خوارجِ ’دولتِ اسلامیہ‘

مجاہدینِ اسلام کو درپیش ایک اہم فتنہ…… اس کی حقیقت، خطرناکی اور اس سے تعامل کا درست انداز

حضرت الاستاذ، استاد احمد فاروق شہید نے زیرِ نظر تحریر جولائی ۲۰۱۴ء میں تحریر فرمائی تھی۔ اس زمانے میں اس تحریر کو القاعدہ برِّ صغیر کے اندرونی حلقے ہی کے لیے مخصوص رکھا گیا تھا۔ مجاہدینِ امت اور ان کے حامی و انصار کے لیے بالخصوص اور بالعموم مسلمانانِ امت کے فائدے کے مدِّ نظر اس تحریر کو مجلّہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ شائع کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔ آج داعشی خوارج کے فتنے و فساد کا پورا زور ارضِ خراسان میں ’امارتِ اسلامیہ افغانستان‘ کے خلاف ہے۔ طلبائے علمِ دین کے مدارس میں دھماکے، شیخ مجیب الرحمٰن انصاری ، شیخ رحیم اللہ حقانی اور شیخ سردار ولی جیسے علمائے حق کا قتل، مجاہدین پر حملے، عوام المسلمین کا قتل و اغوا اور جن غیر مسلموں کو امارتِ اسلامی نے امان دے رکھی ہے کا قتل اس فسادی گروہ کے لیے ’طرۂ امتیاز‘ ہے۔ حضرت الاستاذ شہید کی ساڑھے آٹھ سال قبل لکھی گئی تحریر آج بھی اس ضال و مضل طائفے پر صد فیصد منطبق ہوتی ہے، نیز اس تحریر میں ان قلبی بیماریوں کی نشاندہی بھی ہے جو افراد اور جماعتوں کو حقیقتاً ’داعش‘ تو نہیں لیکن فکراً ’داعشی‘ بنا دیتی ہیں۔ (ادارہ)


یہ امت ، امتِ وسط ہے …… ایسی امت جو افراط و تفریط دونوں سے بچتے ہوئے عدل کی درمیانی شاہراہ کو مضبوطی سے تھامے رکھتی ہے ۔ یہ اس دین کی امتیازی خصوصیت ہے اور اس خصوصیت سے انحراف ہی دین سے انحراف کا سبب بنتا ہے۔ جتنے فرقے اور گروہ پہلے گمراہ ہوئے وہ اہلِ سنت کی اسی راہِ اعتدال کو چھوڑ جانے کے سبب گمراہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے کہ اسلام کی اس راہِ اعتدال کا حسن و جمال واضح کرنے کے لیے اور اس کو پوری طرح نکھار کر دنیا کے سامنے لانے کے لیے وقتاً فوقتاً ایسے امتحان بھیجے جاتے رہیں جو اس راہ سے ہٹنے والوں کی کجی و فساد اور اس پر جمے رہنے والوں کی بھلائی اور خیر سامنے لے آ ئیں۔ چنانچہ آج ۱۳ سال کی مسلسل قربانیوں اور ہجرتوں، اسیری اور شہادتوں سے پر ایک کٹھن راستہ پار کرنے کے بعد جب مجاہدینِ اسلام تاریخ ساز فتح کے دہانے پر کھڑے ہیں1 اور شیطان کو اپنی دو سو سالہ محنت برباد ہوتی نظر آ رہی ہے، تو ایسے میں اللہ کی مشیت تھی کہ مجاہدین کو ایک بار پھر چھانٹی کےعمل سے گزارا جائے…… نیک و بد،مصلح و مفسد ، ابرار و اشرار کو الگ کر دیا جائے…… اور اہلِ سنت والجماعت کی صاف ستھری، روشن، پاکیزہ۔ چمکتی دمکتی شاہراہ کے خدو خال اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ واضح کر دیے جائیں۔ پھر اسی طائفۂ منصورہ پر…… اس چنیدہ گروہ پر …… صالحین کی اس جماعت پر اللہ تعالیٰ کی فتح ونصرت اترے گی اور اسی کے ہاتھ امت کی آزادی، یہود ونصاریٰ اور ان کے آلۂ کاروں کی شکست اور خلافت کے قیام کے مبارک اہداف پورے ہوں گے، باذن اللہ! آج سرزمینِ شام میں مجاہدین کی صفوں میں جو فتنہ جاری ہے اور جس کے مہیب سائے دیگر محاذوں پر بھی پڑ رہے ہیں ……یہ اسی چھانٹی کے عمل کا حصہ اور اسی تکوینی سنت کا تسلسل ہے۔ اللہ ہمیں اس فتنے سے محفوظ فرمائے اور اندھیری راتوں ، گھٹا ٹوپ اندھیروں اور تند وتیز ہواؤں میں بھی شاہراہِ ایمان پر جمائے رکھے، آمین!

عزیز بھائیو! نہایت دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ امت کی تاریخ کے اس نازک موڑ پر ’دولہ اسلامیہ فی العراق والشام‘ نامی جماعت کی قیادت اپنے بانیوں کی پاکیزہ راہ کو چھوڑ کر صریح گمراہی اورا نحراف کے رستے پر چل نکلی…… اور یہ گمراہی اس قدر بڑھی کہ تمام مصلحین کی کوششیں ناکام ہو گئیں …… معاملات سدھارنے کے سارے رستے مسدود کر دیے گئے …… اور ہر آنے والے دن کے ساتھ فساد بڑھتا چلا گیا۔ اگر ہم دولہ اسلامیہ نامی جماعت کے منہج کی بڑی بڑی خرابیوں کا ذکر کرنا چاہیں تو ہم درج ذیل امور کی نشاند ہی کریں گے:

میرے عزیز بھائیو! اگرچہ اس گروہ پر مزید بھی بات کرنا ممکن ہے، لیکن جماعتِ دولہ اسلامیہ کے منہج کی بنیادی گمراہی واضح کرنے کے لیے ان شاء اللہ مذکورہ بالا نکات کافی ہیں۔ انہی صریح اور بھیانک گمراہیوں کے سبب تمام معروف علمائے جہاد اس بات پر مجبور ہوئے کہ وہ دولہ کی قیادت کے گمراہ ہونے کا کھل کر اعلان کریں۔ چنانچہ افغانستان اور مختلف جہادی محاذوں پر وقت گزارنے والے،برطانیہ میں سالہا سال قید رہنے والے اور اب اردن کی جیل میں قید معروف مجاہد عالمِ دین ، فقیہ اور مفسر شیخ ابو قتادہ فلسطینی (فک اللہ اسرہ) 3نے اپنی ایک تازہ تحریر میں صراحت سے لکھا:

’’میں یہ خط شدید رنج والم کی کیفیت میں لکھ رہا ہوں او ر اگر اللہ نے علماء سے یہ عہد نہ لیا ہوتا کہ وہ خلقِ خدا کے سامنے حق بات بیان کریں تو میں کبھی یہ باتیں نہ لکھتا۔ میں نے اپنے آپ کو یہ بات کہنے سے بہت روکا مگر مجھے یہ خوف دامن گیر ہوا کہ کہیں میں حق بات چھپانے کا مرتکب نہ ہو جاؤں ……پس اب میں صراحت کے ساتھ کہنے پر مجبور ہوں کہ مجھ پر یہ بات بالکل یقینی طور پر واضح ہو چکی ہے اور مجھے کسی قسم کا شک نہیں کہ ’ دولتِ اسلامیہ عراق و شام‘ کی قیادت، خصوصاً اس کی عسکری قیادت اور اس کے وہ شرعی ذمہ داران جو اس کو فتاویٰ دیتے ہیں ، یہ (حدیثِ مبارکہ کے الفاظ میں ) ’اہلِ جہنم کے کتے ہیں‘ اور ان میں خوارج کی یہ صفت پوری طرح پائی جاتی ہے کہ’یہ اہلِ اسلام کو قتل کرتے ہیں اور مشرکین کو چھوڑ دیتے ہیں‘۔‘‘ (رسالۃ إلی أھل الجھاد ومحبیہ للشیخ أبي قتادۃ الفلسطیني فک اللہ أسرہ)

اسی طرح عالمِ عرب کے معروف عالمِ دین، درجنوں کتب کے مصنف، بارہا جیلیں کاٹنے والے حق گومجاہد، شیخ زرقاویؒ کے جیل کے ساتھی، شیخ ابو محمد مقدسی نے بھی کھل کر دولہ کے خلاف متعدد تحریرات لکھیں اور اپنی تازہ ترین تحریر میں جو محض چند دن قبل سامنے آئی ہے،کھل کر لکھا کہ:

’’دولہ اسلامیہ نامی جماعت کے بارے میں یہ بات دلائل سے ثابت ہو چکی ہے کہ اس نے ناحق خون بہائے، اس نے مجاہدین کے قائدین اور ان کے علماء کے احکامات کی نافرمانی کی اور ان کی نصیحتیں اور اصلاح کی سب کوششیں رد کیں، ان کے بعض افراد بلکہ ان کی شرعی لجنہ کے اراکین تک میں غلو کا مرض گھس آیا اور ان میں سے بعض نے تو کھل کر اعتراف کیا کہ ان کی صفوں میں خوارج موجود ہیں…… پھر آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس جماعت نے ہمارے اکابرین، ہمارے علماء اور مشائخ پر زبان درازی کی، خصوصا ہمارے بھائی اور ہمارے محبوب شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ کے خلاف بد زبانی کی اور ان کے احکامات ماننے سے انکار کیا اور اپنی اس معصیت و سرکشی کو جائز ثابت کرنے کے لیے یہ دعویٰ کیا کہ القاعدہ درست منہج سے ہٹ گئی ہے ۔ پھر اس کے لیے القاعدہ کے قائدین کے بیانات میں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسی عبارتیں سامنے لائے جن میں شرعاً کوئی بھی قابلِ گرفت بات نہیں تھی…… پس اب مزید تاخیر و انتظار ممکن نہیں رہا ، بلکہ اب خاموش رہنا دراصل منکر کو برداشت کرنے اور باطل کے سامنے چپ رہنے کے مترادف ہے …… چنانچہ میں اعلان کرتا ہوں کہ ’دولتِ اسلامیہ فی العراق والشام‘ نامی تنظیم راہِ حق سے منحرف، مجاہدین کے خلاف سرکشی کرنے والی، غلو میں مبتلا اور خونِ مسلم کو بہانے کی مرتکب جماعت ہے……!‘‘ (في بیان حال الدولۃ الإسلامیہ في العراق والشام والموقف الواجب تجاھھا، للشیخ أبي محمد المقدسي)

اسی طرح مصر سے تعلق رکھنے والے مجاہد عالمِ دین شیخ ہانی سباعی حفظہ اللہ نے فرمایا ہے:

’’اس جماعت کے ترجمان ابو محمد عدنانی نے حروری خارجی فرقے کے رستے پر چلتے ہوئے بودی تاویلات اور باطل شبہات کا سہارا لے کر مجاہدین کا خون حلال قرار دیا اور اپنی تنظیم سے تعلق نہ رکھنے والے تمام مجاہدین کے خلاف اعلانِ جنگ گیا۔ البتہ ان میں اور پرانے دور کے خارجیوں میں بہت فرق ہے کیونکہ نہ تو یہ اُن جیسی شجاعت، نہ ان جیسی فصاحت و بلاغت، نہ ہی ان جیسے اخلاق کے حامل ہیں، البتہ انہوں نے خارجیوں کی بدترین صفت اختیار کر لی ہے، یعنی مسلمانوں کا خون حلال سمجھنے کی صفت! بلکہ یہ تو قرامطہ ، اسماعیلیہ اور حشاشین کے رستے پر چل نکلے ہیں جنہوں نے عالمِ اسلامی میں دہشت و فساد پھیلایا اور خلفاء، سلاطین ، علماء اور صلاح الدین ایوبی جیسے ابطال کو قتل کیا۔‘‘(بیان براءۃ ومفاصلۃ لیھلک من ھلک عن بینۃ للشیخین الدکتور طارق عبدالحلیم والدکتور ھاني السباعي)

ان کے علاوہ شیخ عبداللہ محیسنی، شیخ سامی عریدی، شیخ ایاد قنیبی اور بہت سے دیگر علمائے جہاد نے بھی کھل کر واضح کیا ہے کہ دولہ اسلامیہ نامی جماعت کی قیادت واضح طور پر گمراہ منہج اختیار کر چکی ہے اور اس جماعت سے الگ ہونا اور راہِ حق پر گامزن جہادی جماعتوں کے ساتھ شامل ہونا فرض ہے۔ نیز انہوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ افراط کا جواب تفریط سےنہ دیا جائے کیونکہ دونوں راہیں ہی گمراہی ہیں، بلکہ تمام امور میں راہِ اعتدال پر جما رہا جائے۔

عزیز بھائیو!آج خراسان کے محاذ پر بھی چند لوگ انہی گمراہ عقائد و نظریات کے حامل اور اسی فسادی منہج پر عمل پیرا ہیں…… بلکہ بعض تو اس کے سرگرم داعی بھی ہیں …… اور بعض دیگر جزوی طور پر اس گمراہی سے متاثر ہیں۔ یہاں ان کا بنیادی معرکہ القاعدہ سے نہیں، بلکہ امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہد حفظہ اللہ کے بالمقابل ایک نیا امیر ، نئی امارت اور نئی دعوت کھڑا کرنا ان کا بنیادی مقصود ہے۔پس ہر مجاہد کو اس گروہ کو ، اس کی صفات وعلامات کو اور اس کے منہج کی بنیادی خرابیوں کو (جن کا ذکر سطورِ بالا میں کیا جا چکا ہے) اچھی طرح پہچان لینا چاہیے تاکہ جس ایمان کو بچانے ہم گھروں سے نکلے تھے اس ایمان کی حفاظت کر سکیں، شبہات پھیلانے والے ’مرجفین‘ کی مذموم کوششوں کے باوجود راہِ جہاد پر جمے رہ سکیں، اپنی بندوقوں اور زبانوں کا رخ کفار و مرتدین ہی کی طرف رکھ پائیں اور دوسرے مجاہد بھائیوں کو بھی اس خطرناک فتنے سے بچانے میں مدد کرپائیں۔

نیز یہ بھی بخوبی سمجھ لینا چاہیے کہ یہ ایک بدعتی فکر ہے اور اس فکر کے حامل دین میں غلو کی اس خطرناک بدعت میں مبتلا ہیں جس سے نبیٔ اکرم ﷺ نے بہت سی احادیث میں خبردارفرمایا اور جسے آپ ﷺنےسابقہ امتوں کی ہلاکت کا سبب قرار دیا۔ واضح رہے کہ اہلِ بدعت میں سے جو لوگ اس بدعت کی طرف باقاعدہ دعوت دیتے ہوں اور دیگر مسلمانوں کو اس کی طرف بلاتے ہوں ان سےتعامل کے حوالے سے شریعت نے کچھ واضح ہدایات دی ہیں۔ان میں سے سب سے نمایاں اور متفق علیہ ہدایات یہ ہیں کہ

بدعت کے داعیوں کے ساتھ نہ تو بیٹھا جائے، نہ ان کے قریب رہا جائے، نہ ان کو سلام کیا جائے،نہ ان سے بات کی جائے، نہ ان کی بات سنی جائے، نہ ان کی کتب پڑھی جائیں ، نہ ان کی دعوت قبول کی جائے، نہ ان کا کھانا کھایا جائے، نہ ان کی عیادت کے لیے جایا جائے اور نہ ان کو احترام دیا جائے۔

البتہ ایسے اہلِ علم جو ان کے دلائل رد کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں وہ اگر ان کی اصلاح کرنے یا ان کا باطل ہونا واضح کرنے کے لیے ان کے ساتھ بیٹھیں تو حرج نہیں۔ اس حوالے سے مزید تفصیلی احکام کتبِ عقائد و کتبِ فقہ میں ’ھجر المبتدع‘ کے عنوان تلے موجود ومعروف ہیں اور امام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی مجموع الفتاویٰ میں اس پر نہایت خوبصورت اور تفصیلی بحث کی ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں ایمان و جہاد پر خاتمہ نصیب فرمائیں، ہماری زبانوں و بندوقوں کا رخ کفار ہی کی طرف رکھیں اور ہمیں فتنوں میں گرنے سے بچا لیں، آمین!

وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم

٭٭٭٭٭


1 یاد رہے کہ یہ تحریر ۲۰۱۴ء میں قلم بند کی گئی تھی۔(ادارہ)

2 دمِ تحریر، امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ کی رحلت کی خبر عام نہیں ہوئی تھی۔ (ادارہ)

3 شیخ ابو قتادہ حفظہ اللہ دمِ تحریر گرفتار تھے اور اب الحمد للہ بخیر و عافیت طواغیت کے قید خانوں سے رہائی پا چکے ہیں۔(ادارہ)

Exit mobile version