جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں، بنگلہ دیش آج ایک تاریخی دوراہے پر کھڑا ہے۔اس کے افق پر ایک امڈتے طوفان کے سائے دیکھے جا سکتے ہیں۔یہ وقت ہے اپنے لیے کوئی راہ متعین کرنے کا، ایک ایسا راستہ جو اس سرزمین کے باسیوں کو کسی نیک انجام تک پہنچائے۔ اس راستے کا انتخاب و تعین کون کرے گا؟ یہ ذمہ داری ہے علمائے کرام اور اسلامی تحریکوں کے قائدین کی۔
میں اس تحریر میں بنگلہ دیش کی معاشی، سیاسی اور معاشرتی صورتحال کے بعض مزید پہلوؤں کو واضح کروں گا۔ جس کے بعد میری کوشش ہو گی کہ بنگلہ دیش پر ایک تمہیدی نوعیت کا تجزیہ پیش کر دوں، جو شاید آنے والے دنوں کے لیے منصوبہ بندی اور پیش بندی کرنے میں علمائے کرام اور بنگلہ دیش میں موجود اسلامی تحریکوں کے قائدین کے لیے ممد و معاون ثابت ہو سکے۔ یہ تحریر اپنا ربط وہیں سے جوڑتی ہے جہاں اس سے پچھلی تحریر ’بنگلہ دیش ایک دوراہے پر‘(شائع شدہ مجلّہ نوائے غزوۂ ہند: مئی تا جولائی ۲۰۲۲ء) میں گفتگو کا اختتام ہواتھا۔سو قارئین سے درخواست ہے کہ مضمون ہٰذا پڑھنے سے پہلے مضمون’بنگلہ دیش ایک دوراہے پر‘ سے بھی استفادہ کریں۔
بنگلہ دیش آج مسائل ومصائب کے ایک ایسے طوفان میں گھرا ہوا ہے جس کی شدت و تندی وقت کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ان مسائل کی نوعیت ایسی ہےا ور ان سے ایسے اسباب جڑے ہوئے ہیں، کہ مستقبل قریب میں ان کا کوئی حل نظر نہیں آ رہا۔ گو کہ ممکن ہے کہ شدت کے اعتبار سے وقت و حالات کے ساتھ ساتھ ان میں کمی بیشی نظر آتی رہے گی۔
معاشی پریشانیاں
اس وقت بنگلہ دیش کا سب سے اہم اور فوری حل طلب مسئلہ اس کے معاشی و اقتصادی مسائل ہیں۔ ملکی معیشت بحران کا شکار ہے……ایک ایسا بحران جو ہر گزرتے دن کے ساتھ شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔
مہنگائی تاریخی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ اگست ۲۰۲۲ء میں مہنگائی ۹ فیصد سے زیادہ تھی۔ اس سال کے آغاز میں، ایک ڈالر ۸۰.۸۵ ٹکوں کے مساوی تھا۔ اب ستمبر میں، یہ ۷۵۰۰.۱۰۶ ٹکوں کے مساوی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ بنگلہ دیشی کرنسی ایک سال میں ۲۵.۲۳ فیصد قدر کھو چکی ہے۔
اشیائے خوردو نوش اور روز مرّہ استعمال کی چیزوں کی قیمتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔حتیٰ کہ صابن، شیمپو اور ڈٹرجنٹس جیسی معمولی چیزوں کی قیمتوں میں بھی گزشتہ دو ماہ میں ۶۰ فیصد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔عوام ہر جانب سے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور قیمتوں میں اضافے سے نبرد آزما ہیں۔ ایک جانب چیزوں کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور دوسری جانب لوگوں کی قوتِ خرید گھٹتی جا رہی ہے۔
خدشہ ہے کہ مستقبل قریب میں یہ صورتحال مزید خرابی کی طرف جائے گی۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق، ملک تین قسم کے بحرانوں کا شکار ہو سکتاہے۔
پہلا، خوراکی درآمدات میں خاطر خواہ اضافے کی ضرورت پیش آ سکتی ہے جس سے ان اشیاء کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ حتیٰ کہ سدا کی مغرور و متکبر حسینہ بھی اب یہ کہنے پر مجبور ہو گئی ہے کہ ایسا وقت آ سکتا ہے جب لوگوں کو خوراکی مواد دستیاب نہیں ہو گا۔
دوسرا، برآمدات کے نقطۂ نظر سے مصنوعات تیار کرنے والی صنعتوں کی ان مصنوعات کی تیاری کے لیے درکار خام مال کی درآمد پہلے ہی کم ہو گئی ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ و یورپی ممالک میں(جہاں یہ مصنوعات برآمد کی جاتی ہیں)، اقتصادی کساد بازاری کے سبب لوگوں کی قوتِ خرید کم ہو گئی ہے، نتیجتاً بہت سے برآمداتی آرڈر منسوخ کر دیے گئے ہیں جس سے قدرتی طور پر برآمدات سے ہونے والا منافع و آمدن بے حد متاثر ہوئی ہے۔
تیسرا، لوکل کرنسی میں بے تحاشا اضافہ ہو گیا ہے۔اسی کے ساتھ ساتھ صورتحال یہ ہے کہ واجب الادا بیرونی قرضے میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسی صورت میں توقع یہی کی جا سکتی ہے کہ فارن کرنسی اور شرحِ مبادلہ میں پایا جانے والا بحران مزید شدت اختیار کر لے گا۔ مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں ملک مزید فشار تلے آنے والا ہے۔
چوتھا اور آخری نقطہ یہ ہے کہ ملک کے بیشتر بینک عوامی لیگ اور دیگر کرپٹ افسروں کی پھیلائی ہوئی بے تحاشا کرپشن کے باعث کھوکھلے ہو چکے ہیں۔ یہ تمام اسباب اور آنے والی عالمی کساد بازاری بنگلہ دیش کی معیشت کو ما سوائے تباہی کے اور کہاں لے جائے گی؟
سرحدی مشکلات
بنگلہ دیش کو درپیش دوسرا تشویشناک اور نازک مسئلہ سرحدوں پر بھارت اور اب میانمار کی جانب سے بڑھتی ہوئی جارحیت ہے۔ بھارتی سرحدی گارڈ تو معمول میں بھی بنگلہ دیش کے شہریوں پر فائرنگ کرتے رہتے ہیں، اب میانمار بھی بھارت کی تقلید کر رہا ہے۔ اگست کے آخری ہفتے سے میانمار متعدد مرتبہ بنگلہ دیش کی سرحد کے اندر فائرنگ کر چکا ہے۔ ان حملوں میں بارودی گولے، فائٹر جیٹس(جنگی طیاروں) اور ہیلی کاپٹروں کے ذریعے بمباری اور بارودی سرنگوں سے کیے جانے والے حملے شامل ہیں۔
ان حملوں میں کم از کم ایک شخص قتل، جبکہ متعدد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ میانمار کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اراکان آرمی(برمیوں پر مشتمل ایک قومیت پرست مسلّح ملیشیا) اور آرسا (روہنگیا مسلمانوں کا ایک مسلّح گروپARSA: ) کے بنگلہ دیش کے اندر ’مراکز‘(bases)موجود ہیں۔ اور وہ چاہتے ہیں کہ بنگلہ دیش ان کے خلاف تحقیق و تفتیش اور انہیں ختم کرنے کے حوالے سے فوری اقدامات اٹھائے۔
شیخ حسینہ کی حکومت بے حد غیر مقبول، بلکہ بدنام ہے۔ اور حکومتی حمایت کے ساتھ مسلّح افواج میں پھیلی بے تحاشا کرپشن اور جرائم نے ان کا مورال تباہ کر دیا ہے۔ لہٰذا حکومت اور مسلّح افواج ،دونوں ہی میں ان مسائل کے حل کے لیےمؤثر اقدامات کرنے کی نہ صلاحیت ہے اور نہ جذبہ۔
میانمار میں خانہ جنگی جیسے جیسے شدت پکڑتی جا رہی ہے، بنگلہ دیش کے بارڈر پر ہونے والی اس نوک جھونک کی مقدار و شدت میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔اس سے بھی زیادہ پریشان تشویشناک چٹاگانگ کے پہاڑی علاقے میں مسلّح ملیشیاؤں کی موجودگی ہے۔ بہت سے نسلی مسلّح گروہ سرحد کی اِس جانب پیدا ہوتے جا رہے ہیں۔ ان گروہوں کا ایک ہی مقصد ہے: بنگلہ دیش سے علیحدہ ہو کر ایک نئی ریاست کا قیام۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے یہ گروہ علاقائی صورتحال یعنی میانمار کی خانہ جنگی، بنگلہ دیشی حکومت کی سیاسی کمزوری و ضعف اور چین و بھارت کے مابین پائی جانے والی سرد جنگ کو بھی اپنے حق میں استعمال کر سکتے ہیں۔
چند قطبی دنیا؍Multipolar World
چند قطبی دنیا آج ایک حقیقت کا روپ دھار چکی ہے۔ سوویت یونین کے زوال کے بعد دنیا نے یک قطبیت کا ایک مختصر سا زمانہ دیکھا۔امریکہ اس وقت دنیا کی واحد سپر پاور تھا جسے چیلنج کرنے کے لیے بظاہرکوئی دوسرا موجود نہیں تھا۔ مگر اللہ رب العزت کے فضل سے، امام و مجدد شیخ اسامہ بن لادن کی قیادت میں مجاہدین نے امریکہ پر اس کی اپنی سرزمین پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ اس کے احساسِ سلامتی و حفاظت کو پاش پاش کر دیا۔ اور انہیں مجبور کر دیا کہ اسلام کے خلاف اپنی سابقاً خفیہ جنگ کو آشکار کر دیں۔
لہٰذا امریکہ نے ’دہشتگردی‘ کے خلاف جنگ کی اوٹ میں میں اعلانیہ طور پر مسلمانوں کے خلاف جنگ شروع کر دی۔ مگر فتح اللہ کے ہاتھ میں ہے، اور اللہ جل جلالہ نے عراق و افغانستان، ہر دو جگہ امریکہ کو ذلیل و رسوا کیا۔ دو دہائیوں کی جنگ کے بعد آج امریکہ مجبور ہے کہ اپنی نظریں اور توجہ کسی اور جانب پھیر لے۔ جبکہ چین، روس اور دیگر علاقائی طاقتوں نے یہ بیس سال امریکہ کو چیلنج کرنے کے لیے قوت و استعداد پیدا کرنے پر صرف کیے ہیں۔ اور اب امریکہ و یورپ روس کے ساتھ یوکرین میں ایک پراکسی جنگ میں پھنسے ہوئے ہیں، جبکہ امریکہ و چین کے مابین سرد جنگ بدستور جاری ہے۔
اس صورتحال کے سبب بنگلہ دیش اور خلیجِ بنگال تزویراتی اعتبار سے نہایت اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔ امریکہ و چین، دونوں اپنے دشمن پر برتری حاصل کرنے کے لیے خلیجِ بنگال پرتصرف و اختیار حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ پھر اسی میں بھارت کا بھی اضافہ کر لیجیے، جس نے اپنی غلام حسینہ کی مدد و تعاون سے بنگلہ دیش کو عملاً اپنے ایک صوبے کی حیثیت دے رکھی ہے۔ فی الحال امریکہ، چین اور بھارت ، تینوں کے مفادات بنگلہ دیش سے وابستہ ہیں۔ بعض معاملات میں یہ مفادات ایک دوسرے سے متصل و مشابہہ بھی ہیں مگر بیشتر امور میں یہ ایک دوسرے کے مقابل و متضاد ہیں۔
ایک قابل، باصلاحیت اور مضبوط حکومت تو شاید ان قوتوں کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کر کے فائدہ اٹھاتی۔لیکن حسینہ کے پاس یہ کرنے کے لیے نہ اتنا عقل وفہم ہے، نہ سودابازی کے لیے چہرے مہرے ، اور نہ ہی عوامی حمایت۔ لہٰذا علاقائی و عالمی طاقتوں کے یہ مسابقانہ و رقیبانہ مفادات بنگلہ دیش کے لیے سوائے مزید عدم استحکام کے ،کوئی فائدہ نہیں رکھتے۔
ہندُتوا
بھارت میں آر ایس ایس کی حمایت و پشتیبانی کے ذریعے ہندُتوا تحریک نے پورے بنگلہ دیش پر اپنا جال پھیلا دیا ہے۔ ہندُتوا تحریک ISKCON (ہری کرشنا تحریک) جیسی تنظیموں کو بھرتی اور دیگر تنظیمی مقاصد و سرگرمیوں کے لیے استعمال کرتی ہے۔ یہ تحریک حکومتی انتظامی مشینری، مسلّح افواج اور میڈیا کی رگ و پے میں سرایت کر گئی ہے اور اب ایک ایسے وطن دشمن سازشی گروہ کا روپ دھار چکی ہے جو اکھنڈ بھارت کے خواب کو تعبیر سے ہمکنار کرنے کے لیے منظم و فعال ہے۔1
سیاسی منظرنامہ
بنگلہ دیش کے سیاسی منظرنامے پر سیکولر طاقتوں کا غلبہ ہے۔ بنگلہ دیش کی حالیہ حکومت جو کہ عوامی لیگ پر مشتمل ہے وہ سیکولرازم کی ایک مسلّح و متشدد شکل ہے، جو کہ کلکتہ میں ایجادشدہ بنگالی ہندو قومیت پرستی کے تصورات سے بھی بری طرح متاثر ہے۔
عوامی لیگ اور حسینہ کی بنیادی اپوزیشن بی این پی کی سربراہی میں سیکولر پارٹیوں پر مشتمل ایک گروہ ہے۔ یہ تمام پارٹیاں اپنی اساس میں سیکولر ہیں، گو کہ سب عوامی لیگ کی طرح متشدد اور جارحیت کی طرف مائل نہیں ہیں۔ جیسے امریکی سیکولرازم اور فرانسیسی سیکولرازم میں اختلافات پائے جاتے ہیں، اسی طرح ان دو گروہوں میں بھی فروعی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ لیکن اساسی طور پہ یہ ایک ہی دین کے مختلف مذاہب ہیں۔
بد قسمتی سے بنگلہ دیش کے عام عوام، انہی پارٹیوں کے تناظر میں سوچنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ میڈیا، دانشوروں اور تعلیمی نظام کی دہائیوں پر محیط ذہن سازی کے بعد آج لوگ سیاسی تبدیلی کو محض الیکشن کے تناظر میں دیکھتے اور سمجھتے ہیں۔جب وہ اپنی سرزمین کے مستقبل کے بارے میں سوچتے ہیں تو اسی سیکولر سیاسی ڈھانچے کی حدود میں رہتے ہوئے سوچتے ہیں۔
فی الوقت تو حسینہ طاقت و اقتدار سے جدا ہونے پر رضامند نظر نہیں آتی۔ بھارت بھی فی الحال اس کو بطور حکمران قائم رکھنے پر آمادہ نظر آتا ہے،آخر اس نے اپنے آپ کو ایک فرمانبردار پالتو جانور ثابت کیا ہے۔لہٰذا اس وقت تو قرائن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ عوامی لیگ کسی نہ کسی طرح الیکشن کے نتائج کو اغوا کر کے اقتدار پر اپنے قبضے کو جاری رکھنے کی کوشش کرے گی۔
لیکن اگر اپوزیشن نے حسینہ کو بزور اقتدار سے دست بردار ہونے پر مجبور کرنا چاہا تو انہیں لا محالہ سڑکوں پر نکلنا پڑے گا۔ یوں بھی بنگلہ دیش میں سیاسی تبدیلی کے لیے سڑکوں پر نکل کر مظاہرے، احتجاج اور جارحیت کی ہمیشہ ضرورت پڑی ہے۔ بہت بار ہم نے دیکھا (جیسا کہ ۱۹۹۰ء، ۱۹۹۶ء اور ۲۰۰۷ء) کہ طویل احتجاجی سلسلے ، مظاہروں اور سڑکوں پر پر تشدد واقعات کے بعد فوجی اور شہری انتظامیہ نے اس وقت کی حکومت کی حمایت ترک کر دی جس کے نتیجے میں حکومت گر گئی۔
مگر حسینہ کی اپوزیشن اپنے طور پر سڑکوں کا کنٹرول سنبھالنے کی استطاعت نہیں رکھتی۔ اسی طرح وہ فوج کے ذریعے بھی حسینہ کا دھڑن تختہ کرنے پر قادر نہیں۔ اگر وہ حسینہ کو بزور طاقت ہٹانا چاہیں تو انہیں لامحالہ اسلامی تنظیموں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت درکار ہے۔
عوامی لیگ کے برخلاف، مخالف کیمپ بنگلہ دیش کی عوام کی جڑوں میں پھیلے ہوئے مضبوط اور گہرے نیٹ ورک کا مالک نہیں ہے، لہٰذا عوامی لیگ اور دیگر سکیورٹی اداروں کا سڑکوں پر مقابلہ و سامنا کرنے کے لیے انہیں اسلامی جمہوری سیاسی پارٹیوں (جیسے جماعتِ اسلامی) اورمدارس کے طلبہ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ گزشتہ تیس برسوں میں، بنگلہ دیش میں طاقت و اقتدار کے حصول کی سیاسی ترکیب یہی رہی ہے۔ بات جب بھی حکومت کے خلاف عملی تحریکوں کی آتی ہے، تو بڑی بڑی سیکولر سیاسی پارٹیاں اسلامی جماعتوں کے ساتھ اتحاد قائم کر لیتی ہیں۔ لیکن مسندِ اقتدار تک پہنچتے ہی یہ اپنے ان ’اتحادیوں‘ کو کھڈے لائن لگانے میں دیر نہیں لگاتیں۔
مختصر یہ کہ سیکولر سیاسی قوتیں اپنے اس کھیل میں اسلامی جماعتوں کو بطور مہرہ استعمال کرنے کی کوشش کریں گی، جیسا کہ وہ ہمیشہ کرتی آئی ہیں۔ مسلمان ان کے مقاصد کے حصول و تکمیل کے لیے اپنی جانیں کھوئیں گے مگر بدلے میں پائیں گے کچھ نہیں۔اور دن کے اختتام پر بنگلہ دیش پر سیکولر نظام ہی حاکم و قابض ہو گا۔ یہی وہ لازمی نتیجہ ہے جو بنگلہ دیش کے سیکولر آئینی سیاسی نظام کا حاصل ہے۔
یہ وہ صورتحال ہے جس میں بنگلہ دیش کے مسلمان آج اپنے آپ کو پاتے ہیں۔سیاسی و معاشرتی تمام حلقے دشمنوں کے قبضے میں ہیں۔ جبکہ افق پر کسی کالے طوفان کے گہرے اور مہیب بادل جمع ہو رہے ہیں۔
متبادل راستہ
اس مضمون کے آغاز میں ہم نے کہا تھا کہ بنگلہ دیش کے مسلمانوں کے آنے والے طوفان سے بچنے کے لیے کوئی راہ متعین کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر اس راہ کا تعین کیا کیسے جائے گا؟
اس سوا ل کا جواب تلاش کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم پہلے عالمی جہادی قائدین کی فراہم کردہ ہدایت و رہنمائی پر نظر ڈالیں اور ان کے بیان کردہ بعض اصول و مبادی کو سمجھ لیں۔ القاعدہ کی قیادت میں رواں عالمی جہادی تحریک مسلم دنیا میں شریعتِ اسلامی کی حکومت اور خلافت کے قیام کے محاذ پر صفِ اول میں کھڑی ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اس تحریک نے مسلمان علاقوں کو دو بنیادی قسموں میں تقسیم کر رکھا ہے:
-
ترجیحی علاقے
-
ثانوی یا دیگر علاقے
ترجیحی علاقے وہ علاقے ہیں جہاں مجاہدین کے لیے حاکم نظام کو للکارنا اور اس کا مقابلہ کرنا ممکن ہے۔ جہاں وہ اس نظام کو گرانے اور گوریلا جنگ کے ذریعے اسلامی حکومت قائم کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ کسی بھی علاقے کے لیے ترجیحی علاقے کی قسم میں شمار کیے جانے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں چند اوصاف پائے جاتے ہوں۔
شیخ ابوبکر ناجی کے مطابق، وہ اوصاف یہ ہیں:
-
تزویراتی گہرائی کی موجودگی اور اونچی نیچی غیر ہموار زمین جو قبضے اور تسلط والے علاقوں کے حصول میں ممد و معاون ہو۔
-
حاکم نظام کی کمزوری و ضعف۔ مرکز سے دور سرحدی علاقوں اور دور افتادہ مقامات پر حکومت کی کمزور گرفت۔
-
اسلامی و جہادی بیداری کی لہریں ، علاقے میں اس کے لیے دعوت و تحریک کا موجود ہونا۔
-
اس علاقے کے لوگوں کی فطری صفات، اس اعتبار سے اللہ تعالیٰ نے بعض علاقوں کو دیگر پر فوقیت و فضیلت عطا فرمائی ہے۔
-
اسلحے کی دستیابی۔2
شیخ ابو مصعب السوریؒ بھی اسی سے ملتے جلتے اوصاف بیان کرتے ہیں۔ اپنی کتاب ’دعوۃ المقاومۃ‘ میں وہ درجِ ذیل اوصاف کی فہرست بیان کرتے ہیں:
جغرافیائی شرائط
-
تزویراتی گہرائی
-
مختلف ممالک کے ساتھ طویل سرحدیں
-
ایسی زمین جس کی ناکہ بندی کرنا دشوار ہو
-
ناقابلِ رسائی پہاڑی علاقے یا گھنے جنگلات کی موجودگی (جنگلات سے ڈھکے ہوئے پہاڑی علاقے بہترین ہیں)
-
ایسے علاقے جہاں گھیراؤ اورمحاصرے کے باوجود خوراک اور پانی کی مناسب فراہمی کا انتظام ہو۔
آبادیاتی شرائط(ڈیموگرافک ضروریات)
-
علاقے میں باسیوں کی بڑی تعداد کا ہونا
-
نوجوانوں میں لڑنے کی صلاحیت، مضبوط عزم و جذبہ، اپنے مقصد کے ساتھ ان کا لگاؤ اور اس کے لیے صعوبتیں برداشت کرنے کی استعداد، ان کا استقلال و استقامت
-
اور سب سے اہم اس علاقے میں اسلحے کی دستیابی
سیاسی صورتحال
-
ایسی سیاسی صورتحال اور ماحول جس کے باعث عوام میں بآسانی جہاد فی سبیل اللہ کا جذبہ اور عزم پیدا کیا جا سکے۔
یہ اوصاف نہایت اہمیت کے حامل ہیں، کیونکہ ان کے بغیر خود سے ایک کئی گنا بڑے اور مضبوط دشمن کے خلاف طویل عرصے تک جنگ و جہاد جاری رکھنا بے حد مشکل ہے۔ان صفات کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ افغانستان،پاکستان، کشمیر، صومالیہ، یمن، چیچنیا، مغربِ اسلامی کے بعض علاقے……یہ سب ترجیحی علاقوں کے ذیل میں آتے ہیں۔
البتہ مصر و تیونس جیسے علاقے ان اوصاف کے حامل نہیں، لہٰذا انہیں ثانوی ترجیح کے علاقوں میں شمار کیا جائے گا۔ اس تقسیم کی بنیاد پر بنگلہ دیش بھی ثانوی علاقوں میں شامل ہے کیونکہ بنگلہ دیش بھی ایسے کئی اوصاف سے محروم ہے جو ترجیحی علاقے میں شمار کیے جانے کے لیے قطعی حیثیت رکھتے ہیں مثلاً غیر ہموار قطعۂ زمین اور اسلحے کی دستیابی و فراہمی وغیرہ۔
قصہ مختصر یہ کہ بنگلہ دیش گوریلا طرز کی جنگ کے لیے موزوں نہیں ہے۔ بنگلہ دیش میں طویل گوریلا جنگ کے ذریعے سیکولر نظامِ حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش عبث ہے۔ جبکہ اپنی سابقہ گفتگو میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے جمہوری طریقے سے کسی بھی بہتری کے لیے کوشش کرنا نہ صرف غیر مؤثر بلکہ غیر شرعی بھی ہے ۔
اسی طرح ہم یہ بھی ثابت کر چکے ہیں کہ سڑکوں اور عوامی مقامات پر مسلّح جارحیت، خون خرابہ اور حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کی کوششوں سے بھی وہ تبدیلی آنے والی نہیں جو ہمیں درکار ہے۔ اس ضمن میں شیخ سیف العدل لکھتے ہیں:
’’انقلاب کا مطلب سیاسی نظام میں تبدیلی ہے۔ حاکم طبقے اور ان کے تمام تر اداروں اور مالیاتی نظاموں پر غلبہ حاصل کر کے پورے اقتصادی، معاشرتی اور حکومتی نظام میں اساسی اور بنیادی تبدیلی لانے کا نام انقلاب ہے۔پچھلے ریاستی نظام کو تباہ اور ختم کرنے کے بعد ایک نئے ریاستی نظام کی بنا رکھنا اور اس کی تعمیر کرنا انقلاب کہلاتا ہے۔ یعنی مکمل معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی تبدیی لانا۔
جبکہ دوسری طرف اصلاح (ریفارم) سے مراد موجودہ نظام میں تبدیلی لانا ہے۔
پہلے سے موجود نظام اور اس کے طور طریقوں اور علامات کی ترتیبِ نو یا اصلاح انقلاب کے ذریعے نہیں کی جاتی۔ انقلاب تو اساسی تبدیلی کی بنیاد پر آتا ہے، نہ کہ تصحیح اور اصلاح کی بنیاد پر۔‘‘3
لہٰذا، کفری سیکولر نظام کو ہٹا کر اس کی جگہ شریعتِ الٰہی کو قائم ونافذ کرنا ایک انقلابی تبدیلی ہے۔ یہ محض تصحیح و اصلاح نہیں۔لہٰذا محض حکمران کی تبدیلی سے ایسی گہری تبدیلی لانا ممکن نہیں۔
پچھلی تمام تر گفتگو کی روشنی میں اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانانِ بنگلہ دیش کے لیے عملی راستہ کیا ہے؟وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مسلسل بڑھتی ہوئی سیکولر جارحیت کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟اور اگر ملک میں طاقت کا خلا پیدا ہو جائے یا وسیع پیمانے پر افرا تفری اور لاقانونیت پھیل جائے، تو ایسی صورتحال کا سامنا انہیں کیسے کرنا چاہیے؟
یہ بے حد اہم سوالات ہیں، جو جواب چاہتے ہیں۔اسی کے ساتھ یہ سوال ایسے بھی ہیں کہ جن کے جواب دینا آسان نہیں۔ ان مسائل کے کوئی جادوئی حل موجود نہیں۔ وہ تمام حل جو حقیقت پر مبنی ہیں اور مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں وہ بہت زیادہ وقت، محنت اور افرادی قوت مانگتے ہیں۔ان کے لیے صبر اور استقامت کی ضرورت ہے۔
شیخ ابوبکر ناجی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
’’بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کوئی حکومت اچانک الٹ جاتی ہے یا سیاسی صورتحال کے باعث کسی ایسے علاقے میں جو ترجیحی علاقہ نہیں ہے، لاقانونیت پھیل جاتی ہے۔ ایسی صورت میں دو امکانات ہیں۔
آیا اس علاقے میں کوئی اسلامی تنظیمیں موجود ہیں جو صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے صورتحال کو سنبھال سکیں؟ اگر ہاں، تو وہ لاقانونیت دور کرنے کے طریقے سے آگے بڑھیں گی۔
اور اگر ایسی کوئی اسلامی تنظیم موجود نہیں، تو یہ علاقے جلد ہی غیر اسلامی تنظیموں کے قبضے و انتظام میں چلے جائیں گے۔ یا حکومت کے گرنےکے بعد اس کا جو کوئی بھی باقی ماندہ حصّہ ہے، اس کے زیرِ تسلط آ جائیں گے۔ورنہ یہ منظّم ملیشیاؤں اور دیگر اس قسم کے گروہوں کے قبضے میں چلے جائیں گے۔‘‘
اس سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اگر ایک مضبوط اسلامی تنظیم کی عدم موجودگی میں طاقت کا کوئی خلا پیدا ہو بھی جاتا ہے، تو بھی مسلمان ایسی صورتحال سے فائدہ اٹھانے اور اسے قابو کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے۔ ایسی کسی بھی صورتحال سے کماحقہ فائدہ اٹھانے کے لیے ایک مضبوط و منظّم قوت کا موجود ہونا بنیادی اور ناگزیر شرط ہے۔اس بات کو سمجھنا اور اس کا درست ادراک کرنا نہایت اہم ہے۔
بنگلہ دیش جیسے علاقے میں کسی بھی قسم کی تبدیلی لانے کے لیے ضروری ہے کہ توحید، دعوت اور جہاد کی بنیاد پر کھڑی کی گئی ایک مضبوط اور خود مختار اسلامی تحریک کا وجود ہو۔ ایک ایسی تحریک جو شریعتِ الٰہی کے نفاذ کی انتہائی ضرورت و اہمیت کو واضح کرے۔ جو معاشرے کی برائیوں کو دور کرے، معاشرے میں پھیلے منکرات سے متعلق اسلامی تعلیمات کو واضح اور عام کرے، اور عوام کو یہ بھی بتائے کہ اسلامی نظام ان برائیوں اور مفسدات کا کیسے علاج کرتا ہے۔ ایک ایسی تحریک جو جمہوریت اور دیگر انسانی ساختہ تصورات اور عقائد کی حقیقت کھول کر رکھ دے اور اسلام کی ان سب پر عظمت اور برتری کا اظہار کرے۔ایک ایسی تحریک جو نہ صرف اقدار و روایات کو فروغ دے ،بلکہ بنگلہ دیش کے معاشرتی و اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی حقائق کی جانب بھی توجہ دے۔ ایک ایسی تحریک جو علی الاعلان حق کا ساتھ دے اور کسی ملامت گر کی ملامت سے نہ ڈرے۔ جو لوگوں کے سامنے توحید و شرک، ایمان و کفر اور اسلام و سیکولرازم کے مابین حدِ فاصل کو واضح کرے۔جو قومیت پرستی اور ’بنگالیت‘ کے نام پر بھارتی رسوم و رواج کے دھوکے میں آئے بغیر اپنے متبعین کی اسلامی شناخت کی حفاظت کے لیے کام کرے۔ ایک ایسی تحریک جس کے دل میں تو پورے عالم میں پھیلی امّت بستی ہو، لیکن وہ برِّ صغیر ہندوستان اور بنگلہ دیش کی مقامی حقیقتوں کا بھی ادراک کر۔ ایک ایسی تحریک جس کی نظر انسانوں کی بنائی سرحدوں میں مقید و محدود نہ ہو۔
اس تحریک کو اپنے خالص عقائد اور اقدار کے حوالے سے بے لچک اور غیر مصالحانہ ہونا ہو گا۔ شیخ ابوبکر ناجی کہتے ہیں:
’’کائنات کے قانون کے مطابق، ہم دیکھتے ہیں کہ حکومت کی طاقت یا استعداد دو طرح سے تبدیل یا بحال کی جا سکتی ہے:
-
معاشرے کے دینی عقائد اور اقدار کو زندہ کرنے، یا
-
ظلم کے خلاف مزاحمت کے ذریعے معاشرے میں عدل قائم کر نے کی بنیاد پر (نہ کہ عقیدے یا حق کی بنیاد پر) ۔ کیونکہ ظلم کی روک تھام اور عدل کا قیام ایسی چیزیں ہیں جن کی قدر اور تعریف کفار و مومنین یکساں طور پر کرتے ہیں۔‘‘
لہٰذا موجودہ نظام کو بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی تحریکِ دعوت کی بنیاد قرآن و سنت سے حاصل کیے گئے خالص عقیدے اور اقدار پر ہو۔ نہ کہ سیکولر تحریکوں اور پارٹیوں کی مانند محض عوام میں مقبولیت اور ان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے معاشرتی نا انصافیوں پر توجہ مرکوز ہو۔
بنگلہ دیش میں ان دونوں صورتوں……یعنی صورتحال کا اسی طرح جاری و ساری رہنا، یا مستقبل میں کسی نمایاں تبدیلی یا طاقت کا خلا پیدا ہونے کی صورت میں……اولین ضرورت اور کرنے کا پہلا کام یہ ہے کہ توحید، دعوت اور جہاد کی غیر مصالحانہ اساس پر کھڑی کی گئی ایک مضبوط اسلامی تحریک بپا کی جائے۔ ایک بار ایسی تحریک وجود میں آ جاتی ہے، تو پھر وہ مسلمانانِ بنگلہ دیش کا سیکولر جارحیت اور اس کے حملوں سے دفاع کر سکتی ہے۔ اور پھر اگر رضائے الٰہی سے کوئی خاص صورتحال پیدا ہو جاتی ہے، یا طاقت کا ہی کوئی خلا پیدا ہو جاتا ہے تو ایک مضبوط تحریک اس سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتی ہے۔
اگر ہم ان نتائج کو قبول کر لیں، تو پھر ہم اپنی گفتگو آگے بڑھا سکتے ہیں کہ ایسی کوئی تحریک کیسے بپا کی جا سکتی ہے اور اسے کیسے کامیابی کے راستے پر ڈالا جا سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭
1 مزید استفادے کے لیے دیکھیے برادرِ محترم ابو انور الہندی کا اسی مجلّے کے صفحات میں شائع ہونے والا مضمون ’بنگلہ دیش میں ہندُتوا کا خطرناک مرحلہ‘۔
2 مزید تفصیل کے لیے رجوع کیجیے شیخ ابوبکر ناجی کی کتاب ’ادارۃ التوحش‘ سے۔
3 الصراع … ورياح التغيير 2 (الثورة والإستراتيجية)