لال قلعے سے لال قلعے تک……

 ۱۴۹۲ء میں اندلس کی آخری اسلامی سلطنت کا شاہی لال قلعہ ’القعلۃ الحمراء‘ عیسائیوں کے ہاتھ چلا گیا اور ۱۹۴۷ء میں ہند کی سلطنت کا شاہی لال قلعہ ’قلعۂ مبارک‘بالآخر ہندوؤں کے ہاتھ چلا گیا۔ آیا جیسے اندلس میں مسلمانوں کا مکمل صفایا ہوا، اب خاکم بدہن ہند میں بھی ہونے جا رہا ہے؟؟

تمہید

۱۴۹۲ء میں جزیرہ نما آئیبریا ( جسے مسلمان اندلس کے نام سے جانتے ہیں اور آج کل ہسپانویہ کے نام سے مشہور ہے)کی آخری اسلامی مملکت غرناطہ کے بادشاہ ابو عبد اللہ محمد الصغیر نے اپنا ملک عیسائیوں کے بادشاہ فرڈیننڈ اور ملکہ اِزابیلا کو تسلیم کر دیا اور خود شمالی افریقہ میں جلا وطنی اختیار کر لی۔ تسلیم کرنے کا یہ افسوس ناک واقعہ غرناطہ شہر کے شاہی قلعے (القلعۃ الحمراء) یعنی کہ لال قلعے میں ہوا، جس پر صلیب والے عیسائی جھنڈے بلند ہوئے۔

عالم اسلام کے دوسری طرف جزیرہ نما ہند (برِّ صغیر) کے شہر دہلی میں واقع مغلیہ سلطنت کے شاہی (لال) قلعے سے آخری اسلامی مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے بعد گرفتار ہوا اور اس پر اپنے ہی قلعہ میں مقدمہ چلایا گیا اور ’بغاوت‘ کی سزا پر ہند سے جلا وطن کر دیا گیا ۔ لال قلعے پر برطانوی صلیبی پرچم لہرانے لگا۔ برطانوی راج کا خاتمہ تقسیمِ ہند پر منتج ہوا اور لال قلعہ انڈیا کی ہندو ریاست کے حصے میں چلا گیا ۔ بالآخر ۱۵ اگست ۱۹۴۷ء کو اس پر برطانیہ کے صلیبی پرچم کے بجائے انڈیا کا ترنگا لہرانے لگا جس کے وسط میں بت پرستی کی علامت ’اشوکا چکرا‘ موجود ہے۔

۱۰۱۳ء میں اندلس کی اموی خلافت کے خاتمے کے بعد اندلس ۳۰ سے زیادہ مملکتوں میں تقسیم ہو گیا۔ مسلمانوں کی قوت نہ صرف منقسم ہوئی بلکہ آپس میں دست و گریبان بھی، جبکہ ان کے مقابلے میں ہسپانوی عیسائی متحد ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ مسلم مملکتیں ایک دوسرے کے خلاف لڑنے کے لیے عیسائی مملکتوں سے مدد لینے لگیں اور ہر دفعہ لڑائی کے بعد مسلم مملکتیں سکڑتی جاتیں جبکہ عیسائی مملکتیں پھیلتی رہیں۔ مسلمانوں کے خلاف عیسائیوں کی سب سے پہلی بڑی کامیابی ۱۰۸۵ء میں شہر طلیطلہ کے سقوط کی شکل میں نظر آئی، جس کے بعد مسلمانوں کی ناکامیوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا ۔یہاں تک کہ ۱۴۹۲ ء میں مسلمانوں کی آخری مملکت ’غرناطہ‘ بھی ختم ہو گئی۔ سیاسی اقتدار کا خاتمہ محض لڑائی سے نہیں ہوا بلکہ ہسپانویہ پر عیسائیوں کے قبضۂ نو کے ساتھ ہی مسلمانوں کا فکری اور معاشرتی زوال بھی جاری تھا جو بالآخر ان کے تبدیلئ مذہب، جلا وطنی اور نسل کشی پر منتج ہوا۔ یہاں تک کہ ۱۶۱۴ء میں ہسپانویہ کے عیسائی بادشاہ نے جلا وطنی کی مہم ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے جزیرہ آئیبریا کو تمام مسلمانوں سے ’پاک‘ قرار دے دیا۔

اس کے مقابلے میں ہند میں مسلمانوں کے تبدیلئ مذہب ، جلا وطنی اور نسل کشی کے بجائے ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی میں شکست کے بعد مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے انگریزوں کی فکری غلامی اور ۱۹۱۹ء میں تحریکَ خلافت کی ناکامی کے بعد ہندوؤں کی فکری غلامی اختیار کر لی۔ یہاں تک کہ ۲۰۱۴ء میں وسطی ہند ’انڈیا‘ میں انتہا پسند ہندوؤں کے اقتدار میں آنے سے اور مشرقی ہند ’بنگلہ دیش‘اور مغربی ہند ’پاکستان‘ کے باہمی اختلافات اور مذہبی بے حسی سے اب ہند میں بھی اندلس کی طرح تبدیلئ مذہب ، جلا وطنی اور نسل کشی کی تحریک نظر آنا شروع ہو گئی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جزیرہ نما ہند میں اب وہ عمل شروع ہو چکا ہے جو صدیوں پہلے جزیرہ نما اندلس میں گزر چکا ہے۔

آیا مسلمان اپنی پرانی غلطیوں کے سبب اندلس کے بعد اب ہند سے بھی مکمل صفائے کی طرف جا رہے ہیں؟؟ ’لال قلعے سے لال قلعے تک‘ کے ان مضامین میں ہم اپنے حاضر کو اپنے ماضی کے آئینے میں دیکھنے کی کوشش کریں گے۔ 1

اپنوں سے دشمنی اغیار سے دوستی

اندلس اور ہند دونوں میں ناکامی کا ایک بنیادی سبب مسلمانوں کے ذہنوں سے دوست اور دشمن کی پہچان مٹ جانا تھا۔ جس کے سبب وہ اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف کافر دشمنوں سے مدد لینے لگے۔ اور الٹا اپنے مسلمان بھائی کو زیر کرنے کے لیے کافر دشمنوں کی مدد کرنے بھی لگے۔ کس سے موالات کی جائے اور کس سے تبریٰ، یہ عقیدہ خواہشاتِ نفس کی پیروی کے سبب دل سے ایسا نکلا جیسے کبھی یہ حکمران مسلمان رہے ہی نہ تھے۔ آئیے اندلس اور ہند کی تاریخ کے چند تاریک اوراق پلٹتے ہیں۔

طوائف الملوکی کی صورت حال

تین معاصر تاریخ دان ڈاکٹر حضرات ؛ ڈاکٹر خليل ابراہیم سامرائی، ڈاکٹر عبد الواحد ذنون طہ اور ڈاکٹر ناطق صالح مصلوب اندلس کے بارے میں اپنی کتاب میں وہاں کے طوائف الملوکی کے دور کے حالات کچھ ایسے بیان کرتے ہیں:

تمام طوائف کے امراء نے اپنی قوم بلکہ اپنے خاندان کے مفادات کے بجائے، جن کے سبب وہ حکمران بنے تھے، اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دینا شروع کر دی۔ یہ امراء اپنے قومی اور دینی احساس میں کمزور تھے۔ جب بربشتر اور طلیطلہ کا سقوط ہوا تو کسی نے بڑھ کر مدد نہیں کی۔ ابنِ ہود عوامی غصے کے سبب مجبور ہوا کہ وہاں فوج بھیجے۔ جب کہ طلیطلہ کے سقوط سے پورا اندلس ہل گیا لیکن سب مسلم حکمرانوں نے امت کو مایوس کیا۔

طوائف امراء کے تحت اندلس کی قوم کو داخلی اور خارجی سطح پر کڑوے گھونٹ پینے پڑے۔ عوام امراء کے لالچ کی بھینٹ چڑھ گئے۔ امراء نے اپنی سلطنتوں کو ذاتی جاگیر سمجھا اور عوام کو اپنا غلام۔ وہ عوام کی دولت اور محنت کا پھل عالی شان محلات میں لونڈیوں سے محظوظ ہونے اور خواہشاتِ نفس پوری کرنے کے لیے لوٹتے تھے اور خوب تعیشانہ طرزِ زندگی اپناتے تھے۔ جبکہ خارجی کمزوری کے سبب وہ ہسپانوی بادشاہوں کے باج گزار بن گئے اور اپنی کرسی کی حفاظت کی خاطر ان کی گود میں جا بیٹھے۔ نتیجتاً عوام انتہائی مایوس ہوئے اور پورا معاشرہ نفسیاتی تناؤ کا شکار ہو گیا۔ یہاں تک کہ اندلس چھوڑ کر شمالی افریقہ ہجرت کر جانے کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ خصوصاً ۴۵۶ھ ؍ ۱۰۶۴ء میں نورمانیوں2 کے بربشتر پر اور ۴۷۸ھ ؍ ۱۰۸۵ء میں الفانسو ششم کے طلیطلہ پر قبضے کے بعد“۔3

سرقسطہ کے بنی ہود

آئیے دیکھتے ہیں کہ مسلمانانِ اندلس کی بربشتر میں سب سے پہلی شکست کے دوران وہاں کے حکمران خاندان ’بنی ہود‘ کا کیا حال تھا۔ اندلس میں اموی خلافت کے خاتمے کے بعد شمالی اندلس میں دو اسلامی مملکتیں وجود میں آئیں۔ انتہائی شمال میں مملکت ِسرقسطہ اور اس کے جنوب میں مملکت طلیطلہ ۔ ان دونوں مملکتیں کے اطراف میں کئی عیسائی بادشاہتیں تھیں جو مسلم مملکتوں کو لالچ کی نظر سے دیکھتی تھیں اور وقتاً فوقتاً ان پر حملے کرتی رہتی تھیں۔ خصوصاً جب اندلس میں مرکزی حکومت نا پید تھی اور طوائف الملوکی کے سبب ہر کوئی دوسرے سے بیگانہ بن گیا تھا۔ مملکت سرقسطہ کا امیر سلیمان بن ہود تھا۔ ہر کچھ عرصے بعد کوئی نہ کوئی عیسائی بادشاہ سرقسطہ پر حملہ کرتا اور کوئی نہ کوئی علاقہ اپنی مملکت میں شامل کر لیتا یا حملے کی دھمکی دیتا اور امن کے بدلےمیں’جزیہ‘ کے نام پر باج وصول کرتا۔ گویا سرزمین عیسائیوں کی ہو اور مسلمان ان کے ہاں ذمی کے طور پر رہتے ہوں۔ ظاہر ہے ابن ہود نئی فتوحات تو کرتا نہیں تھا کہ یہ رقم حاصل شدہ غنیمت سے ادا کرے۔ اس لیے رقم ادا کرنے کے لیے غریب عوام پر نت نئے ٹیکس لاگو کرتا۔ یہاں تک کہ بنی ہود جزیہ نہ ادا کرنے کی صورت میں اپنے معززین تک کافروں کے ہاں ضمانت کے طور پر بھیجتے تھے۔

مملکتِ طلیطلہ کے ساتھ بھی عیسائیوں کا یہی رویہ تھا لیکن اس کے باوجود مملکت سرقسطہ اور طلیطلہ نہ صرف یہ کہ آپس میں لڑتی تھیں بلکہ ایک دوسرے کے خلاف مختلف عیسائی بادشاہوں سے مدد بھی حاصل کرتی تھیں۔ سلیمان کے مرنے کے بعد اس کے بیٹوں میں اقتدار کی جنگ چھڑ گئی۔ تین بھائیوں کو زیر کرنے کے بعد احمد بن ہود کی چوتھے بھائی یوسف کے ساتھ ٹھن گئی۔ اب یہ دونوں بھی سرقسطہ اور طلیطلہ کی طرح اپنی لڑائی کے لیے عیسائی بادشاہوں سے مدد حاصل کرنے لگے۔

سانحہ بربشتر

اسی دور میں یورپ نے عالمِ اسلام پر صلیبی جنگیں برپا کر دیں۔ چنانچہ فلسطین کی طرح اندلس میں بھی جنگوں کا باقاعدہ آغاز ہوا جو ہسپانویہ میں ’قبضۂ نو ‘ یا ’ریکونکویسٹا‘ (Reconquista) کے نام سے مشہور ہوئیں۔ اور ۱۰۶۴ء کے آغاز میں پوپ اسکندر دوم کے کہنے پر اور اس کی ذاتی فوج کے کمانڈر کی سربراہی میں فرانس کے اجڈ خانہ بدوش نورمانیوں نے سرقسطہ میں یوسف بن ہود کے حصے میں واقع سرحدی شہر بربشتر Berbastro پر حملہ کر دیا۔ طوائف الملوکی کے دور میں اندلس کو لگنے والے بڑے دھچکوں میں یہ پہلا دھچکا تھا۔ عیسائیوں نے چالیس دن تک بربشتر کا حصار جاری رکھا۔ اگرچہ اس دوران بھی وہاں کے غیور عوام فصیل سے نکل کر عیسائیوں کے ساتھ جھڑپیں کرتے رہے لیکن شہر کے اندر خوراک کی قلت کے سبب بے چینی پھیلنا شروع ہو گئی۔ اسی دوران ایک غدار نے شہر کو سیراب کرنے والی نہر کا زیر زمین راستہ بھی بتا دیا جس سے عیسائیوں نے شہر کا پانی بھی بند کر دیا۔ بھوک اور پیاس کی شدت سے مسلمان تسلیم ہونے پر مجبور ہوئے اور عیسائیوں نے انہیں امان دے دی۔ لیکن مسلمان پیاس بجھانے کے لیے جیسے ہی باہر نکلے عیسائیوں نے عہد شکنی کرتے ہوئے قتل و غارت شروع کر دی۔خوب قتل کرنے کے بعد عیسائیوں نے دوبارہ اعلان کیا کہ جو واپس گھر میں داخل ہو گیا اسے امان حاصل ہے۔ چنانچہ مسلمان جیسے بھاگے بھاگےنکلے تھے اسی طرح بھاگے بھاگے گھروں کی طرف لوٹے۔ انہوں نے گھروں میں پہنچ کر چین کا سانس لیا ہی تھا کہ کمانڈر نے تمام گھروں کو مال و دولت اور گھر والوں سمیت اپنے سپاہیوں میں تقسیم کر دیا۔ چنانچہ ہر سپاہی نے اپنی ملکیت سے اپنی مرضی کے مطابق برتاؤ کیا۔ یہاں تک کہ ہزاروں مردوں کو قتل کیا گیا، بچوں اور عورتوں کو غلام بنایا گیا اور بے شمار خواتین کی عصمت دری کی گئی۔

یوسف کے بس میں نہیں تھا کہ وہ بربشتر کا دفاع کر سکے ،چنانچہ وہ تو بھاگ نکلا لیکن اس کا طاقتور بھائی احمد بن ہود بھی مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ ٹوٹتے دیکھ کر بھی آگے نہیں بڑھا کیونکہ یہ شہر اس کے بھائی کے حصے میں واقع تھا!! کئی ماہ بعد جب بربشتر کی ہولناک خبریں قرطبہ پہنچیں تو پورے اندلس کے عوام غم و غصہ سے مشتعل ہو گئے۔ تب جا کر احمد بن ہود کو ہوش آیا اور بربشتر کو عیسائیوں سے چھڑایا۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہود کو جب غیرت آئی اور اس نے بربشتر کو کافروں سے چھڑایا تو واپس لوٹتے ہوئے اپنا لقب ’المقتدر باللہ‘ رکھا!!۔ آج کل ہمارے ملکوں کے حکمران بھی ملک کا بیڑہ غرق کرنے کے بعد ’ہیرو‘ قرار دیے جاتے ہیں۔

لیکن اس واقعے کے بعد بھی اس نے اپنے بھائی یوسف کے خلاف جنگیں نہ روکیں جب تک کہ ۱۰۷۹ ءمیں یوسف کو قیدی بنانے میں کامیاب نہ ہو گیا۔ اس پورے عرصے میں احمد بن ہود اپنے والد کی طرح مسلسل ہسپانوی بادشاہوں کو جزیہ بھی ادا کرتا رہا اور اپنی فوج میں عیسائیوں کو بھرتی بھی کرتا رہا۔ ان میں ایک مشہور عیسائی کمانڈر قنبیطور بھی تھا جسے احمد بن ہود نے’السید‘ یعنی آقا کا لقب دے رکھا تھا۔ احمد بن ہود پہلا مسلمان بادشاہ تھا جس نے اپنی فوج پر عیسائی کمانڈر مقرر کیا ہو۔ نہ صرف یہ بلکہ احمد بن ہود کا ایک مقرب وزیر ابو عامر بن غندشلب بھی عیسائی تھا ۔

بنی ہود کی مملکت عیسائیوں کے ساتھ مدارات اور موالات کرتی رہی۔ عیسائیوں کو ہر قسم کی دینی ، فکری اور معاشی آزادی حاصل تھی۔ یہاں تک کہ ایک فرانسیسی پادری کو اتنی شہہ ملی کہ اس نے احمد بن ہود کو ایک خط میں دین ِاسلام پر نقد کرتے ہوئے کھلم کھلا عیسائی بننے کی دعوت دی اور خط کے ساتھ اپنے شاگرد بھی بھیجے تاکہ احمد بن ہود کو عیسائی دین سکھا سکیں لیکن ابن ہود الٹا نرمی سے پیش آیا۔ مسلمانوں کی مداہنت کے مقابلے میں سرقسطہ میں رہنے والے معاہد عیسائیوں نے ہر موقع پر ان تمام احسانات کو فراموش کرتے ہوئے اپنے ہم مذہبوں کی مدد کی۔

احمد بن ہود کے مرنے کے بعد باہمی لڑائی اور اغیار سے دوستی کی روش اس کے جانشینوں میں جاری رہی۔ یہاں تک کہ اس کا جانشین مؤتمن ان ’مسلم‘ امراء میں سے تھا جس نے اندلس کو دوبارہ متحد کرنے اور عیسائیوں کا زور توڑنے کے لیے شمالی افریقہ سے آنے والے مجاہدین کے خلاف لڑنے کے لیے اسی عیسائی کمانڈر آقائے قنبیطور کو آگے کیا۔4

سرقسطہ سے غرناطہ

بربشتر پر عیسائیوں کا بزور قبضہ کرنا اندلس میں اسلام کے زوال کا آغاز تھا اور شہر غرناطہ کو عیسائیوں کو از خود تسلیم کرنا زوال کی انتہا تھی۔ اندلس کی منقسم مسلم مملکتیں ایک ایک کر کے سقوط کرتی گئیں یہاں تک کہ ۱۲۵۲ء تک ہسپانوی بادشاہ فرنانڈو سوم نے اندلس کی جنوبی مملکت غرناطہ کے سوا تمام مسلم بادشاہتیں فتح کر لی تھیں۔ اس پورے دور میں اندلس کے غیور عوام کافروں کے خلاف جہاد کرنا چاہتے تھے لیکن حکمران اپنے ذاتی مفادات اور عیاشیوں کی خاطر ان کے سامنے بند باندھ دیتے تھے۔ یہ دور مسلم حکمرانوں کی غداری کی علامت بن گیا جنہوں نے اپنا اقتدار بچانے کے لیے کفار کے ساتھ اعلانیہ کام کیا اور عوام کو مستقبل کے بارے میں دھوکے میں رکھا۔ ان غدار حکمرانوں کی ایک بڑی مثال مملکت غرناطہ میں بنی نصر کے پہلے امیر ابو عبد اللہ محمد (الاول) بن یوسف الاحمر بن نصر ہے جو اپنے والد کی نسبت ابن الاحمر کے نام سے مشہور ہوا۔

۱۲۳۶ء میں ابن الاحمر بنی ہود کے تحت ایک چھوٹے سے علاقے کا والی تھا۔ لیکن اس نے بنی ہود کے ساتھ غداری کرتے ہوئے قرطبہ پر قبضے میں ہسپانوی بادشاہ فرڈیننڈ سوم کی مدد کی اور اس کے بدلے اندلس کی جنوبی مملکتوں پر قبضہ کر کے وہاں کا بادشاہ بن بیٹھا۔ البتہ ۱۲۴۴ء میں ہسپانوی بادشاہ کے پے در پے حملوں کے نتیجے میں خود اسے پہلے اپنے آبائی شہر ارجونہ سے ہاتھ دھونے پڑے اور دو سال بعد فرڈیننڈ کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے ذلت آمیز معاہدہ قبول کرنا پڑا۔ معاہدے کے مطابق ۲۰ سالہ امن کے بدلے ابن الاحمر کو نہ صرف صوبہ جیان فرڈیننڈ کو دینا پڑا بلکہ سالانہ ڈیڑھ لاکھ دینار باج ادا کرنے پر بھی راضی ہوا اور سب سے بڑھ کر عیسائی بادشاہ کی فوجی مہمات میں ساتھ دینے کا بھی وعدہ کیا، چاہے وہ مسلمانوں کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں۔ چنانچہ ۱۲۴۸ء میں ابن الاحمر نے مسلم مملکت اشبیلیہ پر حملے میں عیسائی بادشاہ کی فوجی مدد کی۔مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ جب وہ اس جنگ میں اپنے مسلمان بھائیوں پر عیسائیوں کو حکمران بنانے میں کامیاب ہو کر غرناطہ لوٹا تو اس نے اپنی مملکت کے لیے (لا غالب إلا اللہ) کا شعار اپنایا جسے آج تک قصر الحمراء پر ہر جگہ منقوش دیکھا جا سکتا ہے!! رفتہ رفتہ ابن الاحمر اپنے ماتحت علاقے ایک ایک کر کے کھوتا رہا یہاں تک کہ اس کے پاس صرف شہر غرناطہ اور اس کے چند مضافات رہ گئے۔

ابن الاحمر سے الصغیر تک

غرناطہ پر بنی نصر خاندان نے تقریبا ڈھائی سو سال حکومت کی اور اس عرصے میں کل ۲۳ امیر گزرے۔ اس پوری مدت میں غرناطہ کے امراء نے اپنی محدود آزادی کے بدلے عیسائیوں کی بالادستی قبول کرنے کی پالیسی جاری رکھی۔ اور عیسائی طاقتوں کی پالیسی یہ رہی کہ وہ بڑے حملے کے بجائے چھوٹے چھوٹے حملے کرتی رہیں اور ہر دفعہ قبضہ کرنے کے بعد امن کے بدلے بھاری باج وصول کرتیں۔ اس طرح مسلمانوں کی عسکری قوت کے ساتھ ساتھ اقتصادی قوت بھی ختم ہوتی گئی۔

۱۴۸۲ء میں ابن الاحمر کا پڑ پڑ پوتا ابو عبد اللہ محمد (الثانی عشر) مسند اقتدار پر بیٹھا۔ ہسپانوی تاریخ میں وہ ابو عبد اللہ کے تصغیر و تحقیر کے صیغے ’بو عبدل‘ اور عربی تاریخ میں ’الصغیر‘ یعنی ’چھوٹے‘ کے لقب سے مشہور ہوا۔ اس نے اپنے والد کے خلاف اس لیے بغاوت کی تھی کہ والد صاحب نے عیسائی بادشاہ کو مزید باج ادا کرنے سے انکار کیا تھا، جس کا مطلب جنگ تھا ۔ اور جنگ آرام پسند اور پر تعیش حکمرانوں کو کہاں پسند آتی ہے۔ چنانچہ والد کی جگہ خود غرناطہ کا بادشاہ بن گیا لیکن مضحکہ خیز طور پر اگلے ہی سال اپنی کرسی کو بچانے کے لیے ہسپانویوں کے خلاف ایک جنگ میں شریک ہوا اور ان کے ہاتھوں گرفتار بھی ہو گیا ۔ بادشاہ فرڈیننڈ5 نے طے کیا کہ ابو عبد اللہ الصغیر کو مسلمانوں کے ہاں عیسائی قیدیوں کی رہائی اور ان سے مزید رقم وصول کرنے کے بدلے رہا کیا جائے۔ اتنا تاوان وصول کرنے کے باوجود ابو عبد اللہ کے اندر یہ شعور پیدا کیا کہ انہوں نے اسےرہا کر کے اس پر عظیم احسان کیا ہے تاکہ وہ مستقبل میں بھی ان کا ممنون رہے ۔ الصغیر نے ہسپانویوں کی شرائط سے آگے بڑھتے ہوئے یہ بھی تسلیم کر لیا کہ اسلامی مملکتِ غرناطہ عیسائی بادشاہت کے تحت ایک ذیلی مملکت ہو گی! عیسائیوں کا یہ منصوبہ کامیاب ہوا اور مملکت غرناطہ نے اپنے بادشاہ کی رہائی کے لیے ۶۰ عیسائی قیدی بھی رہا کیے، پانچ سال تک ۱۲ ہزار ڈوبلا (یورپی دینار) بھی ادا کرتی رہی اور بو عبدل کے بیٹے سمیت غرناطہ کے دس معزز مسلمانوں کو عیسائیوں کے ہاں ضمانت کے طور پر نظر بندبھی کروا دیا۔ اس طرح بالآخر ابو عبد اللہ الصغیر کو تین سال بعد ۱۴۸۵ میں رہا کر دیا گیا۔

علماء اور سول نا فرمانی

عوام اس معاہدے پر انتہائی مشتعل تھے اور امام ونشریسی ﷫ کی قیادت میں قاضی القضاۃ ابن الازرق ، مفتی المواق ،اور قاضی ابو عبد اللہ محمد بن عبد البر ﷭کے علاوہ غرناطہ کے دیگر علماء نے معاہدے کے خلاف فتوی جاری کیا جس میں یہ بھی ذکر تھا کہ ابو حسن کے بجائے ( جو ابو عبد اللہ الصغیر کی غیر موجودگی میں غرناطہ کا کمانڈر تھا)الصغیر کی اطاعت کرنے کا کوئی شرعی جواز نہیں اور ایسی حالت میں الصغیر کی اطاعت اللہ اور ا س کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)کے خلاف بغاوت ہے۔ چنانچہ غرناطہ میں’سِوِل نا فرمانی‘ شروع ہو گئی اور عیسائیوں کے پسندیدہ الصغیر کی حکمرانی خطرے میں پڑ گئی۔

الصغیر نے دنیا پرست تاجروں اور سرحدوں کے قریب بسنے والے دیہاتیوں کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے اطاعت کے بدلے ’امن‘ کی ضمانت دی جس سے غرناطہ میں اندرونی تنازع کھڑا ہو گیا۔ الصغیر نے عوام کو دو گروہوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک وہ جو اپنے دنیوی مفادات کی خاطر عیسائیوں کے ساتھ امن اور مذاکرات کے خواہاں تھے اور دوسرا وہ جو مدافعانہ جہاد جاری رکھنے کے خواہاں تھے۔ الصغیر کی غداری کا پھل تب نظر آیا جب عیسائیوں نے رندہ شہر کا محاصرہ کیا اور عوام میں پھوٹ کے سبب مجاہدین کے امیر ابو حسن شہید ہو گئے۔

عوامی قیادت اور ایجنٹ حکمران

ابو حسن کی شہادت کے بعد الصغیر کا چچا اور اس کا ہم نام ابو عبد اللہ محمد بن سعد جو کہ اپنے لقب ’الزغل‘ سے مشہور تھا، غرناطہ اور مجاہدین کا امیر مقرر ہوا۔ ۱۴۸۶ء میں الصغیر عیسائی بادشاہوں کی خفیہ مدد سے شہر غرناطہ کے سپاہیوں کو الزغل کے خلاف لڑنے پر آمادہ کر سکا ۔ صلیبی طاقتوں کے ساتھ مل کر مجاہدین کے خلاف سازشیں کرنا قوم و ملت کے مفاد میں انتہائی سنگین غلطی ہے مگر اسےآج تک مسلم حکمران دہراتے چلے آ رہے ہیں۔ اسلام میں قومی اور ملّی وحدت کا تصور اس کے عقیدے کے گرد گھومتا ہے اور جب مسلمانوں میں اور خصوصاً ان کے حکمرانوں میں اپنوں اور غیروں کا عقیدہ چند دنوں کے اقتدار اور خواہشات کی خاطر تبدیل ہو جائے تو قومی وحدت کا شیرازہ بکھر جاتا ہے اور وہ اغیار کے لیے تر نوالہ بن جاتے ہیں۔

اس وقت کے سرکاری مشیر اور مصنف ہرنانڈو ڈی پلگر Hernando de Pulgar نے اپنی کتاب ’ عظیم کپتان کے عظیم کارناموں کی مختصر روایت‘ میں لکھا ہے:

عیسائی بادشاہ اور ملکہ نے اس کم عمر بادشاہ (ابو عبد اللہ الصغیر) کو پسند کیا اور اس کے ساتھ حسن سلوک اور امن کا رویہ اپنایا ۔ یہ رویہ اس کے علاوہ اس کی مملکت کے ان رعایا کے ساتھ بھی برتا گیا جو اس کی تائید کرتے تھے، جیسے کہ (غرناطہ کے بڑے مسلم محلے) البیازین کے لوگ تھے۔ جو روٹی، تیل اور دیگر ضروریات کے لیے بار بار عیسائی سرزمین میں داخل ہوتے تھے۔ سرحدوں پر موجود عیسائی عوام اور محافظین ان تاجروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے تھے۔“

وہ مزید کہتا ہے:

(ابو عبد اللہ الصغیر ) ہسپانوی بادشاہ اور ملکہ کو عاجزانہ پیغام بھیجتا تھا کہ وہ سرحد پر موجود کمانڈروں اور گورنروں کو حکم دیں کہ وہ شہر غرناطہ کا محاصرہ مزید سخت کریں تاکہ البیازین میں وہ اپنے تشخص کو مزید قوی کر سکے۔ بو عبدل کی درخواست کے مطابق جب یہ احکامات سرحد تک پہنچے تو گونزالو فرنانڈز ( جو غرناطہ فتح کرنے کے سبب ’عظیم کپتان‘ کے لقب سے مشہور ہوا) بڑی سعادت مندی سے البیازین میں اس کم عمر امیر (الصغیر) کو خوش کرتا اور اس کی خدمت بجا لاتا۔ جبکہ البیازین کے عوام تذبذب کا شکار تھے کیونکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ باقی شہر میں بوڑھے بادشاہ (ابو عبد اللہ الزغل) کا گروہ مضبوط ہو رہا ہے۔“

اس طرح الزغل کے سامنے بیک وقت دو محاذ کھل گئے اور اس کی قوت بٹ گئی۔ ایک طرف اس نے ہسپانویوں کے خلاف شہر کا دفاع کرنا تھا اور دوسری طرف الصغیر کے لشکر پر نظر رکھنی تھی کہ کہیں وہ بغاوت نہ کر دے۔

مالقہ کی جنگ اور الصغیر کی غداری

۱۴۸۷ء میں ہسپانویوں نے فیصلہ کیا کہ غرناطہ پر قبضہ کرنے سے پہلے وہ غرناطہ کی اہم بندرگاہ مالقہ کا محاصرہ کریں کیونکہ مالقہ کے ذریعے اہل غرناطہ سمندر پار شمالی افریقہ سے زندگی کی بنیادی ضروریات ، جنگی ساز و سامان اور افرادی کمک حاصل کرتے تھے۔ امیر الزغل نے اس مشکل وقت میں اندرونی فتنے سے بچنے کے لیے الصغیر کو یہ پیش کش کی کہ وہ امارت چھوڑ کر اس کی قیادت میں لڑنے کے لیے تیار ہے لیکن الصغیر نے لڑنے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ امیر الزغل کے سامنے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا کہ وہ لشکرِ مجاہدین کے ساتھ مالقہ آزاد کرانے کے لیے روانہ ہو۔ ابھی لشکر شہرِ غرناطہ سے نکلا ہی تھا کہ الزغل کو خبر ملی کہ الصغیر نے غرناطہ پر قبضہ کر لیا ہے۔ سادہ مطلب یہ تھا کہ تمہارا مالقہ کے لیے لڑنا بے معنی ہے جب تم سے مرکز ہی چھن گیا ہو۔ اس لیے الزغل شہر لوٹنے کے بجائے اپنا لشکر لے کر البَشَرَّات کے پہاڑی علاقے کی طرف بھاگ نکلا تاکہ وہاں اپنے آپ کو دوبارہ منظم کر سکے اور اسی اثناء ہسپانوی فوج مالقہ پہنچ گئی ۔

مالقہ کے مجاہدین احمد الثغری کی قیادت میں ہتھیار ڈالنے یا مذاکرات کے حق میں نہیں تھے۔ در حقیقت انہوں نے مذاکرات کی پیش کش کو انتہائی حقارت سے مسترد کیا اور اپنی فوج کو شمالی افریقہ سے آنے والے بربر مجاہدین سے مضبوط کیا۔ جب عیسائی پہلی فصیل توڑنے میں کامیاب ہوئے تو مسلمان دوسری فصیل کے پیچھے چلے گئے اور ایسا نہیں لگ رہا تھا کہ وہ ہمت ہار چکے ہیں۔ انہیں صرف شہادت یا فتح کی طلب تھی۔ امیر الزغل کو جب مالقہ کے محاصرے کی خبر ملی تو اس نے ان کی مدد کےلیے استشہادیوں کاایک دستہ بھیجا۔ عیسائی روایت کے مطابق: ”انہیں یقین تھا کہ اگر وہ مالقہ میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تو یہ ایک عظیم افتخار ہو گا۔ اور اگر نہیں تو (شہادت کی صورت میں) ان کی روحیں محفوظ ہو جائیں گی۔ اس لیے انہوں نے تہیہ کر لیا کہ یا مریں گے یا شہر میں داخل ہوں گے“ ۔

جبکہ دوسری جانب الصغیر عیسائیوں کا ایجنٹ بنا رہا اور اس دستے کو روکنے کے لیے اپنی ’مسلم‘قوت لے کر نکلا۔ ’مسلمان‘ بمقابلہ ’مسلمان‘ کے معرکے میں مجاہدین کو شکست ہوئی اور باقی ماندہ مجاہدین واپس پہاڑیوں کی طرف لوٹ گئے۔ ہرنانڈو پُلگر لکھتا ہے کہ بادشاہ فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلا نے”اس چال کی قدر کرتے ہوئے ابو عبد اللہ الصغیر کو انعامات میں غرق کر دیا“ ۔ کیا آپ کو محسوس نہیں ہوتا کہ افغانستان پر صلیبی حملے کے دوران ایک طرف پاکستانی فوج اور دوسری طرف مجاہدین کی کہانی سن رہے ہوں۔ جہاں مشرف نے مجاہدین کو قتل کیا اور باقی کو پہاڑوں کی طرف پناہ لینے پر مجبور کیا۔

الزغل بھی پھسل گیا

ہسپانوی بادشاہ نے ایک اورخائن کمانڈر یحییٰ کو ( جو کہ قولاً اور فعلاً مرتد ہو چکا تھا) امیر الزغل کی طرف بھیجا تاکہ اسے عام معافی اور جاگیرداری کے بدلے تسلیم ہو جانے پر قائل کر سکے ۔ اور ایسا ہی ہوا۔ اس طرح امیر الزغل نے بھی مزاحمت چھوڑ دی اور اس کے بدلے بادشاہ فرڈیننڈ نے اسے البَشَرَّات کا جاگیر دار بنا دیا۔ لیکن الزغل کو معلوم تھا کہ اگر وہ مزید مملکت غرناطہ میں رہا تو اس کا حال یا یحیی کی طرح واضح ارتداد ہو گا اور یا الصغیر کی طرح واضح غداری۔ مایوسی کے عالم میں اس نے اپنی جاگیر دوبارہ بادشاہ کے ہاتھ فروخت کر دی اور رقم اور اپنے ساتھیوں سمیت شمالی افریقہ ہجرت کر گیا۔

کئی روایات یہ بھی صراحت کرتی ہیں کہ الزغل نے صرف اپنے بھتیجے الصغیر سے انتقام کی خاطر البشرات کی جائیداد دوبارہ بادشاہ کو لوٹا دی۔ کیونکہ اس وقت شہر غرناطہ اور البشرات کے علاوہ مملکت غرناطہ کے تمام علاقے الصغیر کے ہاتھ سے نکل چکے تھے۔ چنانچہ الزغل نے چاہا کہ البشرات کا علاقہ بھی عیسائیوں کو دے کر الصغیر کے تمام سہارے ختم کر دے اور غرناطہ اسی طرح برباد ہو جائے جیسے دیگر مسلم علاقے برباد ہوئے ۔سوچیے کہ ذاتی حقد و عناد نے کیسے ملک کو برباد کیا!!

غرناطہ تسلیم کرنے کا ڈرامہ

اگرچہ بڑے معرکے ختم ہو چکے تھے لیکن مجاہدین نے اپنی چھوٹی موٹی کارروائیاں جاری رکھیں۔ ان کارروائیوں کی روک تھام کے لیے ہسپانوی الصغیر سے مزید اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کرتے رہے جیسے امریکہ پاکستان کو ’ڈو مور‘ کی تڑی لگاتا رہتا ہے۔ البتہ واقعات نے بظاہر ایک عجیب رخ تب اختیار کیا جب الصغیر نے ان کارروائیوں کے بارے میں ہسپانویوں سے مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا۔ لیکن الصغیر کے ماضی اور غرناطہ کے انجام کار سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ اس کی سوچی سمجھی چال تھی تاکہ وہ خفیہ معاہدے کی افواہوں کو ختم کر سکے اور عوام کی نظروں میں ایسا ہیرو نظرآئے جو ہسپانویوں کے سامنے جھکنے کے بجائے آخری دم تک لڑتا رہے گا۔ اس کا ارادہ یہ تھا کہ جنگ کو ایسے مرحلے پر لے جائے کہ غرناطہ کے باشندے خود امن کی درخواست کرنے لگیں۔ اور تب الصغیر اپنی محبوب رعایا پر ترس کھاتے ہوئے تسلیم ہو جانے کو با دل نخواستہ قبول کر لے ۔ اس دور کے ایک گمنام مصنف نے اپنی کتاب ’ غرناطہ کے آخری دن‘ میں لکھا ہے:

بہت سے لوگوں کا دعوی ہے کہ امیرِ غرناطہ (بشمول اس کے وزراء اور کمانڈروں کے )اور عیسائی بادشاہ کے درمیان یہ بات پہلے ہی طے ہو چکی تھی کہ وہ ملک تسلیم کر دیں گے۔ لیکن وہ اپنے عوام سے ڈرتے تھے۔ اس لیے ان کی دل جوئی کرنے کے ساتھ ساتھ چالبازی سے کام لیتے تھے۔ جب عوام نے خود وہ کہنا شروع کر دیا جو اِنہوں نے چھپا رکھا تھا تو فورا ًمسئلہ حل کرنے کے لیے آگے بڑھے۔ اس مدت میں الصغیر جنگ سے اس لیے پہلو تہی اختیار کرتا رہا کہ یہ بات عوام کے ذہنوں میں ڈالی جا سکے۔ اور جب غرناطہ کی طرف سے تسلیم ہو جانے کی پیش کش عیسائی بادشاہ کو بھیجی گئی تو وہ پہلے سے ہی تیار بیٹھا تھا۔ عیسائی بادشاہ نے اہل غرناطہ کے تمام مطالبات تسلیم کرتے ہوئے غرناطہ کو اپنی تحویل میں لے لیا۔“

ایسا محسوس ہوتا ہےکہ آج کل کے حکمرانوں نے الصغیر سے ماکرانہ سیاسی چالیں سیکھی ہیں۔

بالآخر تسلیمِ غرناطہ کے معاہدے پر دستخط ہو گئے اور ۱۴۹۲ء میں عیسائی فوجوں نے شہر کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اس طرح اندلس پر اسلام کی حکمرانی تقریباً ۷۸۰ سال مسلسل برقرار رہنے کے بعد ختم ہو گئی۔ اندلس دنیا کا ایک اہم خطہ تھا جہاں ایک وسیع علاقے پر اسلام پھیلا لیکن ذاتی مفادات اور دنیاوی خواہشات کی خاطر اپنوں سے دشمنی اور غیروں سے دوستی نے وہاں اسلام کو صفحۂ ہستی سے ایسے مٹا دیا جیسے کہ کبھی تھا ہی نہیں! آیا ہند میں بھی ایسا ہونے جا رہا ہے؟

ہند اندلس کے آئینے میں

جیسے اندلس میں اموی خلافت کے سقوط کے بعد طوائف الملوکی پیدا ہوئی اسی طرح ہند میں مغلیہ سلطنت کے زوال کے ساتھ مستقل ریاستیں وجود میں آئیں۔ ان میں سب سے بڑی اور طاقتور ریاست حیدر آباد دکن کی ’مملکت آصفیہ ‘اور اس کے بعدسلطان حیدر علی اور شہید ٹیپو کی ’سلطنتِ میسور‘ تھیں۔ لیکن کیا جیسے اندلس میں اسلامی ریاستوں کی باہمی لڑائی سے عیسائیوں نے فائدہ اٹھا کر اسلام کا خاتمہ کیا اسی طرح ہند میں بھی ہونے جا رہا ہے؟ آئیے مغلیہ سلطنت کے زوال کے وقت مسلم ریاستوں کی باہمی جنگ اور اغیار سے دوستی کے انجام کار پر نظر ڈالیں۔

مملکت آصفیہ

ہندو مرہٹوں کے ہاتھوں دہلی میں مغلیہ سلطنت کی کمزوری کے وقت سلطنت کا وفادار وزیر میر قمر الدین مغل بادشاہوں کی اجازت سے دکن کے علاقے کا انتظام مضبوط کرتا رہا اور بعد میں مغل بادشاہ کی طرف سے نظام الملک آصف جاہ کے لقب سے جنوبی ہند کا صوبہ دار بن گیا۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ حیدر آباد دکن عملا ً ایک مستقل مملکت بن گئی اور حقیقت میں نظام الملک آصف جاہ نے مغلیہ سلطنت کے بہت بڑے حصے کو مرہٹوں کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھا۔ لیکن اس کے انتقال کے بعد اس کے دوسرے بیٹے ناصر جنگ اور نواسے مظفر جنگ کی باہمی خانہ جنگی سے مملکت آصفیہ کو بڑا نقصان پہنچا۔ ان دونوں نے اقتدار کی کشمکش میں اندلس کے حکمرانوں کی طرح بیرونی طاقتوں کا سہارا لیا اور پہلی مرتبہ یورپی طاقتوں کو بڑے پیمانے پر براہ راست بر صغیر کی سیاست میں مداخلت کا موقع فراہم کیا۔ اس خانہ جنگی سے دوسرا نقصان یہ ہوا کہ شمالی سر کار، کرناٹک اور جنوب کے کئی علاقے جن میں میسور بھی شامل تھا، نظام کے اقتدار سے باہر نکل گئے جبکہ ریاست کے مشرقی اور شمالی حصوں پر مرہٹے قابض ہو گئے۔ اس طرح نظام الملک کے انتقال کے بعد ۱۵ سال کے اندر ہی ریاست کی حدود نصف رہ گئیں۔اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بنی ہود کے جانشینوں کی تاریخ ہند میں دہرائی جا نے لگی۔

دوسری طرف ہمسایہ ریاست کرناٹک کے حسین دوست خان (چندا صاحب) نے کرناٹک کا نواب بننے کے لیے مظفر جنگ سے اتحاد کیا اور ناصر جنگ کے خلاف جنگ شروع کر دی۔ اس کے نتیجے میں کرناٹک کی مشہور جنگیں واقع ہوئیں جن میں انگریز نے ناصر جنگ کی حمایت کی اور فرانس نے مظفر جنگ کی۔ ان جنگوں کے دوران ناصر جنگ بھی قتل کر دیا گیا اور مختصر عرصے کے لیے دکن کا نظام بننے کے بعد مظفر جنگ بھی قتل ہو گیا۔ اس وقت تک فرانسیسی حیدر آباد دکن کے اندرونی معاملات میں اتنے دخیل ہو چکے تھے کہ ان کے کمانڈر نے مظفر جنگ کی جگہ آصف جاہ کے تیسرے بیٹے صلابت جنگ کو نظام بنا دیا اور اس کا دیوان (یعنی کہ وزیر اعظم ) ’راجہ داس‘ نامی ایک شخص؟ کو مقرر کیا۔ اگرچہ بعد میں دربار میں غیر مسلموں کی موجودگی سے پیدا ہونے والی بے چینی کے سبب ایک سید لشکر خان کو دیوان مقرر کر دیا گیا۔ صلابت خان نے فرانسیسی کمانڈر ’ڈی بسی‘ کو باقاعدہ اپنی فوج میں بھرتی کر لیا جیسا کہ بنی ہود نے عیسائی قنبیطور کو بھرتی کیا تھا اور اس سے بھی آگے بڑھ کر فرانس کو ریاست حیدر آباد دکن کا حامی قرار دے دیا۔

ابھی حالات کچھ سنبھلےہی تھے کہ آصف جاہ کے سب سے بڑے بیٹے فیروز جنگ نے (جو کہ اس وقت مغل بادشاہ کے ہاں وزیر تھا ) بادشاہ سے دکن کی صوبہ داری کا فرمان حاصل کیا اور ہندو مرہٹوں کو ساتھ ملا کر اپنے بھائی صلابت خان سے لڑنے نکلا۔ مرہٹوں کو جنگ پر قائل کرنے کے لیے اسے جنگ سے پہلے ہی مرہٹوں کو خان دیش کا علاقہ اور پانچ لاکھ روپے دینے پڑے۔ لیکن دکن کے علاقے میں ابھی داخل ہی ہوا تھا کہ نا معلوم حالات میں مر گیا اور صلابت خان اپنی جگہ پر برقرار رہا۔

صلابت خان کو لمبے عرصے کے لیے مقامی اور فرانسیسی فوج کو بھی بھاری رقم ادا کرنے میں دقت پیش آ رہی تھی جس کے سبب فوج میں بد دلی پھیل گئی تو دیوان سید لشکر خان نے سوچا کہ فرانسیسیوں کے خلاف انگریزوں سے مدد طلب کی جائے۔ جب ڈی بسی کو علم ہوا تو وہ لشکر لے کر دکن کے دار الحکومت اورنگ آباد کی طرف بڑھا۔ اس کا اورنگ آباد آنا ہی تھا کہ بزدل اور چاپلوس سید لشکر خان اور صلابت خان کو اپنے ہاتھیوں سے اتر کر اس کا استقبال کرنا پڑا اور آئندہ کے لیے مزید ذلت آمیز شرائط پر فرانسیسیوں سے معاہدہ کیا۔

آصف جاہ کے چوتھے بیٹے میر علی خان نے اپنے بھائی صلابت خان کے تحت عملی زندگی کا آغاز مرہٹوں کے خلاف نمایاں کامیابی سے کیا ،جس پر مغل بادشاہ نے اسے صلابت خان کی جگہ دکن کا صوبہ دار مقرر کر دیا۔ یاد رہے کہ مرہٹوں کے خلاف میر علی خان کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھے کہ اس وقت مرہٹے احمد شاہ ابدالی کے حملوں کی وجہ سے ویسے ہی کمزور پڑ چکے تھے۔ بہر حال میر علی خان نے ۱۷۶۲ء میں صلابت خان کو معزول کر کے اسے قتل کر دیا اور خود آصف جاہ دوم کا لقب اختیار کرتے ہوئے حیدر آباد کا نظام بن گیا۔ جب تک میر علی خان نظام الملک بننے میں کامیاب ہوا اس وقت تک یورپ میں جنگوں کے سبب فرانسیسی انگریز آباد کاروں کے مقابلے میں اتنے کمزور پڑ چکے تھے کہ انگریزوں نے ہند میں فرانس کی تمام نو آبادیات پر قبضہ کر لیا ۔ چنانچہ میر علی خان نے مناسب سمجھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ فرانسیسیوں کے بجائے انگریزوں سے دوستی بڑھائی جائے۔ اور رفتہ رفتہ انگریزوں کی دوستی ان کی ما تحتی میں تبدیل ہو گئی۔ حیدر آباد پر میر علی خان کی ۴۰ سالہ طویل حکومت کے پیچھے ایک اہم سبب اپنوں سے غداری اور انگریزوں سے دوستی تھی۔ لیکن اقتدار کے آخری عرصے میں میر علی خان کو انہی مرہٹوں کے ہاتھوں شکست کھانی پڑی جن کے خلاف کامیابی کے سبب اسے اقتدار ملا تھا۔اور ہرجانے کے طور پر اسے مرہٹوں کو ریاست کے سابقہ دار الحکومت اورنگ آباد سمیت اپنے تین بڑے شہر اور ان کے علاوہ ۳۰ لاکھ روپے دینے پڑے ۔

سلطنت میسور

جس وقت آصف جاہ دوم نظام الملک بنا تقریباً اسی وقت اس کے جنوب میں مملکت میسور میں بھی سیاسی تبدیلیاں آ رہی تھیں۔ طویل عرصے سے مغل سلطنت کی باج گزار رہنے کےسبب ریاست میسور میں مسلمانوں کا اثر و نفوذ بڑھ گیا تھا۔ یہاں تک کہ جب مملکت کے ہندو راجہ نے فوج کے سپہ سالار حیدر علی کو ۱۷۶۱ء میں قتل کرنے کی کوشش کی تو جواب میں حیدر علی نے مملکت کے اطراف میں اپنی فوج جمع کر کے میسور کے دار الحکومت سرنگاپٹم پر قبضہ کر لیا اور ہندو راجہ کو سلطنت کے معاملات سے بے دخل کر کے خود براہ راست مغلیہ سلطنت کے تحت خود مختار سلطان بن گیا۔ حیدر علی کواپنے ۲۰ سالہ دورِ حکومت میں مرہٹوں اور انگریزوں کے علاوہ مسلم ہمسائے نظام دکن سے بھی مقابلہ کرنا پڑا۔ اگرچہ ان لڑائیوں میں اس کو ناکامیاں بھی ہوئیں، لیکن اس کے باوجود اس نے مالابار کے ساحل سے لے کر دریائے کرشنا تک ایک بہت بڑی ریاست قائم کرلی اور انگریزوں کو کئی بار زبردست شکست دی۔

آصف جاہ دوم کی غداری

آصف جاہ دوم کو حیدر علی کی ابھرتی ہوئی شخصیت سے ڈر تھا، اس لیے اس نے حیدر علی کے خلاف ہندو مرہٹوں اور عیسائی انگریزوں سے اتحاد کیا۔ ۱۷۶۶ء میں انگریزوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے حیدر آباد دکن کے مشرق میں ’شمالی سرکار‘ کے اہم ساحلی علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کیا لیکن آصف جاہ دوم نے ان کے مقابلے کے بجائے ان سے مذاکرات کیے اور تین چار ساحلی علاقے دینے کے بدلے ان سے حیدر علی کے خلاف لڑنے کےلیے انگریز فوجی دستے حاصل کیے۔

دوسری طرف نظام نے حیدر علی کے خلاف مرہٹوں کے ساتھ بھی اتحاد کیا جنہوں نے منصوبے کے مطابق پہل کرتے ہوئے سلطنتِ میسور پر حملہ کر دیا۔ حیدر علی نے حملہ رکوانے کے لیے مرہٹوں سے مذاکرات کیے اور انہیں ۳۰ لاکھ روپے کے بدلے واپس جانے پر راضی کیا۔ لیکن جیسے ہی مرہٹے واپس جا رہے تھے آصف جاہ دوم انگریز دستوں کی مدد سے میسور پر حملے کے لیے بڑھ رہا تھا۔ چنانچہ حیدر علی نے نظام سے بھی مذاکرات کیے اور واپس جانے کے بدلے ۱۸ لاکھ روپے دیے۔ لیکن اس سے بڑھ کر یہ کیا کہ اسے قائل کیا کہ بر صغیر میں انگریزوں کے بڑھتے ہوئے خطرے کو روکنے کے لیے وہ دونوں مل کر لڑیں گے۔

نظام کے ساتھ آئے ہوئے برطانوی کرنل سمِتھ کو اس اتحاد کے بارے میں معلوم ہوا تو اس نے پیش بندی کے طور پر مرہٹوں کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ حیدر علی نے جنوبی ہند میں انگریزوں کے مرکز مدراس کی طرف بڑھتے ہوئے راستے میں آنے والی انگریزوں کی وفادار ریاست کرناٹک پر حملہ کیا جو ساحلی شہر مدراس کو تینوں اطراف سے گھیرنے کے سبب انگریزوں کے لیے ایک دفاعی حصار تھی۔ اس طرح ۱۷۶۷ء میں پہلی انگریز میسور جنگ چھڑ گئی۔ ایک طرف میسور کے ساتھ حیدر آباد دکن کی ریاست تھی اور دوسری طرف انگریزوں کے ساتھ کرناٹک کی ریاست اور مرہٹے تھے۔ انگریزوں نے آصف جاہ دوم کو دوبارہ اپنے ساتھ ملانا چاہا لیکن پہلے اس نے انکار کر دیا۔ البتہ جب ابتدائی معرکوں میں اسے حیدر علی کی ناکامی نظر آئی تو اپنا رخ بدل کر انگریزوں کے ساتھ خفیہ مذاکرات شروع کر دیے اور ۵۰ ہزار کے بدلے اگلے سال انگریزوں کو شمالی سرکار کے مزید علاقے دے کر امن کا معاہدہ کر لیا۔ واضح نظر آتا ہے کہ آصف جاہ پہلے ہی حیدر علی سے مخلص نہیں تھا ۔ اسے صرف اپنا خزانہ بھرنے کی فکر تھی۔ البتہ حیدر علی اپنی جنگی حکمت عملی کے بل بوتے پر اکیلا مدراس پہنچنے میں کامیاب ہو گیا جس سے انگریز بوکھلا گئے اور ۱۷۶۹ء میں اس کے ساتھ معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئے۔

دوسری انگریز میسور جنگ

حیدر علی کی نظر میں بر صغیر کو سب سے بڑا خطرہ انگریزوں کی جانب سے لاحق تھا اسی لیے وہ نظام دکن اور مرہٹوں کی توجہ اصل دشمن کی طرف مبذول کراتا رہا اور دونوں کو انگریز کے خلاف اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوا۔ دوسری جانب انگریزوں کے مقابلے کے لیے حیدر علی نے مدراس کے جنوب میں فرانسیسیوں کے ساحلی علاقے ’ماہی ‘ کو اپنی حفاظت میں لے لیا۔ چونکہ وہاں سے حیدر علی کو فوجی کمک ملتی تھی اور انگریزوں کو خبردار کیا کہ یہ علاقہ اب اس کے دائرۂ اختیار میں ہے۔ لیکن برطانیہ نے پہلی میسور جنگ کے اختتام پر طے ہونے والے معاہدے کو ایک سال سے بھی کم مدت میں توڑتے ہوئے ۱۷۸۰ء میں ماہی پر حملہ کر دیا اور اس طرح دوسری انگریز میسور جنگ شروع ہو گئی۔ ابھی میسور کی دوسری جنگ جاری تھی کہ ۱۷۸۲ء میں حیدر علی کا اچانک انتقال ہو گیا اور اس کا بیٹا ٹیپو سلطان ۳۲ سال کی عمر میں سلطان بن گیا۔ وہ ایک تجربہ کار سپہ سالار تھا اور اپنے والد کے زمانے میں میسور کی تمام لڑائیوں میں شریک رہ چکا تھا۔ حیدر علی کے انتقال کے بعد سلطان ٹیپو نے تنہا جنگ جاری رکھی کیونکہ مرہٹے اور نظام دکن انگریزوں کی سازش کا شکار ہو کر اتحاد سے علیحدہ ہو چکے تھے۔ اگر مرہٹے اور نظام انگریز کے خلاف ان جنگوں میں غداری نہ کرتے اور عین وقت پر ساتھ نہ چھوڑتے تو کم از کم جنوبی ہند سے انگریزی اقتدار کا خاتمہ ہو سکتا تھا۔ ان جنگوں میں ٹیپو سلطان نے ہند کی تاریخ میں انگریزوں کو سب سے بڑے نقصان سے دوچار کیا یہاں تک کہ ۱۷۸۴ء میں انگریز انتہائی ذلت آمیز معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئے۔ انگریزوں کے ساتھ براہ راست جنگ ہونے کے باوجود نظام اور مرہٹے جنگ کے بعد بھی چند وقتی مفادات کے بدلے انگریزوں کی خاطر سلطنت میسور کے ساتھ مسلسل جھگڑتے رہے۔

ٹیپو سلطان اور ’سلطنت خدادا دمیسور‘

۱۷۸۶ء میں ٹیپو سلطان نے سلطنت میسور میں مزید اصلاحات لاتے ہوئے ہندو راجے کو یکسر معزول کر کے سلطنت کا نام ’سلطنت خداداد میسور‘ رکھ دیا۔مسلم سلاطین کے تحت میسور جس نقطۂ عروج پر پہنچا وہ اس سے پہلے اپنی پوری تاریخ میں کبھی نہیں پہنچا تھا۔ اگرچہ حیدر علی اَن پڑھ تھا لیکن سیاست ، جنگ اور انتظام کا ماہر تھا۔ جبکہ اس کا بیٹا ٹیپو سلطان پڑھا لکھا بھی تھا اور انتہائی دیندار بھی۔ دونوں باپ بیٹے نے انتہائی مؤثر فوجی اصلاحات نافذ کیں، صنعت و تجارت کو فروغ دیا اور انتظامیہ کو ازسرنو منظم کیا۔ یہ کارنامے اٹھارہویں صدی کے نصف آخر میں کوئی دوسرا حکمران انجام نہیں دے سکا۔ ٹیپو سلطان نے اپنی ریاست کے عوام کی اخلاقی و معاشرتی خرابیاں دور کرنے کے لیے اصلاحات نافذ کیں۔ شراب اور نشہ آور چیزوں پر پابندی لگائی، شادی بیاہ کے موقع پر ہونے والی فضول رسومات بند کرائیں اور غیر شرعی پیری مریدی پر بھی پابندی لگائی۔

ٹیپو سلطان نے ریاست سے جاگیرداری کا نظام ختم کر کے زمینیں کاشتکاروں میں تقسیم کر دیں جس سے کسانوں کو بہت فائدہ پہنچا۔ ٹیپو سلطان نے کوشش کی کہ ہر چیز ریاست میں تیار ہو اور باہر سے منگوانا نہ پڑے۔ اس مقصد کے لیے اس نے کئی کارخانے قائم کیے یہاں تک کہ اپنے والد حیدر علی کی مایہ ناز ایجاد ’میسوری راکٹ‘ سمیت دیگر ہتھیار بھی ریاست میں تیار ہونے لگے۔ بعد میں انگریزوں نے میسوری راکٹ کے طرز پر Congreve راکٹ بنا کر یورپ میں فرانس کے خلاف استعمال کیا اور یوں راکٹ عالمی سطح پر متعارف ہوا۔

ٹیپو سلطان کی اصلاحات سے اگرچہ مفاد پرستوں کو نقصان پہنچا اور بہت سے لوگ سلطان کے خلاف بھی ہوئے لیکن عوام کی خوشحالی میں اضافہ ہوا اور ترقی کی رفتار تیز ہو گئی۔ میسور کی خوشحالی کا اعتراف اس زمانے کے ایک انگریز نے ان الفاظ میں کیا:

میسور ہندوستان کا سب سے سر سبز علاقہ ہے۔ یہاں ٹیپو کی حکمرانی ہے۔ میسور کے باشندے ہندوستان میں سب سے زیادہ خوشحال ہیں۔ اس کے برعکس انگریز مقبوضات صفحۂ عالم پر بدنما دھبّوں کی حیثیت رکھتے ہیں، جہاں رعایا قانونی شکنجوں میں جکڑی ہوئی پریشان حال ہے۔“6

جنگی قابلیت کے علاوہ ٹیپو سلطان کے تحت میسور کی یہ ترقی بھی انگریزوں کو بہت ناگوار گزری۔ اس لیے انہیں ٹیپو جنوبی ہند پر اپنے اقتدار کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ نظر آنے لگا۔

بنگال اور شمالی ہند میں انگریزوں کو مسلمانوں کی طرف سے کسی سخت مقابلے کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ان کی منظم افواج اور برتر اسلحے کے آگے کوئی نہ ٹھہر سکا لیکن جنوبی ہند میں یہ صورت حال نہیں تھی۔ یہاں حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے قدم قدم پر انگریزوں کی جارحانہ کارروائیوں کا مقابلہ کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اورنگ زیب عالمگیر کے انتقال کے بعد اسلامی ہند میں حیدر علی اور ٹیپو سلطان جیسی حیرت انگیز صلاحیت رکھنے والا کوئی تیسرا حکمران نظر نہیں آتا جنہوں نے دورِ زوال میں بے مثل سیاسی قابلیت، تدبر اور بہادری سے میدان جنگ میں کئی بار انگریزوں کو شکست دی۔

میسور کے فرانس کے ساتھ تعلقات

اس حقیقت سے انکار نہیں کہ حیدر علی اور ٹیپو سلطان کے دور میں سلطنت میسور کے فرانس کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ لیکن ان تعلقات کی نوعیت آصف جاہ دوم کے انگریز کے ساتھ تعلقات سے بالکل مختلف تھی۔ فرانسیسیوں سے روابط کی ایک وجہ یورپ میں برطانیہ اور فرانس کی باہمی جنگیں تھیں جن کے اثرات ہند میں بھی دکھائی دے رہے تھے۔ ہند کے مشرق اور شمال میں انگریز کے غلبے کو دیکھتے ہوئے اور صلابت خان کے قتل کے بعد فرانس مجبور تھا کہ وہ جنوب میں کسی مضبوط ریاست سے اتحاد کرے اور میسور اس کے لیے سب سے زیادہ موزوں تھی کیونکہ حیدر علی فرانس کے ساتھ تعلقات استوار ہونے سے پہلے ہی انگریزوں کے خلاف لڑ رہا تھا۔ دوسری طرف انگریز کے خلاف لڑنے کے لیے سلطنت میسور کو بھی جدید جنگی مہارتوں اور ہتھیاروں کی ضرورت تھی جو فرانس فراہم کرنے کے لیے تیار بیٹھا تھا۔ لیکن اس حوالے سے بھی میسور نے فرانس پر کلی انحصار نہیں کیا بلکہ اپنی مملکت میں ہی اسلحے کے مقامی کارخانے بنا ڈالے۔ حیدر علی اور ٹیپو سلطان کو ہند میں فرانسیسیوں کی کمزوری صاف نظر آ رہی تھی اس لیے وہ انگریزوں کی بڑھتی ہوئی قوت کو سب سے بڑا خطرہ سمجھتے تھے۔ صلابت خان کے بر خلاف ان دونوں نے فرانس کو اپنی حکومت پر اثر انداز ہونے کا موقع دینے کے بجائے الٹا کمزور دشمن کو مشترکہ طاقتور دشمن کے خلاف استعما ل کیا ۔ ذہن میں رہے کہ دوسری انگریز میسور جنگ کے عین درمیان ۱۷۸۳ میں فرانس جنگ سے نکل گیا تھا کیونکہ اس وقت یورپ میں اس کا برطانیہ سے معاہدہ ہو چکا تھا لیکن پھر بھی ۱۷۸۴ تک ٹیپو سلطان انگریزوں سے اکیلا لڑتا رہا اور انگریزوں کو ہند میں سب سے ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا۔

تیسری انگریز میسور جنگ میں جب نظام نے الٹا انگریز کا ساتھ دیا ،ٹیپو سلطان نے ہمسایہ اسلامی مملکت ارکال کی سلطانہ ’علی راجہ بی بی جنومابی ‘ اور ’ماپیلا‘ کے مسلمانوں سے مدد حاصل کی جبکہ جنوب میں واقع انگریزوں کی اتحادی ہندو ریاست ٹراونکور پر حملہ کیا۔ اور چوتھی انگریز میسور جنگ میں سلطان ٹیپو کرناٹک کے نواب اور مغل سلطنت کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوا۔ اس پورے منظر نامے سے معلوم ہوتا ہے کہ نظام کے بر خلاف حیدر علی اور ٹیپو نے کبھی بھی اپنی ہمسایہ اسلامی سلطنتوں کو بنیادی دشمن نہیں بنایا ،بلکہ ان کی جنگ کا محور و مرکز انگریز اور ہندو رہے تھے۔ دشمنوں کا یہ چناؤ وقت کی بہترین حکمت عملی اور اسلام سے وفاداری تھی۔ دوستی اور دشمنی کا یہ معیار نظام الملک آصف جاہ دوم کے نام ٹیپو سلطان کے خط میں بھی واضح طور پر نظر آتا ہے۔ جس میں ٹیپو سلطان لکھتے ہیں:

میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ مرہٹوں کے ساتھ مل کر اپنے ہی ملک کے باشندوں کو تباہ کرنے ، ملک کو کھوکھلا کرنے اور اس کے معاشی اور ثقافتی حالات کو تباہ و تاراج کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ معلوم ہو کہ آپ دونوں کی ملی بھگت کی وجہ سے میرا ملک اور وطن پامال اور میری رعایا کو شکستہ حال کیا جا رہا ہے۔ میں نے آپ کو رازداری میں یہ بھی سمجھا یا تھا کہ اگر آپ اور میں دونوں مل کر ہم خیال بن جاتے ہیں تو مرہٹوں کی کیا مجال کہ وہ ہماری ریاستوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہی ہے کہ اپنی عیاری اور چالاکی کی وجہ سے انگریز آپ کو مجھ سے ملنے نہیں دیتے اور آپ کے دل میں کدورت بھرتے چلے آ رہے ہیں۔ اور تعجب ہے کہ آپ اس بات کوسمجھ نہیں رہے ہیں۔وہ آپ کو اکسا رہے ہیں کہ آپ مرہٹوں کے ساتھ مل کر میرے خلاف فوج کشی کرتے رہیں۔“

انگریزوں کے خلاف جہاد

انگریزوں اور میسور کے درمیان دوسری انگریز میسور جنگ کو چھ سال ہوئے تھے کہ انگریزوں نے حسب معمول معاہدے کو بالائے طاق رکھ کر نظام حیدر آباد اور مرہٹوں کے ساتھ مل کر میسور پر حملہ کردیا اور اس طرح ۱۷۹۰ میں انگریز میسور کی تیسری جنگ کا آغاز ہوا۔ یاد رہے کہ جہاں سلطنت میسور انگریزوں کے خلاف مسلسل تناؤ کی کیفیت میں تھی ،نظام انگریزوں کے سامنے مسلسل بچھے جا رہا تھا یہاں تک کہ ۱۷۸۸ میں اس نے تیسری دفعہ آخری شمالی سرکار بھی انگریزوں کو دو فوجی بٹالین کے بدلے دے دی۔ نظام کی یہ حرکت انگریز کے لیے تیسری میسور جنگ سے پہلے ہی بڑی کامیابی تھی جس کے نتیجے میں انہوں نے مشرق کے علاوہ میسور کی شمالی سرحد، حیدر آباد دکن میں اپنی فوج تعیّنات کر دی اور نظام کی حمایت بھی یقینی بنا لی ۔ اس سہ فریقی قوت کا مقابلہ ٹیپو سلطان کے بس میں نہیں تھا اس لیے دو سال مقابلہ کرنے کے بعد وہ صلح کرنے پر مجبور ہوا جس میں اسے اپنی نصف ریاست سے دستبردار ہونا پڑا۔

جنگ میں یہ ناکامی ٹیپو سلطان کےلیے بڑی تکلیف دہ ثابت ہوئی، یہاں تک کہ اس نے ہر قسم کا عیش و آرام ترک کردیا اور اپنی پوری توجہ انگریزوں کے خطرے سے نبٹنے پر مرکوز کر دی۔ نظام دکن اور مرہٹوں کی طرف سے وہ مایوس ہو چکا تھا اس لیے اس نے افغانستان، ایران اور یہاں تک کہ عثمانی خلافت تک اپنے سفیر بھیجے اور انگریزوں کے خلاف متحدہ اسلامی محاذ بنانا چاہا۔لیکن افغانستان کے بادشاہ زمان شاہ کے علاوہ اور کوئی ٹیپو سے تعاون کرنے کی حالت میں نہیں تھا۔ شاہ افغانستان بھی پشاور سے آگے نہ بڑھ سکا کیونکہ انگریزوں نے ایران کو بھڑکا کر افغانستان پر حملہ کرادیا اور زمان شاہ کو واپس کابل جانا پڑا۔ جبکہ عثمانی سلطان سلیم ثالث مصر سے فرانس کا قبضہ ختم کرانے میں برطانیہ کی مدد وصول کرنےکے باعث انگریزوں کے خلاف ٹیپو سلطان کی مدد نہ کر سکا۔

انگریزوں نے ٹیپو سلطان کے سامنے امن قائم کرنے کے لیے فوجی امداد کے نظام Subsidiary System کے تحت ایسی شرائط پیش کیں جن کو کوئی باعزت حکمران قبول نہیں کرسکتا تھا۔ اگرچہ نواب اودھ اور نظام دکن ان شرائط کو تسلیم کرکے انگریزوں کی بالادستی قبول کر چکے تھے جس کے بعد حیدر آباد کی آصف جاہی مملکت اپنے قیام کے ۷۴ سال بعد انگریزوں کی ماتحت ریاست بن گئی تھی۔ مگر ٹیپو کے انکار پر ۱۷۹۹ء میں انگریزوں نے میسور کی چوتھی جنگ چھیڑ دی۔ اگرچہ میسور کے دار الحکومت سرنگاپٹم کی شکست یقینی ہوچکی تھی لیکن ٹیپو نے محاصرہ کرنے والے انگریزوں کے خلاف بھرپور مزاحمت کی اور قلعے کو بند کروادیا۔ اس نازک موقع پر ٹیپو کے وزیراعظم میر صادق ، درباری غلام علی، اور فوجی سردار پورنیا نے اندرونِ خانہ انگریزوں سے ساز باز کرلی ۔ میر صادق نے انگریزوں کو سرنگاپٹم کے قلعے کا نقشہ فراہم کیا اور پورنیا اپنے دستوں کو تنخواہ دینے کے بہانے فوج کو دار الحکومت سے پیچھے لے گيا۔اس طرح انگریز قلعے میں داخل ہو گئے اور قلعے کے اندر زبردست جنگ چھڑ گئی۔ لیکن بارُود کے ذخیرے میں آگ لگ جانے کے باعث مزاحمت کمزور پڑگئی۔ اس موقع پر ایک فرانسیسی افسر نے ٹیپو کو جان بچانے کے لیے بھاگ جانے کا مشورہ دیا تو ٹیپو نے اپنا مشہور جملہ کہا:

شیر کی ایک دن کی زندگی ، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔“

جب ٹیپو سلطان براہ راست مقابلہ کرنے کے لیے قلعے کے دروازے سے باہر نکلا تو میر صادق نے پیچھے سے دروازہ بند کرا دیا اور سلطان کی موجودگی کی اطلاع انگریزوں کو دے دی جس کے نتیجے میں انگریز قلعے کے تمام اطراف سے سمٹ کر دروازے پر گولیاں برسانے لگے۔اس سخت حالت میں بھی ٹیپو سلطان نے بہادری سے لڑتے ہوئے کئی انگریزوں کو جہنم واصل کیا اور بالآخر ۴ مئی ۱۷۹۹ء کو جام شہادت نوش کیا۔

مجاہد ٹیپو سلطان ﷫کی شہادت سے میسور کی اسلامی ریاست ختم ہو گئی اور انگریزوں نے مملکت میسور پر دوبارہ ہندو شاہی خاندان کے ایک فرد کو اعزازی راجہ مقرر کیا اور انتظامات خود اپنے ہاتھ میں رکھ لیے۔ سراج الدولہ، واجد علی شاہ اور بہادر شاہ ظفر کے مقابلے میں ٹیپو سلطان کی موت کتنی شاندار تھی۔ جب انگریز جنرل کو سلطان کی شہادت کی اطلاع ملی تو وہ چیخ اٹھا کہ : ” اب ہندوستان ہمارا ہے“۔ انگریزوں نے گرجوں کے گھنٹے بجا کر اور مذہبی رسوم ادا کرکے سلطان کی موت پر مسرت کا اظہار کیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے ملازمین کو انعام و اکرام سے نوازا۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ اب ہندوستان میں برطانوی اقتدار مستحکم ہو گیا اور اس کو اب کوئی خطرہ نہیں۔

۱۹۴۷ میں تقسیم ہند کے وقت میسور کے ودیار راجے نے ریاست میسور کا انڈیا سے الحاق کر دیا۔ ۱۹۵۶ میں بھارتی حکومت نے لسانی بنیادوں پر مدراس، حیدر آباد اور بمبئی کے کئی علاقوں کو میسور میں شامل کر دیا اور ۱۹۷۰ میں اس وسیع ریاست کا نام بدل کر کرناٹکا رکھ دیا اور یوں سلطنت میسور اپنوں کی غداری کے سبب صفحۂ ہستی سے مٹ گئی۔

ہند میں مسلمانوں کا زوال

اسلامی سلطنت میسور نے نظام آصف جاہ دوم کے ساتھ متحدہ محاذ بنا کر انگریزوں کو نکالنے کا جو منصوبہ تیار کیا تھا اگر نظام اس میں تعاون کرتا تو شاید آج بر صغیر کی تاریخ مختلف ہوتی۔ ۱۷۹۸ میں نظام نے ذلت آمیز شرائط کو مانتے ہوئے انگریزوں کے فوجی امدادی نظام کو قبول کرتے ہوئے ان کی بالادستی قبول کی۔ پھر ٹیپو سلطان کی شہادت سے انگریزوں کا سب سے طاقتور حریف ختم ہونے کے بعد آصف جاہ دوم ان کے مقابلے میں بالکل ہی بے بس ہو گیا۔ یہاں تک کہ اس کی رہی سہی آزادی ۱۸۰۰ء میں ختم کردی گئی اور حیدر آباد برطانوی ہند کی ایک محکوم ریاست بن گئی۔

۱۷۶۱ میں جب سلطان حیدر علی اور نظام آصف جاہ اول اپنی اپنی ریاستوں کے حکمران بنے اس وقت پانی پت کی جنگ میں احمد شاہ ابدالی نے مغلیہ سلطنت کو مرہٹوں سے بچانے کے لیے دہلی پر حملہ کیا تھا جس میں فتح حاصل کرنے کے بعد احمد شاہ کمزور مغل بادشاہ شاہ عالم دوم کو مقرر کر کے واپس چلا گیا۔ احمد شاہ کے جانے کے بعد مغلیہ سلطنت کی آخری امید ریاست حیدر آباد سے وابستہ تھی لیکن حیدر آباد دکن خود انگریزوں کے سامنے بچھا جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ پہلی میسور جنگ کے بعد آصف جاہ دوم اتنا کمزور ہو گیا کہ ۱۷۷۲ میں مرہٹے دوبارہ دہلی پر قابض ہو گئے۔ اور دوسری میسور جنگ ختم ہوتے ہی ۱۷۸۴ میں مرہٹوں نے ریاست حیدر آباد کے بجائے اپنے آپ کو مغلیہ سلطنت کا حامی قرار دے دیا۔ ۱۸۱۸ میں انگریز نے مرہٹوں کو شکست دی اور اب ہندو مرہٹوں کی جگہ عیسائی انگریز مغلیہ سلطنت کے حامی بن گئے۔ بعد میں انگریزوں نے ہند پر استعماری حکومت کا اعلان کر دیا جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر ہلچل پیدا ہوئی اور ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی برپا ہوئی۔ جنگ آزادی میں مسلمانوں کی شکست پر آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو جلا وطن کر کے ہندوستان ایسٹ انڈیا کمپنی کے بجائے براہ راست برطانوی بادشاہ کے راج میں چلا گیا۔ یہاں تک کہ تحریک آزادی ہند کے نتیجے میں ہندوستان ۱۹۴۷ میں ہندو اور مسلم کے اکثریتی علاقوں کی بنا پر دو علیحدہ ریاستوں میں تقسیم ہو گیا۔

تقسیم ہند کے وقت حیدر آباد کے نظام آصف جاہ ہفتم عثمان علی خان نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ نہ انڈیا کے ساتھ الحاق کرے گا اور نہ پاکستان کے ساتھ ۔لیکن یہ انڈیا کو منظور نہیں تھا جبکہ پاکستان میں نہ اتنا دم خم تھا اور نہ ہی سیاسی ارادہ تھا کہ حیدر آباد اور اس کے مسلم عوام کے بارے میں کچھ سوچے۔ انڈیا سے لاحق خطرے کے تناظر میں نظام نے اقوام متحدہ اور برطانیہ کی طرف رجوع کیا، لیکن یہ کچھ ایسا ہی کھیل تھا جیسے غرناطہ کے ابو عبد اللہ الصغیر نے کھیلا۔ انڈیا نے ۱۳ ستمبر ۱۹۴۸ کو ریاست میں فوجی آپریشن شروع کر دیا جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر ہندو مسلم فسادات پھیل گئے ۔ انڈین حکومت کی رپورٹ کے مطابق ۲۷ سے ۴۰ افراد ہلاک ہوئے لیکن دیگر آزاد ذرائع کے مطابق ہلاکتیں ۲ لاکھ سے زیادہ تھیں جن میں اکثریت مسلمان تھی۔ یہ انڈین فوج اور مقامی ہندوؤں کی طرف سے مسلم خواتین کی عصمت دری کے علاوہ تھا جس سے بربشتر پر فرانسیسی حملےکی یاد آتی ہے۔ لیکن مشرق و مغرب میں ہمسایہ پاکستان احمد بن ہود کی طرح تماشائی بنا رہا۔ نظام نے اگرچہ اقوام متحدہ کو اس نا جائز حملے سے آگاہ کیا تھا لیکن کسی طرف سے کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملنے پر ۱۷ ستمبر کو انڈیا کے سامنے تسلیم ہو گیا۔ ابتدائی طور پر ریاست کو بعینہ ہندی اتحاد میں شامل کر لیا گیا لیکن ۱۹۵۶ء میں اسے لسانی بنیادوں پر توڑ کر پڑوسی ریاستوں آندھرا پردیش، کرناٹکا اور مہاراشٹر میں تقسیم کر کے صفحۂ ہستی سے ختم کر دیا گیا۔

کل اندلس اور آج ہند

تقسیم ہند کے بعد

یہ نہ سمجھیے کہ اندلس اور ہند کا ماضی دوبارہ نہیں دہرایا گیا اور نہ دہرایا جا سکتا ہے۔ بلکہ کئی دفعہ ماضی کی نسبت زیادہ شدت سے دہرایا گیا۔ بر صغیر کی استعماری طاقتوں سے نام نہاد آزادی کے بعد بھی مسلمانوں نے اپنے ماضی سے سبق نہ سیکھا اور دور جدید میں بھی دوستی اور دشمنی کا معیار عقیدہ ’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘ کے بجائے ذاتی خواہشات ، وقتی مفادات اور کفریہ نظریات کو بنائے رکھا۔ ہند کے تقسیم ہوتے ہی مسلمان گویا تین بھائیوں میں تقسیم ہو گئے۔ ’مشرقی‘ بنگلہ دیش،’وسطی‘ انڈیا اور ’مغربی‘ پاکستان7۔ اگرچہ مشرقی اور مغربی بھائی نے ۱۹۷۱ میں باقاعدہ طور پر آپس میں زمین تقسیم کر لی لیکن اس کی ابتدا تقسیم ہند کے محض دو سال بعد یعنی ۱۹۴۹ میں ہی شروع ہو گئی تھی جب’مشرقی پاکستان عوامی مسلم لیگ‘ بنگالی قومیت کی بنیاد پر ’پاکستان مسلم لیگ‘ سے علیحدہ ہو گئی۔ اور وسطی بھائی کا یہ خیال تھا کہ وہ ’سیکولر‘ نظریے کو اپنا کر ہندو اکثریت علاقے میں اپنا دین بچانے میں کامیاب رہے گا۔ اگرچہ ان میں بہت سے ایسے بھی تھے کہ وسائل نہ ہونے کے سبب ہجرت نہ کر سکے۔ سیکولرزم کو قبول کرنے کے بعد وسطی بھائی کی آل اولاد میں سے بعض ’مذہبی سیکولر‘ بن گئے اور بعض مکمل ’لا دین سیکولر‘ بن گئے۔

مشرقی اور مغربی بھائیوں کے درمیان جھگڑا ’علاقائی‘ اور ’لسانی‘ حقوق سے شروع ہوا ،لیکن جلد ہی اس جھگڑے نے ’مذہب‘ کی بنیاد پر قائم ہونے والے ’دو قومی نظریے‘ میں دراڑ پیدا کر کے ’وطن‘ اور ’زبان‘ کی بنیاد پر ’دو قومی نظریہ‘ اپنا لیا، جو کہ مغرب میں انقلابِ فرانس کے بعد جدید ریاستوں کے وجود کا منبع ہے۔ جبکہ اسلام میں انسانوں کی تقسیم ’عقیدے ‘ اور ’تقوی‘کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ پھر ان دونوں بھائیوں نے محض داخلی اختلافات پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ بنی ہود اور دکن کے نظام کی طرح ایک دوسرے کے خلاف بیرونی کفریہ طاقتوں کا سہارا بھی لیا۔ چنانچہ مشرقی بھائی نے اشتراکیت کی جانب مائل ہو کر اپنے ہمسائے اور ہم فکر ہندو انڈیا سے مدد لینا شروع کی۔ جبکہ مغربی بھائی نے سرمایہ دارانہ نظام کو پسند کیا اور براہ راست صلیبی امریکہ کے ساتھ تعلقات استوار کیے یہاں تک کہ بنی ہود، بنی نصر اور آل ِنظام دکن کی طرح اس سے مشترکہ فوجی معاہدے بھی طے کر لیے۔

پھر یہ تنازعے نظریاتی جنگ سے بڑھ کر شخصی مفادات اور اقتدار کی جنگ بن گئی۔ خصوصا ًجب مغربی پاکستان میں سرمایہ دارانہ نظام کے حامی جنرل ایوب کو اشتراکیت کے حامی ذو الفقار علی بھٹو نے سیاسی چالوں ،سازشوں اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے اقتدار سے الگ ہونے پر مجبور کر دیا، جب کہ مشرقی پاکستان میں تو پہلے ہی اشتراکیت کے حامی شیخ مجیب الرحمن کا اقتدار تھا، تو پھر ان دونوں اشتراکی بھائیوں نے جنگ کیوں کی؟ دونوں کہنے کو غریب عوام کے حقوق کے لیے اٹھے تھے۔ واضح نظر آتا ہے کہ ان دونوں بھائیوں کے درمیان قومیت اور لسانیت یا سرمایہ دارانہ اور اشتراکی نظریات کے اختلافات کے بجائے اقتدار کا نشہ غالب تھا۔

لیکن دور جدید کے بھائی باہمی افتراق اور اغیار سے اتفاق میں اندلس اور ہند کے اسلاف سے بہت آگے نکل گئے۔ مشرقی بھائی نے ’ہم مذہب‘ مغربی بھائی کے خلاف علاقائی لسانی اور قومی تعصب کو اتنا بڑھایا کہ اسے فکر اپنے ساتھ ’ہم مذہب‘ کے بجائے’ہم وطن‘ ہندوؤں کو ملانے کی پڑ گئی۔ اور اس کی خاطر ۱۹۵۳ میں ’پاکستان عوامی مسلم لیگ‘ سے ’پاکستان‘ کے ساتھ ساتھ ’مسلم‘ کا لاحقہ بھی ہٹا کر ’عوامی لیگ‘ بنا دی۔ جبکہ مغربی بھائی اور اس کی محافظ ’پاک‘فوج نے تمام حدوں کو توڑتے ہوئے مشرقی ’ہم مذہب‘ بھائیوں پر ایسی جنگ مسلط کی جس میں صرف ظلم و غارت گری کو ہی نہیں بلکہ جنسی استحصال تک کو روا رکھا گویا کہ وہ کبھی ’مسلمان‘ ہی نہ تھے!! ’ڈھاکہ‘ کے واقعات اتنے بھیانک ہیں جن کے سامنے ’بربشتر‘ میں عیسائیوں کے اور ’حیدر آباد‘ میں ہندوؤں کے ظلم کا کوئی مقابلہ نہیں۔ بالآخر نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ مشرقی بھائی کھلم کھلا ہندو ہمسائے کی گود میں بیٹھ گیا اور مغربی بھائی نے اس اتحاد کے خلاف عیسائی امریکہ سے مدد طلب کر لی!!

جدید دور میں بھائیوں کے جھگڑے ماضی کے جھگڑوں سے اس لیے بھی زیادہ شدید تھے کہ ماضی میں بھائیوں کے جھگڑے عوام کو نظریاتی اور فکری بنیادوں پر تقسیم کر کے نہیں کیے جاتے تھے بلکہ وہ صرف ذاتی نوعیت کے ہوتے تھے۔ اس لیے ماضی میں عوام اور عوام کا اسلام حکمرانوں کے باہمی جھگڑوں میں محفوظ رہتا تھا۔ جبکہ جدید دور میں ان جھگڑوں کی بنیاد ہی عوام میں نظریاتی اور فکری اختلافات کو پروان چڑھا کر ڈالی جاتی ہے جس سے نہ عوام محفوظ رہتے ہیں اور نہ ان کا دین اور وطن۔ حقیقت میں جدید کفریہ نظریات اپنی ساخت میں محض نظریات ہی نہیں بلکہ مکمل ’مذہب ‘ کے مشابہ ہیں جن کا دین اسلام سے جوڑ مشکل سے ہی کیا جا سکتا ہے۔

مزید برآں ماضی میں تنازعے اول تو محلاتی سازشوں تک محدود رہتے تھے جہاں مد مخالف کے صرف ایک شخص کو قتل یا قید کرنے سے معاملہ حل ہو جاتا تھا۔ اور اگر جنگیں لڑی بھی جاتی تھیں تو میدان جنگ میں مسلح افواج کے درمیان جبکہ عوام اور وطن کے نجی اور قومی املاک سے تعرض نہ کیا جاتا تھا۔ لیکن چونکہ جدید دور میں یہ تنازعے شخصی اور انفرادی دائرے سے بڑھ کر عوامی بنا دیے گئے اس لیے اب مسئلہ ایک دو کے قتل سے حل نہیں ہوتا اور نہ ہی آپس میں برابر مسلح قوتوں کے درمیان ہوتا ہے۔ اس لیے ایسی جنگیں شروع ہو گئیں جہاں ایک طرف مسلح فوج ہے اور دوسری طرف نہتے عوام اور املاک۔ اور ۱۹۷۱ میں مردوں کو چھوڑ کر پاک دامن خواتین کی عصمت دری سے بھی گریز نہ کیا گیا!! کیا اسفل سافلین کے اس مرتبے سے کوئی اسفل مرتبہ ہو سکتا ہے!! کیا بنی ہود کے بھائیوں نے آپس میں یہ حد پار کی یا دکن کے نظام اور سلطان میسور نے۔

تقسیم پاکستان کے بعد

وسطی بھائی ۱۹۴۷ میں پہلے ہی جدا ہو چکا تھا اور اب ۱۹۷۱ میں مشرقی بھائی اور مغربی بھائی بھی آپس میں جدا ہو گئے۔ لیکن زمین اور اقتدار کو آپس میں تقسیم کرنے کے بعد اور اپنے جدا جدا ملک میں خوشی خوشی رہنے کے باوجود ان تینوں بھائیوں کی دوریاں ختم نہ ہوئیں۔ کیونکہ ان تینوں نے یہ دوریاں ماضی کی طرح محض ذاتی مفادات کے تحت نہیں اپنائیں بلکہ آپس میں ملانے والے ’مذہب‘ کے بجائے اپنے عوام میں ’مذہب‘ کے علاوہ قومی، لسانی اور اقتصادی نظریات پھیلا دیے۔

وسطی بھائی کا تو حال یہ ہے کہ اسی کی سرزمین پر ہندو اکثریت نے کشمیری مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے اور ان کا علاقہ ان کے لیے ایک بڑے فوجی کیمپ میں تبدیل کر دیا ۔ لیکن یہ بھائی وہاں جا کر لڑنا تو چھوڑیے ان کے لیے آواز بھی نہیں اٹھا سکتے کہ کہیں ان کے ’سیکولر‘ نظریہ پر زد نہ پڑ جائے جو انہیں اپنے ’مذہب‘ سے زیادہ عزیز ہے۔ ظاہر ہے کہ تقسیم ِہند سے پہلے اسلامی سلطنتوں کے تحت اسلام کے بل بوتے پر حقوق حاصل تھے اور تقسیم ہند کے بعد اب سیکولرزم کے بل بوتے پر۔ یہ تو چھوڑیے اب تو وسطی بھائی کے آل اولاد یہ فرما رہے ہیں کہ اگر گجرات میں مسلمانوں پر زیادتی ہوتی ہے تو دہلی والے جز بز نہ ہوں۔ اور اگر اتر پردیش میں مسلمانوں کو کوئی مسئلہ در پیش ہے تو کیرالا کے مسلمانوں کو کیا پڑی ہے کہ شور مچائیں۔ ہر کوئی اپنی مقامی حکومت کی طرف رجوع کرے تاکہ ہندو اکثریت کی بھارت ماتا پر آنچ نہ آئے، جو سب کی ماں ہے انہیں کھلاتی پلاتی ہے۔ ہاں اگر ماں اپنے سگے بیٹے کی خاطر سوتیلے بیٹے کو قتل بھی کر دے تو اس کی مرضی! ماں کا مرتبہ تو کم نہیں ہونا چاہیے نا ورنہ پورا خاندان ٹوٹ جائے گا۔

مغربی بھائی کے انڈیا میں خطۂ کشمیر سے کئی مفادات وابستہ تھے جن میں اہم ترین پانی ہے ،اس لیے اسے یہاں کے ’مذہبی‘ بھائی یاد آ گئے اور اپنے مفادات کی خاطر ان کا نام لے کر ۱۹۶۵ اور ۱۹۹۹ میں جنگیں لڑیں۔اندلس کےابن ہود اور ابن الاحمر نے فتح حاصل کرنے کے بعد المقتدر باللہ اور الغالب باللہ کا لقب اپنایا اور یہاں جنگیں ہارنے کے باوجود فوج ’ہیرو‘ بن گئی!رہے کشمیر کے علاوہ وسطی بھائی کی آل اولاد تو وہ مغربی بھائی کو اگر کبھی یاد بھی آ جائے تو زبانی جمع خرچ کے علاوہ اس کے پاس کچھ نہیں۔ اور اگر کچھ کہہ دے تو وسطی بھائی الٹا شور مچاتے ہیں کہ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں، ہمیں مرنے دیں لیکن افسوس تک نہ کریں! جبکہ مشرقی بھائی تو مغربی بھائی سے علیحدہ ہی وسطی بھائی کے حکمرانوں کے سبب ہوا تھا اب یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے محسن کے احسانات فراموش کرے اور ان کے داخلی ’مذہبی‘ معاملات میں دخیل ہو؟

وسطی ہند کا کون سا علاقہ ہے جہاں مسلمانوں پر ظلم نہ ڈھائے گئے ہوں اور اب تو ہندوؤں نے کھلم کھلا صرف مسلمانوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ دین اسلام کے خلاف جنگ چھیڑ دی ہے۔ مساجد منہدم کی جا رہی ہیں ، اذان اور حجاب جیسے شعائر پر پابندی لگائی جا رہی ہے، یہاں تک کہ پیغمبر پاک ﷺ کی گستاخی کی جانے لگی ہے لیکن مشرقی اور مغربی بھائی ایسے خاموش ہیں جیسے یہ ایک دوسرے کے مسلم بھائی تو چھوڑیے ہمسائے بھی نہیں ہیں جن کے اسلام میں بے شمار حقوق مقرر کیے گئے ہیں!

یہ تینوں بھائی صرف آپس میں ہی نہیں کٹے رہے بلکہ اپنی سرحدات کے مشرق اور مغربی میں دیگر اسلامی بھائیوں کے ساتھ بھی ان کا کردار ویسا ہی ہے جیسا کہ ان کا آپس میں ہے۔ مشرقی بھائی اپنے مشرق میں ’ہم مذہب‘ اراکان کے روہنگیا پر برمی بدھوں کے مظالم دیکھتا رہا یہاں تک کہ وہاں کے مسلمان جان بچا کر بھاگے آ رہے تھے ۔لیکن اسے اتنی ہمت کہاں کہ وہ برمی بدھوں کو دھمکی دیتا، اسے بس یہ فکر دامن گیر رہی کہ ان مسلمان مہاجرین کا بوجھ وہ کیسے سنبھالے اور آج تک برمی بدھوں سے عاجزانہ التجائیں کر رہا ہے کہ انہیں کسی طریقے سے واپس لے لیں۔ اور جب تک ایسا نہیں ہوتا انہیں آباد کرنے کے لیے طوفانوں کی زد میں رہنے والی خلیج بنگال کے وسط میں حال ہی میں ابھرنے والے جزیرے پر کیمپ بنانے پر فخر کر رہا ہے۔

جبکہ دوستی اور دشمنی کے الٹے پیمانے میں مغربی بھائی حسب سابق مشرقی بھائی سے اس وقت سبقت لے گیا جب اس کے مغرب میں واقع ’ہم مذہب‘افغانی بھائیوں کے خلاف صلیبی امریکہ نے حملہ کیا تو وہ اتنا بھی نہ کر سکا کہ انہیں راہداری دینے سے انکار کرے اور الٹا اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف صلیبیوں کا اتحادی بن گیا ۔ بالکل ویسے ہی جیسے ابن الاحمر نے اشبیلیہ کی مملکت کے خلاف ہسپانوی صلیبیوں کا ساتھ دیا اور نظام آصف جاہ دوم نے سلطنتِ خداداد میسور کے خلاف صلیبی انگریزوں کا ساتھ دیا۔ مغربی بھائی نے عیسائیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل کو ہی آسان نہیں بنایا، بلکہ جو مسلمان وہاں سے بھاگ کر پناہ لینے آیا اسے یا قتل کیا اور یا گرفتار کر کے عیسائیوں کی تحویل میں دیا!

مغربی بھائی اپنے ملک میں اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ زیادتی کرتا ہے تو مشرقی بھائی کو پروا نہیں ہوتی اور مغربی بھائی ایسا کرتا ہے تو مشرقی بھائی لا تعلق نظر آتا ہے۔ جبکہ وسطی بھائی نے تو اپنے وطن میں ہی مسلمانوں سے رشتے کاٹ لیے ہیں ہمسایوں کا کیا پوچھے گا۔ انڈیا میں ہندو جتنے بھی مظالم ڈھائیں نہ یہ بھائی مشرقی اور مغربی بھائیوں کو پکارتا ہے اور نہ یہ دونوں بھائی اس سے کچھ واسطہ رکھتے ہیں!! یہاں تک کہ ہندوؤں نے اب اندلس کے عیسائیوں کی طرح اپنے ملک سے مسلمانوں کے وجود کو صاف کرنے کی ٹھان لی ہے۔ لیکن مغربی اور مشرقی ہند کے مسلمان ویسے ہی سو رہے ہیں جیسے اندلس کے دور میں عثمانی خلافت اور مغرب اسلامی کی مسلم سلطنتیں ان سے لا تعلق تھیں، یہاں تک کہ اندلس میں دم توڑتے مسلمان کی آخری چیخ پر بھی کسی نے کان نہ دھرے۔ تو کیا ہند کے مشرق و مغرب کے مسلمان بھی ایسی حالت کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے؟حکمران کو تو چھوڑیے غیور مسلم عوام کو کیا ہو گیا!! اور یہ نہ سمجھیے کہ انڈیا کے ہندو اپنے ملک سے مسلمانوں کا صفایا کرنے کی حد پر رک جائیں گے ،بلکہ اس کے بعد ان کا اگلا حملہ مشرقی بھائی پر ہو گا جہاں آج بھی مسلمان انڈیا کی بڑھتی ہوئی دخل اندازی سے پریشان ہیں۔ اور کچھ بعید نہیں کہ کشمیر کے بہانے وہ مغربی بھائی سے بھی مناسب وقت پر لڑنے کے لیے میدان میں اتر آئے کیونکہ اس کی نظر میں پاکستان کے قبضے میں موجود کشمیر بھی اصل میں اسی کا حصہ ہے۔ یہ نہیں تو کشمیر میں کسی بھی جہادی کارروائی کے بعد پاکستان کے شہروں کو نشانہ بنائے!

اندلسی مؤرخ ابن حیان قرطبی نے بربشتر کے واقعے کو قریب سے جانا اور اپنی تاریخ میں درج کیا۔ واقعہ پر ان کا تبصرہ آج ’تمام‘ مسلمانانِ ہند کے لیے اسی طرح کارگر ہے جیسا کہ اس وقت اندلس کے مسلمانوں کے لیے تھا۔ وہ لکھتے ہیں:

اس واقعے سے ہمارے اسلاف نے ہمیں بخوبی خبردار کیا تھا۔ لیکن ہم اپنی باہمی نا چاقی کی بیماری پر پردہ ڈالتے رہے یہاں تک کہ گھاٹی کے دہانے پر پہنچ گئے۔ ہمارے ضمیر مر گئے۔ جہل غالب ہو گیا۔ اپنے اقتدار پر عجب میں مبتلا ہوئے۔ اپنے خالق کے فرمان اور پیغمبر ﷺ کی وصیت سے منہ پھیرا اور سرحدی دشمنوں سے غافل ہو گئے۔ یہاں تک کہ دشمن نے ہمیں آ لیا اور عین ہمارے گھروں کے اندر گھس گیا اور قتل و غارت شروع کی۔ جب کہ ہمارے ارد گرد لوگوں نے چپ سادھ لی اور حسبِ سابق اپنی دنیا میں منہمک رہے۔ جب اہلیانِ بربشتر کا ذکر ہماری مسجدوں اور محفلوں میں ہوتا ہے یا ان کے لیے کوئی دعا کرتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہم میں سے نہیں تھے۔ یا جو اُن کے ساتھ ہوا ہمارے ساتھ نہیں ہو گا۔ یہ تو چھوڑیے کہ ہم ان کی مدد کے لیے پہنچتے یا بدلہ لینے کے لیے لڑتے، ہم نے ان کے لیے دعا میں بھی کنجوسی کی!!“8

کیا یہی کچھ حال ہمارا نہیں ہے؟کشمیر میں مسلمانوں پر کیا گزری،برما میں کیا گزری اور انڈیا کے اندر کیا حالت ہے۔ لیکن پاکستان اور بنگلہ دیش میں کیسی بے حسی ہے۔ جیسے یہاں کے حکمران بربشتر کے موقعے پر احمد بن ہود بن گئے ہوں۔ اور لگتا نہیں کہ انہیں احمد بن ہود کی طرح مسلم علماء اور عوام کبھی غیرت دلائیں گے اور دلا نا چاہیں بھی توبھی وہ غیرت میں نہیں آئیں گے۔

جب بربشتر کا واقعہ ہوا تو اندلس کے ایک مشہور کاتب اور ادیب ابن عبد البر نے مسلمانوں کو جہاد پر ابھارنے کے لیے اہلیانِ بربشتر کی زبانی ایک تحریضی خط لکھا جو کہ آج ہم سے مخاطب ہے:

ہم آپ کو تحریض دلاتے ہوئے آپ کی مدد کے انتظار میں لکھ رہے ہیں۔ ہماری آنکھیں اشکبار ہیں، کلیجے منہ کو آ رہے ہیں، ذہن بوجھل ہیں اور دل جل رہے ہیں کہ کفر نے اپنے پر پھیلا دیے…… شرک دانت دکھا رہا ہے……دشمن نے ہمیں ایسے گھیر لیا جیسے پھانسی کا پھندا گردن کے گرد…… صبح و شام ہمارے خلاف لڑتے ہیں……

اے مسلمانو! تم اپنے دینی بھائیوں کی حالت تو ذرا دیکھو!ان کے مال اور اہل و عیال پر غلبہ ہو چکا ہے……تلواروں نے اپنا کام کیا ہے……نیزوں نے اپنا تماشا دکھایا ہے۔ زخموں نے چور کردیا ، یہاں تک کہ موت نے انہیں آ لیا۔ بچوں ، عورتوں اور حتی کہ مردوں کا شور و غوغا اور آہ و بکا اتنی بڑھ گئی کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی……ان کا خون ایسے بہہ رہا ہے جیسے وادیوں میں سیلاب……ان کے سامنے ان کے سر اڑائے جا رہے ہیں لیکن کوئی ناصر و مدد گار نہیں۔

اے مسلمانو!تمہارا کیا خیال ہے…… جب عورتوں اور بچوں کو ہر طرف ننگے بدن بالوں سے گھسیٹے ہوئے ہانکا جا رہا ہو…… کبھی پیٹھ کے بل اور کبھی پیٹ کے بل، اور بوڑھے رسیوں میں باندھے ہوئے……زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑے ہوئے……وہ رحم مانگیں تو رحم نہیں کیا جاتا۔ کھانا اور پانی مانگیں تو ترستی آنکھوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا……ان کے ذہنوں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے یہاں تک کہ وہم و گمان کا بھی انہیں ادراک نہیں……“ 9

قرآنی حقیقت

اللہ تعالی نے قرآن کریم میں حق اور باطل، حزب اللہ اور حزب الشیطان اور دشمن اور دوست کے درمیان فرق کو واضح بیان کیا ہے۔ اور اس تفریق کی اساس ’ایمان‘ اور ’عقیدہ ‘ یعنی کہ ’دین‘بتائی ہے نہ کہ رنگ، نسل، قوم، وطن یا زبان جیسا کہ آج کی دنیا میں رائج ہے۔ پھر مسلمانوں کو اپنے ہم مذہب، رحمان پر ایمان رکھنے والوں کی نصرت اور موالات کا حکم دیا ہے اور اللہ سے بغاوت کرنے اور شیطان کی بندگی کرنے والوں سے تبریٰ کا حکم دیا ہے۔

اسلام کے مقابل ’الکفر ملۃ واحدۃ ‘ ایسا عقیدہ ہے جس پر تاریخ بھی گواہ ہے۔ آج بھی جہاں انسانی حقوق اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی بالادستی کا راگ الاپا جاتاہے، حقیقت یہ ہے کہ جب بھی اہلِ ایمان اور اہل ِکفر کے بیچ کوئی تنازع پیدا ہوا، کہیں بھی اہل اسلام پر مظالم ڈھائے گئے وہاں عالم کفر ، کفار کے ساتھ کھڑا ہوا اور عملاً کفار کو مضبوط کیا جبکہ مسلمانوں کے ساتھ اجنبیوں سا ہی نہیں بلکہ انتہائی ہتک آمیز اور ظالمانہ سلوک کیا۔ فلسطین، کشمیر اور مشرقی ترکستان واضح مثالیں ہیں۔

مسلمانوں کو اقوام متحدہ ، مغربی طاقتیں یا ان کے نظریات پر عمل نہیں بچائے گا۔ اگر مسلمان بچ سکتے ہیں تو صرف اللہ کے دین پر عمل کرکے۔ اور اللہ کادین بتاتا ہے کہ مسلمان ایک جسم کی مانند بن جائیں اور کفار سے برأت کریں، مسلمانوں کی مدد ونصرت فرض ہے ، اس فرض پر جب بھی عمل نہیں ہوا ، مسلمان مٹ گئے ، مغلوب ہوئے یا کفار کے غلام بن گئے۔

جب یہ آیتیں آج تلاوت کی جاتی ہیں تو سمجھی نہیں جاتیں اور جب فقہ کی کتابوں سے یہ حکم بیان کیا جاتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ تو پرانے حالات کے موافق تھا آج کل کے لیے کارگر نہیں! تو آیا مذکورہ بالا تاریخی حقائق اور معاصر صورت حال کو بھی لوگ نظر انداز کر دیں گے جس سے قرآنی حقیقت کی تائید ہوتی ہے!!

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْكٰفِرِيْنَ اَوْلِيَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ١اَتُرِيْدُوْنَ اَنْ تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ عَلَيْكُمْ سُلْطٰنًا مُّبِيْنًا۝

اے ایمان والو ! مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست مت بناؤ، کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ کے پاس اپنے خلاف (یعنی اپنے مستحق عذاب ہونے کی) ایک کھلی کھلی وجہ پیدا کردو ؟ (النساء: ۱۴۴)

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًاوَدُّوْا مَا عَنِتُّمْ١ۚ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآءُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْ وَ مَا تُخْفِيْ صُدُوْرُهُمْ اَكْبَرُ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْاٰيٰتِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ۝

اے ایمان والو ! اپنے سے باہر کے کسی شخص کو راز دار نہ بناؤ، یہ لوگ تمہاری بدخواہی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ ان کی دلی خواہش یہ ہے کہ تم تکلیف اٹھاؤ، بغض ان کے منہ سے ظاہر ہوچکا ہے اور جو کچھ ( عداوت) ان کے سینے چھپائے ہوئے ہیں وہ کہیں زیادہ ہے۔ ہم نے پتے کی باتیں تمہیں کھول کھول کر بتا دی ہیں، بشرطیکہ تم سمجھ سے کام لو۔ (آل عمران: ۱۱۸)

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَ عَدُوَّكُمْ اَوْلِيَآءَ تُلْقُوْنَ اِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَ قَدْ كَفَرُوْا بِمَا جَآءَكُمْ مِّنَ الْحَقِّ

اے ایمان والو ! میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو ایسا دوست مت بناؤ کہ ان کو محبت کے پیغام بھیجنے لگو، حالانکہ تمہارے پاس جو حق آیا ہے، انہوں نے اس کو جھٹلایا ہے۔ (الممتحنہ: ۱)

اِنْ يَّثْقَفُوْكُمْ يَكُوْنُوْا لَكُمْ اَعْدَآءً وَّ يَبْسُطُوْۤا اِلَيْكُمْ اَيْدِيَهُمْ وَ اَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوْٓءِ وَ وَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَ

اگر تم ان کے ہاتھ آجاؤ تو وہ تمہارے دشمن بن جائیں گے اور اپنے ہاتھ اور زبانیں پھیلا پھیلا کر تمہارے ساتھ برائی کریں گے، اور ان کی خواہش یہ ہے کہ تم کافر بن جاؤ۔ (الممتحنہ: ۲)

قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِيْۤ اِبْرٰهِيْمَ وَ الَّذِيْنَ مَعَهٗ١ۚ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِهِمْ اِنَّا بُرَءٰٓؤُا مِنْكُمْ وَ مِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَ بَدَا بَيْنَنَا وَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَ الْبَغْضَآءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗۤ

تمہارے لیے ابراہیم اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے، جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ : ہمارا تم سے اور اللہ کے سوا تم جن جن کی عبادت کرتے ہو، ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم تمہارے (عقائد کے) منکر ہیں، اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے دشمنی اور بغض پیدا ہوگیا ہے جب تک تم صرف ایک اللہ پر ایمان نہ لاؤ۔ (الممتحنہ: ۴)۔

غرناطہ کے لال قلعے سے دہلی کے لال قلعے تک ہمارے لیے ایک ہی سبق ہے۔ اپنے دوست اور دشمن کو پہچانو اس سے قبل کہ تم کو حرف غلط کی طرح صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے!!

اقبال نے ’ٹیپو سلطان ﷫ کی وصیت‘ میں کہا:

باطل دوئی پسند ہے، حق لا شریک ہے
شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول

٭٭٭٭٭


1 اس موازنے کا محرک ایک طرف انڈیا میں ہندُتوا کی تحریک اور دوسری طرف شہید عکرمہ بھائی رحمہ اللہ کی کتاب ’تاریخ نا تمام: اندلس کے مسلمان ۱۴۹۲ کے بعد ‘کا مطالعہ تھا۔

حق تو یہ ہے کہ شہید عکرمہ بھائی رحمہ اللہ کا کچھ تعارف یہاں درج کیا جاتا، لیکن وقت کی قلت کے سبب یہاں تفصیل درج نہیں کی جا رہی، البتہ شہید عکرمہ بھائی کے متعلق جاننے کے لیے ان کی ہمشیرہ کا مضمون ’ہمیں جنت کو جانا ہے!!!‘ پڑھنا مفید رہے گا جو مجلّہ نوائے افغان جہاد (نوائے غزوۂ ہند کا سابقہ نام) کے اگست ۲۰۱۰ء کے شمارے میں دیکھا جا سکتا ہے۔

2 Normansیورپ کا خانہ بدوش قبیلہ جس کا کردار جاہلیت کے بدوی قبلیوں کی طرح تھا۔ یعنی ان کی زندگی لوٹ مار پر گزرتی تھی۔

3 تاريخ العرب وحضارتهم في الأندلس (ص: ۲۴۹۔ ۴۳۰)۔

4 یہ تاریخ ۱۰۴۱ھ میں متوفی امام شہاب الدین مقری کی کتاب نفح الطيب من غصن الاندلس الرطيب (۴/ ۴۵۳) اور تاریخ اندلس کے معاصر مصری مؤرخ محمد بن عبد اللہ عنان کی کتاب دولۃ الاسلام فی الاندلس (۲؍۲۷۴۲۸۰، ۴۱۲) سے نقل کی گئی ہے۔

5 ظاہر ہے کہ یہ فرڈیننڈ ابن الاحمر کے دور کا فرڈیننڈ نہیں بلکہ اس کی آل اولاد میں سے تھا۔

6 کمپنی کی حکومت از باری صفحہ ۲۲۷ ،مطبوعہ نیا ادارہ لاہور ۱۹۶۹ء۔ از ویکی پیڈیا۔

7 ذہن میں رہے کہ ۲۰۱۷ کے اندازے کے مطابق مغربی ہند ’پاکستان‘میں مسلمانوں کی آبادی ۱۸ کروڑ ۹۰ لاکھ تھی، وسطی ہند ’انڈیا‘ میں ۱۸ کروڑ ۴۰ لاکھ اور مغربی ہند ’بنگلادیش ‘ میں ۱۴ کروڑ ۱۰ لاکھ تھی۔

8دولۃ الاسلام فی الاندلس ۲؍۲۷۴۲۸۰، ۴۱۲۔ باختصار و تصرف۔

9تاریخ نا تمام از عکرمہ شہید ﷫، ص ۲۲۔

Exit mobile version