برادرِ محترم، ابو اَنور الہندی کا تعلق حاجی شریعت اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی سرزمینِ بنگال سے ہے، جس کے مشرقی حصے کو بنگلہ دیش کے نام سے جانا جاتا ہے۔ برادر ابو اَنور نے یہ تحریر بنگلہ دیش ہی میں قلم بند کی ہے۔ (ادارہ)
تعارف
مشرقی بنگال کے وہ مسلمان جنہوں نے پاکستان کے خواب کو حقیقت بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا، کیا وجہ تھی کہ یہی مسلمان بعد ازاں اپنے ہاتھوں سے تعمیر کیے اس ملک کے خلاف لڑے اور بالآخر بنگلہ دیش کی صورت اس سے علیحدہ ہو گئے؟!اس سوال کا کوئی سیدھا سادہ جواب نہیں ہے۔مارچ ۱۹۷۱ء میں اپنی آزادی و خود مختاری کا اعلان کرنے سے محض ساڑھے پانچ سال قبل، مشرقی پاکستان(مشرقی بنگال) کے عوام کی بڑی اکثریت مسلمہ طور پر پاکستان کی حامی تھی۔ ۱۹۶۵ء میں بھارت کے خلاف جنگ میں ہزاروں بنگالی فوجیوں نے دادِ شجاعت دی اور کتنوں نے پاکستان کے تحفظ کی خاطر جانیں قربان کیں۔اس کے باوجود ۱۹۷۱ء میں پاکستان ٹوٹ گیا، اور ایک نیا ملک بنگلہ دیش، دنیا کے نقشے پر ابھرا۔
سقوطِ ڈھاکہ کا ذمہ دار کون تھا؟ پاکستان، وہ ملک جو اسلام کے نام پر بنایا گیا، اس کے دو لخت ہونے کا ذمہ دار کون تھا؟
پاکستان میں اس سوال کا جواب ہے: ’’شیخ مجیب الرحمٰن۔مجیب ایک غدار تھا جس نے بھارت کی مدد سے پاکستان کو دو لخت کر دیا۔‘‘ یہی بات معروف ہے۔
بنگلہ دیش میں اس سوال کا جواب بالکل مختلف ہے:’’ ۷۱ء کا سنہ ’سقوطِ ڈھاکہ‘ کی یادگارنہیں، بلکہ یہ بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کا سنگِ میل ہے۔ بنگالی مغربی پاکستانیوں اور ان کے ظلم کے خلاف لڑے اور ان سے نجات حاصل کی، اور مجیب الرحمٰن ان کا قائد اور رہنما تھا۔‘‘
جبکہ بھارت میں جو معروف خبر ہے وہ یہ ہے کہ ’’۷۱ء میں پاکستان اور بھارت کے مابین ایک جنگ ہوئی، جس میں بھارت جیت گیا اور پاکستان شکست کھا کر دو ٹکڑے ہو ا۔‘‘
یہ تمام بیانیے ایک دوسرے کی ضد ہیں اور فطرتاً یہ سب درست نہیں ہو سکتے۔ حقیقت کیا ہے؟……ان تینوں بیانیوں میں حقیقت کے بعض پہلو موجود ہیں، مگر یہ تینوں ہی اصل حقیقت کے بنیادی اجزا سے محروم ہیں۔
پاکستان کے دونوں بازوؤں (مشرقی و مغربی پاکستان) میں بہت سے اختلافات پائے جاتے تھے: زبان،تہذیب و ثقافت، رنگ و نسل کے فرق،اس پر مستزاد ریاستی رضامندی سے پیدا ہوئےمعاشی، معاشرتی اور انفرا سٹرکچر و وسائل میں عدمِ مساوات …… ان تمام اسباب و وجوہات نے ۱۹۷۱ء میں اپنا رنگ دکھایا۔ اس مضمون میں ہم کوشش کریں گے کہ ۷۱ء کے افسوسناک واقعات اور ان میں ملوث و شامل مرکزی کرداروں اور بنیادی اسباب پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالیں اور دیکھیں کہ وہ کون سے نام اور کیا اسباب تھے، جو ڈھاکہ کے سقوط کا سبب بنے؟
مبنی بر تعصب امتیازی سلوک
۱۹۷۱ء میں جو کچھ ہوا، اس کے وقوع پذیر ہونے کے بنیادی اسباب میں سے ایک اہم سبب وہ متعصبانہ اور تحقیر آمیز رویہ تھا، جو مشرقی پاکستان کے مسلمانوں سے روا رکھا جاتا تھا۔ مشرقی بنگال کے مسلمان پاکستان کے لیے ایک ارمانوں سے بھرا دل رکھتے تھے۔ لیکن نئی ریاست کے وجود میں آنے کے کچھ ہی عرصہ بعد وہ اس نئے نئے حاصل کردہ ’سونار پاکستان‘ کے سحر سے نکلنے لگے۔ پہلے پہل اس کی وجہ وہ قحط سالی کی صورتحال بنی، جس کا نئی ریاست کو سامنا تھا۔
۱۹۴۹ء تک پورے مشرقی بنگال میں چاول (جو عوام کی بنیادی و عمومی غذا تھی)کی قیمت میں تقریباً پانچ گنا اضافہ ہو چکا تھا، اور غذا کی قیمتوں میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے تھے1۔ آزادی حاصل کرنے کے بعد ایک سال سے بھی کم عرصے میں مشرقی بنگال میں شدید غذائی بحران اور حکومت کی اس صورتحال کو سنبھالنے میں حد درجہ غفلت و نااہلی کا مظاہرہ کرنا وہ وجہ تھی جس کے سبب حکومت کے خلاف پہلا احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
پاکستان کے دونوں بازوؤں کے درمیان بڑا واضح فرق تھا۔ دونوں کے درمیان تفاوت اور عدم مساوات کے تاریخی اسباب بھی تھے۔ملک کے بائیں بازو کے پاس دائیں کی نسبت بہت بہتر شہری اور صنعتی انفرا سٹرکچر اور برطانوی سامراجی دور کے تعلیم یافتہ افراد کا ایک بڑا ذخیرہ موجود تھا۔اس پر مستزاد، تقسیمِ ہند کے بعد ہزاروں کی تعداد میں تعلیم یافتہ اور صاحبِ ثروت مسلمان ہندوستان سے ہجرت کر کے مغربی پاکستان چلے گئے۔جبکہ دوسری طرف مشرقی پاکستان (یعنی مشرقی بنگال) سے بے شمار ہندو استادوں، ڈاکٹروں، انجینئروں ، تاجروں اور پیشہ ور افراد نے بھارت کی جانب انخلا کیا اور ان کے ساتھ بے تحاشا سرمایہ بھی بنگال سے نکل گیا۔یوں مشرقی بنگال کی قسمت میں شروع سے ہی نا موافق حالات لکھے ہوئے تھے، مگر ان مسائل کو متعصبانہ اور امتیازی رویّوں نےقصداً بڑھا دیا۔
تقسیم کے بعد بالکل شروع میں ہی، ۱۹۴۸ء میں حکومتِ پاکستان نے مشرقی بنگال کو اس کی آمدن کے واحد ذریعہ، سیلز ٹیکس (sales tax) سے محروم کر دیا۔ مغربی پاکستان کی اشرافیہ نے سیلز ٹیکس کو صوبائی حکومت کے دائرۂ اختیار سے نکال کر مرکزی حکومت کو دے دیا۔اور سن ۱۹۵۸ء تک مرکزی حکومت نے قومی بجٹ میں سے تفویض کردہ رقم کا ۵۰ فیصد سے زیادہ حصّہ محض دارالحکومت کراچی پر صرف کر دیا تھا ۔ جب کراچی کے پاس ایک بین الاقوامی ائیر پورٹ اور ایک سمندری بندرگاہ بھی موجود تھی، مشرقی بنگال کے پاس ان دونوں میں سے کچھ نہیں تھا۔ تقسیم سے قبل، مشرقی بنگال پوری دنیا میں پیدا ہونے والی پَٹسن (jute) کی تقریباً اسّی فیصد پیداوار کا ذمہ دار تھا، پاکستان کا حصّہ بننے کے بعد بھی پاکستانی برآمدات کا بڑا حصّہ مشرقی بنگال کی اس پیداوار پر مشتمل تھا۔ باوجود اس کے کہ آمدن کا بڑا حصّہ پیدا کرنے میں مشرقی بنگال کا کردار تھا، مغربی پاکستان کی درآمدات مشرقی بنگال سے زیادہ تھیں۔
پھر ایوّب خان کے دور میں بنگالیوں کو ایک متحدہ پاکستان میں اپنا مستقبل مزید تاریک نظر آنے لگا۔۱۹۶۰ء اور ۱۹۷۰ء کے درمیان جبکہ پاکستان کے جی ڈی پی کی بڑھوتری کا تناسب چھ اعشاریہ سات (6.7% ) فیصد تھا، افسوسناک طور پرمشرقی پاکستان میں یہ تناسب محض تین اعشاریہ چھ فیصد (3.6% )تھا2۔ بے تحاشا لٹریچر اور ریکارڈ موجود ہے جو مشرقی پاکستان سے روا رکھے جانے والی ناقابلِ یقین تفریق کا حال بیان کرتا ہے۔ وہ تفریق جو مغربی پاکستان کی حاکم اشرافیہ نے پیدا کی اور متحدہ پاکستان کے ۲۴ سالہ عرصے میں اسے پروان چڑھایا۔
زبان کا مسئلہ
پاکستان کے وجود میں آنے کے کچھ ہی عرصہ بعد، مارچ ۱۹۴۸ء میں پاکستان کے اوّلین گورنر جنرل محمد علی جناح نے علی الاعلان اردو کو پاکستان کی واحد ریاستی زبان قرار دے دیا۔بنگالی دانشور، سیاستدان اور طلبہ اس اعلان پر حیران و ششدر رہ گئے۔ یہ اعلان مشرقی پاکستان (مشرقی بنگالیوں)کے نزدیک پاکستان کی اکثریت کے جذبات کی بے وقعتی و بے قدری کا واضح اظہار تھا۔ ایک نمایاں بنگالی مسلمان سیاستدان ابو المنصور احمد، ……جو قبل از تقسیم بنگال میں کرشک پراجا پارٹی اور کانگریس سے وابستہ رہے اور بعد ازاں جناح کی مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی…… نے جناح کے اردو کے بارے میں اس غلط موقف پر غصّہ و رنج کی ملی جلی کیفیت میں لکھا:
’’ڈھاکہ میں قائدِ اعظم کی تقریر کے دوران جس دوسری بات نے مجھے غمزدہ کیا وہ بنگلہ زبان کے بارے میں ان کی رائے تھی۔ میں جناح کو پچیس سال سے جانتا ہوں۔اس پورے دور میں، میں نے ان کی سیاسی مخالفت صرف پانچ سال کا عرصہ کی۔بقیہ بیس سال میں ان کا حامی و مددگار بنا رہا۔ مجھے ان سے اس قدر حساس معاملے پر ایسے غیر ذمہ دارانہ بیان کی کبھی بھی توقع نہ تھی، وہ خود نہ بنگالی جانتے تھے اور نہ اردو……‘‘۔(اے ایم احمد، امار دیکھاراجنیتیت پنچاس بچار)
جناح صاحب، ناظم الدین اور دیگر پاکستانی سیاستدانوں کی اردو کی حمایت میں دیے جانے والے بیانات نے مشرقی بنگال کے باسیوں کو یہ باور کرا دیا کہ اگرچہ وہ پاکستان کی کل آبادی کا اکثریتی حصّہ تھے، اس کے باوجود ملکی معاملات میں ان کا عمل دخل نہ ہونے کے برابرتھا۔انہیں محض سیاسی و معاشی اعتبار سے کنارے نہیں لگایا جاتا تھا، بلکہ تہذیبی و ثقافتی اعتبار سے بھی غیر بنگالی اقلیتوں کے مقابلے میں انہیں کمتر پاکستانی کا درجہ حاصل تھا۔
۲۱ فروری ۱۹۵۲ء کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں بنگالیوں کی جانب سے بنگلہ زبان کو پاکستان کی ریاستی زبانوں میں شامل کرنے کے مطالبے پر پولیس نے بلا اشتعال و بلا تفریق مظاہرین پر فائر کھول دیا، جس سے پانچ بنگالی نوجوانوں کی موت واقع ہو گئی جن میں سے تین طلبہ تھے۔اس سانحے کے بعد بنگالی عوام کی وہ تحریک جو جناح صاحب کی ۱۹۴۸ء کی تقریر کے ردعمل میں معمولی احتجاج کے طور پر شروع ہوئی تھی، یکایک ایک ہمہ گیر قومی تحریک میں تبدیل ہو گئی۔ بدر الدین عمر، ایک کمیونسٹ بنگالی لکھاری نے لکھا:
’’۲۱ فروری کو پولیس کی فائرنگ نے بنگلہ زبان کی تحریک کو راتوں رات ایک عوامی تحریک میں بدل دیا ہے جو موجودہ حکومت کا تختہ الٹنا چاہتی ہے۔ عوام الناس پرحکومتِ پاکستان کا علاقائی کردار واضح طور پر آشکارا ہوا ہےاور انہیں اپنے لیے جدو جہد کرنے کی ضرورت کا احساس ہوا ہے، محض چندبنیادی علاقائی حقوق حاصل کرنے کی خاطر نہیں، بلکہ اپنے آپ کو ایک لسانی بنیاد پر متحد ہونے والی قوم کے طور پر منظم و مضبوط کرنے کی ضرورت کا بھی ۔‘‘3
۲۱ فروری کے ان واقعات نے مشرقی بنگال کی مجموعی سیاست کو بری طرح متاثر کیا اور ان واقعات کے بعدمشرقی بنگال میں بنگالی قومیت پرستی اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ مگر ۱۹۶۰ء کی دہائی کے آغاز تک ، پاکستان کی کرنسی، سٹیمپ یا دیگر کسی بھی قومی علامت و شعار میں کہیں بھی بنگالی کا استعمال نظر نہیں آتا تھا۔
تحقیر و تذلیل
لوگوں کے درمیان تعلقات توڑنے اور دلوں میں فاصلے پیدا کرنے کا بہترین طریقہ تحقیر و تذلیل ہے۔۱۹۴۶ء میں قوتِ ایمان سے سرشار بنگالی مسلمانوں نے مسلمانانِ ہندوستان کے لیے ایک نئی سرزمین ، پاکستان بنانے کے حق میں ووٹ دیا۔ مگر مغربی پاکستان کی فوجی و سیاسی قیادت اور ان کے بنگالی طرفداروں نے اسلامی بنگال کی وافر و زرخیزاسلامی ثقافتی میراث سے نابلد ہونے کے سبب، اپنی جہالت میں بنگالیوں کی اسلام سے وابستگی پر بھی سوال اٹھایا جس سے بنگالی مسلمان مزید برگشتہ ہو گئے۔ ایک ایسے دور میں جبکہ پہلے ہی اہلِ بنگال غذائی قلّت، بے روزگاری اور لسانی تحریک جیسی مشکلات سے نبرد آزما تھے، اس میں غیر بنگالی حکام اور اشرافیہ کے پیشہ ور و کاروباری افراد کا کھردرا و بد اخلاق رویّہ رِستے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف تھا۔
غیر بنگالی مسلمانوں بالخصوص اردو، پنجابی، گجراتی اور سندھی زبان بولنے والوں کے اندر موجود تکبر اور بنگالیوں کے خلاف تعصب مشرقی و مغربی پاکستان کے مابین تنازعہ کا ایک بڑا سبب تھا……مگر بدقسمتی سے پاکستان میں ۱۹۷۱ء کے واقعات کے بارے میں گفتگو کے دوران اس اہم اور بنیادی سبب سے ہمیشہ صرفِ نظر کیا جاتا ہے۔
مغربی پاکستانیوں کے اندر مشرقی بنگالیوں کے خلاف بہت زیادہ تعصب پایا جاتا تھا۔ہر اس چیز جس میں ’بنگالی پن‘ کی جھلک ہوتی، اس کے لیے ان کی حقارت صاف اور واضح تھی۔ پھر اس کے ساتھ ان کی مشرقی بنگال کی مسلم ثقافت پر مستقل طعن و تشنیع اور نکتہ چینی نے لاکھوں تعلیم یافتہ بنگالیوں کو مغربی پاکستانیوں اور غیر بنگالیوں سے دور کر دیا۔مشرقی بنگال کے مسلمانوں کا مذاق اڑانے کا سبب ان کے مبینہ ’ہندوانہ ‘طورطریقے، خوراکی؍غذائی عادات اور زبان وغیرہ تھے۔
قدرت اللہ شہاب نامی ایک ریٹائرڈ غیر بنگالی سینئربیوروکریٹ اور سفارت کار، مغربی پاکستان کی اشرافیہ(یعنی فوجی و سیاسی قیادت، پالیسی سازوں اور بیوروکریسی )کی مشرقی بنگال کے لیے غیر اخلاقی اور تفریق پر مبنی پالیسیوں سے ریاستِ پاکستان کو پہنچنے والے نقصان کو اجمالاًبیان کرتے ہیں، وہ لکھتے ہیں:
’’ایک روز میں نے کراچی میں فنانس منسٹر غلام محمد کے دفتر میں ایک میٹنگ میں شرکت کی۔ یہ میٹنگ کراچی میں حکومتی دفاتر اور رہائشی اپارٹمنٹس کے لیے سینِٹری سامان خریدنے کے بارے میں تھی۔وزیرِ تعلیم فضل الرحمٰن (بنگالی) نے ڈھاکہ کے لیے بھی سینِٹری سامان کی خریداری کے لیے بجٹ تفویض کرنے کی درخواست کی۔ اس مطالبے پر کمرے میں ایک زور کا قہقہہ پڑا اور ایک صاحب مزاحاً کہنے لگے:’بنگالی تو کیلے کے درختوں کے پیچھے فراغت حاصل کرتےہیں، وہ کموڈ اور واش بیسن کا کیا کریں گے؟‘۔‘‘4
یہ اس وقت کی بات ہے جب لیاقت علی خان ملک کے وزیرِ اعظم تھے (۱۹۴۷ء تا ۱۹۵۱ء)۔شہاب کے بقول پاکستان کے وجود میں آنے کے کچھ ہی عرصے بعد، مغربی پاکستان نے اپنے لاشعور میں،’بنگلہ دیش کی بنیاد ڈالنے‘ کا عمل شروع کر دیا تھا۔
عطا الرحمٰن خان (بنگالی) ، جنہوں نے مشرقی پاکستان کے چیف منسٹر کے طور پر خدمات انجام دیں(۱۹۵۶ء تا ۱۹۵۸ء)، وہ مغربی پاکستان کی قیادت کے متکبرانہ رویّے اور مشرقی بنگال کی تعمیر و ترقی سے ان کی غیر دلچسپی اور عدم تعاون کا حال بیان کرتے ہیں۔ ان قائدین میں سے بعض نے تو بر سرِ عام ان سے کہا کہ ’مشرقی پاکستانیوں کو ہمیشہ مغربی پاکستان کا شکر گزاررہنا چاہیے‘ ۔
بعض نے یہاں تک کہہ دیا کہ مشرقی پاکستان کبھی بھی تصورِ پاکستان کا لازمی جزو نہیں رہا۔ ایک مغربی پاکستانی سیاستدان، جس نے مشرقی پاکستان میں گورنر کے فرائض سر انجام دیے، نے ایک دفعہ بر سرِ عام یہ کہا کہ بنگالی مسلمان ’غیر مختون‘ اور’تقریباً ہندو‘ ہیں5۔
مغربی پاکستان کا یہ مقتدر طبقہ اکثر بنگالیوں کے ایمان و اسلام پر سوال اٹھاتا رہتا تھا۔ مشہور پاکستانی صحافی انتھونی ماسکرناز اپنی کتاب ’The Rape of Bangladesh ‘ میں لکھا:
’’بنگالی مسلمانوں کےایمان و تقوی پر شک و شبہے کے بھی عجیب مظاہر تھے۔ ۱۹۵۲ء میں مشرقی پاکستان کے پنجابی گورنر، ملک فیروز خان نون نے ایک بار کہا کہ بنگالی محض ’آدھے مسلمان‘ ہیں اور ان پر الزام لگایا کہ وہ اپنی مرغیاں ’حلال ‘ کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔ اس بے عزتی کا محترم مولانا بھاشانی نے ان الفاظ میں جواب دیا:’کیا اب یہ ثابت کرنے کے لیے کہ ہم مسلمان ہیں، ہمیں اپنی لنگیاں اٹھا کر دکھانا ہوں گی؟‘۔‘‘6
کہیں مسلمانانِ بنگلہ دیش کو ’غیر مختون‘ کہہ کر ان پر طعن کی جاتی اور کہیں انہیں ’ختنے والے ہندو‘ کہہ کر مذاق اور تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا۔
اس پر مستزاد، بالکل ابتدا سے ہی مغربی پاکستان کے اصحابِ اقتدار نے ہر ممکن کوشش کی کہ بنگالیوں کو پاکستان میں کسی بھی سیاسی قوّت کی حامل بڑی پوزیشن حاصل کرنے سے روکا جائے۔لیاقت علی خان کی حکومت نے فضل الحق، ایچ ایس سہروردی، مولانا بھاشانی اور ابوالہاشم جیسے بنگالی سیاستدانوں کو پاکستانی سیاست کے اہم دفاتر سے دور رکھنے کی کوشش میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی7۔
۱۹۷۱ء میں بھٹو اور فوجی جرنیلوں نے بھی یہی تاریخ دہرائی۔مجیب نے ۱۹۷۰ء کے الیکشن جیت لیے اور اکثریتی ووٹوں کی بنیاد پر پاکستان کا وزیرِ اعظم منتخب ہوا۔مگر مغربی پاکستان کی اشرافیہ کے لیے ایک بنگالی بطور وزیرِ اعظم کا تصور ہی ناممکن اور ناقابلِ قبول تھا۔لہٰذا انہوں نے مشرقی پاکستان کو فوجی طاقت اور زور سے دبانے کا فیصلہ کر لیا۔ یوں ۲۴ سال تک مغربی پاکستان کے مقتدر طبقے نے بنگالیوں کو کمتر جان کر انہیں تحقیر و تذلیل کا نشانہ بنایا، ان کے دین و ایمان پر سوال اٹھائے، ان کا استحصال کیا، برآمدات سے ہونے والی آمدن اور بیرونی امداد میں سے انہیں ان کے جائزحصّے سے محروم کیا۔
جب ایک شخص ان اقتباسات اور یہ جس حقیقت کے عکاس ہیں ،ان پر نظر ڈالتا ہے تو نہ چاہتے ہوئے بھی لا محالہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اس قسم کے زہریلے رویّوں کے بعدپاکستان کو ٹوٹنے سے بچانا تقریباً ناممکن تھا۔ کیونکہ کوئی بھی خوددار قوم، بلکہ کوئی خوددار مسلمان بھی ایسی ذلّت پر راضی نہیں ہو سکتا۔
بنگالی قومیت پرستی
مغربی پاکستانی قیادت کے ہاتھوں ہونے والی تذلیل و تحقیر اور تفریق پر مبنی رویّہ دیکھتے ہوئے، بنگالیوں نے اپنی بنگالی مسلم شناخت کے تصور کو مضبوط کرنے پر توجہ دی۔مگر اپنے جوش میں انہوں نے بڑی بڑی غلطیاں کیں جنہوں نے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا جو آج تک ہمارا پیچھا نہیں چھوڑ رہیں۔
اپنے پاس موجود انتہائی زرخیز اسلامی ورثے پر نظر ڈالنے کے بجائے، مڈل کلاس کے سیکولر دانشوروں نے کلکتہ کی جانب دیکھنا شروع کر دیا۔وہ یہ بھول گئے کہ بنگال کو ایک متحد سیاسی یونٹ کے طور پر کھڑا کرنےکا سہرا ہندوستان کے مسلم دور کے سر ہے۔ بنگال کی مقامی زبان جو ایک طویل عرصے سے برہمنوں کی حاکمیت میں بے توجہی اور غفلت کا شکار تھی، اس کی نشو نما اور تہذیب و ترقی میں مسلمان سلاطین نے کردار ادا کیا۔
۵۰ء اور ۶۰ء کی دہائیوں میں ، مشرقی پاکستان کے مڈل کلاس دانشوروں نے انیسویں صدی کا ہندو کلچر(جو کہ نام نہاد بنگالی نشأۃ ثانیہ کا ثمر تھا)، نئے کاغذ میں لپیٹ کر ’خالص سیکولر بنگالی تہذیب‘کے نام پر پیش کر دیا۔ بنگالی قومیت پرستی کا یہ نو ایجاد شدہ تصور جنگل کی آگ کی طرح پھیلا۔ یہ بنگالیوں کی نفسیات سے میل کھاتا تھا۔ایک ایسے وقت میں جبکہ مغربی پاکستان میں ان کے بھائی ان کا مذاق اڑا رہے تھے، انہیں تضحیک و تذلیل کا نشانہ بناتے تھے، ان کے ساتھ تفریق پر مبنی رویہ رکھتے تھے اور انہیں ان کے جائز حقوق سے محروم کررہے تھے……اس تصور و نظریے نے انہیں اپنی سیاسی شناخت اور اپنے ارادوں اور تمناؤں کے اظہار کا موقع دیا۔
آج بنگالی قومیت کا یہ تصور باؤلے پن کی حد تک سیکولر، اسلام مخالف اور انتہا ئی متعصبانہ رویوں پر مشتمل ہے۔آج یہ نظریہ کیا روپ دھار چکا ہے،۲۰۱۳ءمیں شروع ہونے والی شاہ باغ کی ملحدانہ تحریک اس کی بہترین عکاس ہے۔ اور صرف تحریکِ شاہ باغ ہی نہیں، بلکہ بنگلہ دیش میں پیدا ہونے والے کئی بڑے مسائل اور فرقوں کی بنیاد میں یہی زہریلا تصور کارفرما ہے۔
تاہم۵۰ء اور ۶۰ء کی دہائیوں میں اس نظریے کا جارحانہ حد تک سیکولر اور اسلام مخالف رخ عام آدمی پر واضح نہیں تھا۔اگرچہ اس تصور کو بنانے سنوارنے اور پیش کرنے والے کئی قائدین کے نظریات اسی فکر کے حامل تھے۔ایک عام مشرقی پاکستانی شخص کے لیے، بنگالی قومیت کا تصور اس وقت محض اپنی شناخت اور اپنی زمین پر اپنے فخر کا اظہار تھا۔ بنگالی مسلمانوں نے کبھی اسلام کے خلاف جنگ کی اور نہ ہی کسی ’اسلامی جمہوریہ‘ کے تصور کے خلاف۔ گلی محلّوں میں بسنے والے عام بنگالی نہ سیکولرتھے اور نہ اسلام مخالف۔ ہاں مگر مستقل تفریق اور تذلیل و تضحیک پر مبنی رویّوں کا سامنا کرتے کرتے ان کے جذبات مجروح تھے، اور بنگالی قومیت کا یہ تصور انہیں ایک روشندان کی مانند تھا جس سے تازہ ہوا کے جھونکے آتےاور گھٹتے ہوئے دم کو بحال کرتے۔ سادہ الفاظ میں کہیں تو یہ کہا جائے گا مسلمانانِ بنگال کی جائز اور حق بجانب رنجشوں اور شکایتوں اور شناخت کے بحران کے مسئلے کو سیکولر دانشوروں نے نہایت مہارت سے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔
پاکستان ایک مشترکہ دین کی بنیاد پر بنایا گیا تھا۔ اس کے دائیں اور بائیں بازو کے درمیان تقریباً۲ ہزار کلومیٹر کا زمینی فاصلہ تھا۔جس لمحے اس ملک کے دونوں بازوؤں میں بسنے والے لوگوں کے لیے آبادی کا رنگ و نسل اور ذات پات دین سے بڑھ کر اہم ہو گیا، اسی لمحے تصورِ پاکستان کی موت واقع ہو گئی تھی۔ بھارت نے اپنے اندر بسنے والے بنگالیوں اور پنجابیوں، تامل اور گجراتیوں، کَنَڈا اور ماڑواریوں اور دیگر تمام قوموں کے مابین موجود تہذیبی فرق اور فاصلے کو پاٹ لیا مگر پاکستان ایسا نہ کر سکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغربی پاکستان کی اشرافیہ نے کبھی اس فاصلے کو دور کرنے کی کوشش کی، نہ انہیں ایسی کوئی ضرورت یا خواہش محسوس ہی ہوئی۔المیہ یہ ہے کہ ہندوُ بھارت اپنے مشرکانہ دین اور ذات پات پر کھڑے اپنے معاشرتی نظام کے باوجود قوم میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے میں کامیاب ہو گیا جبکہ پاکستان، جو اسلام کے نام پر بنایا گیا،ایسا نہ کر سکا۔
مجیب الرحمٰن سے پہلے علیحدگی پسند رجحانات
پاکستان و بنگلہ دیش دونوں میں یہ عمومی خیال پایا جاتا ہے کہ مشرقی بنگال کو خود مختار و آزاد بنگلہ دیش کے روپ میں دیکھنے اور یہ تصور پیش کرنے والا پہلا شخص مجیب الرحمٰن تھا۔ حالانکہ یہ خیال انتہائی غلط ہے۔ مجیب سے پہلے بھی بہت سے نمایاں سیاستدان یہ رائے پیش کر چکے تھے۔ اور اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہےمشرقی پاکستان میں بہت سے بنگالی مجیب کے ایک قومی لیڈر بننے سے بہت پہلے علیحدگی حاصل کرنے کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو گئے تھے۔
مجیب کے ۱۹۶۶ء میں چھ نکاتی پروگرام اورمشرقی پاکستان کے لیے مزید خود مختاری کے مطالبے سے ایک لمبا عرصہ پہلے، ۱۹۴۹ء میں عوامی مسلم لیگ کے لیڈر عطاء الرحمن خان نے ڈھاکہ میں پاکستان کے دستور کا مسودہ تیار کرنے کے لیے منعقد کی گئی گرینڈ نیشنل کنونشن میں یہی مطالبہ کیا تھا۔کنونشن میں اپنی تقریر کے دوران انہوں نے سامعین کے سامنے نیدرلینڈکی مثال دہرائی کہ کیسے انیسویں صدی کے نصفِ اوّل میں بیلجیم کو خودمختاری دینے سے نیدرلینڈ کے انکار کا نتیجہ بیلجیم کی علیحدہ و آزاد مملکت کی صورت میں نکلا۔ وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کے اس مفروضے……کہ بنگالی ہندو تہذیب کی نمائندگی کرتے ہیں اور مشرقی بنگال مغربی پاکستان سے علیحدہ ہونا چاہتا ہے……کے جواب میں عطاءالرحمن خان نے کہا:
’’آپ بنگالیوں کو نہیں جانتے۔ یہ کسی کے رعب داب میں آنا پسند نہیں کرتے۔ بنگال نے کبھی بھی پوری طرح نہ پٹالی پترا(پٹنہ) کی چودھراہٹ قبول کی اور نہ دہلی کی۔ اس نے اپنی آزاد و خود مختار حیثیت صدیوں تک برقرار رکھی۔آج بھی اگر آپ ہمیں علیحدہ ہونے پر مجبور کریں گے، تو ہم علیحدہ ہو جائیں گے۔ بنگال کو کسی کی غلامی پسندمنظور نہیں۔‘‘8
۳ اپریل ۱۹۵۴ء کو جکتا فرنٹ (متحدہ فرنٹ)نے مشرقی بنگال میں حکومت قائم کی، جس کے وزیرِ اعلیٰ فضل الحق تھے۔ مگر کراچی میں موجود مرکزی حکومت نے اس شکست کو خوش اسلوبی سے قبول نہیں کیا۔کہا جاتا ہے کہ ۲۳ مئی ، ۱۹۵۴ء کو نشر ہونے والے ، نیویارک ٹائمز کو دیے گئے انٹرویو میں فضل الحق نے انٹرویو لینے والے صحافی جان ڈی کالاہان سے کہا کہ مشرقی بنگال ’ایک آزاد ریاست بننا چاہتا ہے‘۔ان پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے کالاہان سے کہا کہ :
’’آزادی (کے لیے جدوجہد) وہ پہلا کام ہے جو میری وزارت کرے گی۔‘‘
۳۰ مئی،۱۹۵۴ء کو فضل الحق کی جانب سے امیریکن ڈیلی کی گزشتہ روز کی نشریات کی سخت و پُر زور تردید کے باوجود، پاکستان کے گورنر جنرل غلام محمد نے فضل الحق کی وزارت ختم کر دی اور مشرقی بنگال کو گورنر راج کے تحت لے آئے9۔
بائیں بازو کے چند سرگرم ارکان کے ساتھ مولانا بھاشانی نے مشرقی بنگال کو پاکستان سے علیحدہ کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ ان میں سے بعض پاکستان کے مشرقی بازو کو بھارت کے ساتھ ملحق کرنا چاہتے تھے، جبکہ دیگر کی خواہش مشرقی بنگال کو ایک خود مختار اور آزاد ریاست بنانا تھی، جو پاکستان و بھارت ہر دو کے تسلط سے آزاد ہو۔
۱۷ جون، ۱۹۵۵ء کو پلٹن میدان میں ایک عوامی میٹنگ میں مولانا عبدالحمید خان بھاشانی نے پہلی دفعہ علیحدگی کی یہ دھمکی دی۔بھاشانی ایک مقبول لیڈر تھے جنہوں نے آسام میں مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے پاکستان بنانے کی طویل اور صبر آزما جدو جہد میں بہت مشکلات اور مصائب جھیلے تھے۔۱۹۵۷ء میں کاگماری، ٹانگیل میں منعقد ہونے والی مشہورکل پاکستان ثقافتی کانفرنس میں مولانا بھاشانی نے ایک بار پھر مغربی پاکستان کی قیادت کو تنبیہ کی کہ اگر مشرقی بنگال کا استحصال جاری رہا تو ممکن ہے کہ مشرقی پاکستان کی عوام ایک روز پاکستان کو الوداع کہنے پر مجبور ہو جائے۔انہوں نے ’السلام علیکم مغربی پاکستان! ‘ کہہ کر گویا رسماً ا لوداع کہہ بھی دیا۔وہ پہلے مشرقی بنگالی تھے جنہوں نے اپنے مغربی بازو سے علیحدہ ہونے کا مطالبہ کیا۔ انہیں غالباً اندازہ ہو چکا تھا کہ مشرقی بنگال میں پاکستان کا تصور مردہ ہو گیا ہے۔
(جاری ہے……)
(تحریر کا دوسرا حصہ ،ان شاء اللہ جنوری ۲۰۲۳ء کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیے)
٭٭٭٭٭
1 ’State Against the Nation: The Decline of the Muslim League in Pre-Independence Bangladesh‘ از احمد کمال؛’Purbo Banglar Bhasha Andolon o Tatkalin Rajniti‘) مشرقی بنگال میں تحریک زبان اور عصری سیاست) از بدرالدین عمر
2 ’General Economic Conditions under the Raj‘ از سگاتا بوس
3 The Emergence of Bangladesh: Vol 2, Rise of Bengali Nationalism از بدر الدین عمر
4 شہاب نامہ از قدرت اللہ شہاب
5 “The Role of Awami League in the Political Development of Pakistan” از ایم راشد الزماں
6 ’The Rape of Bangladesh‘ از انتھونی ماسکرناز
7 “The Role of Awami League in the Political Development of Pakistan” از ایم راشد الزماں
8 ’State Against the Nation: The Decline of the Muslim League in Pre-Independence Bangladesh‘ از احمد کمال
9 The Emergence of Bangladesh: Vol 2, Rise of Bengali Nationalism از بدر الدین عمر