قطر، فیفا ورلڈ کپ اور ’خدمتِ‘ اسلام

قطر میں فیفا ورلڈ کپ جاری ہے اور دنیا بھر کی سکرینوں پر چاہے وہ سمارٹ فونوں کی ہوں یا ہاتھی سائز ٹیلی وژنوں کی، قطر خبروں میں چھایا ہوا ہے۔ اور قطر کے خبروں میں چھانے کا سبب دولتِ قطر کےاس ورلڈ کپ کے دوران ’اسلامی اقدامات‘ ہیں۔ ہم بھی اسی تبصروں اور نظریات کی دنیا میں اپنا موقف رکھنا چاہتے ہیں لیکن آئیے پہلے اپنی گفتگو کے لیے معیار مقرر کر لیتے ہیں۔

ہمارا معیار کیا ہے؟

ہمارا تعلق دنیا کے ان نام نہاد لوگوں میں سے نہیں جو اپنی رائے کو معتدل یا نیوٹرل قرار دیتے ہیں، دنیا میں تو پینےکو ایسا پانی بھی میسر نہیں جو نیوٹرل pH رکھتا ہو۔ یہ اسی جدید ’تہذیب‘ کا شاخسانہ ہے جس کے تحت دنیا کو ’نیوٹرل‘ ہونے یا کسی معاملے میں نیوٹرل رائے رکھنے کا دھوکہ دیا گیا ہے، حالانکہ دنیا میں neutrality نام کی کسی شئے کا کوئی وجود نہیں۔ لہٰذا ہم نیوٹرل نہیں ہیں۔ ہم دنیا میں جاری براہِ راست جنگوں اور افکار کے معرکے میں اپنے لوگوں، اپنے عقائد اور اپنے شعائر و مفادات کے ساتھ کھڑے ہیں۔

جس طرح ساری دنیا پیسے، خواہشات، نظریات وغیرہ کی غلام ہے، ہم بھی غلام ہیں اور ہم غلاموں کا مالک، ربّ السماوات والارض ہے، جس نے اس کارخانۂ حیات کو آزمائش کے لیے پیدا کیا ہے تا کہ وہ دیکھے اور پرکھے کہ کون ہے جو اسی پروردگار کی نگاہ میں بہترین عمل کرتا ہے؟ اس مالک نے افکار و نظریات اور مذاہب و ادیان کے معرکے میں اپنے غلاموں كے لیے ایک دین، ایک نظریہ، ایک فکر اور ایک مذہب، way of living، life style پسند کر لیا ہے اور اس کا نام ’اسلام‘ ہے1۔ اب جنگ ہو یا امن، معاشرت ہو یا معیشت، کھیل ہو یا ثقافت، انسانی تعلقاتِ نکاح و طلاق ہوں یا معاملات ہر چیز میں اسی ’اسلام‘ کو دیکھا جائے گا اور اس میں بھی ’کیشن ان کیری‘ کی طرح نہیں کہ جو جی چاہے اٹھا لو اور جو جی چاہے چھوڑ دو ،نہیں، جس طرح سرمایہ داری پورا پیکج ہے، جس طرح اشتراکیت پورا پیکج ہے، جس طرح جمہوریت پورا پیکج ہے صرف مخصوص اصول و ضوابط نہیں، way of life ہے اسی طرح یہ ’اسلام‘ بھی پورا پیکج ہے، کامل پیکج ہے، اکمل پیکج ہے2۔ اور جب میرے آقا و مالک نے اس کا نام ’اسلام‘ رکھا ہے تو میں بھی اس کو اسلام ہی کے نام سے یاد کروں گا، عورتوں کے حقوق آئے تو فیمن ازم اور اس کی دوسری اور تیسری لہر کی لغو بات نہیں، معیشت آئی تو کیپٹل ازم کی اچھی باتیں نہیں، اقتصاد آیا تو اسلامی بینکاری نہیں، میں دنیا کا کوئی آئین اور کوئی قانون اور کوئی انٹرنیشنل لاء نہیں مانتا، میرے سامنے کسی اقوامِ متحدہ کے کسی چارٹر کی کوئی حیثیت نہیں۔ یہ اسلام ہے! یہ تو پچھلی آسمانی شریعتوں کو بھی منسوخ کرتا ہے، تو انسانی اختراع کردہ نظریات و فلسفوں اور بھول بھلیوں کا قصہ ہی کیا؟؟!!

فلہٰذا یہ بیانِ معیار تھا! اسلام معیار ہے، جس طرح یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اترا، جس طرح حضورؐ نے اس کو نافذ کیا اور جس طرح اس اسلام کو صحابۂ کرام اور سلفِ صالحین، خیر القرون (رضوان اللہ علیہم اجمعین)نے برتا اور ہر شعبہ ہائے زندگی میں حاکم بنایا اور بالکل اسی طرح جس طرح اس اسلام نے ایک بار پھر دنیا میں غالب ہونا ہے اور محض غالب نہیں ہونا بلکہ دنیا کے ہر کچے پکے مکان میں داخل ہو کر اللہ وحدہٗ لا شریک کی حاکمیت قائم کرنا ہے، چاہے اہلِ عزت اس کو عزت کے ساتھ قبول کریں یا اہلِ ذلت ذلت کے ساتھ اسلام کے سامنے ناک رگڑیں۔

ایک جنگ جاری ہے

دنیا کا ہر ذی شعور انسان بخوبی جانتا ہے کہ دنیا میں آج بھی آدم اور ابلیس کی لڑائی جاری ہے۔ بلکہ آدم اور ابلیس کی لڑائی آج دنیا میں اپنی سنگین ترین صورت اختیار کر چکی ہے اور اس لڑائی کی سنگینی میں برابر اضافہ ہوتا رہے گا یہاں تک کہ مسیح ابنِ مریم (علیہ الصلاۃ والسلام) آسمان سے دو زرد چادروں میں لپٹے، فرشتوں کا سہارا لیے اتریں اور زمین میں، زمین کے عالمی اور اول و آخر بدمعاشوں اور کذابوں کے سرغنے دجّالِ اکبر کو اپنے نیزے سے قتل نہ کر دیں۔ پس آج زمانے کی آخری جنگ مغرب کے سمندر سے مشرق کے ساحل تک اور قطبِ شمالی تا قطبِ جنوبی مختلف شکلوں میں جاری ہے اور اس وقت اسی جنگ کو دیکھنے کا ایک زاویہ قطر میں جاری فیفا ورلڈ کپ ہے۔

ایک معیار ’نیوٹرل‘دنیا کا بھی ہے!

ایک طرف بھوک سے بلکتی، صرف امتِ مسلمہ نہیں پوری انسانیت، ماحولیاتی تبدیلیوں کے سبب قیامت خیز سیلابوں کی نذر ہوتی انسانیت، چیختی چلاتی بے لباس انسانیت اور دوسری طرف عیش و طرب کی نظیر دو سو بیس (۲۲۰)ارب ڈالر کا فیفا ورلڈ کپ اور اس ورلڈ کپ کو قطر میں منعقد کروانے کے لیے دی گئی بھاری رشوت کی رقم الگ ہے۔سمجھنے کے لیے عرض ہے کہ ۲۲۰ ارب ڈالر پاکستان جیسے تئیس کروڑ انسانوں کے ملک کے سالانہ بجٹ کا پانچ گنا ہے۔

قطر کے محاسن

ہم نے بغور بھی اور بنظرِ غائر بھی دیکھا کہ :

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوباً وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ۝

یقیناً یہ فہرست طویل ہے۔

قطر کے ’خصوصی‘ محاسن

دولتِ قطر کے بعض ایسے محاسن و فضائل بھی ہیں جو فیفا ورلڈ کپ کے شور میں کہیں دب سے گئے، ان پر بھی ایک نظرِ غائر ڈالیے:

معیار پر نظر ہو، معیار پر!

لوگ کہتے ہیں کہ تم بھی کیسے دیوانے، تنگ نظر ہو کہ اچھائیاں نظر نہیں آتیں اور برائیاں دیکھتے ہو۔ اسی لیے پہلے پہل ہم نے معیار بیان کر دیا۔ اللہ کی شریعت کامل و اکمل پیکج ہے۔ سینما گری اور ڈرامہ بازی نہیں ہے کہ شکل مومناں اور کرتوت کافراں۔ قطر کو کسی نے کنپٹی پر بندوق رکھ کر مجبور نہ کیا تھا کہ وہ فیفا ورلڈ کپ اپنے ملک میں کروائے، قطر گناہوں، فحاشی و عریانی، فسق و فجور، سٹے و قمار، شراب اور زنا و بد فعلی سے لبریز اس تقریب کو خود قطر میں گھسیٹ کر ، سیاسی لابنگ اور رشوت کے زور سے لایا ہے۔ اس قطر میں جو جزیرۃ العرب، محمدِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا وطن ہے، وہ قطر جو کعبۃ اللہ کے پڑوس میں واقع ہے۔ اربوں ڈالر کے فسق و فجور میں ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب4 کو تبلیغِ دین کے لیے لے آنا ایسا ہی ہے جیسے عیسائی ساری زندگی فسق و معصیت میں گزارنے کے بعد اپنے پادری کے پاس جا کر گناہ معاف کروا لیتے ہیں اور راتیں سیاہ کرنے کے بعد پیشہ ور لوگ تہجد کے لیے مصلوں پر کھڑے ہو جاتے ہیں!

کون سا اسلام؟

قطر اس ورلڈ کپ کے نتیجے میں کس اسلام کا راگ الاپ رہا ہے؟ کون سے اسلام کی مالا جپی جا رہی ہے؟ مجھے سیّد قطب یاد آ رہے ہیں۔

جب سیّد قطب رحمۃ اللہ علیہ کے گلے میں موت کا پھندہ ڈال دیا گیا تو وہاں موت کے قیدیوں کو کلمہ پڑھانے پر مامور ایک اہلکار نے آگے بڑھ کر کہا ’سیّد! کلمہ پڑھ لو!‘۔

سیّد قطب نے اس سے پوچھا ’کون سا ’’کلمہ‘‘؟…… وہ ’’کلمہ‘‘ جس کے سبب تمہارا روزگار لگا ہوا ہے یا وہ ’’کلمہ‘‘ جس کے سبب مجھے پھانسی دے کر قتل کیا جا رہا ہے؟‘۔

پس قطر، فیفا ورلڈ کپ، اسلام کی دعوت و تبلیغ، جائے نمازوں، اذانوں، خوش الحان قاریوں کی آوازوں وغیرہ میں ہمارا بھی یہی سوال ہے۔ کون سا اسلام؟

کون سا اسلام؟!

٭٭٭٭٭


1 دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ……جس دین کو اس (اللہ نے) ان (مومنوں)کے لیے پسند کیا ہے: یعنی اسلام۔ (سورۃ النور: ۵۵)۔ وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِيناً (سورۃ المائدۃ: ۳)

2 الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ (سورۃ المائدۃ: ۳)

3 بحوالہ صفقۃ القرن أو حملات القرون از فضیلۃ الشیخ ایمن الظواہری

4 نوٹ فرمائیے یہاں مخاطب تنقید ہر گز بھی ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب نہیں ہیں!

Exit mobile version