کامیابی کا واحد، کھلا اور سیدھا راستہ

ساری تعریفیں اللہ سبحانہٗ و تعالی ٰ کے لیے ہیں، ہمارے اُس رب کے لیے جو پوری کائنات کو پیدا کرنے والا، اسے چلانے والا اور اس کا بلاشرکتِ غیرے بادشاہ ہے۔ ہم فدا ہوں اپنے محبوب ، محبوبِ کبریا حضرت محمدمصطفیٰﷺ پر……لاکھوں کروڑوں ، بے انتہا درودو سلام ہوں دلوں کی دھڑکن ،ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک، محسن انسانیت ، امام الانبیاء، رسول اللہ ﷺ پر، آپﷺ کی آل واولاد پر ،آپ ﷺ کے صحابہ کرام پر اور اُن تمام اہل ایمان پرجنہوں نے آپﷺ کی پیروی کی……بلاشبہ ایک بندے کی سعادت ، نجات اور کامیابی بس اسی میں ہے کہ وہ اپنے رب، خالقِ کائنات کی نظر میں محبوب ٹھہر ے اور اس کی بدترین محرومی، تباہی اور آخری حد تک بدنصیبی یہ ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک کی محبت سے محروم ہوجائےاور اللہ سبحانہٗ و تعالی کے ہاں اس سے نفرت ہو ۔اللہ کی یہ محبت تمام تر سعادتوں ، خوش بختیوں اوررفعتوں کی اصل ہے اور اس محبت سے محرومی تمام تر شقاوتوں ، بدبختیوں اور ذلتوں کااصل اور بنیادی سبب ہے۔جب یہ حقیقت ہے توپھر یہ سوال بھی پیدا ہوتاہے کہ ایک بندے کو یہ انتہائی اہم اور اعلیٰ ترین نعمت، ’اللہ کی محبت ‘ کیسے مل سکتی ہے ؟ وہ کیا راستہ اور کیاطریق ہے کہ جس پر چل کر بندہ اپنے مالک کی نظروں میں محبوب و مقبول بن جائے ؟ اللہ کوپانے کی طلب ،اُس کو راضی کرنے کا شوق اور اس مقصد کے لیے پھر حد درجہ محنت ومشقت ،یہ سب یقیناً ایسی صفات ہیں کہ جن سے یہ نعمت ِ عظمیٰ ملا کرتی ہے،مگر صرف یہ شروط اس منزل کو پانے کے لیے کافی قطعاً نہیں ہیں۔ اللہ رب العزت نے اپنی محبت دینے کے لیےرسول ِکبریا محمدﷺ کا اتباع بنیادی شرط کے طور پر مقرر کیا ہے اور اعلان فرمایا ہے کہ میرا محبوب اگر بنناہے، میرے ہاں مقبولیت اگر چاہتے ہو اور حقیقی وابدی کامیابی اگر تمہیں درکار ہے تو اس کا واحد طریق محمدِمصطفیٰ ﷺ کے راستے پرچلنا، آپ ﷺ کی اطاعت کرنا اور آپﷺ کے نقوشِ پا پر قدم رکھ کرآگے بڑھنا ہے اور یہی وہ واحد راستہ ہے کہ اگر اسی پر تم آگئے تو بس تب ہی میری محبت ، میری مغفرت اور میری رحمت تمہیں نصیب ہوگی۔اللہ سبحانہٗ وتعالی کا فرمان ہے:

قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ۝ (سورۃ آلِ عمران: ۳۱)

’’ کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خاطر تمہارے گناہ معاف کردے گا اور اللہ بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔ ‘‘

اتباع سے مراد پیروی کرنا، قدم پر قدم رکھنا اور ایک فرد جو عمل جس طرح کرے عین اُسی طرح اُس عمل کو بجالاناہے ، گویا اپنی پوری زندگی میں ، ہرہرگوشۂ حیات کے اندر آپﷺ کی مکمل طورپر پیروی کرنااور آپﷺ کے مبارک طریقے کے مطابق اپنے آپ کو ہوبہو ڈھالنا اتباع رسول ﷺ کہلاتاہے ۔ آپﷺ کی ایسی پیروی ہی اللہ کی محبت کا دروازہ ہے۔ابن قیم رحمہ اللہ نے اللہ کی محبت و رضا اور رسول اللہﷺ کی پیروی واتباع کی اس شرط کے متعلق اچھا قول نقل کیا ہے، کہتے ہیں :

’’شیخِ طریقت حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ راستے سارے بند ہیں مگر صرف رسول کریم ﷺ کے نقشِ قدم پر قدم رکھ کر جوآئے گا اس کے لیے راستہ کھلا ہے ،اللہ ذوالجلال کا اعلان ہے کہ ’میری عزت اور جلال کی قسم ! اگر سارے راستوں سے یہ میری طرف آئیں اور ہر دروازے پر کھڑے ہو کر اسے کھٹکھٹا ئیں تو اے محمدﷺ اس وقت تک دروازہ نہیں کھولوں گا جب تک یہ تیرے پیچھے (تیری پیروی میں، تیرے قدم پر قدم رکھ کر) نہ آئیں‘۔‘‘1

رسول کریم ﷺ کا یہ اتباع اللہ کی محبت حاصل کرنے کی ایک بنیادی شرط ہے، مگر یہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ اتباع و پیروی کے لیے محبت لازم ہوتی ہے ،کسی کی پیروی تب ہی کی جاسکتی ہے جب دل اس کا اسیر ہو اور اس کے ہرہر قول ، ہرہر عمل اور ہرہر ادا سے دل کے اندر محبت ہو ۔ اور یہ بات بھی اپنی جگہ مسلَّم ہے کہ اللہ کے ہاں ایمان کے مقبول اور کامل ہونے کی شرط رسول اللہﷺ سے محبت ہے، آپﷺ نے ایمان کے صحیح ہونے کی شرط ہی اپنی محبت بتائی ہے اورمحض محبت بھی نہیں، بلکہ صرف اُس محبت کو باعث ِنجات قرار دیا ہے جو آپﷺ کے ساتھ اپنی جان ، اہل وعیال اور پوری دنیا سے زیادہ ہو۔ آپﷺ کا فرمان ہے:’’لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَلَدِهِ وَوَالِدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ.‘‘2…… ’’تم میں سے کوئی اُس وقت تک مومن نہیں ہوسکتاہے جب تک کہ میں اسے اپنی اولاد ، والدین اورتمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں ‘‘۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ،’’یا رسول اللہ آپﷺ مجھے اپنی جان کے سوا ساری دنیا سے زیادہ محبوب ہیں ‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’لَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْكَ مِنْ نَفْسِكَ.‘‘3……’’نہیں! اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے ، اُس وقت تک بات نہیں بنے گی (یعنی ایمان قبول نہیں ہوگا ) جب تک میں تمہیں اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں‘‘۔ عمر رضی اللہ عنہ فوراً بول پڑے’’اللہ کی قسم ،آپﷺ اب مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں ‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا ’’اب بات بنی‘‘۔ آپﷺ سے محبت اور اس کی کم سے کم یہ مذکورہ سطح مطلوب ہے اور صرف ایسی محبت ہی پھر ایمان کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔ مگرواقعہ یہ ہے کہ محبت اختیاری نہیں ہوا کرتی ہے ، اپنی جان اور اہل وعیال کے ساتھ محبت بھی غیر ارادی ہوتی ہےاختیاری نہیں،ایسے میں پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ان ساری محبتوں پر رسول اللہﷺ کی محبت غالب ہو؟ شارحینِ حدیث علمائے کرام کے مطابق محبت کی دواقسام ہیں ، عقلی محبت اور طبعی محبت ۔عقلی محبت اختیار میں ہوتی ہے جبکہ طبعی غیر اختیاری ہے، یہاں حدیث میں عقلی محبت مراد ہے4۔ جب رسول اللہﷺ کو قلب ودماغ میں ارادہ و عزم کی بنیاد پر ایسا محبوب بنایاجائے کہ بندہ اپنے ساتھ یہ پکا عہد اور مضبوط ارادہ کرے کہ میں آپﷺ کو دیگر ساری محبتوں پر ترجیح دوں گا ، آپﷺ کی پیروی کروں گا اور اس پیروی کی عملی کوشش بھی ساتھ ساتھ کرے ، تو یہ عقلی محبت ہے،یہ لازمی ہے اور اس عقلی محبت میں صدق و اخلاص کا دامن اگر نہ چُھوٹے، تو خود سیرت رسول ﷺ کے اندر اللہ نے ایسا بے پناہ حسن اور دلوں کو کھینچنے کی ایسی عظیم قوت ڈال دی ہے کہ پھر عقلی محبت خود بخود طبعی محبت میں بدل جاتی ہے اور اس حد تک یہ دل میں گھرکرجاتی ہے کہ رسول اللہﷺ کے ساتھ ہی پھر دل دھڑکتاہے، آپﷺ کی ذات ہی پھر سارے جہاں سے زیادہ محبوب ترین بنتی ہے، آپﷺ کی سنت وسیرت جاننے، اس کے مطابق عمل کرنے اور آپﷺپر درود و سلام بھیجنے سے پھر دل کو سرور ملتاہے اور آپﷺ کی حرمت وناموس اور آپﷺ کے دین کی خدمت ودفاع میں پر پھر فدا ہونا ہی ایک مومن کا مقصدِحیات بن جاتاہے ۔گویا اتباع محبت کوجنم دیتاہے اور محبت اتباع کو پیدا کرتی ہے،دونوں ایک دوسرے کوتقویت پھر دیتی ہیں ، پھر یہ ایمان، محبت اور اتباع ( عمل صالح )کا امتزاج ہوتاہے کہ جو بندے کو پھر اللہ کا محبوب اور مقبول بناتاہے۔یہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کاحال تھا،ان کے دلوں میں اللہ اور رسول ﷺکی محبت بھی لبالب بھری ہوئی تھی اور اتباعِ رسول ﷺ کے بھی وہ ایسے شیدائی تھے کہ ہرچھوٹے بڑے معاملے میں رسو ل اللہﷺ کو دیکھ کر اور پوچھ کر عمل کرتے تھے،یوں شمعِ رسالت کے وہ ایسے پروانے بنے کہ زمین پر کسی کے ساتھ بھی ایسی محبت کبھی کسی نے نہیں دیکھی اور نہ ہی کسی نے کسی ایسی پیروی کبھی کی ہوگی ۔

صلح حدیبیہ کے موقع پر ، جب صلح کی باتیں ابھی شروع نہیں ہوئی تھی اور قریش کے ساتھ جنگ ہونے کاخطرہ تھا، مشرکین مکہ کی طرف سے بات کرنے کے لیے عروۃ بن مسعود ثقفی آیا، عروۃ نے دیکھا کہ آپﷺ کے سامنے صحابہ کی نظریں جھکی اور آوازیں پست ہیں، آپﷺ کی خدمت واطاعت میں ہر صحابی دوسرے سے آگے بڑھ رہاہے، آپﷺ وضو کرتے ہیں تو اس کاپانی زمین پر گرنے نہیں دیا جاتا ہے بلکہ صحابہ اسے ہاتھوں میں لے کر اپنے منہ پر ملتے ہیں ، آپﷺ تھوکتے ہیں توآپ ﷺ کے لعابِ مبارک تک کو بھی اٹھاکر جسموں پر ملا جاتاہے۔ عروۃ آپﷺ کے ساتھ بات کرنے بیٹھتا ہے تو دو صحابہ ہتھیار لے کر آپﷺ کے قریب آپ ﷺکی حفاظت میں کھڑے ہوجاتے ہیں ، باتوں باتوں میں ایک دفعہ عروۃ نے آپﷺ کی داڑھی مبارک کو ہاتھ لگایا، ساتھ کھڑے صحابی نے تلوار کے نوک سے فوراً عروۃ کا ہاتھ مارا اور کہا ،’ ہاتھ دور رکھورسول اللہﷺسے‘‘۔عروۃ نے صحابی کی طرف دیکھا، پوچھا’ یہ کون ہے؟ ‘(صحابی کا منہ چادر میں لپٹا ہوا تھا)کہا گیا،یہ مغیرہ بن شعبہ ہیں ، تمہارے بھتیجاے !۔ سبحان اللہ عروۃ کا اپنا بھتیجا، اپنے ہی چچا کے خلاف آج رسول اللہﷺ کا پہرا دے رہا ہے!! عروۃ واپس گیا تو مشرکین کے سامنے یہ روداد سنائی اور بے اختیار بولا ’’ اللہ کی قسم! میں بڑے بڑے بادشاہوں کے دربار میں گیاہوں ، میں نے قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے دربار بھی دیکھے ہیں ،مگر محمد ﷺ کے ساتھی آپﷺ کو جتنی عزت و احترام دیتے ہیں یہ میں نے کہیں کسی کا نہیں دیکھاہے‘‘… …رسول اللہ ﷺ کے ساتھ محبت کی ایک اور مثال بھی ملاحظہ کیجیے… زید بن دثنہ رضی اللہ عنہ کو مشرکین نے پکڑکر اپناقیدی بنایا اور پھر مکہ کے اندر لوگوں کے سامنے شہید بھی کردیا ، جب آپ رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کے لیے مجمع میں لایا گیا تو عین اُس وقت ایک سردارِ قریش نے انہیں قسم دلاکر سوال کیا ، کہا ’’سچ بتاؤ کیا تم پسند کروگے کہ تم (بچ کر ) اپنے گھرمیں جابیٹھو اور تمہاری جگہ یہاں محمد ﷺ مصلوب ہوجائیں ؟‘‘حضرت زید مسکرائے ،کہا ’’میں تو یہ بھی برداشت نہیں کروں گا کہ حضرت محمدﷺ کو کبھی کانٹا چبھے اور میں اپنے گھر میں آرام سے بیٹھارہا ہوں‘‘……آپﷺ کے ساتھ صحابہ کرام کی یہ محبت ہی تھی کہ ایک صحابی کو ایک دن عجیب فکر لاحق ہوجاتی ہے ،اور وہ یہ کہ یہاں تو جب چاہوں محبوب کا دیدار ہوجاتاہے ،جنت میں تو آپﷺ کا مقام بہت اونچا ہوگا ، وہاں دیگر انبیاء اور اولیاء اللہ بھی بہت ہوں گے ،ایسا نہ ہوکہ وہاں پھر آپﷺ کی زیارت مشکل ہو! یہ سوچ کر دل مغموم ہوا اورعجیب اضطراب کی کیفیت پیدا ہوئی ۔ اس غم میں جنت کی اُن نعمتوں کاخیال نہیں جو نہ آنکھ نے دیکھی ہیں ،نہ کان نے سنی ہیں اور نہ ہی کوئی ان کا تصور کرسکتاہے، خیال ہے تو رسول اللہﷺ کی زیارت ودیدار کا ! یوں دل کا چین جب بے چینی میں تبدیل ہوتاہے ،تو اس غم میں وہ صحابی دربارِ رسالت میں حاضری دیتے ہیں اور آپﷺ کے سامنے اپنی پریشانی رکھ دیتے ہیں ۔جواب میں آپﷺ انہیں اتباع رسول ﷺ اور حب رسولﷺ کی شرط بتاکر امید دلاتے ہیں کہ جو جتنا اس پر کاربند ہوگا، اتنا وہ میرے قریب ہوگا چاہے زمان و مکان کے لحاظ سے وہ جہاں بھی ہو۔آپﷺ کے ساتھ یہ محبت ا ور آپ ﷺکی یہ اطاعت و پیروی ہی وہ صفات تھیں کہ جنہوں نے صحابہ کرام کو اللہ کا محبوب بنایا اور آسمانوں میں موجود ملائکہ تک کے لیے بھی وہ قابل رشک ٹھہر گئے۔

اللہ سے محبت کا دعوی اورپھر اللہ کی جگہ خواہش نفس کو اپنا معبود بنانا کہ جو نفس کہے ،اس پر عمل ہو، اللہ کی ناراضگی کو دعوت دیناہے اور عشق رسول ﷺ کا زعم رکھنا مگر رسول کریم ﷺ کی شریعت کیا ہے؟آپﷺ کی سیرت وسنت کیا کہتی ہے ؟ اس سے غافل رہنا ، اس کو اہمیت نہ دینا بلکہ زمانے کا سیلاب جس رُخ بہے اس میں بہتے جانا اور وقت کی ضرورت اور اپنی خواہش جس راستے پر بھی ہمیں چڑھائے اس پر چڑھ جانا ……یہ ضلالت وگمراہی ہے ، اور یہ اُن ’مغضوب علیہم ‘ اور ’ضالین ‘ کا طرز عمل ہے کہ جن کی راہ سے بچنےکی ہمیں تاکید کی گئی ہے۔ رسول اللہﷺ کی یہ پیروی معمولی اور چھوٹے سمجھے جانے والے اعمال میں ہو یا بڑے اور اہم امور میں ، ہر عمل اللہ کی رضا کا عمل ہے اور اللہ کے دربار میں کوئی بھی ایسا عمل ضائع نہیں ہوگا، بلکہ اُس قدر دان ذات کے ہاں بہت معمولی سمجھنی جانے والے مستحبات کی بھی کچھ کم قدر نہیں ہوگی ۔ اللہ کافضل و کرم ہوتاہے اُس بندہ ٔ مومن پر جو کسی بھی نیکی کو حقیر نہیں سمجھتا بلکہ ہر چھوٹے بڑے عمل میں حکم شرعی جاننے اور اتباع رسول ﷺ پرکاربند ہونے کا اہتمام کرتاہے۔ مگراس کے برعکس یہ بہت ہی زیادہ افسوس کی بات ہوگی کہ انتہائی اہم امور میں بھی ہمارے ہاں عمل کا پیمانہ شریعت نہ ہوبلکہ ضرورت اورفائدہ ہو ،اور یہ دونوں اگر بالکل غیرشرعی امور کا بھی تقاضہ کرتے ہوں تو ہمیں اس کے کرنے میں کوئی عار یاخوف محسوس نہ ہو بلکہ خدمت ِدین وملت کے نام پر ایسے غیر شرعی امر کو شرعی اور برائی کو اچھائی ثابت کرنے کے لیے ہم تاویلات پیش کرنے پر تُلے ہوں ۔یقیناً یہ دین اسلام کی غربت کا زمانہ ہے اور اس میں دین وامت کی کسی بھی سطح کی خدمت کرنے والے اس امت کا سرمایہ ہیں، مگر دین کی دعوت واحیاء، اس کو غالب کرنے کی جدوجہد ،نظام باطل کی قیادت ودفاع کرنے والوں کے ساتھ تعامل وبرتاؤ، اعدائے دین کی سازشوں اور اسلام کے خلاف ان کی جنگ کے مقابل موقف و عمل،منکرات پھیلانے اور معروف کا راستہ روکنے والوں کے ساتھ ہمارا رویہ ، اس طرح خود اپنوں کے ساتھ اختلاف ،اتفاق اور معاشرتی برتاؤ، یہ سب میدان برابر تقاضہ کرتے ہیں کہ ان میں ہماری سیاست و تحریک ، ہماری دعوت و جدوجہد ، ہماری حمایت و مخالفت، ہماری دوستی و دشمنی اور ہماری جنگ و صلح مکمل طورپرشریعت محمدیﷺ پر مبنی ہو اور یہاں ہمارے ہر عمل ورویے میں رسول اللہﷺہی کی پیروی ہو۔یہ اہتمام ہوگا تو ہم اللہ کی ناراضگی سے بچیں گے، ہماری دعوت و عمل سے خیر پھیلے گی ، منکرات کا مقابلہ ہوگا، معروف کو رواج ملے گا ، اللہ کی تائید و نصرت شامل ِ حال ہوگی اور دنیا وآخرت دونوں میں ہم اللہ کے محبوب اور مقبول بنیں گے۔ مگر اس کے بجائے اگر معاملہ الٹ ہو، مقصد وہدف تو ہمارا اچھا بیان ہو ، مگر اس تک پہنچنے کا راستہ خودساختہ اور من پسند ہو، حالات کے جبر اور نئے دور کے تقاضوں کا بہانا بناکر اتباع ِ رسول سے ہٹنے کے لیے عذر تراش رہے ہوں اور اپنے غلط افکار اور وہ طرز عمل کہ جس کی شریعت میں کوئی گنجائش نہ ہو اس کا ہم ایسا دفاع کررہے ہوں کہ جیسے یہ ہی اس دور کی دینی خدمت ہو اورجیسے آج کوئی اصلاح ، کوئی تعمیری کام یا دینی وملی خدمت ان طریقوں کے بغیر ممکن نہیں،یہ اگر ہمارا رویہ رہا تو اس طرح ہم خود ہی اپنے اوپر اللہ کی محبت اور اس کی نصرت کا راستہ بند کررہے ہیں ، ایسا کرکےاپنے ہی کردار سے ہم اپنے حق پر ہونے کا عملاً انکار جبکہ باطل کے سامنے ہتھیار رکھ کر تسلیم ہونے کا اقرار کررہے ہیں،اور جب یہی ہمارا طرز عمل ہوگا تو پھر اللہ کو بھی پرواہ نہیں کہ ہم بطورِفرد یا قوم کس گھاٹی میں ہلاک ہوں، یوں پھر ایک پوری عمر بھی اگر ہم ان بے کار ہنگاموں اور کھیل تماشوں میں گزار لیں ، ہماری حالت بد سے بدتر توہوگی مگر بہتری کی طرف ایک قدم بھی ہم نہیں بڑھائیں گے، ان بند گلیوں میں خود بھی سرگرداں رہیں گے اور دوسروں کو بھی جھوٹے خواب دکھلاکر سرابوں کے پیچھے لگائیں گے، اور یہ حقیقت اپنی جگہ وہیں کی وہیں قائم ہوگی کہ ہم خود بھی خیر سے محروم ہوں گے، اہل ایمان سے اللہ کو جو کردار مطلوب ہے اس کی توفیق ہم سے چھنتی چلی جائے گی ، دوسروں کے لیے بھی خیر وہدایت کا ذریعہ نہیں بنیں گے اور یوں گمراہی ، بدحالی اور تباہی کے گڑھوں میں گرتے جائیں گے ۔ اور یہ سب اس لیے کہ خیر و ہدایت کا راستہ رائج الوقت جاہلیت5 کے ساتھ مصالحت نہیں ہے، بلکہ جاہلیت سے کٹ کر خاص اُس اسلام کے ساتھ اپنا آپ جوڑنے اور اسی کا داعی اور سپاہی بننے میں فلاح ہے جو آج بھی اپنے اصل تعبیرات کے ساتھ الحمد للہ محفوظ ہے اور جس کی حفاظت کا وعدہ اور بندوبست اللہ سبحانہ وتعالی نے بعثت نبویﷺ سے لیکر آج تک کیا ہے اورتاقیامت کریں گے ۔

حقیقت بہرحال یہی ہے کہ خود ہم خسرانِ عظیم سے صرف اُس وقت بچ پائیں گے اور اس امت کوبھی کسی قسم کی خیر بس صرف اس وقت ہی دے سکیں گے جب اپنی انفرادی واجتماعی زندگی اور پوری تحریکی جدوجہد میں، ہر سطح پر مقصد و منزل کو بھی ہم اپنا بس اُسی کو بنائیں جو بطورِ مومن اللہ کادین ہمیں اپنانے کا پابند کرتا ہے اور اِس منزل کو حاصل کرنے کے لیے راستہ، تدبیر اور وسیلہ بھی بس خاص وہی اختیار کریں جو شریعت ِ مطہرہ اور رسول اللہﷺ کی سیرت و سنت ہمیں بتاتی ہے۔ دین وآخرت کے معاملے میں ایک سنجیدہ بندہ وہی ہوسکتاہے جو مشتبہ راستوں کو چھوڑ کر صرف اُس راستے پر چلے جس کے حق ہونے میں اللہ کی شریعت میں کوئی غبار نہ ہو ۔اللہ کا دین ہمیں تعلیم دیتاہے کہ جس معاملے میں تھوڑا سا بھی غلط ہونے کا شک ہو ، اس کو چھوڑ دو اور جس میں صحیح ہونے کے لحاظ سے یقین ہو بس اسی راہ کو پکڑو، نیز جن امور میں شرعی لحاظ سے واضح احکامات ہوں ، وہاں اگر تقوی کا دامن ہاتھ سے نہ چُھوٹے، تو اللہ اُن امور میں بھی حق واضح کردیتاہے کہ جہاں حق و ناحق میں تمیز مشکل ہو۔آخرت کے متعلق یہ فکرمندی ، یہ تقوی اور رسول اللہﷺ کا اتباع ، یہ وہ راستہ ہے جو نجات و کامیابی کی طرف لے جانے والاہے اورجو کبھی بند نہیں ہوگا ، نہ دنیا میں اور نہ آخرت میں ۔ یہ آخرت میں بھی اپنے چلنے والوں کو اللہ کے رضوان، اللہ کے دیدار اور اللہ کی جنتوں تک پہنچاتاہے اور دنیا میں بھی حق و باطل کے بیچ جاری اس جنگ میں صرف اسی راستے پر چلنے والوں کے ساتھ اللہ نے نصرت کا وعدہ کیا ہے۔اللہ سے دعا ہے کہ اس سیدھے ، کھلے اوراللہ کی رحمتوں والے راستے کے وہ ہمیں مسافر بنائیں ، ہمیں توفیق دیں کہ دنیا میں بھی کبھی اس سے نہ اتریں اور آخرت میں بھی ، اس کے چلنے والوں کے ساتھ ہمارا حشر ہو ،اور اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہﷺ کے ساتھ آخری حد تک محبت کرنے، آپ ﷺ کی پیروی کرنے اور آپ ﷺ کی قربت حاصل کرنے والوں میں شامل کریں۔اللهُمَّ إِنِّا نسْأَلُكَ حُبَّكَ، وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ، وَالْعَمَلَ الَّذِي يُبَلِّغُنا حُبَّكَ، اللهُمَّ اجْعَلْ حُبَّكَ أَحَبَّ إِلَينا مِنْ أنَفُسِنا وَأَهْلِنا وَمن الْمَاءِ الْبَارِدِ، آمین یا رب العالمین!

وآخر دَعوانا أن الحمدُللہ ربّ العالمین ، وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خَلقِہ مُحَمَّد وآلہ و صَحبہ أجمعین!

٭٭٭٭٭


1 طریق الہجرتین ۔ لإبن القیم

2 صحیح مسلم

3 صحيح البخاري

4سنن ترمذی اور طبرانی نے ایک حدیث نقل کی ہےکہ آپﷺ نے فرمایا«أَحِبُّوا اللهَ لِمَا يَغْذُوكُمْ مِنْ نِعَمِهِ، وَأَحِبُّونِي لِحُبِّ اللهِ، وَأَحَبُّوا أَهْلَ بَيْتِي لِحُبِّي»’’اللہ سے محبت کرو ، کیوں کہ اللہ تمہیں اپنی نعمتوں سے رزق دیتاہے،اور مجھ سے محبت کرو اس لیے کہ اللہ کی مجھ سے محبت ہے اور میرے اہل بیت کے ساتھ محبت کرو کیوں کہ ان سے میری محبت ہے‘‘۔

5 رسول اللہ ﷺ کے لائے ہوئے دین و شریعت کے مقابل ہر نظریہ ، ہر نظام ، ہر تہذیب و تمدن اور ہر طرزِ زندگی جاہلیت ہے اور اللہ کا دین ایک مومن سے مطالبہ کرتاہے کہ وہ ان سب کا انکار کرے ، ان سے دور ہوجائے اور بس خالص اللہ کی بندگی کا طوق اپنے گلے میں ڈال دے۔

Exit mobile version