اس سلسلے کی گزشتہ تحریر کا اختتام ہم نے ان ملاحظات پر کیا تھا:
بنگلہ دیش جیسے علاقے میں کسی بھی قسم کی تبدیلی پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ توحید ، دعوت اور جہاد کی اساس پر کھڑی کی گئی ایک مضبوط اور خود مختار تحریک بپا کی جائے۔ ایک ایسی تحریک جو شریعتِ الٰہی کی حاکمیت کی شدید و ناگزیرضرورت کو واضح کرے۔ جو معاشرے کے امراض اور برائیوں کی نشاندہی کرے، ان کی بابت اسلام کی تعلیمات اور احکام کو عام کرے اور معاشرے کو یہ بھی بتائے کہ ایک اسلامی نظام ان مسائل سے کیسے نبٹے گا اور ان کے لیے کیا حل پیش کرے گا……ایک بار ایک ایسی تحریک بپا ہو جائے، تو وہ مسلمانانِ بنگلہ دیش کی سیکولر ازم کی جارحیت اور اس کے حملوں سے بھی حفاظت کر سکے گی۔
اگر ہم ان نتائج کو قبول کرتے ہیں،تو پھر ہم اب اپنی گفتگو کا رخ اس جانب موڑ سکتے ہیں کہ ایسی تحریک کیونکر بپا کی جا سکتی ہے اور کیسےاسے بڑھایا و پھیلایا جا سکتا ہے۔
مضمونِ ہذا میں ہمارا موضوع ایسی ایک تحریک شروع کرنے سے متعلق ہے جو مسلمانانِ بنگلہ دیش کو درپیش مسائل کا حل پیش کرے۔ لیکن اس گفتگو میں ہم ایک خاص پہلو پر توجہ مرکوز رکھیں گے،جو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے یا کما حقہ توجہ حاصل نہیں کر پاتا……اور وہ ہے ایک جامع و ہمہ گیر اسلامی منصوبے کی ضرورت۔ چونکہ اسلام ایک مکمل طریقِ حیات ہے، یہ معاشرے کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ یعنی ہر قسم کے معاشرتی، معاشی اور سیاسی مسائل و معاملات کا حل نہ صرف یہ کہ اسلامی نقطۂ نظر سے ممکن ہے بلکہ ضروری ہے کہ انہیں اسلام کے تناظر سے ہی حل کیا جائے۔ مگر آج کی اسلامی تحریکیں عوام کے معاشرتی و سیاسی اور اقتصادی مسائل کے مناسب حل پیش کرنے میں بالکل ناکام ہیں۔
ایک جامع اسلامی منصوبے کی ضرورت
بدقسمتی سے بنگلہ دیش کی تقریباً تمام اسلامی تحریکیں اور منصوبے عوام کی معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں۔ وہ اپنی دعوت کا مرکز و محور ذاتی اور خاندانی زندگی میں پیش آنے والے معاملات، یعنی عبادات اور مسائل و احکام تک محدود رکھتے ہیں۔ وہ معدودے چند جو ان معاملات کے بارے میں بات کرتے ہیں ، وہ اپنی گفتگو اسلامی نقطۂ نظر کے مطابق ڈھالنے میں ناکام رہتے ہیں۔ زیادہ تر ان مسائل پر محض سیکولر نظریات کی تکرار سننے کو ملتی ہے جس میں کوئی قابلِ قدر نکتہ شامل نہیں ہوتا۔ یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، کیونکہ یہی وجہ ہے کہ عوام کو جب بھی کوئی معاسرتی و سیاسی یا معاشی مسئلہ درپیش ہوتا ہے، تو وہ رہنمائی کے لیے ان تحریکوں کی جانب دیکھنے کے بجائےسیکولر حضرات، یعنی قوم پرست، بائیں بازو کی تحریکوں، اور لبرل ترقی پسندوں کی جانب دیکھتے ہیں۔ آسان الفاظ میں یہ کہ بنیادی طور پر اس سے محض یہ حاصل ہوتا ہے کہ ملک و قوم کی معاشرتی و سیاسی قیادت سیکولر افراد کے ہاتھوں میں ہی رہتی ہے۔
آج جو صورتحال ہمارے لیے ایک حقیقت کا روپ دھار چکی ہے، یہ ایک طویل سلسلے کا ماحصل ہے جو استعماری یورش اور نظام ِاسلامی کے انہدام سے شروع ہوا۔ ہم سب اس دردناک حقیقت سے آشناہیں کہ مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد آج ایک سیکولر اور کافرانہ نظام کے تحت زندگی گزار رہی ہے۔یہ نظام مسلمانوں پر بزور زبردستی مسلط کیا گیا۔ نو آبادیاتی دور میں، یورپی حملہ آوروں نے ہماری زمینوں پر حملہ کیا، ہماری دولت اور وسائل لوٹ لیے، نظامِ شریعت کو منہدم کیا اور اور اس کی جگہ ایک سیکولر نظام کھڑا کر دیا۔ انگریزوں نے اسلامی سلطنت اور اس کے اداروں کو مکمل طور پر تباہ کر دیا اور اس کی جگہ بہت سے یورپی سیکولر نظام کھڑے کر دیے۔ انگریزوں کے خطے سے جانے کے بعد بھی ان کے چھوڑے گئے یہ نظام فعال رہے۔آج کی مسلم دنیا میں جو ریاستیں موجود ہیں، وہ مختلف ناموں کے تحت در حقیقت نو آبادیاتی دور کی ریاستوں کا ہی ایک تسلسل ہیں۔ اس کا سیاسی اعتبار سے جو گہرا اثر ہوا سو ہوا، لیکن معاشرتی اعتبار سے بھی اس کے اثرات نمایاں ہیں۔ جن میں سے سرِ فہرست مسلمانوں کی معاشرتی طاقت کا تدریجاً خاتمہ ، اسلام کے معاشرتی رسوخ اور تاثیر میں شدید کمی کا واقع ہونا اور ایک مقامی سیکولر طبقے کی تخلیق ہے۔
برطانوی پارلیمنٹ کے ممبر، ٹامس بیبنگٹن میکالے نے ہندوستان میں ایک ایسے تعلیمی نظام کو نافذ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا جس نے ہندوستانیوں کی برین واشنگ کر کے انہیں سیکولر مغربی اندازِ فکر عطا کیا۔ انتہا درجے کے خود پسند و گھمنڈیانسان، میکالے نے ایک بار یہ دعویٰ کیا کہ وہ کسی بھی ایسے معروف سکالر(عالم) کو ڈھونڈنے سے قاصر ہے جو اس بات کا رد کر سکے کہ ’یورپ کی کسی بھی اچھی لائبریری کی ایک شیلف (الماری کا طاق) بھی ہندوستان اور عرب کے تمام مقامی ادب سے زیادہ قدر و منزلت کی حامل ہے‘۔ اس تعلیمی نظام کے اہداف کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے جسے انگریز برِصغیر ہندوستان پر مسلط کرنے والے تھے، میکالے نے کہا:
’’فی الحال ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم حتی المقدور ایک ایسا طبقہ پیدا کرنے کی کوشش کریں جو ہمارے اور ان لاکھوں عوام کے درمیان مترجمین کے فرائض ادا کر سکے۔ ایسے افراد کا طبقہ جو رنگ و نسل کے اعتبار سے ہندوستانی ہو، مگر ذوق، رائے، اخلاق و عادات اور عقل و فکر کے اعتبار سے انگریز ہو۔‘‘ 1
نوآبادیاتی دور کے بعد کے قائدین میں سے ہر ایک، نہرو سے لے کر جناح اور مجیب الرحمن تک، سب اس اعتبار سے میکالے کے فرزند تھے۔وہ سب مغربی سانچے میں ڈھلے ہوئے تھے۔ ان کا اندر اور باہر سب سیکولر تھا، اپنی سوچ و فکر اور عقائد میں وہ کالی چمڑی ہونے کے باوجود مکمل طور پر اپنے گورے آقاؤں کی پیروی کرتے تھے۔
ایک صدی سے زائد عرصہ بیت چکا ہے، اور برِّ صغیر کے معاشرے اور سیاست کا قبضہ و اختیار اسی سیکولر طبقے کے ہاتھ میں ہے جسے انگریزوں نے تخلیق کیا۔تقریباً سو سال بیت چکے ہیں کہ مختلف سیکولر گروہ اپنے اپنے عقیدے و نظریے اور ایجنڈے کے مطابق معاشرے ا ور ریاست کو چلا رہے ہیں۔ نتیجتاً معاشرتی و اقتصادی معاملات کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر سے گفتگو کرنا اور ان مسائل کے لیے حل اسلام کی تعلیمات میں ڈھونڈنے اور پیش کرنے کا رجحان بھی بتدریج کم ہو گیا ہے۔ اسی طرح اسلامی تحریکوں نے بھی اپنی دعوت کے موضوعات کو محدود و مقید کر لیا ہے۔
اس سب کا نتیجہ ہے کہ آج بہت سے لوگ اسلام کو محض چند عقائد اور ذاتی زندگی سے متعلق بعض رسوم کا مجموعہ سمجھتے ہیں۔ اس فکر کو بدلنے کی ضرورت ہے۔دعوتِ اسلامی کو فی الحقیقت تبدیلی لانے والی ایک انقلابی قوت بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اسے ذاتی زندگی کی قید سے آزاد کیا جائے۔ اور اس کے لیے ضروری ہے کہ صحیح عقیدے ،معاشرے کی اصلاح اور سنّتوں کے احیاء و اتباع کے ساتھ ساتھ معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی معاملات کی جانب بھی توجہ دی جائے۔
یہ کوئی نئی بات نہیں۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اسلامی تحریکوں کی دعوت کا موضوع ہمیشہ سے یہ مکمل پیکج رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام زندگی کے مختلف پہلوؤں کو جدا جدا خانوں میں تقسیم نہیں کرتا ۔ معاشرتی، سیاسی، معاشی، مقامی و بین الاقوامی……زندگی کے یہ تمام میدان ایک ہی شریعت کے ما تحت اور تابع ہیں۔ تیرہ صدیاں ہم مسلمانوں نے اپنی زندگیاں، اپنے معاشرے اور اپنی خوبصورت تہذیب کو اسلام کے اصولوں اور اس کی تعلیمات کے مطابق چلایا، اور اس میں زندگی کے تمام تر پہلو اور میادین ہائے حیات شامل تھے۔مگر بدقسمتی سے استعماری یورش اور جدید سیکولر ریاستوں کے قیام کے بعد ہم اسلام کی ہمہ گیر و جامع روایات سے دور ہو گئے، اور ہم نے اسلام کو اپنی زندگیوں سے نکال کر محض چند رسوم تک محدود کر دیا۔ لہٰذا، آج جس تحریک کی جانب ہم دعوت دے رہے ہیں ، یہ کوئی نئی ایجاد شدہ چیز نہیں، بلکہ ہم تو محض اسلام کی اصل دعوت کی طرف لوٹنے کی دعوت دے رہے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ بات کی وضاحت کے لیے مثال اکسیر کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ واضح کرنے کے لیے کہ ایک اسلامی تحریک عقیدہ و اصلاح، تزکیہ و محاسبہ اور تجدید کو معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی پہلوؤں کے ساتھ ایک ہی منصوبۂ عمل میں کیسےیکجا کر سکتی ہے، ہم بر صغیر کے صوبۂ بنگال میں شروع ہونے والی فرائضی تحریک کی مثال پیش کرتے ہیں، جو ہمارے زمانے سے بھی نسبتاً قربت رکھتی ہے۔ یہ تحریک ہمارے لیے ایک ایسی اسلامی تحریک کا حقیقی نمونہ ہے جس نے توحید، دعوت اور جہاد کے اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کامیابی سے عوام کی معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی مشکلات کا بھی احاطہ کیا۔
فرائضی تحریک
امام حاجی شریعت اللہؒ (۱۷۸۱ء تا ۱۸۴۰ء) کے ہاتھوں شروع ہونے والی بنگال کی فرائضی تحریک برطانوی سامراج کے زیرِ حکومت برصغیر ہندوستان کی پہلی منظم اسلامی تحریک تھی جو احیائے اسلام کا مقصد و ہدف لے کر اٹھی۔ حاجی شریعت اللہ نے حجاز میں تعلیم و تعلّم میں کئی سال صرف کیے۔ اس وقت کے بنگال کی دینی، معاشرتی، اقتصادی و سیاسی صورتحال نے فرائضی تحریک کو جنم دیا۔
اس تحریک کا اصل اور بنیادی مقصد و ہدف تو اسلام کی اصل روح اور تعلیمات کو زندہ کرنا تھا، مگر اس کی سرگرمیوں کا دائرہ عوام کے معاشرتی و اقتصادی مسائل، اور دیگر سیاسی، تہذیبی، دعوتی اور جاگیردارانہ مسائل تک پھیلا ہوا تھا۔حاجی شریعت اللہ کو اس حقیقت کا بخوبی ادراک تھا کہ وہ جن لوگوں کی اصلاح کے لیے اٹھے ہیں، ان کی مشکلات و مصائب اور حکومت کے ہاتھوں ہونے والے ان کے معاشی استحصال سے آنکھیں بند کر کے یہ مقصد حاصل کرنا ممکن نہیں۔وہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کو زندگی کے ہر شعبے میں اٹھائے بغیر(یعنی ان کے لیے ایک ہمہ گیر ترقی کی فضا پیدا کیے بغیر )کسی حقیقی تبدیلی کی توقع کرنا عبث ہے۔حاجی شریعت اللہؒ نے جب اسلام کی تعلیماتِ عدل و انصاف اور حقوق العباد کے ساتھ مزارعین میں دعوت و تبلیغ کا آغاز کیا تو جلد ہی آپ کا واسطہ ان مزارعین کی اقتصادی مشکلات اور مصائب و مسائل سے پڑا۔
معاشی استحصال کے خلاف منصوبۂ عمل
۱۷۹۳ء میں انگریز سرکار کی جانب سے اراضی سے متعلق ایک نئے قانون، جو پرماننٹ سیٹلمنٹ ایکٹ (چیرو ستھائی بندوبستو: Permanent Settlement Act ) کے نام سے معروف ہوا، نے زمینداروں کو مزارعین سے غیر قانونی اور انتہائی اونچی شرح پر محصول لینے کا قانونی جواز عطا کر دیا۔ اس قانون نے مزارعین کو زمینداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا کہ انہیں اب ہر کچھ عرصے بعد محصول اور کرایہ کے نام پر زمینداروں کی لوٹ مار اور ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑتا۔
غریب اور مظلوم مزارعوں پر مبنی اپنے پیروکاروں کے حلقے کو معاشی و روحانی تنزل سے بچانے کے لیے ، امام حاجی شریعت اللہؒ نے زمینداروں اور نیل کے کاشتکاروں کے ہاتھوں بے یار و مددگار مزارعین کے معاشی استحصال کی مخالفت شروع کر دی۔ یوں فرائضی تحریک محض دینی و مذہبی اصلاح تک محدود نہیں تھی، بلکہ وہ معاشرتی عدم مساوات اور بنگال کے غریب مگر ہنر مند طبقے، جیسے مزارعین اور کاریگروں کے معاشی مسائل کے حل کے لیے بھی کوشاں تھی۔
اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر فرائضی تحریک نے مسلمان عوام میں تحرّک پیدا کیا۔اس تحریک کا معاشرتی و اقتصادی لائحہ اس قدر مقبول ہوا کہ ہزاروں کی تعداد میں غریب و لاچار مزارعوں نے اس تحریک میں شمولیت اختیار کر لی۔حتی کہ ہندو مزارعوں نے بھی فرائضی تحریک کی زمینداروں اور نیل کے کاشتکاروں کے خلاف جدو جہد کی مخالفت نہ کی۔بعض نے تو اس تحریک کی مدد و حمایت بھی کی۔
زمینداروں کے خلاف اس جدو جہد میں فرائضی تحریک نے مسلمان عوام کو عدم تعاون پر ابھارا، اور مزارعوں کو زمینداروں کی جانب سے عائد کردہ بھاری بھرکم اور غیر قانونی ٹیکس اور محصولات ادا کرنے سے روکا۔حاجی شریعت اللہؒ بنگال میں پہلے معاشرتی مصلح تھے، جنہوں نے عوام کو غیر قانونی ٹیکسوں کی عدم ادائیگی پر ابھارا۔آپ کے انتقال کے بعد ، آپ کے بیٹے دُودُو میاں (محسن الدین احمد) نے بھی محصولات کی عدم ادائیگی کو ظلم و استبداد کے خلاف اپنی تحریک کا اہم جزو بنائے رکھا۔دوُدوُ میاں نہایت حق گوئی و بے باکی سے زمینداروں کی لوٹ کھسوٹ کے خلاف بولتے اور تنقید کرتے۔ اس زمانے میں ہندو زمینداروں کا طریقہ تھا کہ وہ دوسہرہ (درگہ پوجا) اور دیگر پوجاؤں کے نام پر مسلمان مزارعین سے بھی رقم وصول کرتے۔ دوُدوُ میاں نے اس کی بھی مخالفت کی اور فرمایا:
’’ہندو پوجاؤں اور دیگر رسوم کے لیے مسلمانوں کا مالی امداد کرنا ان کے دین و مذہب کی رو سے غلط، ناجائز اور قابلِ ملامت و سرزنش فعل ہے کیونکہ ان رسوم کی مالی اعانت کرنے والا درحقیقت کفار کے کفریہ افعال کی اعانت و حمایت کرتا ہے ۔‘‘2
معاشرتی اصلاح
حاجی شریعت اللہؒ کے زمانے میں بنگال کی مسلمان آبادی دو بڑے گروہوں میں منقسم تھی۔ اشرف ……یا اشرافیہ ، جن کا دعویٰ تھا کہ وہ غیر ملکی حملہ آور قوم (یعنی عرب نسل) سے تعلق رکھتے ہیں، وہ اپنے آپ کو ایک برتر طبقہ تصور کرتے تھے فلہٰذا وہ دیگر (اطراف یا ارذل طبقے) سے کوئی سماجی میل جول یا تعلق پیدا کرنا پسند نہ کرتے۔ اور اطرف ……یا ارذل طبقہ، جس سے تعلق رکھنے والے افراد کو گھٹیا نسب کا فرد سمجھا جاتا۔ اشرافیہ کے علاوہ بنگال کی مسلم آبادی کی اکثریت کا تعلق اسی ’نچلے طبقے‘ سے تھا، جو کاشتکاری اور دیگر پیشوں سے وابستہ تھے اور یہ ہندوستان کی وہ مقامی آبادی تھی جس نے علاقے میں اسلام کے پھیلاؤ کے ساتھ یہ دین قبول کیا تھا۔ فرائضی تحریک نے بنگالی مسلمانوں میں رائج ذات پات کے اس متعصب نظام کا کھل کر ردّ کیا کہ یہ اسلام کی تعلیمات، روح اور امتِ مسلمہ کی تہذیب و عمل کے صریحاً مخالف تھا۔انہوں نے معاشرتی مساوات کو اپنے اہداف میں بنیادی ہدف بنا لیا، کہ مسلمانوں میں مساوات اور اخوت پیدا کرنا، اور مشکل و مصیبت کے وقت ایک دوسرے کے معاشی و معاشرتی رتبے و حیثیت سے قطعِ نظر، سب کی یکساں طور پر مدد کرنا، ان کے نزدیک ہر مسلمان کا فریضہ تھا۔
فرائضی تحریک کی اس دعوت نے مسلمان عوام میں یکجہتی پیدا کی ، اور ان کو تحریک کے ساتھ مضبوطی سے جوڑ دیا۔ اس تحریک کی مشرقی بنگال کے مسلمانوں میں اسلامی عقائد و تعلیمات کے مطابق سماجی مساوات پیدا کرنے کی کوششوں نے نچلے طبقے کے ان مسلمانوں میں بہت زیادہ جوش و خروش پیدا کر دیا ، اور انہیں غریب و مظلوم دہقانوں سےایک زندہ و قوّی سماجی طاقت میں تبدیل کر دیا۔اس سے زمینداروں میں یہ خوف پیدا ہوا کہ یہ نئی جنم لینے والی طاقت بہت آسانی سے ان کی غیر قانونی لوٹ کھسوٹ روکنے اور ان کے خلاف مزاحمت کرنے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔
فرائضی تحریک کو معاشرے میں سے بہت سی بدعات کو ختم کرنے میں بھی واضح کامیابی حاصل ہوئی جو اس وقت کے بنگال میں ہر طرف پھیلی ہوئی تھیں۔امام شریعت اللہ ؒ نے مسلمانوں کو اپنے فرائض سے مضبوطی سے جڑنے اور انہیں ادا کرنے، اور دیگر تمام نت نئی بدعات اور رسوم جو قرآن و سنت کی تعلیمات کے برخلاف مسلمانوں میں جڑ پکڑ گئی تھیں، انہیں ترک کرنے کی تعلیم دی۔ اسی وجہ سے یہ تحریک ’فرائضی تحریک‘ کے نام سے موسوم ہوئی۔
تحریک کے سیاسی پہلو
مسلمانوں میں دینی بیداری اور اپنے معاشرتی و اقتصای منصوبے کے علاوہ، فرائضی تحریک کا ایک بنیادی مقصد برِّ صغیر سے برطانوی سامراج کو خارج کرنا اور یہاں ایک اسلامی حکومت قائم کرنا بھی تھا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ کفر کی حکومت و نظام کے تحت رہتے ہوئے بہت سے شرعی واجبات و فرائض کو پورا کرنا ممکن نہیں۔لہٰذا مولانا شاہ عبدالعزیز دہلوی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے حاجی شریعت اللہؒ نے برطانوی ہندوستان کو دارالحرب قرار دیا۔ پی این چوپڑا جیسے جدید مؤرخین اس بابت لکھتے ہیں:
’’مشرقی بنگال میں حاجی شریعت اللہ ؒ کے ہاتھوں شروع ہونے والی اس تحریک کا مقصد ہندوستان سے انگریزوں کو نکال کر دوبارہ مسلم حکومت قائم و بحال کرنا تھا۔‘‘3
مسلمان حکومت کی بحالی کا ہدف محض نظریاتی و تصوراتی حد ، یا محض خواہش و تقریر کی حد تک محدود نہیں تھا، بلکہ اس تحریک سے وابستہ افراد نے شہید میر نثار علی تیتو میر کے پیرو کاروں، امام سیّد احمد شہید کے متبعین اور ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی میں حصّہ لینے والے مجاہدین کی ہر ممکن مدد و نصرت کی۔اس سے اس تحریک میں ایک انقلابی کردار پیدا ہوا اور بالآخر برّصغیر میں اسلام کی بالا دستی تحریک کا نمایاں اور بنیادی ہدف بن گیا۔جلد ہی حکومت نے بھی تحریک کی سرگرمیوں کو ’انگریز مخالف‘سرگرمیوں کے طور پر محسوس کرنا شروع کر دیا اور کئی موقعوں پر فرائضی تحریک کے قائدین کو قید و گرفتار کیا گیا۔
امام شریعت اللہؒ کے انتقال کے بعد آپ کے بیٹے دُودُو میاں نے تحریک کی قیادت سنبھالی اور آپ کے دور میں فرائضی تحریک اپنے نقطۂ عروج کو پہنچ گئی۔ کہا جاتا ہے کہ دُودُو میاں کے وقت میں فرائضی تحریک سے وابستہ افراد کی تعداد دو سے ڈھائی لاکھ تک پہنچ گئی۔آپ کا اثر و رسوخ پورے مشرقی بنگال میں پھیل گیا اور فرائضی تحریک کو دیہی علاقوں میں ایک مضبوط و طاقتور سماجی و سیاسی قوّت کے طور پر تسلیم کیا جانے لگا۔
فرائضیوں نے سامراجی حکومت کے انتظامی نظام کو ردّ کر دیا کیونکہ وہ دیہی علاقوں میں بسنے والی اکثریت پر مشتمل عوام کے مفادات کا تحفظ نہیں کرتا تھا۔ اس کے مقابل انہوں نے اپنا نظام متعارف کروایا جو اسلام کے تصورِ مساوات، برابری اور سماجی عدل و انصاف کے مطابق اپنے پیروکاروں کے دنیاوی اور روحانی مسائل کو حل کرتا تھا۔
انہوں نے اپنی عدالتیں قائم کیں، فرائضی تحریک کے مرکز کے آس پاس جتنے دیہات آباد تھے، ہر پانچ یا سات دیہات پرایک منشی کو نگران بنایا گیا، جو ان دیہاتوں میں مدنی و فوجداری مقدمات کے فیصلے کرتا۔ اس دور میں فرائضیوں کے پاس اپنے جدا انتظامی و عدالتی صیغے ، اپنی فوج اور مرکزی قائد کی جانب سے مقرر کیے گئے خلفا……گویا ایک حکومتی نظام کے تمام اجزا موجود تھے۔
تحریک کی قیادت نے اپنے معاملات کو حتی الوسع خود مختار رکھنے کی کوشش کی جس میں حکومت، زمینداروں اور نیل کے کاشتکاروں کی جانب سے کم سے کم مداخلت ہوتی۔اس میں ان کا ہدف یہ تھا کہ ایک متوازی حکومت قائم کی جائے جو فی الوقت سامراجی حکومت کے ساتھ اپنا خود مختار وجود قائم رکھ سکے۔
دُودُو میاں کا قائم کردہ تنظیمی جال، اور ان کے پیروکاروں کی ان سے وابستگی و وفاداری نے دُودُو میاں کو وہ مقام عطا کر دیا جس نے انہیں ایک برطانوی افسر ’بیورِج‘ کے الفاظ میں ’بنگال کا عملاً حکمران‘ بنا دیا۔ بیورِج نے کہا کہ’دُودُو میاں کا اثرو رسوخ بکرگنج کے ضلع میں کسی بھی جج یا مجسٹریٹ سے زیادہ تھا‘4۔
ڈاکٹر جیمز وائز جو فرائضی تحریک سے قریبی واقفیت رکھتے تھے، نے۱۸۸۳ء میں برطانوی حکومت کے لیے اس تحریک کے بارے میں ایک مفصل کتاب لکھی۔ اس کتاب میں وہ چند سطور لکھتے ہیں جو اس تحریک کی اہمیت و افادیت کو بیان کرتی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’انیسویں صدی کی محمدی بیداری کی لہر ہندوستان کی جدید تاریخ کے عظیم و یادگار واقعات میں سے ایک ہے۔صرف اس لیے نہیں کہ اس نے ایک عقیدے کے جھنڈے تلے آبادی کے لاکھوں افراد کو اکٹھا اور متحد کر دیا، بلکہ اس لیے (بھی)کہ یہ ایک ایسی سیاسی تحریک بن گئی جس کا مقصد و ہدف عیسائی حکومت کو ہٹا کر اس کی جگہ ایک محمدی حکومت قائم کرنا تھا، جس میں تہذیب کی قیادت قرآن اور تلوار کے ہاتھ میں ہوتی۔
محض چند مخلص افراد کے بوئے ہوئے بیج ایک فراواں ثمر میں تبدیل ہو گئے جس نے آج پورے مشرقی بنگال(آج کے بنگلہ دیش) پر اپنا سایہ پھیلا دیا ہے۔ یہ سمجھنے اور جاننے کے لیے کہ یہ کیسے ہوا کہ ایک ایسی تحریک جسے زمینداروں اور صاحب ثروت طبقات کی حمایت و نصرت حاصل تھی اور نہ ہی حکومتی سر پرستی یا پشت پناہی، وہ ملک کے طول و عرض میں پھیل گئی اور اسے کاشتکار اور صنعت و حرفت سے تعلق رکھنے والے طبقات کی بڑی اکثریت نے قبول کر لیا، ضروری ہے کہ ہم محمدی فرمانروائی کے اوّلین دنوں کی طرف لوٹیں تاکہ تحقیق سے یہ جان سکیں کہ اس دور میں دین کی زندگی میں کیا حیثیت و حقیقت تھی اور وہ کیا طریقے اور وسائل تھے جنہیں دینِ اسلام کی حفاظت اور ترویج کے لیے استعمال کیا گیا۔‘‘5
حاصل کلام
ان تمام کامیابیوں کے باوجود بیسویں صدی کے آغاز پر فرائضی تحریک کی قوت بتدریج کم ہوتی چلی گئی، یہاں تک کہ بالآخر یہ بالکل ختم ہو گئی۔ مگر اس تحریک کی یہ موت حادثاتی یا اتفاقیہ ہر گز نہیں تھی۔فرائضی تحریک کے زوال کا تعلق بلا واسطہ طور پر کانگریس و مسلم لیگ کی سیکولر و قوم پرست تحریکوں کے ساتھ تعاون سے ہے۔ محض چند قوم پرست اور سیکولر قائدین کی دھوکہ دہی اور جوڑ توڑ کے سبب تقریباً ایک صدی کی دعوت اور بیداری کے لیے کی گئی محنت کا ثمر ضائع ہو گیا ۔ یہ اس لیے ہوا کہ اس وقت کی دینی تحریکوں کی قیادت دھوکے اور فریب کی ان چالوں کو سمجھنے میں ناکام رہی۔
تحریک کے اس انجام کے باوجود آج بھی ہم اس کے تابناک ماضی سے بہت سے اسباق حاصل کر سکتے ہیں۔ جن میں سے ہماری گفتگو سے سب سے زیادہ قرین امر فرائضی تحریک کو عقیدہ و اصلاح اور تزکیہ و محاسبہ کو سماجی، سیاسی اور اقتصادی منصوبوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں حاصل ہونے والی کامیابی ہے۔ قوم میں تحرّک پیدا کرنے کے لیے، ان کی ایک اسلامی مستقبل کی جانب رہنمائی کرنے کے لیے پہلے یہ ضروری ہے کہ ان کے مسائل حل کیے جائیں۔نیز یہ بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ قوم کو ایک متبادل نظریہ فراہم کیا جائے۔ معاشرے، اقتصاد، سیاسی نظام اور حکومت……سب کے لیے ایک متبادل نظریہ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
آج ہمارے پاس ایسا ایک متبادل نظریہ فراہم کرنے کے تمام اجزا موجود ہیں۔اسلام کی تعلیمات، علم کا وہ بحرِ بے کراں جو چودہ صدیوں کی محنتوں کا حاصل ہے ، ہماری قوم و ملّت کے تمام مسائل کا حل اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ آج ہماری ذمہ داری محض یہ ہے کہ ان موجود اجزا کو ملا کر وہ نظریہ تعمیر کریں جو مسلمانانِ بنگال کو ایک بار پھر متحد کر دے اور ان میں تحریک و ولولہ پیدا کر دے، اسی طرح جیسے ایک زمانے میں امام حاجی شریعت اللہؒ کی تحریک سے وہ دین کے لیے متحد و سرگرم ہوئے۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ ربّ العالمین!
٭٭٭٭٭
1 Macaulay’s Minute on Indian Education، یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، سانٹا باربرا
2 James Wise: Notes on Eastern Bengal
3 P. N. Chopra: Indian Muslims in Freedom Struggle, New Delhi, 1988
4 Beveridge, H. (1876): The district of Bakergonj, its history and statistics. London: Trubner, Calcutta Review, I, 1844
5 James Wise: The Muhammadan of Eastern Bengal. Journal of the Asiatic Society of Bengal, Calcutta.1894