جن سے وعدہ ہے مرکر بھی جو نہ مریں!

تنویر الاسلام (عبدالسلام) شہید

تنویر الاسلام (عبدالسلام) شہید

ابھی ارض خراسان پہنچے بمشکل ایک مہینہ ہی ہوا تھا کہ شیخ ازمرے کے ساتھ شمالی سے جنوبی وزیرستان کا ایک سفر در پیش ہوا۔ چھ گھنٹے سفر کے بعد رات کی تاریکی میں منزل پہ پہنچے اور شیخ کی امامت میں مغرب اور عشاء کی نماز ادا کی۔ بعد ازنماز شیخ یہ کہہ کر چلے گئے کہ آپ لوگ یہیں رکیں میں صبح آؤں گا۔ صبح شیخ صاحب خود تو نہ آسکے البتہ طاہر شہید آئے کہ نئے ساتھیوں کو دوسرے مرکز منتقل کرنا ہے۔ ساتھیوں کو لے کر دوسرے مرکز پہنچے اور دروازے پہ دستک دی۔ دروازہ کھلتے ہی سامنے ایک جانے پہچانے نورانی چہرے پہ نظر پڑی، انتہائی گرم جوشی سے ملتے ہوئے گویا ہوئے: آپ کا تعارف؟ پہلے تو ایک جھٹکا لگا کہ یہ کیا بات ہوئی؟ اچھی طرح جانتے بھی ہیں پھر بھی تعارف پوچھتے ہیں؟ مگر فوراً ہی چھٹی حس جاگ اٹھی کہ موصوف جہادی نام جاننا چاہ رہے ہیں۔ تنویر الاسلام بھائی سے جان پہچان تو کئی برسوں سے تھی مگر ارض جہاد و رباط میں یہ ہماری پہلی ملاقات تھی۔

افق کی سرخ قبا سے سراغ ملتا ہے
تمہارا خون ستاروں پہ جگمگائے گا
تمہارے بعد کہاں یہ ہنگامے
کوئی کہاں سے تمہارا جواب لائے گا

درمیانے قد، سانولی رنگت، سیاہ چمک دار آنکھوں، سنت نبوی سے مزین چہرے، اور صحت مند جسم کے مالک تنویر الاسلام بھائی کا تعلق شہر کراچی کی ایک آفریدی فیملی سے تھا ۔ ایمانی غیرت و حمیت بچپن ہی سے آپ کے رگ و پے میں موجزن تھی ۔ آپ نے جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھا تو اپنے اردگرد جمہوریت کے پیدا کردہ قومیت و عصبیت کے بے شمار بتوں کو منہ کھولے، بانہیں پھیلائے دیکھا جو معاشرے میں پھیلے فتنہ وفساد کی بنیاد تھے، جس نے بھائی کو بھائی سے لڑایا، جس نے مسلم معاشرے میں تفرقہ پیدا کیا، جس نے اسلامی و ملی وحدت کو پارہ پارہ کیا، جس نے معاشرے کے مسلم نوجوان کو لادینیت کے گڑھے میں دھکیل دیا …… تنویر بھائی ان سب بتوں سے بےزار، واحد رب کعبہ کی عبادت کرنے والے، اسی کے لیے جدوجہد کرنے والے، اسی وحدہ لاشریک کے کلمے کو اونچا کرنے والے تھے ۔

وہ اس نظام بدی کے خلاف جدو جہد کرنے والی ایک طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہو گئے جس کا نصب العین اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق انسانی زندگی کی تعمیر تھا۔ جس کے کارکن نوجوانوں کو بے راہ روی سے روکتے، عصبیت کی جاہلیت میں مبتلا نوجوانوں کو راہِ راست پہ لانے اور نوجوانوں میں دین کا شعور پیدا کرنے کی کوشش کرتے۔ تنویر بھائی کم وبیش سات سال ان کے ساتھ مل کر دعوت دین کے کام میں منہمک رہے۔ اس دوران آپ کو قومیت اور لسانیت کے علم بردار گروہ ایم کیو ایم کی جانب سے ہراساں کرنے کی کوشش بھی کی جاتی رہی ۔ بعد ازاں ۲۰۰۴ء میں اسی گروہ کے غنڈوں کی جانب سے پرتشدد کارروائی کے نتیجے میں کمر پہ گولی لگنے سے زخمی بھی ہوئے۔

کشمیر و فلسطین میں مسلم امت کو زندہ درگور کیے جانے والے مظالم ہوں یا افغانستان و عراق میں کفار کی دل دہلادینے والی وحشیانہ بمباریاں، یمن و شیشان میں بہتا لہو ہو ، یا پاکستان میں امریکی غلاموں کے ہاتھوں شہید ہونے والے علمائے دین، طلباء کرام و مدارس و مساجد…… غرض تنویر بھائی امت مسلمہ پہ ڈھائے جانے والے مظالم پہ دل گرفتہ رہتے، وہ کفر کے ظلم واستبداد سے امت کو نجات دلانا چاہتے تھے۔اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ وہ تو محمد بن قاسم کے جانشین تھے۔ وہ محمد بن قاسم کہ جس نے راجہ داہر کی قید میں ایک بہن کی فریاد پہ لشکر کشی کی اور ناصرف اپنی مظلوم بہن کو ظالموں کی قید سے رہائی دلائی بلکہ پورے سندھ میں اسلام کا بول بالا کیا۔ فاتح سندھ محمد بن قاسم آپ کے آئیڈیل تھے۔ آپ ان کے کردار و عمل سے اس قدر متاثر تھےاور اس کثرت سے اس کا ذکر کرتے کہ جمعیت کے ساتھیوں میں آپ کا نام محمد بن قاسم پڑگیا ۔

آپ کے اس دینی جماعت سے وابستہ ہونے کی ایک بڑی وجہ آپ کا جہادی جذبہ اور اس جماعت کے کارکنان کی جہاد کشمیر اور جہاد افغانستان میں شرکت تھی۔ مگر حکومت و آئی ایس آئی کی پالیسیوں میں تبدیلی کے ساتھ ہی پاکستان میں موجود تمام دینی جماعتوں پر بھی عتاب اترا۔تنویر بھائی چاہتے تھے کہ جہاد کا کوئی ایسا منہج ملے جس میں طاغوت کی عمل داری نہ ہو، جو منافقین کی مداخلت سے پاک ہو اورجس کا منبع قرآن و سنت ہو۔ ۲۰۰۷ء میں پاکستان میں شریعت یا شہادت کی صدا بلند ہوئی تو گم نام راہوں کے بہت سے مسافروں کو نشان راہ مل گیا ۔

بہترین اخلاق، جذبۂ قربانی وایثار، ہمت و شجاعت، صبر و استقامت رکھنے والے شگفتہ مزاج تنویر بھائی کردار و عمل کا بہترین نمونہ تھے۔ چہرے پہ یوں سنجیدگی طاری ہوتی گویا ہنسی مذاق سے نا واقف ہوں، مگر جب ساتھیوں کی محفل لگتی تو خود ہنستے بھی اور ساتھیوں کو ہنساتے بھی خوب۔ چھوٹوں پہ شفقت اور بڑوں کا ادب کرنا ان کی نمایاں صفت تھی۔ اپنے کام خود اپنے ہاتھ سے کرنے والے، نیکیوں میں سبقت لے جانے والے اور خدمت کے کاموں میں آگے بڑھنے والے تھے۔ راقم کو کم و بیش چار ماہ تنویر الاسلام بھائی کے ساتھ محاذوں پہ رہنے کا موقع ملا۔ جہنم کا خوف اور جنت کی تڑپ ہر وقت دامن گیر رہتی۔ اسی جنت کے حصول کےلیے آپ ہر وقت تعلق با للہ کی مضبوطی کی فکر میں غلطاں رہتے۔ مثالی طبیعت کے مالک تنویر بھائی نے اپنے روز وشب کے معمولات طے کر رکھے تھے۔ کثرت تلاوت قرآن پاک اور نوافل کا خوب اہتمام کرتے ـ حتی الامکان کوشش کرتے کہ کچھ بھی ہو ان کی اس روٹین میں خلل نہ آئے، دن بھر کے ترصد اورکارروائیوں کے بعد آپ کو اکثر نیم شب میں اپنے رب سے محو کلام، آہ وزاری کرتے ہوئے پایا ۔

ہماری تدریب ختم ہوئے چند ہی دن ہوئے تھے کہ ایک دن استاد جی نے تنویر بھائی سے، جو کہ استاد محترم کے معاون تھے، کہا کہ راقم اور آپ رخہ کے محاذ پہ موجود مرکز جائیں اور وہاں سے راکٹ لانچر لے آئیں۔ ہمارے مرکز سے رخہ کا راستہ ڈیڑھ گھنٹے سے کچھ زیادہ تھا۔یہ راستہ انتہائی دشوار تھا کیونکہ مرکز بلند و بالا پہاڑوں کے درمیان ایک درے میں تھا ۔ عصر سے کچھ پہلے سفر شروع کیا اور مغرب کے وقت ہم مرکز پہنچے، رات وہاں گزاری، صبح راکٹ لانچر لیا اور واپسی کی راہ لی۔ واپسی کے راستے میں تنویر بھائی سے موٹر سائیکل لڑکھڑائی تو ان کا پاؤں زمین میں دھنسے پتھر سے اس زور سے لگا کہ پتھرزمین سےاکھڑ کر ان کے پاؤں کے ساتھ رگڑ تا ہوا تقریباً ایک میڑ تک آگے چلاگیا۔ اس شدید چوٹ پہ میں نےتنویر بھائی کے منہ سے آہ تک کی آوازنہیں سنی بلکہ جب ٹھوکر لگی تو ان کے منہ سے بے اختیار بسم اللہ، یااللہ خیر کی صدا بلند ہوئی۔ مرکز پہنچ کر میں نے ان سے کہا کہ ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں تو وہ کہنے لگے کہ شہد سے علاج سنت ہے اور میرے پاس اصلی شہد ہے، میں اس زخم پہ شہد لگاؤں گا تو یہ جلد ہی ٹھیک ہو جائے گا۔ پاؤں کے اس شدید زخم کے باوجود آپ کے معمولات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ تلاوت، اذکار، نوافل، تہجد، مجاہدین کی خدمت کے ساتھ ساتھ حربی امور کی پابندی بھی کرتے رہے۔

یہ ان ہی دنوں کی بات ہے جب تنویر بھائی کا پاؤں زخمی تھا اور نئے ساتھیوں کی تدریب چل رہی تھی، تنویر بھائی کا خیمہ ایک پہاڑ کی چوٹی پہ تھا جہاں ان کے ساتھ کچھ نئے ساتھی بھی تھے جبکہ راقم باورچی خانے کے امور کا مسئول تھا۔ تنویر بھائی ہر روز خود ہی پہاڑ سے اتر کر کھانا لینے آتے۔ ایک دن میں نے کہا، بھائی! آپ کا پاؤں زخمی ہے تو آپ نئے ساتھیوں میں سے کسی کو کھانا لینے کے لیے بھیج دیا کریں ۔وہ بولے ،بھائی! یہ تو چھوٹا سا زخم ہے، مجاہد کو ان چھوٹے موٹے زخموں سے نہیں گھبرانا چاہیے، اس تکلیف میں اجر بھی ہے اور گناہوں کی مغفرت بھی، اور ویسے بھی نئے ساتھی ٹریننگ کے سبب دن بھر کے رگڑے کے بعد تھکے ہارے ہوتے ہیں تو انہیں تکلیف دینا مناسب نہیں ۔

حضرت عمرو بن عبسہؓ سے روایت ہے کہ نبیٔ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے اللہ کے راستے میں ایک تیر مارا وہ تیر دشمن تک پہنچا یا نہیں پہنچا تو اسے ایک غلام آزاد کرنے کا اجر ملے گا اور اس غلام کا ہر عضو اس کے ہر عضو کو جہنم سے بچانے کا ذریعہ ہوگا ۔ (نسائی باسناد صحیح)

نبیٔ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چھوٹی چھوٹی سنتوں پہ عمل پیرا رہنے والے تنویر بھائی بڑے اسلحے، ہاون (مارٹر) ، بی ایم (زمین سے زمین پر مار کرنے والا راکٹ) اور ہشتاددو (۸۲ ملی میٹر قطر والی توپ)میں خوب مہارت رکھتے تھے۔ وہ اکثر کارروائیوں کی ترتیبات بنانے میں مصروف رہتے۔ کبھی گھنٹوں پیدل سفر کر کے ترصد (ریکی) کے لیے جاتے تو کبھی امیر صاحب کے کہنے پہ برادر مجموعات کے ساتھ مل کر مشترکہ کارروائیوں کو ترتیب دینے میں مگن رہتے۔کبھی خود اپنے ہی ایک دو ساتھیوں کو ساتھ لے کر دشمنان دین پہ تیر (میزائل) برسانے چلے جاتے۔ تنویر بھائی دشمنان اسلام کے خلاف کم و بیش ستّر کارروائیوں میں شریک رہے؛ اللہ پاک آپ کی ہر سعی قبول فرمائیں، آمین۔

یہ ۱۲ اگست ۲۰۰۸ء بمطابق ۱۰شعبان ۱۴۲۹ ہجری منگل کا دن ہے۔ ڈرون طیاروں کی پروازیں مستقل جاری ہیں۔ کبھی یہ آوازیں قریب اور کبھی دور ہوتی سنائی دیتی ہیں۔ یہ آوازیں کسی نئی مصیبت و آزمائش کا پتا دے رہی ہیں۔ یہاں انگور اڈہ میں مجاہدین کے کئی مراکز موجود ہیں، کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ یہ نئی آزمائش کس پہ آنے والی ہے، کون سی پاکیزہ روحیں آج اللہ کی مہمان بننے والی ہیں، وہ کون سے رخشندہ چہرے ہیں جو آج اپنے رب سے ملنے والے ہیں، وہ کون خوش نصیب ہیں جو آج سید الشہداء سیدنا حمزہؓ بن عبد المطلب کے لشکر میں شامل ہونے والے ہیں، یہ کون قابل رشک لوگ ہیں جن کی برسوں سے مچلنے والی تمنا آج رب کعبہ پوری کرنے والے ہیں، یہ کون ہیں جن کا پاکیزہ لہو آج ستاروں پہ جگما نے کو ہے…… کسی کو کچھ معلوم نہ تھا آج کس کی باری ہے۔ دن عافیت سے گزرا مغرب کا وقت ہوا مومنانِ باوقار اپنے رب کے سامنے کھڑے ہوئے، نماز باجماعت کا اہتمام ہوا، سترہ سالہ حافظ عبدالرحمن شہید (راجہ محمد حمزہ برادرِ اصغر استاد احمد فاروق شہید) امامت کروا رہے ہیں، ان آیات کی تلاوت کی جارہی ہے:

وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِى سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوٰتًا بَلْ أَحْيَآءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُون۝ فَرِحِينَ بِمَآ ءَاتٰىهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِۦ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِم مِّنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ۝ (سُورة آل عمران :۱۶۹، ۱۷۰)

’’ جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید کیے گئے ہیں انہیں ہرگز مردہ مت کہو، وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے ہاں (پاکیزہ) رزق دیے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں جو اپنا فضل دے رکھا ہے وہ اس سے بہت خوش ہیں اور خوشیاں منارہے ہیں ان لوگوں کی بابت جو اب تک ان سے نہیں ملے، ان کے پیچھے ہیں، اس پر کہ نہ ہی انہیں کوئی خوف ہے نہ ہی وہ غمگین ہوں گے ۔‘‘

نماز ختم ہوئی۔ کچھ مصروف دعا و اذکار ہیں کچھ سنتوں میں مصروف ہیں۔ طیارے اچانک سے نیچی پرواز پہ آتے ہیں اور ایک آواز فضاء میں گونجتی ہے جلدی سے مجاہدین مرکز نکل کر……مختلف سمتوں میں پھیل جاتے ہیں تنویر الاسلام بھائی اور حافظ عبدالرحمن ایک سمت بھاگتے ہیں مگر اس طرف قریب میں کوئی اوٹ نہیں یہ دونوں بھائی قریب ہی موجود کھنڈرات کی ایک دیوار کے ساتھ لگ جاتے ہیں۔ فضاء میں موجود طیارہ ایک اور میزائل فائر کرتا ہے، اس کا ہدف اس مرتبہ تنویر الاسلام اور عبدالرحمن بھائی ہوتے ہیں۔ میزائل پھٹتے ہی دونوں رب کے پیارے سوئے بہشت روانہ ہو جاتے ہیں۔( نحسبہ کذالک واللّٰه حسیبہ ولا نزکی احداً)

اللہ پاک آپ دونوں سمیت امت کے ہر ہر شہید کی شہادت کو قبول فرمائیں اور امت مسلمہ کو غموں سے نجات دلائیں ہمیں بھی اپنے راستے کی مقبول شہادت عطا فرمائیں، آمین!

٭٭٭٭٭

Exit mobile version