أشراط الساعۃ
سود کا عام ہونا
منافع، سرمایہ کاری یا رہن یا گروی رکھنا…… سب ایک ہی چیز کے نام ہیں۔ ربا کالفظی ترجمہ سود ہے مگر چونکہ یہ لفظ اب متروک ہے تو ہمیں اس کے لیے موجودہ دور میں رائج اصطلاحات کا علم ہونا چاہیے۔
سود گناہ کبیرہ ہے۔ یہ ان دو گناہوں میں سے ایک ہے کہ جن کے مرتکبین کے خلاف اللہ رب العزت کا اعلانِ جنگ ہے۔ صرف دو ہی گناہ ہیں کہ جن میں ملوث افراد کے خلاف اللہ رب العزت نے اعلان جنگ فرمایا ہے۔ ان میں سے ایک گناہ تو یہ سود ہے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں: ﴿فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ﴾، تو خبردار ہوجاؤ کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے، اور دوسرا گناہ اولیاء اللہ سے دشمنی رکھنا ہے مَنْ عَادَی لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ (حدیثِ قدسی)۔ ابن عباس ؓ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن سود ی معاملات کرنے والے کو ایسے اٹھایا جائے گا گویا شیطان نے اسے چھو کرباؤلا کر دیا ہو﴿يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ﴾، اور اسے ہتھیار دیے جائیں گے اور اسے کہا جائے گا کہ جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ…… اللہ رب العزت سے جنگ کے لیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے:
’’قیامت کے قریب سود عام ہوجائے گا۔‘‘
اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک زمانہ آئے گا کہ جب سودی معاملات بہت عام ہوجائیں گے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں سود کی دو قسمیں رائج تھیں، ایک ربا نسیہ جس میں قرض کی واپسی کے لیے ایک محدود مدت مقرر کردی جاتی تھی اور دوسرا ربا الفضل جس میں جنس کے بدلے جنس کی تجارت کی جاتی تھی، سونے کے بدلے سونا اور چاندی کے بدلے چاندی، مگر اس پر کچھ رقم کا اضافہ کردیا جاتا تھا۔ یہ دوسری قسم اب بھی رائج ہے۔ موجودہ دور میں رائج سود دراصل ربا نسیہ ہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ دور جاہلیت میں رائج قرض کے لین دین کے جس روایتی طریقے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تشریف لا کر شریعت کی روشنی میں درست فرمایا وہ مدت کے تعین ہی کا تھا۔ ایک شخص کسی دوسرے شخص کو کچھ رقم دیتا ہے اور ساتھ ہی مدت مقرر کردیتا ہے کہ اگر قرض دار مقررہ مدت کے اندر اندر رقم لوٹا دے تو ٹھیک ورنہ مقررہ مدت گزرنے کے بعد اصل رقم سے زیادہ رقم ادا کرنی ہوگی۔ یہ قریباً وہی طریقہ ہے جیسے آج کل کریڈٹ کارڈز، کہ اگر آپ مقررہ مدت کے اندر اندر ادائیگی کردیتے ہیں تو ٹھیک ورنہ اضافی پیسے دینے پڑیں گے۔ اسے اس طرح کہا جاتا کہ تقضی او تربی، یا (مقررہ مدت کے اندر) ادائیگی کرو ورنہ مزید پیسے ادا کرو۔ سود کی یہ قسم آج رہن پر شرح سود اور سرمایہ کاری جیسےبہت سے مختلف ناموں اور شکلوں میں موجود ہے۔ آپ کو الا ماشاءاللہ ہی کوئی کمپنی ایسی ملے گی جو قلیل مدتی یا کثیر مدتی قرض پر نہ چل رہی ہو۔ امریکہ میں ہر ایک ہی کسی نہ کسی قسم کے قرض کے بوجھ تلے دبا ہے اور کسی نہ کسی درجے میں سود ادا کررہا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذیل کی حدیث میں گویا دورِ حاضر ہی کی مثال بیان فرمائی جب فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ
لَيَأْتِيَنَّ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَبْقَی مِنْهُمْ أَحَدٌ إِلَّا آکِلُ الرِّبَا فَمَنْ لَمْ يَأْکُلْ أَصَابَهُ مِنْ غُبَارِهِ. (سنن ابن ماجہ)
’’لوگوں پر ضرور ایسا زمانہ آئے گا جس میں کوئی شخص سود کھائے بغیر نہیں رہے گا۔ جو شخص سود نہیں کھائے گا اسے بھی اس کا گردوغبار تو پہنچ ہی جائے گا۔‘‘
سود اس قدر پھیل جائے گا کہ قریباً ہر فرد ہی سودی معاملات میں کسی نہ کسی طور شریک ہوگا۔ اور جو سودی معاملات سے اپنا دامن بچانے کی کوشش کرے گا وہ بھی کم از کم اس کے غبار سے آلودہ ہو کر رہے گا اور یوں سود کا کچھ نہ کچھ ضرر اسے پہنچ کر رہے گا۔
مذکورہ حدیث یہی واضح کر رہی ہے کہ بیشتر بیوپار سودی ہوگا لیکن جو اس سے بچنا چاہے گا وہ ان شاء اللہ کافی حد تک اس سے محفوظ رہے گامگر اس کے اثرات سے مکمل طور پر پھر بھی بچ نہیں پائے گا کیونکہ تمام بیوپار عالمی معیشت کا حصہ ہے۔
آخر آپ اپنا پیسہ کہاں رکھیں گے؟ چیکنگ اکاؤنٹس (جاری کھاتے) میں، جو کہ سودی نہیں ہوتے (بہت سے جاری کھاتے سودی ہوتےبھی ہیں )بہرحال بعض جاری کھاتے منافع نہیں دیتے مگر سود کا غبار آپ کو پھر بھی پہنچتا ہے کیونکہ آپ اپنی رقم ایک ایسے ادارے کے پاس جمع کروا رہے ہیں جو صد فی صد سودی بنیادوں پر قائم ہے ۔ بے شک آپ بذات خود سودی معاملے میں شریک نہیں ہیں مگر اس کی گرد سے آپ کیسے محفوظ رہ سکیں گے۔ غبار دراصل تمثیل ہے، پرانے زمانے میں سڑکیں کچی ہوتی تھیں اور جب کوئی سواری وہاں سے گزرتی تو مسافر گرد سے بچنے کی کوشش کے باوجود گرد و غبار سے کچھ نہ کچھ اٹ ہی جاتے تھے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سود سے ضرور بچیں جتنا کہ آپ بچ سکتے ہیں مگر بہرحال اس کی گرد سے آپ کسی حال میں بھی بچ نہیں سکتے۔
سود سراسر تباہی ہے۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں: يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا، اللہ رب العزت سود کو تہس نہس فرما دیتا ہے، لہٰذا سود میں کوئی برکت نہیں ہوسکتی اور سودی معاملات میں ملوث دنیا کو بھی کہیں کوئی برکت نظر نہیں آسکتی۔ ہم اسے نہ بھی استعمال کریں پھر بھی ہمیں اس کا نقصان پہنچتا ہے کیونکہ عالمی معیشت کے جال سے دنیا کا کوئی کونہ محفوظ نہیں ہے اور سود اس عالمی معیشت کا ایک بنیادی ستون ہے۔ سبحان اللہ! گویا پوری دنیا ہی سود کے سمندر میں غرق ہے۔ ان معنوں میں یہ بدترین دور ہے۔ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے، جو نہ صرف یہ کہ انسان کو عبادت کے طریقے سکھاتا ہے بلکہ اسے اس کے مالی معاملات میں بھی مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اللہ کا دین مکمل ہے مگر ہم اس کامل دین کو اپنی زندگیوں سے نکالنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ اگر ہم اپنی معیشت، سیاست اور معاشرت کو اسلام سے جدا کردیں تو اسلام میں پھر کیا چیز باقی رہ جائے گی؟
’’عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا يُبَالِي الْمَرْئُ مَا أَخَذَ مِنْهُ أَمِنَ الْحَلَالِ أَمْ مِنْ الْحَرَامِ.‘‘ (رواہ البخاری)
’’رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ آدمی کو جو مال ملے گا اس کے بارے میں وہ اس کی پروا نہیں کرے گا کہ یہ حلال ہے یا حرام۔‘‘
لوگوں کا مقصد محض اور محض پیسہ بنانا ہوگا۔ ان کا ایک نصب العین ہوگا اور وہ نصب العین، وہ ہدف دولت کمانا ہوگا، زیادہ سے زیادہ دولت اور کچھ نہیں۔ ایسے لوگ اس بات کی پروا تو کرتے ہیں کہ وہ ملکی قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے مال کمائیں، مگر اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کی پابندی سے وہ بے نیاز ہوتے ہیں۔ لیکن اللہ رب العزت روز قیامت ان سے ایک ایک پیسے کا حساب لے گا کہ انہوں نے کہاں سے اسے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔ یہ ان چار سوالوں میں سے ہے جن کا سامنا ہر انسان کو کرنا ہی ہوگا، تم نے مال کیسے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔ ایک ایک پیسے کا حساب دینا ہوگا۔
مساجد کی تزئین
یہ بھی ان علامات قیامت میں سے ہے جو ظاہر ہوچکی ہیں۔
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّی يَتَبَاهَی النَّاسُ فِي الْمَسَاجِدِ۔ سنن ابوداؤد
’’رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:’’ قیامت قائم نہ ہوگی جب تک کہ لوگ مسجدوں (کی تعمیر) پر فخر(اور آپس میں مقابلہ) نہ کریں گے۔‘‘
یعنی مقابلہ اس بات پر ہوگا کہ کس کی مسجد زیادہ خوبصورت ہے۔ بخاری کی ایک اور حدیث میں ہے، دراصل یہ حدیث نہیں ہے بلکہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ایک حکم ہے، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مسجد نبوی کی چھت کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی تھی۔ لوگ کھجور کے درخت کی شاخیں اور پتے لاتے اور انہیں ایک دوسرے کے اوپر تہہ در تہہ بچھا دیتے اور یہی مسجد نبوی کی چھت ہوتی جس کا مقصد محض سایہ پہنچانا ہوتا، یہ پانی کو نہیں روک سکتی تھی، لہٰذا جب بارش ہوتی تو پانی مسجد کے اندر آتا اور پوری مسجد گیلی ہوجاتی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مسجد نبوی اسی حالت میں تھی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بھی۔اس کے باوجود یہ دنیا کی سب سے بابرکت مسجد تھی اور دعوت اسلام کی شعاعوں نے یہیں سے پھوٹ کر پوری دنیا کو منور کیا۔ پس سادہ سی بات ہے کہ عمارت اور اس کی خوبصورتی معیار نہیں ہے۔ دنیا کی بابرکت ترین مسجد، مسجد نبوی شریف، جہاں سے پوری دنیا کو اسلام ملا، اس کی چھت واٹر پروف نہیں تھی۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں ایک معمار کو بلوایا اور کہا کہ مسجد کی چھت ایسی بنا دے جو نمازیوں کو بارش سے محفوظ رکھے۔ ا ور پھر فرمایا خبردار! اسے سرخ یا زرد نہ بنانا کہ لوگوں کی توجہ نماز سے ہٹ جائے۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک وقت آئے گا کہ لوگ مساجد پر فخر کریں گے مگر انہیں زندہ کرنے کی فکر نہیں کریں گے۔
وہ مسجد بنانے پر فخر تو کریں گے مگر اس مسجد میں جانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ عمارت تو لوگ بنائیں گے بطور مسجد مگر نمازی اپنی نمازوں سے اسے زندہ نہیں کریں گے، وہ عمارت مردہ ہی رہے گی۔
اور ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک وقت آئے گا کہ جب تم اپنی مسجدوں کو ایسے سجاؤ گے جیسے یہودی اور عیسائی اپنی عبادت گاہوں کو سجاتے ہیں۔
اب تو ہم سرخ اور زرد رنگوں کے استعمال کی حد سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ اب تو مساجد کی چھتیں اور دیواریں سونے سے، بڑے بڑے جھلملاتے فانوسوں سے ، اور انتہائی شوخ رنگوں کی خطاطی سے مزین ہوتی ہیں۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا مسجد کی چھت کے لیے سرخ اور زرد رنگ کے استعمال سے منع کرنامحض ان رنگوں کے استعمال کی ممانعت نہیں تھا بلکہ مقصدیہ تھا کہ شوخ رنگوں کی وجہ سے نمازیوں کی توجہ نماز سے نہ ہٹے۔ اللہ اعلم غالباً یہی دو رنگ تھے جو اس دور میں مصوری وغیرہ میں استعمال ہوتے تھے کیونکہ وہ کسم (زعفران کاذب) استعمال کرتے تھے جو سرخ یا زرد رنگ میں رنگنے کے لیے استعمال ہوتا تھا، اور یہی وجہ ہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے معمار کو اس رنگنے والی جڑی بُوٹی کے استعمال سے روکا۔ اور اب آپ دیکھیں تو جو جائے نمازیں لوگ نماز پڑھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، وہ طرح طرح کے رنگوں اور نقش و نگار سے مزین ہوتی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ترکی نے ایک جدید الیکٹرانک جائے نماز تیار کی جس کے حاشیے پر برقی قمقمے لگے ہوئے ہیں تاکہ آپ اندھیرے میں نماز پڑھیں تو بھی مشکل نہ ہو اور یہ جائے نماز آپ کے رکوع و سجود کی گنتی بھی کرتی رہے گی تاکہ اگر آپ کوئی رکعت بھول جائیں تو یہ الارم کے ذریعے آپ کو متنبہ کردے۔ علماء سے جب اس بارے میں فتویٰ لیا گیا تو انہوں نے اس کے استعمال کو ناجائز قرار دیا کہ یہ جائے نماز نمازی کی توجہ نماز سے ہٹانے والی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابی حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ’’اگر تم اپنے مصاحف اور مساجد کو سجاؤ گے تو ہلاکت تمہارا مقدر ہوگی‘‘۔ مساجد و مصاحف کو سجانا تباہی کی علامت ہے اور یہی ہم اب کررہے ہیں۔آپ کو سونے کی خاص طباعت سے مزین، نہایت قیمتی جزدان میں لپٹے انتہائی قیمتی مصاحف بھی ملیں گے اور ایسی مساجد بھی جنہیں خطیر رقم خرچ کرکے تعمیر کروانے والے وہ لوگ ہیں جو خود نماز ہی نہیں پڑھتے، وہ شاہان اور وہ صدور جن کی شہرت ہی بے نمازی ہونے کی ہے ایسی جگہ پر مساجد تعمیر کرواتے ہیں جہاں نماز پڑھنے کوئی نہیں آتا۔ آپ دیکھیں گے کہ نہایت خوبصورت مسجد کے عین ساتھ بازاروں میں بے انتہا رش ہے، مگر مسجد میں نماز پڑھنے والا کوئی بھی نہیں۔ اور بعض جگہ آپ دیکھیں گے کہ مسجد تو اتنی وسیع اور خوبصورت ہے کہ عجوبہ کے طور پر لوگ متاثر کن اسلامی طرز تعمیر کے اس شاہکار کو دیکھنے آتے ہیں مگر نماز کے وقت وہاں نماز پڑھنے کوئی نہیں آتا۔ ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ تباہی کی علامت ہے۔ یہ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کی فراست ہے کیونکہ مصاحف و مساجد کو سجانا اصل چیز کو چھوڑ کر نمود کے پیچھے لوگوں کے بھاگنے کی علامت ہے۔ لوگوں کو بس وہ چیز چاہیے جو انہیں اچھی نظر آئے خواہ اس میں کچھ افادیت نہ ہو اور یہ ان کی بربادی کی نشانی ہے۔
اونچی عمارتوں کی تعمیر
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم……وَأَنْ تَرَی الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَائَ الشَّائِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ۔ رواہ مسلم
’’اور یہ کہ تم ننگے پاؤں ، ننگے بدن ، محتاج ، بکریاں چرانے والوں کو دیکھو کہ وہ اونچی سے اونچی عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نشانی ننگے پاؤں اور ننگے بدن فرمائی۔ ننگے بدن سے یہ مراد نہیں کہ ان کے پاس سرے سے لباس ہی نہ ہوگا بلکہ وہ اس قدر غریب ہوں گےکہ بمشکل اتنا لباس ان کے پاس ہوگا جس سے وہ اپنی شرم گاہیں ڈھانپ سکیں۔ مزید یہ کہ وہ غریب چرواہے ہوں گے اور اونچی اونچی عمارتوں کی تعمیر میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کریں گے۔
واللہ اعلم مگر ان احادیث کے مطالعے سے ایسا معلوم ہوتا ہے گویا یہ مسلمانوں کا حال بیان کررہی ہیں نہ کہ کافروں کا۔ قیامت کی بیشتر نشانیاں بیان فرماتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ حالات بیان فرمائے ہیں جو ان کی امت کو، امت مسلمہ کو پیش آئیں گے۔بعض علاماتِ قیامت کے ذیل میں یقیناً پوری دنیا کے حالات کایا کچھ خاص لوگوں کے حالات کا ذکر کیا گیا ہے، مگر جن علامات کے ساتھ تخصیص نہیں ہے وہ امت مسلمہ کے بارے میں ہی معلوم ہوتی ہیں۔ مذکورہ حدیث میں بھی امت مسلمہ کے بعض افراد کا ذکر ہے جو انتہائی غریب تھے اور پھر اچانک وہ مال دار ہوگئے اور ان کے پاس اتنا مال آگیا کہ وہ عمارتیں بنانے لگے، کسی ضرورت کے لیے نہیں بلکہ صرف مقابلہ بازی کے لیے۔ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ کا معنی ہے کہ وہ اس بات میں مقابلہ کریں گے کون زیادہ اونچی عمارت بنائے گا۔ اس کی مثال آپ کو خلیجی ریاستوں میں نظر آسکتی ہے۔ تیل کی دولت نے لوگوں کو مال دار بنا دیا۔ وہ لوگ جو پہلے اپنے رہنے کے لیے ایک مکان بنانے کی استطاعت تک نہیں رکھتے تھے، اب اونچی سے اونچی عمارتیں بنانے کا مقابلہ کرنے لگے ہیں يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ اور یہ عمارتیں ایسی جگہ پر بنائی جارہی ہیں جہاں اونچی عمارتوں کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں ہے، زمین اتنی کشادہ اور وسیع ہے کہ وسیع و عریض افقی تعمیر کی جاسکتی ہے۔ خلیج نیویارک شہر کی طرح نہیں ہے کہ جہاں آپ کو زمین پر مزید جگہ میسر نہیں ہے لہٰذا اونچی اونچی عمارتیں بنائی جاتی ہیں، ان کےیہاں تو حد نگاہ تک پھیلا ہوا صحرا ہے، جہاں چاہیں اور جتنی وسیع چاہیں عمارت بنائیں، ان کی راہ میں اگر کوئی چیز آئے گی بھی تو وہ ریت کے ٹیلے کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ اس کے باوجود بھی لوگ اونچی اونچی عمارتیں بنارہے ہیں تو ظاہر ہے کہ ان کا مقصد سوائے مقابلہ بازی کے اور کچھ نہیں۔ اور عمارتیں بنانے کا یہ شوق اور یہ صفت قوم عاد میں تھی ﴿أَتَبْنُونَ بِكُلِّ رِيعٍ آيَةً تَعْبَثُونَ﴾ ان کے نبی ہود علیہ السلام نے انہیں متنبہ فرمایا کہ یہ کیا ہے کہ تم ہر پہاڑ کے اوپر بلاوجہ ایک یادگار بنادیتے ہو؟ رہتے وہ لوگ وادیوں میں تھے مگر پہاڑوں کی چوٹیوں پر بلاوجہ اور بے کار ہی یادگاریں تعمیر کرتے تھے جن کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ تَعْبَثُونَ یعنی فضول، بے کار، عبث، مال کا ضیاع صرف فخر و مباہات کے لیے۔
لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی
أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا۔ متفق علیہ
ایک نشانی یہ ہے کہ’’ لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی‘‘۔
یہ مشہور حدیثِ جبرئیل کا حصہ ہے جسے بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ جبرئیل علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے علاماتِ قیامت کے بارے میں سوال کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک نشانی یہ ہے کہ عورت اپنی مالکہ کو جنے گی، یا لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی۔ علماء اس کی مختلف تفاسیر بیان فرماتے ہیں، ایک تفسیر یہ ہے کہ اولاد اس قدر بے ادب، نافرمان اور بداخلاق ہوجائے گی کہ وہ اپنی ماں سے ایسا سلوک کرے گی گویا وہ اس کی لونڈی ہو۔ ان کا باہم رشتہ ماں بیٹی کی بجائے مالک اور غلام کا سا نظر آئے گا۔ اولاد مالک اور ماں غلام معلوم ہوگی۔ ماں کی کوئی عزت نہ ہوگی۔ یہ رائے ابن حجرؒ کی ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ یہ تفسیر اپنے عموم کی وجہ سے راجح ہے ۔ میرا خیال ہے کہ ہم سب ہی اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک مسلمانوں اور کافروں سبھی میں اپنے والدین اور بڑوں کے لیے ادب و احترام نظر آتا تھا۔ آپ کو ایشیائی اور ہندو معاشروں میں بھی یہ احترام واضح نظر آتا تھا۔ حتی کہ امریکہ تک میں جو کہ خود بھی دو تین صدیوں سے زیادہ قدیم نہیں ہے، کچھ نسلوں پہلے تک ہم والدین اور بڑوں کے ساتھ بچوں کے تعامل میں اور آج ان کے تعامل میں بہت بڑا فرق دیکھتے ہیں۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ اٹھارہ سال یا اس سے بھی کم عمر بچے والدین سے جدا ہوجاتے ہیں اور وہ اپنے اوپر والدین کا کوئی حق بھی نہیں سمجھتے۔ اور قانون بھی یہی کہتا ہے کہ اٹھارہ سال سے اوپر کے بچے پر والدین کا کوئی حق نہیں، وہ مکمل طور پر خود مختار ہوتے ہیں۔ والدین اگر اپنی اولاد کو عدالت کے سامنے پیش کرکے اپنا حق وصول کرنا چاہیں تو قانونی طور پر انہیں کچھ بھی نہیں ملے گا۔ اور قانون اور اخلاق کی حد تک کی پاسداری بھی کون کرتا ہے، معاشرتی معاملات میں لوگوں کا رویہ ناقابل بیان ہے۔ اولاد کی اپنے والدین کے ساتھ تعامل کی انتہائی بھیانک کہانیاں سننے کو ملتی ہیں، جن کا ذکر یہاں ضروری نہیں ہے۔
نہ صرف اسلام ہمیں والدین کے ادب کی تعلیم دیتا ہے بلکہ عقل سلیم بھی اس کی تائید کرتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ والدین اپنی اولاد کے لیے بہت زیادہ قربانی دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت کے حق کےبعد والدین کا حق ہے۔ کیونکہ اللہ رب العزت کی ذات وہ ہے کہ جس کا اپنے بندوں پر سب سے زیادہ احسان ہے، اس نے انہیں سب سے زیادہ نوازا اور سب سے زیادہ عطا کیا ہے، ہم اللہ کے احسان مند ہیں اور اللہ رب العزت پر ہمارا کوئی احسان نہیں، لہٰذا ہمیں اللہ رب العزت کا شکر گزار ہونا چاہیے۔
دوسرا حق والدین کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے فرمایا:
وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا…… ’’اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے تم اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا‘‘، اللہ رب العزت نے اپنے ذکر کے معاً بعد والدین کے ساتھ احسان کا حکم فرمایا۔ اولاد کی پرورش کے دوران ماں اور باپ دونوں ہی تکالیف برداشت کرتے ہیں، جب بچہ بالکل بے بس ہوتا ہے اور سراسر ماں باپ کے رحم وکرم پر ہوتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کی پرورش کریں۔ مگر سبحان اللہ کفران نعمت کی حد یہ ہے کہ پندرہ برس کی عمر تک پہنچنے تک بچہ والدین کو کچھ بھی نہیں لوٹاتا، یہ معاشرتی فساد نہیں تو اور کیا ہے؟
خونریزی عام ہوجائے گی
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَقَارَبُ الزَّمَانُ وَيَنْقُصُ الْعَمَلُ وَيُلْقَی الشُّحُّ وَيَکْثُرُ الْهَرْجُ قَالُوا وَمَا الْهَرْجُ قَالَ الْقَتْلُ الْقَتْلُ۔ رواہ البخاری
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وقت بڑی تیزی سے گزرے گا، عمل کم ہوتے جائیں گے، دلوں میں بخیلی سما جائے گی اور ہرج بہت زیادہ ہوجائے گا۔لوگوں نے پوچھا : ہرج کیا ہوتا ہے ؟ (کیونکہ یہ عربی زبان کا لفظ نہیں ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اہل حبشہ کی زبان کا لفظ ہے۔ اللہ اعلم کہ یہ اب بھی رائج ہے یا نہیں) آپ ﷺنے فرمایا : خونریزی اور قتل وغارت‘‘۔ اور ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بِلِسَانِ الْحَبَشَةِ الْقَتْلُ۔
بعض اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر عربی الفاظ بھی استعمال فرمائے ہیں اور قریش کے تلفظ سے مختلف تلفظ بھی۔ مثلاً ایک مرتبہ یمن سے ابو موسی اشعریؓ کی قوم کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ وہ ’ال‘ کی جگہ ’ام‘ بولتے تھے۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا، ھل من امبر امصیام فی امسفر؟ (ھل من البر الصیام فی السفر؟) یعنی کیا سفر میں روزہ رکھنانیکی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی کے تلفظ کے ساتھ جواب دیا اور فرمایا: لَيْسَ مِنْ امْبِرِّ امْصِيَامُ فِي امْسَفَرِ سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں ہے۔ یعنی اس معاملے میں رخصت ہے اور سفر میں روزہ توڑنے کی اجازت ہے۔
یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے الہرج کا لفظ استعمال فرمایا جس کا معنی ہے قتل، اور حدیث بتاتی ہے کہ قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ خونریزی اور قتل عام پھیل جائے گا، لوگوں کی زندگی ارزاں ہو جائے گی۔ قتل عام ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مسلمانوں اور کافروں کے مابین جنگ ہوگی، صحابہ نے اس کا یہی معنی سمجھا جو ذیل کی حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل کے عام ہوجانے کا ذکر فرمایا تو صحابہ نے دریافت کیا :
…قَالُوا أَكْثَرُ مِمَّا نَقْتُلُ إِنَّا لَنَقْتُلُ كُلَّ عَامٍ أَكْثَرَ مِنْ سَبْعِينَ أَلْفًا
کیا جتنی خونریزی ابھی ہے، اس سے بھی زیادہ خونریزی ہوسکتی ہے؟ ہم تو ایک سال میں ستر ہزار سے بھی زیادہ کافروں کو قتل کردیتے ہیں تو کیا اس تعداد سے بھی زیادہ قتل ہوگا جتنے ہم ابھی قتل کردیتے ہیں ؟ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:
قَالَ إِنَّهُ لَيْسَ بِقَتْلِكُمْ الْمُشْرِكِينَ وَلَكِنْ قَتْلُ بَعْضِكُمْ بَعْضًا
’’اس سے مراد مشرکین کو قتل کرنا نہیں ہے بلکہ ایک دوسرے کو قتل کرنا مراد ہے‘‘۔ مسلمان مسلمانوں کو قتل کریں گے۔ صحابہ نے دریافت کیا، سبحان اللہ! صحابہ کی فکر دیکھیے:
قَالُوا وَمَعَنَا عُقُولُنَا يَوْمَئِذٍ؟
کیا اس موقع پر ہماری عقلیں ہمارے ساتھ ہوں گی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قَالَ إِنَّهُ لَتُنْزَعُ عُقُولُ أَهْلِ ذَلِكَ الزَّمَانِ وَيُخَلَّفُ لَهُ هَبَاءٌ مِنْ النَّاسِ يَحْسِبُ أَكْثَرُهُمْ أَنَّهُمْ عَلَى شَيْءٍ وَلَيْسُوا عَلَى شَيْءٍ .مسند احمد
’’اس زمانے کے لوگوں کی عقلیں چھین لی جائیں گی اور ایسے بیوقوف لوگ رہ جائیں گے جو یہ سمجھیں گےکہ وہ کسی دین پر قائم ہیں حالانکہ وہ کسی دین پر نہیں ہوں گے‘‘۔ وہ سمجھیں گے کہ وہ اللہ کے دین پر کاربند ہیں مگر درحقیقت وہ کسی دین کے پیروکار نہیں ہوں گےاور ان کے دماغ کمزور ہوں گے۔ یعنی وہ لوگ جو اس طرح بلاوجہ ایک دوسرے کو قتل کریں گے ان کی عقلیں ان کا ساتھ چھوڑ چکی ہوں گی۔
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا تَذْهَبُ الدُّنْيَا حَتَّی يَأْتِيَ عَلَی النَّاسِ يَوْمٌ لَا يَدْرِي الْقَاتِلُ فِيمَ قَتَلَ وَلَا الْمَقْتُولُ فِيمَ قُتِلَ فَقِيلَ کَيْفَ يَکُونُ ذَلِکَ قَالَ الْهَرْجُ الْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ۔ رواہ مسلم
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، دنیا ختم نہ ہوگی یہاں تک کہ لوگوں پر ایک دن آئے گا کہ قتل کرنے والا نہ جانے گا کہ اس نے کیوں قتل کیا اور جو مارا گیا وہ نہ جانے گا کہ وہ کیوں مارا گیا۔ لوگوں نے دریافت کیا : یہ کیوں کر ہو گا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کشت وخون ہو گا؛ قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں‘‘۔
یعنی ایک شخص قتل کرے گا اور اسے یہ معلوم ہی نہ ہوگا کہ وہ کیوں قتل کررہا ہےنہ مرنے والے کو یہ علم ہوگا کہ اسے کیوں مارا گیا۔ مارنے والا اور مرنے والا دونوں جہنمی ہوں گے، کیوں؟ کیونکہ ہر ایک ہر دوسرے کو قتل کرنا چاہتا ہوگا۔ جو مقتول ہوا وہ بھی دوسروں کو قتل کرنے کی نیت رکھتا ہوگا۔یہ فتنے کا وقت ہوگا۔ معاملات واضح نہیں ہوں گے اور یہ ایسا وقت ہوگا کہ جب لوگ روح کو ہلکا سمجھنے لگیں گے اور اسے کوئی اہمیت نہیں دیں گے اور بے محابا خون بہائیں گے۔
قتل بذات خود بہت بڑا گناہ ہے اور اہل دنیا کے لیے تباہی ہے مگر دوسری طرف ہمیں اس گفتگو کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے جو ابو بردہؓ اور ایک انصاری کے مابین ہوئی۔
ابو بردہؓ فرماتے ہیں کہ میں زیاد کے دور میں (اموی دور میں) ایک بازار میں کھڑا تھا اور (حیرت کے باعث) میں نے تالی بجائی تو ایک انصاری، جن کے والد صحابیٔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے نے پوچھا کہ آپ کو کس بات پر اس قدر حیرت ہورہی ہے؟ ابو بردہؓ نے فرمایا کہ میں اس بات پر حیران ہوں کہ ان لوگوں کا ایک دین ایک نبی ایک دعوت ایک حج اور ایک جہاد ہے اور پھر بھی یہ ایک دوسرے کو قتل کررہے ہیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟کیونکر ایسی امت جس کا ایک رب ہے، ایک نبی ہے، ایک کتاب ہے ایک عبادت ہے…… ہر چیز ایک ہے،آپس میں لڑرہی ہے؟ یہ ہوکیسے سکتا ہے؟ہم کیسے اس حد تک گر گئے؟ انصاری نے کہا کہ آپ حیران نہ ہوں ۔ میں نے اپنے والد سے سنا کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ أُمَّتِي أُمَّةٌ مَرْحُومَةٌ لَيْسَ عَلَيْهَا فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ إِنَّمَا عَذَابُهُمْ فِي الدُّنْيَا الْقَتْلُ وَالْبَلَابِلُ وَالزَّلَازِلُ۔ مسند احمد
’’میری امت، امت مرحومہ ہے، آخرت میں اس پر کوئی عذاب نہیں ہوگا اس کا عذاب دنیا ہی میں ہے۔ اس کا عذاب دنیا میں قتل و غارت، پریشانیاں اور زلزلے ہیں‘‘۔یعنی اس امت کے گناہ اس دنیا میں ہی ان پر آنے والی آزمائشوں کے ذریعے دھل جائیں گے۔بظاہر امت جس برے حال میں نظر آتی ہے، دراصل یہ بھی اللہ کا اس امت پر رحم ہے کہ اس کے بدلے یہ امت آخرت کے عذاب سے بچا لی جائے گی۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم آپس میں قتل وقتال جاری رکھیں، ہمیں اس سے بچنے اور اسے روکنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے ، مگر ساتھ ہی یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اس امت پر جتنی بھی بلائیں اس دنیا میں آئیں گی وہ آخرت میں ان کے لیے راحت کا باعث ہوں گی۔
وقت کا سکڑنا؍ وقت کا تیزی سے گزرنا
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَتَقَارَبَ الزَّمَانُ۔ رواہ البخاری
’’قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک زمانہ قریب نہ آجائے‘‘۔ ایک اور حدیث میں یہی بات ذرا تفصیل کے ساتھ ہے:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَتَقَارَبَ الزَّمَانُ فَتَكُونَ السَّنَةُ كَالشَّهْرِ وَيَكُونَ الشَّهْرُ كَالْجُمُعَةِ وَتَكُونَ الْجُمُعَةُ كَالْيَوْمِ وَيَكُونَ الْيَوْمُ كَالسَّاعَةِ وَتَكُونَ السَّاعَةُ كَاحْتِرَاقِ السَّعَفَةِ۔ مسند احمد
’’قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک زمانہ قریب نہ آجائے، چنانچہ سال مہینے کی طرح مہینہ ہفتہ کی طرح ہفتہ دن کی طرح دن گھنٹے کی طرح اور گھنٹہ چنگاری سلگنے کے بقدر رہ جائے گا۔‘‘
یعنی اس قدر تیزی سے وقت گزرے گا۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ وقت کے سکڑنے کا کیا مفہوم ہے؟ علماء کی اس بارے میں مختلف آراء ہیں:
-
برکت کی کمی ہوگی۔ وقت میں کوئی برکت نہیں ہوگی یعنی وقت سے برکت اٹھ جائے گی۔ اس کا مشاہدہ ہم کرہی رہےہیں۔ دن پر دن گزرتے چلے جاتے ہیں مگر ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ سال پر سال گزر جاتے ہیں اور ہمیں لگتا ہے کہ ہم نے کچھ نہیں پایا،ہمارے اندر کچھ بہتری نہیں آئی۔ ہمارے دن اسی طرح چوبیس گھنٹوں پر مبنی ہیں جیسا کہ ابوبکرؓو عمرؓ اور تمام علماء کے۔ ان کے پاس بھی وہی چوبیس گھنٹے ہیں جو ہمارے پاس ہیں، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگوں نے اتنے ہی وقت میں اتنا کچھ کرلیا کہ جتنا ہم خود نہیں کرپائے۔ جب ہم کچھ ایسے لوگوں کی مثال دیکھتے ہیں جن کے اوقات میں برکت تھی تو ہمیں لگتا ہے کہ وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے۔ مثلاً ابن جوزیؒ جب فوت ہوئے تو ان کی تصانیف کے صفحات شمار کیے گئے اور انہیں ان کی زندگی کے دنوں پر تقسیم کیا گیا تو معلوم ہوا کہ انہوں نے اوسطاً گیارہ صفحے روز لکھے ۔ اور ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم جب طالب علم تھے تو ہمارے لیے امتحانی پرچہ حل کرنا بھی ایک کام ہوتا تھا، جبکہ وہ ہر روز گیارہ صفحے تصنیف کرتے تھے۔ ابن تیمیہؒ نے عقیدے کے موضوع پر اپنی مشہور کتاب العقیدہ واسطیہ محض ظہر اور عصر کے مابین وقت میں لکھی۔ یہ کتاب اسلامی یونی ورسٹیوں میں چھ ماہ یا سال بھر کے عرصے میں پڑھائی جاتی ہے اور پھر بھی طالب علم شکایت کرتے ہیں کہ یہ وقت اس کتاب کے مطالعے کے لیے کافی نہیں ہے جبکہ ابن تیمیہؒ ظہر کی نماز پڑھ کر اسے لکھنے بیٹھے اور عصر کے وقت تک اسے مکمل کرچکے تھے۔
اس طریقے سے ہم بہت سے کامیاب لوگوں کی زندگیوں کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ یہ ایک نقطۂ نظر ہے اور دوسرا نقطۂ نظر وقت میں برکت کی کمی کے حوالے سے یہ ہے کہ امریکہ میں ہمارا طرز زندگی بھی ایسا ہے کہ ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ وقت بہت کم ہے۔ آپ بعض دوسرے ممالک کا سفر کریں تو آپ کو لگے گا کہ زندگی نسبتاً آہستہ رفتار سے گزر رہی ہے۔ وہاں ہر چیز اس قدر پیچیدہ نہیں ہے۔ آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ آپ کے پاس پورے دن میں بہت سا وقت ہے۔ وہاں آپ کو بہت سا فارغ وقت بھی مل جاتا ہے جب کہ یہاں امریکہ میں ہمارے پاس فرصت نام کی کوئی چیز نہیں۔ ہر ایک جلدی میں ہوتا ہے۔ حتی کہ امریکہ کے ہی بعض علاقے دوسرے علاقوں سے مختلف ہیں۔ شہری علاقوں میں زندگی بہت تیز ہے جب کہ دیہی علاقوں اور چھوٹے قصبوں میں زندگی کی رفتار نسبتاً آہستہ ہے۔ سبحان اللہ! وقت ایک عجیب چیز ہے۔ اللہ اعلم ہم اس کی حقیقت کو پا بھی سکے ہیں یا نہیں، کیونکہ ایک گھنٹہ کسی دوسرے علاقے کے ایک گھنٹے سے مختلف ہوتا ہے، حالانکہ پیمائش میں وہ ہر دو جگہ ایک گھنٹہ ہی ہے۔ آپ جہاں بھی جائیں ایک دن ایک جتنا ہی ہوتا ہے مگر ہر جگہ اس کی طوالت مختلف محسوس ہوتی ہے، واللہ اعلم۔ تو علماء کی ایک رائے یہ ہے کہ وقت کے سکڑنے کا باعث برکت کی کمی ہے۔
-
کچھ علماء کی رائے یہ ہے کہ یہ امام مہدی کے دور میں ہوگا۔ پر آسائش طرز زندگی کی وجہ سے ایسا معلوم ہوگا گویا وقت بھاگ رہا ہے۔ اللہ اعلم کہ پرآسائش زندگی میں آپ کو وقت تیزی سے گزرتا محسوس ہوتا ہے یا ٹھہر ٹھہر کر…… یہ تو اللہ ہی بہتر جانتے ہیں۔
-
ابلاغ اور نقل وحمل کے جدید طریقوں کی وجہ سے وقت کا سکڑنا۔ چند صدیوں پہلے تک جس سفر کے لیے آپ کو مہینے درکار ہوتے تھے اب وہ چند گھنٹوں میں ہوجاتا ہے۔ دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک چند گھنٹوں میں پہنچا جاسکتا ہے۔سمندر پار جانے کے لیے لوگوں کو سالوں درکار ہوتے تھے مگر اب چند گھنٹوں میں ہی سات سمندر پار پہنچا جاسکتا ہے۔ یہ بات تو ہوئی نقل و حمل کی،اب ذرائع ابلاغ کو دیکھیں تو وہ بھی اس قدر تیز ہیں کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں موجود ایک شخص کو آپ ای میل کرتے ہیں اور وہ چند لمحوں میں اس تک پہنچ جاتی ہے۔ آپ دنیا میں کسی بھی جگہ کسی کو بھی کسی بھی وقت فون کرسکتے ہیں۔ انہی تیز تر ذرائع آمد و رفت اور ابلاغ کی بدولت وقت سکڑ کر رہ گیا ہے۔ وہی کام جن کے لیے بہت سا وقت درکار ہوتا تھا اب بہت کم وقت میں کیے جاسکتے ہیں۔
-
ایک آخری رائے یہ بھی ہے کہ حقیقی معنوں میں وقت سکڑ جائے گا۔ زمین کی تیز تر گردش کے باعث سال، مہینہ، ہفتہ حقیقتاً کم طویل ہوجائے گا۔ زمین کی گردش تیز ہوجائے گی اور یہ سورج کے گرد مزید تیزی سے گھومے گی۔ یہ نہ سمجھیں کہ اجرام فلکی کی یہ حرکات مستحکم ہیں اور تبدیل نہیں ہوسکتیں۔ کائنات تبدیل ہورہی ہے، پھیل رہی ہے اور اس بارے میں مختلف آراء ہیں کہ اس کا اختتام کیسے ہوگا۔ سائنس دانوں کو پختہ یقین ہے کہ کائنات ایک بڑے دھماکے کے نتیجے میں وجود میں آئی اور پھیلنا شروع ہوئی جسے بِگ بینگ کہتے ہیں اور اس کا انجام ایک بڑی چرمراہٹ (بِگ کَرنچ) کے ساتھ ہوگا۔ بگ بینگ اس کائنات کے پھیلاؤ کی وجہ بنا اور یہ ایک چرمراہٹ کے ساتھ ختم ہوگی یعنی سب کچھ واپس آپس میں یکجا ہوجائے گا۔ اللہ رب العزت قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ سورج زمین کے قریب آجائے گا اور ستارے اور چاند گر جائیں گے اور ہر چیز دوبارہ یکجا ہوجائے گی۔ یہ بگ کرنچ تو صرف ایک نظریہ ہے، ہم اس کے ذریعے قرآن کی تفسیر نہیں کرسکتے۔ البتہ اللہ رب العزت کی یہ آیات روز قیامت کے بارے میں ہیں۔ چنانچہ وقت سکڑ سکتا ہے، یہ ہوسکتا ہے کہ سال بہت تیزی سے گزرے، سال بھر میں بجائے تین سو پینسٹھ دنوں کے کم دن ہوں کیونکہ زمین اپنے مدار کے گرد مزید تیزی سے گردش کررہی ہو۔ چونکہ زمین اپنے مدار کے گرد تیزی سے گردش کرے گی تو ایک دن میں چوبیس سے کم گھنٹے ہوں گے۔ آپ جانتے ہیں کہ دن کی طوالت آپ کے مقام کی نسبت سے ہے۔ اگر آپ چاند پر ہوں تو دن کی طوالت مختلف ہوگی زمین پر دن کی طوالت سے۔ اور اگر آپ مشتری پر ہوں تو دن ایسے ہوگا جیسے ایک سال کیونکہ وہاں سال بہت مختصر ہے۔
بازاروں کا نزدیک ہونا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’قیامت کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ بازار ایک دوسرے سے قریب ہوں گے۔‘‘
سبحان اللہ! یہ تو واقع ہوچکا ہے۔کچھ عرصہ پہلے تک ہر محلے میں پرچون کی ایک آدھ چھوٹی سی دکان ہوا کرتی تھی اور پورے قصبے کا ایک بڑا بازار ہوتا تھا۔ بڑا بازار عموماً قصبے کے کسی مرکزی مقام پر ہوتا تھا جبکہ گلی محلوں میں چھوٹی موٹی دکانیں ہوتی تھیں۔ اب ہر محلے میں ایک تجارتی مرکز ہوتا ہے اور قرب و جوار میں ہر جگہ منڈیاں اور بازار موجود ہیں۔ ہر جگہ بڑی بڑی دکانیں کھل رہی ہیں۔ مثلاً یمن میں کسی جگہ اتوار بازار ہوتا تھا، کسی جگہ منگل بازار وغیرہ جو صرف اسی مخصوص دن کھلتا تھا۔ اسی ایک دن کسان اپنی پیداوار اس بازار میں لاکر بیچتے اور لوگ ہفتے کے ایک دن اس مرکزی بازار میں جاکر اپنی ضروریات خرید لاتے۔ اب یہ بازار روزانہ کھلتے ہیں اور روز خرید و فروخت ہوتی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ جگہ جگہ امریکی طرز کی بڑی بڑی دکانیں اور تجارتی مراکز بنائے جارہے ہیں اور یہ سب مسلم دنیا میں ہورہا ہے۔ ایک نیا عجوبہ تجارتی اضلاع ہیں جن کےلیے بڑی بڑی تعمیرات کی جارہی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک اور یہ کوئی بہت قدیم زمانہ نہیں ہے بلکہ چند سال یا چند عشروں پہلے تک تجارتی مراکز یا بازار بہت کم ہوتے تھے مگر اب یہ ہرجگہ ہیں۔ یتقارب الاسواق، بازار نزدیک نزدیک ہوں گے۔ پہلے تو بازار جانے کے لیے باقاعدہ سفر کرنا پڑتا تھا کچھ خریدنے کے لیے جانا ایک پورا کام ہوتا تھا ورنہ بصورت ِ دیگر لوگ اپنے کھیت سے اپنی ضرورت پوری کرلیتے تھے۔ بازار سے کچھ خریدنے کے لیے آپ کو سفر کرنا پڑتا تھا یا بازار کھلنے کے دن کا انتظار کرناپڑتا تھا ، جب کہ اب ایسا نہیں ہے۔ ہرجگہ ہر وقت بازار کھلے ملتے ہیں۔
تجارت کا پھیل جانا
إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يَفْشُوَ الْمَالُ وَيَکْثُرَ وَتَفْشُوَ التِّجَارَةُ وَيَظْهَرَ الْعِلْمُ وَيَبِيعَ الرَّجُلُ الْبَيْعَ فَيَقُولَ لَا حَتَّی أَسْتَأْمِرَ تَاجِرَ بَنِي فُلَانٍ وَيُلْتَمَسَ فِي الْحَيِّ الْعَظِيمِ الْکَاتِبُ فَلَا يُوجَدُ۔ سنن نسائی
” بےشک یہ بھی قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ مال عام اور بہت زیادہ ہوجائے گا۔ تجارت پھیل جائے گی۔ علم (دیکھنے میں) عام ہوگا (مگر) آدمی کوئی سودا کرے گا تو کہے گا : میں سودا پکا نہیں کرتا حتی کہ میں فلاں قبیلے کے تاجر سے مشورہ کرلوں۔ اور ایک بہت بڑے قبیلے میں کاتب تلاش کیا جائے گا تو نہیں ملے گا۔‘‘
مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ’’ تجارت اس قدر پھیل جائے گی کہ انسان اپنی بیوی کو بھی اپنے ساتھ تجارت میں شریک کرے گا‘‘۔
یہ نشانی تو ہم اپنی آنکھوں کے سامنے پوری ہوتی دیکھ رہے ہیں۔ کاروبار اس قدر پھیل گیا ہے کہ لوگ زراعت چھوڑ کر کاروبار کررہے ہیں، نوکریاں چھوڑ کر کاروبار کی طرف آرہے ہیں(مثلاً entrepreneurship، از مترجم)۔ کمپیوٹر اور معلومات کی فراوانی نئے نئے مواقع پیدا کررہی ہے ، لوگ نئی نئی صنعتوں کا رخ کررہے ہیں اور کاروبار کی نئی نئی قسمیں ایجاد ہورہی ہیں۔ الیکٹرانک تجارت (ای کامرس) نے تجارت کی ایک نئی دنیا کا دروازہ کھول دیا ہے۔ اب آپ اپنی تمام چیزیں آن لائن خرید اور بیچ سکتے ہیں۔اس سب سے تجارت کو بہت زیادہ فروغ مل رہا ہے مگر اس کی وجہ سے تجارت و کاروبار بہت زیادہ وقت اور محنت طلب ہوگئے ہیں۔ لہٰذا بجائے اس کے کہ شوہر کاروبار کرے اور بیوی گرہستن بن کر گھر سنبھالے اور بچوں کی دیکھ بھال کرے، میاں اور بیوی دونوں مل کر کاروبار کررہے ہیں۔ اکثر جگہ پرمیاں بیوی مل کر کاروبار چلاتے نظر آتے ہیں اور دونوں اپنی اپنی باریوں پر کام کرتے ہیں۔ کچھ سال پہلے تک منظر کچھ اور ہوتا تھا، شوہر کھیت میں یا دکان پر کام کے لیے جاتا تھا اور بیوی گھر سنبھالتی تھی۔ کاروبار کے بہت زیادہ پھیل جانے کی وجہ سے دونوں میاں بیوی کاروبار چلا رہے ہیں اور بچے ڈے کئیر یا مراکز اطفال میں ڈال دیے جاتے ہیں۔مذکورہ حدیث یہی بتاتی ہے کہ کاروبار اس قدر پھیل جائے گا کہ آدمی اپنی بیوی کو بھی اس میں شریک کرے گا اور دونوں مل کر کام کریں گے۔ کیا یہ ٹھیک ہے؟واللہ اعلم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
…مَا يَسُرُّکُمْ فَوَاللَّهِ لَا الْفَقْرَ أَخْشَی عَلَيْکُمْ وَلَکِنْ أَخَشَی عَلَيْکُمْ أَنْ تُبْسَطَ عَلَيْکُمْ الدُّنْيَا کَمَا بُسِطَتْ عَلَی مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ فَتَنَافَسُوهَا کَمَا تَنَافَسُوهَا وَتُهْلِکَکُمْ کَمَا أَهْلَکَتْهُمْ۔ رواہ البخاری
’’اللہ کی قسم ! مجھے تمہاری ناداری اور فقیری کا ڈر نہیں بلکہ مجھے تو اس بات کا اندیشہ ہے کہ دنیا تم پر کشادہ کردی جائے گی جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں کے لیے کشائش کی گئی تھی۔ پھر تم ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کروگے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں نے کیا تھا۔ پھر وہ تمہیں ہلاک کردے گی جیسا کہ ان لوگوں کو ہلاک کردیا تھا۔‘‘
اس دنیا میں مسابقت ہلاکت ہے، اسی طرح جیسے اس نے پچھلی قوموں کو ہلاک کردیا تھا۔ یہی امت مسلمہ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فکر ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ غربت اس امت کے لیے کبھی بھی بہت بڑا مسئلہ نہیں بنے گی، اللہ اس امت کو بہت مال سے نوازے گا۔ اس امت کے پاس بہت سے وسائل ہیں، اس کی غربت اموال اور وسائل کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور تدبیر کی وجہ سے ہے۔ اصل مسئلہ دولت کا غلط استعمال ہے۔غیر منصفانہ تقسیم نہ ہو تو امت مسلمہ کی زمین اللہ رب العزت نے پوری دنیا کے وسائل سے بھر دی ہے۔
امت میں شرک کا ظہور
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّی تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي بِالْمُشْرِکِينَ وَحَتَّی يَعْبُدُوا الْأَوْثَانَ۔ جامع ترمذی
’’قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ میری امت کے کچھ قبیلے مشرکین سے مل جائیں، اور بتوں کی پرستش کریں۔‘‘
شرک کی بہت سی اقسام تو ظاہر ہو ہی چکی ہیں، مُردوں سے مانگنا، قبروں کے سامنے سجدہ کرنا وغیرہ، واللہ اعلم اس کے علاوہ بھی کچھ ظاہر ہونا رہتا ہے یا نہیں۔ یہ سب کچھ ہوتا رہا ہے اور تاحال ہورہا ہے۔
زلزلے
زلازل کا معنی ہے زلزلے اور اس کا ایک معنی بڑی آزمائشیں اور مصیبتیں بھی ہے۔
قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّی …… تَکْثُرَ الزَّلَازِلُ۔ رواہ البخاری
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ زلزلے کثرت سے نہ ہونے لگیں۔‘‘
فَقَالَ يَا ابْنَ حَوَالَةَ إِذَا رَأَيْتَ الْخِلَافَةَ قَدْ نَزَلَتْ الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ فَقَدْ دَنَتْ الزَّلَازِلُ وَالْبَلَايَا وَالْأُمُورُ الْعِظَامُ وَالسَّاعَةُ يَوْمَئِذٍ أَقْرَبُ إِلَى النَّاسِ مِنْ يَدَيَّ هَذِهِ مِنْ رَأْسِكَ۔ مسند احمد
’’ فرمایا اے ابن حوالہ ! جب تم دیکھو کہ خلافت ارض مقدس (یعنی فلسطین) میں پہنچ گئی ہے تو سمجھ لو کہ زلزلے، مصیبتیں اور بڑے بڑے امور قریب آگئے ہیں اور اس وقت قیامت لوگوں کےاس سے بھی زیادہ قریب آجائے گی جیسے میرا یہ ہاتھ تمہارے سر کے قریب ہے ۔‘‘
الْخِلَافَةَ قَدْ نَزَلَتْ الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ واللہ اعلم اس کا کیا مطلب ہے، غالباً یہ آنے والے وقتوں میں ہوگا، مسلمانوں کے لیے خلافت کا مرکز ارض مقدس ہوگی جہاں امام مہدی اور عیسی ابن مریم علیہ السلام ہوں گے۔وہ وقت امن اور عافیت کا ہوگا لیکن اس کے بعد بدترین تباہی پھیلے گی اور پھر دنیا ختم ہوجائے گی۔
خسف، مسخ اور قذف
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَکُونُ فِي آخِرِ الْأُمَّةِ خَسْفٌ وَمَسْخٌ وَقَذْفٌ قَالَتْ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَهْلِکُ وَفِينَا الصَّالِحُونَ قَالَ نَعَمْ إِذَا ظَهَرَ الْخُبْثُ۔ رواہ ترمذی
حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:
’’ اس امت کے آخر میں (یہ عذاب نازل ہوں گے) زمین میں دھنسا دینا، چہرے کا مسخ ہونا اور آسمان سے پتھروں کی بارش، پھر فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! کیا ہم ہلاک کر دیے جائیں گے حالانکہ ہم میں نیک لوگ بھی ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا: ہاں! جب فسق و فجور عام ہوجائے گا ۔‘‘
جب فسق و فجور عام ہوجائے گا اور فساق و فجار کی کثرت ہوگی تو نیک لوگوں کی موجودگی کے باوجود امت ہلاک کردی جائے گی۔ اس حدیث مبارک میں خسف کا ذکر ہے جس کا معنی ہے دھنس جانا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین کے بعض حصے دھنسا دیے جائیں گے۔قذف پتھروں کی بارش کو کہتے ہیں اور مسخ انسانوں کا جانوروں میں تبدیل ہوجانا ہے۔انسان سؤر، بندر یا کسی اور جانور کی شکل میں تبدیل ہوجائے گا۔ اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ مسخ کی یہ کیفیت درحقیقت جسمانی تبدیلی ہوگی جبکہ بعض کی رائے یہ ہے کہ یہ دلوں کا تبدیل ہوجانا ہےعلماء کی اقلیت یہ رائے رکھتی ہے۔ دل جانور کے دل کی طرح ہوجائے گا۔ جسم انسانوں کی طرح کا رہے گا اور دل اور کردار جانور کا ہوجائے گا۔ علماء کی قلیل تعداد یہ رائے رکھتی ہے جب کہ اکثر کی رائے یہی ہے کہ یہ تبدیلی جسمانی ہوگی اور انسان کا جسم جانور کے جسم میں بدل جائے گا۔
(جاری ہے، ان شاءاللہ)
[یہ سلسلۂ مضامین نابغۂ روزگار مجاہد و داعی شیخ انور العولقی شہید رحمۃ اللہ علیہ کے انگریزی میں ارشاد کیے گئے سلسلۂ دروس ’Al-Aakhirah – The Hereafter‘ کا اردو ترجمہ ہیں، جو بِتوفیق اللہ، قسط وار مجلّہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ میں شائع کیے جا رہے ہیں ۔ شیخ انور کو دعوت الی اللہ کے جرم میں امریکہ نے ایک ڈرون حملے کا نشانہ بنایا جس میں آپ اپنی ایک اہلیہ سمیت سنہ ۲۰۱۱ء کے نصفِ ثانی میں جامِ شہادت نوش کر گئے! ]