بھیڑ اور بھیڑیے کی کہانی (بڑوں کے لیے)

بھیڑ اور بھیڑیے کی کہانی کا مرکزی خیال یمن سے نشر ہونے والے انگریزی رسالے اِنسپائر میں چھپنے والی ابو نوح کی تحریر ’’The Good, the Lamb and the Ugly ‘‘ سے لیا گیا ہے۔


زیادہ عرصہ پرانی بات نہیں، کہ ایک پراسرار خطۂ زمین پر، ایک دو نسلا بھیڑیا رہا کرتا تھا۔ اس بھیڑیے کا نام ’’اِسکیمو کتا ‘‘ اور پُراسرار دیس کا نام ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس!‘‘ تھا۔اِسکیمو کتا، اپنے ساتھیوں میں اپنے بڑے سر، اونچی دھاڑ اور لمبی زبان کے باعث امتیازی حیثیت رکھتا تھا۔ انہی خصوصیات کے باعث وہ اپنے جتھے کا سردار بن گیا تھا!

ایک روز اسکیمو کتا پہاڑی کی چوٹی پرٹہل رہا تھا۔ وہ اپنے پیٹ میں لگی ہوس کی آگ کو مٹانے کا سامان……اپنی لالچی نگاہوں سے تلاش کر رہا تھا……لیکن کہیں کچھ دِکھتا نہ تھا۔ سامانِ ظلم مانگتی اس کی بھوک اپنے جوبن پر تھی۔ اسی دوران اس کی نظر پہاڑی کے دامن میں واقع سبزہ زار میں گھومتے، ایک پیارے سے بھیڑ کے بچے پر پڑی۔ اسکیمو لمبی لمبی چھلانگیں لگاتا دامنِ کوہ میں پہنچا، تاکہ اس فرشتوں سی معصومیت رکھنے والے میمنے سے ’ملاقات‘ کر سکے۔ اسکیمو اس بات پر نہایت پختہ عزم باندھے ہوا تھا کہ وہ اس معصوم کو ہر گز بھی وحشیانہ وار کر کے ہڑپ نہ کرے گا۔ وہ سب کے حقوق سے بخوبی آگاہ تھا، بلکہ وہی تو عالمی حقوق کا سب سے بڑا چیمپین تھا۔اس لیے ، اس منصفِ اعظم کا ارادہ پیارے سے بھیڑ کے بچے پر اتمامِ حجت کے بعد ہی اپنے لمبے اور زہر ٹپکتے دانت اس کی گداز گُدّی کے پارکرنے کا تھا۔ اس نیک مقصد کے حصول، اپنے فریضے اور بھیڑ کے بچے کے حق کی ادائیگی کے لیے اسکیمو میمنے کے قریب ہوا اور یوں گویا ہوا:

’’اے بچے! پچھلے سال تم نے میری نہایت گستاخانہ انداز میں بے عزتی کی تھی!‘‘

’’دراصل……میں تو پیدا ہی اس سال ہوا ہوں……!‘‘ بھیڑ کا بچہ کانپتی آواز میں منمنایا۔

’’ہم م م م ……تم میری چراگاہ میں چر رہے ہو…… اور وہ بھی بلا اجازت؟!‘‘

’’ہر گز نہیں عالی جاہ……‘‘ میمنا بولا، ’’میں نے تو کبھی گھاس چکھی ہی نہیں!‘‘

’’تم میرے کنویں سے پانی پیتے ہو !‘‘

’’نہیں حضور!‘‘ میمنے نے اعلانیہ انداز میں کہا، ’’میں نے تو کبھی پانی پیا ہی نہیں، میری ماں کا دودھ میرے لیے اب تک کھانا اور پانی دونوں کا کام کرتا رہا ہے۔‘‘

’’خیر میں بھوکا تو ہر گز نہیں رہ سکتا!‘‘ اسکیمو نے سوچا۔

اِسکیمو نے میمنے کو دبوچا اور آن کی آن میں چیر پھاڑ کر کھا گیا۔ دبوچتے اور چیر پھاڑ کرتے ہوئے عالمی حقوق کا چیمپین، اسکیمو کہہ رہا تھا:

’’یقیناً پھر وہ تمہاری ماں ہی ہو گی جس نے یہ سب جرائم کیے ہیں!‘‘

ستم زدہ ماں، لاچار بھیڑ، بے بسی کے عالَم میں پاس ہی کھڑی، اپنے بچے کا انجام دیکھ رہی تھی۔ اپنے بچے کو اس بے رحم بھیڑیے کے دانتوں تلے ادھڑتا دیکھ کر یہ غریب ماں آخر کر بھی کیا سکتی تھی؟ وہ جانتی تھی کہ اپنا حق یہاں مانگا نہیں جا سکتا۔ لیکن اس ماں کی ممتا نے اسے یونہی بیٹھا رہنے نہ دیا، وہ آگے بڑھی اور اسکیمو کو سینگ مارا! ظاہر ہے بھیڑیے کو اس بے چاری کے سینگ سے کیا ہونا تھا؟ سو ہوا بھی کچھ نہیں۔ مگر اسکیمو آگ بگولہ ہو گیا، اس کی آنکھیں غصے سے سرخ ہو گئیں۔ جسم پر بال مارے غضب کے کھڑے ہو گئے۔ اس نے سوچا کہ اس بھیڑ کی یہ مجال کہ مجھ پر حملہ کرے؟! اس کی جرأت کے میرے فیصلے پر اعتراض کرے؟

’’آآآاااووو……‘‘اسکیمو ایک لمبی اور غیر متزلزل، دردناک آواز میں چلایا۔

’’یہ دہشت گرد ہے، یہ دہشت گرد ہے، یہ شدّت پسند ہے……انتہا پسند ہے!‘‘

اس کے ساتھ ہی سلطنت میں موجود تمام بھیڑیوں نے اسکیمو کی آواز کے ساتھ اپنی آواز ملا لی۔

وہ سب اس کے الفاظ دہرانے لگے: ’’دہشت گرد، شدّت پسند، انتہا پسند!!!‘‘

اس سب شور شرابے کے ساتھ ایک پُر فریب سا ماحول بن گیا۔ گویا تمام اقوام و افراد اس فعل کی مذمت کر رہے ہوں۔ یہ بات حیرت انگیز نہیں کہ یہ ’’آہ و بکا‘‘ دس میل دُور تک سنائی دے رہی تھی……بلکہ تعجب تو یہ تھا کہ یہ آوازیں پورے جنگل میں گونج رہی تھیں۔ ساتھ ہی جنگل میں موجود میڈیا کے نمائندہ طوطوں نے ان الفاظ کو دہرانا ،خبریں اور تجزیے نشر کرنا شروع کر دیے۔ ڈپارٹمنٹ آف دی جنگل سٹیٹ کے ترجمان نے پریس بریفنگ دی جو جنگل کے ہر میڈیا ادارے نے نشر و شائع کی۔ میڈیا میں آنے والی خبریں کچھ یوں تھی:

’’ہم دہشت گرد بھیڑ کے اسکیمو بھیڑیے کو سینگ مارنے کے ظالمانہ فعل کی پر زور الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ ‘‘

’’جنگل کے تمام جانور اس وحشیانہ حرکت کے خلاف ہیں!‘‘

’’سِول سوسائٹی بھی اس وحشیانہ فعل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے!‘‘

’’اس دہشت گرد بھیڑ کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے!‘‘

’’تمام اقوامِ جنگل اس ظالمانہ ذہنیت رکھنے والے طبقے کے خلاف متحد ہیں!‘‘

’’جنگل کی جی ایٹ اقوام (جو بعد میں جی سیون رہ گئیں) نے اس حرکت کے خلاف اپنا ردِّ عمل جاری کرنے کے لیےاجلاس طلب کر لیا ہے!‘‘

’’ہم اس شدّت پسند بھیڑ اور اس کے ہم نواؤوں کو جنگل کے ہر کونے کھدرے اور غار و گھاٹی سے ڈھونڈ نکالیں گے، we will smoke them out of the caves،اور ہم انہیں ’انصاف‘ کے کٹہرے میں لائیں گے!‘‘

جنگل کے بے تاج بادشاہ، جنابِ اِسکیمو کتا، جو جنگل کی سب سے بڑی طاقت یعنی بھیڑیوں کی قوم کے سردار بھی ہیں نےCrusade کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ :

“Either you are with us or with the terrorists!”

’’یا تو تم ہمارے ساتھ ہو یا دہشت گردوں کے ساتھ!‘‘

……اور جنگل کی تاریخ کی سب سے بڑی جنگ کا آغاز ہو گیا جو تاحال جاری ہے……

(یہ کہانی راقم نے ۵ جون ۲۰۱۴ء کو ضبطِ تحریر میں لائی)

٭٭٭٭٭

Exit mobile version