تیغوں کے سائے میں ’یہ‘ پل کر جواں ہوئے ہیں…… | دوسرا حصہ

گو کہ ساری عطا اللہ کی ہے، سارا جہاں ہے جس کا وہ جب چاہے بہتے دھاروں کا رخ موڑ دے، اندھیرے کو اجالے سے اور اجالے کو اندھیرے سے بدل دے، ہر نفع و نقصان اسی کے ہاتھ میں ہے، لیکن ہر حال میں وہ مومن کو صابر یا شاکر کی حالت میں ہی دیکھنا چاہتا ہے اور بدلے میں ان کے لیے جنت ہے۔ جنت مشکلات سے گھیری گئی ہے اور محمد بھی اب مزید طوفانوں میں گھر گیا ہے۔ صرف چھ ماہ کے بعدہی حالات پھر سے کیسے پلٹ گئے۔ ابّا کی شہادت کے بعد گھر چھوڑ کر انصار کے گھر کچھ دن ٹھہرے، جہاں سے پیارے ابّا کی قبر بہت قریب تھی۔ وہ کھڑکی سے اکثر میرے ساتھ ادھر ہی جھانکتا، اماں سے بس چپکے چپکے ان کی ہی باتیں سنتا اور انہی اوقات میں ابا کی شہادت کے ساتھ ہی روٹھی اس کی مسکراہٹ لمحہ بھر کے لیے اس کے چہرے کو رونق بخش دیتی۔ ڈرون تقریباً سارا وقت ہی سر پر ہوتا، مگر اسے اس سے ڈر نہیں لگ رہا ہوتا تھا۔ شاید سب سے قیمتی متاعِ حیات اس سے چھن گئی تو اب اسے اس کا خوف نہیں رہا تھا۔ اچانک ایک روز موسم بہت ہی خراب ہوگیا اور اسی رات ہمارا سفر پھر شروع ہو گیا۔ نصف ماہ ہم رک رک کر اسی طرح سفر کرتے رہے اور بالآخر وہ اماں کے ساتھ اپنی خالہ، خالو اور مریم کے پاس پہنچا۔ اسے یہ تبدیلیٔ جگہ کچھ بہتر لگی۔ سب کے ساتھ کسی حد تک وہ کچھ کچھ بہل ہی گیا۔ عمومی طور پر وہ سب کی توجہ کا مرکز ہی رہا، مگر زندگی کی پہلی اور شدید آزمائش کی شدت کا رنگ اس پر چڑھا ہی رہا۔

وہ سنبھلنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ اسی دوران رمضان آگیا اور پھر عید۔ سب ہی اسے بہت بہلاتے رہے، لیکن وہ اپنی خاموش نگاہوں سے شاید گزشتہ عیدوں کی یاد میں گم رہا، جیسے اب اس کی ہر خوشی پھیکی پھیکی سی ہو گئی۔ خالو نے گو اس کی پگڑی باندھی ، کلاشن دلوائی، سیر کو لے کر گئے، لیکن شلوار قمیض اور واسکٹ میں تیار محمد کو تو ابّا ہی نے یاد آنا تھا۔ اسے تو وہ تیار کیا کرتے تھے اور وہ ان کے ساتھ خوش خوش سب سے آ کر عید ملتا تھا۔ ’’پتا نہیں منے جان تم اب ایسی عیدیں کیسے گزارا کروگے؟‘‘ نانو سوچ رہی تھیں اور اماں چھپ کر اپنے آنسو خشک کرتی جا رہی تھیں کہ کہیں محمد نہ دیکھ لے۔ شکر ہے یہ پھیکی پھیکی سی عید گزر ہی گئی۔ وقت تو گزرنے کے لیے ہے سو وہ گزرتا رہا اور اب تقریباً ۶ ماہ ہونے کو تھے۔ مریم کے دوبارہ سے مل جانے سے بہل تو وہ ضرور گیا تھا مگر تقدیر کا لکھا تو پورا ہوکر رہتا ہے۔ مفہومِ حدیث ہے کہ دنیا بنانے سے پچاس ہزار سال پہلے سے اللہ تعالیٰ نے ہر کسی کی تقدیر لکھ رکھی ہے۔سو تقدیر میں ایک اور ہلا مارنے والا یہ طوفان بھی لکھا تھا۔

ایک شب کھانے کے بعد ابھی ہم بیٹھے ہی تھے کہ اچانک فضا میں شدید ہلچل مچی، ہیلی کاپٹرز اور جہازوں کے اڑنے کا شدید شور اٹھا، فائرنگ کی آوازیں بھی آنی شروع ہو گئیں۔ ارے یہ کیا ہے؟ شور کیسا ہے؟ ’’چھاپہ ہے چھاپہ باجی‘‘۔

سب کے ہوش ہی اڑ گئے۔ ساتھ والے گھر میں گولیوں کی بوچھاڑ کے بیش کمرے سے صحن میں نکلتے بھائی نشانہ بنائے گئے اور وہ اپنی کلاشن سمیت فرش پر جان جانِ آفرین کے سپرد کر کے اپنے شہید بھائیوں سے جا ملے۔ خالو صحن کی دیوار سے انہی سے بات کر رہے تھے کہ فضا میں شور بلند ہوا ، وہ جھکے جھکے ہی اندر کمرے میں داخل ہوئے، لائٹ بند کروائی، دروازے کی آڑ سے باہر فائرنگ کی جو امریکیوں کے سپیشل فورس والے کو لگی اور وہ غیض و غضب کی حالت میں کمرے میں داخل ہوا۔ مگر اس سے پہلے ہی ہمارا جانباز شیر فدائی کر چکا تھا اور اب اپنے کمرے کے فرش پر انتہائی پرسکون لیٹا تھا ۔ دشمن تو دانت پیس کر ہی رہ گیا کہ ہم نے اسے مارنا نہیں تھا (زندہ گرفتارکرنا تھا)۔ دوسرے کمرے میں ہم خواتین اور بچے تھے۔ لمحوں بعد ہی پارچے لگنے شروع ہوئے (الحمدللہ) حسب مقدر۔ ہمارا خون بہہ بہہ کر بچوں پر گرتے رہے پھر فرش پر، کیونکہ بچوں کو ہم سب نے اپنے نیچے کر لیا تھا۔ بعد میں ہمیں فوجی باہر صحن میں لے آئے اور ذرا سی دیر میں وہ بچوں کو تن تنہا چھوڑ کر …… خواتین کو لے گئے۔

پیچھے محمد، مریم اور ۷ ماہ کا عبد الرحمٰن رہ گئے…

محمد کو ایک فوجی گود میں جکڑ کر باہر لے گیا۔ محمد اس کی گرفت سے آزاد ہونے کے لیے اسے ٹھوکریں مار رہا تھا، کبھی تھپڑ اور چیخ رہا تھا، ’’چھوڑ دو میری اماں کو! چھوڑ دو! ورنہ مجھے بھی لے جاؤ‘‘۔ اور دور جاتی ہوئی اماں کے کانوں میں اپنے بیٹے کی چیخ و پکار سنائی دے رہی تھی……

تھوڑی ہی دیر میں ہیلی کاپٹر اڑ گئے۔ بچے انصار کے پاس رہ گئے۔ بچوں کے ہوش تو اڑے ہوئے ہی تھے ساتھ وہ زخمی بھی تھے۔ مریم کافی حد تک بچ گئی تھی الحمدللہ مگر محمد کی ٹانگوں میں کئی جگہ پارچے لگے تھے۔ صبح صبح ہی بچے ہسپتال پہنچا دیے گئے۔ رات گزارنے وہ کسی کے گھر لائے جاتے اور سارا دن ہسپتال میں گزارتے۔ محمد سہارے کے بغیر قدم نہیں اٹھا سکتا تھا۔ کوئی نہ کوئی طالب ان کے قریب ہوتا۔ پانچ پانچ ڈرون سر پہ ہوتے۔ شروع میں زیادہ خوفزدہ ہوتے تھے پھر دھیرے دھیرے خوف کم ہوتا گیا۔ بچوں کا زیادہ وقت مقامی انصار کے یہاں گزرا جنہوں نے بہت لاڈ اور خصوصی توجہ اور محبت سے رکھا، یوں یہ خاصے پرسکون رہے۔ ’’اماں تو یاد آتی تھیں، اور انتظار بھی رہتا تھا کہ اماں کب آئیں گی مگر ابا کا تو مجھے پتہ ہے نا نانو، وہ تو آ نہیں سکتے۔ ان سے ملنے تو اب مجھے ہی جانا ہے۔‘‘ محمد بولا۔ ’’نانو! غصہ بہت آتا تھا، جب ڈرون کی آواز سنتا۔ ہم سارے بچے خوب بد دعائیں دیتے تھے اسے، اور اپنی (لکڑی کی) کلاشن سے تو میں اس کا نشانہ بھی لیتا تھا‘‘۔

’’توڑ کے اپنے کھلونے اب بندوق بنا لی ہے‘‘، وہ ترانے کے بول دہرا رہا تھا۔

میں نے پوچھا، ’’تم لوگ انتظار کرتے تھے اماں کا؟‘‘ مریم اور محمد دونوں لمبی سی ہاں کے بعد بولے ’’ بہت! اور ہم دعائیں بھی کرتے تھے، مگر ہمارے ساتھ جو طیب بھائی اور آپی تھیں نا وہ آپی رات کو زیادہ تر روتی تھیں، اپنی اماں کو یاد کر کے اور طیب بھائی دعاؤں میں رو دیتے تھے‘‘؛ پھر… تم بھی رو دیتے تھے نا؟ ’’ہاں!‘‘۔ ’’مجھے تو اکیلے سونا اچھا نہیں لگتا ، میں تو اماں کو پیار کر کے ان کے گلے میں بازو ڈال کر سوتی تھی‘‘، اب کے مریم بولی۔ اور محمد تم؟ ’’میں تو اماں سے کہانی سنے بغیر سوتا ہی نہیں تھا اور چمٹ کر بھی۔ پھر آپی ہم لوگوں کو کہانی سناتی تھیں۔ وہاں اور بچے بھی تھے جن کے بابا شہید اور اماں گرفتار تھیں‘‘۔

بدنصیبوں، ظالموں نے کتنی کتنی بد دعائیں لیں معصوموں کی اور لیتے ہی رہیں گے۔ مرنے سے پہلے بھی تم مر مر کر جیو گے، کبھی موت چاہو گے توتمہیں موت نہیں ملے گی۔ معصوموں کے آنسو تمہیں چین سے جینے بھی نہیں دیں گے۔

دیکھنا یہ معصوم بچے تمہارا، تمہاری نسلوں کا جینا حرام کر دیں گے۔ ان کے دل انتقام کی آگ میں سلگ رہے ہیں۔ تمہارے پرخچے اڑا دیں گے ان شاء اللہ اور تم بری طرح بے بس ہو گے۔ تمہارے سیکڑوں ساتھی واپس اپنے وطن پہنچ کر پاگل ہو گئے نا، اپنوں کو ہی مارنے کھڑے ہو گئے ۔ ان یتیموں کی آہیں تمہارا چین چھین چکی ہیں۔

’’ آپی بتا رہی تھی کہ امریکی و ملّی فوج والے ہمیں ایک کمرے میں بند کرکے باہر سے کنڈی لگا کر چلے گئے تو ہم سب مل کر رونے لگے، چھاپے کی واپسی کے بعد کسی نے آ کر کنڈی کھولی اور کہا کہ ہماری مسجد میں کوئی شہید ہے مگر پتہ نہیں کون ہے؟ باقی بچوں کے ساتھ آپی بھی مسجد میں گئی اور اپنے بابا کو خون میں نہائے خاموش لیٹے دیکھتے ہی ان سے لپٹ گئی۔ ’یہ تو میرے بابا ہیں، آپ ہمیں چھوڑ کر چلے گئے‘، وہ دیر تک روتی رہی…‘‘

ان کے آنسو تمہیں بہت مہنگے پڑیں گے۔ تمہارے گھر بھی ضرور اجڑیں گے، بچے یتیم بے گھر اور دربدر ہوں گے۔ تم ابوجہل بن گئے ہو تو ضرور ہمارے یہ معاذ و معوذ تم سب کے خون کے پیاسے بنیں گے۔ اللہ تمہیں ہاتھی والوں کی طرح بھس بنا دیں۔ آمین

یاد رکھو ہم اللہ تعالیٰ کے لشکر کے سپاہی ہیں اور یہی لشکر غالب رہے گا۔ یہ مغلوب ہونے کے لیے بھیجا ہی نہیں گیا ہے۔ جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے، مگر تم تو سفید ہاتھی ہو اور ہاتھی کی موت کے لیے ایک ننھی سی چیونٹی ہی کافی ہوتی ہے!

ہمارے یہ معاذ و معوذ تمہارے لیے ان شاء اللہ ابابیلیں ثابت ہوں گے اور تمہیں ہاتھی والوں کی طرح بھس بنا دیں گے۔ یہ محاذوں پہ ہی نہیں تمہارے خوابوں میں بھی آکر تمہیں ڈرائیں گے اور تمہارا جینا مرنا سونا جاگنا یہ محال کر دیں گے ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ تم دیکھنا یہ سیل رواں کی طرح تمہیں غرق کرنے کو تمہاری طرف بڑھیں گے اور تم بے بس ہوگے ۔ یہی تمہارا مقدر دنیا میں ہے اور آخرت میں تو بھڑکتی آگ تمہارا انتظار کرہی رہی ہے۔ وہاں یہ معاذ اور معوذ ہنسیں گے تم پر جب تم پر اللہ کے عذاب کے فرشتے کوڑے برسائیں گے۔

میرا محمد ، مریم، بلال، طیب، موسیٰ، عبد اللہ اور آپی سب تمہارے خون کے پیاسے ہیں۔ وہ روز حشر اپنے ہاتھوں سے تمہیں قتل کرنے کی درخواست اپنے رب سے کریں گے۔ رب تعالیٰ ان شاء اللہ تمہیں پیش کریں گے کہ لو اپنے اپنے بابا کے قاتلوں کو ذبح کرو۔ رب تو ان کا ہو گا ، کیا تمہارا شیطان اور دجال تمہیں رب کی پکڑ سے بچا لے گا؟ اور میں بھی رب سے فریاد کروں گی کہ انہیں میرے ہاتھ میں دیں ہاں انہی ہاتھوں میں جن ہاتھوں میں تم نے ہمیں اللہ کے حواری ہونے کی وجہ سے ہتھکڑیاں پہنائی تھیں۔ دیکھنا اس دن میں شیرنی بن کر تم پہ جھپٹ پڑوں گی، تمہاری آنکھیں پھوڑ دوں گی، گردن مروڑ دوں گی……تمہارے ہاتھ کاٹ دوں گی۔

مجھے بھی تو اپنے لختِ جگر، دل کے ٹکڑوں کا حساب لینا ہے۔ بدلہ چکانا ہے۔ تم نے ماؤں کو للکارا ہے، ہماری بددعاؤں سے کیسے بچو گے؟ کہاں چھپو گے؟ ہم مائیں تمہارا جینا حرام کردیں گی ان شاء اللہ۔ تم ہمارے لہو میں رب کی محبت پاؤ گے۔ اس محبت اور وفا کی چمک سے سارے اندھیرے دور ہو جائیں گے۔ تم اندھیرے میں رہتے ہو یہی تمہارا مقدر ہے۔ تمہاری دنیا و آخرت دونوں تاریک اور ہم ان شاء اللہ نور ہی نور ہوں گے۔

Exit mobile version