مجاہد کے لیے آداب
(۹) مجاہدین کے لیے لازم ہے کہ کارروائی ؍ جنگ شروع کرنے سے پہلے کوئی نیک کام انجام دیا کریں، اس متعلق امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں ایک خصوصی باب قائم کیا ہے ۔ باب کانام ہے ’بَابٌ: عَمَلٌ صَالِحٌ قَبْلَ القِتَالِ‘اس میں آپ ؒ نے حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے : «إِنَّمَا تُقَاتِلُونَ بِأَعْمَالِكُمْ» ترجمہ:’’تم اپنے اعمال کے بل بوتے پر لڑتے ہو‘‘ یعنی اعمال صالحہ تمہیں صبر وثبات عطا کرتے ہیں اور ان کے باعث تمہیں جنگ میں برتری حاصل ہوتی ہے۔
(۱۰)مجاہد کے لیے ضروری ہے کہ اپنے ساتھی کی مدد کرے ، اسے مضبوط کرے اور اسے دشمن کے سامنے تنہا نہ چھوڑے ، بلکہ اس سے پہلے اور آگے دشمن کا مقابلہ کرے۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: «الْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا»، ثُمَّ شَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ (البخاری حدیث نمبر ۲۰۲۶)
ترجمہ:ایک مومن دوسرے مومن کے لیے عمارت کی اینٹوں کی مانند ہے کہ ایک اینٹ دوسری کو مضبوط کرتی ہے، پھر رسول اللہﷺ نے بطورِ مثال ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں ڈال دیں۔ اس طرح انصار کی مدح وتعریف میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے:﴿وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ﴾ترجمہ :اور یہ اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگر چہ خود تنگی میں ہوں ‘‘۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں:
«جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : إِنِّي مَجْهُودٌ ، فَأَرْسَلَ إِلَى بَعْضِ نِسَائِهِ ، فَقَالَتْ : وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ ، مَا عِنْدِي إِلاَّ مَاءٌ ، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى أُخْرَى ، فَقَالَتْ مِثْلَ ذَلِكَ ، حَتَّى قُلْنَ كُلُّهُنَّ مِثْلَ ذَلِكَ : لاَ ، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ ، مَا عِنْدِي إِلاَّ مَاءٌ ، فَقَالَ : مَنْ يُضِيفُ هَذَا اللَّيْلَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ ؟ فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ ، فَقَالَ : أَنَا ، يَا رَسُولَ اللهِ ، فَانْطَلَقَ بِهِ إِلَى رَحْلِهِ ، فَقَالَ لاِمْرَأَتِهِ : هَلْ عِنْدَكِ شَيْءٌ ؟ قَالَتْ : لاَ إِلاَّ قُوتُ صِبْيَانِي ، قَالَ : فَعَلِّلِيهِمْ بِشَيْءٍ، فَإِذَا دَخَلَ ضَيْفُنَا فَأَطْفِئِ السِّرَاجَ ، وَأَرِيهِ أَنَّا نَأْكُلُ ، فَإِذَا أَهْوَى لِيَأْكُلَ ، فَقُومِي إِلَى السِّرَاجِ حَتَّى تُطْفِئِيهِ ، قَالَ : فَقَعَدُوا وَأَكَلَ الضَّيْفُ ، فَلَمَّا أَصْبَحَ غَدَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : قَدْ عَجِبَ اللَّهُ مِنْ صَنِيعِكُمَا بِضَيْفِكُمَا اللَّيْلَةَ.» (متفق علیہ)
ترجمہ:ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا’میں مشقت میں ہوں ‘، یعنی مجھے بھوک لگی ہے۔رسول اللہ ﷺ نے اپنی ایک زوجہ محترمہ کے ہاں اطلاع بھیجی کہ اس مہمان کو کھانا کھلائیں، انہوں نے جواب دیا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو پیغمبر مبعوث کیا ہے، میرے پاس پانی کے سوا کھانے پینے کی کوئی چیز نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے دوسری زوجہ کی طرف پیغام بھیجا ، وہاں سے بھی یہی جواب آیا ۔ یہاں تک کہ سب ازواج نے یہی اطلاع دی کہ اُس ذات کی قسم جس نے آپ کو نبی بنا کر بھیجا ہے ہمارے گھر میں پینے کے پانی کے سوا کچھ نہیں۔اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو مخاطب کیا اور پوچھا کہ کون اس مہمان کو آج رات کھانا کھلائے گا؟ انصار کی طرف سے ایک صحابی نے کہاکہ اللہ کے رسول ﷺ! میں کھلاؤں گا۔تو وہ انصاری صحابی مہمان کو اپنے ساتھ گھر لے گئے اور اپنی اہلیہ سے کہا کہ یہ رسول اللہﷺ کا مہمان ہے ،ان کا خوب اکرام کرو۔دوسری روایت میں ہے کہ ان صحابی نے اپنی اہلیہ سے پوچھا کہ گھر میں کھانے کے لیے کچھ ہے؟ بیوی نے جواب دیا کہ بچوں کے کھانے کے سوا کھانے کے لیے کچھ نہیں۔صحابی نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ بچوں کو کسی طرح کسی چیز پر بہلاؤ اور جب کھانے کا وقت ہوجائے تو انہیں سلادینا، پھر جب مہمان گھر میں داخل ہوجائے تو چراغ بجھادینا اور ہم مہمان پر ایسے ظاہر کریں گے کہ جیسے ہم بھی کھانا کھا رہے ہیں۔گھر والوں نے ایسا ہی کیا، مہمان نے کھانا کھایا جبکہ گھر والے سب بھوکے رہ گئے۔جب صبح ہوگئی اور یہ صحابی رسول اللہ ﷺ کے دربار میں حاضر ہوئے تو آپﷺ نے فرمایا’’رات کو مہمان کے ساتھ آپ لوگوں نے جو معاملہ کیا ، اللہ کو یہ بہت پسندآ یا اور اس کی تعریف کی ہے۔‘‘
امام ترمذی نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث نقل کی ہے کہ ایک انصاری کے پاس رات کو مہمان آیا ، ان کے گھر بچوں کے کھانے کے علاوہ کچھ نہیں تھا، تو انہوں نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ بچوں کو سلاؤ ، چراغ بجھا دو اور مہمان کے لیے وہ سارا کھانا لے آؤ جو گھر میں ہے ۔ اس پر ﴿وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ﴾آیت نازل ہوئی ۔
تفسیر قرطبی میں ہے:
’’وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: أُهْدِيَ لِرَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَ شَاةٍ فَقَالَ: إِنَّ أَخِي فُلَانًا وَعِيَالَهُ أَحْوَجُ إِلَى هَذَا مِنَّا، فَبَعَثَهُ إِلَيْهِمْ، فَلَمْ يَزَلْ يَبْعَثُ بِهِ وَاحِدٌ إِلَى آخَرَ حَتَّى تَدَاوَلَهَا سَبْعَةُ أَبْيَاتٍ، حَتَّى رَجَعَتْ إِلَى أُولَئِكَ، فَنَزَلَتْ وَيُؤْثِرُونَ عَلى أَنْفُسِهِمْ. ذَكَرَهُ الثَّعْلَبِيُّ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: أُهْدِيَ لِرَجُلٍ مِنَ الصَّحَابَةِ رَأْسُ شَاةٍ وَكَانَ مَجْهُودًا فَوَجَّهَ بِهِ إِلَى جَارٍ لَهُ، فَتَدَاوَلَتْهُ سَبْعَةُ أَنْفُسٍ فِي سَبْعَةِ أَبْيَاتٍ، ثُمَّ عَادَ إِلَى الْأَوَّلِ، فَنَزَلَتْ: وَيُؤْثِرُونَ عَلى أَنْفُسِهِمْ الْآيَةَ۔‘‘
ترجمہ: حضرت ابن عمر (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ میں سے ایک کو ایک بکرے کا سرتحفہ کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس نے کہا : میرا فلاں بھائی اور اس کے اہل ہم سےزیادہ اس کے ضرورت مندہیں۔ انہوں نے وہ سر اس کی طرف بھیج دیا۔ وہ سر لگاتار ایک گھر سے دوسرے گھر کی طرف بھیجا جاتا رہا یہاں تک کہ وہ سات گھروں تک پہنچا اور پھر انہی تک واپس آگیا تو یہ آیت نازل ہوئی ، ثعلبیؒ نے اسے حضرت انس (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا ہے۔ صحابہ کرام میں سے ایک کو بکری کا سرتحفہ کے طور پر پیش کیا گیا جو بہت تنگدست تھے۔ انہوں نے وہ سر اپنے پڑوسی کو بھیج دیا۔ وہ سر سات گھروں میں گھومتا رہا،حتیٰ کہ وہ پہلے کی طرف لوٹ آیا تو یہ آیت﴿وَيُؤْثِرُونَ عَلى أَنْفُسِهِمْ ﴾ نازل ہوئی۔
ہر مسلما ن اور بالخصوص مجاہد کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ اپنی ضرورت پر دوسرے مسلمان اور مجاہد کی ضرورت کو ترجیح دے۔
’’عَنْ أَبِي جَهْمِ بْنِ حُذَيْفَةَ الْعَدَوِيِّ، قَالَ: ” انْطَلَقْتُ يَوْمَ الْيَرْمُوكِ أَطْلُبُ ابْنَ عَمِيَ، وَمَعِي شَنَّةٌ مِنْ مَاءٍ، أَوْ إِنَاءٍ، فَقُلْتُ: إِنْ كَانَ بِهِ رَمَقٌ سَقَيْتُهُ مِنَ الْمَاءِ، وَمَسَحْتُ بِهِ وَجْهَهُ، فَإِذَا أَنَا بِهِ يَنْشَعُ، فَقُلْتُ: أَسْقِيكَ؟ فَأَشَارَ: أَيْ نَعَمْ، فَإِذَا رَجُلٌ يَقُولُ: آهٍ، فَأَشَارَ ابْنُ عَمِيَ أَنْ أَنْطَلِقَ بِهِ إِلَيْهِ، فَإِذَا هُوَ هِشَامُ بْنُ الْعَاصِ أَخُو عَمْرٍو، فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ: أَسْقِيكَ؟ فَسَمِعَ آخَرَ فَقَالَ: آهٍ، فَأَشَارَ هِشَامٌ: أَنْ أَنْطَلِقَ بِهِ إِلَيْهِ، فَجئْتُهُ فَإِذَا هُوَ قَدْ مَاتَ، فَرَجَعْتُ إِلَى هِشَامٍ فَإِذَا هُوَ قَدْ مَاتَ، فَرَجَعْتُ إِلَى ابْنِ عَمِيَ فَإِذَا هُوَ قَدْ مَاتَ‘‘ (البيهيقي في شعب الايمان.رقم3208)
ترجمہ:ابوجہم بن حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یرموک کے دن میں زخمیوں میں اپنے چچا کے بیٹے کو تلاش کررہاتھا اور میرے ہاتھ میں پانی تھا، میں سوچ رہاتھا کہ اگر اس میں ابھی تک جان ہو تو میں اس کو ایک گھونٹ پانی پلادوں گا اور اس کے چہرے کا بھی چھڑکاؤ کرلوں گا، اس دوران اچانک وہ مجھے ایسی حالت میں نظر آیا کہ بس وہ آخری سانسیں لے رہا تھا، میں نے اس سے پوچھا کہ پانی پلاؤں ؟ اس نے اشارہ سے جواب دیا کہ ہاں دے دو، اس دوران ایک دوسرا زخمی کراہنے لگا، تو میرے چچا کے بیٹے نے کہا کہ اس کو دے دو۔ میں نے دیکھا کہ وہ دوسرے زخمی عمرو کے بھائی ہشام ابن العاص تھے ، میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کو پانی پلاؤں؟ میری یہ بات ایک تیسرے زخمی نے سن لی اور اس کی زبان سے آہ نکل گئی ، ہشام نے کہا کہ (مجھے مت دو ، پہلے) اُس کو دےدو۔ جب میں اُس کے پاس گیا تو وہ شہید ہوچکے تھے، میں ہشام کی طرف واپس لوٹا تو دیکھا کہ وہ بھی زندہ نہیں ،پھر چچا کے بیٹے کی طرف گیا تو پیاس کے ساتھ وہ بھی شہید ہوگئے تھے۔
یہ ان اہل ایمان کا ایثار اور وفاداری تھی کہ اس قدر سخت وقت میں بھی اپنے اوپر دوسرے مسلمان اور ساتھی کو ترجیح دی ۔
(وما علینا إلّا البلاغ المبین!)