خوارج…… آستین کے سانپ!

شیخ سردار ولی شہید ﷬ (ترجمہ وحواشی: ابوعمر عبد الرحمٰن*)

ترجمہ وحواشی: ابوعمر عبد الرحمٰن1


[شیخ سردار ولی رحمۃ اللہ علیہ افغانستان کے مشہور و معروف اور صاحب ِ خیرو حق گو سلفی عالم تھے ۔ داعش کا فساد جب مسلمانوں پر حملوں کی صورت میں بڑھنے لگا ، جہاد کے ثمرات کو جس سے خطرہ لاحق ہوا اور داعشی فسادی ، مسلکِ اہل حدیث کی آڑ لے کریہاں بین المسالک جنگ پیدا کرنے کا امریکی ایجنڈا پورا کرنے لگے تو ایسے میں شیخ رحمہ اللہ نے ’ردالخارجیۃ‘ کے نام سے سلسلہ دروس شروع کیا اور خوارج کی وہ صفات بیان کیں جوہر اُس فرد کو گروہِ داعش میں بدرجہ اتم نظر آرہی تھیں جو اس گمراہ گروہ کے افعال وافکار کا تھوڑا سابھی علم رکھتاتھا ۔ صرف یہ نہیں بلکہ شیخ رحمہ اللہ امارت اسلامی کے بڑے حامی و مؤید تھے اور اپنی اس تائید وحمایت کو علی الاعلان ظاہر بھی کرتے تھے ۔ یہ داعش کو قبول نہیں تھا، داعش نے اپنے رسمی اعلانات میں افغانستان کے علمائے کرام ،بالخصوص امارت کی تائید کرنے والے علماءکو ڈرایا دھمکایا کہ وہ امارت کی تائید سے ہاتھ کھینچ لیں، ورنہ کسی کی بھی جان بخشی نہیں ہوگی اور بری طرح مارے جائیں گے ۔ شیخ رحمہ اللہ پر ان دھمکیوں کا اثر نہیں ہوا ، بلکہ جب امارت اسلامی کی تائید و ترشید کے لیے کابل میں ملک بھر سے ہزاروں علمائے کرام کی کانفرنس منعقد ہوئی تو شیخ سردار ولی رحمہ اللہ نے بھی اس میں شرکت کی ، امارت اسلامی کی حمایت کا ایک دفعہ پھر اظہار کیا اور امیر المومنین شیخ ہبۃ اللہ حفظہ اللہ کے ساتھ بیعت کی بھی تجدید کی ۔یہ وہ حقائق ہیں کہ جن کی کوئی تردید نہیں کرسکتا۔مذکورہ کانفرنس کے ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ شیخ رحمہ اللہ کو بڑی بے دردی کے ساتھ انتہائی وحشیانہ انداز سے ، خنجروں کے ستائیس وار کرکے شہید کر دیاگیا ۔ شیخ کی شہادت پر امارت اسلامی کے قائدین اور جنود سوگوار ہوئے ۔ امارت کے ترجمان نے کھل کر اس جرم ِ قبیح کی مذمت کی اور بتایا کہ اس واقعے سے امارت اسلامی اپنے ایک بڑے عالم اور حامی و مؤید شیخ سے محروم ہوئی، نیز یہ بھی واضح کردیا کہ یہ ان خوارج ِ عصر کا بزدلانہ اقدام ہے جو دین دشمن قوتوں کے ہاتھوں آج کھلونہ بنے ہوئےہیں۔اللہ کا فضل رہا کہ امارت کے جنود نے طویل کوشش و محنت کے بعد شیخ کے بعض قاتلین تک رسائی حاصل کی ، انہیں گرفتار کیا اور ان سے ملنے والی معلومات سے جہاں یہ بات یقین تک پہنچ گئی کہ شیخ کی شہادت ان خوارجِ عصر کے ہاتھوں ہوئی وہاں اس بات کے بھی قوی شواہد مل گئے کہ داعشیوں سے یہ جرم کرانے والے باہر کی وہ دین دشمن طاقتیں ہیں جو افغانستان میں جہاد کے ثمرات ضائع کرنا چاہتی ہیں اور یہاں ایک دفعہ پھر دین دشمن نظام لانے کے خواب دیکھتی ہیں۔

شیخ سردار ولی رحمہ اللہ کی ایسی شہادت کسی بڑے مجاہد عالم دین کی اول یا آخری شہادت نہیں تھی ، داعش کی طرف سے علمائے کرام ، مجاہدین ِعظام اور افغانستان کی غیرت ِ دین سے سرشار عوام کے خلاف کارروائیوں کا ایک طویل سلسلہ ہے جو تاحال جاری ہے۔ ابھی تک ان حملوں میں شیخ سردار ولی ، شیخ رحیم اللہ حقانی اور شیخ مجیب الرحمان انصاری جیسے مشائخِ عظام سمیت اہل ایمان وجہاد کی ایک بڑی تعداد شہید ہوگئی ہے،اور حیران کن حدتک اپنے پیش رو خوارج کے نقش ِ قدم پر چلتے ہوئے موجودہ حروریوں کے بھی اول نشانے پر چونکہ مؤمنین مصلحین اور علمائے کرام ومجاہدین ہیں اس لیے ان کے حملوں کے اہداف میں بھی سرفہرست مقامات مساجد ،مدارس اور پھر عوامی اجتماعات ہیں ۔ ذیل میں ہم شیخ سردار ولی رحمۃ اللہ علیہ کے خوارج کے خلاف سلسلۂ دروس سے ایک مقطع ’’خوارج اوپيژنۍ‘‘ (خوارج کو پہچانو!) کا ترجمہ پیش کرتے ہیں اور بعض حواشی بھی اس پردرج کرتے ہیں تاکہ اس تحریر کی روشنی میں خوارج ِ عصر کا قبیح چہرہ پہچانا جائے، ان کے متعلق کسی قسم کی خوش گمانی سے بچاجائے، ان سے کماحقہٗ نفرت و عداوت رکھی جائے اور ہر سطح پر ان کے ساتھ مقابلہ کیا جائے ، یہ اس لیے کہ رسول اللہﷺ نے ان کے متعلق بہت خطرناک وعیدیں سنائی ہیں ، انہیں کلابُ أھل النار(جہنم کے کتے) کا نام دیاہے،ان کے بارے میں ’ اسلام سےیہ ایسے نکل گئے جیسا کہ تیر شکار سے نکل جاتاہے ‘، کہا ہے اورآپﷺنے فرمایا ہے کہ اگر آپﷺ نے انہیں پایا تو انہیں عاد وثمود کی طرح قتل کریں گے، نیز یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ قرآن پڑھیں گے مگر ان کے حلق سے قرآن نیچے نہیں اترے گا، یعنی انہیں اس کا فہم نصیب نہیں ہوگا اور یہ بھی احادیث میں وارد ہے کہ آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر سب سے بدترین قتل ہونے والے مقتولینِ خوارج ہیں اور بہترین شہداء وہ ہیں جو خوارج کے ہاتھوں شہید ہوں۔ اس تحریر کا دوسرا مقصد یہ ہے ، کہ یہ مقطع چونکہ خود شیخ سردار ولی رحمہ اللہ کے سلسلۂ بیانات سے لیا گیاہے ، اس لیے اس سے یہ بھی واضح ہوجائے گاکہ شیخ رحمہ اللہ کے دشمن کون تھے ؟ظاہرہے شیخ نے اپنے بیا ن میں جن گمراہوں کی صفاتِ قبیحہ بیان کی ہیں انہیں ظالموں نے ہی بالآخر شیخ کو شہید کردیا ، اللہ شیخ کو جنت الفردوس عطا فرمائے اور ہمیں فتنوں کے اس دور میں حق پہچاننے اور اس کا ساتھ دینے کی توفیق دے ،آمین ۔ (ابوعمر عبد الرحمٰن)]

کون دائرہ اسلام سے نکلا اور کون نہیں؟ یہ فیصلہ کرنا یا اس پر زبان کھولنا تکفیر ہے اور یہ کام صرف اور صرف راسخ علمائے کرام کا ہے ۔ یہ اُن لوگوں کا کام ہے جو قرآن وسنت کا گہرا علم رکھتے ہوں، ہر کس وناکس کاکام یہ قطعاً نہیں ہے کہ کبھی ایک کے بارے میں اعلان کرے کہ یہ کافر ہے اور کبھی دوسرے کے بارے میں کہے کہ یہ اسلام سے خارج ہے۔خوارج کی ایک نشانی یہ ہے (کہ وہ بغیر علم ، تحقیق اور اہلیت کے لوگوں کی تکفیر کرتے ہیں )، دوسری نشانی، آپﷺ نے فرمایا ہے کہ’’چھوٹی عمر کے لڑکے ہوں گے‘‘ زیادہ تر نوجوان ہوں گے ،آج بھی انہیں دیکھیں(اکثریت کم عمر وں کی ہوگی )……اس طرح فرمایا ’’سُفَھَاءُ الأحلام‘‘، ’’کمزور عقلوں والے ہوں گے‘‘، (اس میں ان کے چھوٹے بڑے سب برابر ہیں!)بغیر سوچ کے بس ٹھک سے فتوی لگائیں گے ،اور ایسی بات کریں گے کہ فرمایا ’’قول البریۃ‘‘ تمہیں گمان ہوگا کہ اس کی بات بڑی اچھی ہے، کہیں گے بس ہم قرآن و حدیث پر فیصلہ کریں گے، قرآن و حدیث کے سوا دوسری کوئی چیز نہیں مانیں گے ، اور آپﷺ نے فرمایا ’’عالم نہیں ہوگا مگر اپنا آپ عالم دکھائے گا‘‘۔ علماءکی محفل میں بیٹھے گا اور آپ اگراس کے سامنے کوئی آیت سنائیں یا کوئی حدیث ذکر کریں ، تو اس کی ایسی توجیہہ پیش کرے گا کہ جیسے یہ بہت بڑے مدرسے سے فارغ ہے، حالانکہ حقیقت میں جاہل ہوگا اور بس لوگوں کو اپنا آپ عالم دکھائے گا۔ آگے فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف جنگ وقتال کے لیے ہر دم تیار ہوگا، جبکہ یہود ونصاریٰ اور( ہنودو مشرکین ) کو بری نگاہ سے بھی نہیں دیکھے گا۔ کسی مسلمان سے اگر کوئی خطا ہوجائے ، کوئی غلط قدم اٹھ جائے تو فوراً کہے گا ’ ’یہ کافر ہو گیا،غرق ہو گیا‘‘۔یہ ان کی علامات ہیں …… لوگوں میں (اہل ایمان کے خلاف ) بدگمانیاں پیدا کریں گے ،آپ کسی کے ساتھ (کسی ضروری کام سے) بیٹھے ہوں گے ، یہ اشتہار لگائے گا کہ دیکھا نہیں! وہ آدمی ’فلاں ‘ لوگوں کے پاس گیا تھا، ان کے ساتھ کھانا کھا رہاتھا،بھئی یہ بھی بس انہیں میں سے ہوگیا، (پشتو میں :داپہ کی ھُم لاړو)، اس سے بھی ایمان نکل گیا،اگلی علامت ، اغوا کاری کریں گے، کبھی ایک مسلمان کا بچہ اغوا کریں گے اور تاوان مانگیں گے تو کبھی دوسرے کا ، خباب ابن ارت رضی اللہ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کوانہوں نے اٹھایا اور کہا کہ تم اس گروہ میں کھڑے ہو تم کافر ہو ، راستے میں جب انہیں لے جارہے تھے ، تو زمین پر ایک کھجور درخت سے گری پڑی تھی، ایک خارجی نے اسے اٹھاکر منہ میں ڈالا، دوسرے نے کہا ’’تھوکو ، پھینکو!!‘‘……’’ مشتبہ مال ہے ، پیٹ میں حرام چلا جائے گا‘‘ …… واہ !کس درجہ کے یہ ’’متقی‘‘ تھے !! کتنے بڑے ’’بزرگ ‘‘تھے ؟!……یہ ان کی ’’پرہیر گاری ‘‘ تھی کہ کھانے پینے میں چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھتے تھے!! آج بھی اگر کسی کا کھانا آتا ہے تو کہتے ہیں ، یہ مت کھاؤ، یہ آدمی فلاں جگہ کام کرتاہے ، اس کا کھانا نہیں کھانا!!! ( کسی کے مال یاکھانے کا مشتبہ ہونا اگر یقینی ہو تو یہ اچھی صفت ہے مگر یہ ’’یک رخا‘‘ تقویٰ ہے،اس لیے کہ ایک طرف اتنا تقویٰ اور دوسری طرف مسلمانوں کے حقوق کے معاملے میں اکبر الکبائر سے بھی نہیں رکتے، عہد شکنی ، غیبت ، تکفیر ِمسلم ،مسلمانوں کا ناحق خون بہانے اور ان پر ظلم کرنے جیسے سارے گناہ اپنے لیےجائز بلکہ کارِثواب سمجھتے ہیں ، شیخ آگے فرماتے ہیں: ) تو عبداللہ رضی اللہ عنہ کو جب نہر کے کنارے لٹادیا اور خنجر نکال کر ان کے گلے پر رکھ دیا ، تو انہوں نے فرمایا’’ عجیب پرہیزگار ہو!مشتبہ کھجور نہیں کھاتے ہیں اور مجھے ذبح کرتے ہو؟حالانکہ میں مسلمان اور صحابی ٔ رسول ہوں ‘‘ ظالموں نے کچھ نہیں سنا اور حضرت عبداللہ ابن خباب رضی اللہ عنہما کولٹاکر ذبح کردیا2۔ بہت ضروری ہے کہ ہرمعاملے میں تحقیق ہو ،کوئی کافر ہے یا نہیں؟…… یہ فیصلہ آسان نہیں!بھائی تم عالم ہو، کیا تم اس فیصلے کے اہل ہو یا نہیں ؟؟ کس فرد کے متعلق بدگمانی جائز ہے اور کس کے بارے میں ناجائز ہے؟ کسی سے مال چھینتے ہو ،تو بھائی کیوں چھینتے ہو؟ (کیا اس کا مال تمہارے لیے حلال ہے؟) مسلمانوں کے بچوں کو اغوا کرتے ہو اور پھر اطلاع دیتے ہو ، اتنا مال بھیج دو ، فلاں چیز دے دو!! یہ باتیں خوارج نے شروع کی تھیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں سمجھانے کے لیے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کو بھجوایا، حروری کے علاقے میں یہ سارے جمع تھے ۔علی رضی اللہ عنہ نے انہیں بھجوایا کہ انہیں سمجھائیں، عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ کے چچا زاد بھائی تھے۔ہجرت سے تین سال پہلے پیدا ہوئے تھے ۔ جب آپﷺ دنیا سے رحلت کرگئے تو آپؓ کی عمر تیرہ یاپندرہ سال تھی ۔ رسول اللہﷺ نے انہیں دعا دی تھی کہ اللہ اسے قرآن و سنت کا عالم بنادیں۔عمررضی اللہ عنہ انہیں اپنے ساتھ بٹھاتے ، کیوں کہ اللہ نے انہیں قرآن کا فہم دیا تھا۔جبرائیل علیہ السلام کو انہوں نے تین دفعہ دیکھا ہے۔اللہ کے خوف سے اتنا روتے تھے کہ آنسو بہنے کی وجہ سے آنکھوں کے نیچے کی جگہ پرانے چمڑے جیسی ہوگئی تھی ۔ایک ہزار چھ سو ساٹھ احادیث ان سے مروی ہیں ، اللہ نے انہیں انتہائی عظیم شان دی تھی، تو جب یہ ان کی طرف روانہ ہوئے تو اچھے کپڑے آپ نے زیب تن کیے۔جیسے اُس علاقے میں داخل ہوئے توحروریوں نے دیکھتے ہی کہا’ ’واہ واہ ابن عباس! یہ کیا پہنا ہواہے؟‘‘( اچھے کپڑوں پر اعتراض کیا)…… آج بھی بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو بہت بڑےبزرگ اور پرہیز گار سمجھتے ہیں ، کہ اگر کوئی اچھے کپڑے پہنے ، اچھی گاڑی استعمال کرے ،تو کہیں گے ،’ بھئی یہ بہت اسراف کرتاہے ، ویسے اس گاڑی کی کیاضرورت تھی ؟ اس گھر کی کیاحاجت تھی ؟ ایسے جوتے یہ کیوں استعمال کرتاہے؟ تو ابن عباس رضی اللہ عنہ کو بھی کہا کہ ایسے کپڑے کیوں پہنے ہیں ؟ انہوں نے ایسے سادہ لوگوں کو اپنے ساتھ ملایا تھا جو بس ٹھکاٹھک فتوے لگاتے تھے ، بارہ ہزار افراد جمع ہوئے تھے، ان کے فتوؤں اور بدگمانیوں کا یہ حال تھا ۔ جبکہ اسلام ہمیں تحقیق کا پابند کرتاہے، حضرت علی رضی اللہ کا قول ہے ،فرماتے ہیں ،اپنے آپ کولال بیگ مت بناؤ کہ جس طرف ایک رُخ کرتاہے دوسرے بھی اُس طرف چل پڑتے ہیں ، علم و تحقیق سے کام لیاکرو کہ یہ مسئلہ ایسا ہے یا نہیں ، اس کیفیت پر بات ہونی چاہیے یا نہیں۔ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا’ ’میرے کپڑوں کی فکر نہ کرو، آپ ﷺ نے اس سے بھی اچھا جوڑا پہنا تھا، مقصد کی بات کروتاکہ مشکل حل ہو‘‘۔خوارج نے کہا ’’ ہم تمہارے ساتھ مذاکرات کرتے ہیں ،مگر مرجع صرف قرآن وحدیث ہوگا، کوئی دوسری چیز بیچ میں نہیں لاؤ گے3 اور اس کے مطابق یہ دونوں گروہ کا فر ہوگئے ہیں‘‘ کہا’’علیؓ بھی (نعوذ باللہ من ذالک ) کافر ہے اور معاویہؓ بھی کا فر ہے‘‘4۔ابن عباس رضی اللہ نے فرمایا ،’’ اپنے بڑوں کو آگے کرو، ان کے ساتھ بات کرتاہوں ، میں بھی قرآن وحدیث سے ہی جواب دوں گا ، بے فکر رہو ، کوئی اور چیز بیچ میں نہیں لاؤں گا‘‘۔خوارج بولے ’’ یہ دونوں گروہ اس لیے کافر ہیں ، کہ انہوں نے انسانوں میں سے حَکم مقرر کیا ، حالانکہ اللہ کا حکم ہے کہ ﴿إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلهِ﴾ حکم اور فیصلے کا اختیار فقط اللہ کے لیے ہے ۔لہٰذا جو حکم مقرر کرے وہ کافر ہے۔دوسرا یہ کہ اس معاہدے میں انہوں نے ’من علی ابن ابی طالب ‘ لکھا ہے ، امیر المومنین اپنے ساتھ نہیں لکھا ہے۔اب یہ مسلمانوں کے امیر ہیں یا نہیں ؟ اگر ہیں تو لکھتے کیوں نہیں ہیں؟ اور اگر نہیں ہیں تو یہ کافر ہیں۔تیسرا یہ کہ معاویہ (رضی اللہ عنہ) کے لشکر کی خواتین کو یہ لونڈیا ں کیوں نہیں بناتے ہیں، ان کے اموال غنیمت کیوں نہیں کرتے ہیں؟‘‘ عبداللہ ابن عباس نے جواب دینا شروع کیا ۔فرمایا’’ ان الحکم الا للہ ، کے دو معنی ہیں ، ایک یہ ساری مخلوقات کا اختیار اللہ کے پاس ہے اور اس میں اللہ کے ساتھ کوئی شریک نہیں۔جبکہ یہاں علی رضی اللہ عنہ اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے جو حکم مقرر کیا ہے ، اس کا معنی دوسرا ہے ، مثلاً اگر حاجی حالت ِ احرام میں اگر کسی جانور کو قتل کردے ، تو یہ پھر اس کے برابر صدقہ کرے گا اور اس کا فیصلہ حَکم کرے گا کہ کیا ذبح ہو۔اب جب آپ ﴿إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلهِ﴾ ‘ کی بس یہی تعریف کرتے ہیں تو کیا یہ حاجی کافر ہوگیا؟‘‘ سادہ لوگ تھے ، اکثر سمجھ گئے ،دوسرا یہ کہ سورۃ النساء میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ اگر میاں بیوی کے درمیان ناچاقی ہوئی ، تو دونوں طرف سے حکم مقرر کریں، حَكَماً مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَماً مِّنْ أَهْلِهَا، اب اگر یہاں حکم مقرر کرنے سے کوئی کافر نہیں ہوتا تو وہاں بھی علی ابن طالب اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہما حکم مقرر کرنے پر کافر نہیں ہوئے ،اب دوسری بات کہ علی رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے امیر ہیں یا نہیں اگر ہیں تو اپنے ساتھ لکھتے کیوں نہیں ہیں؟ عباس رضی اللہ نے فرمایا کہ اگر ورق پر علی رضی اللہ نے نہیں لکھا تو کیا ہوا ، علی رضی اللہ عنہ دلوں میں لوگوں کے امیر ہیں ، رسول اللہﷺ جب صلح حدیبہ کا معاہدہ لکھ رہے تھے تو سہیل بن عمرو نے کہا کہ محمدﷺ کے ساتھ جو رسول اللہ لکھا ہے ، اس کو مٹا دو، علی رضی اللہ عنہ نے کہا میں تو نہیں مٹا سکتاہوں ، رسول اللہﷺ نے اپنے دست ِ مبارک سے اس کو مٹایا اور قرآن کریم میں اس پوری صلح کی تعریف آئی ، وجہ کیا تھی ؟ انکار کسی نے نہیں کیا، بلکہ خاموشی اختیار کی گئی اور دلوں میں اقرار سب کررہے تھے کہ آپﷺ اللہ کے رسول ہیں،ا ب یہاں اگر مسلمانوں کی مصلحت کی وجہ سے علی رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھ امیر المومنین نہیں لکھا تو اس میں کیا برائی ہوئی؟ یہ سن کر بہت سوں کا دماغ ٹھکانے آگیا، تیسری بات یہ ہے کہ تم کہتے ہو کہ لشکرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کی عورتوں کو ہم لونڈیاں کیوں نہیں بناتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اہل قبلہ ہیں اور اہل قبلہ کی عورتوں کو لونڈیا ں اور بیٹوں کو غلام نہیں بنایا جاسکتاہے، جنگ جمل میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ لوگوں کی قید میں آگئیں ، آپ لوگوں نے کیوں چھوڑا ؟ بولے ، اس لیے کہ وہ تو ہماری ماں ہیں ، ام المومنین ہیں‘‘۔جب ایسا ہے تو پھر لشکر کی دیگر عورتوں کو بھی لونڈیا ں نہیں بنایا جاسکتاہے۔ جب یہ مسئلہ ابن عباس نے بیان کیا اور جوابات بھی قرآن وسنت سے بیان کیے تو چھ ہزار تک خوارج توبہ تائب ہوگئے۔باقیوں کو علی رضی اللہ عنہ نے سمجھایا ، اس سے بھی کئی لوگ واپس آئے ، اس کے بعد مزید کے ساتھ علی رضی اللہ عنہ کی جنگ ہوئی اور اس کے بعد علی رضی اللہ کی شہادت بھی ایک خارجی کے ہاتھ ہی ہوئی ، اس کی تفصیل ان شاء اللہ پھر کبھی بیان کریں گے۔

وما علیناإلا البلاغ المبین!

٭٭٭٭٭


1 [abo-omer@nghmag.com]

2 تاریخ طبری نے حضرت عبداللہ بن خباب رضی اللہ عنہ کی شہادت کا یہ دردناک واقعہ کچھ اس طرح بیان کیا ہے:’’خوارج بصرہ سے چلے ، جب وہ نہر کے قریب پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک شخص عورت کو گدھے پر لیے جارہا ہے ،یہ لوگ اس کے پاس پہنچے اور اسے ڈانٹ ڈپٹ کی اور خوف زدہ کیا۔ پھر اس شخص سے سوال کیا ’تم کون ہو؟‘ اس شخص نے کہا ’’میں عبداللہ بن خباب ،رسول اللہﷺ کا صحابی ہوں ‘‘ یہ کہہ کر عبداللہ نے زمین پر سے اپنے کپڑے اٹھا لیے جو گھبراہٹ میں زمین پر گر گئے تھے ۔خارجیوں نے سوال کیا ’’کیا تم ہم سے ڈر گئے تھے‘ ‘ عبداللہ نے جواب دیا ’ہاں ‘ خارجیوں نے کہا ’’آپ ڈریے نہیں،آپ ہم سے وہ حدیث بیان کیجیے ،جو آپ نے اپنے والد سے سنی ہے اور انہوں نے رسول اللہﷺ سے ، شاید اللہ تعالی اس حدیث کے ذریعہ ہمیں کوئی فائدہ پہنچائے‘‘ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا’’ مجھ سے میرے والد خباب نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ عنقریب ایک فتنہ واقع ہوگا، جس میں انسانوں کے قلوب ایسے ہی مردہ ہوجائیں گے جیسے کہ اس فتنے میں انسانوں کے اجسام ختم ہوجائیں گے ، ایک شخص شام کے وقت مومن ہوگا لیکن فتنے کی وجہ سے صبح کافر ہوگا اور اگر وہ اس فتنے کی وجہ سے صبح کو مومن ہے تو شام کو کافر ہوجائے گا‘‘ خارجیوں نے کہا ’’ہم تم سے یہی حدیث معلوم کرنا چاہتے تھے ، اچھا یہ بتاؤ ،ابوبکر و عمر کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ ‘‘ عبداللہ بن خباب نے ان دونوں بزرگوں کی تعریف کی ۔ خارجیوں نے پھر پوچھا کہ حضرت عثمان کے ابتدائی اورآخری دور کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے ؟ حضرت عبداللہ بن خباب نے فرمایا ’’وہ شروع دور میں بھی حق پر تھے اور آخری دور میں بھی ‘‘ خارجیوں نے پھر سوال کیا’‘علی بن ابی طالب کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ وہ تحکیم سے قبل کیسے تھے اور تحکیم کے بعد ان کے دین کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا’’ وہ اللہ کو تم لوگوں سے زیادہ جانتے ہیں اور تم لوگوں سے زیادہ دین کے پیروکار ہیں اور تم لوگوں سے زیادہ بصیرت کے مالک ہیں ‘‘ اس بات پر خارجیوں نے کہا’’ تم اپنی خواہشات کی پیروری کرتے ہو اور مشہور لوگوں کے ناموں کو بس دیکھ کر ان سے محبت کرتے ہو اور تم ان کے افعال کو نہیں دیکھتے ،خدا کی قسم ہم تمہیں ایسی بری طرح قتل کریں گے کہ آج تک کسی نے اسی طرح قتل نہیں کیا ہوگا، پھر خارجیوں نے انہیں باندھا ……انہیں نہروان کے کنارے لے گئے اور شہید کردیا گیا۔ ان کا خون نہر میں جوتے کی تسمے کی صورت میں ایک دھار کی شکل میں بہہ رہا تھا ، جبکہ ان کی عورت کو ، جو عنقریب بچہ جننے والی تھی کو بھی پکڑ کر لے گئے ، ان کا پیٹ چاک کیا اور پیٹ میں جو بچہ تھا اُسے نکال پھینک دیا۔‘‘(طبری جلد سوم )

سبحان اللہ اور استغفر اللہ ،آج اور کل کے خارجیوں میں کس قدر مماثلت ہے !!کل بھی یہ الزام لگاتے تھے کہ شخصیات کے ساتھ ان کی شہرت کے باعث تم محبت کرتے ہو جبکہ شخصیات کے اقوال و افعال کو نہیں دیکھتے ہو اور آج بھی اگر ان کے ہوائے نفس کے خلاف کسی متقی ، عالم اور مجاہد شخصیت کا قول انہیں سناؤ تو یہی ان کا جواب ہوتاہے ۔ راقم کے ساتھ فتنہ داعش کے آغاز میں ، وزیرستان کے دور میں ایک داعشی نے بحث کی، وہ شیخ ایمن الظواہری کو گمراہ کہہ رہا تھا(اور بعد میں ، بہت جلد اس گروہ نے شیخ کی تکفیر بھی کی ،نعوذ باللہ )، میں نے اس کے جواب میں شیخ ایمن کا موقف اس کے سامنے رکھا اور شیخ کا دفا ع کیا، اُس نے ٹھک سے کہا ’’أنتم تعبدون أیمن الظواھري ونحن لا نعبد إلا اللہ ‘‘ ……’’تم لوگ ایمن الظواہری کی عبادت کرتے ہو ، جبکہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے ہیں‘‘!!

آج کے خوارج بھی جب کسی کو قتل کرتے ہیں تو عمل ِقتل فن سمجھ کر ، بدسے بد تر اور انتہائی دردناک انداز اس میں اپناتے ہیں ، کیفیت ِقتل سے محظوظ ہوتے ہیں اور اس میں خون کا جسم سے نکلنے اور پانی میں بہاؤ کی باقاعدہ ویڈیوز بناکر تشہیر کرتے ہیں جبکہ کل بھی حضرت عبداللہ بن خباب رضی اللہ کو ان خوارج نے بدترین طریقے سے قتل کیا اور ان کامبارک خون نہرمیں بہاکر اس سے خوش ہو ئے ۔کل بھی حضرت عبداللہ بن خباب رضی اللہ عنہ جیسے عالم وزاہد اور صحابی ٔرسول کو شہید کیا اور ان کی خاتون کے پیٹ سے بچہ نکال کر بے دردی سے قتل کیا اور آج بھی افغانستان میں مشائخ عظام ، عالی قدر مجاہدین ، طلبائے علم دین اور معصوم بچوں کو یہ نیکی سمجھ کر قتل کر رہے ہیں ، شیخ رحیم اللہ حقانی رحمہ اللہ کے ساتھ گود میں ان کا چھوٹا بچہ تھا (اور دیگر چھوٹی چھوٹی عمروں کے بیٹے بھی تھے) جبکہ طلباءو مجاہدین کو تفسیر قرآن پڑھا رہے تھے جب خارجی نے اپنا آپ کو اڑایا اور شیخ اور ان کے چھوٹے بچے سمیت درجنوں طلبا ء کو شہید کیا اور شیخ کے دیگر بیٹوں سمیت درجنوں ہی کو زخمی بھی کیا۔کل بھی خوارج کے ہاں اسلام وکفر اور زندہ چھوڑنے یا قتل کرنے کا فیصلہ بس چند بے کار اور فضول قسم کے سطحی سوالات کے بعد ہوتاتھا، آج بھی آپ کفر و اسلام ثابت کرنے کے لیے ان کی بحثیں سنیں، انٹرنیٹ پر ان کی گفتگو کبھی ملاحظہ کریں ، بعینہ وہی انداز اور وہی فساد ہے!

3 عبرت کی بات ہے کہ یہ صفت بھی آج کے خوارج میں بدرجہ اتم موجود ہے، ان کا بھی دعوی ہے کہ یہ صرف قرآن وحدیث کی دلیل مانتے ہیں اور صرف اس پر عمل کرتے ہیں، گویا ان کے ہاں فقہائے امت کاکام کوئی قابل التفات نہیں، حالانکہ فقہاء بھی قرآن وحدیث ہی کی بات کرتے ہیں ، اورانہوں نے وہیں سے ہی مسائل اخذ کیے ہیں ، بس فرق یہ ہے کہ علم ، اہلیت اور تقوی کے ساتھ مسائل اخذ کیے ہیں اور یہ بغیر علم ، بغیر اہلیت اور بغیر تقوی کے خود فقہائے عصر بن کر مسائل اخذ کرتے ہیں ، حالانکہ فقہاء کا علم ، فہم، تقوی اور زمانہ آج کے دور والوں سے بہت زیادہ اچھا تھا بلکہ دونوں کے بیچ کوئی نسبت ہی نہیں ہے۔فقہاء کے ذخیرۂ علم سے انکار کرکے دراصل پھر یہ قرآن وحدیث سے کھینچ تان کے اپنے مقصد کا مطلب نکالتے ہیں جو درحقیقت ہوائے نفس کی اتباع کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ خوارج عصر کے ہاں دوسرا طریقہ بھی ہے ، وہ یہ کہ ان میں سے بعض فقہ کا انکار تو نہیں کرتے ہیں ، مگر پوری فقہ میں کوئی ایک شاذ قول اٹھاتے ہیں ، اس کو اپنا معنی پہنا تے ہیں اور کہتے ہیں ، ہم بھی تو فقہا کی پیروی کرتے ہیں ، حالانکہ جو مطلب یہ اُس ایک قول سے لیتے ہیں ، اس کا اصل مفہوم واضح کرنے کے لیے فقہ میں دوسرے اقوال سے کتابیں بھری ہوتی ہیں مگر یہ اُس طرف کبھی نہیں دیکھتے ہیں۔

4 گویا ان کے گروہ کے علاوہ پوری امت کافر ہے! یہی نظریات آج کے خوارج کے بھی ہیں۔ جو ان کے ساتھ ہے ، وہ مسلمان ہے چاہے کتنا بڑا مجرم ہو اور جو ان کے ساتھ نہیں ، وہ وقت کا ملا عمر ؒ ، شیخ اسامہ بن لادن ……یا شیخ مجیب الرحمان انصاری اور شیخ رحیم اللہ حقانی کیوں نہ ہوں ، سب کافر بھی ہیں اور واجب القتل بھی ۔

Exit mobile version