آخری نبی کے دربار میں (صلی اللہ علیہ وسلم)

مورخین اور مصنفین کو خدا معاف کرے، مقدس سے مقدس مقامات اور افضل سے افضل اوقات میں بھی یہ تاریخی ذوق اور طرزِ فکر ان کا ساتھ نہیں چھوڑتا اور وہ چند لمحات کے لیے بھی اس سے آزاد نہیں ہوپاتے۔وہ جہاں بھی ہوتے ہیں اپنے علم اور مطالعے کی فضا میں سانس لیتے ہیں اور حال کا رشتہ ہمیشہ ماضی سے جوڑنا چاہتے ہیں۔ مناظر کو دیکھ کر ان کا ذہن بہت جلد اس تاریخی منظر کی تلاش میں نکل جاتا ہے جس کے نتیجے میں ان مناظر کا وجود اور نمود ہے۔

میں کل مسجد نبوی میں روضۂ جنت میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس سے مراد وہ مقام ہے جس کے متعلق حدیث میں آیا ہے کہ میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ہے۔ میرے چاروں طرف نمازیوں اور عبادت گزاروں کا کثیر مجمع تھا۔ ان میں کچھ لوگ سجدے میں تھے اور کچھ رکوع میں۔ تلاوتِ قرآن کی آواز فضا میں اس طرح گونج رہی تھی جس طرح شہد کی مکھیاں اپنے چھتے میں بھنبھنا رہی ہوں۔ اس وقت کا سماں کچھ ایسا تھا کہ مجھے تاریخ اور تاریخی شخصیات کو تھوڑی دیر کے لیے فراموش کردینا چاہیے تھا لیکن تاریخ کی قدیم یادیں بادلوں کی طرح میرے دل و دماغ پر چھا گئیں اور میرا ان پر کوئی زور نہ چل سکا۔

مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اس کی بعض نامور شخصیتوں اور رہنماؤں کو ایک نئی زندگی عطا کی گئی ہے اور وہ وفد کی شکل میں یکے بعد دیگرے بارگاہِ نبوی میں حاضر ہورہے ہیں اور اسی عظیم مسجد میں فریضۂ نماز ادا کرنے کے بعد اسی عظیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیۂ سلام اور خراجِ محبت و عقیدت پیش کررہے ہیں اور اس کے احسانات کا اعتراف کررہے ہیں۔ اور باوجود اس کے کہ وہ مختلف زبانوں، مقامات اور طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں، سب یک زبان ہوکر اس کی گواہی دے رہے ہیں کہ آپ ہی وہ نبی ہیں جنھوں نے اللہ کے حکم سے ان کو ظلمت سے روشنی کی طرف، تیرہ بختی سے خوش بختی کی طرف، مخلوق کی عبادت سے خدائے واحد کی عبادت کی طرف اور مذاہب کے ظلم و استبداد سے اسلام کے عدل و انصاف کی طرف اور دنیا کی تنگی سے اس کی کشادگی کی طرف منتقل کیا۔

وہ اعتراف کررہے ہیں کہ وہ اسلام ہی کی پیداوارہیں اور ان کا سارا وجود اور زندگی نبوت کی مرہونِ منت ہے۔ اگر خدانخواستہ ان سے وہ سب واپس لے لیا جائے جو اللہ تعالیٰ نے ان کو اس نبی محترم کے ذریعے عطا کیا تھا اور نبوت کے وہ عطیے ان سے چھین لیے جائیں جنھوں نے دنیا میں ان کو عزت و سرفرازی بخشی تھی تو ان کی حیثیت ایک بے روح اور بے جان ڈھانچے اور چند مبہم اور بے مقصد خطوط و اشکال سے زیادہ نہ رہ جائے گی اور وہ تاریخ کے اس تاریک ترین عہد کی طرف واپس چلے جائیں گے جہاں جنگل کے قانون اور ظلم و استبداد کا دور دورہ تھا اور موجودہ تہذیب و تمد ن کا نام و نشان تک مٹ جائے گا۔

اچانک میری نگاہ ایک طرف اٹھ گئی۔ میں نے دیکھا کہ بابِ جبریل سے (جو مجھ سے زیادہ قریب تھا) ایک جماعت داخل ہورہی ہے۔ سکون و وقار میں ڈوبے ہوئے لوگ، ان کی پیشانی سے علم کا نور اور ذہانت کا وفور صاف عیاں تھا۔ وہ باب الرحمت اور بابِ جبریل کے درمیانی حصے میں پھیل گئے۔ وہ اتنی بڑی تعداد میں تھے کہ ان کے شمار کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔

میں نے دربان سے پوچھا کہ یہ لوگ کون ہیں؟ اس نے کہا اس امت کے امام اور رہنما، انسانیت کے محسن اور نوعِ انسانی کے ممتاز اور قابلِ فخر نمونےہیں۔ ان میں سے ہر ایک پوری پوری قوم کا امام، پورے کتب خانے اور مکتبِ فکر کا بانی اور موسّس، پوری نسل کا مربّی اور مستقل علوم و فنون کا موجد ہے۔ ان کے لازوال شاہکار اور لافانی آثار اور نمونے آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان کے علوم و اجتہاد اور تحقیق کی روشنی میں کئی کئی نسلوں نے سفرِ زندگی طے کیا ہے۔ اس نے عجلت کے ساتھ ان چند ہستیوں کے نام بھی مجھے بتا دیے……امام مالک، امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، لیث بن سعد مصری، امام اوزاعی، امام بخاری، امام مسلم، تقی الدین ابن تیمیہ، ابن قدامہ، ابواسحاق الشاطبی، کمال ابن ہمام، شاہ ولی اللہ دہلوی ﷭۔

اگرچہ ان شخصیتوں میں اپنے زمانے اور اپنے ملک، وطن اور اپنی علمی و دینی حیثیتوں اور مراتب کا بڑا فرق تھا لیکن ان سب نے اس موقع پر بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں خراجِ عقیدت پیش کیا اور اشکِ ندامت نذر کیے۔

میں نے دیکھا کہ سب سے پہلے انھوں نے تحیۃ المسجد کا دوگانہ بہت خشوع و خضوع اور حضوریٔ قلب کے ساتھ ادا کیا۔ پھر بہت ادب اور تواضع کے ساتھ مرقد مبارک کی طرف بڑھے اور بہت جچے تلے، مختصر، معانی سے لبریز، گہرے اور پرمغز کلمات کے ساتھ سلام پیش کیا۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی آواز اس وقت بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہے۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے اور آواز میں رقّت…… وہ کہہ رہے تھے:

’’یارسول اللہ! اگر آپ کی لازوال، وسیع، جامع، عادلانہ اور کشادہ شریعت نہ ہوتی اور اس کے وہ اصول نہ ہوتے جن سے انسانی ذہن اور صلاحیت نے نئے نئے گل بوٹے پیدا کیے اور دنیا کا دامن بیش قیمت اور عطربیز پھولوں سے بھر دیا۔ اور اس کا وہ حکیمانہ اور معجزانہ نظام نہ ہوتا جس نے انسانی فکر و تدبر اور اخذ و استنباط کی صلاحیت کو پیدا کردیا۔ اور اگر وہ انسانیت کی ایک اہم ضرورت نہ ہوتی تو اس عظیم فقہ کا کوئی وجود نہ ہوتا۔ نہ یہ عظیم اسلامی قانون وجود میں آتا جس سے اس وقت تک ہر قوم کا دامن خالی ہے نہ اتنا بڑا اسلامی کتب خانہ پیدا ہوتا جس کے سامنے دنیا کا سارا مذہبی لٹریچر ہیچ ہے۔ اگر علم کی اشاعت، خدا کی نشانیوں اور اس کی قدرتِ کاملہ میں غور و فکر اور عقل سے کام لینے کی آپ نے اتنی پرزور دعوت نہ دی ہوتی تو یہ شجرِ علم زیادہ دنوں تک برگ و بار نہ لاسکتا اور نہ اس کا سایہ تمام دنیا پر ایسا محیط ہوتا جیسا آج نظر آرہا ہے، عقلِ انسانی پہلے کی طرح پابہ زنجیر ہوتی۔‘‘

میں اس جماعت کو جی بھر کے دیکھ بھی نہ سکا تھا کہ میری نظر ایک اور گروہ پر پڑی جو باب الرحمت سے ہوکر اندر کی طرف بڑھ رہا تھا۔ صلاح و تقویٰ اور زہد و عبادت کے آثار ان کے چہروں سے صاف ظاہر تھے۔مجھے بتایا گیا کہ اس جماعت میں حسن بصری، عمر بن عبدالعزیز، حضرت سفیان ثوری، فضیل بن عیاض، داؤد الطائی، ابن السّماک، شیخ عبدالقادر جیلانی، نظام الدین اولیاء اور عبدالوہاب المتقی ﷭جیسے حضرات بھی رونق بخش ہیں جنھوں نے اپنے قابلِ رشک پیشرووں کی یاد تازہ کردی۔

نماز کے بعد یہ لوگ بھی قبر مبارک پر حاضر ہوئے اور اپنے نبی و پیشوا اور سب سے بڑے معلم اور رہنما کی خدمت میں درود و سلام کا تحفہ پیش کرنےلگے، وہ کہہ رہے تھے:

’’یارسول اللہ! اگر ہمارے سامنے وہ عملی مثال نہ ہوتی جو آپ نے پیش فرمائی تھی اور وہ مینارۂ نور نہ ہوتا جس کو آپ نے بعد کے آنے والوں کے لیے قائم فرمایا تھا، اگر آپ کا یہ قول نہ ہوتا کہ ’اے اللہ! زندگی تو آخرت کی زندگی ہے‘ اگر آپ کی یہ وصیت نہ ہوتی کہ دنیا میں اس طرح زندگی گزارو جس طرح کوئی مسافر یا راہی گزارتا ہے، اگر زندگی کا وہ طرز نہ ہوتا جس کا ذکر حضرت عائشہؓ نے اس طرح کیا ہے کہ ’ایک چاند کے بعد دوسرا چاند دوسرے کے بعد تیسرا چا ند نکل آتا تھا اور آپ کے گھر میں آگ نہ جلتی تھی، نہ چولھے پر دیگچی چڑھانے کی نوبت آتی تھی‘ تو ہم دنیا پر اس طرح آخرت کو ترجیح نہ دے سکتے اور نہ ہم محض گزارہ پر بسر کرسکتے اور نہ قناعت کو اپنی زندگی کا شعار بنا سکتے نہ ہم نفس کی ترغیبات پر قابو پاسکتے اور نہ دنیا کے حسن و جمال اور اس کی رعنائی و زیبائی اور عہدہ و منصب کی طاقت اور کشش کا اس طرح مقابلہ کرسکتے۔‘‘

ان کے حکیمانہ الفاظ ابھی پوری طرح میرے دل و دماغ میں پیوست بھی نہ ہوئے تھے کہ میری نظر ایک اور گروہ پر پڑی جو ’’باب النساء‘‘ سے بہت لحاظ اور ادب کے ساتھ گزر رہا تھا۔ ظاہری آرائش اور آزادی کے ان مناظر سے جو اسلامی اصول و آداب کے منافی ہیں، یہ گروہ بالکل محفوظ اور خالی تھا۔ یہ مختلف قوموں اور دوردراز ملکوں کی صالح، عبادت گزار اور عفیف خواتین تھیں جو عرب و عجم اور مشرق و مغرب کے مختلف خطوں سے تعلق رکھتی تھیں۔ بہت دبی زبان میں اور پورا ادب و احترام ملحوظ رکھتے ہوئے وہ اپنے جذباتِ تشکر و عقیدت کا اظہار اس طرح کررہی تھیں:

’’ہم آپ پر درود و سلام بھیجتی ہیں یا رسول اللہ! ایسے طبقے کا درود و سلام جس پر آپ کا بہت بڑا احسان ہے۔ آپ نے ہم کو خدا کی مدد سے جاہلیت کی بیڑیوں اور بندشوں، جاہلی عادات و روایات، سوسائٹی کے ظلم اور مردوں کی زور دستی اور زیادتی سے نجات بخشی۔ لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کے رواج کو ختم کیا، ماؤں کی نافرمانی پر وعید سنائی۔ آپ نے فرمایا کہ جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے۔ آپ نے وراثت میں ہم کو شریک اور اس میں ماں بیٹی بہن اور بیوی کی حیثیت سے ہم کو حصہ دلایا۔ یوم عرفہ کے مشہور تاریخی خطبہ میں آپ نے ہمیں فراموش نہیں کیا اور کہا کہ ’عورتوں کے بارے میں خدا سے ڈرو، اس لیے کہ تم نے ان کو اللہ کے نام سے حاصل کیا ہے‘۔ اسی طرح مختلف مواقع پر مردوں کو عورتوں کے ساتھ حسنِ سلوک، ادائے حقوق اور بہتر معاشرت کی ترغیب دی تھی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ہمارے طبقے کی طرف سے وہ بہتر سے بہتر جزا دے جو انبیا و مرسلین علیہم السلام اور اللہ کے نیک و صالح بندوں کو دی جاسکتی ہے۔ ‘‘

یہ نرم آوازیں میرے کانوں میں گونج رہی تھیں کہ ایک اور جماعت نظر آئی جو ’’باب السلام‘‘ کی طرف سے آرہی تھی۔ میں ان کی طرف متوجہ ہوا تو دیکھا کہ وہ علوم و فنون کے موجد اور مرتب ائمۂ نحو و لغت و بلاغت کی جماعت تھی۔ اس میں ابوالاسود الدئلی، خلیل بن احمد، سیبویہ، کسائی، ابو علی الفارسی، عبدالقاہر الجرجانی، السکاکی، مجدد الدین فیروز آبادی، سید مرتضی الزبیدی بھی تھے جو اپنے علوم کا سلام پیش کررہے تھے اور اپنی شہرت اور مرتبۂ علمی کا خراج ادا کرنے آئے تھے۔ میں نے دیکھا وہ بہت بلیغ اور ادبی الفاظ میں اس طرح گویا ہیں:

’’یا رسول اللہ! اگر آپ نہ ہوتے اور یہ مقدس کتاب نہ ہوتی جو آپ پر نازل ہوئی، اگر آپ کی احادیث نہ ہوتیں اور یہ شریعت نہ ہوتی جس کے سامنے ساری دنیا نے سرِ تسلیم خم کردیا ہے اور وہ اس وجہ سے عربی زبان سیکھنے اور اس میں مہارت حاصل کرنے پر مجبور تھی تو پھر یہ علوم بھی نہ ہوتے جن میں آج ہم کو امامت و قیادت کا شرف حاصل ہے، نحو، بیان، بلاغت ان میں سے کسی چیز کا وجود نہ ہوتا، نہ یہ بڑی بڑی معاجم اور لغات نظر آتیں، نہ عربی زبان کے مفادات میں یہ نکتہ آفرینیاں اور دقیقہ سنجیاں ہوتیں اور نہ ہم اس راستے میں طویل جدوجہد کے لیے تیار ہوتے (جس کے یہاں زبانوں اور بولیوں کی کوئی کمی نہ تھی) عربی سیکھنے اور اس پر عبور حاصل کرنے کی کوئی خواہش نہ ہوتی اور نہ ان میں وہ مصنفین اور اہل قلم پیدا ہوتے جن کی ادبیت و زبان دانی کا اہلِ زبان نے بھی لوہا مان لیا اور ان کی ادبی ذہانت کا اعتراف کیا۔ یارسول اللہ! آپ ہی ہمارے درمیان اور اسلام میں پیدا ہونے والے ان علوم کے درمیان واسطہ اور رابطہ تھے جو آپ کی بعثت کے بعد وجود میں آئے۔ درحقیقت صرف آپ ہی عرب و عجم میں رابطہ کا ذریعہ ہیں، آپ ہی کی ذات ہے جس نے اس درمیانی خلا کو پُر کیا اور عرب و عجم اور مشرق و مغرب کو گلے ملا دیا اور شیر وشکر بنا دیا۔ آپ کا کتنا احسان ہے ہماری اس ذہانت، طبّاعی اور تبحّر علمی پر اور آپ کا کتنا کرم ہے علم کی اس دولت پر، انسانی عقل کی زرخیزی پر اور قلم کی گل کاری پر۔ یارسول اللہ! اگر آپ نہ ہوتے تو یہ عربی زبان دوسری بہت سی زبانوں کی طرح صفحۂ ہستی سے ناپید ہوجاتی۔ اگر قرآن مجید کا غیر فانی صحیفہ اس کا پاسبان نہ ہوتا تو اس میں اتنا تغیّر و تبدّل ہوجاتا کہ اس کی صورت ہی مسخ ہوجاتی اور وہ ایک نئی زبان بن جاتی جیسا کہ بکثرت دوسری زبانوں کے ساتھ ہوا ہے۔ عجمی الفاظ اور مقامی زبانیں اس کو جذب کرلیتیں یا نگل لیتیں اور اس کی صحت و اصلیت یکسر ختم ہوجاتی۔ یہ آپ کے وجودِ مبارک، شریعتِ اسلامی اور اس کتابِ مقدّس کا فیض ہے جس نے اس زبان کو فنا کی دست و برد سے محفوظ رکھا ہے اور عالم اسلام کے لیے اس کی عزت و محبت واجب کردی ہے اور ہر مسلمان کے دل کو اس کا اسیرِ محبت بنا دیا ہے۔ آپ ہی کی توجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس زبان کو دوام بخشا اور اس کی بقا و ترقی کی ضمانت دی۔ اس لیے ہر اس شخص پر جو اس زبان میں بات کرتا ہے یا لکھتا ہے یا اس کی وجہ سے کوئی بلند مرتبہ حاصل کرتا ہے یا اس کی دعوت دیتا ہے آپ کا احسان ہے اور وہ اس احسان کا کبھی منکر یا اس سے کبھی سبکدوش نہیں ہوسکتا۔‘‘

میں ان کے اس تشکر و اعتراف اور اظہارِ حقیقت کو غور سے سن رہا تھا کہ اچانک میری نگاہ ’’باب عبدالعزیز‘‘ پر جاکر ٹھہر گئی۔ اس دروازے سے ایک ایسا گروہ داخل ہورہا تھا جس پر مختلف قوموں اور مختلف ملکوں کے رنگ نمایاں تھے۔ اس میں دنیا کے بڑے بڑے سلاطین اور تاریخ کے ممتاز ترین بادشاہ اور فرماں روا شامل تھے۔ ہارون الرشید، ولید بن عبدالملک، ملک شاہ سلجوقی، صلاح الدین ایوبی، محمود غزنوی، ظاہر بیبرس، سلیمان اعظم اور اورنگ زیب عالمگیر بھی اس گروہ میں شامل تھے۔ انھوں نے اردلیوں اور چوب داروں کو دروازے کے باہر ہی چھوڑ دیا تھا اور نظریں جھکائے ہوئے تواضع و انکسار کا مجسمہ بنے ہوئے بہت آہستہ آہستہ گفتگو کرتے ہوئے چل رہے تھے۔ میری نظر کے سامنے ان سب کی شخصیتیں اور کارنامے ابھرنے لگے۔ میری آنکھوں میں اس طویل و عریض دنیا کا نقشہ پھر گیا جس پر ان کا سکہ چلتا اور ان کا ڈنکا بجتا تھا۔ ان کی بادشاہی اور فرماں روائی کی تصویر یکایک میرے سامنے آگئی جو ان کی دنیا کو بڑی بڑی قوموں، طاقت ور سلطنتوں اور جابر بادشاہوں پر حاصل تھی۔ ان میں وہ ہستی بھی تھی جس نے بادل کے ایک ٹکڑے کو دیکھ کر یہ جملہ کہا تھا:

’’تو جہاں چاہے جاکے برس، تیرا خراج آخر کار میرے ہی خزانے میں آئے گا۔‘‘

وہ شخص بھی تھا جس کی سلطنت کی وسعت کا یہ عالم تھا کہ اگر سب سے تیز رفتار سانڈنی سوار سلطنت کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک جانا چاہتا تو یہ پندرہ ماہ سے کم میں ناممکن تھا۔ ان میں وہ فرماں روا بھی تھے جو نصف کرۂ ارض پر حکومت کرتے تھے۔ اور بڑے بڑے بادشاہ ان کو خراج پیش کرنے پر مجبور تھے۔ ایسے فرماں روا بھی تھے جن کی ہیبت سے سارا یورپ لرزہ براندام تھا اور جن کے زمانے میں مسلمانوں کو عزت کا یہ مقام حاصل تھا کہ جب وہ یورپ کے ملکوں میں جاتے تھے تو ان کے دین کے احترام اور ان کے غلبہ و سطوت سے گرجا گھروں کے گھنٹے نہ بجتے۔ غرض اسی طرح کے نجانے کتنے بادشاہ اور فرماں روا اس مجمع میں موجود تھے۔وہ مسجدِ نبوی میں نماز ادا کرنے کے لیے آگے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ وہ حضور کی خدمت میں درود و سلام کا ہدیہ پیش کرنا چاہتے تھے اور اس کو اپنے لیے سب سے بڑا شرف و اعزاز اور سب سے بڑی سعادت سمجھتے تھےاور تمنا کرتے تھے کہ کاش ان کی یہ نماز اور یہ ہدیۂ درود و سلام قبول فرمایا جائے۔

میں نے دیکھا کہ وہ لرزتے ہوئے قدموں کے ساتھ آگے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ان کے دلوں پر ہیبت طاری تھی یہاں تک کہ وہ ’صُفّہ‘ کے نزدیک پہنچ گئے جو فقرا صحابہ کا مسکن اور جائے قیام تھا۔ وہ تھوڑی دیر کے لیے وہاں رک گئے اور عزت و احترام اور شرم و حیا کے ملے جلے جذبات کے ساتھ اس جگہ کو دیکھنے لگے جو کبھی ان فقرا و مساکین کا ٹھکانہ تھا جن کے قدموں کی خاک کو یہ اپنی آنکھ کا سرمہ بنانے کو تیار ہیں۔

اس کے قریب ہی انھوں نے تحیۃ المسجد کے طور پر دو رکعتیں پڑھیں اور قبر مبارک کی طرف بڑھے اور پھر ان کی محبت و عقیدت، جذبات و احساسات اور علم و ایمان نے جو کچھ کہلوایا وہ انھوں نے اس بارگاہِ نبوی میں عرض کیا۔ لیکن شریعت کے آداب کا خیال رکھتے ہوئے اور توحیدِ خالص کو پیش نظر رکھ کر۔ میں نے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے:

’’اے خدا کے رسول! اگر آپ نہ ہوتے اور آپ کا یہ جہاد اور یہ دعوت نہ ہوتی جو دنیا کے گوشے گوشے میں پھیل گئی اور جس نے بڑے بڑے ملکوں کو فتح کرلیا، اور اگر آپ کا یہ دین نہ ہوتا جس پر ایمان لانے کے بعد ہمارے آبا و اجداد گوشۂ عزلت اور قعرِ مذلّت سے نکل کر عزت و سربلندی، بلند ہمتی و حوصلہ مندی کی وسیع زندگی میں داخل ہوئے، پھر اس کے نتیجے میں انھوں نے بڑی بڑی سلطنتیں قائم کیں اور دور دراز ملکوں کو فتح کیا اور ان قوموں سے خراج وصول کیا جو کسی زمانے میں ان کو اپنی لاٹھی سے ہانکتی تھیں اور بھیڑ بکری کے گلّے کی طرح ان کی پاسبانی اور حفاظت کرتی تھیں۔ اگر جاہلیت سے اسلام کی طرف اور گوشۂ گمنامی اور تنگ و محدود قبائلی زندگی سے تسخیرِ عالم کی طرف یہ مبارک سفر نہ ہوتا جو آپ کی برکت سے انجام پذیر ہوا تو دنیا میں کسی جگہ بھی ہمارا جھنڈا سربلند نہ ہوتا اور نہ ہماری کہانی کسی جگہ سنائی جاتی۔ ہم اسی طرح بے آب و گیاہ خشک و ویران صحراؤں میں اور حقیر وادیوں میں دست و گریبان رہتے، جو طاقت ور ہوتا وہ کمزور پر ظلم کرتا، بڑا چھوٹے پر زیادتی کرتا؛ ہماری غذا بہت ہی حقیر اور معیارِ زندگی اتنا پست تھا کہ اس سے زیادہ پست کا تصورمشکل ہے۔ ہم اس گاؤں یا محدود قبیلے سے آگے بڑھ کر کچھ سوچنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے تھے جس میں ہماری ساری زندگی اور ساری جدوجہد محصور تھی۔ ہماری مثال تالاب کی مچھلیوں اور کنویں کے مینڈکوں کی سی تھی۔ ہم اپنے محدودتجربوں کے جال میں گرفتار تھے اور اپنے جاہل اور بے عقل آبا و اجداد کے گن گاتے تھے۔

یارسول اللہ! آپ نے ہم کو اپنے دین کی ایسی روشنی عطا فرمائی کہ ہماری آنکھیں کھل گئیں۔ خیال میں وسعت پیدا ہوئی، نظر کو جِلا ہوئی۔ اس کے بعد ہم اس وسیع اور جامع دین اور اس کے روحانی رشتہ و رابطہ کو لے کر خدا کی وسیع اور کشادہ زمین میں پھیل گئے۔ ہماری مردہ و خوابیدہ صلاحیتیں بیدار ہوئیں اور ہم نے ان صلاحیتوں سے کام لیتے ہوئے شرک و بت پرستی اور ظلم و جہالت کا پوری طاقت سے مقابلہ کیا اور ایسی عظیم الشان حکومتیں قائم کیں جن کے سائے میں ہم اور ہماری اولاد اور ہمارے بھائی صدیوں تک آرام اور فائدہ اٹھاتے رہے۔

آج ہم آپ کی خدمت میں غلامانہ نذرِ عقیدت پیش کرنے آئے ہیں اور اپنے جذبۂ محبت اور عزت و احترام کا خراج یا ٹیکس اپنی خوشی و مرضی سے ادا کررہے ہیں اور اس کو اپنے لیے باعثِ فخر اور وسیلۂ نجات سمجھتے ہیں۔ ہمیں پورا اعتراف ہے کہ اس دین کے احکام و قوانین کے نفاذ کے سلسلہ میں (جس سے اللہ تعالیٰ نے ہم کو سرفراز کیا تھا) ہم سے یقیناً بڑی کوتاہی ہوئی۔ ہم اللہ سے استغفار کرتے ہیں۔‘‘

میں ان بادشاہوں کی طرف متوجہ تھا، میری نظریں ان کے خاموش اور باادب چہروں پر مرکوز تھیں، میرے کان ان کے ان پرخلوص نیاز مندانہ الفاظ پر لگے ہوئے تھے جو اس سے قبل میں نے ان سے کسی موقع پر نہیں سنے تھے کہ ایک اور جماعت داخل ہوئی اور ان بادشاہوں اور فرماں رواؤں کی پروا کیے بغیر ان کی صفوں سے ہوتی ہوئی سامنے آگئی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان بادشاہوں کے رعب و دبدبہ اور قوت و اقتدار کا ان پر کوئی اثر نہیں ہے ۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ یا تو یہ شاعر ہیں یا انقلابی۔ یہ اندازہ غلط نہ تھا۔ اس لیے کہ یہ جماعت ان دونوں گروہوں پر مشتمل تھی ۔ انھوں نے ایک کو اپنا ترجمان بنایا اور لائق ترجمان نے ان الفاظ میں اپنے جذباتِ عقیدت کا اظہار کیا:

’’خواجۂ کونین، سالارِ بدر و حنین، یارسول اللہ! میں آپ سے اس قوم کی شکایت کرنے آیا ہوں جو آج بھی آپ کے خوانِ نعمت کی ریزہ چیں ہے اور آپ کے سایۂ رحمت کے سوا اس کو کہیں پناہ نہیں ملتی اور آپ ہی کے لگائے ہوئے باغ کے پھل کھا رہی ہے۔ وہ ان ملکوں میں، جن کو آپ نے قفسِ استبداد سے آزاد کرایا تھا اور سورج کی روشنی اور کھلی ہوا عطا کی تھی ، آج آزادی کے ساتھ اور اپنی حیثیت کے مطابق حکومت کررہی ہے۔ لیکن یہی قوم آج اسی بنیاد کو اکھاڑ رہی ہے جس پر اس عظیم امت کے وجود اور عظمت کا دارو مدار ہے۔ اس کے رہنما و لیڈر آج یہ کوشش کررہے ہیں کہ امتِ واحدہ کو کثیر التعداد قومیتوں میں تقسیم کردیں ۔ وہ اسی چیز کو زندہ کرنا چاہتے ہیں جس کو آپ نے ختم کیا تھا، اسی چیز کو بگاڑ رہے ہیں جس کو آپ نے بنایا تھا اور اس امت کو عہدِ جاہلیت کی طرف لے جارہے ہیں جس سے آپ نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نکالا تھا۔ اور اس معاملہ میں یورپ کی تقلید کررہے ہیں جو خود زبردست ذہنی افلاس اور انتشار و بے یقینی کا شکار ہے۔ وہ اللہ کی نعمت کو ناشکری سے تبدیل کرکے اپنی قوم کو تباہی کے گھر کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ آپ نے جن بتوں سے کعبہ کو پاک کیا تھا وہ آج مسلمانوں کے سروں پر نئے نئے ناموں اور نئے لباسوں میں پھر مسلط کیے جارہے ہیں۔ مجھے عالمِ عربی کے بعض حصوں میں ، جن کو آپ کا مرکز اور قلعہ ہونا چاہیے تھا، ایک عام بغاوت نظر آرہی ہے لیکن کوئی فاروقؓ نہیں ۔ فکری و ذہنی ارتداد کی آگ تیزی سے پھیل رہی ہے اور کوئی ابوبکرؓ نہیں جو اس کے لیے مردانہ وار میدان میں آئے اور اس آگ کو بجھائے۔‘‘

یہ بلیغ اور یقین و ایمان سے لبریز الفاظ ختم بھی نہ ہوئے تھے کہ مسجدِ نبوی کے میناروں سے اذان کی دل نواز صدا بلند ہوئی۔ اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر۔ میں یک بارگی ہوشیار ہوگیا اور تخیلات کا یہ حسین سلسلہ جو تاریخ کے سہارے قائم ہوگیا تھا، ٹوٹ گیا اور میں پھر اسی دنیا میں واپس آگیا جہاں سے چلا تھا۔ کچھ لوگ نماز میں مشغول تھے اور کچھ تلاوت کررہے تھے۔عالمِ اسلام کے مختلف وفود اور جماعتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سلام پیش کررہی تھیں۔ زبانوں اور لہجوں کے اختلاف کے ساتھ جذبات و تاثرات کے اتحاد نے ایک عجیب سماں پیدا کردیا تھا۔

٭٭٭٭٭

Exit mobile version