یہاں درج فاضل لكهاريوں کے تمام افکارسے ادارہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
تہتر کے اسلامی آئین کی با اختیار شریعت کورٹ……ظفر رامے نے لکھا
کیسا اسلامی آئین ہے کہ پارلیمنٹ اللہ کی حدود پامال کرتے ہوئے چند منٹوں میں مرد کے عورت بننے اور عورت کے مرد بننے کا قانون بنا دے اورمسلمان ہم جنس پرستی کا قانون کالعدم قرار دلوانے کیلیے سالوں عدالتوں کے دھکے کھاتے پھریں……
انجلینا جولی اور ثقافتی سامراجیت……طاہر مجتبیٰ نے لکھا
انجلینا جولی انسانی تاریخ کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم نیٹو کیلیے برانڈنگ کا کام کرتی ہے۔ اسکی فلموں میں بھی سامراجی پروپیگنڈہ پایا جاتا ہے۔ وہ اقوام متحدہ کے مہاجرین کمیشن کا حصہ ہے اور دنیا میں سب سے زیادہ انسانوں کو جبری دربدر کرنے والی امریکہ خارجہ پالیسی کیخلاف اس نے آج تک ایک بیان نہیں دیا۔
گارڈین میں اس نے نیٹو کے جنرل سیکرٹری کیساتھ مل کر ایک کالم لکھا تھا جس میں نیٹو کو افغانستان پر بمباری کے دوران خواتین کے حقوق کا خیال رکھنے پر سراہا۔ اس کے الفاظ میں نیٹو نے ستر سال تک جمہوریت، انفرادی آزادی، قانون کی بالادستی اور اقوام متحدہ کے چارٹر کا خوب تحفظ کیا ہے۔
موصل میں اتحادی افواج کی بمباری کے بعد اس نے ملبے پر کھڑے ہو کر ایک ویڈیو جاری کی۔ اس میں کہا کہ لاشوں کی بو آرہی ہے مگر لوگ خوش ہیں کہ وہ اب آزاد ہیں۔ سامراجی جارحیت مہاجرین کا بحران پیدا کرتی ہے، اس کے بعد مہاجرین کمیشن اور سیلبرٹیز امدادی سرگرمیوں کے نام پر متاثرین کیساتھ فوٹو شوٹ کراتے ہیں اور وہی امیج پیش کرتے ہیں جو امریکی پروپیگنڈہ کیلیے مفید اور موزوں ہوتا ہے۔
کمبوڈیا میں خمر روگ کے دوران مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ملٹری افسران کے ساتھ بھی انجلینا جولی منسلک رہی ہے۔ جب نیشنل ہیلتھ سروس برطانوی عوام سے طبی سہولیات چھین رہی تھی تو کمبوڈیا میں انجلینا کی این جی او پر ہیلتھ سروس کا ایک ملین ڈالر خرچ اٹھ رہا تھا۔ انجلینا “انسانی مداخلت” کے نام پر سامراجی یلغار کے لیے بھرپور پروپیگنڈہ کرتی رہی ہے۔
افریقی ممالک ان سلیبرٹیز کی تشہیر کیلیے مرغوب سیاحتی مقامات ہیں۔ کمزور افریقی ممالک میں آقاؤ ں کی طرح جاتے ہیں اور ملکی قوانین کو روندتے ہوئے پروٹوکول حاصل کرتے ہیں۔ نیمیبیا میں جب انجلینا بچے کی پیدائش کے لیے گئی تو صحافیوں کے ویزے تک اس کی اجازت سے مشروط کر دیے گئے، رہائش کو نو فلائی زون قرار دیا گیا، پرائیویٹ سکیورٹی نے سارا علاقہ اپنے کنٹرول میں لیا اور بہت سے صحافیوں پر تشدد بھی ہوا۔
انجلینا کے والد اسرائیلی ریاست کے کٹر حامی ہیں اور نخبہ کا سالانہ جشن بھی اسرائیل جا کر مناتے رہے ہیں۔ نیٹو کے علاوہ دوسری ریاستوں کیخلاف انجلینا کا ردعمل اور بیانات جارحیت کو دعوت دیتے ہیں بلکہ جارحیت کی مخالفت کرنے والی ریاستوں کیخلاف بھی برس پڑتی ہے مگر اسرائیل اور نیٹو سے متاثرہ ممالک پر خاموشی یا خالص خیراتی پن کا رویہ رہتا ہے۔
پاکستانی سیلاب میں ماحولیاتی آلودگی کا سب سے زیادہ کردار تھا۔ نیٹو 120 ملکوں جتنی ماحولیاتی آلودگی پھیلاتی ہے۔ کارپوریٹ کلچر اور سامراجی ممالک ماحولیاتی آلودگی کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔ تیسری دنیا کے ملکوں کو قرضوں اور مالیاتی سامراج نے جکڑ رکھا ہے جس کی وجہ سے آفات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت مکمل ختم ہو جاتی ہے۔
آلودگی کی ذمہ دار کارپوریشنز اور ریاستوں پر بجا طور پر ہرجانہ یا معاوضہ لاگو کرنا بنتا ہے۔ ایسے میں ان اداروں سے منسلک ایک گوری بے بس سیلاب متاثرین کیساتھ تصاویر بنوا لیتی ہے تو ہر طرف اسکی دریا دلی، خیرات اور انسانیت کا چرچہ ہونے لگتا ہے۔ لبرلز کا فکری افلاس تو زیر بحث لائے جانے کے قابل ہی نہیں مگر مجموعی طور پر ہی معقولیت اور تنقیدی فکر کا انتہائی فقدان پایا جاتا ہے۔
مذہبی ٹرانزجینڈرز …… ڈاکٹر رضوان اسد خان نے لکھا
خیال آیا کہ قادیانی بھی تو مذہبی ٹرانزجینڈرز ہی ہیں۔ انہیں بھی محسوس ہوتا ہے کہ یہ مسلمان ہیں اور یہی اپنے شناختی کارڈ پر لکھوانا بھی چاہتے ہیں اور پوری دنیا سے مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ ان کی حقیقت کے برخلاف انہیں مسلمان ہی سمجھا اور پکارا جائے۔
ذاتی مرضی کی صنفی شناخت…… مہتاب عزیز نے لکھا
اسلام آباد پولیس میں بھرتی کے اشتہار میں اپنی ’’ذاتی مرضی کی صنفی شناخت‘‘کی بنیاد پر ٹرانز جینڈرز کی بھرتی کی شق شامل کی گئی ہے۔
یعنی کوئی مرد ’’ٹرانس ویمن‘‘کا شناختی کارڈ بنوا کر خواتین کے کوٹے میں بھرتی ہو سکتا ہے۔ خواتین کی بیرک میں رہائش اختیار کرے گا۔ خواتین کی جامہ جسمانی تلاشی لے گا……
یہ ہیں اس ایکٹ کے ابتدائی نتائج۔
نشتر ہسپتال کی رحم دلی……علی حلال نے لکھا
نشتر ہسپتال ملتان کو ایوارڈ برائے حقوقِ برڈز (birds) دے دینا چاہیے۔ یہ شاید دنیا کا واحد ہسپتال ہے جو انسانی لاشوں کو خاک میں ضائع کرنے کے بجائے پرندوں اور گِدھوں کی بھوک مٹانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
کس قدر رحم دل ہوں گے یہ انتظامیہ والے۔
کوئی یورپ جا کر پرندوں کے حقوق کے علمبرداروں کو یہ خبر کردے تو شاود وہ نوبل پرائز لیے دوڑے چلے آئیں۔
مماثلت اتفاقی ہو گی…… محمد حسین نے لکھا
اکثر نشئیوں کو دیکھا ہے کہ وہ چوری کرتے وقت نہیں پکڑے جاتے بلکہ چوری کا مال فروخت کرتے وقت پکڑے جاتے ہیں۔
ہیلووین، روشنی سے اندھیرے کی طرف سفر……عائشہ غازی نے لکھا
اکتیس اکتوبر کو مغربی دنیا میں منایا جانے والا تہوار ’’ہیلووین‘‘کیا ہے؟ یہ شیطان ، چڑیلوں اور کئی خداؤں کی عبادت کرنے والے قدیم مذہب کا ایک تہوار ہے جن کا ماننا تھا کہ ہیلووین کی رات مرے ہوئے لوگ بھوت اور چڑیلیں بن کر ان کے درمیان اترتے ہیں ۔ اس لیے وہ خود کو ان سے بچانے کے لیے ان جیسا روپ دھار کر، جانوروں کی کھالیں اور ان کے سر پہن کر آگ کے گرد ناچتے تھے ، اس آگ پر قربانیاں پیش کرتے تھے اور پھر وہی آگ گھروں میں لے جا کر جلاتے تھے ، یہ مانتے ہوئے کہ یہ آگ ان کی حفاظت کرے گی ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ لوگ ان مرے ہوئے لوگوں کی بدروحوں کے لیے کھانے کا سامان بھی گھر سے باہر رکھتے تھے تاکہ بد روحیں انہیں تنگ نہ کریں ، جب عیسائیت آئی اور ان قبائل تک پھیلی تو عیسائیت نے اپنے مردوں کو یاد کرنے کے دن کو اس دن کے ساتھ ملا لیا تاکہ ان غیر عیسائی قبیلوں کو اپنے اندر سمونے میں آسانی ہو۔ غریب عیسائی امیروں کے در کھٹکھٹاتے کہ وہ انہیں کچھ کھانے کو دیں گے اور غرباء اس کے بدلے ان کے مردوں کے لیے دعا کرینگے ، لیکن تب سے آج تک بنیاد پرست عیسائی اس تہوار کو ناپسند کرتے ہیں اور یہودیوں کے ہاں بھی یہ دن نہیں منایا جاتا البتہ یہودی ساری مغربی دنیا میں اس دن کی مناسبت سے ڈراونے لباس فروخت کر کے پیسہ کمانے میں پیچھے نہیں رہتے۔
1966 میں شیطانیت نے خود کو دوبارہ ایک مذہب کے طور پر عوام الناس کے سامنے رکھا اور چرچ آف سیٹن (شیطان کا گرجا) نام کی تنظیم منظر عام پر آئی ۔ مذہب شیطانیت میں تین اہم تہوار ہیں اور دو کم اہم ۔ ان تین اہم تہواروں میں پہلا ہر شیطان (اس تنظیم کے رکن ) کی سالگرہ ہے جسے یہ اس لیے مناتے ہیں کہ اپنی ذات کو یہ اپنا خدا مانتے ہیں اور خوشی مناتے ہیں کہ اس دن شیطان (ان کا اپنا آپ) دنیا میں آیا ۔ دوسرا اہم ترین تہواران کے لیے یہی ہیلووین ہے ۔ ان کا ماننا ہے کہ اس دن یہ تہوار منانے والا ہر انسان ان شیطانوں جیسا ہو جاتا ہے اور اپنے وجود میں سے ان شیطانی جبلتوں کو کھنگالتا ہے جسے یہ عام دنوں میں محسوس نہیں کرنا چاہتا ۔ مذہب شیطانیت کا کہنا ہے کہ سارا سال جو لوگ ان پر ہنستے ہیں ، ہیلووین کے دن شیطان ان پر ہنستے ہیں کہ آج تم بھی ہم جیسے ہو۔ یہ تمام باتیں افسانے نہیں حقائق ہیں ۔ مذہب شیطانیت کی آفیشل ویب سائیٹ پر یہ تمام حقائق موجود ہیں ۔
یہ یادر ہے کہ اسلام اور شیطانیت ایک دل میں اکٹھے نہیں رہ سکتے کہ یہ ایک وسرے کی ضد ہیں۔ جہاں اللہ کی روشنی نہ رہے ، اس دل کا نصیب لا متناہی اندھیرا ہے ۔ ہم کیسے اپنی اوراپنے بچوں کی روشنی کی حفاظت نہ کریں کہ ہم اپنی قبروں کے منور ہونے کی دعا کرتے ہیں اور ہم وہ لوگ نہیں جن کے مردے بد روح کی شکل میں خوف پھیلانے اترتے ہیں ۔ ہمارے لیے سال میں خوف اور بدروحوں کی رات نہیں ہوا کرتی بلکہ ایسی رات اترتی ہے جو طلوع صبح تک سلامتی ہے ۔
دجال کا سوشل انجینئرنگ پروگرام…… فیض اللہ خان سواتی نے لکھا
پچیس برس قبل 2 نومبر کو جامعہ علوم اسلامیہ کے سربراہ مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی انہی تاریخوں میں نیرہ نور کی سالگرہ اور ریشماں کا انتقال ہوا،آج سویرے تمام چینلز نے نیرہ نور اور ریشماں کو خراج عقیدت پیش کیا پروگرام نشر کیے،علمی شخصیت پہ کچھ نہیں ہے۔
یہ وطن تمہارا ہے…… ڈاکٹر سید محمد اقبال نے لکھا
کراچی کے سیف اللہ پراچہ
جو گونتاناموبے میں 17 سال اذیت میں گزارنے کے بعد گھر واپس آگئے……
انہیں اور ان کی طرح اور ہزاروں پاکستانیوں کو کس نے امریکہ کے حوالے کیا……؟
انکے سروں پر کس نے ڈالر وصول کیے……؟
کیا ہمارے محافظ ہمارے سروں کے مالک ہیں…… ؟
کیا یہاں ان بندوق والوں سے کوئی پوچھنے والا ہے……؟
بجائے اسکے کہ کوئی اس طرح کے سوالوں کا جواب دے
اس قسم کے سوال کرنے والوں کو بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔
یہ ہے ہمارا پاکستان ……بلکہ دراصل ان کا پاکستان!
فإني لأرى الفتن تقع خلال بيوتكم كوقع القطر…… محمد طلال نے لکھا
یہ حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں کسی کے جنازے میں لوگوں کی آئی بڑی تعداد سے مرعوب نہ ہوں، نہ اس کو حق پر ہونے کی دلیل سمجھیں۔
اس کے برعکس ہم ایسے دور میں زندہ ہیں جب اہل حق کے جنازے رات اندھیروں میں اٹھائے جارے ہوں اور ہمیں انکی قبر کے مقام تک کی خبر نہ ہو……
احساس شکست بھی ایک نعمت ہے ……شیخ حامد کمال الدین نے لکھا
استعمار کے دور اول میں ہند تو ہمارے ہاتھ سے نکل گیا لیکن ہمارے معیار بچ گئے۔ احساس شکست بھی ایک نعمت ہے اور ایک نئے سرے سے اٹھ کھڑا ہونے کیلیے ایک بڑا محرک ہے۔
کہیں اس دور میں ہمارا یہ ‘قومی میڈیا‘ ہوتا۔۔۔ تو میر جعفر اور میر صادق ہمارے قومی ہیرو ہوتے اور ہماری تاریخ کے محسن؛ کونسی شکست اور کونسا نقصان!!!
آپ کے بچے آج تک میسور اور سرنگاپٹم کو رو لیتے ہیں تو اس کی وجہ یہ کہ آپکی پچھلی نسلیں فاتح کے زاویہ نگاہ سے نہیں سوچتی تھیں۔ ذرا آپ اندازہ کر سکتے ہیں اس وقت آپ کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟