جزیرۂ محمد ﷺ پر ورلڈ کپ قطر ۲۰۲۲ کی آڑ میں اباحتی یلغار

مرکزی قیادت (جماعت قاعدۃ الجہاد)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اسی اللہ کے لیے تمام تر تعریف ہے جو مکاروں کے مکر کو توڑنے والا اور خائنین کی چالوں کو ناکام بنانے والا ہے۔ جس نے قرآن مبین میں فرمایا:

اُولٰۗىِٕكَ يَدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ وَاللّٰهُ يَدْعُوْٓا اِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِاِذْنِهٖ ۚ وَيُبَيِّنُ اٰيٰتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَــتَذَكَّرُوْنَ۝ (سورۃ البقرۃ: ۲۲۱)

’’یہ لوگ آگ کی طرف بلا رہے ہیں اور اللہ تمہیں بلا رہا ہے جنت کی طرف اور مغفرت کی طرف اپنے حکم سے اور وہ اپنی آیات واضح کر رہا ہے لوگوں کے لیے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔‘‘

پاک ہے وہ ذات جو مجبوروں کی فریاد سنتی ہے، مصیبت زدوں کی مصیبتیں دور فرماتی ہے اور اپنے مجاہد بندوں کی نصرت فرماتی ہے۔ اور درود و سلام ہو ہمارے پیارے پیغمبر اور اسوۂ حسنہ محمد ﷺ پر اور ان کی بابرکت آلِ اطہار اور تمام صحابۂ اخیار پر!

اما بعد!

مکر و فساد کی تلواریں مسلمانوں کی گردنوں پر سونتی ہوئی ہیں اور معاصر صلیبی جنگیں مسلمانوں کے خلاف مرکوز اپنے ہمہ جہت حملوں کو مزید مہمیز دیے چلی جارہی ہیں تاکہ بالخصوص نزولِ وحی ، اخلاقِ کاملہ اور نورِ ایمان کی سرزمین جزیرۂ عرب میں انسانی فطرت اور صبغۃ اللہ کے تمام متعلقہ شعائر کو تباہ کر دیں۔ اور آج وہ مسلمانوں پر ثقافتی یلغار کا ایک اور رنگ لے کر آئے ہیں، تباہ کن فکری جنگ کی ایک اور قسم، جس کے اہداف میں سے ایک اہم ہدف اس خطے میں قومِ لوط کے ’ثقافتی ورثے‘ کا احیاء اور سرخ جھنڈے والیوں1 کے ’تاریخی آثار‘ کو زندہ کرنا ہے۔ اور اس کے ذریعے فحاشی و عریانی کو فروغ دینا اور ہم جنس پرستی کی غلاظت کو لوگوں کے لیے معمول کی چیز بنا دینے کی بھر پور کوشش کرنا ہے۔

ایک طرف سعودی نظام کے جابروں، صلیبیوں کے آلۂ کار اور عربوں میں سے صہیونیوں نے اپنے ذمے اسلامی شناخت کو تباہ کرنے کا کام لے رکھا ہے ۔ صلیبیوں کے کہنے پر اس جنگ میں ان کا خاص مشن جزیرۂ رسول پاک محمد ﷺ کی اقوام کے اعلی اخلاقی اقدار کو لہو و لعب اور فحاشی و عریانی میں ڈوبے ہوئے طوفانی مجمعوں کے ذریعے ختم کرنا ہے، جسے وہ ’انٹرٹینمنٹ سیزن‘2کا نام دیتے ہیں، تاکہ جاہلیتِ اولیٰ کے تبرج3 کو مسلمان لڑکیوں اور خواتین میں عام کریں اور نوجوانوں کو بے مقصد زندگی گزارنے کی عادت ڈال دیں۔ جہاں سعودی حکومت یہ ذمہ داری نبھا رہی ہے وہاں اماراتی اور بحرینی نظام کے صہیونی ان کے اسلامی عقائد کو تباہ کرنے کا خطرناک کردار ادا کر رہے ہیں، جس کے لیے انہوں نے ’دین ابراہیمی‘4 کی دعوت اور الحاد کی ترویج کو باقاعدہ سیاست کے طور پہ اپنایا ہوا ہے اور نام نہاد’انسانی بھائی چارے کی دستاویز‘ کی نظریاتی طور پہ تقویت اور عملی طور پہ نفاذ کے ذریعے مخلوط عقائد نشر کررہے ہیں۔

جہاں آل سعود، آل زاید اور آل خلیفہ کے صہیونی حکمران آسمانی عقائد میں ردّ و بدل کرتے ہوئے دین، عقل ، اخلاق اور جان و مال تباہ کرنے کے لیے ایک دوسرے سے سبقت لے جا رہے تھے، وہاں تیسری طرف قطری نظام کے حکمران،جن کے بارے میں یہ گمان کیا جاتا تھا کہ ان کا کردار اسلامی تحریکات اور مجالسِ علماء کو سدھانے، ان کی تاثیر کو کم کرنے، ان کی عقل اور دماغ کو ماؤف کرنے، ان کی یادداشت کو تبدیل کرنے، معاشرے پر ان کے اثرات کو مٹانے تک محدود رہے گا، آہستہ آہستہ اپنے صہیونی کردار سے پردہ ہٹا رہے ہیں۔ اور نظر یہ آرہا ہے کہ یہ کردار اپنی نوعیت، حجم اور کیفیت کے اعتبار سے خبیث تر ہے کیونکہ ان کے نئے کردار نے ناصرف اس صلیبی جنگ میں تمام عرب صہیونی نظاموں کی ذمہ داریوں اور مشن کو یکجا کر دیا ہے بلکہ یہ دیگر سے بڑھ کر نئی نسل کو تباہ کرنے، مسلمانوں کے مال ودولت کو برباد کرنے اور اہلیانِ جزیرۂ محمد ﷺ کی عزتوں اور وسائل کو ضائع کرنے میں ممتاز ہے۔ اور یہ سب کچھ ورلڈ کپ ۲۰۲۲ کی میزبانی کے ذریعے کہ جس میں قصداً عمداً امت مسلمہ کے خزانوں اور وسائل کو اس حد تک فضول خرچی اور اسراف و تبذیر کا نشانہ بنایا گیا جس کی انسانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ اور جس میں اسرائیلی ہم جنس پرستوں جیسے دنیا بھر کے گھٹیا ترین لوگوں کو اس سرزمین میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی تاکہ وہ کھیل تماشوں میں شرکت سے محروم نہ رہیں!اس کا قطر کے سرکاری اہلکاروں نے ذرائع ابلاغ میں بر ملا اعلان بھی کیا اور اہل لواطت کو جزیرۂ محمد ﷺ پر قدم رکھنے کا موقع دیا تاکہ وہ امت ِ مسلمہ کے نوجوان لڑکے لڑکیوں کے درمیان اپنے فسق و فجور اور فحاشی و الحاد کا مظاہرہ کریں۔ واللہ! یہ جزیرۂ محمد پر بڑی مصیبت اور آفت ہے جو حرمین شریفین اور بقعۂ نزولِ وحی کے قرب و جوار میں نازل ہوئی! واللہ! یہ امت مسلمہ کو چونکا دینے والا لمحہ ہے! پس امت اس کے بعد صف ماتم بچھا دینے میں یقیناً حق بجانب ہے ۔ اور ہم اللہ ہی کو دہائی دیتے ہیں۔ واللہ المستعان!!!

(اشعار کا نثری ترجمہ)

خوشی اور غم تو زندگی کا حصہ ہوتے ہیں
اور غم بھی قسم قسم کے ہوتے ہیں
ہر مصیبت کا غم کم کرنے کا ذریعہ موجود ہے
لیکن جو مصیبت اسلام پر ٹوٹ پڑی ہے اس کا کوئی مداوا نہیں
جزیرۃ العرب پر وہ آفت نازل ہوئی ہے
جس پر افسوس بھی لا حاصل ہے
جس کے سبب احد کا پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گیا
یہاں تک کہ اب اسلام تمام ممالک سے غائب ہو چکا ہے

ہماری محبوب امت!

اقوام و ممالک کی عمریں ہوتی ہیں اور ان پر عروج و زوال آتا ہے۔ آفتاب ِ امم کے غروب کا لمحہ اور تباہی کی پہلی نشانی کسی امت میں عیش و عشرت اور لہو و لعب کا پھیل جانا ہے، جیسا کہ ابن خلدون رحمہ اللہ نے ذکر کیا۔ ورلڈ کپ کی تقریبات کا مقصد محض جسمانی کھیل میں کوئی کارنامہ انجام دینا نہیں رہا۔ بلکہ در حقیقت یہ دو دھاری تلوار ہے جس میں جسمانی کھیلوں کو فکری اور نظریاتی اہداف، اور ثقافتی اور سیاسی محاذوں پر کامیابی حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ سمجھ دار خود دیکھ سکتا ہے کہ ان کے پیچھے کوئی اور سازش ہے۔ فقہ الواقع کے اعتبار سے یہ امت پر ایک قسم کی تہذیبی جنگ اور فکری یلغار ہےاور اسے لا یعنی کاموں میں مصروف کرنے کا ایک ذریعہ ہے جس کا مقصد دینی شناخت کو ختم کر کے نفس انسانی کو مادر پدر آزادی کے فلسفے میں رنگنا ہے۔ یہ خبیث اور مکار فکری جنگ جسے صلیبیوں نے جزیرۂ عرب میں بھڑکا دیا ہے در حقیقت ایک کھلی جنگ ہے، یہ جلا کر تہس نہس کردینے والے آگ ہے، یہ خفیہ تلوار اور تیز نیزہ ہے جو مسلمانوں کے سینوں کے اندر گھس کر دلوں پر چپکے سے چوٹیں لگا رہا ہے۔ اس جنگ کا انجامِ بد اتنا واضح ہے، اس میں اتنے بڑے گناہوں اور عظیم معصیتوں کا ارتکاب ہو رہا ہے، اس میں کی جانے والی حرکتیں اتنی گھٹیا اور رذیل ہیں، اس کے تمام اقوال و افعال اتنے برے ہیں کہ اسلام اور مسلمانوں پر اس جنگ کے نقصانات کوبیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں اور نہ ہی اس کے لیے کسی دلیل و حجت کی ضرورت ہے۔ تقدیر الٰہی نے صلیبیوں ، جنسی بے راہ روؤں اور کافر ملحدوں کی جزیرۂ عرب میں پیش قدمی سے اس محبوب امت کو آزمایا ہے، یہاں تک کہ بڑی مصیبت ، خطرناک گناہ، اور اندوہناک فتنے نے اسے گھیر لیا۔ جس کا ظاہر کھیل تماشا اور ورزش ہے جبکہ باطن عذاب سے بھرا ہے۔ کھیل کے نام پر یہ اخلاق کے بگاڑ، فحاشی کے پھیلاؤ اور ہر اس چیز کی طرف پکار ہے جو مسلمانوں کا شیوہ نہیں ہے۔ بلا شک و شبہ اس سب نے مسلمانوں کی ناراضگی کا موجب بننا تھا اور ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچانی تھی۔ اور یہ کوئی عجیب بات نہیں کہ مسلمان اسے ایک نئی قسم کی یلغار کے طور پہ دیکھیں جس کا رخ ان کے پیغمبر پاک ﷺ کی سرزمین کی طرف ہے۔ کیونکہ اس سے پہلے جزیرۂ محمدیہ کو اس طرح کی بلاؤں سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ چنانچہ ایمانی غیرت والوں پر لازم تھا کہ وہ جزیرۂ عرب میں اہل اسلام پر نازل شدہ مصیبت کی شدت کو واضح کریں۔ اور یہ واضح کریں کہ یہ منحوس آفت مسلمانوں کے عقائد، اخلاق، افکار اور آزادی کو نیست و نا بود کرنے میں کتنا بڑا کردار ادا کرے گی۔ ممکن ہے کہ اس قسم کے بیانات سے ادراک و شعور کچھ بڑھ جائے اور راہِ نجات کی طرف نشاندہی ہو سکے تاکہ اس فتنے کی چنگاری بجھے اور اس کی تپش سرد پڑ جائے۔ یہ ہمارے لیے ایک موقع ہے کہ ہم اپنے مسلمان بھائیوں کے سامنے کلمۂ حق کو اس کی حقیقت، حکم اور انجام سمیت بیان کریں۔ اور نصیحت کی کچھ باتیں ان تک پہنچائیں اور پھیلائیں۔ اور اس نصیحت کی صورت میں ان سے رسم محبت نبھائیں۔ کیونکہ بوقت ضرورت نہ چپ رہا جا سکتا ہے اور نہ بیان و وضاحت میں دیر کرنا جائز ہے بالخصوص تب جب کہ امت اس حد تک بگاڑ اور اختلافات میں گھر چکی ہے۔ ممکن ہے کہ اللہ اس نصیحت سے اس شخص کو فائدہ پہنچائے جو بات سنے تو بہترین رائے کی اتباع کرے۔

چنانچہ اللہ کی توفیق سے ہم کہتے ہیں جب ہم نے اس منحوس آفت کے خطرناک نتائج کی بخوبی تشخیص کر لی ہے کہ امت اسلام کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس بات سے غافل رہے کہ فٹ بال کا ورلڈ کپ پہلے کی طرح محض جسمانی ورزش اور کھیل نہیں رہا۔ بلکہ یہ فکری آلہ اور نظریاتی ذریعہ ہے تاکہ کرۂ ارض پر جینے والے تمام انسانوں کی آسمانی فطرت مسخ کر کے انہیں اباحیت کے رنگ میں رنگ دے۔ یہ کفر کے بچھونوں میں سے ایک بچھونا ہے۔ اور شناخت اور عقل کو محو کرنے والی درس گاہوں میں سے ایک درس گاہ ہے۔ ان عالمی تقریبات نے اپنے اندر تباہ کن عقائد ، باطل افکار اور فاسد تہذیب کو چھپا رکھا ہے۔ اس لیے امت مسلمہ اور اس کی آنے والی نسلوں کی حفاظت کے لیے یہ قطعاً مناسب نہیں کہ ان تقریبات کی میزبانی اور تشہیر و ترویج عالم اسلام کے کسی بھی ملک میں کی جائے۔ چہ جائے کہ یہ کام جزیرۂ عرب میں ہو جہاں سرزمین حرم پر حج کے عظیم مراسم کے دوران ہونے والے اجتماعاتِ عبادت کے علاوہ کوئی دوسرا عالمی اجتماع زیب نہیں دیتا۔

ہمیں تو رسول اللہ ﷺ نے مشرکوں کو جزیرۂ عرب سے نکالنے کا حکم دیا ہے۔ اس جزیرے کو اور اہالیانِ جزیرہ کو ان کی گندی تہذیب، نجاست، اخلاق کی پستی اور گھٹیا سلوک سے محفوظ کرنے کا حکم دیا ہے۔ کیونکہ یہ جزیرہ ایمان کا گہوارہ، قرآن کریم کا جائے نزول، پیغمبر اسلام ﷺکا گھر، صحابۂ کرام کی کچھار اور مسلمانوں کا قبلہ ہے۔ اس کے باشندے اصل عرب اور اسلام کا گوہر ہیں۔ وہ قیادت و ہدایت کا منبع ہیں۔ عالم اسلام کا مرکز اور سر ہیں۔ دعوت الٰہی کے امین ہیں۔ توحید، حدود اور حرمتِ دین کی حفاظت کا قلعہ ہیں۔ اس لیے اس سرزمین اور اس کے باشندوں کو نجابت ، ایمان، عفت، توحید، اسوۂ حسنہ اور رشد و ہدایت سے سرشار ہونا چاہیے۔ اسلامی مزاج کے حامل، عرفان و معرفت والوں کے نزدیک اس بات میں ذرہ بھر شک کی گنجائش نہیں کہ اس مبارک جزیرے پرعظیم منکرات اور رذیل اخلاق و معاصی سے بھرپور ورلڈ کپ کے انعقاد سے ہمارے پیغمبر اقدس حضرت محمد ﷺ کو اپنی قبر مبارک میں اذیت پہنچے گی اور ہر اس صاحب ایمان مسلمان کو بھی اذیت پہنچے گی جو اس عظیم دین ، واضح ہدایت، اور سنت مطہرہ پر غیرت رکھتا ہو۔ پیغمبر پاک ﷺ اور ان کے پیروکاروں کو اذیت پہنچانے کی معصیت کا اندازہ لگانے اور ہر با شعور کو ہوش کے ناخن لینے کے لیے یہ آیت کافی ہے:

اِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ وَاَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِيْنًا۝ وَالَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِيْنًا۝ (سورۃ الاحزاب: ۵۷، ۵۸)

’’بلاشبہ جو لوگ اللہ کو اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں اللہ نے دنیا میں اور آخرت میں ان پر لعنت کی اور ان کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب تیار فرمایا ہے ۔ اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو بغیر گناہ کیے ایذا پہنچاتے ہیں، وہ لوگ بہتان اور صریح گناہ کا بار اٹھاتے ہیں۔‘‘

پس اے محمد ﷺ کے امتیو! خصوصاً قطر اور عموماً جزیرۂ عرب میں رہنے والے ہمارے عزیزو! اے مرہ، بنی تمیم اور قحطان کی اولاد! اے کعب ، ذہل اور غطفان کے سپوتو! اے خود دار طبیعتوں اور بہترین خصلتوں کے مالکو! اے اونچے حسب و نسب کے حاملو! اے جود و سخاوت سے متصف! اے غیرت و ایمان سے سرشار! تمہیں اس ورلڈ کپ میں بے تحاشا برائیاں نظر آئیں تو ان پر نکیر کرنا۔ کبائر کا ارتکاب ہوتا نظر آئے گا تو ان کا قلع قمع کرنا۔ چاہے قطری نظام مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کی کتنی ہی کوششیں کیوں نہ کر لے اور یہ دعوی کرتا پھرے کہ وہ تمام مہمانوں پر اسلامی قوانین نافذ کرے گا…… اس سب کے باوجود تم بدکار عورتوں کے رقص و سرود دیکھو گے…… فحش مرد و زن کی رذالتیں دیکھو گے…… فاسقوں کے اشارے اور کنایے دیکھو گے…… اسرائیلیوں کے ساتھ کھیل کے میدان میں ’معمول‘ کے تعلقات دیکھو گے…… پس اٹھ کھڑے ہو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے۔ حکمت اور بہترین نصیحت سے دعوت دو جیساکہ ہمارے پیارے پیغمبر محمد ﷺ نے ہمیں سکھایا ہے۔ اور جان لو کہ جزیرۂ عرب پر یہ شدید یلغار ایک سوچی سمجھی، کھلی اور گھٹیا صلیبی جنگ کا حصہ ہے۔ جس میں مسلمانوں کے آل و اولاد کی حرمتوں کی پامالی ہے اور امت مسلمہ کے مستقبل پر بدترین ڈاکہ زنی ہے۔ یہ مغرب زدگی کے ذرائع میں سے سب سے خطرناک ذریعہ ہے۔ مسلم نسل کو اسلامی گہوارے سے نکال کر رذائل، گمراہی، اباحیت، ہم جنس پرستی اور الحاد کے جہنم میں دھکیلنے اور بھیانک تبدیلی کا بدترین آلہ ہے۔ امت مسلمہ اور جزیرۂ عرب نے اپنی پوری تاریخ میں ایسی یلغار نہیں دیکھی جو اس کی پانچوں ضرورتوں (دین، جان، عقل، مال اور عزت) پر بیک وقت حملہ کرے جیسے کہ ہم دور حاضر میں اپنے ہی رنگ و نسل کے صلیبی آلہ کاروں کے ہاتھوں ہوتا دیکھ رہے ہیں ۔ خصوصاً جب قوم لوط کو جزیرۂ عرب پر چڑھ دوڑنے کی اجازت دے دی گئی اور وہ دنیا کے ہر کونے سے امڈ آئے ۔ آیا ورلڈ کپ اتنی اہمیت کا حامل ہے کہ اسے کعبہ کا سا مقام دیا جائے، جس کی زیارت کے لیے ہر رنگ ونسل کے لوگ کھنچے آئیں تاکہ وہ اٹھائیس دنوں تک اسلامی شعائر کی بے حرمتی کریں اور شریعت کو پامال کریں!! اور آیا ہماری امت اتنی بے وقعت ہو چکی ہے کہ اس کے قیمتی وسائل گنتی کے ان چند دنوں میں اس طرح کے لعب و لہو اور فحش تفریح پر بہا دیے جائیں!! اور افسوس کی بات ہے کہ زائرین ’کپ‘ جزیرۂ محمد ﷺ کو اپنے گھٹیا اخلاق، ادنیٰ تہذیب اور فحاشی و عریانی سے روندیں گے اور یہ سوغاتیں اپنے ساتھ واپس نہیں لے جائیں گے بلکہ ان کثافتوں کو اپنے پیچھے چھوڑ جائیں گے۔ ہماری زمین میں ایسے خراب بیج بوئیں گے جس کے کڑوے پھل آنے والی نسلوں کو چکھنے پڑیں گے۔ ہمارے دین دار معاشروں میں ایسی وبائیں پھیلائیں گے جن کی بدبو اور نجاست پورے ماحول کو آلودہ کر دے گی۔ اور جو آگے آنے والا ہے اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ کیونکہ سفیہ ابن سلمان نے سفیہ تمیم بن حمد سے بازی لے جانے کے لیے اپنے ملک کو اگلے ورلڈ کپ کے لیے نامزد کر دیا ہے لیکن اس دفعہ ’مردوں‘ کے نہیں بلکہ ’خواتین‘ کے ورلڈ کپ کے لیے۔ ان آفتوں سے بچنے کے لیے ہم اللہ کو ہی دہائی دیتے ہیں۔

اس وقت ہر شخص کو اندلسی شاعر ابو البقاء الرندی کا یہ شعر پڑھنا چاہیے (نثری ترجمہ):

کیا خود دار اور باہمت روحیں ختم ہو گئیں؟
کیا بھلائی میں مددگار اور معین مر گئے؟
اس حالت پر دل غم سے پگھل جاتا ہے
اگر دل میں اسلام اور ایمان کی رمق باقی ہو تو!

تو اے امت محمد ﷺ!

قطر میں ہونے والا ورلڈ کپ ۲۰۲۲ وہ تیزاب ہے جس میں جدید مسلم نسل حل ہو جائے گی۔ یہ اذہان کو پراگندہ کرنے ، اخلاق کو تباہ کرنے، کفر و الحاد کی تلقین کا اور اباحیت و فساد کی ترویج کا سر چشمہ ہے۔ پس تمہارا فرض ہے کہ تم اپنے اور اپنے بچوں کے دین کو بچاؤ اور اپنی عمدہ عادات و روایات کی حفاظت کرو۔ یہ خوب سمجھ لو کہ آج جس سے تمہیں اور جزیرہ محمد ﷺ کو واسطہ ہے وہ تباہ کن ’صہیونی صلیبی‘ یلغار ہے۔ اس کا ہدف ہر وہ چیز ہے جس کا تعلق انسان کی فطرتِ سلیمہ سے اور ان پانچ ضروریات سے ہے جن کی حفاظت کے لیے دین اسلام آیا۔ قطر نے جزیرۂ عرب میں ورلڈ کپ کی میزبانی کر کے اور اس پر امت مسلمہ کے وسائل کو نا قابل یقین حد تک لٹا کر امت مسلمہ کے جسم میں صلیبی پنجے کو مضبوطی سے گاڑ دیا ہے۔ اس سرزمین پر صلیبیوں کے لیے خیانت کے مراکز تعمیر کیے ہیں۔ مسلمانوں کے اخلاق تباہ کرنے کے لیے نرسریاں بنائی ہیں۔ صلیبیوں کے سامنے مسلم نسلوں کے عقائد، افکار اور تہذیب پر حملہ کرنے کے لیے دروازے کھول دیے ہیں۔ اسلامی شخصیت مسخ کر کے اور اس کی دینی شناخت ختم کر کے ایسی ذہنیت تشکیل دینے میں مدد کی ہے جس کا دینِ اسلام نا صرف انکار کرتا ہے بلکہ اس کے خلاف لڑتا ہے۔ اس طرح قطر معاصر صلیبی حملوں میں صلیبیوں، ملحدوں اور ہم جنس پرستوں کی حمایت کر کے اس ارتداد کو مستحکم کر رہا ہے جسے حضرت ابو بکر صدیق ﷜ جزیرۂ عرب سے ختم کر چکے تھے۔ قطر اسلام کو اپنے ہی جائے نزول اور قلعے سے ملیامیٹ کر رہا ہے اور مسلمانوں کے دلوں پر اسلام کی گرفت کو کمزور کر رہا ہے۔

لیکن در حقیقت سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ دفاعِ اسلام کی صفِ اول سے بہت سے وہ لوگ بھاگ چکے ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ وہ پیٹھ نہ پھیریں گے…… اور اللہ سے کیے گئے عہد و پیمان کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا۔ وہ علماء اور داعی کہاں ہیں جو دفاعی صفوں میں کھڑے نظر آتے تھے؟ قطر میں منعقد فسق و فجور کی محفلیں اور گناہوں کی رونقیں آج ان سے چند فرلانگ پر ہیں،کیا وہ وقت نہیں آ پہنچا کہ یہ حضرات ذلت آمیز خاموشی سے اپنے آپ کو آزاد کریں اور امت مسلمہ کو اس خطرناک سانحے کے بارے میں خبردار کریں؟ جب انہیں نظر آ رہا ہے کہ فحاشی اور اباحیت کی تند و تیز موجیں جزیرۂ محمد کے اہل اسلام کو طوفانی سمندر میں ڈبونے لگی ہیں تو ان پر لازم ہے کہ وہ اللہ کا تقویٰ اختیار کریں، صدائے حق بلند کریں اور اللہ، اس کی کتاب، اس کے رسول ، حکمرانوں اور مسلم عوام کے ساتھ خیر خواہی برتیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ ذلت و عار کے علم بردار قطری چینل ”الجزیرہ“ پر گرفت کریں جو اپنے صحافیانہ دائرے سے نکل کر فسق و فجور اور فحاشی کے چینلوں سے جا ملا ہے۔ اب وہ فحاشی ، اباحیت ، رقص و عریانی کے بارے میں اغیار کی اقدار کا پرچار کر رہا ہے۔ جبکہ معاملہ اتنا گمبھیر اور اس قدر حاوی ہو چکا ہے تو اہل علم و دعوت کو چاہیے کہ وہ کم از کم دنیا بھر سے آنے والے لوگوں کو دین حق کی دعوت دیں۔ اہل اباحیت اور ہم جنس پرستوں پر انسانی فطرت کے محاسن واضح کریں۔ جزیرہ عرب پر اس یلغار کو دعوت الٰہی کا ایک ذریعہ بنائیں۔ تاکہ اس بلائے عظیم اور فساد عمیم کی شدت میں کچھ کمی آئے جو جزیرۂ محمد ﷺ پر آن پڑا ہے۔ حالانکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ امت کے اہل علم و عوام پر جو واجب فرض ہو چکا ہے اور جسے ادا کرنے کے لیے انہیں کھڑے ہو جانا چاہیے وہ اعلی و ارفع ”فریضۂ جہاد “ ہے۔

اے امت محمد ﷺ!

جان لو کہ تم پر آج فرض جہاد عائد ہو چکا ہے۔ رونا دھونا اور شکایتیں کرنا سر پر منڈلاتے ہوئے خطرے کو روکنے کے لیے کارگر نہیں ۔ تم میں سے جو ہاتھ سے ان کے خلاف جہاد کر سکتا ہے تو ہاتھ سے کرے، ہاتھ سے نہ کر سکے تو زبان سے کر ے اور زبان سے بھی نہ کر سکے تو دل سے کرے، اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ دل سے ان کے خلاف جہاد کرنے کے لیے یہ لازم ہے کہ ان تمام رسومات سے بغض رکھے، چاہے وہ رذیل ’تفریحی موسم‘ ہوں جن کا نشانہ سرزمین حرمین پر بسنے والے مسلمانوں کے اخلاق ہیں یا شرکیہ مندروں اور صلیبی گرجا گھروں کی افتتاحی تقریبات ، یا کفریہ تہواروں کی محفلیں ہوں جن کا نشانہ امارات اور بحرین میں رہنے والے مسلمانوں کے عقائد ہیں، یا قطر میں ہونے والے ورلڈ کپ ۲۰۲۲ کے کھیل تماشے ہوں جو اپنی حقیقت اور انجام کے اعتبار سے ان سب سے زیادہ خطرناک ہیں۔ کیونکہ اس کا نشانہ اہل ایمان کے اخلاق، عقائد، اذہان، عزت و آبرو اور مال و دولت سب کچھ ہے۔ آپ پر لازم ہے کہ آپ اس کا بائیکاٹ کریں۔ لوگوں کو اس کے شر سے خبردار کریں۔ اس کے انجام بد اور جزیرۂ عرب میں آنے والی نسلوں پر اس کے برے اثرات کے بارے میں آگاہی پھیلائیں۔ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں، جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو کہ وہ فرزندان اسلام کو بربادی و تباہی کی طرف لے جائے۔

آخر میں ہم اللہ رب العزت سے گڑگڑا کر سوال کرتے ہیں کہ وہ غلبۂ کفار سے مسلم ممالک اور عوام کو بچائے۔ کافروں کو جزیرۂ عرب سمیت تمام اسلامی ممالک سے نکال باہر کرے۔ یا اللہ! ہم اس اندوہناک مصیبت پر راضی نہیں ہیں۔ ہم اس سے برأت کا اظہار کرتے ہیں اورہمارے دل اس پر غمگین ہیں۔

یا اللہ! کیا ہم نے خبردار کر دیا؟یا اللہ تو گواہ رہنا!

یا اللہ! کیا ہم نے خبردار کر دیا؟یا اللہ تو گواہ رہنا!

یا اللہ! کیا ہم نے خبردار کر دیا؟یا اللہ تو گواہ رہنا!

وما علینا الا البلاغ

والحمد للہ رب العالمین

ربیع الثانی ۱۴۴۴ھ

نومبر ۲۰۲۲ء

٭٭٭٭٭


1 جاہلیت کے دور میں طوائفیں اپنے گھروں پر سرخ جھنڈے لہراتی تھیں۔

2 دورِ تفریح۔

3 زیب و زینت کی نمائش۔

4 یعنی کہ تینوں آسمانی ادیان؛ یہودیت، عیسائیت اور اسلام کی وحدت۔ والعیاذ باللہ۔

Exit mobile version