استغفار کے ثمرات | پہلا حصہ

الحمدلله وكفى وسلام على عباده الذين اصطفى أما بعد

قفال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ’’من لزم الاستغفار جعل الله له من كل ضيق مخرجا ومن كل هم فرجا ورزقه من حيث لا يحتسب‘‘. (سنن ابن ماجة)

مشکوٰۃ شریف سے ایک حدیثِ پاک آپ حضرات کو سنائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں بزبانِ رسالتﷺ اپنےخطاکار اور گناہ گار بندوں کے لیے ایک عظیم نعمت اور عظیم تدبیر عطا فرمائی ہے کہ اگر تم سے کچھ خطائیں ہوتی رہتی ہیں اور یقیناً كل بنى آدم خطاء، تم سب کے سب کثیر الخطاء ہو جیسے کہ اس کی شرح ملا علی قاری نے فرمائی ہے کہ خطاء کے معنیٰ ہیں کثیر الخطاء، لیکن کثرتِ خطا کا علاج کیا ہے؟ کثرتِ خطا کا علاج کثرتِ استغفار و توبہ ہے، جیسا مرض ویسی دوا۔ لہٰذا فرمایا:

كل بنى آدم خطاء وخير الخطائين التوابين. (جامع الترمذی)

بہترین خطاکار وہ ہے جو کثیر التوبہ ہے۔ لیکن توبہ کی شرائط کیا ہیں؟ اور توبہ کب قبول ہوتی ہے؟ اس کی تین شرطیں محدثین نے بیان کی ہیں۔

شیخ محی الدین ابو زکریا نوویؒ نے شرحِ مسلم میں فرمایا کہ توبہ کی قبولیت کی تین شرطیں ہیں:

۱۔ یہ کہ اس گناہ سے الگ ہوجائے۔ بعض لوگ بے پردہ عورتوں کو دیکھتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں لا حول ولا قوة إلا بالله…… مولانا! ذرا دیکھیے کیا بے پردگی ہے! لاحول بھی پڑھ رہے ہیں اور دیکھتے بھی جارہے ہیں، تو ایسا لاحول خود ان پر پڑتا ہے۔ ایسا استغفار دوسرے استغفار کا محتاج ہے، اس لیے توبہ جب قبول ہوتی ہے کہ اس گناہ سے انسان علیحدہ ہوجائے۔

۲۔ اور دوسری شرط یہ ہے کہ اس گناہ پر ندامتِ قلب بھی ہو، شرمندگی ہو۔ ندامت کی حقیقت تألم القلب ہے کہ قلب میں الم پیدا ہوجائے، جیسا کہ صحابۂ کرامؓ کے بارے میں آپ حضرات جانتے ہیں کہ جب انہیں پتا چل گیا کہ اللہ تعالیٰ و رسولﷺ ہم سے ناراض ہیں تو قرآن پاک اعلان کرتا ہے، ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ…… ساری کائنات ان پر تنگ ہوگئی اور، وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ اَنْفُسُھُمْ…… اور وہ اپنی جانوں سے بیزار ہوگئے۔ اور یہ محبت کے حقوق میں سے ہے، جس سے زیادہ محبت ہوتی ہے اس کی ناراضگی سے ایسا ہی اثر ہونا چاہیے۔ پس اگر گناہ ہوجائے تو اللہ کی ناراضگی اور غضب کے ساتھ کوئی چیز اچھی نہ لگے، بال بچے بھی اچھے نہ لگیں، کھانا پینا بھی اچھا نہ لگے، مکان بھی اچھا نہ لگے، ساری دنیا اس کی نگاہوں میں تنگ پڑجائے اور اپنی جان سے بیزار ہوجائے، جب تک کہ دو رکعت صلوٰۃ التوبہ پڑھ کر اشکبار آنکھوں سے استغفار و توبہ کرکے اللہ تعالیٰ کو راضی نہ کرے۔ حالتِ نافرمانی میں اور حالتِ اصرار علی الذنب میں دنیا کی نعمتوں کو برتنا شرافتِ عبدیت کے خلاف ہے۔ بدایوں کا ایک شاعر تھا جس کو اپنی بیوی سے بہت محبت تھی۔ محبت کے حق پر ایک شاعر کا شعر اور ذوق پیش کرتا ہوں۔ وہ ظالم کہتا ہے:

ہم نے فانی ڈوبتے دیکھی ہے نبضِ کائنات
جب مزاجِ یار کچھ برہم نظر آیا مجھے

یعنی میری بیوی جو ذرا سی ناراض ہوگئی تو مجھے ساری کائنات کی نبض ڈوبتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ لو بھائی! اپنی ہی نبض ڈوبتی ہوئی نہیں معلوم ہوئی، بلکہ کہتا ہے کہ ساری کائنات اندھیری نظر آرہی ہے۔ تو معلوم ہوا کہ محبت کے حقوق میں سے یہ ہے کہ محبوب کی ناراضگی سے ایسا حال ہوجاوے، اور یہ محبت تو مجازی اور چند دن کی محبت ہے اور عارضی و فانی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا حق ہم پر کتنا ہے، اس کو تو ہم بیان بھی نہیں کرسکتے۔ ہماری رگِ جان سے بھی وہ قریب تر ہیں۔ ہمارا وجود اللہ تعالیٰ کے فضل سے موجود ہوا۔ ہماری دنیا و آخرت کے سارے مسائل اللہ تعالیٰ سے متعلق ہیں۔ اگر ساری دنیا ہماری تعریف کرے تو اس تعریف سے ہمارا کچھ بھلا نہ ہوگا جب تک کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن یہ نہ فرما دیں کہ میں تم سے راضی ہوگیا۔ علامہ سید سلیمان ندویؒ کا شعر یاد آیا۔ فرماتے ہیں کہ دنیا میں اگر بہت سے لوگ تمہاری تعریف کریں تو تم اپنی قیمت نہ لگا لینا، کیونکہ غلاموں کے قیمت لگانے سے غلام کی قیمت نہیں بڑھتی، غلاموں کی قیمت مالک کی رضا سے بڑھتی ہے۔ لہٰذا سید سلیمان ندویؒ فرماتے ہیں:

ہم ایسے رہے یا کہ ویسے رہے
وہاں دیکھنا ہے کہ کیسے رہے

یہاں ہماری خوب تعریفیں ہورہی ہیں، لیکن وہاں ہماری قیمت کیا ہوگی یہ قیامت کے دن معلوم ہوگا۔ اور ان کا دوسرا شعر بھی سنائے دیتا ہوں، کیوں کہ عارضی حیات سے بعض وقت آدمی کو دھوکا لگ جاتا ہے۔ فرماتے ہیں:

حیاتِ دو روزہ کیا عیش و غم
مسافر رہے جیسے تیسے رہے

کیونکہ جسے دنیا کا عیش حاصل ہو، ضروری نہیں ہے کہ اس کے قلب میں بھی عیش ہو۔ مولانا جلال الدین رومیؒ فرماتے ہیں:

ازبروں چوں گورِ کافر پُر حلل
واندروں قہرِ خدائے عزوجل

اگر کسی کافر بادشاہ کی قبر پر سنگِ مرمر لگادیا جائے اور دنیا بھر کے سلاطین آکر وہاں پھولوں کی چادر چڑھا دیں اور بینڈ باجے بج جائیں اور فوج کی سلامی ہو، لیکن

واندروں قہرِ خدائے عزوجل

قبر کے اندر جو اللہ کا عذاب ہورہا ہے اس کی تلافی قبر کے اوپر کے سنگِ مرمر نہیں کرسکتے اور اوپر کی روشنیاں اور بجلیاں اور دنیا والوں کے سلوٹ اور سلامی کچھ مفید نہیں ہے۔ اس لیے اگر اللہ تعالیٰ کو راضی نہیں کیا، چاہے ائیرکنڈیشن میں بیٹھے ہوں، بیوی بچے بھی ہوں اور خوب خزانہ ہے، ہر وقت ریالوں گنتی ہو رہی ہے اور بینک میں بھی کافی پیسہ جمع ہے، لیکن یہ ظاہر کا آرام ہے۔ یہ جسم ایک قبر ہے، جسم کے اوپر کا ٹھاٹ باٹ دل کے ٹھاٹ باٹ کے لیے ضروری نہیں۔ ائیرکنڈیشن ہماری کھالوں کو تو ٹھنڈا کرسکتے ہیں، مگر دل کی آگ کو نہیں بجھا سکتے۔ اگر اللہ تعالیٰ ناراض ہیں تو جسم لاکھ آرام میں ہو، لیکن دل عذاب میں مبتلا رہے گا اور چین نہیں پاسکتا۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں:

دل گلستاں تھا تو ہر شے سے ٹپکتی تھی بہار
دل بیاباں ہوگیا عالم بیاباں ہوگیا

اگر دل میں بہار ہے تو باہر بھی بہار ہے اور اگر دل ویران ہے سارا عالم ویران ہے۔ مولانا جلال الدین رومیؒ فرماتے ہیں:

آں یکے در کُنج مسجد مست و شاد

ایک شخص مسجد کی ٹوٹی ہوئی چٹائی پر مست ہے۔ محبت و اخلاص سے اللہ کا نام لے رہا ہے۔ اللہ کہنے میں اس کو اتنا مزہ آتا ہے کہ گویا ساری کائنات کی لذت کا کیپسول اس کے دل میں داخل ہوگیا۔ مولانا رومی فرماتے ہیں:

نامِ بر چوبر زبانم می رود
ہر بُن مو از عسل جوئے شود

فرماتے ہیں جب میں اللہ کا نام لیتا ہوں، جب میری زبان سے اللہ نکلتا ہے تو میرے بال بال شہد کا دریا ہوجاتے ہیں، اس کی دلیل دیوانِ شمس تبریز میں دیتے ہیں۔ دیوانِ شمس تبریز کے نام سے جو دیوان لکھا ہے، وہ مولانا رومیؒ ہی کا کلام ہے، لیکن اپنے شیخ کی طرف منسوب کردیا۔ فرماتے ہیں:

اے دل ایں شکر خوشتر یا آنکہ شکر سازو

اے دل! یہ چینی زیادہ میٹھی ہے یا چینی کا پیدا کرنے والا زیادہ میٹھا ہے؟ اگر اللہ تعالیٰ گنوں میں رَس نہ پیدا کریں تو سارے گنے مچھر دانی کے ڈنڈوں کے بھاؤ بک جائیں، کوئی انہیں پوچھے گا بھی نہیں۔ اور فرماتے ہیں:

اے دل ایں قمر خوشتر یا آنکہ قمر سازو

یہ چاند زیادہ حسین ہے یا جس نے چاند میں حسن پیدا فرمایا ہے وہ زیادہ حسین ہے؟ اس لیے اللہ تعالیٰ کی محبت جب اللہ والوں کو مل گئی تو شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے دہلی کی جامع مسجد کے منبر سے سلاطینِ مغلیہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اے سلاطینِ مغلیہ! دیکھو، ولی اللہ سینے میں ایک دل رکھتا ہے اور اس دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت کے کچھ جواہرات ہیں۔ بڑے بکس میں ایک چھوٹا صندوقچہ ہوتا ہے اور چھوٹے صندوقچہ کی قیمت سے اس بڑے بکس کی قیمت لگتی ہے، اگر بڑے بکس میں روئی اور گدڑی اور بچوں کے پیشاب پاخانہ کے کپڑے بھرے ہوئے ہیں تو اس کی کوئی قیمت نہیں۔ اس کی حفاظت بھی نہیں کی جاتی، لیکن اگر کسی بڑے بکس میں ایک چھوٹا صندوقچہ ہے، جس میں ایک کروڑ کا کوئی موتی رکھا ہوا ہے تو وہاں سنتری اور پہرے دار بھی ہوتا ہے، چھوٹے صندوقچہ کی وجہ سے بڑے بکس کی بھی حفاظت کی جاتی ہے، لہٰذا ہمارے قلب میں اگر اللہ تعالیٰ کی محبت، ایمان اور تقویٰ جیسی نعمتیں حاصل ہیں تو ہمارے ظاہر کی بھی حفاظت کی جائے گی۔

آج ہم کو اِشکال ہوتا ہے کہ ہم اسرائیل سےکیوں پِٹ گئے؟ ہندوستان میں ہمارے ساتھ کیا ہورہا ہے؟ دنیا بھر میں مسلمان کیوں ذلیل ہورہے ہیں؟ تو اصل بات یہ ہے کہ ہمارے پاس صرف بڑے بکس ہیں اور پہلے سے بہت شاندار ہیں۔ صحابہ کرامؓ کے ظاہر سے ہمارا ظاہر کہیں زیادہ مزین ہے، لیکن ان کے باطن میں جو قیمتی موتی تھا، آج ہمارے قلب اس سے خالی ہیں اور آج اس کی ہمیں ضرورت ہے، اور وہ کیا ہے؟ تعلق مع اللہ! اللہ تعالیٰ کی محبت، خشیت اور تقویٰ ہے۔ اسی کو شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلویؒ نے فرمایا تھا:

دلے دارم جواہر پارۂ عشق است تحویلش
کہ دارد زیرِ گردوں میر سامانے کہ من دارم

اےسلاطینِ مغلیہ! ولی اللہ اپنے سینے میں ایک دل رکھتا ہے، اس میں اللہ تعالیٰ کی محبت کے کچھ موتی اور جواہرات ہیں۔ آسمان کے نیچے اگر مجھ سے زیادہ کوئی امیر ہو تو سامنے آئے۔ یہ ہیں اللہ والے کہ جب اللہ کی محبت عطا ہوجاتی ہے تو سلاطین کو خاطر میں نہیں لاتے۔ حافظ شیرازیؒ فرماتے ہیں:

چو حافظ گشت بے خود کے شمارد
بیک جو مملکت کاؤس و کے را

جب حافظ شیرازی اللہ کے نام سے مست ہوتا ہے اور عرشِ اعظم سے بوئے قرب آتی ہے:

بوئے آں دلبر چوں حیراں شود

جب محبوبِ حقیقی کی خوشبو عرشِ عظیم سے زمین پر آتی ہے تو اولیا اللہ اور ان کے غلاموں کو کیا ہوتا ہے؟ اس وقت ان کا حال یہ ہوتا ہے:

ایں زبانہا جملہ حیراں می شود

جتنی زبانیں ہیں عربی، فارسی، ترکی، انگریزی اللہ تعالیٰ کی محبت غیرمحدود کی لذت کو یہ زبان مخلوق اور محدود اس کی تعبیر کرنے سے قاصر ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا حافظ شیرازیؒ نے فرمایا:

چو حافظ گشت بے خود کے شمارد
بیک جو مملکت کاؤس و کے را

جب حافظ شیرازی اللہ تعالیٰ کی محبت سے مست ہوتا ہے تو کاؤس و کے کی سلطنتوں کو خاطر میں بھی نہیں لاتا، اور ایران کی سلطنتوں کو ایک جَو کے عوض میں خریدنے کے لیے تیار نہیں۔ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کو شاہِ سنجر نے لکھا تھا کہ میں آپ کی خانقاہ پر ملک نیمروز وقف کرنا چاہتا ہوں، تو آپ نے اس کو لکھ بھیجا:

چوں چترِ شنجری رُخِ بختم سیاہ باد
گر در دلم بود ہوسِ ملک سنجرم

مثلِ شاہِ سنجر کی چھتری کے میرا نصیبہ بھی سیاہ ہوجائے اگر تیری سلطنت کی ہوس و لالچ مجھے ہو۔ فرماتے ہیں:

زانگہ کہ یافتم خبر از ملکِ نیم شب

جب سے مجھے آدھی رات کی سلطنت مل گئی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت اور تہجد کا سجدہ نصیب ہوگیا ہے جیسا کہ مولانا جلال الدین رومیؒ فرماتے ہیں کہ ایک سجدہ کی لذت اگر مل جائے تو مثل ابراہیم بن ادہمؒ کے تم سلطنت کو چھوڑ دو گے۔

سبحان ربى الاعلیٰ میں اللہ تعالیٰ نے ’ی‘ لگوادیا کہ چلتے پھرتے تو سبحان اللہ کہو، لیکن سجدے میں چونکہ انتہائی قرب ہے اور علیٰ قدمی الرحمٰن تمہارا سر ہے، لہٰذا اب اپنا رشتہ ظاہر کرو کہ ہم تمہارے کیا لگتے ہیں، کہو کہ آپ میرے ربّا ہیں۔ سبحان ربى الاعلیٰ، پاک ہے میرا ربّ جو بہت اعلیٰ ہے۔ اسی کو شیخ عبدالقادر جیلانیؒ فرماتے ہیں:

زانگہ کہ یافتم خبر از ملک نیم شب
من ملکِ نمروز بیک جو نمی خرم

یعنی جب سے مجھے آدھی رات کی سلطنت کی خبر ملی ہے تو تمہاری سلطنت کو میں ایک جَو کے عوض خریدنے کے لیے تیار نہیں۔

حضرت مولانا شاہ فضل رحمٰن صاحب گنج مراد آبادیؒ نے حضرت تھانویؒ سے فرمایا تھا کہ میاں اشرف علی! جب میں سجدہ کرتا ہوں تو مجھے اتنا مزہ آتا ہے کہ جیسے رب اللہ تعالیٰ نے میرا پیار لے لیا، اور جب تلاوت کرتا ہوں تو اتنا مزہ خدا مجھے دیتا ہے کہ تمہیں اگر وہ مزہ مل جائے تو کپڑے پھاڑ کر جنگل میں بھاگ جاؤ۔ اور فرمایا جنت میں جب میرے پاس حوریں آئیں گی تو میں ان سے کہوں گا کہ بی! اگر قرآن سننا ہو تو بیٹھو، ورنہ اپنا راستہ لو۔ دیکھو ہم لوگ کیا سوچ رہے ہیں اور اہل اللہ کیا سوچتے ہیں؟ ہماری سوچ میں اور ان کی سوچ میں کتنا فرق ہے! یہ عاشق ذاتِ حق ہیں۔ ایک سرکاری تنخواہ دار مولوی جو ریاست رام پور سے تنخواہ لیا کرتے تھے، شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت شاہ فضل رحمٰن صاحبؒ بخاری کا درس دے رہے تھے، درمیان میں ذرا ساموقع ملا تو جلدی سے بول پڑے کہ حضرت! نواب رام پور نے کہا ہے کہ اگر آپ ریاست میں آئیں تو میں آپ کو ایک لاکھ روپیہ نذرانہ پیش کروں گا۔ حضرت شاہ صاحبؒ کو بہت رنج ہوا۔ فرمایا کہ ارے مولوی صاحب! لاکھ روپے پر ڈالو خاک، میں جو بات کہہ رہا ہوں اس کو سنو۔ پھر شاہ صاحب نے یہ شعر پڑھا:

جو دل پر ہم اس کا کرم دیکھتے ہیں
تو دل کو بہِ از جامِ جم دیکھتے ہیں

یعنی ہم اپنے قلب پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کی جو بارش دیکھتے ہیں تو ہمارا قلب نوابوں کی ریاست اور لاکھوں روپوں سے بے نیاز ہے، کیونکہ فیل بان جس سے دوستی کرتا ہے تو مع ہاتھی کے آتا ہے، اس لیے اس کا دروازہ بھی بڑا بنا دیتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ جس کے قلب کو اپنا نورِ خاص، تجلی خاص، قرب خاص عطا کرتے ہیں اس کے دل کو بہت بڑا بنا دیتے ہیں۔ مولانا رومیؒ فرماتے ہیں:

ظاہرش راپشۂ آردبہ چرخ
باطنش باشد محیط ہفت چرخ

کسی ولی اللہ کا ظاہر تو اتنا کمزور ہوسکتا ہے کہ اگر مچھر کاٹ لے تو ناچنے لگے، لیکن اس کا باطن ساتوں آسمان کی گردش کو اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ ڈاکٹر عبدالحی صاحبؒ کا ایک شعر یاد آیا۔ فرماتے ہیں:

جب کبھی وہ ادھر سے گزرے ہیں
کتنے عالَم نظر سے گزرے ہیں

اور اسی کو جگر مراد آبادی نے یوں تعبیر کیا ہے:

کبھی کبھی تو اسی ایک مشتِ خاک کے گرد
طواف کرتے ہوئے ہفت آسماں گزرے

تو میں یہ عرض کررہا ہوں دوستو! کہ اللہ تعالیٰ کے نام میں لذت اور مٹھاس اس قدر ہے کہ زبان اس کی تعبیر سے قاصر ہے۔ تھانہ بھون میں ایک بزرگ تھے سائیں توکل شاہ۔ حضرت حکیم الامت تھانویؒ سے کہتے تھے کہ حضرت جی! مجھے اللہ کے نام میں اتنا مزہ آوے ہے کہ میرا منہ میٹھا ہوجاوے ہے (یہ تھانہ بھون کی زبان ہے)۔ پھر فرمایا کہ اللہ کی قسم! میرا منہ میٹھا ہوجاوے ہے۔

شیخ محی الدین ابو زکریا نوویؒ نے حلاوتِ ایمانی کی شرح کرتے ہوئے فرمایا کہ حلاوتِ ایمانی اللہ تعالیٰ پر ہر اس شخص کو عطا فرماتے ہے جو ان اعمال کو اختیار کرتا ہے جن پر حلاوتِ ایمانی کا وعدہ ہے۔ مثلاً اہل اللہ سے محبت رکھنا، بدنظری سے اپنی حفاظت کرنا وغیرہ یعنی جن اعمال پر حلاوتِ ایمانی کے وعدے وارد ہیں، ان سب کے سبب قلب کو اللہ تعالیٰ حلاوتِ ایمانی عطا فرماتے ہیں، لیکن بعض لوگوں کو حلاوتِ حسیہ بھی عطا کردیتے ہیں، یعنی ان کے منہ میں بھی مٹھاس محسوس ہوجاتی ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے، جس کو چاہیں عطا فرما دیں، لیکن قلب تو ہر ایک کا اس حلاوت کو پاہی جاتا ہے، قلب کے اندر ایک سکون فوراً ہر ایک کو مل جاتا ہے۔

تو میرے دوستو اور عزیزو! میں یہ عرض کررہا ہوں کہ ظاہر کے عیش کی جتنی فکر ہے، اس سے زیادہ ہمیں اپنے قلب کو باخدا بنانے کی فکر ہونی چاہیے اگر چین سے رہنا ہے، ورنہ ائیرکنڈیشن میں افکار و پریشانی اور مصیبتوں سے دل گرم رہے گا۔ ہزاروں لاکھوں ریالوں میں قلب افکار کی لاتوں اور گھونسلوں سے غمزدہ، مشوس اور پریشان رہے گا۔ اس لیے کہ ظاہر کا عیش باطن کے عیش کے لیے ضروری نہیں۔ چناں چہ مولانا جلال الدین رومیؒ فرماتے ہیں:

آں یکے در کُنج مسجد مست و شاد
واں یکے درباغ ترش و نامراد

ایک شخص مسجد میں چٹائی پر مست ہے اور ایک باغ میں ہے، چاروں طرف پھول ہیں، لیکن غموں کے کانٹوں سے غمگین و نامراد ہے۔ یہ پھولوں میں رو رہا ہے اور وہ کانٹوں میں ہنس رہا ہے۔ اب کوئی کہے کہ یہ تو اجتماعِ ضدین ہے۔ غم میں اللہ تعالیٰ کیسے خوش کردیتا ہے؟ تو میں کہتا ہوں کہ کیوں صاحب! یہ واٹر پروف گھڑیاں جو سوئٹزرلینڈ بنارہا ہے، چاروں طرف پانی ہے، مگر پانی اثر کیوں نہیں کر رہا؟ یہ کیوں واٹر پروف ہے؟ اللہ اپنے عاشقوں کے قلب کو بھی غم پروف کردیتا ہے۔ جس کے دل پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور نظر عنایت ہوتی ہے ہزاروں غم میں بھی وہ خوش اور بے غم رہتا ہے۔ وہ غم اس کی اصلاح اور تربیت کے لیے ہوتے ہیں، اس کی ایمانی ترقیات کے لیے ہوتے ہیں، مگر اس وقت بھی وہ اندر اندر مست اور خوش رہتا ہے، چاہے وہ رو بھی رہا ہو، آنکھیں اشکبار ہوں غم سے، مثلاً اپنے بچوں کی بیماری سے یا اپنی بیماری سے، مگر اس کے قلب میں پریشانی نہیں گھستی اور اس کی دلیل کیا ہے؟ اس کی دلیل شامی کباب ہے۔ مرچ والا شامی کباب ایک شخص کھا رہا ہے، آنسو بہہ رہے ہیں، ذرا اس سے کوئی کہہ تو دے کہ میاں آپ کچھ مصیبت میں معلوم ہورہے ہیں، یہ شامی کباب چھوڑ دیجیے،آپ بلاوجہ رو رہے ہیں، آپ نہ کھائیے، مجھے دے دیجیے، تو وہ کیا کہے گا کہ دل اندر اندر لذت لے رہا ہے، میں اندر لذت در آمد کررہا ہوں، یہ مزے داری کے آنسو ہیں، یہ غم کے آنسو نہیں ہیں۔

اسی طرح اگر اللہ کو راضی کرلیا جائے، ہر نافرمانی چھوڑ دی جائے، کیوں کہ نافرمانی سے اللہ تعالیٰ کی رحمت دور ہوجاتی ہے، ہر معصیت خدا سے دور کرتی ہے، معصیت کی خاصیت ہے کہ چھوٹے سے چھوٹا گناہ بھی اللہ سے دور کرتا ہے اور نیکی کی خاصیت ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی اللہ سے قریب کرتی ہے، لہٰذا جتنے گناہ ہیں ان کو زہر سمجھ کر چھوڑ دیا جائے اور صالحین کی صحبت میں رہا جائے اور اللہ کا نام لیا جائے تو اللہ قلب کو غم پروف کردیتا ہے۔ ایسا شخص دنیا میں ہر وقت مست و شاد رہتا ہے، جتنے بھی غم ہیں وہ دل کے باہر ہی باہر رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی نظرِ عنایت جب کسی پر ہوتی ہے اور اللہ چاہتا ہے کہ میں اس بندے کو خوش رکھوں تو دنیا کے حوادث اس کو غمگین نہیں کرسکتے۔ اب مولانا جلال الدین رومیؒ کا شعر سنیے، وہ فرماتے ہیں:

گراوخواہد عین غم شادی شود
عین بندِ پائے آزادی شود

اگر اللہ تعالیٰ فیصلہ کرلے کہ میں اس بندے کو خوش رکھوں تو غم کی عینیتِ مصطلحہ یعنی اصطلاحاً جو عینیت ہے، یعنی غم کی ذات کو اللہ تعالیٰ خوشی بنادیتا ہے (یہ حضرت حکیم الامتؒ کی شرح ہے کلید مثنوی دفتر ششم میں)۔ دنیا والے تو غم کو ہٹائیں گے اور خوشی کے اسباب لائیں گے، آگ کو ہٹائیں گے اور پانی لائیں گے، لیکن اللہ تعالیٰ اجتماعِ ضدین پر قادر ہے، وہ آگ کو پانی بنادیتا ہے اور غم کی ذات کو خوشی بنادیتا ہے اور پاؤں کی بیڑی اور قید کو آزادی بنادیتا ہے۔

چناں چہ سیدنا یوسف علیہ السلام جب قیدخانہ میں ڈالے گئے تو انہوں نے کیا فرمایا؛ رب السجن احب الى…… اے میرے رب! یہ آپ کی راہ کا قید خانہ ہے، آپ کی وجہ سے قید خانے جارہا ہوں اور جہاں آپ ہوں، خالق گلستاں جہاں ہو وہ قیدخانہ نہیں رہتا، وہ مجھے احب ہے۔ اسی کو میں عرض کیا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ایسے پیارے ہیں، اتنے محبوب ہیں کہ جن کی راہ کے قید خانے ہوتے احب ہیں ان کی راہ کے گلستاں کیسے ہوں گے۔

دوستو! اگر خدا کی راہ میں نظر کی حفاظت کرنے میں، گناہ کے چھوڑنے میں ایک کانٹا بھی چبھ جائے اور دل میں غم پیدا ہوجائے تو واللہ! ساری دنیا کے پھول اگر اس کانٹے کو سلامی پیش کریں تو اللہ تعالیٰ کی راہ کے کانٹوں کی عظمت کا حق ساری دُنیا کے پھول اپنی سلامی سے ادا نہیں کرسکتے۔ خدا کی نافرمانی چھوڑنے میں جو دل کو غم آیا ہے، ساری دنیا کی خوشیاں اگر اسے سلام کریں تو اس غم کی عظمت کا حق ادا نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے راستے کا کانٹا ہے، خدا کے راستے کا غم ہے، اس کی قیمت کچھ نہ پوچھو، اس کی قیمت انبیا اور اولیا کی جانیں سمجھتی ہیں۔ اس لیے وہ ہر حال میں مست و شاد رہتے ہیں کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو راضی کرلیا اس لیے اللہ تعالیٰ بھی ان کے دل کو ہر وقت خوش رکھتا ہے، پریشانی اور غم ان کے دل تک نہیں پہنچ سکتے، باہر باہر رہتے ہیں۔ خوشی اور غم دونوں کیسے جمع ہوسکتے ہیں اور کانٹوں کے ساتھ دل کیسے مسکرا سکتا ہے؟ اس پر میرا ایک شعر ہے:

صدمہ و غم میں مرے دل کے تبسم کی مثال
جیسے غنچہ گِھرے خاروں میں چٹک لیتا ہے

اگر کلیوں کو یہ نعمت مل سکتی ہے کہ وہ کانٹوں میں کھل جائیں تو کیا اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اپنے خاص بندوں کے قلوب کو تسلیم و رضا کی برکت سے عین غم کی حالت میں خوش نہیں رکھ سکتا؟ میرا ایک شعر ہے:

اس خنجرِ تسلیم سے یہ جانِ حزیں بھی
ہر لحظہ شہادت کے مزے لوٹ رہی ہے

جس حالت میں اللہ رکھے، بندے کا کام ہے کہ راضی رہے۔ پھر ان شاء اللہ تعالیٰ تسلیم و رضا کی برکت سے وہ ہر حال میں خوش رہے گا۔ مجھے اپنا ایک شعر اور یاد آیا:

زندگی پُر کیف پائی گرچہ دل پُر غم رہا
اُن کے غم کے فیض سے میں غم میں بھی بے غم رہا

یہ تسلیم و رضا بہت بڑی چیز ہے۔ حکیم الامت تھانویؒ نے میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحبؒ سے پوچھا تھا کہ بتاؤ! اخلاص سے اونچا کیا مقام ہے؟ حضرت نے عرض کیا کہ مجھے نہیں معلوم، فرمایا کہ تسلیم و رضا، اللہ تعالیٰ کی قضا پر راضی رہنا۔ اس تسلیم سے بہت بڑا انعام ملتا ہے۔ علامہ سید سلیمان ندویؒ نے فرمایا:

ترے غم کی جو مجھ کو دولت ملے
غمِ دو جہاں سے فراغت ملے

اللہ تعالیٰ کا غم بڑا ہی لذیذ ہے۔ میاں! یہ انبیا اور اولیا کا حصہ ہے۔ خداتعالیٰ اپنے راستے میں آدھی جان لیتا ہے لیکن سینکڑوں جان عطا کرتا ہے:

نیم جاں بستاند و صد جاں دہد
انچہ در و ہمت نیاید آں دہد

اس لیے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت اور معرفت عطا فرمادی وہ سب گناہ چھوڑ دیتے ہیں۔ جگر مراد آبادی نے شراب چھوڑ دی، داڑھی رکھ لی حالانکہ اتنا پیتا تھا کہ مشاعرے میں لوگ اُٹھا کر لے جاتے تھے۔ خود کہتا ہے کہ:

اب ہے روزِ حساب کا دھڑکا
پینے کو تو بے حساب پی لی

لیکن جب اللہ کا خوف آیا توبہ کرلی اور حضرت حکیم الامت سے جاملا، دُعا کرائی کہ حضرت! دعا کردیجیے کہ شراب چھوڑ دوں، حج کر آؤں اور داڑھی رکھ لوں۔داڑھی ایک مشت پوری رکھ لی، شراب چھوڑ دی۔ ڈاکٹروں کے بورڈ نے کہا کہ شراب نہ پی تو مرجاؤ گے۔ کہا کہ مرجاؤں گا، لیکن اگر شراب پیتا رہا تو کب تک زندہ رہوں گا؟ ڈاکٹروں نے کہا کہ دو چار سال اور گاڑی چل جائے گی، فرمایا کہ اللہ کے غضب کے ساتھ جینے سے بہتر ہے کہ جگر اسی وقت شراب چھوڑنے سے مرجائے کیونکہ اس وقت اللہ کی رحمت کے سائے میں جگر کی موت ہوگی، اور اگر پیتا ہوا مروں گا تو اللہ کے غضب کے ساتھ موت آئے گی، اس سے بہتر ہے کہ میں ابھی مرجاؤں۔ پھر اللہ کی رحمت سے جگر صاحب خوب جیے اور خوب اچھی صحت بھی ہوگئی، اور سنت کے مطابق داڑھی رکھنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے ان کی زبان سے ایک شعر کہلادیا:

چلو دیکھ آئیں تماشا جگر کا
سنا ہے وہ کافر مسلمان ہوگا

میرٹھ میں ایک بار یہ تانگے میں بیٹھے ہوئے تھے اور تانگے والا ان کا یہ شعر پڑھ رہا تھا۔ اس ظالم کو خبر نہیں تھی کہ جگر آج داڑھی لیے ہوئے صحیح معنوں میں مسلمان بنا ہوا میرے تانگے میں بیٹھا ہوا ہے۔ جگر اس شعر کو سن کر رونے لگے کہ اللہ! آپ نے اپنی عطا سے پہلے ہی یہ شعر کہلوا دیا اور نافرمانی اور گناہ سے نجات عطا فرمائی۔

تو میرے دوستو! یہ عرض کررہا تھا کہ پاجامہ ٹخنے سے اوپر کرنا، ایک مشت داڑھی رکھنا، بدنظری کو چھوڑنا، غیبت چھوڑنا، اپنے کو سب سے حقیر سمجھنا، یعنی تمام ظاہری و باطنی احکام کو بجا لانا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں اہل اللہ کی صحبتوں کا اہتمام ضروری ہے۔ اہل اللہ کی صحبتوں سے یقین منتقل ہوتا ہے۔ صالحین کی صحبت کی اہمیت بخاری و مسلم کی اس روایت سے ظاہر ہے کہ سو قتل کے مرتکب کو حکم ہوا کہ جاؤ ایک قریۂ صالحہ ہے، وہاں تمہاری توبہ قبول ہوجائے گی۔ سبحان اللہ! اللہ والوں کی یہ شان ہے کہ جس زمین پر وہ اللہ کو یاد کرتے ہیں، سبحان اللہ، الحمدللہ کہتے ہیں، اشکبار آنکھوں سے آنسو گرا دیتے ہیں، اس زمین کو خدا یہ عزت دیتا ہے کہ اس بستی میں سو قتل کرنے والے کی توبہ کی قبولیت کی قید لگ رہی ہے، جبکہ اس قادرِ مطلق، غفار اور تواب کی طرف سے ہر زمین پر یہ مغفرت ممکن تھی لیکن اپنی عنایات اور رحمتِ خاصہ کے ظہور و نزول کے لیے اللہ تعالیٰ نے اہل اللہ کی سرزمین کو تجویز فرمایا۔ اس سے اللہ والوں کی عظمت اور قیمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ علامہ ابنِ حجر عسقلانیؒ نے لکھا ہے کہ صالحین کی بستی کا نام نصرۃ اور گناہوں والی بستی کا نام كفرة تھا اور وہ شخص صالحین کی اس بستی تک پہنچ بھی نہ سکا کہ راستے میں موت آگئی۔ فناء بصدره نحوها…… پس مرتے وقت اپنے سینے کا رخ اس بستی کی طرف کردیا اور اس ادا پر اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل فرما دیا اور کیسے فضل فرمایا؟ عذاب کے فرشتے کہہ رہے تھے کہ اسے ہم لے جائیں گے، کیوں کہ اس بستی تک نہیں پہنچا اور رحمت والے فرشتے کہتے تھے کہ یہ تو اس طرف چل دیا تھا۔ موت تو اس کے اختیار میں نہیں تھی، لہٰذا اسے ہم لے جائیں گے۔ اس اختلاف کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے دوسرا فرشتہ بھیجا۔ اس نے کہا کہ قیسوا ما بینهما…… دونوں بستیوں کے فاصلوں کی پیمائش کرلو اور ادھر صالحین کی بستی کو حکم دیا کہ تقربی…… تو تھوڑی سی قریب ہوجا کہ تجھ پر اہل تقرب رہتے ہیں اور گناہوں والی بستی سے فرمایا تباعدی…… تو دور ہوجا کہ تجھ پر اہل تباعد رہتے ہیں، جو مجھ سے دور ہیں اور اس کا نام محدثین نے فضل فی صورۃ عدل رکھا ہے۔ یہ فضل بصورتِ عدل ہے، یعنی فرشتوں سے تو پیمائش کرارہے ہیں اور کام خود بنارہے ہیں۔ اس پر مولانا شاہ محمد احمد صاحب دامت برکاتہم کا شعر یاد آیا:

حسن کا انتظام ہوتا ہے
عشق کا یوں ہی نام ہوتا ہے

اللہ تعالیٰ کی رحمت کا انتظام تھا، ورنہ وہ بستی دور تھی:

عشق کا یوں ہی نام ہوتا ہے

ارے اگر تھوڑا سا ہم ان کا نام لے لیں اور ان کو استغفار کرکے راضی کرلیں تو مستغفرین بھی متقین کے درجہ میں ہوجائی گے۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭

Exit mobile version