ہوتے ہیں۔“
ابو العتاہیہ نے کہا (شعر): ”اے میرے بھائی! میں حب منصب سے ڈرتا ہوں کہ وہ غالب نہ آ جائے اور پھر بدعت اور گمراہی پیدا کرنا شروع کر دے۔“
(جاری ہے، ان شاء اللہ)