برِّ صغیر كے حكمرانوں كے خلاف لڑنا مسلمانوں پر كيوں واجب ہے؟ | حصۂ ثالث(قسط دوم)

حضرت مولانا فضل الرحمٰن قاسمی کا تعلق شہید سراج الدولہ، سید تیتومیر اور حاجی شریعت اللہ ﷭ کی سرزمین سے ہے جس کے بیشتر حصے کو آج بنگلہ دیش کے نام سے جانا جاتا ہے اور آپ نے یہ تحریر بنگلہ دیش میں ہی قلم بند کی ہے۔

زیرِ نظر سلسلہ کل چار حصوں پر مشتمل ہے، ان شاء اللہ چوتھا اور آخری حصہ جنوری ۲۰۲۳ء کے شمارے میں شائع کیا جائے گا ۔ (ادارہ)


تاریخ کے مذکورہ حصے سے ہمارا تعلق ہے

۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۷ء تک کی تاریخ کا جو حصہ ہم بیان کررہے تھے یہ اس تاریخ کا ایک مختصر حصہ ہے اور ہندوستان کے لاکھوں مربع میل رقبے میں سے محض ایک چھوٹے سے اس حصے کی کارگزاری ہے جس سے ہم وابستہ ہیں اور جس سے ہمارا دینی، علمی، اصلاحی اور دعوتی تعلق جڑتا ہے، اس کے علاوہ اور بھی سیکڑوں کارگزاریاں ہیں جو اس سلسلہ میں قابل ذکر ہیں مگر ہم صرف چند نمونے پیش کرنا چاہتے ہیں جو ہمارے موضوع کی وضاحت میں معاون ثابت ہوسکیں۔

تاریخ کے اس حصے اور اس جیسے دیگر نمونوں سے درج ذیل باتیں وضاحت کے ساتھ سامنے آتی ہیں:

  1. مغلیہ سلطنت کے انعدام کلی اور انگریز کفار کے استحکام کلی کے بعد بھی دارالاسلام کے دوبارہ قیام اور اقامت خلافت اسلامیہ کے لیے ہندوستان کے چپے چپے میں مختلف کوششیں جاری تھیں۔

  2. شیخ الہند کی وفات، یعنی ۱۹۲۰ء تک ہندوستان دارالحرب ہی رہا اور اس کے دارالاسلام میں دوبارہ تبدیل ہونے کا کوئی مرحلہ رونما نہیں ہوا۔

  3. منافقین اپنے نفاق اور غداری میں سرگرم ہیں۔

  4. دارالعلوم دیوبند کے اولین فرزند اور اولین ترجمان کی حیثیت سے نیز بانیان دارالعلوم او رمجاہدین شاملی کے ایک لائق وارث ہونے کے ناتے شیخ الہند نے دنیا کے سامنے یہ واضح کردیا کہ دارالعلوم دیوبند کی طرف نسبت رکھنے والوں کی ذمہ داری کیا ہے، ان کی سوچ اور فکر کس راہ پر، کس انداز سے چلے گی، ان کا طرز عمل کیا ہوگا۔

جمہوریت کی بدبو اور اس کا اثر

ہم اقرار کرتے ہیں کہ شیخ الہند کے بعد نبوی طریقے پر مسلح جہاد و قتال کے ذریعے اقامت خلافت کے ماثور طریق پر کام کرنے کی فکر وسوچ میں کچھ ضعف پیدا ہو گیا تھا۔اس موقع پر قارئین کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ وہ زمانہ ہے کہ جب جمہوریت کی بدبو اسلامی دنیا میں پھیل رہی تھی اور ہندوستان بھی اس بدبو سے متاثر تھا۔ کفار کی ہزاروں بدبختیوں کے بیچ جمہوریت کی بدبختی کچھ خاص معلوم نہ ہوتی تھی لیکن مسلمانوں کے بیضاء نقیہ دین اور صاف شفاف شریعت میں یہ جمہوریت زہر ِقاتل بن کر آئی۔ کمال اتاترک جیسا ملحد مرتد اور خبیث ترین دشمن اسلام منظر عام پر آگیا تھا اور اسلامی خلافت کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے جمہوریت کا نسخہ استعمال کرنے کی اس نے کوشش کی اور اپنے کافر حلیفوں کے ذریعے اپنے مقصد میں آگے بڑھا۔اسلام نے جن جاہلی رسوم کو پیروں تلے روندا تھا اس خبیث نے ان سب کو جمہوریت کے سائے میں ابھارنے کی کوشش کی اور اسلام کے سارے شعار کو معدوم کرنے کے لیے ہر طور طریقہ اختیار کیا۔ بہرحال یہ داستان بہت لمبی ہے اور ہم اس میں الجھنا نہیں چاہتے، محض دنیا کے اس وقت کے حالات کی ایک تصویر قارئین کے سامنے پیش کرنا مقصود تھی تاکہ دیگر باتیں سمجھنے میں آسانی ہو۔

ایک الم ناک حقیقت

اس زمانہ میں ایک اور الم ناک حقیقت سامنے آئی جس کو مانے بغیر کوئی چارہ نہیں، وہ یہ ہے کہ شیخ الہند کے آخری زمانہ تک سیاست، قیادت، شریعت اسلامی کا نفاذ، خلافت و امارت اسلامیہ کی اقامت جیسے تمام امور کی ادائیگی ایک شرعی ذمہ داری کی حیثیت سے علمائے کرام اور دین و شریعت کے رہبران سو فیصد اپنے ہاتھ میں تھامے ہوئے تھے، ہر معاملے کو صرف اور صرف قرآن و سنت کی رو سے دیکھتے، شریعت کی نظر سے پرکھتے اور شرعی لحاظ سے جو درست معلوم ہوتا اسے نافذ کرتے اور دیگر کو چھوڑ دیتے۔ اصل منبع صرف شریعت ہی تھی۔ اسی کے سائے میں تمام معاملات طے ہوا کرتے تھے۔ شریعت کی قائم کی ہوئی حدود سے تجاوز نہ کیا جاتا اور شرعی حدود کو ہی اپنے لیے حدود تصور کیا جاتا۔

لیکن اس کے بعد حالت کچھ ایسی ہوگئی کہ گو علمائے کرام اور رہبران دین حق گوئی، جاں نثاری، قربانی، جذبۂ جہاد، شریعت کی پابندی غرض ہر باب میں اپنی شرعی ذمہ داری کا حق ادا کرتے رہے لیکن رفتہ رفتہ قیادت و سیادت ان کے ہاتھوں سے نکلتی چلی گئی۔

مشائخ اسلام اور سیاسی لیڈر

لیڈر شپ جن کے ہاتھ میں تھی وہ اپنے آپ کو ایک مسلم قائد کی بجائے ایک کامیاب لیڈر سمجھنا زیادہ پسند کرتے تھے۔ ان لیڈروں میں سے جو مسلمان تھے وہ دین و شریعت کا احترام کرتے تھے، اپنے دین سے محبت کرتے تھے اور اس پر عمل پیرا تھے، اسلام کے حق میں ان کی بے شمار خدمات اور بہت سے کارنامے ہیں۔ مگر وہ ہر معاملے میں شریعتِ اسلامی کو حاکم ماننے پر تیار نہ تھے۔ وہ اجتماعی اور سیاسی اور بین الاقوامی معاملات کو قرآن و سنت کی رو سے حل کرنے پر آمادہ نہیں تھے، ان کی گفتگو اور سوچ و فکر میں قرآن و حدیث اور دین و شریعت کا اثر نظر نہیں آتا تھا۔ وہ علمائے کرام اور مسلمانوں کے دینی رہبروں کے جذبات کو اپنی سوچ و فکر اور اس نصب العین کی طرف راغب کرکے جس پر ایک دنیاوی لیڈر ہونے کی حیثیت سے وہ کاربند تھے، اسی نتیجے پر پہنچانا چاہتے تھے جو اس قسم کی دنیاوی جد وجہد سے سامنے آسکتا ہے۔ اس سارے عمل کے دوران دین و شریعت کا کچھ باقی رہے یا نہ رہے، اس سے ان کو چنداں سروکار نہ تھا۔

بہر حال اس موقع پر دو باتیں عرض کررہا تھا،

یہ حقیقت ہے کہ خلافت و سیادت و قیادت کے باب میں علمائے کرام پر ایک قسم کی اکتاہٹ رفتہ رفتہ چھا رہی تھی۔ سیاست و امارت کے امور میں ان کی دلچسپی تنزل کی طرف جارہی تھی، شیخ الہندؒ کے بعد سے لے کر تنزل کی یہ صورت حال تین مراحل میں تکمیل تک پہنچی۔ پہلا مرحلہ: استحقاق سے حق کی ادائیگی، جس پر آزادیٔ ہند تک کوششیں جاری تھیں، دوسرا مرحلہ: منت سماجت سے حق کی ادائیگی اور یہ کوششیں آزادیٔ ہند کے بعد بھی سالہا سال تک چلتی رہیں، تیسرا مرحلہ: علیحدگی پررضا اور راحت کا تصور بلکہ خلافت، امارت، سیادت اور سیاست کے بارے میں نفرت۔ بد نصیبی سے اس صورت حال کا سامنا ہم اب تک کر رہے ہیں۔

خلاصہ

خلاصے کے طور پر میں چند حقیقتوں کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں:

ایک اور حقیقت کا انکشاف

ایک اور حقیقت کی طرف میں آپ حضرات کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ ۱۴ اور ۱۵ اگست ۱۹۴۷ء کے دن کو بالترتیب پاکستان اور بھارت کے یوم آزادی کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے جو بالکل غلط ہے۔اس روز نہ پاکستان آزاد ہوا تھا اور نہ ہی بھارت…… اس روز تو محض ہندوستان ٹکڑے ٹکڑے ہوا تھا۔ ایک ٹکڑے کو مملکت بھارت کا نام دیا گیا اور دوسرے کو مملکت پاکستان۔

ایک ٹکڑے کی تفصیل یہ ہے:

سرکاری دستور: بادشاہت

بادشاہ : ۱۹۴۷ء سے ۱۹۵۰ء تک جارج ششم

گورنر جنرل: ۱۹۴۷ء سے ۱۹۴۸ء تک لارڈ ماؤنٹ بیٹن

وزیر اعظم: ۱۹۴۷ء سے ۱۹۵۰ء تک جواہر لعل نہرو

اور دوسرے ٹکڑے کی تفصیل کچھ یوں ہے:

سرکاری دستور: بادشاہت

بادشاہ: ۱۹۴۷ء سے ۱۹۵۲ء تک جارج ششم اور ۱۹۵۲ء سے ۱۹۵۶ء تک ملکہ الزبتھ ثانی

گورنر جنرل: محمد علی جناح

یہ وہ تاریخی حقائق ہیں جو عوام کی نگاہوں سے اوجھل ہیں مگر انہیں تاریخ کے صفحات سے محو کرنا ممکن نہیں۔ ہم بلا تردد کہہ سکتے ہیں کہ ۱۹۴۷ء میں اس برصغیر میں بہت سی تبدیلیاں آئیں لیکن ایک تبدیلی جو نہیں آئی وہ ہندوستان کے دارالحرب سے دارالاسلام میں تبدیلی تھی۔ چنانچہ دونوں ٹکڑوں میں سے کسی ایک کا بھی عنوان دارالاسلام نہیں تھا، لہٰذا دارالحرب سے دارالاسلام کی طرف ہجرت کا کوئی مسئلہ سرے سے زیر بحث تھا ہی نہیں۔ تقسیم کے فیصلے میں ہجرت کے وجوب یا حرمت کا کوئی مسئلہ زیر بحث نہ تھا، دونوں ٹکڑوں کے کروڑوں مسلمانوں کے بارے میں شریعت کا کیا فیصلہ ہے…… اس کی تحقیق و تفتیش کہیں موضوع بحث تھی ہی نہیں اور نہ اس کی مجال ہوسکتی تھی۔ بعض لوگوں کو مہاجر کے نام سے موسوم کیا گیا مگر وہاں انصار کون تھا؟ ہجرت کے احکام و مسائل کا نفاذ نہ سرحد کے اس پار تھا نہ اس پار۔

آخری بات یہ کہ ۱۹۴۷ء، جس کو ہندوستان کی آزادی کا سال سمجھا جاتا ہے، اس سے بھارت اور پاکستان تو وجود میں آئے مگر ہندوستان دارالحرب سے دارالاسلام نہ بن سکا۔

آزادیٔ ہند اور قیام پاکستان سے لے کر تقسیم پاکستان اور قیام بنگلہ دیش تک (۱۹۴۷ء سے ۱۹۷۱ء تک)

جس طرح ہم نے ذکر کیا کہ برطانوی راج نے ۱۹۴۷ء میں ہندوستان کو دو ٹکڑوں میں بانٹ تو دیا مگر وہ بدستور دونوں ٹکڑوں پر حکومت کرتا رہا اور جب اسے یقین ہوگیا کہ اس کے مقامی نمائندے اس کی منشا کے مطابق کام کریں گے تو اس نے اپنے نمائندوں کو اکثر امور میں بااختیار بنا دیا۔ نوزائیدہ دونوں ممالک میں کے حالات کی تصویر کچھ اس طرح سے تھی:

مندرجہ بالا عنوانات کی شرح بہت مفصل ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ قریباً گزشتہ ایک صدی میں رونما ہونے والے حالات ان عنوانات کی شرح ہیں، جنہیں ہمارے آباؤ اجداد نے دیکھا اور اب ہم بچشم عبرت ان کا مشاہدہ کررہے ہیں۔

بھارتی مسلمانوں نے اہل کتاب حکمرانوں سے آزادی حاصل کی تو مشرک حکمران ان پر مسلط ہوگئے۔ بھارتی حکومت سو فیصد حکم بغیر ما أنزل اللہ پر قائم ہے۔ سیاسی مصالح کے پیش نظر مسلمانوں کو جب اور جتنا دینا چاہتے ہیں دے دیتے ہیں، کبھی پارلیمنٹ کی کوئی کرسی، کبھی کوئی حکومتی عہدہ، کبھی کسی مجلس کی صدارت تو کبھی مساجد و مدارس کو ہدیتاً کچھ عطا کرنا اور کبھی کسی خاص ملکی کارنامے پر شاباشی کے نعروں سے استقبال کرنا وغیرہ وغیرہ۔

دوسری طرف پاکستان کے حکمران مسلمانیت کا دعوی کرتے ہیں مگر خود کو شیعہ کہلانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ سب جمہوری اور علمانی ہیں، اسلامی شریعت کے نفاذ کو روا نہیں سمجھتے، انسان کے بنائے قانون کے مطابق مملکت چلانے کو ہی اصل اور صحیح طریقہ سمجھتے ہیں، غیر شرعی قانون پر ملک چلانے کو ضروری سمجھتے ہیں، مسلم اکثریت پر غیر شرعی حکومت اور کفری نظام چلانے کے لیے جو جو کرنا چاہیے وہ کرتے ہیں، مسلمانوں پر کفری نظام کے نفاذ میں جہاں جہاں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے وہاں کچھ نفاق کچھ جھوٹ سے کام چلا لیتے ہیں۔ پاکستان اسی طرح چل رہا تھا اور یوں ہی بائیس تیئس سال گزر گئے، اس کے بعد حصولِ اقتدار کی خاطر مالکان حکومت کے مابین مشرق و مغرب کا جھگڑا ہوگیا، پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا اور بنگلہ دیش کے نام سے ایک نیا ملک وجود میں آگیا۔

تقسیم پاکستان اور قیام بنگلہ دیش سے لے کر اب تک
(۱۹۷۱ء سےحال تک)

بنگلہ دیش جن کے ہاتھوں وجود میں آیا انہوں نے منافقت کا قلادہ اتار پھینکا اور صریح کفر کا اعلان کردیا۔ چار متفق علیہ کفر یہ اصولوں پر دستور کی بنیا د رکھی گئی۔ مسلمانوں کے لیے الگ ملک ہونے کے جس تصور کی بنا پر پاکستان وجود میں آیا، اس تصور ہی کو مٹا دیا گیا اور آئین میں جہاں جہاں اسلام اور مسلمان کا ذکر ہے وہاں سے یہ الفاظ ہٹا کر بنگالی اور بنگلہ دیشی جیسے الفاظ استعمال کیے گئے۔

ملک کا دستور بدستور وہی ہے جو برطانوی راج کے دور میں تھا اور جو متحدہ پاکستان میں تھا۔ ملک کے کسی بھی عہدے کے لیے اسلام یا مسلمان ہونا کوئی شرط نہیں۔ قانون ساز اسمبلی، ہر درجہ کے قاضی، صدر مملکت…… غرض ہر عہدے میں مسلم اور غیر مسلم کے بیچ کوئی امتیاز نہیں رکھا گیا۔یہی حال برطانوی ہندوستان، بھارت، پاکستان اور آج کے بنگلہ دیش میں ہر دور میں رہا ہے۔برطانوی ہندوستان سے آج بنگلہ دیش کے قیام کے پچاس برس گزر جانے کے بعد بھی برِّ صغیر میں جن باتوں میں کوئی فرق نہیں آیا وہ یہ ہیں:

ان باتوں پر غور کرنے سے آپ کو معلوم ہوگا کہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ نے جن حالات اور جن باتوں کے پیش نظر اس ملکِ برصغیر کو دارالحرب قرار دیا تھا وہ حالات بعینہ اب بھی بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش میں موجود ہیں۔

تقسیم کے بعد یہ تینوں ممالک اپنی اپنی جگہ اپنے اقدامات اور طرزِ حکومت کے ذریعے امت کو یہ پیغام دیتے رہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے نام پر ان ممالک پر حکمرانی کرنا ایک ناقابل معافی جرم ہے، وہ یہ پیغام دیتے رہے کہ قانون ساز اسمبلی کے ذریعے قرآن و حدیث میں بیان کردہ کسی اصول کو قانون کا درجہ دینا یا قرآن و حدیث کی بنا پر کسی موجود قانون کو معطل کرنا ایک ناقابل معافی جرم ہے، ان تینوں ممالک کی عدالتوں میں قرآن و حدیث کی بنیاد پر کسی قانون کے خلاف احتجاج کرنے کو جہالت اور بے وقوفی کے مترادف سمجھا جاتا ہے…… اور بالفعل یہی حقیقت ہے۔

پاکستان کے شریعہ بینچ سے کوئی دھوکہ نہ کھائے

ہم پہلے بھی ذکر کرچکے ہیں کہ پاکستان میں شریعہ بینچ کے عنوان سے جو بینچ ہے اس کا سالہا سال تک کوئی وجود ہی نہ تھا اور جب یہ قائم ہوا تو یہ بینچ کل عدالتی کارروائیوں کے ایک فی صد پر بھی حاوی نہ تھا۔ نیز کسی ملک میں شریعہ بینچ کا وجود ہی اس بات کی دلیل ہے کہ اس ملک کا قانون کفری اور غیر شرعی ہے۔اس ’قوت وا ختیار‘ کے ساتھ پاکستان کا یہ شریعہ بینچ کبھی ملکی قوانین کے خلاف کوئی فیصلہ نافذ نہیں کراسکا۔ متفق علیہ سود کے مسئلہ پر پاکستان کے کبار علما نے اپنی زندگی کھپا دی مگر سب جدوجہد بے سود نکلی۔

تاریخ کے چند صفحات پر نظر ڈالنے کے بعد

اس موقع پر میں قارئین کرام کی توجہ قرآن مجید کی دو آیتوں کی جانب مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ یہی ہمارے لیے تسلی اور اطمینان کا باعث ہیں۔

تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ۝ (سورۃ البقرۃ: ۱۳۴)

’’یہ جماعت تو گزر چکی، جو انہوں نے کہا وہ ان کے لیے ہے اور جو تم کرو گے تمہارے لیے ہے۔ ان کے اعمال کے بارے میں تم سے نہیں پوچھا جائے گا۔‘‘

قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُونِ الْأُولَىٰ ۝قَالَ عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي فِي كِتَابٍ لَّا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنسَى ۝ (سورۃ طہ: ۵۱، ۵۲)

’’اس نے کہا: اچھا یہ تو بتاؤ اگلے زمانے والوں کا حال کیا ہونا ہے؟ جواب دیا کہ ان کا علم میرے رب کے ہاں کتاب میں موجود ہے، نہ تو میرا رب غلطی کرتا ہے نہ بھولتا ہے۔‘‘

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ خیر القرون کے بعد سلف صالحین کے جتنے طبقے ہیں وہ سب کے سب ہمارے لیے مقتدا اور رہنما ضرور ہیں لیکن ادلہ اربعہ کے خلاف وہ ہمارے لیے حجت نہیں۔ ان کے کسی خاص رویے کے بارے میں قطعی کوئی فیصلہ کرنا بھی ہماری ذمہ داری نہیں اور ادلہ شرعیہ کے خلاف ان کو حجت ماننا بھی ہمارے لیے جائز نہیں۔کسی بھی شرعی مسئلے میں اپنے طرزِ عمل کا فیصلہ کرنے کے لیے ہمارے سامنے قرآن مجید ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تئیس سالہ نبوی زندگی ہے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شرعی تمرین و تطبیق کا سو سالہ تجربہ ہے۔

ہماری کمزوری

اس موقع پر ایک بات یاد آگئی جس کو کہے بغیر گزر جانا مناسب معلوم نہیں ہوتا اور وہ یہ کہ مکہ کے بت پرست مشرکین سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اپنا مقتدا سمجھتے تھے، خود کو ابنائے ابراہیم اور ملت ابراہیم ماننے میں فخر محسوس کرتے تھے، یہودی حضرت ابراہیمؑ کو یہودی سمجھتے تھے اور نصاریٰ نصرانی سمجھتے تھے، لیکن اللہ رب العزت سے واضح طور پر فرما دیا:

مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا وَلَكِنْ كَانَ حَنِيفًا مُسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ۝ إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ۝(سورۃ آل عمران: ۶۷،۶۸)

’’ (تمہیں بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ) ابراہیم (علیہ السلام) نہ تو یہودی تھے نہ نصرانی بلکہ وہ تو بالکل یکسو ہو کر اللہ کے فرماں بردار تھے اور نہ وہ مشرکوں میں سے تھے۔ یقیناً ابراہیم (علیہ السلام) سے سب سے زیادہ قربت رکھنے والے لوگ تو وہ ہیں جنہوں نے ان کی پیروی کی اور اب یہ نبی (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور جو ان پر ایمان لائے (اس نسبت کے زیادہ حق دار ہیں) اور اللہ ان مومنوں کا ساتھی ہے۔ ‘‘

مطلب یہ کہ متفق علیہ شخصیات کو اپنا مقتدا ثابت کرنے میں ہر شخص دلچسپی رکھتا ہے لیکن ان کی اتباع کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ ہمارے اسلاف کو بھی بارہا اسی صورت حال کا سامنا رہا ہے۔کوئی اپنے آپ کو ولی اللّٰہی فکر کا حامل قرار دیتا ہے، لیکن شاہ ولی اللہ کے تجدیدی کارناموں کو اپنانے پر تیار نہیں، شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے نام سے دل میں فخر محسوس کرتا ہے اور ان کا فتویٰ دل کو بھاتا ہے مگر اس فتوے کو قبول کرکے اس کے مطابق عمل کرنے سے دل بھاگتا ہے، سیّد احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید رحمہم اللہ کے جذبۂ جہاد سے متفق نظر آتا ہے لیکن جہاد کے نام پر ناک بھوں چڑھانے لگتا ہے، مکی، گنگوہی، نانوتوی کے ناموں سے دل و دماغ اور روح و بدن میں تازگی پیدا ہوجاتی ہے لیکن دشمنوں کی سرکوبی کے لیےاپنی جان و مال کی قربانی دینے کو روا نہیں سمجھتا، شیخ الہند کے نام سے سینہ فخر وغرور سے تن جاتا ہے لیکن علمائے کرام کے لیے اقامت خلافت کی فکر اور اس کے لیے عملی کوششوں میں شرکت کو ناجائز سمجھتا ہے…… بہرحال یہ سب ہماری کمزوریاں ہیں جن کی داستان بہت لمبی ہے۔ لیکن کوئی کچھ بھی کہے ہمارے لیے قابل عمل راستہ صرف ایک ہے اور وہ ہے اللہ رب العزت کی نازل کردہ شریعت، کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا راستہ، لہٰذا تاریخ کی اس مختصر داستان کے بعد ہم ان ذمہ داریوں کے بارے میں بات کریں گے جو قرآن و حدیث کی رو سے ہم پر عائد ہوتی ہیں، اللہ درست بات کی توفیق عطا فرمائیں، آمین۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭

Exit mobile version